2023 June 3
آراء کی فہرست

سے: تک: عبارت کو شامل: عبارت کی جگہ: مشاہدات کی تعداد:

1
مندرجات کا کوڈ: 1990 - عنوان: حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے خلیفہ بلا فصل ہونے اور آپ کی امامت کے دلائل کا خلاصہ ۔
مکمل نام : Asim - تاریخ اشاعت: 13:28 - 15 January 2023
خلیفہ بلا فصل پہلے خلیفے افضل البشر بعد از انبیاء ( حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) ھیں

میرا ایمان ہے
نعوذباللّٰه (اگر حضرت علی علیہ السلام سے زبردستی خلافت لی ہوتی تو کوئی صحابی بھی حضرت علی علیہ السلام کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا)
خود حضرت علی علیہ السلام نے پہلے تینوں خلیفہ کی بیعت کی ھے
جواب:
 سلام علیکم۔۔
 
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب ابوبکر کو اپنا جانشین اور خلیفہ نہیں بنایا ۔۔ لہذا ان کو اللہ اور اللہ کے رسول کا بنایا ہوا اور منتخب کیا ہوا خلیفہ کہنا صحیح نہیں ہے اور ایسا اعقاد رکھنا اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف غلط نسبت ہے ۔۔۔
 لہذا ان کو خلیفہ بلافصل کہنا اس عنوان سے نہیں ہوسکتا کہ جناب ابوبکر اللہ اور اللہ کے رسول کا انتخاب کیا ہوا اور بنایا ہوا خلیفہ ہے۔
 
 
جہاں تک اصحاب کا بعد از رسول انہیں خلیفہ بنانے کی بات ہے تو
پہلی بات تو یہ ہے  کہ  ان کی خلافت کو کوئی نہ ماننے تو وہ اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کی مخالفت شمار نہیں ہوگی ۔۔۔
دوسرے الفاظ میں اس انکار کو اللہ اور اللہ کے رسول کے انتخاب کا انکار اور نافرمانی کہنا صحیح نہیں ہے ۔۔۔۔
 
دوسری بات : لوگوں کے انتخاب کو خلیفہ بلا فصل کہنااور اس پر اپنا عقیدہ بنانا اور اس خلافت پر  ایمان کو لازمی سمجھنا بے معنی ہے ،کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہاں یہ کہہ سکتا ہے کہ لوگوں نے اپنے لئے ایک حاکم کا انتخاب کیا  اب لوگوں کے اس انتخاب کو ایمان کا حصہ بنانا اور اس پر اعقاد نہ رکھنے کو گمراہ سمجھنا سمجھ سے باہر ہے۔۔۔۔ 
جہاں تک ان کے انتخاب پر اجماع وغیرہ کا تعلق ہے تو پہاں بھی اجماع نام کی کوئی چیز نہیں ہے نہ کسی سے ان کے انتخاب کے لئے مشورہ لیا گیا ہے نہ کسی کو ان کی بیعت کرنے یا نہ کرنے کے لئے آزاد چھوڑا ہے ۔۔۔۔۔
 
 
دیکھیں www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php خلفاء کو اپنی خلافت پر یقین نہیں تھا
www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php خلفاء کے بارے میں امیر المومنین علیہ السلام کا موقفwww.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php خلیفہ بلا فصل علی ابن ابی طالب[ع] ہی ہیں
 
 

2
مندرجات کا کوڈ: 2223 - عنوان: کیا شیعہ ختم نبوت کے منکر ہیں۔۔۔۔۔۔ شیعہ نظریہ امامت اور ختم نبوت۔۔۔۔۔۔۔۔
مکمل نام : محمد علی جوھری - تاریخ اشاعت: 10:52 - 10 December 2022
اھل سنت کے کون کونسے علما شیعوں پرختم نبوت کی بحث میں اشکال کرتے ہیں ؟
آیا علامہ مودودی نے اس حوالے سے شیعہ نظریات کے خلاف کوئی بات کی ھے ؟
جواب:
 سلام علیکم۔۔۔
اہل سنت کے شیعہ نظریات سے مکمل آگاہی نہ رکھنے والے لوگ اس سلسلے میں شیعوں پر ختم نبوت کے منکر ہونے کا الزام لگاتے ہیں ، کسی موضوع کی ایک بات کو لے کر اس کی خودساختہ تفسیر کر کے اپنی خود ساختہ تفسیر کو شیعوں کا عقیدہ کہتے ہیں اور پھر شیعہ پر الزام تراشی کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ اپنی من پسند کی تفسیر  پر اعتراض ہے شیعہ عقیدہ ختم نبوت پر اعتراض نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مودودی صاحب کے اس سلسلے میں نظریات کے بارے ہمارے پاس فلحال معلومات نہیں،

3
مندرجات کا کوڈ: 749 - عنوان: شخصیت و فضائل حضرت حجت ابن الحسن، امام زمان (عج)
مکمل نام : عمار یاسر - تاریخ اشاعت: 12:02 - 08 September 2022
کیا امام زماں کی حجیت قرآن کی آیت سوری نساء آیت نمںر165 کے منافی نھی مفصل جواب عنایت فرمائیں
جواب:
 سلام علیکم ۔۔۔۔
 
آپ اسی سائٹ کی اس نیچے کی لینگ پر کلیک کریں ۔۔ انشاء اللہ جواب مل جائے گا۔۔
 
 
کیا امام زمان (ع) کا حجت ہونا، قرآن کریم کی آیت « رسلا مبشرين و منذرين لئلا يكون للنّاس علي الله حجّة بعْد الرسلِ » کے خلاف نہیں ہے ؟

4
مندرجات کا کوڈ: 1748 - عنوان: عاشورہ کے دن روزہ رکھنا سنت محمدی یا بدعت اموی
مکمل نام : ابن آدم - تاریخ اشاعت: 12:36 - 09 August 2022
یہ کہنا کہ عید سمجھ کر روزہ رکھتے تھے۔۔۔ سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ کسی عید پر روزہ نہ یہود میں ہے نہ نصاریٰ میں نہ اسلام میں۔
پھر یہ مسئلہ بھی ہے کہ تقیہ کی وجہ سے روایات ہی کیا شخصیات ہی مشکوک ہیں کہ کب وہ تقیہ فرما رہی ہوں کیا معلوم؟
تقیہ ایک اوور ایگزیجیریٹڈ کنسپٹ ہے۔ اور یہ خود آئمہ اہل بیت اطہار علیھم السلام کی شان کے خلاف ہے کہ امام ہی جھوٹ بول دے تو کردار حسینی کہاں گیا؟
جواب:
 سلام علیکم۔۔۔۔۔۔
محترم مقالے کا مکمل مطالعہ کر کے علمی انداز میں نقد و اعتراض کریں ۔۔۔۔شکریہ
باقی تقیہ کا معنی جھوٹ نہیں ۔تقیہ کا جواز قرآن میں ہے ۔۔۔ جناب عمار یاسر کے خاندان کا واقعہ مسلمانوں کی تاریخی مسلمات میں سے ہے۔
اصحاب ،تابعین اور اہل سنت کے مشہور علماء تقیہ کرتے تھے  اور اس کو جائز سمجھتے تھے ۔۔۔

5
مندرجات کا کوڈ: 179 - عنوان: حضرت علی [علیہ السلام] کی شہادت پر عائشہ کی خوشی
مکمل نام : اسرار - تاریخ اشاعت: 22:25 - 07 August 2022
و اواجہ امھتھم
اور پیغمبر کی ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں ہیں۔
براہ کرم شیعہ لوگ اپنے آپ کو مومن کہنا چھوڑ دیں
کیا کوئی اپنی ماں پر بھی بہتان طراشی کرسکتا ہے؟
افسوس ہے آپ لوگوں پر!
جواب:
 سلام علیکم محترم ۔۔
کاش شیعوں پر الزام تراشی سے پہلے تحریر کا بغور مطالعہ کرتے ۔محترم تحریر میں کسی شیعہ کتاب کا حوالہ موجود نہیں ۔۔۔ سب اہل سنت کے ہی بزرگوں کی لکھی ہوئی کتابوں کی باتیں ہیں۔۔۔۔  جناب یہاں الٹی کنگا بہتی ہے ؟

6
مندرجات کا کوڈ: 124 - عنوان: آیت تطہیر اور آیت حضرت ابراہیم علیہ السلام میں اہل بیت سے مراد کون ہیں؟
مکمل نام : عینہ - تاریخ اشاعت: 09:49 - 07 August 2022
استغفر اللّٰہ ، نعوذ بااللہ کیسے تقیہ باز منافق احادیث کا غلط مطلب لوگوں تک پہنچاتے ہیں ، قرآن نے اہل بیت ازواجِ مطہرات کو کہا ہے ، نبی کی تمام اولاد جلد ہی جہان فانی سے رخصت ہو چکی تھی سوائے حضرت فاطمہ زہرہ کے ۔ نبی کریمﷺ نے علی اور ان کے گھرانے کو دعا مانگ کر اہل بیت میں شامل کرایا۔ اور ام سلمہ والی روایت میں کہاں لکھا ہے تم اہل بیت میں نہیں ہو ؟ وہ تو اہل تشیع نے خود لکھا ہے ایک خانے میں اپنی طرف سے ۔حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے تم خیر پر ہو یعنی اہل بیت میں سے ہو۔ اہل بیت کی سب سے زیادہ مصداق در حقیقت ازواجِ مطہرات ہی ہیں ۔ اگر کوئی ان کے زکر سے محروم رہتا ہے تو رہے اللہ نے نجاست سے اہل بیت کو دور ہی رکھا ہے
جواب:
 سلام علیکم محترمہ 
 
سخت الفاظ اور کسی کی توہین سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ۔۔ ایسا کرنا خود اسی کی کم علمی پر دلیل تو ہوسکتا ہے اپنے مخالف کے نظریے کے بطلان پر دلیل نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ 
آپ کی معلومات میں اضافے کے لئے  اسی سایٹ پر موجود ایک اور تحریر کی لینگ دیتا ہوں اسی میں آپ کے اعترضات کا جواب بھی ہے ۔۔۔۔
 

7
مندرجات کا کوڈ: 836 - عنوان: شیعوں نے امیر المؤمنین علی (ع) پر وہابیوں کی طرف سے شراب پینے کی تہمت کا کیا جواب دیا ہے ؟
مکمل نام : انس - تاریخ اشاعت: 21:49 - 11 April 2022
استغفراللہ!جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔اور پھر کھتے ہو ہمیں کافر نہ کہو جبکہ دنیا کی غلیظ ترین قوم شیعہ قوم ہے جو قرآن کو بھی پورا نہیں مانتے۔ایک انڈیا کا شیعہ جس نے عدالت میں ایک درخواست جمع کرائی تھی۔ان کا کہنا تھاکہ قرآن میں جو آیات جنگ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں وہ عمر رضہ نے زبردستی لکھوایا ہے(نعوذبااللہ)۔
اب ایسے لوگوں کو جو قرآن کے منکر ہیں ان کو کافر نہیں تو اور کیا کہیں گے؟
ہمارے پیارے نبی نے فرمایا
"لوکان بعد انبی لکان عمر۔"ترجمہ:اگرمیرے بعد کوئ نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔
الحمداللہ ہم اہلبیت اور اصحاب مصطفی سب سے محبت کرتے ہیں اور ان کی محبت کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں۔اور رہی بات بغظ کی تو سب سے زیادہ جو قوم بغظ رکھتی ہے وہ شیعہ ہے جو اصحاب رسول اور امھات المومنین(حضرت محمد کی بیویاں) سے بغظ رکھتی ہے۔اسی لیے تو ان کے چہرے بگڑے ہوئے ہیں۔
جواب:
 محترم انصاف پسندی سے کام لینے کی عادت ڈالو۔۔۔۔۔۔ جس انڈیا والے کو آپ نے شیعہ کہہ کر شیعوں کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کی وہ ہمارے نذدیک بھی کافر ہے۔۔۔ اس کو شیعہ کہہ کر شیعوں کو بدنام کرنا تعصب اور جہالت کی انتہا ہے۔۔۔ آپ کو معلوم ہے کہ سلمان رشدی ملعون بھی انڈیا سے تھا اور سنی گھرانے کا فرد تھا؟ کیا آپ کو معلوم ہے غلام احمد قادیانی سنی گھرانے سے تعلق رکھنے والا ایک گمراہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم اس کو بنیاد بنا کر اہل سنت کے خلاف ایسی نسبتیں دے سکتے ہیں؟؟؟
لو کان عمر ۔۔۔۔ ایک جعلی حدیث ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  پر ظلم کرنے والوں سے اظہار برائت کرئے تو ہم آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

8
مندرجات کا کوڈ: 1984 - عنوان: کیا رسول اللہ {ص} نے جنگ جمل ، صفین اور نہروان میں امیر المومنین {ع} کی حمایت کا حکم دیا تھا ؟
مکمل نام : شمریزعلی - تاریخ اشاعت: 20:51 - 16 January 2022
قیس بن حازم کا جنگ جمل میں ہونا ثابت ہے؟
دلائل کے ساتھ جواب دیں
جواب:
سلام علیکم ۔۔۔۔۔
محترم مقالے کا عنوان دیکھیں پھر اسی حساب سے سوال پوچھیں ۔۔۔۔۔
 
 پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ جنگیں امیر المومنین علیہ السلام اور آپ کے حامی اصحاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے لڑی ہے ۔۔۔۔ لہذا ان جنگوں کا فیصلہ اور ان میں حق اور باطل کا تعین حضور پاک (ص) خود ہی فرماگئے ہیں ۔۔۔۔جیساکہ شیعوں کا بھی یہی نظریہ ہے ۔۔۔ لیکن اہل سنت حضور پاک (ص) کے واضح فرامین کے خلاف نظریہ رکھتے ہیں اور دونوں کو اہل حق سمجھتے ہیں ۔۔۔
۔۔۔
اس سلسلے کی روایات قیس بن حازم کے صفیں میں ہونے اور نہ ہونے سے مربوط نہیں نہیں ہیں ۔۔۔۔
 
ایک نمونہ ۔۔۔
 

حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: ثنا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ عَلِي بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَلِي، قَالَ: " عَهِدَ إِلَي رَسُولُ اللَّهِ (ص) فِي قِتَالِ النَّاكِثِينَ، وَالْقَاسِطِينَ، وَالْمَارِقِينَ ".

علي (عليه السلام) نے فرمایا : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے، ناكثين ، قاسطين اور مارقين سے جنگ کرنے کا عہد و پیمان لیا ہے اور وصیت فرمائی ہے .

البزار، أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق (متوفاي292 هـ)، البحر الزخار (مسند البزار)، ج3، ص26ـ 27، ح774، تحقيق: د. محفوظ الرحمن زين الله، ناشر: مؤسسة علوم القرآن، مكتبة العلوم والحكم - بيروت، المدينة الطبعة: الأولي، 1409 هـ.

طبراني نے المعجم الأوسط میں لکھا ہے :

حَدَّثَنَا مُوسَي بْنُ أَبِي حُصَيْنٍ، قَالَ: نا جَعْفَرُ بْنُ مَرْوَانَ السَّمُرِي، قَالَ: نا حَفْصُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي صَادِقٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا، يَقُولُ: " أُمِرْتُ بِقِتَالِ النَّاكِثِينَ، وَالْقَاسِطِينَ، وَالْمَارِقِينَ "

مجھے ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے ۔

  • الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفاي360هـ)، المعجم الأوسط، ج 8، ص213، ح8433، تحقيق: طارق بن عوض الله بن محمد، عبد المحسن بن إبراهيم الحسيني، ناشر: دار الحرمين - القاهرة - 1415هـ.
  1. هيثمي نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :

رواه البزار والطبراني في الأوسط وأحد إسنادي البزار رجاله رجال الصحيح غير الربيع بن سعيد ووثقه ابن حبان.

اس روایت کو بزار اور طبراني نے نقل کیا ہے اور بزار کے نقل کردہ دو سندوں میں سے ایک کی سند کے راوی بخاری کے راوی ہیں ، سوای ربیع بن سعید کے ،ابن حبان نے اس کو ثقہ کہا ہے .

  • الهيثمي، أبو الحسن علي بن أبي بكر (متوفاي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج7، ص 238، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ.
 

دوسری بات
 
آگرآپ حواب کے کتوں اور جناب عائشہ کے واقعے کو رد کرنے کے لئے اس سلسلے کی روایات کو رد کرنا چاہتے ہیں تو یہاں بھی چند نکات قابل ملاحظہ ہیں۔۔۔
 
 
پہلا نکتہ : اس سلسلے کی روایات صحیح السند ہیں ،لہذا قیس بن حازم  جمل میں نہ بھی ہو تو بھی انکی صحت پر فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔ کیونکہ قیس ثقہ اور قابل اعتماد راوی ہے ۔۔۔۔ ممکن ہے ہے یہ وہاں تک تو ساتھ ہو لیکن پھر جنگ جمل میں شریک نہ ہوا ہو۔۔۔ کیونکہ اس حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جناب عائشہ آگے بڑھنے سے انکار کر رہی تھیں ،اگرچہ عبد اللہ ابن زبیر کی طرف سے پیش کردہ جھوٹے گواہوں کی وجہ سے جناب عائشہ نے اس سفر کو جاری رکھا ،،،، اب ممکن ہے قیس جیسے لوگوں کو حقیقت کا پتہ چلنے کے بعد اس سے آگے جناب عائشہ کا ساتھ نہ دیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیساکہ خود زبیر بن العوام اس سفر میں ساتھ لیکن جنگ میں شریک نہیں ہوا اور میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہذا جنگ جمل میں اس کا شریک ہونا ثابت نہ بھی ہو پھر بھی واقعہ صحیح سند روایات سے ثابت ہے ۔۔۔۔
 
دوسرا نکتہ : کیونکہ یہ روایت صحیح السند ہیں لہذا یہی روایات خود اس سلسلے کے دوسرے احتمالات کو رد کر دیتی ہیں ۔۔۔لہذا اس صحیح سند کوملاک اور معیار قرار دینا چاہئے دوسرے شبھات کو بنیاد بنا کر اس کو رد کرنا عقلمندی اور علمی طریقہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جیساکہ اہل سنت کے بہت سے علما نے انہیں روایات کو بنیاد بنا کر اس واقعے کو نبوت کی دلائل میں سے قرار دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

9
مندرجات کا کوڈ: 633 - عنوان: شہادت حضرت فاطمہ زہرا (س) ایک انكار ناپذیر حقیقت
مکمل نام : اشرف خان - تاریخ اشاعت: 17:26 - 11 January 2022
اھل سنت کی کسی بھی معتبر کتاب میں حضرت فاطمہ کی شہادت کا ذکر نہیں ھے۔
جواب:
سلام علیکم :
 اہل سنت کی کتابوں میں بعد از رسول (ص) ان پر آنے والے مصائب اور مشکلات کا ذکر ہے ۔ان کے گھر کو آگ لگانے کی دھمکی کا ذکر ہے ،ان کی طرف سے خلفا کو اپنے حق سے محروم کرنے والے سمجھ کر خلفا سے مکمل بائیکاٹ کی حالت میں دنیا سے جانے کا ذکر ہے ۔۔ خلیفہ کی طرف سے زندگی کے آخری ایام میں جناب فاطمہ سلام علیہا کے گھر کی حرمت کا خیال نہ رکھنے پر اظہار پشیمانی کا ذکر ہے ۔۔۔۔۔
 
 
۔۔۔۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی طرف سے خلفا کو نماز جنازے سے دور رکھنے کی وصیت کا ذکر ہے ۔۔۔۔
 
۔۔۔۔۔۔ شیعہ یہ تو نہیں کہتے کہ جناب سیدہ (ع) خلیفہ کی تلوار سے میدان جنگ میں زخمی ہوئیں اور اسی وجہ سے آپ شہید ہوئیں ۔۔۔۔۔۔۔
 

10
مندرجات کا کوڈ: 1976 - عنوان: حضرت علی نے کیوں اپنی حکومت کے دور میں فدک واپس نہیں لیا
مکمل نام : ,aners - تاریخ اشاعت: 07:25 - 06 January 2022
اچھا ھے ماشاء اللہ
جواب:
سلام علیکم  ۔۔۔
 
اس سلسلے میں تفصیلی جواب ایک اور مقالے میں ہم نے دیا ہے۔۔۔
 دیکھیں۔۔
 

فدک اگر حق زہرا (ع) تھا تو امیر المومنین (ع) نے فدک واپس کیوں نہیں لیا ؟

www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php
 
 

11
مندرجات کا کوڈ: 2013 - عنوان: کیا شیعہ بھی انبیاء کی مالی وراثت کے قائل نہیں؟
مکمل نام : نوررحمان - تاریخ اشاعت: 20:08 - 03 January 2022
شیعہ مذھب کے اصول اربعہ کی اوّل کتاب اصول کافی میں موجود ہے : محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن محمد بن خالد، عن أبي البختري، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: إن العلماء ورثة الأنبياء وذاك أن الأنبياء لم يورثوا درهما ولا دينارا، وإنما أورثوا أحاديث من أحاديثهم، فمن أخذ بشئ منها فقد أخذ حظا وافرا، فانظروا علمكم هذا عمن تأخذونه؟ فإن فينا أهل البيت في كل خلف عدولا ينفون عنه تحريف الغالين، وانتحال المبطلين، وتأويل الجاهلين ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق (رضی الله تعالی عنہ) نے فرمایا کہ علماء وارث انبیاء ہیں ، اور یہ اس لئے کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے درہم یا دینار کا ، وه صرف اپنی احادیث وراثت میں چھوڑتے ہیں ۔ پس جس نے ان (احادیث) سے کچھ لے لیا ، اس نے کافی حصہ پا لیا ۔ تم دیکھو کہ تم اس علم کو کس سے لیتے ہو ۔ ہم اہل بیت کےخلف میں ہمیشہ ایسے لوگ ہوں گے جو عادل ہوں گے اور رد کریں گے غالیوں کی تحریف اور اہل باطل کے تغیرات اورجابلوں کی تاویلوں کو ۔ (اصول الکافی الشیخ الکلینی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 17،چشتی)
یہی روایت شیعہ کے جیّد عالم شیخ مفید نے اپنی کتاب “الخصاص” میں بھی بیان کی ہے : وعنه، عن محمد بن الحسن بن أحمد، عن محمد بن الحسن الصفار، عن السندي بن محمد، عن أبي البختري، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: إن العلماء ورثة الأنبياء وذلك أن العلماء لم يورثوا درهما ” ولا دينارا ” وإنما ورثوا أحاديث من أحاديثهم فمن أخذ بشئ منها فقد أخذ حظا وافرا “، فانظروا علمكم هذا عمن تأخذونه فإن فينا أهل البيت في كل خلف عدولا ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی الله تعالی عنہ نے فرمایا کہ علماء وارث انبیاء بیں اور یہ اس لئے کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بنانے دربم یا دینار کا، وه صرف اپنی احادیث وراثت میں چھوڑتے ہیں۔ پس جس نے ان (احادیث) سے کچھ لے لیا، اس نے کافی حصہ پا لیا۔ تم دیکھو کہ تم اس علم کو کس سے لیتے ہو۔ ہم اہل بیت کے خلف میں ہمیشہ ایسے لوگ ہوں گے جو عادل ہوں گے اور رد کریں گے غالیوں کی تحریف اور اہل باطل کے تغیرات اور جابلوں کی تاویلوں کو ۔ (كتاب الاختصاص – الشيخ المفيد – الصفحة 16)

شیعہ مذھب کی کتاب اصول الکافی میں موجود ہے جس میں نبی کریم سے واضح الفاظ میں مروی ہے کہ انبیاء کرام درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑتے :محمد بن الحسن وعلي بن محمد، عن سهل بن زياد، ومحمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد جميعا، عن جعفر بن محمد الأشعري، عن عبد الله بن ميمون القداح، وعلي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد بن عيسى، عن القداح، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به (3) طريقا إلى الجنة وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا به (4) وإنه يستغفر لطالب العلم من في السماء ومن في الأرض حتى الحوت في البحر، وفضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر النجوم ليلة البدر، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر ۔
ترجمہ : رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا دین کے عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جس طرح ستاروں پر چاند کی فضیلت اور چاندنی رات پر فضیلت ہے اور علماء وارث انبیاء ہیں اور انبیاء نہیں چھوڑتے اپنی امت کے لئے درہم و دینار ، بلکہ وہ وراثت میں چھوڑتے ہیں علم دین کو۔ پس جس نے اس کو حاصل کیا ، اس نے بڑا حصہ پا لیا ۔ (کتاب اصول الكافي – الشيخ الكليني – ج ۱ – الصفحة ۱۹) ، اصول الکافی کی اس حدیث کو خمینی نے بھی صحیح تسلیم کیا ہے ۔

شیعہ مذھب کی مشہور کتاب قرب الاسناد میں موجود ہے اور علامہ الحمیری القمی نے بحار الانوار کے حوالے سے بیان کی ہے : جعفر، عن أبيه: أن رسول الله صلى الله عليه وآله لم يورث دينارا ولا درهما، ولا عبدا ولا وليدة، ولا شاة ولا بعيرا، ولقد قبض رسول الله صلى الله عليه وآله وإن درعه مرهونة عند يهودي من يهود المدينة بعشرين صاعا من شعير، استسلفها نفقة لأهله ۔
ترجمہ : حضرت ابو جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو درھم و دینار یا غلام یا باندی یا بکری یا اونٹ کا وارث نہیں بنایا، بلاشبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اس حال میں قبض ہوئی جب کہ آپ کی زرہ مدینہ کے ایک یہودی کے پاس صاع جو کے عیوض رہن تھی، آپ نے اس سے اپنے گھر والوں کے لئے بطور نفقہ یہ جو لئے تھے ۔ (قرب الاسناد الحمیری القمی ص 91,92،چشتی)(بحوالہ المجلسي في البحار 16: 219 / 8)

کلینی نے الکافی میں ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے ۔ باب (ان النساء لا يرثن من العقار شيئا) علي بن إبراهيم، عن محمد بن عيسى ، عن يونس، عن محمد بن حمران، عن زرارة عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر عليه السلام قال: النساء لا يرثن من الأرض ولا من العقار شيئا ۔ عورتوں کو غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملتا ۔ اس عنوان کے تحت اس نے متعدد روایات بیان کی ہیں ، ان کے چوتھے امام ابو جعفر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ (الفروع من الکافی کتاب المواریث ج ۷ ص ۱۳۷،چشتی)

يونس بن عبد الرحمان عن محمد بن حمران عن زرارة ومحمد بن مسلم عن أبي جعفر عليه السلام قال: النساء لا يرثن من الأرض ولا من العقار شيئا ۔
ترجمہ : حضرت امام باقر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا عورت زمین و جائیداد میں سے کسی کی وارث نہیں ۔ (کتاب تھذیب الاحکام الشیخ الطوسی ج 9 ص 254)

جہاں تک ان کے حقوق غصب کرنے کا سوال ہے ، اس بارے میں مجلسی باوجود شدید نفرت و کراہت کے یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ : ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خفا ہوگئیں تو ان سے کہنے لگے : میں آپ کے فضل اور رسول اللہ علیہ السلام سے آپ کی قرابت کا منکر نہیں۔ میں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فدک آپ کو نہیں دیا ۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ کہتے سنا ہے: ہم انبیاء کا گروہ، مالِ وراثت نہیں چھوڑتے ۔ ہمارا ترکہ کتاب و حکمت اور علم ہے ۔ اس مسئلے میں میں تنہا نہیں، میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے۔ اگر آپ مال و دولت ہی چاہتی ہیں تو میرے مال سے جتنا چاہیں لے لیں، آپ اپنے والد کی طرف سے عورتوں کی سردار ہیں، اپنی اولاد کے لیے شجرۂ طیبہ ہیں، کوئی آدمی بھی آپ کے فضل کا انکار نہیں کرسکتا ۔ (حق الیقین‘‘ ص ۲۰۱، ۲۰۲ ترجمہ از فارسی)

جواب:
سلام علیکم :
 
جناب پہلی بات تو یہ ہے کہ ارث کا قانون ایک عمومی قانون ہے اس میں نبی اور غیر نبی میں فرق نہیں  ہے ۔۔
شریعت نے دین اولاد کو والدین کی ارث سے محروم قرار دیا ہے ،
 ولد الزنا ْْ۔۔ والدین کا قاتل ۔۔۔۔ کافر اولاد۔۔
 
ان وراثت سے محروم کرنا ایک قسم کی سزا ، عیب اور معاشرے کو برائیوں سے دور رکھنے کے لئے شریعت کی طرف سے چارہ جوئی ہے۔۔۔ انبیا کی اولاد کا کیا جرم ہے ؟ کیا ان کو وراثت کی ضرورت نہیں ؟ کیا انبیا کی وراثت بیت المال کا حصہ بننے اور فقرا میں تقسیم ہونے پر انبیا کی تاریخ سے کوئی ایک نمونہ دکھا سکتے ہو۔۔۔۔۔۔
 
 دوسری بات :
قرآن میں ارث کےحکم کو بتانے والی دس سے زیادہ آیات موجود ہیں لیکن ایک آیت بھی انبیا کی مالی وراثت کی نفی پر نہیں ہے لہذا یہ حکم قرآن کے حکم کے خلاف ہے۔۔۔۔
ہم قرآنی حکم کے خلاف کوئی حدیث ہو تو اس کو قبول نہیں کرتے کیونکہ ہمارے ائمہ  قرآن کے خلاف نہیں بولتے ۔۔
تیسری بات :
آپ نے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اصول کافی کی حدیث کا معنی غلط کیا ہے ۔ایک سادہ ادبی تحلیل کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔
دیکھیں : إن العلماء ورثة الأنبياء وذاك أن الأنبياء لم يورثوا درهما۔۔۔۔ آپ نے اس کا ترجمہ کیا ہے :۔۔۔ وارث انبیاء ہیں ، اور یہ اس لئے کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے درہم یا دینار کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ترجمہ میں (کسی کو وارث نہیں بناتے) غلط ترجمہ ہے ۔۔۔۔ صحیح ترجمہ ۔۔۔ انبیاء علماء کو درھم و دینار ارث میں چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
لہذا آپ نے اپنے مقصد کے لئے ( لم يورثوا) کا دوسرا مفعول کسی کو کیا ہے جبکہ اس کا دوسرا مفعول العلماء  کی طرف پلٹنے والی ضمیر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ہم نے اس سلسلے میں تفصیل جواب  اسی مقالے میں دیا ہے ۔۔۔ اگر مطالعہ کرتے تو تکراری بات نہ کرتے ۔۔۔۔
 
چھوتھی بات :
 
یہ حدیث علم اور عالم کی فضیلت سے متعلق ہے اس کا مالی وراثت سے کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ یہی حدیث آپ کی کتابوں میں بھی ہے لیکن آپ کے کسی محدث اور صحاح ستہ کے مصنف نے اس کو ارث کے باب میں ذکر نہیں کیا ہے بلکہ سب نے اصول کافی کے مصنف کی طرح اس کو علم و عالم کی فضیلت کے ابواب میں ذکر کیا ہے ۔۔۔ اگر آپ اپنے بزرگوں کے فھم و درک کے خلاف استدلال کرنا چاہئے تو ہم آپ کو نہیں روکتے ۔۔
 
 
 
پانچویں بات :
 
قرب الاسناد کی روایت : ن رسول الله صلى الله عليه وآله لم يورث دينارا ولا درهما، ولا عبدا ولا وليدة، ولا شاة ولا بعيرا، ولقد قبض رسول الله صلى الله عليه وآله وإن درعه مرهونة عند يهودي من يهود المدينة بعشرين صاعا من شعير، استسلفها نفقة لأهله ۔۔
 
 
پہلا نکتہ : تو یہ ہے کہ اس کی سند میں حسین بن علوان ہے یہ سنی راوی ہے اور ہمارے علما نے اس کی توثیق نہیں کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کسی نے توثیق کی ہے تو یہ روایت قرآن کے خلاف ہے ۔۔۔۔
 
دوسرا نکتہ : اس روایت میں انبیاء کی مالی وراثت کی نفی نہیں ہوئی ہے بلکہ مندرجہ چیزوں کو وراثت میں چھوڑ کر جاننے کی نفی کی ہے ۔۔۔۔ ۔
 
 
  چھٹی بات :
 کلینی نے الکافی میں ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے ۔ باب (ان النساء لا يرثن ۔
  عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا ۔
 
۔۔۔۔ اس سلسلے میں موجود شبھہ کا بھی ہم نے تفصیلی جواب دیا ہے ۔۔۔۔۔
یہ بیوی سے متعلق موضوع ہے ،ہمارا آپ لوگوں سے  نزاع بیٹی کی وراثت کے بارے میں ہے ۔۔
 
تفصیل دیکھیں ْْْwww.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php