2024 March 19
کیا رسول خدا (ص) کی روایت: علیّ اولی الناس بعدی، صحیح السند ہے ؟
مندرجات: ٧١٦ تاریخ اشاعت: ٢٦ September ٢٠٢٢ - ١:٠٢: مشاہدات: 4954
سوال و جواب » امام علی (ع)
کیا رسول خدا (ص) کی روایت: علیّ اولی الناس بعدی، صحیح السند ہے ؟

سوال : کیا رسول خدا (ص) کی روایت: علیّ اولی الناس بعدی، ( یعنی میرے بعد خلافت کے لیے سب سے مناسب علی علیہ السلام ہیں)، سند معتبر کے ساتھ اہل سنت کی معتبر کتب میں ذکر ہوئی ہے ؟

جواب :

اس بات میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ رسول خدا (ص) تمام مؤمنین و مؤمنات پر ولایت مطلق و کامل رکھتے ہیں، اور وہ حضرت مسلمانوں کے تمام امور میں عمل دخل کرنے میں خود، انکی نسبت زیادہ مناسب و حقدار تر ہیں۔ رسول خدا (ص) کی اطاعت مطلق و اطاعت بدون چون و چرا، سب مسلمانوں پر واجب اور انکی مخالفت کرنا، حرام مطلق ہے۔ جس طرح سے خود خداوند نے قرآن کریم میں بھی فرمایا ہے کہ:

النَّبِيُّ أَوْلي بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهِم،

نبی خدا مؤمنین کی نسبت خود ان سے زیادہ مناسب تر و حقدار تر ہیں۔

سورہ الاحزاب، آیت 6

لہذا رسول خدا کی تمام مسلمانوں پر ولایت مطلق رکھنے میں، کسی قسم کا شک و تردید نہیں ہے۔ قابل دقت اور قابل توجہ یہ بات ہے کہ خود رسول خدا (ص) نے اسی ولایت مطلق کو امیر المؤمنین علی (ع) کے لیے بھی ثابت کیا ہے اور اس بارے میں معتبر و صحیح سند والی روایات کو خود علمائے اہل سنت نے اپنی معتبر کتب میں بھی ذکر کیا ہے۔ 

 

ابو نعيم اصفہانی نے اپنی كتاب معرفۃ الصحابۃ میں وہب بن حمزه کے حالات کو ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْبَزَّارُ، وَأَحْمَدُ بْنُ يَحْيَي بْنِ زُهَيْرٍ، قَالا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ كَرَامَةَ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَي، ثنا يُوسُفُ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ رُكَيْنٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ جَمْرَةَ (حمزة) قَالَ: صَحِبْتُ عَلِيًّا مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَي مَكَّةَ، فَرَأَيْتُ مِنْهُ بَعْضَ مَا أَكْرَهُ، فَقُلْتُ: لَئِنْ رَجَعْتُ إِلَي  رَسُولِ اللَّهِ (ص) لأَشْكُوَنَّكَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ لَقِيتَ رَسُولَ اللَّهِ (ص) فَقُلْتُ: رَأَيْتُ مِنْ عَلِيٍّ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ:

«لا تَقُلْ هَذَا، فَهُوَ أَوْلَي النَّاسِ بِكُمْ بَعْدِي».

 ركين نے وہب بن حمزه سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا کہ: میں مدینہ سے لے کر مکہ تک علی کے ساتھ تھا۔ اس راستے میں علی نے بعض ایسے کام انجام دئیے کہ جنکو میں پسند نہیں کرتا تھا۔ اسی لیے میں نے علی سے کہا کہ: جب میں رسول خدا کے پاس جاؤں گا تو ان سے آپکی شکایت کروں گا۔ جب میں مدینہ پہنچا تو رسول خدا سے ایک ملاقات میں، میں نے ان سے کہا کہ: میں نے اس سفر میں، علی کو فلاں فلاں کام کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ سن کر رسول خدا نے فرمایا کہ:

ایسی بات نہ کرو، کیونکہ وہ (علی) میرے بعد تمام لوگوں سے زیادہ مناسب و برتر ہے۔

الأصبهاني، ابو نعيم أحمد بن عبد الله (متوفي430هـ)، معرفة الصحابة، ج5، ص2723، ح 6501، الجامع الكبير کی سی ڈی کیمطابق،

المناوي، محمد عبد الرؤوف بن علي بن زين العابدين (متوفي 1031هـ)، فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج4، ص357، ناشر: المكتبة التجارية الكبري - مصر، الطبعة: الأولي، 1356هـ.

السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج8، ص250، الجامع الكبير کی سی ڈی کیمطابق،

الهندي، علاء الدين علي المتقي بن حسام الدين (متوفي975هـ)، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، ج11، ص281، ح32961 ، تحقيق: محمود عمر الدمياطي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1419هـ - 1998م.

طبرانی نے اپنی کتاب المعجم الکبیر میں بھی نقل کیا ہے کہ:

حدثنا أَحْمَدُ بن عَمْرٍو الْبَزَّارُ وأَحْمَدُ بن زُهَيْرٍ التُّسْتَرِيُّ قَالا ثنا محمد بن عُثْمَانَ بن كَرَامَةَ ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بن مُوسَى ثنا يُوسُفُ بن صُهَيْبٍ عن دُكَيْنٍ عن وَهْبِ بن حَمْزَةَ قال صَحِبْتُ عَلِيًّا مِنَ الْمَدِينَةِ إلى مَكَّةَ فَرَأَيْتُ منه بَعْضَ ما أَكْرَهُ فقلت لَئِنْ رَجَعْتُ إلى رسول اللَّهِ لأَشْكُوَنَّكَ إليه فلما قَدِمْتُ لَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى اللَّهُ عليه وسلم فقلت رأيت من عَلِيٍّ كَذَا وَكَذَا فقال لا تَقُلْ هذا فَهُوَ أَوْلَى الناس بِكُمْ بَعْدِي،

المعجم الكبير  ج 22   ص 135، سليمان بن أحمد بن أيوب أبو القاسم الطبراني الوفاة: 360 ، دار النشر : مكتبة الزهراء - الموصل - 1404 - 1983 ، الطبعة : الثانية ، تحقيق : حمدي بن عبدالمجيد السلفي

 ابو نعیم اصفہانی نے کہا ہے کہ:

  حدثنا سليمان بن أحمد ثنا أحمد بن عمرو البزار وأحمد بن يحيى بن زهير قالا : ثنا محمد بن عثمان بن كرامة ثنا عبيد الله بن موسى ثنا يوسف بن صهيب عن ركين عن وهب بن جمرة قال : صحبت عليا من المدينة إلى مكة فرأيت منه بعض ما أكره فقلت : لئن رجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم لأشكونك إليه فلما قدمت لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت : رأيت من علي كذا وكذا فقال : لا تقل هذا فهو أولى الناس بكم بعدي .

معرفة الصحابة  ج 5   ص 2723  لأبي نعيم الأصبهاني الوفاة: 430 ، دار النشر :

ابن اثیر نے بھی نقل کیا ہے کہ:  

وَهْبُ بن حَمْزة يعد في أهل الكوفة . روى حديثه يوسف ابن صُهَيب ، عن رُكَين ، عن وهب بن حمزة قال : صحبت علياً رضي الله عنه من المدينة إلى مكة ، فرأيت منه بعض ما أكره ، فقلت : لئن رجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلّم لأشكوَنَّكَ إليه . فلما قدمت لقيتُ رسول الله صلى الله عليه وسلّم فقلتُ : رأيت من على كذا وكذا ؟ فقال : ( لا تقل هذا ، فهو أولى الناس بعدي ) .

 

اسد الغابة  ج 5   ص 474 ،عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد الجزري الوفاة: 630هـ ، دار النشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان - 1417 هـ - 1996 م ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : عادل أحمد الرفاعي

ہیثمی نے بھی نقل کیا ہے کہ:

وعن عمار بن ياسر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أوصي من آمن بي وصدقني بولاية علي بن أبي طالب من تولاه فقد تولاني ومن تولاني فقد تولى الله عز وجل ومن أحبه فقد أحبني ومن أحبني فقد أحب الله تعالى ومن أبغضه فقد ابغضني ومن أبغضني فقد أبغض الله عز وجل رواه الطبراني بإسنادين أحسب فيهما جماعة ضعفاء وقد وثقوا

وعن وهب بن حمزة قال صحبت عليا إلى مكة فرأيت منه بعض ما أكره فقلت لئن رجعت لأشكونك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما قدمت لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت رأيت من علي كذا وكذا فقال لا تقل هذا فهو أولى الناس بكم بعدي رواه الطبراني وفيه دكين ذكره ابن أبي حاتم ولم يضعفه أحد وبقية رجاله وثقوا

مجمع الزوائد  ج 9   ص 109 ،علي بن أبي بكر الهيثمي الوفاة: 807 ، دار النشر : دار الريان للتراث/‏دار الكتاب العربي - القاهرة , بيروت - 1407

 علامہ سیوطی نے بھی اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ: 

قَالَ النَّبِيُّ : لاَ تَقُلْ هاذَا ، فَهُوَ أَوْلَى النَّاسِ بِكُمْ بَعْدِي يَعْنِي عَلِيّاً )

 

جامع الأحاديث  ج 8   ص 250 ،الحافظ جلال الدين عبد الرحمن السيوطي  الوفاة: 19/جمادى الاولى / 911هـ  ، دار النشر :

 متقی ہندی نے بھی ذکر کیا ہے کہ:

لا تقل هذا فهو أولى الناس بكم بعدي - يعني عليا . طب عن وهب بن حمزة ) .

كنز العمال  ج 11   ص 281 ،علاء الدين علي المتقي بن حسام الدين الهندي الوفاة: 975هـ ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1419هـ-1998م ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : محمود عمر الدمياطي

عالم اہل سنت مناوی نے بھی نقل کیا ہے کہ:

وأخرج الطبراني عن وهب بن حمزة قال صحبت عليا إلى مكة فرأيت منه بعض ما أكره فقلت لئن رجعت لأشكونك إلى رسول الله فلما قدمت قلت يا رسول الله رأيت من علي كذا وكذا فقال لا تقل هذا فهو أولى الناس بكم بعدي،

فيض القدير  ج 4   ص 357 ،عبد الرؤوف المناوي الوفاة: 1031 هـ ، دار النشر : المكتبة التجارية الكبرى - مصر - 1356هـ ، الطبعة : الأولى۔

 

روايت کی سند کے بارے میں بحث:

 ابونعيم اصفہانی:

أبو نعيم. أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسي بن مهران. الإمام الحافظ الثقة العلامة شيخ الإسلام أبو نعيم المهراني الأصبهاني الصوفي الأحول سبط الزاهد محمد بن يوسف البناء وصاحب الحلية. 

وكان حافظا مبرزا عالي الإسناد تفرد في الدنيا بشيء كثير من العوالي وهاجر إلي لقيه الحفاظ. قال أبو محمد السمرقندي سمعت أبا بكر الخطيب يقول لم أر أحد أطلق عليه اسم الحفظ غير رجلين أبو نعيم الأصبهاني وأبو حازم العبدويي.

 

 

ابو نعیم ، امام، حافظ ، قابل اعتماد، علامہ اور شیخ الاسلام ہے، وہ محمد ابن یوسف صاحب کتاب حلیۃ الاولیاء کے نواسے ہیں۔ وہ علم میں ایک ماہر حافظ ہیں کہ جن سے روایات کی چھوٹی چھوٹی اسناد نقل ہوئی ہیں۔ ایسی اسناد کو فقط اسی نے نقل کیا ہے۔ دوسرے علم حدیث کے حافظ فقط اس سے ملاقات کرنے کے لیے دور دور سے سفر کر کے ان کے پاس آتے تھے۔ ابو محمد سمرقندی نے کہا ہے کہ میں نے ابوبکر خطیب کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ : میں نے مکمل طور پر لفظ حافظ فقط بندوں کے لیے استعمال ہوتے دیکھا ہے، ایک، ابو نعیم اصفہانی اور دوسرا، ابو حازم عبدوی۔

 

 

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج17 ص453، تحقيق: شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

الطبرانی:   ذہبی نے اپنی کتاب العبر میں اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

وفيها الطبراني الحافظ العلم مسند العصر أبو القاسم سليمان بن أحمد بن أيوب اللخمي في ذي القعدة بأصبهان وله مائة سنة وعشرة أشهر.

وكان ثقة صدوقا واسع الحفظ بصيرا بالعلل والرجال والأبواب كثير التصانيف....

سن 360 ہجری میں طبرانی دنیا سے چلا گیا، وہ حافظ ( یعنی جسکو ایک لاکھ حدیث حفظ ہوں)، ایک مشہور و معروف اور اپنے زمانے میں ایک مستند عالم تھا( یعنی لوگ جسکی بات کو سند و دلیل کے طور پر شمار کرتے تھے)، وہ ذی القعدہ کے مہینے میں شہر اصفہان میں دنیا سے چلا گیا اور اس وقت اسکی عمر سو سال سے زیادہ تھی۔

وہ ایک قابل اعتماد، سچّا، قوی حافظے کا مالک، علم رجال و علم حدیث سے آشنائی رکھنے والا اور بہت سی کتابوں کا مصنف بھی تھا۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، العبر في خبر من غبر، ج2، ص321، تحقيق: د. صلاح الدين المنجد، ناشر: مطبعة حكومة الكويت - الكويت، الطبعة: الثاني، 1984.

اور ذہبی نے کتاب تذكرة الحفاظ ميں بھی لکھا ہے کہ: 

الطبراني الحافظ الامام العلامة الحجة بقية الحفاظ أبو القاسم سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي الطبراني مسند الدنيا ولد سنة ستين ومائتين وسمع في سنة ثلاث وسبعين.. وصنف أشياء كثيرة وكان من فرسان هذا الشأن مع الصدق والأمانة.

 

طبرانی، حافظ، امام، علامہ، حجت (جسکو تیس ہزار حدیث حفظ ہوں)، حافظوں کا نمائندہ تھا، اس نے بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں اور علم حدیث کا ایک بہت بڑا عالم تھا۔ وہ ایک سچا اور امین انسان بھی تھا۔

        الذهبي الشافعي، شمس الدين ابو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، تذكرة الحفاظ، ج3، ص912، رقم: 875، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي.

 احمد ابن عمرو البزار:

بزار، صاحب کتاب مسند مشہور، وہ کسی تعریف و مدح کا محتاج نہیں ہے اور اسکا شمار اہل سنت کی تاریخ کے بزرگان میں ہوتا ہے۔

 ذہبی نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

         البزار. الشيخ الإمام الحافظ الكبير أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق البصري البزار صاحب المسند الكبير...

بزار، شيخ، پيشوا، حافظ بزرگ اور صاحب کتاب مسند كبير تھا.....،

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج13، ص554، تحقيق: شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

اور ذہبی نے اپنی ایک دوسری کتاب میں اس کے بارے میں لکھا ہے کہ:

البزار الحافظ العلامة أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق البصري...

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، تذكرة الحفاظ، ج2، ص653، رقم: 675، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي.

سيوطی نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

البزار الحافظ العلامة الشهير أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق البصري صاحب المسند الكبير المعلل.....،

بزار، حافظ ، علامہ مشہور و معروف اور صاحب كتاب مسند كبير تھا۔

السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفي911هـ)، طبقات الحفاظ، ج1، ص289، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1403هـ.

 

احمد ابن زہیر التستری: 

در اصل یہاں سے روایت دو سند کے ساتھ نقل ہوئی ہے، ایک بزّار اور دوسری احمد ابن زہیر تستری کے ذریعے سے، اگرچے اس روایت کے معتبر و صحیح ہونے کے لیے، احمد ابن بزار کا ثقہ ہونا کافی ہے، لیکن پھر بھی اس روایت پر مزید اطمینان اور اعتماد کے لیے ہم علم رجال کی روشنی میں احمد ابن زہیر تستری کے حالات کو بھی بیان کرتے ہیں:

 

 

ذہبی نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ:

التستري الحافظ الحجة العلامة الزاهد أبو جعفر أحمد بن يحيي بن زهير أحد الاعلام... قال الحافظ أبو عبد الله بن منده ما رأيت في الدنيا احفظ من أبي جعفر التستري.

تستری، حافظ، حجت (جسکو تیس ہزار حدیث حفظ ہوں)،   علامہ، پرہيزگار اور ایک مشہور و معروف عالم تھا۔

عبد اللہ ابن مندہ نے کہا ہے کہ: میں نے اس دنیا میں ابو جعفر تستری جیسے قوی حافظے والے کسی انسان کو نہیں دیکھا۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، تذكرة الحفاظ، ج2، ص757، رقم: 759، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي.

اور سيوطی نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ:

التستري الحافظ الحجة العلامة الزاهد أبو جعفر أحمد بن يحيي بن زهير أحد الأعلام مكثر جود وصنف وقوي وضعف وبرع في هذا الشأن حدث عنه ابن حبان والطبراني. قال أبو عبد الله بن منده ما رأيت في الدنيا أحفظ من أبي إسحاق بن حمزة وسمعته يقول ما رأيت في الدنيا أحفظ من أبي جعفر التستري.

تستری، حافظ، حجت، علامہ، زاہد، ایک مشہور و معروف عالم ہے کہ اس نے بہت سی روایات کو نقل کیا ہے، وہ بہت زیادہ محنت کرنے والا، وہ روایات کے صحیح و ضعیف ہونے کے بارے رائے دینے والا اور ایک پرہیزگار انسان تھا۔

السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفي911هـ)، طبقات الحفاظ، ج1، ص321، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1403هـ.

 

محمد ابن عثمان ابن کرامۃ:  

یہ کتاب صحیح بخاری  اور دوسری صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہے، مزی نے کتاب تہذیب الکمال میں اس کے بارے میں لکھا ہے کہ:

 

 

رَوَي عَنه: البخاري، وأبو داود، والتِّرْمِذِيّ، وابن ماجة... وأبو حاتم الرازي، وَقَال: صدوق. وَقَال أبو العباس بن عقدة: سمعت محمد بن عَبد الله بن سُلَيْمان، وداود بن يحيي يقولان: كان صدوقا.

وَقَال أبو محمد عَبد الله بن علي بن الجارود: ذكرته لمحمد بن يحيي فأحسن القول فيه. وذكره ابنُ حِبَّان في كتاب الثقات.

بخاری، ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ اور اسی طرح ابو حاتم رازی نے اس سے روایت کو نقل کیا ہے،

ابو حاتم نے کہا ہے کہ: وہ بہت ہی سچا عالم تھا۔

ابن عقدہ نے کہا ہے کہ: میں نے محمد بن عبد الله بن سليمان اور داود بن يحيی سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ: وہ بہت ہی زیادہ سچّا انسان تھا۔

 

عبد الله بن علی بن الجارود نے کہا ہے کہ: میں نے محمد ابن یحیی کے سامنے محمد ابن عثمان کا ذکر کیا تو اس نے اس کے بارے میں کہا کہ: ابن حبان نے بھی اس کے نام کو ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے۔

 

 

        المزي، ابو الحجاج يوسف بن الزكي عبد الرحمن (متوفي742هـ)، تهذيب الكمال، ج26 ص93، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ - 1980م.

ذہبی نے کتاب الكاشف ميں لکھا ہے کہ:

محمد بن عثمان بن كرامة العجلي مولاهم عن أبي أسامة وطبقته وعنه البخاري وأبو داود والترمذي وابن ماجة وابن صاعد والمحاملي وابن مخلد صاحب حديث صدوق مات 256 في رجب خ د ت ق،

محمد بن عثمان بن كرامۃ، سے ابو أسامہ اور اسکے ہم عصر علماء نے روایت کو نقل کیا ہے،

 

بخاری، ابو داود، ترمذی وغیرہ نے بھی اس سے روایت کو نقل کیا ہے، وہ صاحب حدیث اور بہت سچّا انسان تھا۔

 

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج2 ص200، رقم:5044، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولي، 1413هـ - 1992م.

اور کتاب سير اعلام النبلاء میں اسکو بعنوان «امام، محدث اور ثقہ» ياد و ذکر کیا ہے:

ابن كرامة خ د ت ق. الإمام المحدث الثقة أبو جعفر محمد بن عثمان بن كرامة....

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج12، ص296، تحقيق: شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

اور ابن حجر عسقلانی نے بھی اسکو، ثقہ کے نام سے ذکر کیا ہے:

محمد بن عثمان بن كرامة بفتح الكاف وتخفيف الراء الكوفي ثقة من الحادية عشرة مات سنة ست وخمسين خ د ت ق

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابو الفضل (متوفي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ص496، رقم:6134، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986.

 

 

عبید اللہ ابن موسی:

 

 

اس سند میں دوسرا راوی، عبيد الله بن موسی ہے کہ اس کی روایات صحيح بخاری، صحیح مسلم اور دوسری صحاح ستہ میں ذکر ہوئی ہیں۔

مزی نے کتاب تہذيب الكمال ميں لکھا ہے کہ:

 

وَقَال أبو بكر بن أَبي خيثمة، عن يحيي بن مَعِين: ثقة. وَقَال معاوية بن صالح: سألت يحيي بن مَعِين عنه، فقال: اكتب عنه فقد كتبنا عنه. وَقَال أبو حاتم: صدوق، ثقة، حسن الحديث، وأبو نعيم أتقن منه، وعُبَيد الله أثبتهم في اسرائيل، كان اسرائيل يأتيه فيقرأ عليه القرآن. وَقَال أحمد بن عَبد الله العجلي: ثقة، وكان عالما بالقرآن، رأسا فيه.

 

 

ابوبكر بن ابی خيثمۃ نے يحيی ابن معين سے نقل کیا ہے کہ: وہ ثقہ تھا،

معاويہ بن صالح نے کہا ہے کہ میں نے يحيی بن معين سے اسکے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا کہ: وہ جو روایت بھی تمہارے لیے نقل کرے تو تم اسکو لکھ لو، کیونکہ میں نے بھی اسکی روایات کو لکھا ہے،

ابو حاتم نے کہا ہے کہ: وہ بہت سچّا اور قابل اعتماد تھا، اس نے معتبر روایات کر نقل کیا ہے، لیکن ابو نعیم اس سے علم حدیث میں قوی تر تھا، اور عبید اللہ اس سے اسرائیل کے بارے میں نقل ہونے والی روایت میں قوی تر تھا، اسرائیل اسکے پاس آتا ہے اور اسکے لیے قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔

احمد بن عبد الله عجلی نے کہا ہے کہ:

وہ ثقہ اور علوم قرآنی میں مہارت رکھنے والا عالم تھا۔

اور اس نے یہ بھی مزید لکھا ہے کہ:

روي له الجماعة.

کتب صحاح ستہ کے تمام مصنفین نے اسکی روایات کو نقل کیا ہے۔

         المزي، ابو الحجاج يوسف بن الزكي عبد الرحمن (متوفي742هـ)، تهذيب الكمال، ج19 ص168، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ - 1980م.

ابن حجر نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

عبيد الله بن موسي بن باذام العبسي الكوفي أبو محمد ثقة كان يتشيع من التاسعة قال أبو حاتم كان أثبت في إسرائيل من أبي نعيم واستصغر في سفيان الثوري مات سنة ثلاث عشرة علي الصحيح ع،

     عبيد الله بن موسی نے کہا ہے کہ: وہ قابل اعتماد اور شیعہ مذہب کی طرف میل رکھنے والا تھا،

ابو حاتم نے کہا ہے کہ: یہ اسرائیل والی روایت میں ابو نعیم سے قوی تر تھا.....،

        العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابو الفضل (متوفي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ص375، رقم:4345، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986.

اور ذہبی نے کتاب الكاشف ميں لکھا ہے کہ:

عبيد الله بن موسي أبو محمد العبسي الحافظ أحد الأعلام علي تشيعه وبدعته سمع هشام بن عروة وإسماعيل بن أبي خالد وابن جريج وعنه البخاري والدارمي وعبد والحارث بن محمد ثقة مات في ذي القعدة سنة 213 ع.

وہ ایک حافظ اور معروف و مشہور عالم شمار ہوتا ہے، اسکے باوجود کہ وہ شیعہ اور بدعت گزار تھا، لیکن پھر پھر بھی بخاری اور دارمی وغیرہ نے اس سے روایت کو نقل کیا ہے، وہ ثقہ تھا اور سن 213 ہجری میں ذی القعدہ کے مہینے میں دنیا سے چلا گیا تھا۔

        الذهبي الشافعي، شمس الدين ابو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج1 ص687، رقم: 3593، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولي، 1413هـ - 1992م.

 یوسف ابن صہیب:

مزی نے کتاب تہذيب الكمال ميں لکھا ہے کہ:

قال إسحاق بن منصور عن يحيي بن مَعِين، وأبو داود: ثقة. وَقَال أبو حاتم: لا بأس به. وَقَال النَّسَائي: ليس به بأس. وذكره ابنُ حِبَّان في كتاب"الثقات".

اسحاق بن منصور نے يحيی بن معين اور ابو داود سے نقل کیا ہے کہ: وہ ثقہ تھا،

    ابو حاتم اور نسائی نے کہا ہے کہ: اس میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

 

      ابن حبان نے بھی اس کے نام کو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔

 

 

        المزي، ابو الحجاج يوسف بن الزكي عبد الرحمن (متوفي742هـ)، تهذيب الكمال، ج32 ص434، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ - 1980م.

ذہبی نے کہا ہے کہ:

يوسف بن صهيب عن الشعبي وابن بريدة وعنه القطان وأبو نعيم ثقة د ت س

يوسف بن صہيب نے شعبی اور ابن بريده سے روايت کو نقل کیا ہے اور وہ ثقہ تھا۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج2 ص399، رقم:6437، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولي، 1413هـ - 1992م.

ابن حجر نے کتاب تقريب التہذيب ميں لکھا ہے کہ:

يوسف بن صهيب الكندي الكوفي ثقة من السادسة د ت س

يوسف بن صہيب ثقہ اور راویوں کے چھٹے طبقے میں سے تھا۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابو الفضل (متوفي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ص611، رقم:7868، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986.

ركين بن الربيع: 

ركين بن ربيع ثقہ تابعین میں سے تھا اور اس کا شمار کتاب صحیح مسلم اور دوسری صحاح ستہ کے رایوں میں سے ہوتا ہے۔

 

       مزی نے کتاب تہذيب الكمال میں اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

قال عَبد الله بن أحمد بن حنبل، عَن أبيه، وعثمان بن سَعِيد الدارمي، عن يحيي بن مَعِين، والنَّسَائي: ثقة. وَقَال أبو حاتم: صالح.

روي له البخاري في كتاب"الأدب"والباقون.

عبد الله بن احمد بن حنبل نے اپنے والد اور عثمان الدارمی سے اور اس نے يحيی بن معين و نسائی سے نقل کیا ہے کہ: وہ ثقہ تھا،

ابو حاتم نے کہا ہے کہ: نیک انسان تھا،

بخاری نے کتاب ادب المفرد اور صحاح ستہ کے مصنفین نے اس سے روایت کو نقل کیا ہے۔

المزي، ابو الحجاج يوسف بن الزكي عبد الرحمن (متوفي742هـ)، تهذيب الكمال، ج9 ص225، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ - 1980م.

ذہبی نے کتاب الكاشف میں واضح طور پر لکھا ہے کہ احمد ابن حنبل نے اسکو ثقہ قرار دیا ہے:

       ركين بن الربيع بن عميلة الفزاري عن أبيه وابن عمر وعنه حفيده الربيع بن سهل وشعبة ومعتمر وثقه أحمد م ع

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج1 ص398، رقم:1588، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولي، 1413هـ - 1992م.

ابن حجر عسقلانی نے بھی اسکو ثقہ قرار دیا ہے:

ركين بالتصغير بن الربيع بن عميلة بفتح المهملة الفزاري أبو الربيع الكوفي ثقة من الرابعة مات سنة إحدي وثلاثين بخ م

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابو الفضل (متوفي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1، ص210، رقم: 1956، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986.

 وہب ابن حمزہ:

اس روایت کا آخری راوی، وہب ابن حمزہ ہے کہ جو رسول خدا کا صحابی ہے اور وہ خود اس واقعے کا نقل کرنے والا ہے۔

ابن أثير الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج5، ص474، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1417 هـ - 1996 م.

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفي 597 هـ)، تلقيح فهوم أهل الأثر في عيون التاريخ والسير، ج1، ص190، باب «تسمية أصحاب الرسول (ص) ومن رآه... و ج1، ص223، باب «ذكر من روي عن رسول الله (ص) من جميع أصحابه...»، ناشر: شركة دار الأرقم بن أبي الأرقم - بيروت، الطبعة: الأولي، 1997م.

لہذا اس روایت کی سند مکمل طور پر صحیح و معتبر ہے اور اسکی سند میں کسی قسم کا کوئی اشکال نہیں ہے۔

یہی روایت کتاب معجم الکبیر میں سند میں معمولی سی تبدیلی کے ساتھ نقل ہوئی ہے:

 

          حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْبَزَّارُ، وأَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ التُّسْتَرِيُّ، قَالا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ كَرَامَةَ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَي، ثنا يُوسُفُ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ دُكَيْنٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ حَمْزَةَ، قَالَ: " صَحِبْتُ عَلِيًّا مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَي مَكَّةَ....

 

الطبراني، ابو القاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفي360هـ)، المعجم الكبير، ج22، ص135، ح360، تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ - 1983م.

 

اس سند میں ركين بن الربيع کے نام کی جگہ، دكين ذکر ہوا ہے کہ یہ بھی رسول خدا کے اصحاب میں سے ہے، جس طرح کہ ابن حجر عسقلانی نے کتاب تقريب التہذيب میں اس بات کو بیان کیا ہے:

 

 

دكين مصغر بن سعد أو سعيد بزيادة ياء وقيل بالتصغير المري وقيل الخثعمي صحابي نزل الكوفة د

تقريب التهذيب ج1، ص201، رقم: 1828

لہذا اس روایت کی بھی سند مکمل طور پر صحیح ہے اور اس روایت کے سلسلہ سند میں دو صحابی ہیں کہ ایک، دكين بن سعيد اور دوسرا، وبب بن حمزه ہے، اور ایک روایت کے سلسلہ سند میں رسول خدا کے دو صحابی کا ہونا، یہ بات روایت کے اعتبار میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔

ابوبكر ہيثمی نے کتاب معجم الکبیر طبرانی سے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:

         رواه الطبراني وفيه دكين ذكره ابن أبي حاتم ولم يضعفه أحد وبقية رجاله وُثقوا 

طبرانی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس کی سند میں، دکین ہے، ابن ابی حاتم نے بھی اسکے نام کو ذکر کیا ہے، لیکن کسی نے بھی اسکو ضعیف قرار نہیں دیا، اسکے علاوہ بھی اس روایت کے باقی تمام راوی ثقہ ہیں۔

 

 

        الهيثمي، ابو الحسن نور الدين علي بن أبي بكر (متوفي 807 هـ)، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج9، ص109، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ.

ممکن ہے کہ کوئی اس روایت پر اعتراض کرے اور کہے کہ اگر اس روایت کا راوی دکین ہو تو، یہ دکین تو ثقہ نہیں ہے، لہذا یہ روایت ضعیف ہے اور معتبر نہیں ہے۔

ہم اسکے جواب میں کہیں گے کہ:

اولا: یہ دکین دو نہیں بلکہ ایک ہی شخص ہے، کیونکہ ہر دو کوفہ کے رہنے والے اور راویوں کے ایک ہی طبقے میں ہیں۔ اسکے علاوہ بھی کوئی دوسری ایسی دلیل موجود نہیں ہے کہ جو یہ ثابت کرے کہ یہ دو الگ الگ راوی ہیں۔

ظاہری طور پر ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ابن ابی حاتم نے امیر المؤمنین علی کی فضیلت والی روایت : علي أولي الناس بكم بعدی، کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے یہ کام کیا ہے، کیونکہ اہل سنت کے متعصب علماء نے حضرت امیر کے فضائل کم رنگ کرنے یا چھپانے کے  لیے اس طرح کے بہت سے حربوں کو استعمال کیا ہے۔

اگر ہیثمی کے قول، و لم يضعفہ أحد، سے اس راوی کا ثقہ ہونا ثابت نہ بھی ہو تو، اس عبارت سے اسکا ضعیف ہونا، ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔

      ثانياً: رکین ابن الربیع کا اس روایت کے واقعی و حقیقی راوی ہونے کا احتمال بہت ہی زیادہ ہے، کیونکہ اہل سنت کے بہت سے علماء نے اس روایت کی سند کو اس طرح سے نقل کیا ہے، یعنی يوسف بن صهيب نے ركين بن الربيع سے نقل کیا ہے کہ..............، ان میں ایک ابن اثير جزری ہے کہ اس نے کتاب اسد الغابۃ میں وہب بن حمزه کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

وَهْبُ بن حَمْزة. يعد في أهل الكوفة. روي حديثه يوسف ابن صُهَيب، عن رُكَين، عن وهب بن حمزة قال: صحبت علياً رضي الله عنه من المدينة إلي مكة....

ابن أثير الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج5، ص474، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1417 هـ - 1996 م.

ابن حجر عسقلانی نے بھی وہب بن حمزه کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

ثم أخرج من طريق يوسف بن صهيب عن ركين عن وهب بن حمزة قال سافرت مع علي فرأيت....

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابو الفضل (متوفي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج6، ص623، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ - 1992م.

اور ابن عساكر نے بھی کتاب تاريخ مدينہ دمشق میں نقل کیا ہے کہ:

أخبرنا أبو الفتح يوسف بن عبد الواحد أنا شجاع بن علي أنا أبو عبد الله بن مندة أنا خيثمة بن سليمان أنا أحمد بن حازم أنا عبيد الله بن موسي نايوسف بن صهيب عن ركين عن وهب بن حمزة قال: سافرت مع علي بن أبي طالب من المدينة إلي مكة...

تاريخ مدينة دمشق ج42، ص199

البتہ ابن حجر عسقلانی اور ابن عساكر نے رسول خدا (ص) کے کلام کو اس طرح سے نقل کیا ہے کہ:

       لا تقولن هذا لعلي فإن عليا وليكم بعدي.

اگرچے خود یہی جملہ بھی امیر المؤمنین علی (ع) کی ولایت مطلق کو ثابت کرتا ہے، بہرحال اس کام سے یہ بات ثابت اور واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت کے فضائل کو چھپانے کے لیے رسول خدا کی احادیث کے کلمات کو کم یا زیادہ کرنا، یہ اہل سنت کے علماء کا ہمیشہ سے کام رہا ہے۔

ان تمام باتوں سے قطع نظر کرتے ہوئے، اس ایک روایت کا دو طریق اور واسطوں سے بھی نقل ہونے کا احتمال بہت زیادہ ہے، ایک دفعہ رکین بن ربیع و وہب بن حمزہ کے ذریعے سے اور دوسری دفعہ دکین کے ذریعے سے۔ لھذا اگر بالفرض اس روایت کی دوسری سند کوئی اشکال ہو بھی تو، پھر بھی پہلی سند میں کسی قسم کا کوئی اشکال نہیں ہو گا۔ 

سند کے بارے میں تحقیق کا نتیجہ:

 

اس روایت کی پہلی سند کہ جو ابو نعیم اصفہانی سے نقل ہوئی ہے، وہ بالکل صحیح و معتبر ہے اور اس روایت کے تمام راوی اہل سنت کی تاریخ کے بزرگ علماء میں سے ہیں۔

اور اس روایت کی دوسری سند بھی دکین بن سعید کے واسطے سے نقل ہوئی ہے کہ وہ خود رسول خدا کے اصحاب میں سے ایک صحابی ہے، اور اگر دكين بن سعيد نہ بھی ہو تو پھر بھی اس روایت کے صحیح ہونے کو ضرر نہیں پہنچے گا۔

پس اس روایت کی سند قطعی طور پر صحیح ہے اور اہل سنت کے عقیدے کے مطابق بھی حجت ہو گی۔

 آیت : النَّبِيُّ أَوْلي بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهِم، کی تفسیر اہل سنت کے مفسرین کی نظر میں:

 

النَّبِيُّ أَوْلي بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهِم الاحزاب/6

رسول خدا مؤمنین کی جانوں پر ان سے زیادہ سزاوار تر ہیں۔

لہذا قرآن کی روشنی میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ رسول خدا کی ولایت مطلق تمام انسانوں کو شامل ہوتی ہے اور تمام پر رسول خدا کی اطاعت بے چون و چرا واجب ہے۔

اسی ولایت مطلق کو خود رسول خدا (ص) نے اسی ولایت مطلق کو امیر المؤمنین علی (ع) کے لیے بھی ثابت کیا ہے اور اس بارے میں معتبر و صحیح سند والی روایات کو خود علمائے اہل سنت نے اپنی معتبر کتب میں بھی ذکر کیا ہے

اس آیت میں اولویت سے مراد یہ ہے کہ رسول خدا جس کام کو بھی چاہیں اور مسلمانوں کے حق میں جو بھی تدبیر کرنا چاہیں، وہ مسلمانوں کے حق میں انجام دے سکتے ہیں اور مسلمانوں پر بھی واجب ہے کہ تمام امور میں رسول خدا کی مکمل طور پر اطاعت کریں۔ جس طرح سے اہل سنت کے بزرگ مفسرین نے اسی مطلب کو اسی آیت سے سمجھا اور بیان کیا ہے کہ اس بارے میں ہم چند مفسرین کے نام کو ذکر کرتے ہیں:

1. محمد بن جرير طبری (متوفی 310ہجری)

طبری اہل سنت کا مشہور مفسر ہے، اس نے اس آیت کے بارے میں لکھا ہے کہ:

 

النبي أولي بالمؤمنين... يقول تعالي ذكره النبيُ محمدٌ أولي بالمؤمنينَ يقول: أحق بالمؤمنين به من أنفسهم أن يَحْكُم فيهم بما يشاء من حكمٍ فيجوز ذلك عليهم.

 

 

كما حدثني يونس قال أخبرنا بن وهب قال قال بن زيد النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم كما أنت أولي بعبدك ما قضي فيهم من أمرٍ جازَ كما كلما قضيتَ علي عبدك جاز.

اس آیت میں: النبي اولي بالمؤمنين... خداوند نے رسول خدا کو مؤمنین کی جان پر خود ان سے زیادہ حقدار قرار دیا ہے اور اپنے رسول کو یہ حق عطا کیا ہے کہ وہ جو کچھ مسلمانوں کے حق میں انجام دینا چاہتے ہیں، انجام دے سکتے ہیں۔

الطبري، محمد بن جرير بن يزيد بن خالد أبو جعفر، جامع البيان عن تأويل آي القرآن، ج21، ص 122، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1405هـ.

2. ابن كثير دمشقی سلفی (متوفی774ہجری)

ابن کثیر نے بھی اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ:

النبي أولي بالمؤمنين... قد علم تعالي شفقة رسوله صلي الله عليه وسلم علي أمته ونصحه لهم فجعله أولي بهم من أنفسهم وحكمه فيهم كان مقدَّما علي اختيارهم لأنفسهم كما قال تعالي «فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّي يُحَكِّمُوكَ فيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا في  أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوا تَسْليماً».

خداوند اپنے رسول کی اپنی امت کے لیے محنت و زحمت سے باخبر تھے، لہذا رسول خدا کو تمام مؤمنین کے حق میں خود ان پر مقدم قرار دیا ہے، جس طرح کہ خداوند نے فرمایا ہے کہ:

تیرے پروردگار کی قسم وہ ہرگز مؤمن نہیں ہوں گے، مگر یہ کہ اپنے اختلافی مسائل میں، آپکو قاضی بنائیں اور آپکے فیصلہ کرنے کے بعد اپنے دلوں میں کسی قسم کی ناراضگی اور غصے کا احساس نہ کريں اور مکمل طور پر آپکے سامنے تسلیم رہیں۔

       القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفي774هـ)، تفسير القرآن العظيم، ج3، ص 468، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1401هـ.

3. ظہير الدين بغوی (متوفی516ہجری)

بغوی شافعی کہ اسکو «محيي السنۃ» کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، اس نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ:

        قوله عز وجل « النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم» يعني من بعضهم ببعض في نفوذ حكمه فيهم ووجوب طاعته عليهم وقال ابن عباس وعطاء يعني إذا دعاهم النبي صلي الله عليه وسلم ودَعَتْهم أنفسُهم إلي شيءٍ كانت طاعةُ النبي صلي الله عليه وسلم أولي بهم من أنفسهم قال ابن زيد  «النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم» فيما قضي فيهم كما أنت أولي بعبدك فيما قضيت عليه. وقيل هو أولي بهم في الحمل علي الجهاد وبذل النفس دونه.

رسول خدا کے فرامین کی اطاعت کرنا، امت کے تمام افراد پر، دوسروں کی اطاعت کرنے کی نسبت، واجب تر و مناسب تر ہے۔

ابن عباس اور عطاء نے کہا ہے کہ: اس آیت کا معنی یہ ہے کہ: امت کے افراد کو اگر رسول خدا ایک کام کرنے کا حکم دیں اور خود افراد کا دل کسی دوسرے کام کے کرنے کو پسند کرتا ہو تو، پس ایسی صورتحال میں رسول خدا کی اطاعت کرنا، ان پر واجب تر اور مقدم تر ہو گا۔

ابن زید نے کہا ہے کہ: رسول خدا کا اولی و مناسب ہونا، فیصلے کرنے اور انکے دوسروں کو حکم دینے میں ہے، اور کہا گیا ہے کہ: اولویت سے مراد یہاں پر رسول خدا کا دفاع کرنا اور انکی راہ میں اپنی جان کو قربان کرنا ہے۔

        البغوي، ظهير الدين أبو محمد الحسين ابن مسعود الفراء، تفسير البغوي، ج3، ص 507، تحقيق: خالد عبد الرحمن العك، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

4. قاضی عياض (متوفی 544ہجری)

اس نے اپنی مشہور کتاب الشفاء میں «أولي بالمؤمنين» کی اس طرح سے تفسیر کی ہے:

     قال أهل التفسير: أولي بالمؤمنين من أنفسهم: أي ما أنفذه فيهم من أمرٍ فهو ماضٍ عليهم كما يمضي حكمُ السيد علي عبده.

مفسرین نے رسول خدا کے بارے میں اولویت کو انکے حکم کے نافذ ہونے میں معنی کیا ہے، جس طرح سے ایک غلام پر اسکے آقا کا حکم نافذ ہوتا ہے۔

یعنی رسول خدا آقا ہیں اور انکی امت انکے غلام کا درجہ رکھتی ہے اور غلام کے لیے اپنے آقا کا حکم ماننا ہر حال میں واجب ہوتا ہے۔

القاضي عياض، أبو الفضل عياض بن موسي بن عياض اليحصبي السبتي، كتاب الشفا، ج1 ، ص 49 .

5. عبد الرحمن بن جوزی (متوفی 597 ہجری)

اس نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ:

قوله تعالي « النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم » أي احق فله أن يحكم فيهم بما يشاء قال ابن عباس إذا دعاهم إلي شئ ودعتهم أنفسهم إلي شئ كانت طاعته أولي من طاعة أنفسهم وهذا صحيح فان أنفسهم تدعوهم إلي ما فيه هلاكَهم والرسولُ يدعوهم إلي ما فيه نجاتَهم.

یہ جو خداوند نے فرمایا ہے کہ: النبي اولي بالمؤمنين من انفسهم،

اس کا معنی اولی تر و مناسب تر ہونا ہے، یعنی رسول خدا جیسے چاہیں، اپنی امت کو حکم دے سکتے ہیں۔

ابن عباس نے کہا ہے کہ: امت کے افراد کو اگر رسول خدا ایک کام کرنے کا حکم دیں اور خود افراد کا دل کسی دوسرے کام کے کرنے کو پسند کرتا ہو تو، پس ایسی صورتحال میں رسول خدا کی اطاعت کرنا، ان پر واجب تر اور مقدم تر ہو گا۔

پھر کہا ہے کہ: یہ ایک عقلی و صحیح بات ہے، اسلیے کہ انسانوں کا نفس انکو اس چیز و کام کی طرف لے جاتا ہے کہ جس میں انکی ہلاکت اور تباہی ہو، لیکن رسول خدا انکو اس چیز و کام کی طرف لے کر جاتے ہیں کہ جن میں انکی دنیا و آخرت میں نجات اور بھلائی ہو۔

 إبن الجوزي، عبد الرحمن بن علي بن محمد، زاد المسير في علم التفسير، ج6 ، ص 352، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1404هـ.

6. ابو القاسم زمخشری (متوفی 538ہجری)

زمخشری اہل سنت کا مشہور و معروف مفسر ہے، اس نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ:

 

«النَّبِيُّ أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِينَ ( في كل شيء من أمور الدين والدنيا ) منْ أَنفُسِهِمْ » ولهذا أطلق ولم يقيد، فيجب عليهم أن يكون أحبّ إليهم من أنفسهم، وحكمه أنفذ عليهم من حكمها، وحقه آثَرَ لديهم من حقوقها، وشفقتهم عليه أقدم من شفقتهم عليها، وأن يبدلوها دونه ويجعلوها فداءه إذا أعضل خطب، ووقاءه إذا لقحت حرب، وأن لا يتبعوا ما تدعوهم إليه نفوسهم ولا ما تصرفهم عنه، ويتبعوا كل ما دعاهم إليه رسول الله صلي الله عليه وسلم وصرفهم عنه، لأنّ كل ما دعا إليه فهو إرشادٌ لهم إلي نيلِ النجاةِ والظفرُ بسعادةِ الدارين وما صَرَفَهم عنه، فأخذ بحجزهم لئلا يتهافتوا فيما يرمي بهم إلي الشقاوة وعذاب النار.

 

 

رسول خدا مؤمنین کے تمام دینی اور دنیاوی امور میں ان کی نسبت مناسب تر ہیں، اسی وجہ سے انکی اطاعت بغیر کسی قید و شرط ( مطلق ) کے بیان ہوئی ہے۔ لہذا اس امت کے تمام افراد پر واجب ہے کہ انکے لیے رسول خدا ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہونے چاہیں اور انکا حکم سب حکموں پر نافذ اور انکا حق سب سے برتر اور مؤمنین اپنی جانوں کو انکے لیے نثار کریں اور جنگ ہونے کی صورت میں انکا دفاع و حفاظت کریں اور مؤمنین اپنی خواہشات نفسانی اور ہر وہ چیز جو انکو رسول خدا سے دور کرے، اس سے دوری اختیار کریں اور ہر وہ چیز جو انکو رسول خدا سے نزدیک کرے، اسکی اتباع و پیروی کریں، کیونکہ یہ رسول خدا ہی ہیں کہ جو مؤمنین کو دنیا و آخرت کی سعادت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور جہنم کے عذاب سے دور کرتے ہیں۔

الزمخشري الخوارزمي، أبو القاسم محمود بن عمر ، الكشاف عن حقائق التنزيل وعيون الأقاويل في وجوه التأويل، ج3 ، ص 531، تحقيق: عبد الرزاق المهدي، بيروت، ناشر: دار إحياء التراث العربي

7. ابی البركات نسفی (متوفی 710ہجری)

نسفی نے کہا ہے کہ:

«النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم» أي أحق بهم في كل شيء من أمور الدين والدنيا وحكمه أنفذ عليهم من حكمها فعليهم ان يبذلوها دونه ويجعلوها فداءه.

رسول خدا مؤمنین کی جانوں پر خود انکی بھی نسبت مقدم و مناسب ہیں، اس آیت کا یہ معنی ہے کہ وہ انکے تمام دنیا و آخرت کے امور میں ان پر مقدم و برتر ہیں اور انکا حکم سب پر نافذ ہے، پس سب مؤمنین پر واجب ہے کہ اپنی جانوں کو رسول خدا پر فدا کریں۔

        النسفي ، أبي البركات عبد الله ابن أحمد بن محمود، تفسير النسفي، ج3 ، ص 297.

8. ابی حيان اندلسی (متوفی 745ہجری)

اس نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ:

«أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِينَ»: أي في كل شيء، ولم يقيد. فيجب أن يكون أحب إليهم من أنفسهم، وحكمه أنفذ عليهم من حكمها، وحقوقه آثَرَ، إلي غير ذلك مما يجب عليهم في حقه.

رسول خدا بغیر کسی قید و شرط کے تمام چیزوں میں تمام مؤمنین سے افضل و برتر ہیں، لہذا اس امت کے تمام افراد پر واجب ہے کہ انکے لیے رسول خدا ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہونے چاہیں اور انکا حکم سب حکموں پر نافذ اور انکے حقوق کا سب سے زیادہ خیال مؤمنین کو رکھنا ہو گا۔

أبي حيان الأندلسي، محمد بن يوسف ، تفسير البحر المحيط، ج7 ، ص 297، تحقيق: الشيخ عادل أحمد عبد الموجود - الشيخ علي محمد معوض، شارك في التحقيق 1) د.زكريا عبد المجيد النوقي 2) د.أحمد النجولي الجمل، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1422هـ -2001م .

9. ابن قيم الجوزيۃ (متوفی 751ہجری)

ابن قیم جوزی ایک ادیب، مفسر، فقیہ، متکلم اور محدث ہے، عالم حنبلی مذہب اور ابن تیمیہ کا خاص شاگرد ہے اور اسکے افکار کو نشر کرنے والا بھی ہے، اس نے اپنی کتاب زاد المہاجر میں، اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ: 

      وقال تعالي «النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم» وهو دليلٌ علي ان من لم يكن الرسولُ اولي به من نفسه فليس من المؤمنين وهذه الاولوية تتضمن امورا:

منها: ان يكون احبَّ إلي العبدِ من نفسه لان الأولوية اصلها الحب ونفس العبدِ احبٌ له من غيره ومع هذا يجب ان يكون الرسولُ اولي به منها واحب اليه منها فبذلك يحصل له اسم الايمان.

ويلزم من هذه الاولويةِ والمحبةِ كمالَ الانقيادِ والطاعةِ والرضا والتسليمِ وسائرَ لوازمِ المحبةِ من الرضا بحكمه والتسليم لامره وايثاره علي ما سواه.

ومنها: ان لايكون للعبد حكمٌ علي نفسه اصلاً بل الحكمُ علي نفسِه للرسول صلي الله عليه وسلم يَحْكم عليها اعظم من حكمِ السيدِ علي عبدِه أو الوالد علي ولده فليس له في نفسه تصرف قط الا ما تصرف فيه الرسول الذي هو اولي به منها.

النبي اولي بالمؤمنين من انفسهم،یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ جو بھی رسول خدا کو اپنے آپ پر مقدم نہ جانے تو وہ بندہ، مؤمن ہی نہیں ہے، اس بات سے چند امور واضح ہو جاتے ہیں:

        1. مؤمن کو رسول خدا سے خود اپنے آپ سے بھی زیادہ محبت کرنی چاہیے، کیونکہ انکو مقدم کرنے اور برتری دینے کی بنیاد، ان سے محبت کرنا ہے، اور یہ ایک فطری بات ہے کہ ہر کوئی تمام چیزوں سے زیادہ اپنے آپ سے محبت کرتا ہے اور جب رسول خدا کو اپنے سے بھی زیادہ محبت کرے گا تو یہ اسکے مؤمن ہونے کی بھی علامت ہو گی، اور ایسا بندہ رسول خدا کی پیروی کرنے والا اور ان کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والا ہو گا۔

        2. اپنے آپکو رسول خدا کے سامنے کچھ بھی نہ سمجھے، بلکہ انکے حکم کو آقا کے غلام کے لیے حکم سے یا ایک باپ کے بیٹے کے لیے حکم سے بھی زیادہ، مہم تر سمجھے، اور رسول خدا کے فرمان کے سامنے اپنے لیے کسی قسم کے حق کا قائل نہ ہو۔

       الزرعي، محمد بن أبي بكر أيوب أبو عبد الله (معروف به ابن قيم الجوزية)، الرسالة التبوكية زاد المهاجر إلي ربه، ج1، ص 29، تحقيق: د. محمد جميل غازي، ناشر: مكتبة المدني - جدة.

10. ملا علی قاری (متوفی 1014ہجری)

ملا علی ہروی کہ جو قاری مشہور ہے، اس نے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں کہا ہے کہ:

«أولي بالمؤمنين من أنفسهم» أي أولي في كل شيء من أمور الدين والدنيا، ولذا أطلق ولم يقيد فيجب عليهم أن يكون أحب إليهم من أنفسهم وحكمه أنفذ عليهم من حكمها، وحقه آثر لديهم من حقوقها وشفقتهم عليه أقدم من شفقتهم عليها. 

رسول خدا تمام دینی و دنیاوی امور میں اعلی و برتر ہیں، اسی وجہ سے خداوند نے اس آیت میں اسی اولویت و برتری کو مطلق و بغیر کسی قید کے ذکر کیا ہے، پس تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ خود اپنی جانوں سے بھی زیادہ رسول خدا سے محبت کریں اور انکے حکم پر لازمی طور عمل کریں اور انکے حقوق کو اپنے حقوق پر مقدم کریں اور انکی مرضی و پسند کو اپنی پسند پر ترجیح دیں۔

         ملا علي القاري، علي بن سلطان محمد، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج6 ، ص 297، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1422هـ - 2001م .

11. شوكانی (متوفی 125ہجری)

محمد بن علی شوكانی نے اس آیت کی تفسیر اس طرح بیان کی ہے کہ:

«النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم» أي هو أحقٌ بهم في كلِ أمورِ الدين والدنيا وأولي بهم من أنفسهم فضلا عن أن يكون أولي بهم من غيرِهم فيجب عليهم أن يؤثروه بما أراده من أموالهم وإن كانوا محتاجين إليها ويجب عليهم أن يحبوه زيادة علي حبهم أنفسهم ويجب عليهم أن يقدموا حكمه عليهم علي حكمهم لأنفسهم.

وبالجملة فإذا دعاهم النبي صلي الله عليه وسلم لشيء ودعتهم أنفسهم إلي غيره وجب عليهم أن يقدموا مادعاهم إليه ويؤخروا مادعتهم أنفسهم إليه ويجب عليهم أن يطيعوه فوق طاعتهم لأنفسهم ويقدموا طاعته علي ماتميل إليه أنفسهم وتطلبه خواطرهم.

رسول خدا مؤمنین کی جانوں پر خود انکی نسبت زیادہ اولی و سزاوار تر ہیں، رسول خدا انکی نسبت تمام دینی و دنیاوی امور میں اعلی و برتر ہیں، پس واجب ہے کہ اپنے مال کو خرچ کرنے میں اگرچہ خود محتاج و ضرورت مند ہی کیوں نہ ہوں، ان (رسول خدا) کو مقدم کریں اور خود اپنی جانوں سے بھی زیادہ رسول خدا سے محبت کریں اور انکے حکم پر لازمی طور عمل کریں۔

پس اگر  امت کے افراد کو اگر رسول خدا ایک کام کرنے کا حکم دیں اور خود افراد کا دل کسی دوسرے کام کے کرنے کو پسند کرتا ہو تو، پس ایسی صورتحال میں رسول خدا کی اطاعت کرنا، ان پر واجب تر اور مقدم تر ہو گا، اور حتی انکو اپنی طاقت و قدرت سے بڑھ کر بھی رسول خدا کی اطاعت کرنی چاہیے۔

 الشوكاني، محمد بن علي بن محمد، فتح القدير الجامع بين فني الرواية والدراية من علم التفسير، ج4 ، ص 261، ناشر: دار الفكر - بيروت.

12. حسن خان فتوحی (متوفی1307ہجری)

اس نے کہا ہے کہ:

قال تعالي «النبي أولي بالمؤمنين من أنفسهم» فإذا دعاهم لشيء ودعتهم أنفسهم إلي غيره وجب عليهم أن يقدموا ما دعاهم إليه ويؤخروا ما دعتهم أنفسهم إليه ويجب عليهم أن يطيعوه فوق طاعتهم لأنفسهم ويقدموا طاعته علي ما تميل إليه أنفسهم وتطلبه خواطرهم.

مؤمنین کو اگر رسول خدا ایک کام کرنے کا حکم دیں اور خود ان کا دل کسی دوسرے کام کے کرنے کو پسند کرتا ہو تو اس صورت میں رسول خدا کی اطاعت کرنا، ان پر واجب تر ہو گا، اور حتی انکو اپنی طاقت و قدرت سے بڑھ کر رسول خدا کی اطاعت کرنی چاہیے۔

 الفتوحي، السيد محمد صديق حسن خان، حسن الأسوة بما ثبت من الله ورسوله في النسوة، ج1 ، ص 182، تحقيق: الدكتور- مصطفي الخن/ ومحي الدين ستو ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الخامسة، 1406هـ/ 1985م. 

نتیجہ بحث:

اہل سنت کے بزرگ مفسرین کے اقوال سے یہ نتیجہ آسانی سے نکالا جا سکتا ہے کہ اس آیت میں اولویت کا معنی یہ ہے کہ تمام مسلمانوں پر ہر حال میں اور ہر زمانے میں رسول خدا کی پیروی و اطاعت کرنا واجب ہے اور رسول خدا اسی اولویت کی بناء پر مسلمانوں کے تمام امور میں دخل و تصرف کر سکتے ہیں اور خود رسول خدا انکی نسبت تمام امور مناسب تر ہیں۔

اہل سنت کی معتبر کتب میں موجود و مذکور معتبر روایات کی بناء پر خود رسول خدا نے خداوند کے حکم کے مطابق اسی مقام و منصب اولویت کو امیر المؤمنین علی کے لیے بھی ثابت کیا ہے، « فَهُوَ أَوْلَی النَّاسِ بِكُمْ بَعْدِی» یعنی امیر المؤمنین علی کی ولایت، وہی رسول خدا والی ولایت ہے، یعنی جس طرح تمام مسلمانوں پر رسول خدا کی بغیر کسی قید و شرط کے، مطلق اطاعت و پیروی واجب ہے، اور وہ  حضرت تمام مسلمانوں پر ولایت مطلق رکھتے ہیں، اسی طرح ان پر امیر المؤمنین علی کی بھی اطاعت و پیروی واجب ہے، کیونکہ امیر المؤمنین علی بھی تمام مسلمانوں پر ولایت مطلق رکھتے ہیں۔ اس  لیے کہ جو  رسول خدا (ص) کی جگہ پر بیٹھے گا، وہ علم و شجاعت و اخلاق و تقوی میں بالکل ان حضرت کی طرح  ہونا چاہیے۔ اہل سنت کی معتبر کتب کی معتبر روایات کے مطابق  رسول خدا (ص) کے بعد تمام اصحاب میں علم و شجاعت و اخلاق و عدالت و تقوی میں کوئی بھی حضرت علی (ع) کی طرح نہیں ہے۔اسلیے رسول خدا (ص) کے بعد ان حضرت کا خلیفہ و جانشین بننے کے لیے  حضرت علی (ع) ہی دوسروں کی نسبت اولی تر و مناسب تر ہوں گے۔ 

التماس دعا.....

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات