توضيح سؤال :
اہل سنت حضرت علی (ع) سے اس روایت کو نقل کرتے ہیں:
حكيم ابو محمد ہذلی نے نقل کیا ہے کہ علی (ع) نے فرمایا: ایک دن رسول خدا (ص) نے ایک جنازے میں شرکت کی اور وہاں فرمایا: کیا تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے کہ جو شہر مدینہ میں موجود بتوں اور مجسموں کو نابود کرے اور بلند اٹھی ہوئی قبور کو مسمار کر کے زمین کے ساتھ ہموار کر دے ؟ علی (ع) نے جواب دیا: یا رسول اللہ میں حاضر ہوں، فرمایا: پس جلدی کرو ! علی (ع) اس کام کو انجام دینے کے بعد رسول خدا (ص) کے پاس واپس آئے اور اپنے کام کے بارے میں تفصیل بتائی اور کہا: یا رسول اللہ میں نے ہر نظر آنے والے بت کو منہدم کیا ہے اور تمام مجسموں کو نابود کر دیا ہے، اس پر رسول خدا نے فرمایا: جو بھی ان بتوں، مجسموں اور قبور کی دوبارہ مرمت و تعمیر کرے گا تو اس نے خداوند کی جانب سے مجھ پر نازل ہونے والے احکام کا انکار کر کے کفر اختیار کیا ہے۔
مسند امام احمد بن حنبل: 1/87 (مسند علي بن ابي طالب)
مختصر جواب:
روايت اول :
سند میں اشكال ہے:
وكيع ابن جراح :
وہ روایت کو نقل کرنے میں بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا۔ وہ ایک بات کے معنی و مفہوم کو نقل کرتا اور الفاظ کو تبدیل کرتا تھا۔
وہ علمائے سلف کی توہین کرتا، شراب پیتا اور باطل فتوئے دیا کرتا تھا۔
سفيان ثوری:
وہ مدلس تھا،
حبيب ابن ابی ثابت :
یہ بھی مدلس تھا۔
تدلیس کے بارے میں اہل سنت کی روایات ہیں کہ روایات میں تدلیس کرنے والے راوی کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔
علمائے اہل سنت نے اس سے روایت نقل کرنے میں چشم پوشی کی ہے۔
ابو وائل :
وہ عثمانی مذہب تھا۔ وہ کہتا تھا کہ علی (ع) حادثہ (قتل عثمان) ہونے کا سبب بنا ہے۔ وہ کہتا تھا خلفائے اسلام کا یا دین نہیں ہے یا عقل ! وہ حجاج کی حمایت اور اسکا دفاع کرتا تھا۔ وہ ابن زیاد کے بیت المال کا نگران تھا۔ وہ شراب پیتا اور زرد رنگ کے کپڑے پہنتا تھا۔
روایت کی دلالت میں بھی اشکال ہے:
یہ روايت شاذ ہے، امیر المؤمنین علی (ع) کا یہ حکم کب صادر ہوا تھا ؟
یہ روایت کہتی ہے کہ قبروں کو اونٹ کی کوہان کی طرح نہ بناؤ یعنی اہل سنت کے طریقے کے بر خلاف بناتے ہیں۔
نووی نے اس روایت بارے میں شیعہ کی رائے کی تائید کی ہے۔
قسطلانی نے بھی اس روایت بارے میں شیعہ کی رائے کی تائید کی ہے۔
روايت دوم:
تفصیلی جواب:
سب سے پہلے یہ کہ یہ روایت صرف اہل سنت کی کتب میں ذکر ہوئی ہے، لہذا شیعہ کے لیے یہ روایت بالکل حجت نہیں ہے، لیکن اہل سنت کو جواب دینے کی غرض سے اس روایت کے بارے میں مطالب کو ذکر کیا جا رہا ہے:
اصل روايت :
اہل سنت نے اس بارے میں معنی کے لحاظ سے دو متشابہ روایت کو امیر المؤمنین علی (ع) سے نقل کیا ہے:
روايت اول :
حدّثنا يحيي بن يحيي وأبو بكر بن أبي شيبة وزهير بن حرب ، قال يحيي: أخبرنا وقال الآخران: حدّثنا وكيع ، عن سفيان ، عن حبيب ابن أبي ثابت ، عن أبي وائل ، عن أبي الهيّاج الأسدي ، قال: قال لي علي (ع) : ألا أبعثك علي ما بعثني عليه رسول الله (ص) لا تدَع تمثالا إلاّ طمسته ، ولا قبراً مشرفاً إلاّ سوّيته،
ابو ہياج اسدی کہتا ہے: امیر المؤمنین نے مجھ سے فرمایا: کیا تم کو اسی کام کے لیے نہ بھیجوں جسکے لیے رسول خدا نے مجھے بھیجا تھا ؟ کسی بھی تصویر کو دیکھو تو اسکو نابود کر دو اور جس قبر کو اونچا دیکھو اسے زمین کے ساتھ برابر کر دو۔
صحيح مسلم ج2/ص666 رقم 969 باب الامر بتسوية القبر
سنن أبي داود ج3/ص215 رقم 3218 باب في تسوية القبر
سنن النسائي الكبري ج1/ص653 رقم 2158باب تسوية القبور إذا رفعت
سنن النسائي (المجتبي) ج4/ص88 رقم 2031 باب تسوية القبور إذا رفعت
سنن الترمذي ج3/ص366 رقم 1049باب ما جاء في تسوية القبور
مسند امام احمد بن حنبل: ج 1 ص 87 (مسند علي بن ابي طالب)
اشكال سندی:
قبول ہے کہ یہ روایت اکثر کتب صحاح ستہ میں اور مسند احمد ابن حنبل میں ذکر ہوئی ہے، لیکن اس روایت میں بعض ایسے راوی ہیں کہ جنہیں اہل سنت کے علمائے علم رجال نے ضعیف قرار دیا ہے:
وكيع ابن جراح رواسی:
وہ روایت کو نقل کرنے میں بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا اور اس نے 500 احادیث میں غلطی کی تھی:
عبد الله ابن احمد نے اپنے والد سے نقل کیا ہے:
ابن مهدي أكثر تصحيفا من وكيع ووكيع أكثر خطأ منه وقال في موضع آخر أخطأ وكيع في خمسمائة حديث،
ابن مہدی لکھنے میں وکیع سے زیادہ غلطیاں کرتا تھا اور وکیع روایت میں اس سے زیادہ خطا کرتا تھا اور ایک دوسری جگہ کہا ہے کہ وکیع نے 500 روایات نقل کرنے میں غلطیاں کیں تھیں۔
تهذيب التهذيب ج11/ص110
و تهذيب الكمال ج30/ص471
و تاريخ بغداد ج13/ص507
و العلل ومعرفة الرجال ج1/ص394
و سير أعلام النبلاء ج9/ص155
ابن مدينی سے بھی نقل ہوا ہے کہ:
قال ابن المديني كان وكيع يلحن ولو حدثت بألفاظه لكانت عجبا كان يقول حدثنا الشعبي عن عائشة،
ابن مدينی سے روايت ہوئی ہے کہ وکیع کلام کرنے میں خطا کرتا تھا اور اگر وہ روایت کے اصل الفاظ کو نقل کرتا تو ٹھیک تھا، وہ کہتا تھا کہ شعبی نے عائشہ سے میرے لیے روایت نقل کی ہے !!! ( حالانکہ ایسی چیزی بالکل ممکن نہیں ہے)۔
ميزان الاعتدال في نقد الرجال ج7/ص127
تهذيب التهذيب ج11/ص114
تاريخ مدينة دمشق ج63/ص99
تاريخ الإسلام ج13/ص444
سير أعلام النبلاء ج9/ص154
وہ روایت کے معنی و مفہوم کو نقل کرتا تھا اور الفاظ کو تبدیل کرتا تھا:
ابی نصر مروزی سے بھی نقل ہوا ہے کہ:
كان يحدث بآخره من حفظه فيغير ألفاظ الحديث كأنه كان يحدث بالمعني ولم يكن من أهل اللسان،
وہ روایات کے نقل کرنے کے اواخر میں اپنے حافظے سے روایت کو نقل کرتا تھا، پس وہ حدیث کے الفاظ کو تبدیل کرتا تھا، جیسے روایت کے معنی کو نقل کرتا تھا نہ الفاظ کو اور اہل زبان میں سے بھی نہیں تھا۔
تهذيب التهذيب ج11/ص114
وہ علمائے سلف کی توہین کرتا، شراب پیتا اور باطل فتوئے دیا کرتا تھا:
احمد ابن حنبل سے نقل ہوا ہے کہ اس نے اسکے بارے میں کہا تھا:
وسئل أحمد بن حنبل إذا اختلف وكيع وعبد الرحمن بن مهدي بقول من نأخذ ؟ فقال عبد الرحمن يوافق أكثر و خاصة في سفيان و عبد الرحمن يسلم منه السلف ويجتنب شرب المسكر و كان لا يري أن تزرع أرض الفرات.
قال ابن المديني في التهذيب وكيع كان فيه تشيع قليل قال حنبل سمعت ابن معين يقول : رأيت عند مروان ابن معاوية لوحا فيه أسماء شيوخ : فلان رافضي ، وفلان كذا ، ووكيع رافضي.
فقلت له وكيع خير منك قال مني قلت نعم فما قال لي شيئا ولو قال شيئا لوثب عليه أصحاب الحديث۔
احمد ابن حنبل سے وکیع اور عبد الرحمن ابن مہدی کے بارے میں سوال ہوا کہ اگر ان دونوں کا آپس میں کسی علمی بات میں اختلاف ہو جائے تو ہمیں کس کی بات کو قبول کرنا چاہیے ؟ اس نے جواب دیا: عبد الرحمن زیادہ درست بات کرتا ہے، مخصوصا سفیان کی روایات کے بارے میں، اور عبد الرحمن سلف کے بارے میں برا بھلا نہیں کہتا اور نشہ آور چیزوں کے پینے سے پرہیز کرتا ہے اور زمین فرات پر کھیتی باڑی کو جائز قرار نہیں دیتا، (لیکن وکیع ایسا نہیں ہے)۔
ابن مدینی نے کتاب تہذیب میں کہا ہے: اس میں تھوڑی بہت شیعہ گری پائی جاتی تھی، (یعنی سلف کو برا بھلا کہتا تھا) ابن حنبل کہتا ہے میں نے ابن معین سے سنا کہ اس نے کہا تھا: میں نے مروان ابن معاویہ کے پاس کتاب دیکھی کہ اس میں لکھا ہوا تھا کہ فلاں (وکیع) رافضی (شیعہ) ہے، (یعنی سلف کو برا بھلا کہتا تھا) پس میں نے اس سے کہا: وکیع تم سے بہتر ہے، اس نے تعجب سے کہا: مجھ سے بہتر ہے ! میں نے کہا: ہاں،
اس نے مجھے جواب نہیں دیا: اور کچھ کہتا تو اصحاب حدیث اس پر حملہ کر کے اسے مارتے۔
سير أعلام النبلاء، ج 9، ص 154.
ميزان الاعتدال في نقد الرجال ج7/ص127
اسکی شراب خوری کے مزید موارد:
خطيب بغدادی نے اس سے نقل کیا ہے کہ وہ شراب پیتا تھا:
وكان يفطر علي نحو عشرة أرطال من الطعام ثم يقدم له قربة فيها نحو من عشرة أرطال نبيذ فيشرب منها ما طاب له علي طعامه ثم يجعلها بين يديه ويقوم فيصلي ورده من الليل وكلما صلي ركعتين أو أكثر من شفع أو وتر شرب منها حتي ينفذها ثم ينام
قرأت علي التنوخي عن أبي الحسن احمد بن يوسف بن يعقوب بن إسحاق بن البهلول الأنباري قال حدثني أبي قال حدثني جدي إسحاق بن البهلول قال قدم علينا وكيع بن الجراح فنزل في المسجد علي الفرات فكنت أصير إليه لاستماع الحديث منه فطلب مني نبيذا فجئته بمخيسة ليلا فأقبلت أقرأ عليه الحديث وهو يشرب فلما نفذ ما كنت جئته به أطفأ السراج فقلت له ما هذا فقال لو زدتنا لزدناك .
أخبرنا بن الفضل أخبرنا دعلج أخبرنا احمد بن علي الأبار حدثنا محمد بن يحيي قال قال نعيم بن حماد تعشينا عند وكيع أو قال تغدينا فقال أي شيء تريدون أجيئكم به نبيذ الشيوخ أو نبيذ الفتيان قال قلت تتكلم بهذا قال هو عندي أحل من ماء الفرات.
وہ دس رطل (تقریبا 15 کلو) کھانا کھاتا تھا اور پھر اس کے لیے ایک مشک میں 15 لیٹر شراب لائی جاتی، کھانے کے بعد جتنا اسکا دل ہوتا تھا وہ اس سے شراب پیتا تھا اور پھر اس مشک کو اپنے سامنے رکھ کر نماز پڑھتا تھا !!! جب بھی نماز ختم ہوتی تو دوبارہ شراب پیتا تھا، یہاں تک کہ اس مشک کو خالی کر دیتا تھا !!! پھر وہ سو جاتا تھا۔۔۔۔۔
وکیع ہمارے پاس آیا اور اس نے فرات کے کنارے ایک مسجد میں جگہ لے لی، میں روایات کو سننے کے لیے اسکے پاس جاتا تھا، پس اس نے مجھ سے شراب مانگی، میں اسکے لیے رات کو شراب لے کر گیا اور میں نے اسکے لیے روایت پڑھی اور وہ شراب پیتا تھا، جب وہ شراب ختم کر لیتا تو بلب بند کر کے کہتا کافی ہے !!! میں نے اس سے کہا: کیوں میرے لیے روایت پڑھنا بس کر دیا ہے ؟ وہ کہتا: اگر زیادہ شراب لاتے تو میں بھی تمہارے لیے زیادہ روایات پڑھتا !!!
۔۔۔ نعیم سے روایت ہوئی ہےکہ: میں نے دوپہر یا شام کا کھانا وکیع کے پاس کھایا، اس نے کہا: تمہارے لیے کیا لے کر آؤں، بوڑھوں والی شراب (ہلکی کم نشے والی) یا جوانوں والی شراب ( گاڑھی زیادہ نشے والی) !!! میں نے اس سے کہا: تم شراب کے بارے میں بات کر رہے ہو ؟ اس نے کہا: میری نظر میں شراب، آب فرات سے زیادہ مزے دار ہے !!!
تاريخ بغداد ج13/ص502
یہ شخص اس حالت کے باوجود روایات کی بحث میں ایک عالم شمار ہوتا ہے اور اہل سنت کے نزدیک فضائل صحابہ اور احکام کے بارے میں نے بہت سی روایات نقل کیں ہیں، اسی وجہ سے اس پر کوئی اعتراض وغیرہ نہیں کرتے اور اسے بزرگ عالم شمار کرتے ہیں۔
سفيان ثوری:
وہ تدليس کرتا تھا:
ذہبی نے اسکے بارے میں کہا ہے:
كان يدلس عن الضعفاء ،
وہ ضعیف راویوں سے تدلیس کرتا تھا، ( انکے نام کو سند سے حذف کر دیتا تھا اور سند کو اس طرح سے بیان کرتا تھا تا کہ دوسرے اسے قبول کر لیں)۔
ميزان الاعتدال ج3ص 245 سفيان بن سعيد
ابن مبارک سے نقل ہوا ہے کہ:
حدث سفيان بحديث ، فجئتُهُ وهو يدلسه ، فلما رآني إستحيي ، وقال: نرويه عنك،
میں نے سفیان کو ایک روایت بتائی، پس میں اسکے پاس آیا حالانکہ اس نے روایت کی سند میں تدلیس کی تھی ( وہ اسی روایت کو دوسروں کے لیے اپنی طرف سے نقل کرتا تھا لیکن میرا نام ذکر نہیں کرتا تھا، تا کہ ایسا ظاہر کرے کہ اس نے خود اس روایت کو اصل راوی سے سنا ہے)، جب اس نے مجھے دیکھا تو شرمندہ ہوا اور کہا: آج کے بعد روایت کو تیرے نام سے ذکر کیا کروں گا۔
تهذيب التهذيب ج4/ص101 شماره 199 سفيان بن سعيد بن مسروق الثوري .
يحيی ابن معين سے نقل ہوا ہے کہ:
جَهد الثوري أن يدلسَ عليَّ رجلا ضعيفاً فما أمكنه،
ثوری نے کوشش کی تدلیس کرتے ہوئے ایک ضیعف شخص سے میرے لیے روایت نقل کرے، لیکن وہ ایسا نہ کر سکا (کیونکہ مجھے سمجھ آ گئی تھی)۔
تهذيب التهذيب ج11/ص192 رقم 359 يحيي بن سعيد بن فروخ القطان
اور يحيی سے یہ بھی نقل ہوا ہے کہ:
لم يكن أحد أعلم بحديث أبي إسحاق من الثوري وكان يدلس،
کسی کو ثوری سے زیادہ ابو اسحاق کی احادیث کے بارے میں علم نہیں تھا، لیکن وہ تدلیس سے کام لیتا تھا۔
الجرح والتعديل ج4/ص225 رقم 972 سفيان بن سعيد بن مسروق الثوري
حبيب ابن ابی ثابت:
وہ مدلس تھا:
ابن حبان نے اسکے بارے میں کہا ہے:
كان مدلساً ،
وہ مدلس تھا، (یعنی روایات میں تدلیس کیا کرتا تھا)،
تهذيب التهذيب 2: 156 رقم 323حبيب بن أبي ثابت ، تقريب التهذيب ص150 رقم 1084 حبيب بن أبي ثابت
ابن خزيمہ نے بھی اسی کے بارے میں یہی کہا ہے:
تهذيب التهذيب ج2 ص156رقم 323حبيب بن أبي ثابت
اس نے ایسی روایات نقل کیں ہیں کہ انکی پیروی نہیں کرنی چاہیے:
عقيلی نے اسکے بارے میں کہا ہے:
وله عن عطاء أحاديث لا يتابع عليها،
اس نے عطاء سے ایسی روایات نقل کیں ہیں کہ جنکو قبول نہیں کیا جا سکتا۔
تهذيب التهذيب ج2 ص156رقم 323حبيب بن أبي ثابت
قطان نے اسکے بارے میں کہا ہے:
له غير حديث عن عطاء لا يتابع عليه وليست بمحفوظة۔
اس نے عطاء سے چند ایسی روایات نقل کیں ہیں کہ جنکو قبول نہیں کیا جا سکتا اور وہ ہماری کتب میں بھی موجود نہیں ہیں۔
تهذيب التهذيب ج2 ص156رقم 323حبيب بن أبي ثابت
بزرگ علماء نے اسکی روایات سے چشم پوشی کی ہے:
عقيلی نے اسکے بارے میں کہا ہے:
غَمَزهُ ابن عون،
ابن عون نے اس سے چشم پوشی کی ہے، (یعنی اسکی روایات کو نقل نہیں کیا)۔
تهذيب التهذيب ج2 ص156رقم 323حبيب بن أبي ثابت
علمائے اہل سنت کی تدلیس کے بارے میں رائے:
کیونکہ اس سند میں دو راوی مدلس تھے، اس لیے بہتر ہے کہ علمائے اہل سنت کی تدلیس کے بارے میں رائے کو بھی ذکر کر دیا جائے:
عن الشافعي، قال: «قال شعبة بن الحجاج: التدليس أخو الكذب... وقال غُنْدَر: سمعت شعبة يقول: التدليس في الحديث أشد من الزنا، ولأن أسقط من السماء أحب إلي من أن أدلس... المعافي يقول: سمعت شعبة يقول: لأن أزني أحب إليّ من أن أدلّس» و...
امام شافعی سے روایت ہوئی ہے کہ شعبہ ابن حجاج کہتا تھا: تدلیس، جھوٹ کا بھائی ہے،
اور غندر نے بھی کہا ہے: روایت میں تدلیس کرنا، زنا سے بدتر ہے،
اور میرے لیے آسمان سے زمین پر گرنا، تدلیس کرنے سے زیادہ آسان ہے،
معافی کہتا ہے: میں نے شعبہ سے سنا کہ وہ کہتا تھا: میرے لیے زنا کرنا، تدلیس کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔۔۔۔۔
الكفاية في علم الرواية خطيب بغدادي : ص 395، دار الكتاب العربي بيروت.
جب تدلیس کی یہ حالت ہے تو اسکے باوجود ایسی روایت کو اپنی کتب صحاح میں ذکر کرتے ہیں اور اسی وجہ سے لوگوں کو قبروں کو مسمار کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور شیعیان کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں !
ابو وائل تنہا اس روايت کا راوی:
وہ شفيق ابن سلمۃ ہے کہ جو امیر المؤمنین علی (ع) کے دشمنوں میں سے تھا اور ناصبی شمار ہوتا تھا، اہل سنت اسکی امیر المؤمنین علی (ع) سے نقل کردہ روایت کو ایسی حالت میں قبول کرتے ہیں کہ رسول خدا نے خود فرمایا ہے:
يا علي لايحبك إلاّ مؤمن ، ولا يبغضك إلاّ منافق،
اے علی جو بھی تم سے محبت کرے گا، وہ مؤمن ہے اور جو بھی تم سے بغض کرے گا، وہ منافق ہے۔
مجمع الزوائد 9: 133 .باب منه جامع فيمن يحبه ومن يبغضه
وہ عثمانی مذہب تھا:
ابن ابی الحديد نے اسکے بارے میں کہا ہے:
كان عثمانياً يقع في علي (عليه السلام)،
وہ عثمانی تھا (جو علی ع کو عثمان کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور ان حضرت پر سبّ و لعن کرتے ہیں) اور علی (ع) پر سبّ و شتم کرتا تھا۔
شرح نهج البلاغة ج 4ص 99 فصل في ذكر المنحرفين عن علي
وہ کہتا تھا علی (ع) حادثے (قتل عثمان) کا سبب بنا ہے !!!
عن المدائني عن شعبة، عن حصين قلت لأبي وائل: أعلي أفضل أم عثمان؟ قال: علي إلي أن أحدث، فأمّا الآن فعثمان.
شعبہ سے روایت ہوئی ہے کہ حصین نے کہا ہے: میں نے ابو وائل سے کہا علی (ع) برتر ہے یا عثمان ؟ اس نے کہا: حادثہ ہونے سے پہلے علی برتر تھا، لیکن اب عثمان برتر ہے۔
أنساب الأشراف ج 6 ص 102
خلفائے اسلام کا یا دین نہیں ہے یا عقل:
عن الأعمش، قال لي أبو وائل: يا سليمان، ما في أمرائنا هؤلاء واحدة من اثنتين، ما فيهم تقوي أهل لاسلام، ولا عقول أهل الجاهلية.
اعمش نے کہا ہے: ابو وائل نے مجھ سے کہا: اے سلیمان ! ہمارے حاکموں میں دو میں سے ایک چیز پائی جاتی ہے: یا اہل اسلام والا تقوا اور یا زمانہ جاہلیت والی عقل۔
سير أعلام النبلاء: 164/4، تاريخ الإسلام: 86/6، تهذيب الكمال: 553/12.
وہ حجاج کی حمایت اور دفاع کیا کرتا تھا !!!
قال ابن الزبرقان كنت عند أبي وائل فجعلت أسب الحجاج وأذكر مساويه ، فقال : لا تسبه وما يدريك لعله قال : اللهم اغفر لي فغفر له!!!
ابن برقان نے کہا ہے: میں ابو وائل کے پاس تھا تو میں نے حجاج کو گالی دی اور اسکے مظالم کا ذکر کیا، ابو وائل نے مجھ سے کہا: خبردار جو حجاج کو برا بھلا کہا، کیونکہ شاید اس (حجاج) نے کہا ہو: خدایا مجھے بخش دے، معاف کر دے اور خدا نے بھی اسے بخش دیا ہو !!!
حلية الأولياء ج 4 ص 102
وہ ابن زیاد کے بیت المال کا مسئول (مدیر) تھا:
وكان عامل ابن زياد لبيت المال.
وہ بیت المال میں ابن زیاد کا مسئول تھا۔
سير أعلام النبلاء: ج 4ص 166
وہ شراب خوار اور زرد لباس پہنتا تھا:
كان يشرب الجرّ - أي نبيذ الجر ويلبس المعصفر لا يري بذلك بأساً.
وہ شراب خوار اور زرد رنگ کا لباس پہنتا تھا اور اس کام کو جائز جانتا تھا !!
المعارف ص 255.
اس روایت کی سند کے علاوہ اسکی دلالت و معنی و مفہوم میں بھی اشکال ہے:
روایت کی دلالت میں اشکال:
الف: یہ روايت شاذ ہے:
اس طرح کے روایت کے معنی و مضمون کو صرف ابو الہياج ( حيان ابن حصين ) نے نقل کیا ہے اور سيوطی نے کتاب شرح نسائی میں کہا ہے:
ليس لأبي الهيّاج في الكتب إلاّ هذا الحديث الواحد .
ابو الہياج کی روایات کی کتب میں اس معنی و مفہوم کی فقط یہی ایک ہی حدیث ہے !!!
شرح سنن السنائي ج.. ص 286. حاشية السندي علي النسائي: 88/4.
ب: امیر المؤمنین علی (ع) نے یہ حکم کب صادر کیا تھا ؟
ابی الہیاح کے کلام کے ظاہر سے ایسے لگتا ہے قبروں کو زمین کے ساتھ برابر کرنے والا ماجرا امیر المؤمنین کی خلافت کے دور کا تھا، کہ اگر ایسا ہو تو اس روایت کی دو صورتیں ہوں گی:
1- یہ قبور کفار کی تھیں کہ امیر المؤمنین کی خلافت کے دور میں اور مملکت اسلامی کے وسیع ہونے کی وجہ سے مسلمان وہاں تک پہنچے تھے کہ اس صورت میں اس حدیث کا مسلمانوں کی قبور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
2- اگر فرض کریں کہ یہ قبور مسلمانوں کی ہیں تو اس صورت میں یہ گذشتہ خلفاء پر اعتراض شمار ہو گا کیونکہ اگر یہ کام جائز تھا تو انھوں نے ایسا کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا اور امیر المؤمنین کے زمانے تک کے مسلمان اپنی قبور پر گنبد و مینار وغیرہ بناتے تھے کہ یہ گذشتہ خلفاء پر اعتراض شمار ہو گا کہ جسے اہل سنت ہرگز قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
3- یہ روایت کہتی ہے کہ قبور کو اونٹ کی کوہان کی شکل میں نہ بناؤ، یعنی اہل سنت کی روش کے بر خلاف:
جیسے کتاب قاموس اللغۃ میں آیا ہے کہ عرب بلندی اور اونٹ کی کوہان کو شرف کہتے ہیں۔
القاموس 3: 162 . مادة شرف
لہذا شرف، ہر طرح کی بلندی اور کوہان جیسی چیزوں کے لیے بولا جاتا ہے، لیکن لفظ سويته ، کہ جو روایت میں آیا ہے تو اس سے مراد دوسرا معنی ہے کیونکہ اگر مقصود قبروں کو منہدم کرنا ہوتا تو روایت کے الفاظ ایسے ہونے تھے:
« قبرا مشرفا الا خربته »
لیکن روایت میں آیا ہے لفظ «سويته» يعنی میں نے ہموار کیا، مثال کے طور پر اگر کوئی کہے میں نے راستے کو ہموار کیا تو اسکا معنی راستے کو مسمار و منہدم کرنا نہیں ہے بلکہ راستے کے گڑھے وغیرہ کو بھر کر ہموار و صاف کرنا ہے۔
مختصر یہ کہ اس روایت میں تین احتمال موجود ہیں:
1ـ مقصود قبور پر بنی ہوئی چھت وغیرہ کو گرانا ہو۔
2ـ مقصود پکی تعمیر شدہ قبور کو گرا و مسمار کر کے زمین کے ساتھ برابر کرنا ہو۔
3ـ مقصود قبور کی اونٹ کی کوہان کی طرح اٹھی ہوئی جگہ کو توڑ کر زمین کے برابر کرنا ہو۔
پہلا احتمال سیرت صحابہ اور مسلمانوں کی سیرت کے برخلاف ہے کیونکہ انھوں نے نہ صرف یہ کہ قبور پر بنی چھت و عمارت کو گرایا نہیں بلکہ قبور پر عمارت و چھت وغیرہ کو تعمیر کیا جیسے قبر مبارک رسول خدا (ص)۔
دوسرا احتمال بھی قطعی طور پر باطل ہے کیونکہ شیعہ اور سنی کا اتفاق و اجماع ہے کہ یہ مستحب و سنت ہے قبر چار انگلیوں کے برابر زمین سے بلند ہونی چاہیے۔
پس صرف تیسرا احتمال ہی باقی بچتا ہے کہ جو اہل سنت کی مشہور رائے و اعتقاد کے بر خلاف ہے۔
اور بعض علمائے اہل سنت نے بھی اسی معنی پر تصریح کی ہے:
نووی شيعہ رائے کی تائید کرتے ہوئے کہتا ہے:
إن السنّة أن القبر لا يرفع عن الأرض رفعاً كثيراً ، ولا يُسّنم بل يرفع نحو شبر ويسطح .
مستحب یہ ہے کہ قبر زمین سے زیادہ بلند نہ ہو اور اونٹ کی کوہان کی طرح بھی نہ ہو بلکہ قبر صاف و ہموار ہو اور چار انگلیوں سے زیادہ زمین سے اونچی نہ ہو۔
المجموع للنووي ج 1 ص 229و 5ص295
شرح النووي علي صحيح مسلم ج7/ص36
تحفة الأحوذي ج4/ص130 باب ما جاء في تسوية القبر
اور مزید کہتا ہے:
ظاهر المذهب أن التسطيح أفضل.
جو کچھ مذہب سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ قبر کا مساوی و ہموار ہونا بہتر ہے۔
قسطلانی بھی نظر شيعہ کی تائید کرتا ہے:
السنّة في القبر تسطيحه وانه لايجوز ترك هذه السنّة لمجرّد أنها صارت شعاراً للروافض ، وانه لا منافاة بين التسطيح وحديث أبي هيّاج ... لأنّه لم يُرد تسويته بالأرض وانّما أراد تسطيحه جمعاً بين الأخبار،
قبور کے بارے میں مستحب یہ ہے کہ وہ ہموار ہوں اور اس مستحب کو روافض (شیعیان) کی علامت ہونے کی وجہ سے ترک کرنا جائز نہیں ہے !!! اور قبر کے ہموار ہونے اور ابی ہیاج کی روایت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔۔۔۔ کیونکہ ان حضرت کی مراد قبر کو زمین کے ساتھ ہموار کرنا نہیں ہے بلکہ قبر کو صاف و برابر کرنا مقصود ہے اور یہ مطلب روایات کو آپس میں جمع کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
إرشاد الساري ج2ص 468
روايت دوم :
حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ ( بن عمرو) حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ شُعْبَةَ عَنِ الْحَكَمِ عَنِ أَبِي مُحَمَّدٍ الْهُذَلِيِّ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ فَقَالَ أَيُّكُمْ يَنْطَلِقُ إِلَي الْمَدِينَةِ فَلَا يَدَعُ بِهَا وَثَنًا إِلَّا كَسَرَهُ وَلَا قَبْرًا إِلَّا سَوَّاهُ وَلَا صُورَةً إِلَّا لَطَّخَهَا فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَانْطَلَقَ فَهَابَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ فَرَجَعَ فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا أَنْطَلِقُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَانْطَلِقْ فَانْطَلَقَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ أَدَعْ بِهَا وَثَنًا إِلَّا كَسَرْتُهُ وَلَا قَبْرًا إِلَّا سَوَّيْتُهُ وَلَا صُورَةً إِلَّا لَطَّخْتُهَا ثم قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من عاد لصنعة شيء من هذا فقد كفر بما أنزل علي محمد صلي الله عليه وسلم،
رسول خدا (ص) ایک جنازے میں شریک تھے فرمایا: تم میں سے کون اس شہر میں جائے گا تا کہ وہاں موجود تمام بتوں کو توڑ دے اور تمام قبور کو ہموار کر دے اور تمام تصاویر پر پردہ ڈال دے، ایک شخص نے کہا میں ایسا کروں گا، وہ یہ کام کرنے کے لیے چل پڑا لیکن اس شہر کے مردوں سے ڈر گیا، پھر علی ابن ابی طالب نے کہا اے رسول خدا میں جاتا ہوں، وہ گئے اور جب واپس پلٹے تو کہا: اے رسول خدا میں نے کسی بت کو سالم نہیں چھوڑا سب کو توڑ دیا ہے اور تمام قبور کو ہموار کر دیا ہے اور وہاں موجود تمام تصاویر کو گندا (چھپا) کر دیا ہے۔
پھر رسول خدا نے فرمایا: جو بھی ان تمام چیزوں کو دوبارہ بنائے گا، تو اس نے مجھ محمد (ص) پر نازل ہونے والے تمام احکام وغیرہ کا کفر و انکار کیا ہے۔
مسند أحمد: ج1 ص 87 ش 622 ومسند الطيالسي: 16 ، الحديث : 96 ، 155، كنز العمال: 136/4.
روايت دوم کا جواب:
یہ روايت وہی روایت جسکو سایٹ میں اور سوال میں ذکر کیا گیا ہے، اور اسے ضعیف قرار دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ خود اہل سنت نے اس روایت کو ضیعف قرار دیا ہے:
ذیل میں یہی روایت کتاب مسند احمد با حاشیہ شعيب الأرنوط ذکر ہوئی ہے:
تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده ضعيف،
نظر شعیب الارنؤوط: اس روایت کی سند ضیعف ہے۔
مسند احمد ج 1 ص 87 ش 657
مشہور وہابی عالم البانی نے بھی اس روایت کو اپنی دو کتب میں، منکر اور ضعیف قرار دیا ہے:
ضعيف الترغيب و الترهيب ج 2 ص 148 شماره 1795
غاية المرام ج 1 ص 112 ش 144
سند کے علاوہ پہلی روایت کی مانند، اس روایت کی دلالت ، معنی اور مفہوم میں بھی اشکالات پائے جاتے ہیں۔
التماس دعا۔۔۔۔۔