2024 October 4
کیا«أنا مدينة العلم» والی روایت کی معتبر سند ہے ؟
مندرجات: ١٩٩٦ تاریخ اشاعت: ٢٨ June ٢٠٢١ - ١٦:٤٤ مشاہدات: 6126
سوال و جواب » امام علی (ع)
کیا«أنا مدينة العلم» والی روایت کی معتبر سند ہے ؟

کیا «أنا مدينة العلم» والی روایت معتبر سند کے ساتھ اهل سنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے؟

مطالب کی فهرست

ابوطاهر سلفي

خيثمة بن سليمان

ابوجعفر طبري

أبونعيم إصفهاني

احمد بن حنبل

ابن عساكر دمشقي

حاكم نيشابوري

 اهل سنت کے علماء کی طرف سے روایت کی تصحیح

«حسن» روایت  «صحيح» حجت کے اعتبار سے صحیح روایت کی طرح ہے

 اميرالمؤمنين (ع) کو «باب مدينة العلم»کا لقب

17 سند ہیں لیکن ضعیف ہے !!!

حديث «أنا مدينة العلم» کو صحيح ترمذي سے ہٹانا

أنا دار الحکمة کے بارے میں ترمذی کی بات میں تحريف 

نتيجه

جواب:

امیر المومنین عليه السلام کا اصحاب اور خلفاء سے زیادہ دین شناس ہونے کو بتانے والی روایات میں سے ، مشهور روایت یعنی «أنامدينة العلم وعلي بابها» کی روایت ہے  .

اس حدیث کا پیغام یہ ہے کہ پیغمبر صلي الله عليه وآله کی سنت کو حاصل کرنے کے لئے آپ کے بعد امیر المومنین عليه السلام کی طرف رجوع کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ،مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہدایت کے صحیح اور اصلی سرچشمہ امیر المومنین عليه السلام کے گھر کی دہلیز آکر ان سے ہدایت اور دین لیں ۔

یہ روایت مختلف عبارت اور الفاظ کے ساتھ  اهل سنت کی بہت سی کتابوں میں جناب  امير المؤمنين عليه السلام، عبد الله بن عباس اور جابر بن عبد الله الأنصاري سے مندرجہ ذیل تعبیرات کے ساتھ نقل ہوئی ہے «أنا مدينة العلم وعلي بابها»؛ «أنا مدينة الحكمة وعلي بابها»   «أنا دار الحكمة وعلي بابها» اس روایت کی بعض سندیں صحيح ہیں ، بعض کی حسن اور کچھ کی سند ضعیف ہے۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ بعض اهل البيت عليهم السلام کے فضائل کے منکر اور ان فضائل سے چیڑ رکھنے والے لوگ جب اس روایت کو نقل کرتے ہیں تو صرف انہیں روایات کو نقل اور انہیں کی تحقیق کرتے ہیں کہ جن کی سند ضعیف ہے اور پھر بعد میں کلی حکم لگاتے ہیں کہ اس قسم کی ساری روایتیں ضعیف ہیں اور یہ سب جعلی اور منگڑھت ہیں ۔

لہذ ہم نے مناسب سمجھا کہ اس حدیث کے بعض ایسے نقلوں کی تحقیق کریں کہ جن کے راوی ثقہ اور قابل اعتماد ہیں اور پھر ہم اھل سنت کے علماء کے صحیح ہونے کے بارے  اعترافات کو ذکر کریں گے۔

ابوطاهر سلفي

 ابوطاهر سلفي نے اس  روايت کو «أنا دار الحكمة وعلي بابها» کے ساتھ  صحيح سند نقل کیا ہے اور اس کے تمام راوی اھل سنت کی نگاہ میں صحیح ہیں ۔

(48)- [48 ] حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْكَشِّيُّ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الدَّوْسِيُّ، نَا شَرِيكٌ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا "

 السلفي، أبو طاهر (متوفاي 576هـ)، الجزء الثالث من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي، ص16، ح48، مصدر المخطوط: الأسكوريال، طبق برنامه جوامع الكم.

 اس کتاب کو نیچے کی لینگ سے ڈانلوڈ کرسکتے ہیں ۔ 

http://shamela.ws/index.php/book/30621


روایت کی سند کی تحقیق :

إبراهيم بن عبد الله بن مسلم الكشي:

 ذهبي نے ان کے بارے میں کہا ہے :

 الكجي. الشيخ الإمام الحافظ المعمر شيخ العصر أبو مسلم إبراهيم بن عبدالله بن مسلم بن ماعز بن مهاجر البصري الكجي صاحب السنن۔ ولد سنة نيف وتسعين ومئة وثقة الدارقطني وغيره وكان سريا نبيلا متمولا عالما بالحديث وطرقه عالي الإسناد.

 ابراهيم كجي، کہ جو شيخ، امام و حافظ  تھے، ان کی عمر طولاني تھی ،آپ اپنے زمانے کے استاد تھے . دار قطني اور دوسروں نے اس کو ثقہ کہا ہے : اپنی قوم کے بزرگ، شريف ، سرمايه دار، علم حدیث سے آگاہ اور ان کی حدیث کے طرق کی سند مختصر ہے ۔

 الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج13، ص423، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي ، ناشر : مؤسسة الرسالة - بيروت ، الطبعة : التاسعة ، 1413هـ .

 محمد بن عبد الله بن الزبير الدوسي:

 ابن حجر نے ان کے بارے میں کہا ہے :

6017 محمد بن عبد الله بن الزبير بن عمر بن درهم الأسدي أبو أحمد الزبيري الكوفي ثقة ثبت إلا أنه قد يخطيء في حديث الثوري.

 محمد بن عبد الله زبيري، ثقه اور قوی آدمی ہے لیکن کبھی سفيان ثوري کی حدیث نقل کرنے میں غلطی کرتا تھا.

 العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، تهذيب التهذيب، ج1، ص487، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولي، 1404 - 1984 م.

 نوٹ : سفیان ثوری کی روایت نقل کرنے میں اس کی کبھی کبار غلطی کا یہ معنی نہیں کہ وہ خود اور اس کی یہ والی روایت ضعیف ہو کیونکہ اس نے اس روایت کو سفیان ثوری سے نقل نہیں کیا ہے ۔

شمس الدين ذهبي نے اس طرح ان کی تعریف کی ہے :

 محمد بن عبد الله بن الزبير بن عمر بن درهم الحافظ الكبير المجود أبو أحمد الزبيري الكوفي مولي بني أسد.

 محمد بن عبد الله، بڑےحافظ اور ان لوگوں میں سے ہے جو روایات کو صحیح پڑھتا تھا ۔

 الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج9، ص529، تحقيق: شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ. 

شريك بن عبد الله بن الحارث بن شريك بن عبد الله:

یہ  بخاري مسلم اور صحاح کے راویوں میں سے ہے ، ذھبی اس کے بارے میں کہتا ہے: 

2276 شريك بن عبد الله أبو عبد الله النخعي القاضي أحد الأعلام عن زياد بن علاقة وسلمة بن كهيل وعلي بن الأقمر وعنه أبو بكر بن أبي شيبة وعلي بن حجر وثقه بن معين وقال غيره سيء الحفظ وقال النسائي ليس به بأس هو أعلم بحديث الكوفيين من الثوري قاله بن المبارك توفي 177 عاش اثنتين وثمانين سنة خت 4 م متابعة.

 شريك بن عبد الله نخعي جانی پہچانی شخصیتوں میں سے ہیں ، ابن معين نے ان کی توثيق کی ہے اور کہا ہے وہ حافظہ کے اعتبار سے ٹھیک نہیں تھا ،نسائی نے کہا ہے کہ اس کے بارے میں کوئی اشکال نہیں وہ سفیان ثوری کی حدیث کے بارے میں سب سے زیادہ آگاہی رکھنے والا شخص ہے ۔

 الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج1، ص485، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولي، 1413هـ - 1992م. 

سلمة بن كهيل:

 2046 سلمة بن كهيل أبو يحيي الحضرمي من علماء الكوفة رأي زيد بن أرقم وروي عن أبي جحيفة وعلقمة وعنه سفيان وشعبة ثقة له مائتا حديث وخمسون حديثا مات 121 ع

 سلمة بن كهيل، ثقه ہے، صحاح میں اس سے ۲۵۰ نقل ہوئی ہیں ۔

 الكاشف ج1، ص454

 أبو عبد الله الصنابحي:

 3952 عبد الرحمن بن عسيلة بمهملتين مصغر المرادي أبو عبد الله الصنابحي ثقة من كبار التابعين قدم المدينة بعد موت النبي صلي الله عليه وسلم بخمسة أيام.

 آپ تابعین کے بڑوں میں سے تھا اور ثقہ ہے ۔۔۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ص346، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986.

 ابوطاهر سلفي کا زندگی نامہ:

 ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ ہم ابوطاھر کی کتاب اور اس شخص کو نہیں پہچانتے ۔ لہذا ہم انتہائی مختصر اندار میں اس کو اور اس کی کتاب کے بارے کچھ مطالب پیش کرتے ہیں ۔ 

شمس الدين ذهبي نے سير أعلام النبلاء ،میں  30 کے نذدیک صفحات اس کے بارے میں نقل کی ہیں اور اس کی تعریفیں کی ہیں، ہم ان میں سے بعض کو یہاں نقل کرتے ہیں ۔

 السلفي . هو الإمام العلامة المحدث الحافظ المفتي شيخ الإسلام شرف المعمرين أبو طاهر أحمد بن محمد بن أحمد بن محمد بن إبراهيم الأصبهاني الجرواني ...

 قال الحافظ المنذري سمعت الحافظ بن المفضل يقول عدة شيوخ الحافظ السلفي بأصبهان تزيد علي ست مئة نفس ومشيخته البغدادية خمسة وثلاثون جزءا ...

 وكان أوحد زمانه في علم الحديث وأعرفهم بقوانين الرواية والتحديث... وقال أبو سعد السمعاني في ذيله السلفي ثقة ورع متقن متثبت فهم حافظ ... .

 السلفی وہی شخص ہے کہ جوا امام ، علامہ محدظ ،حافظ ،مفتی ،شیخ السلام ،زیادہ عمر کرنے والوں کی عزت ہے ۔ 

حافظ منذري نے کہا ہے کہ حافظ بن مفضل سے سنا ہے کہ  اصفھان میں آپ کے اساتذہ کی تعداد چھے سو سے زیادہ تھی اور آپ کی کتاب "مشيخ البغدادية ' ۳۰ جلدوں پر مشتمل تھی۔

 وہ علم میں اپنے زمانے کا تنہا شخص تھا اور  علم حدیث اور اس کے قوانین سے سب سے زیادہ آگاہ تھے. ابوسعد سمعاني نے سلفی کی زندگی نامے میں کہا ہے : وہ  ثقه، اور پرہیزگار تھا، مستحکم ، ذھین اور قوی فھم اور حافظہ کا مالک تھے ۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 21 ص 5 ـ 24 ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي ، ناشر : مؤسسة الرسالة - بيروت ، الطبعة : التاسعة ، 1413هـ ۔۔۔۔۔۔۔۔

 حاجي خليفه نے ان کی كتاب مشيخة البغدادية کے بارے میں لکھا ہے :

 المشيخة البغدادية للشيخ الامام أبي طاهر أحمد بن محمد السلفي الأصبهاني المتوفي 576 ست وسبعين وخمسمائة جمع فيها الجمع الغفير مع فوائد مالا توصف مالا تحصي جملتها تزيد علي مائة جزء

 كشف الظنون ج 2 ص 1696

 شیخ امام أبو طاهر سلفي مشيخه بغداديه میں  بہت سے قابل تعریف اور مفید مطالب کو اس میں جمع کیا ہے اور قابل توصیف نہیں ہے ۔ یہ سب ۱۰۰ جلد سے زیادہ ہیں ۔

 

نتيجه: اس روایت کی سند  صحيح ہے .

 خيثمة بن سليمان کی سند

 (176)- [1: 200] حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا مَحْفُوظُ بْنُ بَحْرٍ الأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَي بْنُ مُحَمَّدٍ الأَنْصَارِيُّ الْكُوفِيُّ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مَرْفُوعًا "أَنَا مَدِينَةُ الْحِكْمَةِ، وَعَلِيُّ بَابُهَا"

 ابن عباس نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : میں حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ۔.

 الأطرابلسي، خيثمة بن سليمان (متوفاي343هـ)، من حديث خيثمة بن سليمان، ص754، ح176، تحقيق: قسم المخطوطات بشركة أفق للبرمجيات، ناشر: شركة أفق للبرمجيات، مصر، الطبعة: الأولي، 2004م. 

 سند کی تحقیق

 محمد بن عوف بن سفيان:

 6202 محمد بن عوف بن سفيان الطائي أبو جعفر الحمصي ثقة حافظ من الحادية عشرة مات سنة اثنتين أو ثلاث وسبعين دعس.

 محمد بن عوف، ثقه اور حافظ تھا.

 تقريب التهذيب ج1، ص500

 محفوظ بن بحر:

 ابن حبان شاففعی نے كتاب الثقات ج9، ص204 نمبر : 16026 میں ان کو  ثقه راویوں میں سے قرار دیا ہے :

مستقيم الحديث.

صحیح  حدیث نقل کرنے والا ۔

 موسي بن محمد الأنصاري:

 ابن أبي حاتم رازي نے ان کے بارے الجرح و التعديل کے سلسلے میں لکھا ہے :

 711 موسي بن محمد الأنصاري يعد في الكوفيين... سمعت أبي يقول ذلك نا عبد الرحمن نا أبو سعيد بن يحيي بن سعيد القطان نا محمد بن الصلت أبو جعفر نا موسي بن محمد الأنصاري الثقة والله... عن يحيي بن معين انه قال موسي بن محمد الأنصاري ثقة. نا عبد الرحمن قال سألت أبي عن موسي بن محمد الأنصاري فقال لا بأس به.

 میں نے والد سے سنا ہے کہ کہتے تھے: «اللہ کی قسم وہ ثقہ ہے » ، يحيي بن معين سے نقل ہوا ہے : « وہ ثقه ہے » ، اور عبد الرحمن کے والد نے کہا ہے «ان کے بارے میں کوئی اشکال نہیں ». 

ابن أبي حاتم الرازي التميمي، ابومحمد عبد الرحمن بن أبي حاتم محمد بن إدريس (متوفاي 327هـ)، الجرح والتعديل، ج8، ص711، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الأولي، 1271هـ ـ 1952م.

 ابن حبان نے بھی كتاب الثقات، ج7، ص456، شماره: 10908، میں ان کے نام کو ثقہ راویوں میں ذکر کیا ہے ۔.

 أبومعاويه، محمد بن خازم:

 ابن حجر نے ان کے بارے میں کہا ہے  :

 5841 محمد بن خازم بمعجمتين أبو معاوية الضرير الكوفي عمي وهو صغير ثقة أحفظ الناس لحديث الأعمش وقد يهم في حديث غيره.

 محمد بن خازم، ثقه اور أعمش کی روایات کے حافظ ہونے کے اعتبار سے یہ سب سے برتر ہے ،؛ لیکن دوسروں کی احادیث نقل کرنے میں کبھی کبار اس نے غلطی کی ہے ۔

 تقريب التهذيب ج1، ص475 

 سليمان بن مهران:

 ابن حجر نے کہا ہے : 

2615 سليمان بن مهران الأسدي الكاهلي أبو محمد الكوفي الأعمش ثقة حافظ عارف بالقراءات ورع لكنه يدلس.

 سليمان بن مهران، ثقه، حافظ ہے ،مختلف  قرائت کو جاننتا تھا اور پرهيزگار انسان تھا؛ لیکن تدلیس بھی کرتا تھا.

 تقريب التهذيب ج1، ص254 

لیکن ان کی تدلیس ،ان کی وثاقت کے لئے ضرر نہیں پہنچاتی ،کیونکہ اھل سنت کے بزرگ علماء بھی تدلیس کرتے تھے ، شعبة بن الحجاج کے کہے کے مطابق عمرو بن مرة اور  محمد بن عون  کے علاوہ اھل سنت کے تمام راوی  تدلیس کرتے تھے

 عن شعبة قال: ما رأيت أحدا من أصحاب الحديث إلا يدلس إلا عمرو بن مرة، وابن عون.

 شعبه سے نقل ہوا ہے کہ : اصحاب حديث میں سے ایسے کو نہیں دیکھا جو تدلیس نہ کرتا ہو ،سواے  عمرو بن مره اور ابن عون کے ۔

 الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج5 - ص 197 - 198، تحقيق: شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

 العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، تهذيب التهذيب، ج8 - ص 90، ترجمة عمرو بن مرة الجملي، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولي، 1404 - 1984 م. 

ابن حجر عسقلاني نے طبقات المدلسين، میں بخاري کے نام کو بھی مدلسين کی فہرست میں ذکر کیا ہے : 

محمد بن إسماعيل بن المغيرة البخاري الإمام، وصفه بذلك أبو عبد الله بن مندة في كلام له، فقال فيه: أخرج البخاري، قال: فلان، وقال: أخبرنا فلان، وهو تدليس.

 العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852 هـ)، طبقات المدلسين، ص 24 رقم 23، ناشر: مكتبة المنار ـ الأردن.

 سبط بن العجمي کا  نام بھی أسماء المدلسين کی کتابوں میں ذکر کیا ہے.

 التبيين لأسماء المدلسين، سبط بن العجمي، ص 177، رقم 64، دار الكتب العلمية.

 ذهبي نے سير اعلام النبلاء میں ذهيلي کے بارے لکھا ہے :

 روي عنه خلائق، منهم:... ومحمد بن إسماعيل البخاري ويدلسه كثيراً، لا يقول محمد بن يحيي، بل يقول محمد فقط، أو محمد بن خالد، أو محمد بن عبد الله وينسبه إلي الجد، ويعمي اسمه، لمكان الواقع بينهما، غفر الله لهما.

 بہت سے لوگوں نے محمد يحيي ذهيلي سے روایت نقل کی ہے؛ اسی طرح محمد بن اسماعيل بخاري نے؛ لیکن بخاری نے ہمیشہ ان کے بارے میں تدلیس کیا ہے اور یہ نہیں کہتا تھا کہ محمد بن يحيي؛ صرف  «محمد»، يا محمد بن خالد يا محمد بن عبد الله اس کے لئے استعمال کرتا تھا اور اس کے دادا کی طرف نسبت دیتا تھا اور اس کا نام ذکر نہیں کرتا تھا اور یہ اس وجہ سے تھا کیونکہ ان کے درمیان آپس میں اختلاف تھا۔۔ اللہ دونوں کو بخش دئے .

 سير أعلام النبلاء، ج 12، ص 275.

 اگر سلیمان بن مھران کی تدلیس اس کی روایت کے ضعیف ہونے کی دلیل بن سکتی ہے تو اھل سنت کی تمام روایات یہاں تک کہ صحیح بخاری کی تمام روایات ضعیف ہوجائے گی۔

مجاهد بن جبر:

 6481 مجاهد بن جبر بفتح الجيم وسكون الموحدة أبو الحجاج المخزومي مولاهم المكي ثقة إمام في التفسير وفي العلم.

 مجاهد بن جبير، ثقه، تفسير  اور علم  کے لحاظ سے وہ امام ہیں.

 تقريب التهذيب ج1، ص520 

عبد الله بن عباس:

 صحابي. 

خيثمة بن سليمان کا تعارف :

 اب یہاں ممکن ہے کہ ، خيثمة بن سليمان بعض کے لئے ناشناختہ ہو ، لہذا ہم شمس الدين ذهبي کی زبانی ان کا تعارف کرتے ہیں :

 خيثمة . الإمام الثقة المعمر محدث الشام أبو الحسن خيثمة بن سليمان بن حيدرة بن سليمان القرشي الشامي الأطرابلسي مصنف فضائل الصحابة كان رحالا جوالا صاحب حديث ...

 قال أبو بكر الخطيب خيثمة ثقة ثقة قد جمع فضائل الصحابة.

 خيثمه، امام، ثقه، طولاني عمر والا ، شام کے محدث... "فضائل الصحابة" نامی کتاب کے مصنف ہیں، زیادہ سفر کرتے اور تحقیق کرتے تھے آپ صاحب حدیث تھے ۔

 سير أعلام النبلاء ج 15 ص412

ابوجعفر طبري

محمد بن جرير طبري نے کتاب " تهذيب الآثار (مسند علي) " میں اس روايت کو تین سندوں سے نقل کیا ہے اور ان میں سے ایک کی سند کو صحیح قرار دیتا ہے۔

(1431)- [8] حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَي السُّدِّيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الرُّومِيُّ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنّ النَّبِيَّ (ص) قَالَ: "أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ، وَعَلِيٌّ بَابُهَا"

علي (عليه السلام) نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں  .

الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب (متوفاي310)، تهذيب الآثار وتفصيل الثابت عن رسول الله من الأخبار (مسند علي)، ص104، تحقيق: محمود محمد شاكر، ناشر: مطبعة المدني ـ قاهرة.

طبرانی نے آگے چل کر اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور اس پر ہونے والے اشکالات کا جواب دیا ہے ۔

الْقَوْلُ فِي عِلَلِ هَذَا الْخَبَرِ:

 وَهَذَا الْخَبَرُ صَحِيحٌ سَنَدُهُ، وَقَدْ يَجِبُ أَنْ يَكُونَ عَلَي مَذْهَبِ الآخَرِينَ سَقِيمًا، غَيْرَ صَحِيحٍ، لِعِلَّتَيْنِ: إِحْدَاهُمَا: أَنَّهُ خَبَرٌ لا يُعْرَفُ لَهُ مَخْرَجٌ عَنْ عَلِيٍّ عَنِ النَّبِيِّ (ص) إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالأُخْرَي: أَنَّ سَلَمَةَ بْنَ كُهَيْلٍ عِنْدَهُمْ مِمَّنْ لا يَثْبُتُ بِنَقْلِهِ حُجَّةٌ،وَقَدْ وَافَقَ عَلِيًّا فِي رِوَايَةِ هَذَا الْخَبَرِ عَنِ النَّبِيِّ (ص) غَيْرُهُ ذِكْرُ ذَلِكَ.

اس روایت کے ضعیف ہونے کے بارے گفتگو :

اس روایت کی سند صحيح ہے ، ممكن ہے دوسروں کے مبنا کے مطابق اس روایت کو ضعیف کہے  اور یہ کہے کہ اس پر دو اشکال ہیں: اولا: علي (ع) کا رسول خدا (ص) سے نقل شدہ اس روایت کے لئے یہی ایک ہی طریق ہی ہے۔  ثانياً: سلمة بن كهيل دوسروں کی نگاہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہے کہ جس کی نقل شدہ روایت حجت ہو۔

حضرت علي (ع) کے علاوہ دوسروں نے بھی پیغمبر (ص) سے یہ روایت نقل کی ہے.

سلمة بن كهيل کی روایت حجت نہ ہونے کا اشکال قابل قبول نہیں ہے کیونکہ وہ تاريخ علم حديث کے بزرگ علماء میں سے ہیں ۔بخاري  اور مسلم نے ان سے روایات نقل کی ہیں ہم جرات سے کہہ سکتے ہیں کہ اھل سنت کے علم رجال کے کسی بھی ماہر شخص نے ان کو غیر ثقہ قرار نہیں دیا ہے ۔

دوسرے اشکال کو بھی خود طبری نے رد کیا ہے ، یہ روایت دس سے زیادہ طریق کے ساتھ، عبد الله بن عباس  اور جابر بن عبد الله انصاري سے نقل ہوئی ہے اور ہم بھی ان میں سے بعض کو نقل کریں گے ۔

اگرچہ اس روایت کی صحت کے بارے یہی کافی ہے لیکن ہم پھر بھی اس کے ہر راوی کے بارے تحقیق کرتے ہیں .

روايت کی سند کی تحقیق:

 اسماعيل بن موسي السدي

411 إسماعيل بن موسي الفزاري عن مالك وعدة وعنه أبو داود والترمذي وابن ماجة وابن خزيمة والساجي صدوق شيعي توفي 245 د ت ق.

اسماعيل بن موسي، بہت ہی سچا اور شیعہ ہے .

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج1، ص250، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولي، 1413هـ - 1992م .

یہاں اس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے کہ کسی روایت کی صحت کے لئے راوي کا ثقہ ہونا ضروری ہے ، راوی کا مذهب روایت کی صحت میں دخل نہیں رکھتا ، جیساکہ صحیح بخاری اور مسلم میں بہت سے شیعہ راویوں سے روایت نقل ہوئی ہیں جیسے أبان بن تغلب و ....

 محمد بن عمر الرومي ۔۔۔۔۔۔۔۔

ابن حبان بستي شافعي نے " الثقات، ج9، ص71، شماره 15241 میں ان کا نام بھی ثقہ راویوں میں سے قرار دیا ہے ۔

ابن حجر وغیرہ نے اس کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے وہ «لين الحديث» تھا ؛ لیکن واضح ہے کہ اس کی تضعیف کی وجہ اس کی یہی روایت ہے، اس کے علاوہ اس کی تضعیف پر کوئی اور دلیل نہیں ہے ۔ ہر حال ابن حبان کی یہ توثیق اس کی وثاقت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے ۔

البته یہی روایت دوسری کتابوں میں اس سے بھی موثق راویوں کے ذریعے { شريك بن عبد الله (بعد کا راوي) سے دوسرے طریق} سے بھی نقل ہوئی ہے ؛ لہذا اس کی وثاقت اس طبقہ میں ثابت نہ بھی ہو پھر بھی روایت کی صحت پر اس کا اثر نہیں پڑے گا ؛ کیونکہ اس راوی کے طبقے میں دوسرے ثقہ راوی نے بھی اس کو نقل کیا ہے۔جیساکہ بعد کی روایت میں ہم اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

جیساکہ خود طبری کی طرف سے روایت کی تصحیح اس کی وثاقت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے ۔

 سويد بن غفلة:

2197 سويد بن غفلة أبو أمية الجعفي ولد عام الفيل وقدم المدينة حين دفنوا النبي صلي الله عليه وسلم سمع أبا بكر وعدة وعنه سلمة بن كهيل وعبدة بن أبي لبابة ثقة إمام زاهد قوام توفي 81 ع.

سويد بن غفله عام الفيل کے سال دنیا میں آیا ، لیکن اس وقت مدینہ میں آیا کہ  رسول خدا کو دفن کرچکے تھے ، اس نے ابوبكر اور دوسروں سے روایت نقل کی ہے لہذا اس کی وثاقت ثابت ہے ، وہ  ثقه، امام، زاهد اور ثابت قدم انسان تھے .

الكاشف ج1، ص473

اس حديث کے دوسرے راوی وہی ابوطاهر سلفي کی روایت کے راوی ہیں اور اس سلسلے میں ہم نے پہلے تحقیق کی ہے اور ان کی وثاقت ثابت کی ہے لہذا جس طرح طبری نے کہا اس روایت کی سند  «صحيح» ہے یا کم از کم «حسن» ہے.

أبونعيم إصفهاني

أبونعيم اصفهاني نے "معرفة الصحابه" میں اس روایت کو یوں نقل کیا ہے :

(331)- [347] حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلادٍ وَفَارُوقٌ الْخَطَّابِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْلِمٍ الْكَشِّيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الرُّومِيِّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص): أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا.

الأصبهاني، ابو نعيم أحمد بن عبد الله (متوفاي430هـ)، معرفة الصحابة، ج1، ص106، باب: مَعْرِفَةُ إِعْلامِ النَّبِيِّ (ص) إِيَّاهُ أَنَّهُ مَقْتُولٌ، المحقق: مسعد السعدني، ناشر: دار الكتب العلمية ـ بيروت، الطبعة: الأولي، 2002م.

روايت کی سند کی تحقیق :

 أحمد بن يوسف بن أحمد بن خلاد بن منصور بن أحمد بن خلاد

50 ابن خلاد. الشيخ الصدوق المحدث مسند العراق أبو بكر أحمد بن يوسف ابن خلاد بن منصور النصيبي ثم البغدادي العطار.

شیخ اور بہت زیادہ سچا ، حديث نقل کرنے والا ، مسند العراق (یعنی ایسا بندہ کہ عراق میں اس وقت سب ان کی طرف رجوع کرتے تھے ).

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج16، ص69، تحقيق: شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

 فاروق بن عبد الكبير بن عمر

فاروق. ابن عبد الكبير بن عمر المحدث المعمر مسند البصرة أبو حفص الخطابي البصري... حدث عنه... وأبو نعيم الحافظ واخرون وما به باس.

فاروق بن عبد الكبير، مسند بصرة{ بصرہ والوں کے لئے مرجع شمار ہوتا تھا } ، ابونعيم اور دوسروں نے اس سے روایت نقل کی ہے اور اس سے نقل کرنے میں کوئی اشکال بھی نہیں ہے ۔

سير أعلام النبلاء ج16، ص140 

إبراهيم بن عبد الله بن مسلم بن ماعز بن المهاجر

الكجي. الشيخ الإمام الحافظ المعمر شيخ العصر أبو مسلم إبراهيم بن عبدالله بن مسلم بن ماعز بن مهاجر البصري الكجي صاحب السنن

ولد سنة نيف وتسعين ومئة وثقة الدارقطني وغيره وكان سريا نبيلا متمولا عالما بالحديث وطرقه عالي الإسناد.

ابراهيم كجي، شيخ، امام و حافظ تھے ، طولاني عمر کا مالک تھا اور اپنے زمانے کے استاد  شمار ہوتے تھے، دار قطني اور دوسروں نے اس کی توثیق کی ہے ، وہ قوم کے بزرگ، شريف اور بڑا آدمی تھا ، سرمايه دار، علم حديث سے آگاہ، ان کی روایت کے طریق سند کے اعتبار سے مختصر ہے ۔

سير أعلام النبلاء ج13، ص423

اس روایت کے باقی راوی وہی  ابوطاهر سلفي کے راوی اور ثقہ ہیں لہذا یہ روایت بھی پہلے والی روایت کی طرح صحیح ہے ۔

احمد بن حنبل:

احمد بن حنبل نے بھی فضائل الصحابه میں نقل کیا ہے ؟

(936)- [1081] حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرُّومِيُّ، قَالَ: نا شَرِيكٌ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص): " أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ، وَعَلِيٌّ بَابُهَا "

الشيباني، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفاي241هـ)، فضائل الصحابة، ج2، ص634، تحقيق د. وصي الله محمد عباس، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1403هـ - 1983م.

اس روایت کی سند کے تمام راویوں کی وثاقت پہلے ثابت ہوچکی ہے .

ابو بكر القطيعي نيز همين روايت را با همين سند نقل كرده است:

(209)- [1: 333] حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْكَجِّيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرُّومِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلامُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(ص): "أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَعَلِيُّ بَابُهَا "

القطيعي، أحمد بن جعفر بن حمدان بن مالك بن شبيب البغدادي (متوفاي368هـ)، جزء الألف دينار، ص54، ح207، تحقيق: بدر عبد الله البدر، ناشر: دار النفائس ـ الكويت، الطبعة: الأولي

ابن عساكر دمشقي

ابن عساكر دمشقي نے اس روایت کو بھی کئی اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے ہم ان میں سے ایک سند کی تحقیق کریں گے۔

(44629)- [42: 378] أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُظَفَّرِ عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ، وَأَبُو الْقَاسِمِ زَاهِرُ بْنُ طَاهِرٍ، قَالا: أنا أَبُو سَعْدٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أنا أَبُو سَعِيدٍ مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرِ بْنِ الْعَبَّاسِ، أنا أَبُو لَبِيدٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ، نا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، نا شَرِيكٌ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص): "أنا مَدِينَةُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُهَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ بَابَ الْمَدِينَةِ".

بررسي سند روايت:

 عبد المنعم بن عبد الكريم:

ذهبي نے سير أعلام النبلا، میں ان کے بارے میں کہا ہے :

367 ابن القشيري. عبدالمنعم الشيخ الإمام المسند المعمر أبو المظفر بن الأستاذ أبي القاسم عبدالكريم بن هوازن القشيري النيسابوري.

عبد المنعم بن عبد الكريم، استاد، امام  مسند اور طولانی عمر کا مالک ہے ۔.

سير أعلام النبلاء ج19، ص623 ـ624

 زاهر بن طاهر:

زاهر بن طاهر. ابن محمد بن محمد بن أحمد بن محمد بن يوسف بن محمد بن مرزبان الشيخ العالم المحدث المفيد المعمر مسند خراسان...

زاهر بن طاهر، استاد، اھل علم ، محدث، مفيد، طولاني عمر کا مالک، خراسان والوں کے مسند تھے.

سير أعلام النبلاء ج20، ص9

 محمد بن عبد الرحمن:

ذهبي نے ان کی یوں تعریف کی ہے :

48 الكنجروذي. الشيخ الفقيه الإمام الأديب النحوي الطبيب مسند خراسان أبو سعد محمد بن عبدالرحمن بن محمد بن أحمد بن محمد بن جعفر النيسابوري

سير أعلام النبلاء ج18، ص101

 محمد بن بشر بن العباس:

303 الكرابيسي. الشيخ الصالح المسند أبو سعيد محمد بن بشر بن العباس النيسابوري البصري الاصل الكرابيسي.

كرابيسي، استاد پرهيزگار اور مسند تھے .

سير أعلام النبلاء ج16، ص415

 محمد بن إدريس:

4 أبو لبيد. الإمام المحدث الرحال الصادق أبو لبيد محمد بن إدريس بن إياس السامي السرخسي... حدث عنه إمام الأئمة ابن خزيمة وأحمد بن سلمة الحافظ

ابولبيد، امام ، محدث، سچا ، بہت زیادہ مسافرت کرنے والا ،اماموں  کے امام . ابن خزيمه احمد بن سلمه حافظ نے ان سے روایت نقل کی ہے ۔

سير أعلام النبلاء ج14، ص464

 سويد بن سعيد:

سويد بن سعيد. ابن سهل بن شهريار الإمام المحدث الصدوق شيخ المحدثين ابو محمد الهروي.

سويد بن سعيد؛ امام، محدث، بہت سچا، محدثوں کے امام .

سير أعلام النبلاء ج11، ص410

اس کے باقی راویوں کی وثاقت پہلے ثابت ہوچکی ہے

حاكم نيشابوري

حاكم نيشابوري ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے تعصب سے بالاتر ہوکر اس روایت کو مختلف طرق سے نقل کیا ہے اور بعض کی تصحیح بھی کی ہے ۔

(4574)- [3: 124] حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْهَرَوِيُّ بِالرَّمْلَةِ، ثنا أَبُو الصَّلْتِ عَبْدُ السَّلامِ بْنُ صَالِحٍ، ثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا، فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِينَةَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ ".

ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ،جو بھی شہر میں داخل ہونا چاپتا ہے اسے چاہئے کہ وہ دروازے سے آئے۔

پھر اس روایت کی صحت کے بارے میں لکھتا ہے :

هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ، وَأَبُو الصَّلْتِ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ.

فَإِنِّي سَمِعْتُ أَبَا الْعَبَّاسِ مُحَمَّدَ بْنَ يَعْقُوبَ فِي التَّارِيخِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْعَبَّاسَ بْنَ مُحَمَّدٍ الدُّورِيَّ، يَقُولُ: سَأَلْتُ يَحْيَي بْنَ مَعِينٍ، عَنْ أَبِي الصَّلْتِ الْهَرَوِيِّ، فَقَالَ: ثِقَةٌ.

فَقُلْتُ: أَلَيْسَ قَدْ حَدَّثَ عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ " أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ "؟ فَقَالَ: قَدْ حَدَّثَ بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْفَيْدِيُّ وَهُوَ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ.

سَمِعْتُ أَبَا نَصْرٍ أَحْمَدَ بْنَ سَهْلٍ الْفَقِيهَ الْقَبَّانِيَّ إِمَامَ عَصْرِهِ بِبُخَارَي، يَقُولُ: سَمِعْتُ صَالِحَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ حَبِيبٍ الْحَافِظَ، يَقُولُ: وَسُئِلَ عَنْ أَبِي الصَّلْتِ الْهَرَوِيِّ، فَقَالَ: دَخَلَ يَحْيَي بْنُ مَعِينٍ وَنَحْنُ مَعَهُ عَلَي أَبِي الصَّلْتِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا خَرَجَ تَبِعْتُهُ، فَقُلْتُ لَهُ: مَا تَقُولُ رَحِمَكَ اللَّهُ فِي أَبِي الصَّلْتِ؟ فَقَالَ: هُوَ صَدُوقٌ.

فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّهُ يَرْوِي حَدِيثَ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ " أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُهَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِهَا مِنْ بَابِهَا "، فَقَالَ: قَدْ رَوَي هَذَا ذَاكَ الْفَيْدِيُّ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، كَمَا رَوَاهُ أَبُو الصَّلْتِ

(4575)- [3: 124] حَدَّثَنَا بِصِحَّةِ مَا ذَكَرَهُ الإِمَامُ أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَي بْنُ مَعِينٍ، ثنا أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ تَمِيمٍ الْقَنْطَرِيُّ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ فَهْمٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَي بْنِ الضُّرَيْسِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْفَيْدِيُّ، ثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا، فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِينَةَ، فَلْيَأْتِ الْبَابَ "، قَالَ الْحُسَيْنُ بْنُ فَهْمٍ، حَدَّثَنَاهُ أَبُو الصَّلْتِ الْهَرَوِيُّ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ.

قَالَ الْحَاكِمُ: لِيَعْلَمَ الْمُسْتَفِيدُ لِهَذَا الْعِلْمِ أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ فَهْمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ حَافَظٌ.

وَلِهَذَا الْحَدِيثِ شَاهِدٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ.

(4576)- [3: 124] حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْفَقِيهُ الإِمَامُ الشَّاشِيُّ الْقَفَّالُ بِبُخَارَي، وَأَنَا سَأَلْتُهُ، حَدَّثَنِي النُّعْمَانُ بْنُ الْهَارُونِ الْبَلَدِيُّ بِبَلَدٍ مِنْ أَصْلِ كِتَابِهِ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْحَرَّانِيُّ، ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ثنا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ التَّيْمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُهَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ ".

اس روايت کی سند صحيح ہے؛ لیکن بخاري اور مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ابوصلت ثقہ اور قابل اعتماد ہے ۔ کیونکہ میں نے محمد بن يعقوب سنا ہے ،انہوں نے عباس محمد دوري، سے سنا ہے کہ انہوں نے يحيي بن معين سے ابوصلت هروي کے بارے سوال کیا انہوں نے جواب دیا : وہ ثقہ ہے ،میں نے پوچھا کیا یہ وہی آدمی نہیں ہے کہ جس نے ابومعاويه سے، انہوں نے أعمش سے «أنا مدينة العلم» والی روایت نقل کی ہے ؟ ابن معین نے جواب دیا: محمد بن جعفر الفيدي کہ جو ثقہ ، قابل اعتماد اور امانت دار  ہے انہوں نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے ۔  

میں نے ابونصر احمد بن سهل، فقيه قباني کو جو اپنے زمانے میں بخاری کا پیشوا تھا،ان سے سنا ،انہوں نے صالح بن محمد بن حبيب الحافظ سے سنا ہے وہ کہتے تھے: ابوصلت هروي کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے کہا: میں اور يحيي بن معين اس کے پاس گئے ، ان کو سلام کیا اور جب واپس نکلا تو نے کہا : آپ ابوصلت کے بارے کیا کہتے ہیں؟ يحيي بن معين نے کہا یہ بہت ہی سچا آدمی ہے ۔میں نے کہا :کیا یہ وہی آدمی نہیں ہے جنہوں نے اعمش کی روایت کہ جو مجاہد کے واسطے سے { انا مدینۃ العلم والی روایت نقل کیا ہے انہوں نے جواب دیا اس روایت کو الفيدي نے بھی ابومعاويه سے اور انہوں نے اعمش سے نقل کی ہے ۔

 يحيي بن معين سے نقل شدہ حدیث کے صحیح ہونے کو ابوالحسن محمد بن احمد قنطري ۔نے حسين بن فهم سے ، انہوں نے محمد بن يحيي الضريس سے، انہوں نے محمد بن جعفر الفيد سے ،انہوں نے ابومعاويه.... سے کہ  رسول خدا (ص) نے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے،جو علم حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ دروازے سے ، حسين بن فهم نے کہا : میں نے اس روایت کو ابوصلت هروي کے لئے ابومعاويه سے نقل کیا .

حاكم کہتا ہے : اھل علم کے لئے مفید بات یہ ہے کہ حسين بن فهم بن عبد الرحمن، ثقه، قابل اعتماد اور حافظ ہیں.

اس حدیث کے لئے ایک اور شاہد سفيان ثوري کی حدیث ہے کہ جو صحيح سند کے ساتھ نقل ہوئی ہے .

عبد الرحمن بن عثمان التيمي کہتا ہے : میں نے جابر بن عبد الله سے سنا ہے کہ : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے،جو علم حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ دروازے سے  آئے ۔

الحاكم النيسابوري، ابو عبدالله محمد بن عبدالله (متوفاي 405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج3،، ص137 ـ 138، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت الطبعة: الأولي، 1411هـ - 1990م.

طالب حقيقت کے لئے اس روایت کی صحت کو ثابت کرنے کے لئے جناب حاكم نيشابوري کی یہی تصحیح کافی ہے؛ کیونکہ حاکم نیشاپوری بہت پائے کے عالم اور علم حديث کے بہت بڑے ماہر انسان ہیں ۔

 ہم اھل سنت کے  علماء کے نذدیک ان کے مقام کو جاننے کے لئے ،اھل سنت کے بڑے بزرگوں کے اقوال کو ذکر کرتے ہیں :

شمس الدين ذهبي کہ جو الجرح و التعديل میں اهل سنت کے بہت بڑے امام ہیں ،وہ حاكم نيشابوري کی یوں تعریف کرتے ہیں:

الحاكم الحافظ الكبير امام المحدثين... ناظر الدارقطني فرضيه وهو ثقة واسع العلم بلغت تصانيفه قريبا من خمس مائة جزء.

حاكم، بڑے حافظ ،محدثین کے امام ہیں . دار قطني نے اس کے ساتھ ایک مناظرہ کیا اور اس پر راضی ہوا  ،آپ قابل اعتماد اور بہت زیادہ علم رکھنے والی شخصیت ہے ،ان کی کتابیں ۵۰۰ جلد کے قریب ہیں ۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، تذكرة الحفاظ، ج3، ص 1039 ـ 1040، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الأولي.

سيوطي ان کے بارے میں لکھتا ہے :

الحاكم الحافظ الكبير إمام المحدثين أبو عبد الله محمد بن عبد الله محمد بن حمدويه بن نعيم الضبي الطهماني النيسابوري... وكان إمام عصره في الحديث العارف به حق معرفته صالحا ثقة.

حاكم، بہت بڑے حافظ اور محدثین کے امام ہیں... اپنے زمانے میں علم حدیث کے امام تھے اور واقعی معنوں میں اس علم کے جاننے والے تھے ،آپ نیک اور قابل اعتماد آدمی ہیں ۔

السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، طبقات الحفاظ، ج1، ص410 ـ 411، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1403هـ.

أبو اسحاق شيرازي،نے  حاكم کی یوں تعریف کی ہے

هو أبو عبد الله محمد بن عبد الله بن محمد النيسابوري المعروف بالحاكم صاحب المستدرك وتاريخ نيسابور وفضائل الشافعي وكان فقيها حافظا ثقة عليا لكنه يفضل علي بن أبي طالب علي عثمان رضي الله عنهما انتهت إليه رياسة أهل الحديث طلب العلم في صغره ورحل إلي الحجاز والعراق مرتين وروي عن خلائق عظيمة قال الأسنوي ويزيد علي الفيء شيخ وتفقه علي أبي الوليد النيسابوري وأبي علي بن أبي هريرة وأبي سهل الصعلوكي وانتفع به أئمة كثيرون منهم البيهقي قال عبد الغافر كان الحاكم إمام أهل الحديث في عصره وبيته بيت الصلاح والورع واختص بصحبته إمام وقته أبي بكر الصيغي وكان يراجع الحاكم في الجرح والتعديل.

محمد بن عبد الله... نيشابوري کہ جو حاكم اور صاحب كتاب المستدرك ،صاحب تاريخ نيشابور اور صاحب فضائل شافعي کے نام سے مشہور ہیں ، آپ  فقيه، حافظ، قابل اعتماد اور  بلند مرتبه کے مالک ہیں ؛ لیکن آپ  علي بن أبي طالب کو عثمان سے افضل سمجھتے تھے. اهل حديث کی رياست آپ پر ختم ہوجاتی ہے. بچپنے سے ہی تحصیل علم میں مشغول ہوا اور دو مرتبہ حجار اور عراق کا سفر کیا . بہت سے لوگوں سے روایت نقل کی ہے ... اور بہت سے بزرگوں نے ان سے  علم حاصل کیا ہے جیسے بيهقي، عبد الغافر نے کہا ہے کہ حاکم اپنے زمانے میں اھل حدیث کے امام تھے اور ان کا گھر نیک اور پرہیزگار لوگوں کا گھر تھا۔

أبي بكر صبيغي کہ جو اپنے زمانے کا امام تھا ، آپ ہمیشہ حاکم کے پاس ہوتے تھے اور  روات کی جرح و تعديل کے لئے ان سے رجوع کرتے تھے .

الشيرازي، إبراهيم بن علي بن يوسف أبو إسحاق (متوفاي476هـ)، طبقات الفقهاء، ج1، ص 222، تحقيق: خليل الميس، ناشر: دار القلم - بيروت.

  ابن خلكان نے ان کے بارے میں لکھا ہے :

الحاكم النيسابوري الحافظ المعروف بابن البيع إمام أهل الحديث في عصره والمؤلف فيه الكتب التي لم يسبق إلي مثلها كان عالما عارفا واسع العلم.

حاكم نيشابوري حافظ ، ابن البيع کے نام سے مشهور تھا ، اپنے زمانے میں اهل حديث کے پیشوا تھے علم حدیث میں ایسی کتابیں لکھی ہیں کہ ان سے پہلے کسی نے ایسی کتابیں نہیں لکھی ہیں آپ وسیع علم کا مالک تھا ۔

إبن خلكان، أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفاي681هـ)، وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، ج4، ص 280، تحقيق: احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.

أبي الفداء نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے :

وفيها توفي الحافظ محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نعيم الضبي الطهماني، المعروف بالحاكم النيسابوري إِمام أهل الحديث في عصره، والمؤلف فيه الكتب التي لم يسبق إِلي مثلها، سافر في طلب الحديث، وبلغت عدة شيوخه نحو ألفين، وصنف عدة مصنفات....

سال (455هـ) کو حافظ محمد بن عبد الله... مشهور به حاكم نيشابوري دنیا سے چلے گئے ،آپ اپنے زمانے میں اھل حدیث کے امام تھے ۔آپ نے علم حديث میں بہت سی ایسی کتابیں لکھی ہیں  کہ جو ان سے پہلے کسی نے نہیں لکھیں ہیں، حدیث سیکھنے اور حاصل کرنے کے لئے سفر کیا کرتے تھے ،ان کے استادوں کی تعداد ۲۰۰۰ سے زیادہ ہیں ،انہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں  ۔..

أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي (متوفاي732هـ)، المختصر في أخبار البشر، ج1، ص 247، طبق برنامه الجامع الكبير.

یہ بھی اہم نکتہ ہے کہ «حاكم» کا لقب ایک بلند مرتبہ درجہ ہے کہ جو ایک محدث کو حاصل ہوتا ہے۔

ملا علي هروي نے ان کے علمی مقام کے بیان میں کہا ہے :

«الإمام» أي المقتدي به، وهو إمام أئمة الأنام كالسيوطي، وابن الهمام، والسخاوي، والقسطلاني، وملا قاسم الحنفي، وغيرهم من العلماء الأعلام.

«العالم» أي العالم الكامل، والمشهور في هذا العلم، فإن له تصانيف كثيرة، وتآليف شهيرة، وأجلها «فتح الباري في شرح البخاري» الذي هو في هذا الفن غاية، بل في سائر العلوم الشرعية نهاية.

«الحافظ»: هو من أحاط علمه بمئة ألف حديث.

ثم بعده الحجة: وهو من أحاط علمه بثلاث مئة ألف حديث،

ثم الحاكم: وهو الذي أحاط علمه بجميع الأحاديث المروية متناً وإسناداً، وجرحاً وتعديلاً وتاريخاً، كذا قاله جماعة من المحققين.

«امام» وہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کی اقتدا اور پیروی کرتے ہیں؛ جیسے سيوطي، ابن همام، سخاوي، قسطلاني، ملا قاسم حنفي اور دوسرے علماء.

«عالم» یعنی کامل عالم اور علم میں مشہور ایسا شخص کہ جس نے بہت سی علمی کتابیں لکھی ہو،انہیں میں سے بہترین کتاب «فتح الباري فی شرح صحيح بخاري» ہے کہ جو  (علم حديث) کے فن میں بڑے درجے پر ہے ۔۔۔

حافظ وہ ہوتا ہے کہ جس کو ایک لاکھ سے زیادہ احادیث پر تسلط اور احاطہ حاصل ہو ،حافظ کے بعد حجت کا درجہ ہے کہ جس کو تین لاکھ سے زیادہ احادیث پر احاطہ اور تسلط حاصل ہو ۔ اس کے بعد حاکم کا درجہ آتا ہے یہ وہ ہوتا ہے کہ جس کو تمام احادیث پر احاطہ ہو اور یہ احاطہ سند اور متن دونوں لحاظ سے ہو،وہ جرح و تعدیل اور راویوں کی تاریخ پر مکمل احاطہ رکھتا ہو،جیساکہ بعض محقق حضرات نے اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

ملا علي القاري، نور الدين أبو الحسن علي بن سلطان محمد الهروي (متوفاي1014هـ)، شرح شرح نخبة الفكر في مصطلحات أهل الأثر، ج1، ص121، قدم له: الشيخ عبد الفتح أبو غدة، حققه وعلق عليه: محمد نزار تميم وهيثم نزار تميم، ناشر: دار الأرقم - لبنان / بيروت.

لہذا  ابو عبد الله نيشابوري وہ ہے کہ جس کو «حاكم» کا لقط ملا ہوا آپ ایسا آدمی ہے جس کو اھل سنت کے تمام احادیث پر سند اور متن کے اعتبار سے  اسی طرح روات کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے اور راویوں کی تاریخ کے اعتبار سے مکمل احاطہ اور تسلط حاصل ہو۔

اب مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں کیا کوئی انصاف پسند ایسا ہوسکتا ہے کہ جو مسلم نیشاپوری کو قابل اعتماد نہ جاننے اور ان کی باتوں کو اہمیت نہ دئے ؟

واضح سی بات ہے کہ جن کے ضمیر زندہ ہو وہ حاکم نیشاپوری کی عظیم علمی مقام اور شخصیت کی بناء پر ان کی باتوں پر اعتماد ہی کرئے گا ۔لیکن ہاں جن کو اھل بیت علیہم السلام کے فضائل سے خاص لگاو نہیں وہ مختلف بہانہ بازی کے ذریعے ان کی باتوں کو قبول نہ کرئے گا ۔

اهل سنت کے علماء کی طرف سے روايت کی تصحيح

 ابن جرير طبري اور حاكم نيشابوري کے علاوہ اھل سنت کے بعض دوسرے بزرگوں نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے ۔

متقي هندي نے اهل سنت کے علماء کی طرف سے اس روایت پر ہونے والے بعض اعتراضات کا ذکر کیا ہے خاص کر ابن جوزی کے مغرضانہ اعتراضات ،پھر انہوں نے ان کی تحلیل کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ روایت  «حسن» ہے ۔

وقد كنت أجيب بهذا الجواب دهرا إلي أن وقفت علي تصحيح ابن جرير لحديث علي في تهذيب الآثار مع تصحيح (ك) لحديث ابن عباس فاستخرت الله وجزمت بارتقاء الحديث من مرتبة الحسن إلي مرتبة الصحة - والله أعلم.

میں بھی اس روایت کا یہی جواب دیتا تھا لیکن جب میں نے ابن جرير طبري کی طرف سے کتاب " تهذيب الآثار" میں حضرت علي (عليه السلام) سے نقل شدہ روایت کی تصحيح کو دیکھا اور حاکم  نيشابوري کی طرف سے ابن عباس کی روایت کی تصحیح دیکھی اور پھر استخارہ کے بعد یقین ہوا کہ اس روایت کو «حسن» کے مرتبہ پر جاننا صحیح ہے .

الهندي، علاء الدين علي المتقي بن حسام الدين (متوفاي975هـ)، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، ج13، ص65، تحقيق: محمود عمر الدمياطي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1419هـ - 1998م.

خطيب بغدادي نے اپنی تاريخ میں يحيي بن معين سے نقل کیا ہے کہ وہ بھی ابتدا میں اس روایت کی صحت کا انکار کرتا تھا، لیکن تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس روایت کو ابوصلت هروي، کے علاوہ دوسروں نے بھی نقل کیا ہے اسی وجہ سے ان کی راے تبدیل ہوئی اور اس کی صحت کے قائل ہوا ۔ 

واما حديث الأعمش فان أبا الصلت كان يرويه عن أبي معاوية عنه فأنكره أحمد بن حنبل ويحيي بن معين من حديث أبي معاوية ثم بحث يحيي عنه فوجد غير أبي الصلت قد رواه عن أبي معاوية فأخبرنا محمد بن أحمد بن رزق.... عن بن عباس قال قال رسول الله e الله عليه وسلم أنا مدينة العلم وعلي بابها فمن أراد العلم فليأت بابه قال القاسم سألت يحيي بن معين عن هذا الحديث فقال هو صحيح.

قلت أراد أنه صحيح من حديث أبي معاوية وليس بباطل إذ قد رواه غير واحد عنه.

لیکن جو أعمش کی حديث جس کو ابوصلت نے ابومعاويه سے نقل کیا ہے اس کو احمد بن حنبل اور يحيي بن معين نے رد کیا ہے لیکن بعد میں یحیی بن معین نے کچھ زیادہ تحقیق کی اور انہیں دوسری سند بھی ملی کہ جس کو  کسی اور نے بھی ابومعاويه سے نقل کی تھی... قاسم کہتا ہے میں نے يحيي بن معين سے اس روایت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا : یہ روایت صحیح ہے.

میں (خطيب بغدادي) کہتا ہوں: «صحيح» سے ان کی مراد یہ ہے کہ ابو معاويه کی روایت باطل نہیں ہے ؛ کیونکہ دوسروں نے بھی اس کو نقل کیا ہے ۔

البغدادي، ابوبكر أحمد بن علي بن ثابت الخطيب (متوفاي463هـ)، تاريخ بغداد، ج11، ص50، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

ابن حجر عسقلاني نے ابن جوزی کی تضعيفات کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے :

وهذا الحديث له طرق كثيرة في مستدرك الحاكم أقل أحوالها أن يكون للحديث أصل فلا ينبغي أن يطلق القول عليه بالوضع.

یہ حديث " مستدرك حاكم میں مختلف طرق سے نقل ہوئی ہے، کم از کم یہ کہنا صحیح ہے کہ اس روایت کی کوئی نہ کوئی بنیاد ضرور ہے  لہذا مناسب یہ ہے کہ کلی طور پر اس روایت کے جعلی ہونے کے قائل نہ ہوں ۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852 هـ)، لسان الميزان، ج2، ص122، تحقيق: دائرة المعرف النظامية - الهند، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1406هـ - 1986م.

بدر الدين زركشي نے اس روایت کے مختلف طرق کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

والحاصل ان الحديث ينتهي لمجموع طريقي أبي معاوية وشريك إلي درجة الحسن المحتج به ولا يكون ضعيفا فضلا عن ان يكون موضوعا انتهي.

یہ روایت ابومعاويه سے دو طریق اور شريك سے نقل شدہ طریق کے بعد «حسن» کے درجه تک پہنچتی ہے اور قابل احتجاج ہے ،یہ روایت ضعیف بھی نہیں ہے یہاں تک کہ اس کو جعلی کہا جائے ۔ {کسی روایت کو ضعیف کہنے کا مطلب اس کا ضعیف ہونا نہیں ہے }

الزركشي المصري الحنبلي، شمس الدين أبي عبد الله محمد بن عبد الله (متوفاي794هـ)، اللآلئ المنثورة في الأحاديث المشهورة المعروف بـ ( التذكرة في الأحاديث المشتهرة )، ج1، ص165، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1406 هـ ـ 1986م.

جلال الدين سيوطي نے واضح طور کہا ہے کہ یہ روایت «حسن» بلکہ حاکم کے مطابق یہ صحيح روایت ہے . اس کے بعد بخاري، ترمذي اور ابن معين کے اشکالات کو نقل کیا ہے  اور کہا ہے، اس قسم کے اعتراضات کو اھل سنت کے دوسرے علماء نے قبول نہیں کیا ہے  :

وأما حديث أنا مدينة العلم وعلي بابها فهو حديث حسن بل قال الحاكم صحيح وقول البخاري ليس له وجه صحيح والترمذي منكر وابن معين كذب معترض.

لیکن «أنا مدينة العلم وعلي بابها» والی حديث «حسن» ہے ؛ بلکہ حاکم نے اس کو  «صحيح» کہا ہے ؛ اور بخاری کا یہ کہنا کہ یہ صحیح نہیں ہے اسی طرح ترمذي کا اس کو منكر (غير قابل قبول) کہنا اور ابن معين کا اس کو جھوت کہنا، ان سب کی باتوں پر اعتراض ہوا ہے .

الهيثمي، ابوالعباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الفتاوي الحديثية، ج1، ص192، طبق برنامه الجامع الكبير.

ابن سمعون بغدادي، نے «أنا مدينة العلم» والی روایت کو امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل میں سے قرار دیا ہے :

ومناقبه رضي الله تعالي عنه كثيرة جدا ويكفي منها قوله «أنا مدينة العلم وعلي بابها».

آپ کے فضائل بہت زیادہ ہیں ، ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: «میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں ».

أمالي ابن سمعون ج1، ص51

شمس الدين سخاوي نے اس کے مختلف طرق اور علماء کے اقوال نقل کرنے کے بعد کہا ہے :

وأحسنها حديث ابن عباس بل هو حسن.

ان میں سے سب سے بہترین إبن عباس کی روایت ہے بلکہ یہ «حسن» ہے.

السخاوي، شمس الدين محمد بن عبد الرحمن(متوفاي902هـ)، المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة علي الألسنة، ج1، ص170، تحقيق: محمد عثمان الخشت، ناشر: دار الكتاب العربي - بيروت، الطبعة: الأولي، 1405 هـ - 1985م

زكريا الأنصاري لکھتا ہے :

قال الحافظ أبو سعيد العلائي الصواب أنه حسن باعتبار طرقه وبه أفتي شيخنا حافظ عصره العسقلاني.

حافظ ابوسعيد عالي نے کہا ہے : حق یہ ہے کہ اس حدیث کے بہت سے طرق اور نقلوں کو سامنے رکھے تو یہ حدیث «حسن» ہے . ہمارے استاد ابن حجر عسقلاني کہ جو اپنے زمانے کے حافظ تھے انہوں نے بھی یہ کہا ہے.

الأنصاري الشافعي، أبويحيي زكريا (متوفاي926هـ)، المنفرجتان/ شعر ابن النحوي والغزالي، ج1، ص135 ـ 136، تحقيق: عبد المجيد دياب، ناشر: دار الفضيلة - القاهرة.

صالحي شامي لکھتا ہے :

روي الترمذي وغيره مرفوعا: أنا مدينة العلم وعلي بابها والصواب الحديث حسن. كما قال الحافظان العلائي وابن حجر

ترمذي اور دوسروں نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: «میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں » حق یہ ہے کہ روایت  «حسن» ہے؛جیساکہ حافظ علائي اور حافظ ابن حجر نے بھی ایسا کہا ہے ۔

الصالحي الشامي، محمد بن يوسف (متوفاي942هـ)، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد، ج1، ص509، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1414هـ.

«حسن» روایت «صحيح» کی طرح حجت ہے۔

اگر ہم یہ فرض کرئے کہ یہ روایت «صحيح» کے درجے پر نہیں پہنچتی ہے اور  «حسن» ہی ہے ، پھر بھی اس کی حجیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا؛ کیونکہ اهل سنت کی نظر میں «حسن» روايت بھی «صحيح» روایت کی طرح حجت ہے  اور حجيت ہونے کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے  ،جیساکہ  نووي لکھتے ہیں :

ثم الحسن كالصحيح في الاحتجاج به وإن كان دونه في القوة؛ ولهذا أدرجته طائفة في نوع الصحيح.

«حسن» روايت حجت ہونے کے اعتبار سے صحيح روایت کی طرح ہے؛ ہاں قوت کے اعتبار سے اس کا درجہ صحیح کے بعد ہے اسی لئے ایک گروہ نے اس روایت کو حسن روایات میں سے قرار دیا ہے.

النووي الشافعي، محيي الدين أبو زكريا يحيي بن شرف بن مر بن جمعة بن حزام (متوفاي676 هـ)، التقريب، ج1، ص2، طبق برنامه الجامع الكبير

  ابن تيميه لکھتا ہے :

النوع الثاني. الحسن وهو في الاحتجاج به كالصحيح عند الجمهور.

روایات کی دوسری قسم ، «حسن» روایات ہیں. جمهور علماء کے نذدیک یہ بھی حجت ہونے کے اعتبار سے صحیح روایات کی طرح ہے ۔

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاي 728 هـ)، الباعث الحثيث شرح إختصار علوم الحديث، ج1، ص129، طبق برنامه الجامع الكبير.

محمد بن جماعة کہتا ہے :

فروع: الأول الحسن حجة كالصحيح وإن كان دونه ولذلك أدرجه بعض أهل الحديث فيه ولم يفردوه عنه.

فرع: اول: «حسن» روايت حجت ہونے کے اعتبار سے «صحيح» کی طرح ہے؛ اگرچہ درجے کے اعتبار سے اس کے بعد حسن کا درجہ ہے اسی لئے بعض نے حسن روایات کو الگ سے ذکر نہیں کیا ہے اور صحیح روایات کے ساتھ قرار دیا ہے .

محمد بن إبراهيم بن جماعة (متوفاي733هـ)، المنهل الروي في مختصر علوم الحديث النبوي، ج1، ص36، تحقيق: د. محيي الدين عبد الرحمن رمضان، ناشر: دار الفكر - دمشق، الطبعة: الثانية، 1406هـ.

جلال الدين سيوطي لکھتا ہے :

ثم الحسن كالصحيح في الاحتجاج به وإن كان دونه في القوة ولهذا أدرجته طائفة في نوع الصحيح العدل.

حسن روايت ،صحيح روایت کی طرح حجت ہے قوت کے اعتبار سے اس کا درجہ اس سے کم ہے ،اسی لئے بعض نے اس کو صحیح روایات کے ساتھ ہی ذکر کیا ہے .

السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي، ج1، ص88، تحقيق: عبد الوهاب عبد اللطيف، ناشر: مكتبة الرياض الحديثة - الرياض.

 عبد الرؤوف مناوي کہتا ہے کہ اگر کوئی ایسی دو روایتوں سے احتجاج کرئے جو الگ الگ حجت نہ ہو ،پھر بھی کوئی اشکال نہیں ہے :

الحسن كالصحيح في الاحتجاج به إن كان دونه في القوة. ولا بدع في الاحتجاج بحديث له طريقان، ولو انفرد كل منهما لم يكن حجة كما في مرسل ورد من وجه آخر مسنداً، أو وافقه مرسل آخر بشرطه كما ذكره ابن الصلاح.

«حسن» روايت ،«صحيح» روايت کی طرح ہے ،قوت کے اعتبار سے اس کا مقام کم ہے  اگر کوِئی ایسی روایت سے احتجاج کرئے کہ جس کے دوہی طریق ہو،تو اس نے بدعت کام انجام نہیں دیا ہے اگر چہ یہ دونوں تنہا تنہا حجت نہیں ہوں ،جیساکہ ایک مرسل روایت ،کی  ایک اور مرسل طریق بھی ہو  یا کوئی اور مرسل کہ جو معنی اور شرائط کے اعتبار سے اس کے ساتھ مواق ہو جیساکہ ابن صلاح نے یہی مطلب کہا ہے۔

المناوي، محمد عبد الرؤوف بن علي بن زين العابدين (متوفاي 1031هـ)، اليواقيت والدرر في شرح نخبة ابن حجر، ج1، ص392، تحقيق: المرتضي الزين أحمد، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولي، 1999م.

نتيجه: اگر طبري، حاكم نيشابوري اور متقي هندي کے مبنا قطع نظر کرئے اور   روایت کو صحیح روایت کہنا قابل قبول بھی نہ ہو ،پھر بھی اہل سنت کے دوسرے بزرگوں کے کہے کے مطابق یہ روايت «حسن» ہے ، لیکن پھر بھی اس کی حجت ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اہل سنت کے لئے یہ حجت ہے ۔

لہذا تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دین کو  «باب مدينة علم پيامبر» سے لے.

اميرالمؤمنين(ع) اور«باب مدينة العلم» کا لقب

مذکورہ روایات کے علاوہ بھی اھل سنت کے بزرگوں میں سے بہت ساروں نے اس روایت کی صحت کو تسلیم کرتے ہوئے  امیر المومنین علیہ السلام کو «باب مدينة العلم» کا لقب دیا ہے۔

ابونعيم اصفهاني، انہیں اشخاص میں سے ایک ہے جنہوں نے حدیث «أنا مدينة العلم» کو صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور پھر  اپنی کتاب " حلية الأولياء" میں  علي بن أبي طالب عليه السلام کی زندگی نامے میں لکھا ہے :

علي بن أبي طالب. وسيد القوم محب المشهود ومحبوب المعبود باب مدينة العلم والعلوم....

الأصبهاني، ابونعيم أحمد بن عبد الله (متوفاي430هـ)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج1، ص61، ناشر: دار الكتاب العربي - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ.

ابوسعيد سمعاني نے " الأنساب میں لفظ «شهيد» کے معنی کے بارے میں لکھا ہے ،اس لقب سے سب سے پہلے جو متصف ہوئے وہ  «باب مدينة العلم» کے فرزند حسين بن علي عليهما السلام کی ذات گرامی ہے .

الشهيد. بفتح الشين المعجمة وكسر الهاء وسكون الياء المنقوطة من تحتها بنقطتين وفي آخرها الدال المهملة هذا الإسم اشتهر به جماعة من العلماء قتلوا فعرفوا ب الشهيد أولهم ابن باب مدينة العلم وريحانة رسول الله صلي الله عليه وسلم الشهيد الشهيد الحسين بن علي سيد شباب أهل الجنة.

شهيد: علماء کی ایک جماعت قتل ہوتے تو انہیں شہید کہتے ؛ ان میں سے سب سے پہلے «باب مدينة العلم» کے  بیٹے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزند  اور ان کے دل کا چین ،جنت کے جوانوں کے سردار حسين بن علي...

السمعاني، أبو سعيد عبد الكريم بن محمد ابن منصور التميمي (متوفاي562هـ)، الأنساب، ج3، ص475، تحقيق: عبد الله عمر البارودي، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولي، 1998م

بدر الدين عيني نے شرح صحيح بخاري، میں ابوالوشاء سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اميرالمؤمنن عليه السلام کی خصوصیات میں سے ایک  «رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے شہر علم کا دروازہ ہونا ہے ؛

ومن خواصه أي: خواص علي، رضي الله تعالي عنه، فيما ذكره أبو الشاء: أنه كان أقضي الصحابة، وأن رسول الله، صلي الله عليه وسلم، تخلف عن أصحابه لأجله، وأنه باب مدينة العلم، وأنه لما أراد كسر الأصنام التي في الكعبة المشرفة أصعده النبي صلي الله عليه وسلم برجليه علي منكبيه، وأنه حاز سهم جبريل، عليه الصلاة والسلام، بتبوك.

علي (عليه السلام) کی خصوصیات میں سے ایک جیساکہ ابوالوشاء نے کہا ہے  : آپ اصحاب میں قضاوت کے اعتبار سے سب سے بہتر قضاوت کرتے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کی وجہ سے دوسرے اصحاب سے جدا ہوتے اور ان انتظار کرتے تاکہ اپ کے علم کے شھر کا دروازہ پہنچ جائے  اور جس وقت خانہ کعبہ کے بتوں کو توڑنا چاہا تو ،آپ نے انہیں اپنے کاندھوں پر اٹھایا ،جنگ تبوك میں جبرئيل آپ کی جگے پر جنگ کرنے حاضر ہوا اور کہا میرا حصہ علی (عليه السلام) کے نام ...

العيني الغيتابي الحنفي، بدر الدين ابومحمد محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج16، ص215، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

ملا علي هروي نے امت کے علماء اور اصحاب کے درمیان فھم و درک کے تقابلی جائزے میں لکھا ہے :

أن فهم الصحابي لا سيما مثل علي باب مدينة العلم مقدم علي فهم غيره

فهم صحابه؛ خاص کر  علي (عليه السلام) کہ جو  باب مدينة العلم ہیں ان کا فھم دوسروں کے فھم پر مقدم ہے ۔

ملا علي القاري، نور الدين أبو الحسن علي بن سلطان محمد الهروي (متوفاي1014هـ)، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج4، ص119، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1422هـ - 2001م.

علامه شهاب الدين آلوسي حنفي نے اپنی تفسیر میں کئی جگہوں پر آپ عليه السلام لئے اسی لقب کا ذکر کیا ہے ، ہم اختصار کی خاطر ان میں سے دو نمونے ذکر کرتے ہیں:

تحريف قرآن کے رد میں انہوں نے لکھا ہے :

وبعد إنتشار هذه المصاحف بين هذه الأمة المحفوظة لا سيما الصدر الأول الذي حوي من الأكابر ما حوي وتصدر فيه للخلافة الراشدة علي المرتضي وهو باب مدينة العلم لكل عالم والأسد الأشد الذي لا تأخذه في الله لومة لائم.

ان مصحفوں کے امت میں پھیلنے کے بعد ،خاص کر صدر اول کہ بہت سے بزرگ شخصیات اس دور میں تھیں ، اسی دور میں علي مرتضي نے خلافت کا عہدہ سنبھالا وہی کہ جو ہر عالم کے لئے باب مدينة العلم ، اللہ کا شیر کہ جو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کرتے .

الآلوسي البغدادي الحنفي، أبو الفضل شهاب الدين السيد محمود بن عبد الله (متوفاي1270هـ)، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، ج1، ص23، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

ایک اور جگہ پر لکھتا ہے :

وأن من وهب سبحانه له من أمته قوة قدسية يهب سبحانه له ما تتحمله قوته منه وقد سمعت ما سمعت في النقباء والنجباء ويمكن أن يكون قد علم عليه الصلاة والسلام ذلك أمثالهم ومن هو أعلي قدرا منهم كالأمير علي كرم الله تعالي وجهه وهو باب مدينة العلم بطريق من طرق التعليم.

اگر اللہ امت رسول اللہ (ص) میں سے کسی کو قدرت قدسي دیتا ہے تو وہ اس کی تحمل کی قدرت اور ظرفیت کے مطابق دیتا ہے جو چیزیں نقیبوں اور برگزیدہ شخصیتوں کے بارے میں ہے، ممکن ہے اللہ کے رسول نے ان لوگوں کو یا ان سے بڑے لوگوں کو کچھ بتایا ہو جیسے امير علي (عليه السلام) کہ جو باب مدينة العلم ہے اور تعلیم کی راہوں میں سے ایک راہ ہہں ۔

روح المعاني ج23، ص120

شيخ عبد الحي كتاني اميرالمؤمنین عليه السلام کے علم کے بارے میں لکھتا ہے:

وقال ابن المسيب ما كان أحد يقول سلوني غير علي وقال ابن عباس أعطي علي تسعة اعشار العلم ووالله لقد شاركهم في العشر الباقي قال واذ اثبت الشيء عن علي لم نعدل إلي غيره وسؤال كبار الصحابة له ورجوعهم إلي فتاويه واقواله في المواطن والمعضلات مشهور وناهيك أن انتهاء طرق علوم القوم وسلاسلهم اليه فلست تري من طريقة في الاسلام الا وانتهاؤها اليه ومنتهي سندها عنه رضي الله عنه تصديقا لكونه باب مدينة العلم.

سعيد بن مسيب نے کہا ہے : علي (عليه السلام) کے علاوہ کسی نے یہ ادعا نہیں کیا کہ جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھو ۔۔۔ ابن عباس سے نقل ہوا ہے  ؛ علي (عليه السلام) کو علم کے دس میں سے نو حصہ دیا ہے اور دسویں حصے میں بھی آپ دوسروں کے ساتھ شریک ہیں ۔اسی طرح نقل ہوا ہے کہ کوئی چیز علي (عليه السلام) کے توسط سے ہمارے لئے ثابت ہو ہم اس میں کسی اور کی طرف رجوع نہیں کرتے ۔

اصحاب میں سے بزرگوں کا ان سے سوال اور مشکل اوقات میں ان کے فتوے کی طرف رجوع کرتے تھے ،جان لیں کہ تمام علوم ان پر آکر ختم ہوجاتے ہیں اور آخری سند ان پر آکر ختم ہو جاتی ہے  تاکہ رسول اللہ ص کے اس خبر { انا مدینۃ العلم ۔۔۔} کی تصدیق ہوجائے ۔

الكتاني، عبد الحي بن عبد الكبير (متوفاي1383هـ)، نظام الحكومة النبوية المسمي التراتيب الإدراية، ج2، ص370، ناشر: دار الكتاب العربي - بيروت.

ابن حمدن نقل کرتا ہے کہ أم الخير بنت الحريش البارقية نامی عورت نے معاویہ کے سامنے ایک زبر دست تقریر کی ، اس کے ایک حصے میں ہے:

فإلي أين تريدون رحمكم الله عن ابن عم رسول الله صلي الله عليه وسلم وزوج ابنته وأبي ابنيه، خلق من طينته، وتفرع من نبعته، وخصه بسره، وجعله باب مدينة علمه وعلم المسلمين، وأبان ببغضه المنافقين.

  رسول خدا (ص)،کے چچا زاد بھائی کو چھوڑ کر کہاں جانا چاہتے ہو کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی کا شوہر ہے،ان کے دو بیٹوں کا باب ہیں وہی جو آپ کی طینت سے خلق ہوا ،انہیں کے چشمے سے سیراب ہوئے ،ان کے رازوں کے آمین تھے وہی جن کو رسول اللہ (ص) نے اپنے علم کا دروازہ قرار دیا  اور انہیں تمام مسلمانوں کا علم قرار دیا

لیکن منافقوں نے علی الاعلان ان سے دشمنی کی ۔

ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي 608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج5، ص186 188، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر:دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولي، 1996م.

صلاح الدين صفدي نے كتاب الوافي بالوفيات، میں صفي الدين حلي کا رسول خدا صلي الله عليه وآله کے بارے ایک شعر کو نقل کیا ہے کہ جس میں، باب مدينة العلم کی بات بھی ہوئی ہے وہ اپنا ایک شعر یوں لکھتا ہے

صفي الدين الحلي. عبد العزيز بن سرايا بن علي بن أبي القاسم بن أحمد بن نصر بن أبي العز ابن سرايا بن باقي بن عبد الله بن العريض هو الإمام العلامة البليغ المفوه الناظم الناثر شاعر عصرنا علي الإطلاق صفي الدين الطائي السنبسي الحلي...

اس کے بعد وہ کہتے ہیں :

ونقلت من خطه قصيدة يمدح بها سيدنا رسول الله(ص) الطويل...

میں اس شعر کو نقل کرتا ہوں جس کو میں نے خود ہی لکھا ہے اور اس میں رسول خدا (ص) کی مدح سرائی کی ہے ...

لأنك سر الله والآية التي تجلت فجلي ظلمة الشرك نورها

مدينة علم وابن عمك بابها فمن غير ذاك الباب لم يؤت سورها

... کیونکہ آپ اللہ کی رزواں میں سے ایک راز ہے اور اللہ کی وہ نشانی ہے جو ظاہر اور متجلی ہوئی ہے ،آپ کے نور سے شرک کی تاریکی ختم ہوگئی، آپ علم کا ایک ایسا شہر تھا کہ آپ کے چچا زاد بھائی اس کا دروازہ تھا۔لہذا کوئی بھی دروازے کو چھوڑ کر دیوار سے شھر میں داخل نہیں ہوتے۔

الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج18، ص299، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفي، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.

17 سندہے  ؛ لیکن ضعيفہے !!!

ابن جوزي حنبلي، ان افراد میں سے ایک ہے جنہوں نے  «أنا مدينة العلم» والی حدیث کو ضعیف اور جعلی قرار دینے کی سر توڑ کوشش کی۔

مزے کی بات یہ ہے کہ وہ روایت کو  امير المؤمنين عليه السلام،سے ۵ طریق کے ساتھ  ابن عباس سے دو طریق کے ساتھ ، جابر بن عبد الله سے ۲ طریق کے ساتھ نقل کرتا ہے اور پھر آخر میں یہ نتیجہ لیتا ہے کہ یہ جعلی حدیث ہے ۔

ابن جوزی سے ہمارا سوال : کیا ابوبکر اور عمر کی فضیلت میں اتنی سند اور طرق کے ساتھ کوئی روایت نقل ہوتی تو کیا کو ضعیف قرار دینے کے لئے اتنے جد وجہد کرتا ؟ یا یہ کہتا ؛ کیونکہ یہ روایت مختلف اسناد اور طرق سے نقل ہے لہذا بعض بعض طرق کی تقویت کا باعث ہے ۔اسی لئے ہمیں اس روایت کے صدور پر ایمان اور یقین حاصل ہوتا ہے ۔

جیساکہ محمد امير صنعاني «اقتدوا باللذين من بعدي أبي بكر وعمر» والی روایت کے بارے میں لکھتا ہے :

وله طرق فيها مقال إلا أنه يقوي بعضها بعضا.

الأمير الصنعاني، محمد بن إسماعيل (متوفاي1182هـ)، سبل السلام شرح بلوغ المرام من أدلة الأحكام، ج2، ص11، تحقيق: محمد عبد العزيز الخولي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1379 هـ.

یا جیساکہ ابن حجر عسقلاني ادعا کرتا ہے کہ بعض آيات عمر کے عقیدے اور نظریے کے بعد نازل ہوئی ہیں ۔

وأورد بن أبي حاتم والطبري أيضا من طريق عبد الرحمن بن أبي ليلي أن يهوديا لقي عمر فقال أن جبريل الذي يذكره صاحبكم عدو لنا فقال عمر من كان عدوا لله وملائكته ورسله وجبريل وميكال فإن الله عدو للكافرين فنزلت علي وفق ما قال وهذه طرق يقوي بعضها بعضا۔

اس کے بعض طرق بعض کو تقویت دیتے ہیں

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج8، ص166، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

فضائل خلفاء کے سلسلہ میں بہت سے ایسے فضائل موجود ہیں کہ جو سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں لیکن اھل سنت کے لئے حجت ہے کیونکہ ان میں سے بعض بعض کی تقویت کا باعث ہے .

«أنا مدينة العلم» کی حدیث صحيح ترمذي سے اٹھا لی گئی ہے۔

اهل سنت کے بعض بزرگوں کے نقل کے مطابق  «أنا مدينة العلم و علي بابها» والی حدیث سنن ترمذي میں نقل ہوئی تھی ؛ لیکن کیونکہ یہ حدیث مکتب خلفاء  کے اعتقادات اور مذھبی مزاج کے مطابق نہیں تھی اسی لئے مصلحت اس کو اس کتاب سے ہٹانے میں دیکھی اسی لئے بعد کے ایڈیشنوں میں یہ روایت صحيح ترمذي سے ہٹالی گئی اور سرے سے ذکر ہی نہیں کیا ہے ۔

جن لوگوں نے اس روایت کو صحيح ترمذي سے نقل کی ہیں وہ افراد درج ذیل ہیں :

شاهد اول : ابن اثير جزري (630هـ) :

6489 (ت ـ علي بن أبي طالب رضي الله عنه ) أن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال «أنا مدينة العلم ، و عليُّ بابُها». أخرجه الترمذي.

رسول اللہ (ص) سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا  : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروزہ . اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے .

ابن أثير الجزري، المبارك بن محمد ابن الأثير (متوفاي544هـ)، معجم جامع الأصول في أحاديث الرسول، ، ج7 ، ص437 ، ح 6489 ، تحقيق محمد الفقي ، دار احياء التراث العربي ، بيروت ، الطبعة الرابعة ، 1404هـ.

اسکین ۔ جامع الأصول (پہلا نسخه)

عكس صفحه مورد نظر (پہلا نسخه)

 

اسکین ۔۔ (نسخه دوم)

مورد نظر صفحہ کی تصویر  (دوسرا نسخه)

شاهد دوم : جلال الدين سيوطي (911هـ) :

اهل سنت کے اس بزرگ عالم نے كتاب تاريخ الخلفاء میں نقل کیا ہے  :

وأخرج البزار والطبراني في الأوسط عن جابر بن عبد الله وأخرج الترمذي والحاكم عن علي قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : «أنا مدينة العلم وعلي بابها».

بزار نے اور طبراني نے اوسط میں جابر بن عبد الله سے ، ترمذي اور حاكم نے حضرت علي (عليه السلام) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا  : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ۔ 

السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، تاريخ الخلفاء، ج 1 ، ص 170 ، تحقيق: محمد محي الدين عبد الحميد، ناشر: مطبعة السعادة - مصر، الطبعة: الأولي، 1371هـ - 1952م.

 

اسکین (پہلا نسخه)

 

 

صفحہ کا اسکین (پہلا نسخه)

 

 

اسکین (دوسرا نسخه)

 

 

اسکین (دوسرا نسخه)


 

تیسرا شاھد :احمد بن حجر هيثمي (974هـ) :

انہوں نے الصواعق المحرقه میں لکھا ہے :

الحديث التاسع أخرج البزار والطبراني في الأوسط عن جابر بن عبد الله والطبراني والحاكم والعقيلي في الضعفاء وابن عدي عن ابن عمر والترمذي والحاكم عن علي قال قال رسول الله «أنا من مدينة العلم وعلي بابها»....

روايت نهم : بزار نے ،طبراني نے اوسط میں جابر بن عبد الله انصاري سے ، اور طبراني ، حاكم نے اور عقيلي نے ضعفاء میں ، ابن عدي نے ابن عمر سے ، اور  ترمذي اور حاكم نے علي سے نقل کیا ہے کہ  رسول اللہ (ص) نے فرمایا : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ .

الهيثمي، ابوالعباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج2 ، ص357 ، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولي، 1417هـ - 1997م.

اسکین۔ جلد

 

 

 

چوتھا شاهد: ابن تيميه :

ابن تيميه بھی ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے کہا ہے کہ مدينة العلم والی حدیث سنن ترمذي میں نقل ہوئی ہے  !!!

ومما يروونه عن النبي انه قال «أنا مدينة العلم وعلي بابها»

فأجاب هذا حديث ضعيف بل موضوع عند أهل المعرفة بالحديث لكن قد رواه الترمذي وغيره ومع هذا فهو كذب.

شیعہ جن مطالب کو نقل کرتے ہیں ان میں سے ایک « انا مدينة العلم وعلي بابها» والی روایت ہے ، ابن تيميه جواب میں کہتا ہے  : یہ ضعيف ہے اور اهل معرفت اس روایت کو جعلی سمجھتے ہیں ، اگرچہ اس کو ترمذی اور دوسروں نے جھوٹی روایت ہونے کے باجود نقل کیا ہے !!!

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاي 728 هـ)، احاديث القصاص، ص78، تحقيق: محمد الصباغ، ناشر: المكتب الإسلامي.

 

اسکین

 

 

 

 ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاي 728 هـ)، مجموعة الفتاوي ، ج18، ص216، تحقيق : عامر الجزار / أنور الباز ، ناشر: دار الوفاء.

 

 

 

 

 

 

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاي 728 هـ)، كتب ورسائل وفتاوي شيخ الإسلام ابن تيمية، ج 18، ص377 ، تحقيق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي، ناشر: مكتبة ابن تيمية، الطبعة: الثانية. طبق برنامه الجامع الكبير .

اگر اس کے جعلی ہونے کو ثابت کرسکتے تو سنن ترمذی سے اس کو ہٹایا کیوں؟

حدیث" أنا دار الحکمة۔۔" کے بارے میں ترمذی کے نظریے میں تحریف

سنن ترمذي کے موجودہ نسخوں میں «أنا دار الحكمة وعلي بابها» والی حدیث ذکر ہے:

 

قال رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم أنا دَارُ الْحِكْمَةِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا قال هذا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مُنْكَرٌ

طبري کے نقل کے مطابق ترمذي کی نظر :

محب الدين طبري نے نقل کیا ہے کہ ترمذي کے نذدیک یہ روایت حسن ہے !!!

طبری نے اس روایت کے بارے میں کہا ہے  :

ذكر أنه باب دار الحكمة: عن علي رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ( أنا دار الحكمة وعلي بابها ) أخرجه الترمذي وقال حديث حسن.

 یہ روایت کہ علي حكمت کےگھر کا دروازہ ہیں : خود حضرت علی ع سے نقل ہوا کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا : میں حکمت کا گھر اور علی اس کا دروازہ ہیں.

اس روايت کو ترمذي نے نقل کیا ہے اور اس کو حسن کہا ہے  !!!

الطبري، ابوجعفر محب الدين أحمد بن عبد الله بن محمد (متوفاي694هـ)، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي ، ج1، ص77 ، ناشر : دار الكتب المصرية - مصر. (طبق برنامه الجامع الكبير.

اسکین

صفحہ کے اسکین

 

نتيجه:
«أنا مدينة العلم وعلي بابها» والی روایت  معتبر سندوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے، اهل سنت کے تین بزرگوں نے؛ {محمد بن جرير طبري، حاكم نيشابوري اور متقي هندي نے واضح طور پر اس روایت کو صحيح قرار دیا ہے. اور بہت سے علماء نے اس کو «حسن» کہا ہے. ہم نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ «حسن» روايت ،حجت ہونے کے اعتبار سے «صحيح» کی طرح ہے اس لحاظ سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے ۔

اسی طرح اهل سنت کے بعض بزرگوں نے آپ کو «باب مدينة علم» سے یاد کیا ہے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت کی صحت ان لوگوں کے لئے ثابت شدہ تھی

لیکن ان سب کے باوجود یہ معلوم نہیں کہ لوگ کیوں علي بن أبي طالب سے دور ہوگئے اور وحیانی علوم اور نبی کے علوم کو اس کے دروازے پر آکر حاصل کرنے کے بجائے کھڑکی،دیوار اور چھ سے حاصل  کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔؟

 

 

التماس دعا۔۔۔۔۔

شبهات کے جواب دینے والی ٹیم ۔۔

تحقیقاتی ادارہ حضرت ولی العصر علیہ السلام ۔۔

 

 

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی