2024 March 19
کیا امیر المؤمنین علی (ع) اور حسنین کریمین (ع) نے عثمان کی حمایت و طرفداری کی تھی ؟
مندرجات: ١٨٠٨ تاریخ اشاعت: ٠٢ June ٢٠١٩ - ١٨:٣٧ مشاہدات: 4987
سوال و جواب » امام علی (ع)
کیا امیر المؤمنین علی (ع) اور حسنین کریمین (ع) نے عثمان کی حمایت و طرفداری کی تھی ؟

 

سوال:

کیا امیر المؤمنین علی (ع) اور حسنین کریمین (ع) نے عثمان کی حمایت و طرفداری کی تھی ؟

توضيح سؤال:

بعض لوگ دعوا کرتے ہیں کہ امیر المؤمنین علی (ع) اور اسی طرح امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) نے، جب عثمان اپنے غلط کاموں کی وجہ سے اصحاب کے محاصرے میں تھا، حملہ کرنے والوں سے مقابلہ اور اسکی حمایت و طرفداری کی تھی اور عثمان تک پینے کا پانی بھی پہنچایا تھا۔۔۔۔۔۔

کیا یہ بات صحیح ہے ؟ کیا اس بارے میں صحیح سند کے ساتھ کوئی معتبر روایت شیعہ اور سنی کتب میں ذکر ہوئی ہے یا نہیں ؟

جواب:

اہل سنت کے بعض علماء نے اس بارے میں روایت نقل کی ہے، لیکن یہ روایت سند اور دلالت کے لحاظ سے ضعیف (غیر معتبر) ہے کہ جسکو ہم مختصر طور پر بیان کریں گے:

اس بارے میں اہل سنت کی چند کتب میں ایک روایت ذکر ہوئی ہے کہ جو اس حمایت و طرفداری کو ثابت کرتی ہے۔ اس روایت کو بلاذری نے کتاب انساب الأشراف، ابن شبہ نميری نے کتاب تاريخ المدينہ اور ابن عبد ربہ نے کتاب العقد الفريد میں نقل کیا ہے۔

اسی روایت کو اہل سنت کے بزرگ علماء نے سند کے لحاظ سے ضعیف قرار دیا ہے۔

اصل روايت:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ سُلَيْمَانَ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ الرَّمَادِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارِ بْنِ نُصَيْرٍ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَي بْنِ سُمَيْعٍ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: أَشْرَفَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَي النَّاسِ وَهُوَ مَحْصُورٌ فَقَالَ: أَفِيكُمْ عَلِيٌّ؟ قَالُوا: لا. قَالَ: أَفِيكُمْ سَعْدٌ؟ قَالُوا: لا. فَسَكَتَ، ثُمَّ قَالَ: أَلا أَحَدَ يُبَلِّغُ مَاءً؟ فَبَلَغَ ذَلِكَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ بِثَلاثِ قِرَبٍ مَمْلُوءَةٍ، فَمَا كَادَتْ تَصِلُ إِلَيْهِ حَتَّي جُرِحَ فِي سَبَبِهَا عِدَّةٌ مِنْ مَوَالِي بَنِي هَاشِمٍ وَمَوَالِي بَنِي أُمَيَّةَ حَتَّي وَصَلَتْ إِلَيْهِ.

وَبَلَغَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ عُثْمَانَ يُرَادُ قَتْلُهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَرَدْنَا مِنْهُ مَرْوَانَ، فَأَمَّا قَتْلُهُ فَلا، وَقَالَ لِلْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ: اذهبا بنفسيكما حتي تقوما علي باب دار عثمان فلا تدعا واحدا يصل إليه. وبعث الزبير ابنه وبعث طلحة ابنه علي كره منه، وبعث عدة من أصحاب محمد أبناءهم يمنعون الناس أَنْ يَدْخُلُوا عَلَي عُثْمَانَ، وَيَسْأَلُونَهُ إِخْرَاجَ مَرْوَانَ، فَلَمَّا رَأَي ذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ وَرَمَي النَّاسُ فِيهِمْ بِالسِّهَامِ حَتَّي خُضِّبَ الْحَسَنُ بِالدِّمَاءِ عَلَي بَابِهِ، وَأَصَابَ مَرْوَانَ سَهْمٌ وَهُوَ فِي الدَّارِ، وَخُضِّبَ مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، وَشُجَّ قَنْبَرٌ.

وَخَشِيَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ أَنْ يَغْضَبَ بَنُو هَاشِمٍ لِحَالِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ فَأَخَذَ بِيَدِ رَجُلَيْنِ، وَقَالَ لَهُمَا: إِنْ جَاءَتْ بَنُو هَاشِمٍ فَرَأَوُا الدِّمَاءَ عَلَي وَجْهِ الْحَسَنِ كَشَفُوا النَّاسَ عَنْ عُثْمَانَ، وَبَطَلَ مَا تُرِيدَانِ، وَلَكِنْ مُرَّا بِنَا حَتَّي نَتَسَوَّرَ عَلَيْهِ الدَّارَ، فَنَقْتُلَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَعْلَمَ بِنَا أَحَدٌ.

فَتَسَوَّرَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ وَصَاحِبَاهُ مِنْ دَارِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ حَتَّي دَخَلُوا عَلَي عُثْمَانَ، وَمَا يَعْلَمُ أَحَدٌ مِمَّنْ كَانَ مَعَهُ ؛ لأَنَّ كُلَّ مَنْ كَانَ مَعَهُ كَانَ فَوْقَ الْبُيُوتِ، فَلَمْ يَكُنْ مَعَهُ إِلا امْرَأَتُهُ. فَقَالَ لَهُمَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: مَكَانَكُمَا حَتَّي أَبْدَأَ بِالدُّخُولِ، فَإِذَا أَنَا خَبَطْتُهُ فَادْخُلا فَتُوجِئَاهُ حَتَّي تَقْتُلاهُ.

فَدَخَلَ مُحَمَّدٌ فَأَخَذَ بِلِحْيَتِهِ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ " أَمَا وَاللَّهِ لَوْ رَآكَ أَبُوكَ لَسَاءَهُ مَكَانُكَ مِنِّي ". فَتَرَاخَتْ يَدُهُ، وَحَمَلَ الرَّجُلانِ عَلَيْهِ فَوَجَآهُ حَتَّي قَتَلاهُ، وَخَرَجُوا هَارِبِينَ مِنْ حَيْثُ دَخَلُوا، وَصَرَخَتِ امْرَأَتُهُ فَلَمْ يُسْمَعْ صُرَاخُهَا لِمَا فِي الدَّارِ مِنَ الْجلَبَةِ، فَصَعَدَتِ امْرَأَتُهُ إِلَي النَّاسِ فَقَالَتْ: إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ قُتِلَ.

فَدَخَلَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ وَمَنْ كَانَ مَعَهُمَا فَوَجَدُوا عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَذْبُوحًا فَانْكَبُّوا عَلَيْهِ يَبْكُونَ، وَخَرَجُوا، وَدَخَلَ النَّاسُ فَوَجَدُوهُ مَقْتُولا، وَبَلَغَ عَلِيًّا الْخَبَرُ وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ وَسَعْدًا وَمَنْ كَانَ بِالْمَدِينَةِ، فَخَرَجُوا، وَقَدْ ذَهَبَتْ عُقُولُهُمْ لِلْخَبَرِ الَّذِي أَتَاهُمْ، حَتَّي دَخَلُوا عَلَيْهِ فَوَجَدُوهُ مَذْبُوحًا، فَاسْتَرْجَعُوا.

وَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لابْنَيْهِ: كَيْفَ قُتِلَ وَأَنْتُمَا عَلَي الْبَابِ؟ وَلَطَمَ الْحَسَنَ وَضَرَبَ الْحُسَيْنَ، وَشَتَمَ مُحَمَّدَ بْنَ طَلْحَةَ، وَلَعَنَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَخَرَجَ وَهُوَ غَضْبَانُ يَرَي أَنَّ طَلْحَةَ أَعَانَ عَلَي مَا كَانَ مِنْ أَمْرِ عُثْمَانَ فَلَقِيَهُ طَلْحَةُ، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا أَبَا الْحَسَنِ ضَرَبْتَ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ؟ فَقَالَ: عَلَيْكَ لَعْنَةُ اللَّهِ أَلا يَسُوءُنِي ذَلِكَ يُقْتَلُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ بَدْرِيٌّ لَمْ تَقُمْ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ وَلا حُجَّةٌ ! ! فَقَالَ طَلْحَةُ: لَوْ دَفَعَ إِلَيْنَا مَرْوَانَ لَمْ يُقْتَلْ. فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَوْ أَخْرَجَ إِلَيْكُمْ مَرْوَانَ لَقُتِلَ قَبْلَ أَنْ تَثْبُتَ عَلَيْهِ حُكُومَةٌ.

سعيد ابن مسيب سے نقل ہوا ہے کہ عثمان جب محاصرے میں تھا تو اس نے اپنے گھر کی چھت سے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے سوال کیا:

کیا یہاں پر علی موجود ہے ؟ کہا گیا: نہیں، پھر پوچھا: کیا یہاں پر سعد موجود ہے ؟ کہا گیا: نہیں، پھر عثمان نے کہا: کیا تم میں کوئی ایسا نہیں ہے کہ جو ہم تک پانی پہنچا دے ؟

جب یہ خبر علی (ع) کو ملی تو انھوں نے تین پانی سے بھری مشکیں عثمان تک پہنچا دیں۔ عثمان تک یہ پانی پہنچاتے پہنچاتے بنی ہاشم اور بنی امیہ کے کچھ افراد زخمی ہو گئے اور جب علی (ع) کو خبر ملی کہ مظاہرین عثمان کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو علی (ع) نے کہا:

ہم اس (عثمان) سے مروان کو مانگ رہے ہیں، لیکن ہم عثمان کو قتل نہیں کرنا چاہتے۔ پھر علی (ع) نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) سے فرمایا:

جاؤ عثمان کے دروازے پر جا کر کھڑے ہو جاؤ اور کسی کو بھی اس تک پہنچنے کی اجازت نہ دینا۔ زبیر اور طلحہ نے بھی اپنے اپنے بیٹے کو وہاں بھیج دیا، حالانکہ طلحہ کا بیٹا اس کام پر راضی نہیں تھا۔ بعض اصحاب نے بھی اپنے بیٹوں کو بھیج دیا تا کہ وہ لوگوں کو عثمان کے گھر میں داخل ہونے سے روکیں اور عثمان سے کہیں کہ مروان کو اپنے گھر سے باہر نکال دے۔

محمد ابن ابوبکر دیکھ رہا تھا کہ لوگ انکی طرف تیر برسا رہے ہیں، یہاں تک کہ حسن (ع) گھر کے دروازے کے نزدیک خون سے رنگین ہو گئے، مروان کو گھر کے اندر تیر لگا، محمد ابن طلحہ بھی خون سے رنگ گیا، قنبر کا سر زخمی ہو گیا، محمد ابن ابوبکر ڈر گیا کہ کہیں بنی ہاشم امام حسن (ع) و امام حسین (ع) کی حالت کی وجہ سے غصہ میں نہ آ جائیں، اسی وجہ سے ان دونوں کے ہاتھ کو پکڑ کر ان سے کہا:

اگر بنی ہاشم آئیں اور خون کو حسن (ع) کے چہرے پر دیکھیں تو ناراض ہوں گے، لوگوں کو عثمان تک پہنچنے سے روکیں گے اور تم بھی اپنے ہدف تک نہیں پہنچ پاؤ گے، پس آؤ میرے ساتھ چلو تا کہ دیوار سے اوپر جا کر اسے قتل کر دیں، اسطرح کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا، پس محمد ابن ابوبکر اور اسکے ساتھ دو بندے ایک انصاری کے گھر کی دیوار سے عثمان کے گھر میں داخل ہو گئے، عثمان کے ساتھیوں کو بالکل پتا نہ چلا کہ کوئی گھر میں داخل ہوا ہے کیونکہ عثمان کے گھر میں موجود سب لوگ گھر کی چھت پر تھے اور صرف عثمان کی بیوی گھر کے اندر تھی۔

محمد ابن ابوبكر نے اپنے دو ساتھیوں سے کہا: تم ادھر ہی کھڑے رہو اور میں کمرے کے اندر جاتا ہوں، جب میں نے اسے مارنا شروع کروں تو تم بھی اندر آ جانا تا کہ اسے مل کر اتنا ماریں کہ وہ مر جائے۔

پس محمد بن ابوبكر اندر داخل ہوا اور عثمان کی داڑھی کو پکڑ لیا، عثمان نے اسے کہا: خدا کی قسم اگر تیرا باپ تجھے ایسا کرتے دیکھ لیتا تو غصے سے مر جاتا، محمد نے اسکی داڑھی کو چھوڑ دیا لیکن اسکے دو ساتھیوں نے عثمان پر حملہ آور ہو کر اسے اتنا مارا کہ وہ مر گیا اور جس راستے سے اندر آئے تھے ڈرتے ڈرتے اسی راستے سے باہر فرار کر گئے۔

عثمان کی بیوی نے شور مچایا لیکن گھر میں اتنا شور تھا کہ کسی نے اسکی آواز کو نہ سنا، پھر عثمان کی بیوی لوگوں کے سامنے گئی اور ان سے کہا:

امير المؤمنين (عثمان) قتل ہو گیا ہے،

پس حسن (ع) و حسین (ع) اور انکے ساتھی اندر داخل ہوئے دیکھا کہ عثمان ذبح ہوا زمین پر پڑا ہے، انھوں نے عثمان کے لیے گریہ کیا اور گھر سے باہر چلے گئے۔ پھر دوسرے لوگ گھر کے اندر آئے اور انھوں نے بھی دیکھا کہ عثمان کو قتل کر دیا گیا ہے۔ یہ خبر علی (ع)، طلحہ، زبیر، سعد اور مدینہ کے دوسرے لوگوں تک پہنچی تو وہ سارے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے، یہ خبر سن کر وہ دیوانہ وار عثمان کے گھر میں داخل ہوئے اور وہاں اسے ذبح شدہ پایا، پس سب نے انا لله وإنا اليه راجعون کہنا شروع کر دیا۔

علی (ع) نے اپنے دونوں بیٹوں سے کہا: تم دونوں گھر کے دروازے پر تھے پھر وہ کیسے قتل ہو گیا، پھر علی (ع) نے حسن (ع) اور حسین (ع) کو ایک ایک تھپڑ مارا، محمد ابن طلحہ کو گالی دی اور عبد اللہ ابن زبیر پر لعنت کی۔

علی (ع) شدید غصے کی حالت میں گھر سے باہر چلے گئے، انکا خیال تھا کہ عثمان کو قتل کرنے میں طلحہ کا بھی ہاتھ ہے، طلحہ کا جب علی (ع) سے سامنا ہوا تو اس نے کہا:

اے ابو الحسن آپکو کیا ہوا ہے کہ آپ نے حسن و حسین کو تھپڑ مارا ہے ؟ علی (ع) نے کہا: خدا کی لعنت ہو تم پر میں کیسے غصہ نہ کروں، حالانکہ امیر المؤمنین (عثمان) کو قتل کر دیا گیا ہے، وہ صحابی رسول اور جنگ بدر میں شرکت کرنے والوں میں سے تھا، بغیر کسی وجہ اور دلیل کے لوگوں نے اسکو قتل کر دیا ہے۔ طلحہ نے کہا: اگر مروان کو ہمارے حوالے کر دیتا تو ایسے قتل نہ ہوتا۔ علی (ع) نے کہا: اگر مروان کو تمہارے حوالے کر دیتا تو وہ حکومت ملنے سے پہلے ہی قتل ہو جاتا۔

النميري البصري، ابوزيد عمر بن شبة (متوفي262هـ)، تاريخ المدينة المنورة، ج2، ص301 ش 2363، تحقيق علي محمد دندل وياسين سعد الدين بيان، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1417هـ-1996م.

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفي279هـ)، أنساب الأشراف، ج2، ص284، طبق برنامه الجامع الكبير.

الأندلسي، احمد بن محمد بن عبد ربه (متوفي: 328هـ)، العقد الفريد، ج4، ص273، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1420هـ - 1999م.

نكتہ اول: روايت کی سند ضعيف ہے:

اس روایت پر اصل اشکال اسکی سند پر ہے، محمد ابن عیسی ابن سمیع کو اہل سنت کے بعض علماء نے ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے اس روایت کی سند میں تدلیس (دھوکہ، فراڈ) کیا ہے، یعنی اس نے روایت کو ایک ضعیف شخص سے سنا ہے اور پھر روایت کے ضعیف ہونے کو چھپانے کے لیے، اسکی نسبت ابن ابی ذئب کی طرف دے دی ہے۔

نميری نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے:

وَهَذَا حَدِيثٌ كَثِيرُ التَّخْلِيطِ، مُنْكَرُ الإِسْنَادِ لا يُعْرَفُ صَاحِبُهُ الَّذِي رَوَاهُ عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، وَأَمَّا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ وَمَنْ فَوْقَهُ فَأَقْوِيَاءُ.

یہ ایسی حدیث ہے کہ جس میں سچ کو، سچ اور جھوٹ کے ساتھ ملا دیا گیا ہے، اسکی سند غیر قابل قبول ہے، راوی نے اسے ابی ذئب سے نقل کیا ہے کہ جسے کوئی جانتا ہی نہیں ہے، جبکہ ابی ذئب اور اس سے پہلے والے راوی قوی (معتبر) ہیں۔

النميري البصري، ابوزيد عمر بن شبة (متوفي262هـ)، تاريخ المدينة المنورة، ج2، ص301 ش 2363، تحقيق علي محمد دندل وياسين سعد الدين بيان، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت،

ابراہيم ابن محمد طرابلسی نے محمد ابن عيسی ابن سميع کا نام تدلیس کرنے والوں میں شمار کیا ہے اور واضح کہا ہے کہ اس نے اس روایت کو ابی ذئب سے نہیں سنا بلکہ اس نے اسکو ایک ضعیف راوی سے سنا ہے:

د س ق محمد بن عيسي بن سميع ذكر بن حبان ك انه روي حديث مقتل عثمان عن بن أبي ذئب ولم سمعه منه إنما سمعه عن إسماعيل بن يحيي أحد الضعفاء عنه وكذلك قال صالح بن محمد وغيره.

محمد ابن عيسی ابن سميع: ابن حبان نے کہا ہے اس نے عثمان کے قتل ہونے کی روایت کو ابن ابی ذئب سے نقل کیا ہے، حالانکہ اس نے اس روایت کو اس سے نہیں سنا، بلکہ اس نے اسماعیل ابن یحیی سے سنا ہے کہ جو ایک ضعیف راوی ہے، اسی بات کو صالح ابن محمد اور دوسرے علماء نے بھی ذکر کیا ہے۔

الحلبي الطرابلسي ، أبو الوفا إبراهيم بن محمد بن سبط ابن العجمي (متوفي841هـ) ، التبيين لأسماء المدلسين ، ج1 ص193، رقم: 72، ناشر : مؤسسة الريان للطباعة والنشر والتوزيع – بيروت،

قابل توجہ ہے کہ علمائے اہل سنت نے تدلیس کو جھوٹ کا بھائی قرار دیا ہے اور شدت سے اسکی مذمت کی ہے:

اہل سنت کے مشہور عالم خطيب بغدادی نے تدلیس کے حکم کے بارے میں کہا ہے:

سمعت الشافعي يقول قال شعبة بن الحجاج التدليس أخو الكذب ... قال ثنا غندر قال سمعت شعبة يقول: التدليس في الحديث أشد من الزنا ولأن أسقط من السماء أحب الي من ان ادلس... سمعت المعافي يقول سمعت شعبة يقول لأن أزني أحب الي من ادلس... سمعت الحسن بن علي يقول سمعت أبا أسامة يقول خرب الله بيوت المدلسين ما هم عندي الا كذابون.

میں شافعی کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ شعبہ ابن حجاج نے کہا تھا: تدلیس کو جھوٹ کا بھائی ہے،

غندر نے کہا ہے: میں نے شعبہ کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ: حدیث میں تدلیس کرنا، زنا کرنے سے بدتر ہے، میرے لیے آسمان سے گرنا تدلیس کرنے سے بہتر ہے،

 میں سے شعبہ سے سنا تھا کہ: میرے لیے زنا کرنا، تدلیس کرنے سے بہتر ہے

، میں نے ابو اسامہ سے سنا تھا کہ: خدا تدلیس کرنے والوں کے گھروں کو منہدم کرے کیونکہ وہ میرے نزدیک جھوٹے ہیں۔

البغدادي، ابوبكر أحمد بن علي بن ثابت الخطيب (متوفي463هـ)، الكفاية في علم الرواية، ج 1، ص355 ـ 356 ، تحقيق: ابوعبدالله السورقي، إبراهيم حمدي المدني، ناشر:المكتبة العلمية - المدينة المنورة.

پس محمد ابن عيسی ابن سميع مدلسین میں سے تھا اور اس روایت کو اس نے ایک ضعیف راوی سے سنا تھا لیکن اس نے جھوٹ کہا کہ میں نے اس روایت کو ابن ابی ذئب سے سنا ہے تا کہ سند کے ضعیف ہونے کو مخفی کر سکے۔

نتیجے کے طور پر امیر المؤمنین علی (ع) کا عثمان کے لیے پانی لانا، امام حسن (ع)، امام حسین (ع) اور بنی ہاشم کا عثمان کا دفاع کرنا اور عثمان کا دفاع کرتے ہوئے امام حسن (ع) کا زخمی ہونا وغیرہ وغیرہ سب کا سب جھوٹ ثابت ہو جائے گا۔

نكتہ دوم: اس روایت میں قابل توجہ نکات:

اس روایت میں وہ ظریف نکات ذکر ہوئے ہیں کہ اہل سنت بالکل انکو ذکر نہیں کرتے اور بعض نکات ایسے ہیں کہ جنکا جھوٹ اور جعلی ہونا، روز روشن کی واضح ہے۔

جیسے اس روایت میں آیا ہے کہ امیر المؤمنین علی (ع) نے محمد ابن طلحہ کو گالی دی اور عبد اللہ ابن زبیر و طلحہ ابن عبید اللہ پر لعنت کی۔

اگر المؤمنین علی (ع) نے طلحہ اور عبد اللہ ابن زبیر پر لعنت کی ہے تو یہ دونوں صحابی ہیں، پس کیوں اہل سنت اس قدر ان دونوں کی حمایت کرتے ہیں ؟ !

اس روایت میں آیا ہے کہ امیر المؤمنین علی (ع) کا خیال تھا کہ طلحہ بھی عثمان کے قتل میں شریک تھا۔

ایسی باتیں اہل سنت کے اعتقادات کے لیے بہت ہی خطرناک ہیں کیونکہ اس سے انکے 1400 سال کے تمام صحابہ کے عادل ہونے کا عقیدہ کلی طور پر نابود ہو جاتا ہے۔ 

اس لیے کہ جو طلحہ ایک صحابی یعنی عثمان کے قتل میں شریک ہو، وہ خود کیسے عادل ہو سکتا ہے ؟!

اسی طرح اس روایت میں ذکر ہوا ہے کہ محمد ابن ابی بکر بھی مستقیم طور پر عثمان کے قتل میں شریک تھا، حالانکہ بعض اہل سنت دعوا کرتے ہیں کہ اسکا ، عثمان کو قتل کرنے میں کوئی کردار نہیں تھا اور حتی جب اسکو عثمان کے قتل ہونے کی خبر ملتی ہے تو اسکو بہت افسوس ہوتا ہے اور وہ اسکے قاتلوں پر حملہ بھی کرتا ہے۔

اس روایت میں عبد اللہ ابن سبا اور اسکے حیرت انگیز معجزات کے بارے میں کوئی ذکر نہیں ملتا، حالانکہ وہابی دعوا کرتے ہیں کہ قتل عثمان میں اصلی کردار اسی عبد اللہ ابن سبا کا تھا !!!

نكتہ سوم: امير المؤمنین علی (ع) نے ان بے گناہوں کو کہ جو عثمان کے گھر میں تھے، پناہ دی تھی، نہ کہ عثمان کو:

چلیں فرض کر لیتے ہیں کہ امیر المؤمنین علی (ع) نے اپنے بیٹوں کو عثمان کے گھر کی حفاظت کے لیے بھیجا تھا یا خود وہ حضرت صحابہ کی طرف سے پانی بند کرنے کے بعد عثمان کے لیے پانی لے کر گئے تھے وغیرہ وغیرہ، لیکن کسی کو کیا معلوم کہ علی (ع) نے یہ کام خود عثمان کے دفاع کے لیے انجام دئیے تھے ؟!

بے شک عثمان کے گھر میں اسکی بیویاں، کنیزیں اور بچے بھی موجود تھے کہ جنکا عثمان کے غلط کاموں سے کوئی تعلق نہیں تھا، لہذا ان سب کو عثمان کے گناہوں کی سزا نہیں ملنی چاہیے کہ وہ پیاس سے ہلاک ہو جاتے۔ امیر المؤمنین علی (ع) نے انکی جان بچانے اور ان تک پانی پہنچانے کی کوشش کی تھی نہ عثمان کے لیے۔

قابل ذکر ہے کہ اتفاق سے اہل سنت کی کتب میں صحیح سند کے ساتھ روایت موجود ہے کہ جو اس مطلب کو ثابت کرتی ہے۔ ام المؤمنین ام حبیبہ زوجہ رسول خدا (ص) کہ جو بنی امیہ سے تھی، وہ محاصرے میں موجود افراد کو نجات دینے کے لیے آئی اور امیر المؤمنین علی (ع) سے درخواست کی کہ محاصرے میں موجود افراد کو میرے حوالے کر دیں، امام نے مکمل عزم کے ساتھ فرمایا کہ عثمان اور سعید ابن العاص کے علاوہ باقی تمام افراد تیری پناہ میں ہیں۔ (یعنی بے فکر رہو ان دو کے علاوہ باقی افراد کو کچھ نہیں ہو گا)۔

اصل روايت:

ابن شبہ نميری نے کتاب تاريخ المدينۃ میں لکھا ہے:

حَدَّثَنَا مُوسَي بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قال: حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ (ص) وَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حِينَ حُصِرَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حُمِلَتْ حَتَّي وُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي خِدْرِهَا وَهُوَ عَلَي الْمِنْبَرِ، فَقَالَتْ: " أَجِرْ لِي مَنْ فِي الدَّارِ ". قَالَ: نَعَمْ إِلا  نَعْثَلا وَشَقِيًّا، قَالَتْ: " فَوَاللَّهِ مَا حَاجَتِي إِلا عُثْمَانُ، وَسَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ ". قَالَ: مَا إِلَيْهِمَا سَبِيلٌ. قَالَتْ: " مَلَكْتَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ فَأَسْجِحْ "، قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ مَا أَمَرَكِ اللَّهُ وَلا رَسُولُهُ.

ماجشون نے روايت نقل کی ہے کہ ام حبیبہ زوجہ رسول خدا (ص) جب عثمان محاصرے میں تھا۔ اپنے حجاب میں علی (ع) کے پاس آئی، اس حالت میں کہ وہ حضرت منبر پر بیٹھے تھے، اور کہا: جو عثمان کے گھر میں افراد ہیں، انھیں میری پناہ میں قرار دیں، حضرت نے فرمایا: نعثل (عثمان) اور شقی (سعید ابن العاص) کے علاوہ۔

ام حبيبہ نے کہا: در اصل میں ان دونوں کو ہی اپنی پناہ میں لینا چاہتی ہوں، حضرت نے فرمایا: ان دو کو تم آزاد نہیں کرا سکتی، ام حبیبہ نے کہا تم ابو طالب کے بیٹے ہو اب تم غالب آ گئے ہو تو انکو معاف کر دو، حضرت نے فرمایا: خدا کی قسم، خداوند اور اسکے رسول نے تم کو ہرگز ایسا کام کرنے کا حکم نہیں دیا۔

النميري البصري، ابوزيد عمر بن شبة (متوفي262هـ)، تاريخ المدينة المنورة، ج 2، ص219 ح 2019، تحقيق علي محمد دندل وياسين سعد الدين بيان، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت۔

بحث سندی:

اس روایت کی سند مکمل طور پر صحیح اور اسکے تمام راوی ثقہ (معتبر) ہیں:

ابو سلمۃ، موسی ا بن اسماعيل:

یہ محمد ابن اسماعيل بخاری کا استاد ہے، ذہبی نے اسکے بارے میں لکھا ہے:

موسي بن إسماعيل أبو سلمة التبوذكي الحافظ عن شعبة وهمام وخلق وعنه البخاري وأبو داود وابن الضريس وابن أبي عاصم سبطه قال عباس الدوري كتبنا عنه خمسة وثلاثين ألف حديث قلت ثقة ثبت مات 223 ع

موسی ابن اسماعيل، حافظ ( جسکو ایک لاکھ احادیث حفظ ہوں) تھا، اس نے شعبہ، ھمام سے روایت نقل کی ہے اور بخاری ابوداود نے حدیث کو اس سے سنا ہے، عباس دوری نے کہا ہے: میں نے اس سے 35 ہزار احادیث کو لکھا ہے، میں (ذہبی) کہتا ہوں کہ وہ ثقہ اور مورد اعتماد ہے۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج2 ص301، رقم: 5677 ،

يوسف  ابن يعقوب:

یہ کتاب بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ کے راویوں میں سے ہے، ذہبی نے اسکے بارے میں لکھا ہے:

يوسف بن يعقوب بن أبي سلمة الماجشون أبو سلمة المدني عن أبيه والمقبري والزهري وعنه أحمد ومسدد ثقة مات 185 خ م ت س ق .

يوسف ابن يعقوب نے اپنے والد، مقبری اور زہری سے روایت کو سنا ہے اور احمد ابن حنبل نے اس سے روایت کو نقل کیا ہے، وہ ثقہ راوی ہے۔

الكاشف ج2 ص402، رقم: 6459

يعقوب ابن ابی سلمۃ:

یہ بھی کتاب صحيح مسلم، ابوداود، ترمذی اور ابن ماجہ کے راویوں میں سے ہے، ابن حجر عسقلانی نے اسکے بارے میں لکھا ہے:

يعقوب بن أبي سلمة الماجشون التيمي مولاهم أبو يوسف المدني صدوق من الرابعة مات بعد العشرين م د ت ق .

يعقوب ابن ابی سلمۃ روایت نقل کرنے میں سچا (معتبر) تھا۔

تقريب التهذيب ج1 ص608، رقم: 7819

اس روایت میں اہم نکتہ یہ ہے کہ امیر المؤمنین علی (ع) نے عثمان کو نعثل کے نام سے یاد کیا ہے۔ یہ وہ لقب ہے کہ جو اکثر اصحاب عثمان کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔

نعثل ایک یہودی شخص تھا کہ جو لمبے قد، لمبی داڑھی، خوفناک چہرے اور بہت احمق تھا، جب بھی کوئی کسی کا مذاق اڑانا چاہتا تھا تو وہ اسے نعثل کہا کرتا تھا۔

نكتہ چہارم: امير المؤمنین علی (ع) نے قسم کھائی تھی کہ عثمان کا دفاع نہیں کریں گے:

کتب اہل سنت میں روایات موجود ہیں کہ جو بتاتی ہیں کہ جب عثمان نے امیر المؤمنین علی (ع) پر تہمت لگائی کہ آپ نے میرے والی (حاکم) کو خط لکھا ہے تو ان حضرت نے غصے میں قسم کھائی کہ میرا اور تیرا سامنا روز قیامت خدا کی بارگاہ میں ہو گا اور اس وقت تک ہرگز میں تمہارا دفاع نہیں کروں گا۔

ابن شبہ نميری نے کتاب تاريخ المدينہ میں اس بارے میں دو روايت کو نقل کیا ہے:

روايت اول:

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحُبَابِ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ هَارُونَ بْنِ عَنْتَرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ مِنْ أَمْرِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا كَانَ قَدِمَ قَوْمٌ مِنْ مِصْرَ مَعَهُمْ صَحِيفَةٌ صَغِيرَةُ الطَّيِّ، فَأَتَوْا عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالُوا: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ غَيَّرَ وَبَدَّلَ، وَلَمْ يَسِرْ مَسِيرَةَ صَاحِبَيْهِ، وَ كَتَبَ هَذَا الْكِتَابَ إِلَي عَامِلِهِ بِمِصْرَ، أَنْ خُذْ مَالَ فُلانٍ وَاقْتُلْ فُلانًا وَسَيِّرْ فُلانًا، فَأَخَذَ عَلِيٌّ الصَّحِيفَةَ فَأَدْخَلَهَا عَلَي عُثْمَانَ، فَقَالَ: أَتَعْرِفُ هَذَا الْكِتَابَ؟ فَقَالَ: " إِنِّي لأَعْرِفُ الْخَاتَمَ "، فَقَالَ: اكْسِرْهَا فَكَسَرَهَا.

فَلَمَّا قَرَأَهَا، قَالَ: " لَعَنَ اللَّهُ مَنْ كَتَبَهُ وَمَنْ أَمْلاهُ ".

فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَتَتَّهِمُ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ بَيْتِكَ؟ قَالَ: " نَعَمْ ".

قَالَ: مَنْ تَتَّهِمُ؟ قَالَ: " أَنْتَ أَوَّلُ مَنْ أَتَّهِمُ "، قَالَ: فَغَضِبَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَامَ، وَقَالَ: وَاللَّهِ لا أُعِينُكَ وَلا أُعِينُ عَلَيْكَ حَتَّي أَلْتَقِيَ أَنَا وَأَنْتَ عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ.

عبد الملک ابن ہارون نے اپنے والد اور اس نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جب عثمان کے لیے وہ حوادث پیش آئے تھے تو مصر سے چند لوگ اپنے ساتھ ایک خط لیے مدینہ آئے۔ مدینہ آ کر وہ علی (ع) کے پاس گئے اور کہا: اس مرد (عثمان) نے (سنت پیغمبر کو) تبدیل کر دیا ہے اور اپنے دونوں دوستوں (ابوبکر و عمر) کے راستے سے ہٹ گیا ہے، اس نے یہ خط مصر میں اپنے والی کو لکھا ہے کہ فلاں سے اسکا مال لے لو، فلاں کو قتل کر دو اور فلاں کو مصر سے جلا وطن کر دو وغیرہ وغیرہ۔

علی (ع) وہ خط لے کر عثمان کے پاس گئے اور اس سے کہا: تمہیں اس خط کے بارے میں کچھ پتا ہے ؟ عثمان نے کہا مجھے اسکی مہر کے بارے میں پتا ہے، پھر کہا اس خط کو کھولو، جب کھولنے کے اسے پڑھا گیا تو اس نے کہا: خداوند کی لعنت ہو اس پر جس نے لکھا ہے اور جس نے لکھوایا ہے۔

پس علی (ع) نے اس سے کہا: کیا تمہیں اپنے خاندان کے کسی شخص پر شک ہے ؟ اس نے کہا: ہاں، علی (ع) نے پوچھا وہ کون ہے ؟ عثمان نے کہا: وہ تم ہو ! راوی کہتا ہے: علی (ع) غصے کی حالت میں کھڑے ہو گئے اور کہا:

خدا کی قسم میں تمہاری نہ کوئی مدد کروں گا اور نہ ہی تمہارے خلاف کوئی کام کروں گا، یہاں تک کہ میری اور تمہاری خداوند کی بارگاہ میں ملاقات ہو جائے۔

النميري البصري، ابوزيد عمر بن شبة (متوفي262هـ)، تاريخ المدينة المنورة، ج 2، ص212، ح2008، تحقيق علي محمد دندل وياسين سعد الدين بيان، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت۔

روايت دوم:

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْوَقَّاصِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَجَعَ أَهْلُ مِصْرَ إِلَي الْمَدِينَةِ قَبْلَ أَنْ يَصِلُوا إِلَي بِلادِهِمْ، فَنَزَلُوا ذَا الْمَرْوَةِ فِي آخِرِ شَوَّالٍ، وَبَعَثُوا إِلَي عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ أَعْتَبَنَا، ثُمَّ كَتَبَ يَأْمُرُ بِقَتْلِنَا، وَبَعَثُوا بِالْكِتَابِ إِلَي عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَدَخَلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَي عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالْكِتَابِ، فَقَالَ: مَا هَذَا يَا عُثْمَانُ؟ فَقَالَ: " الْخَطُّ خَطُّ كَاتِبِي، وَالْخَاتَمُ خَاتَمِي، وَلا وَاللَّهِ مَا أَمَرْتُ وَلا عَلِمْتُ ".

قَالَ: " أَتَّهِمُكَ وَكَاتِبِي ".

فَغَضِبَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَالَ: وَاللَّهِ لا أَرُدُّ عَنْكَ أَحَدًا أَبَدًا

ابراہيم ابن محمد ابن سعد نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ مصر کے لوگ مدینہ سے واپس آ گئے، وہ لوگ اپنے اپنے شہروں میں پہنچنے سے پہلے، ماہ شوال کے آخر میں ذا المروہ کے مقام پر گئے، انھوں نے کسی شخص کو علی (ع) کے پاس بھیجا اور کہا کہ عثمان پہلے تو ہماری سرزنش کیا کرتا تھا اور اب خط لکھ کر ہمارے قتل کرنے کا حکم دیتا ہے، انھوں نے خط کو علی (ع) کے لیے بھیجا۔ علی (ع) وہ خط لے کر عثمان کے پاس گئے اور کہا: اے عثمان یہ کیا ہے ؟ عثمان نے کہا: یہ میرا خط ہے اور میں نے لکھا ہے، لیکن خدا کی قسم میں نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا اور اسکا مجھے کوئی پتا نہیں ہے پھر اس نے علی (ع) سے کہا: میں تمہیں اور اپنے کاتب کو متہم کرتا ہوں، پس علی (ع) خشمگین ہو گئے اور فرمایا: خدا کی قسم میں کسی کو بھی تجھ تک پہنچنے سے نہیں رکوں گا، (یعنی تم پر ہونے والے حملے میں رکاوٹ نہیں بنوں گا۔

النميري البصري، ابوزيد عمر بن شبة (متوفي262هـ)، تاريخ المدينة المنورة، ج 2، ص212، ح2009، تحقيق علي محمد دندل وياسين سعد الدين بيان، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت،

اسی طرح عبد الرزاق صنعانی نے ایک دوسری روايت کو اپنی کتاب امالی میں نقل کیا ہے کہ امیر المؤمنین علی (ع) اور عثمان نے ایک دوسرے کو گالیاں بھی دیں تھیں:

أنا مَعْمَرٌ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: " شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اسْتَبَّا بِسِبَابٍ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا اسْتَبَّ بِمِثْلِهِ، وَلَوْ كُنْتُ مُحَدِّثًا بِهِ أَحَدًا لَحَدَّثْتُكَ بِهِ، قَالَ: ثُمَّ نَظَرْتُ إِلَيْهِمَا يَوْمًا آخَرَ فَرَأَيْتُهُمَا جَالِسَيْنِ فِي الْمَسْجِدِ، أَحَدُهُمَا يَضْحَكُ إِلَي الآخَرِ.

سعيد ابن مسيب سے روايت ہوئی ہے کہ میں نے ایک دن علی (ع) اور عثمان کو دیکھا کہ ایسی ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے تھے کہ آج تک میں نے ویسی گالیاں نہیں سنی تھیں، پھر کہا لیکن ایک دوسرے دن میں نے ان دونوں کو دیکھا کہ وہ مسجد میں بیٹھے ہنس رہے تھے۔

الصنعاني، ابوبكر عبد الرزاق بن همام (متوفي211هـ)، الأمالي في آثار الصحابة، ج 1، ص70، ح91 ، تحقيق : مجدي السيد إبراهيم ، ناشر : مكتبة القرآن - القاهرة .

نتیجہ بحث و تحقیق:

امير المؤمنین علی، امام حسن اور امام حسين عليہم السلام نے عثمان اور اسکے گھر کا کسی قسم کا کوئی دفاع نہیں کیا تھا۔ بعض اہل سنت کے علماء بنی امیہ سے اپنی وفاداری اور اسلام سے اپنی خیانت کو ثابت کرنے کے لیے جعلی اور جھوٹی روایات گھڑتے رہتے ہیں۔

اگر فرض بھی کریں کہ وہ اسکے گھر کے سامنے حاضر ہوئے تھے تو وہ اسکے گھر میں موجود بے گناہ افراد کی جان کی بچانے کے لیے حاضر ہوئے تھے نہ کہ عثمان کی جان بچانے کے لیے۔ اہل سنت اور وہابی ان غلط قصے کہانیوں سے رسول خدا (ص) کے اہل بیت اور ظالم، فاسق اور غاصب صحابہ کے درمیان تعلقات کے اچھا ہونے کو ہرگز ثابت نہیں کر سکتے۔

التماس دعا۔۔۔۔۔

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات