2024 March 19
کیا آيت «ومن عنده علم الكتاب» امام علی (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے ؟
مندرجات: ١٨١١ تاریخ اشاعت: ١٩ June ٢٠١٩ - ١٣:٠٢ مشاہدات: 5612
سوال و جواب » امام علی (ع)
کیا آيت «ومن عنده علم الكتاب» امام علی (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے ؟

 

سوال:

کیا آيت «ومن عنده علم الكتاب» امام علی (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے ؟

توضیح سؤال :

اہل بیت اور خاص طور پر امیر المؤمنین علی (ع) کا علمی مقام و مرتبہ قرآن و سنت میں ایسے مسائل میں سے ہے کہ جو زمانہ قدیم سے مذاہب اسلامی میں مورد بحث اور معرکۃ الآراء رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جیسے امیر المؤمنین علی (ع) کی سیاسی اور دینی امامت و خلافت کے بارے میں قرآن و سنت میں تصریح ہوئی ہے، کیا ان حضرت کی علمی شخصیت کے مقام و مرتبے کے بارے میں قرآن میں کوئی ذکر ہوا ہے ؟

اور کیا آيت :

«قُلْ كَفي بِاللَّهِ شَهيداً بَيْني وَ بَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتاب»

امير المو منين علی (ع) کی علمی شخصیت کو بیان کر رہی ہے ؟

جواب:

الف: شيعہ کا نکتہ نظر:

شیعہ اعتقاد کے مطابق اہل بیت اور خاص طور پر امیر المؤمنین علی (ع) بہت ہی بلند علمی شخصیت اور علم الہی (علم لدنی) کے مقام پر فائز تھے، اسطرح سے کہ رسول خدا (ص) نے اہل بیت (ع) کی طرف رجوع کرنے کے بارے میں فرمایا ہے کہ:

«إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا كتاب الله وعترتي » 

بے شک میں تم میں دو قیمتی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم انکو تھام لو گئے تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، کتاب خدا اور میرے اہل بیت۔

اور امير المومنين علی (ع) کے بلند علمی مرتبے کے بارے میں یادگار اور تاریخی الفاظ فرمائے کہ:

« أنا مدينة العلم وعلي بابها فمن أراد المدينة فليأت الباب».

میں علم کا شہر ہوں اور علی اس شہر کا دروازہ ہیں، جو اس شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے تو اسے دروازے پر آنا ہو گا۔

واضح ہے کہ یہ علم و معرفت عادی اور معمولی نہیں ہے کہ جسکے آنے سے پہلے بھی جہل و خطا ہو اور جسیے جانے کے بعد بھی جہالت باقی رہ جاتی ہو، ایسا علم ہم عام انسانوں کا ہوتا ہے، بلکہ یہ علم و معرفت خدائی و لدنی ہے کہ جو زوال ناپذیر اور خطا ناپذیر ہے کہ ایسا علم خداوند اپنے خاص بندوں کو اپنے عام بندوں کی ہدایت کرنے کے لیے عطا فرماتا ہے۔

لہذا آیات قرآن اور فریقین کی صحیح و معتبر روایات کے مطابق شیعہ علماء کا اعتقاد ہے کہ یہ آیت « من عنده علم الكتاب » مکی ہے اور الکتاب سے مراد اس آیت میں، قرآن کریم ہے اور اس آیت کے مصداق واقعی امير المومنين علی (ع) ہیں۔ اسکے علاوہ کتب فریقین (شیعہ و سنی) میں متعدد صحیح السند روایات موجود ہیں کہ جن میں تواتر کے ساتھ « من عنده علم الكتاب» کی آیت کی امير المؤمنين علی (ع) کے ساتھ تفسير کی گئی ہے۔

روایات کے بارے میں بحث (بحث روائی):

علی ابن ابراہيم قمی نے سند صحيح کے ساتھ امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے:

حدثني أبي عن ابن أبي عمير عن ابن أذينة عن أبي عبد الله عليه السلام قال : الذي عنده علم الكتاب هو أمير المؤمنين عليه السلام .

امام صادق (ع) نے فرمایا: وہ کہ جسکے پاس کتاب (قرآن) کا علم ہے، وہ امير المؤمنين علی (ع) ہیں۔

تفسير القمي ، ج 1 ، ص 367 .

محمد ابن حسن صفار نے کتاب بصائر الدرجات میں سند صحيح کے ساتھ امام باقر (ع) سے نقل کیا ہے کہ اس آیت کا مصداق ہم اہل بیت (ع) ہیں کہ ہمارے اول اور رسول خدا کے بعد ہم میں سے سب سے بہتر امير المؤمنين علی (ع) ہیں۔ اس نے اس بارے میں لکھا ہے:

حدثنا محمد بن الحسين و يعقوب بن يزيد عن ابن أبي عمير عن بريد بن معاوية قال قلت لأبي جعفر عليه السلام قل كفي بالله شهيدا بيني و بينكم و من عنده علم الكتاب قال إيانا عني و علي أو لنا و أفضلن و خيرنا بعد النبي صلي الله عليه وآله .

بريد ابن معاويہ نے کہا ہے میں نے امام باقر (ع) سے عرض کیا کہ یہ آیت: کہہ دیں کہ خداوند اور وہ کہ جسکے پاس کتاب کا علم ہے، وہ میرے اور تمارے درمیان گواہی دینے کے لیے کافی ہے، کس کے بارے میں ہے تو امام نے فرمایا: اس آیت سے مراد ہم اہل بیت ہیں اور رسول خدا (ص) کے بعد ہمارے خاندان کے اول و سب سے افضل علی (ع) ہیں۔

بصائر الدرجات ، ص 236 .

شيخ صدوق نے كتاب امالی میں سند صحيح کے ساتھ رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ ان حضرت نے فرمایا:

حدثنا محمد بن موسي بن المتوكل قال : حدثنا محمد بن يحيي العطار ، قال : حدثنا أحمد بن محمد بن عيسي ، عن القاسم بن يحيي ، عن جده الحسن بن راشد ، عن عمرو بن مغلس ، عن خلف ، عن عطية العوفي ، عن أبي سعيد الخدري ، قال : سألت رسول الله صلي الله عليه وآله عن قول الله : قال الذي عنده علم من الكتاب . قال : ذاك وصي أخي سليمان بن داود . فقلت له : يا رسول الله ، فقول الله عز وجل : قل كفي بالله شهيدا بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب ، قال : ذاك أخي علي بن أبي طالب .

ابی سعيد خدری نے کہا ہے کہ میں نے رسول خدا (ص) سے اس آيت « ومن عنده علم من الكتاب » کے بارے میں سؤال کیا تو انھوں نے فرمایا: جسکے پاس کتاب کا کچھ (کم) علم ہے وہ میرے وصی اور میرے بھائی حضرت سلیمان ابن داود ہیں، پھر میں (سعید خدری) نے کہا: یا رسول اللہ خداوند نے دوسری آیت قل كفي بالله شهيدا بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب، میں ایسے فرمایا ہے ؟ رسول خدا (ص) نے فرمایا: وہ میرے بھائی علی ابن ابی طالب ہیں۔

الأمالي ، الشيخ الصدوق ، ص 659 .

البتہ اس بارے میں روایات بہت زیادہ ہیں کہ ہم صرف انہی چند روایات کے ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔

نتيجہ:

وہ روايات كہ جو شیعہ مفسرين نے اس آیت « من عنده علم الكتاب » کے مصداق کے بارے میں ذكر کیں ہیں، وہ سند کے لحاظ سے صحیح اور دلالت کے لحاظ سے قطعی و یقینی ہیں، لہذا اس آیت اور ان روایات سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ یہ آیت امیر المؤمنین علی (ع) کے بلند علمی مقام و مرتبے کو ثابت کر رہی ہے اور یہ کہ ان حضرت کا علم، علم لدنی ہے کہ جو خداوند سے رسول خدا (ص) کے ذریعے سے لیا گیا ہے۔ اسی لیے رسول خدا (ص) نے امیر المؤمنین علی (ع) کو اپنے علم کا دروازہ قرار دیا ہے۔

ب: اہل سنت کا نکتہ نظر:

اہل بیت (ع) اور خاص طور پر امیر المؤمنین علی (ع) کی علمی برتری اور فضیلت اہل سنت کے تمام مذاہب پر کسی سے پوشیدہ اور مخفی نہیں ہے، حتی مذاہب اہل سنت کے تمام علماء اور بزرگان نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے اور اہل سنت کے اکثر مفسرین نے اس آیت: من عنده علم الكتاب کی تفسیر، امير المومنين علی (ع) کی شان میں ذکر کی ہے اور اس آیت کے ذیل میں متعدد روایات کو ذکر کیا ہے کہ اس آیت کا حقیقی اور واقعی مصداق، امیر المؤمنین علی (ع) کی مقدس ذات ہے۔

اگرچہ اہل سنت کے بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر و مصداق میں عبد الله ابن سلام ، جبرائيل اور سلمان فارسی کو ذکر کیا ہے لیکن کسی نے بھی اپنے قول پر کوئی محکم و قطعی دلیل ذکر نہیں کی اور اگر ان مفسرین نے اپنی بات کی تائید میں روایات کو بھی ذکر کیا ہے تو وہ روایات یا سند کے لحاظ سے ضعیف اور ناقابل قبول ہیں اور یا دلالت کے لحاظ سے ان روایات میں اشکالات پائے جاتے ہیں۔ اہل سنت کے جن مفسرین نے اس آیت کے مصداق کو امیر المؤمنین علی کی ذات کو ذکر کیا ہے تو انھوں نے اپنی بات پر متعدد روایات کو ذکر کیا ہے کہ ہم ان میں سے چند روایات کو یہاں پر ذکر کر رہے ہیں:

روایات اہل سنت کے بارے میں بحث (بحث روائی):

ثعلبی نے اس آیت « من عنده علم الكتاب » کے مصداق کو بیان کرنے کے لیے امام باقر (ع) کی روایت کو ذکر کیا ہے کہ اس آیت کے مصداق سے مراد امیر المؤمنین علی (ع) ہیں، اس نے اس بارے میں لکھا ہے:

ابن عطاء قال : كنت جالسا مع أبي جعفر في المسجد فرأيت ابن عبد الله بن سلام جالسا في ناحية فقلت لأبي جعفر : زعموا أن الذي عنده علم الكتاب عبد الله بن سلام . فقال : إنما ذلك علي بن أبي طالب عليه السلام عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتاب.

ابو جعفر (ع) سے اس آیت « من عنده علم الكتاب » کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اس سے مراد عبد اللہ ابن سلام ہے ؟ امام باقر نے فرمایا: جسکے پاس کتاب (قرآن) کا علم ہے، وہ علی ابن ابی طالب ہیں۔

تفسير الثعلبي ، ج 5 ، ص 303 .

حاكم حسكانی نے کتاب شواہد التنزيل میں بھی چند روايات کو نقل کیا ہے کہ جسکے پاس کتاب کا علم ہے، وہ حضرت علی (ع) ہیں:

حاكم نے ابن عباس اور محمد حنفيہ سے روايت نقل کی ہے کہ یہ آیت « من عنده علم الكتاب » امير المومنين علی (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ:

عن ابن عباس في قوله تعالي : « ومن عنده علم الكتاب » قال هو علي بن علي طالب . عن ابن الحنفية في قوله تعالي : « ومن عنده علم الكتاب » قال : هو علي بن أبي طالب .

ابن عباس اور ابن حنفيہ سے اسی آيت کے بارے میں سوال ہوا تو انھوں نے کہا: جسکے پاس کتاب کا علم ہے، وہ علی ابن ابی طالب ہیں۔  

عن أبي عبد اللّه عليه السّلام: «أنّ المراد بمن عنده علم الكتاب علي بن أبي طالب و أئمّة الهدي عليهم السّلام »

امام صادق (ع) نے فرمایا: اس آیت « من عنده علم الكتاب » سے مراد علی ابن ابی طالب اور ائمہ ہدايت (ع) ہیں۔

روي بريد بن معاوية عن أبي عبد اللّه عليه السّلام أنّه قال : « إيّانا عني ، و علي أولنا ، و أفضلنا ، و خيرنا بعد النبيّ صلّي اللّه عليه و آله و سلّم »

بريد ابن معاويہ نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ اس آیت سے مراد ہم اہل بیت ہیں اور رسول خدا (ص) کے بعد ہمارے اول و افضل امير المومنين علی (ع) ہیں۔

و يؤيّد ذلك ما روي عن الشعبي أنّه قال : ما أحد أعلم بكتاب اللّه بعد النبيّ من عليّ بن أبي طالب عليه السّلام .

اس بات کی تائید میں شعبی کی روایت ہے کہ امام نے فرمایا: رسول خدا (ص) کے بعد قرآن کے بارے میں کو‏ئی بھی علی (ع) سے زیادہ عالم نہیں ہے۔

شواهد التنزيل ، ّالحاكم الحسكاني ، ج 1 ، ص 402 .

سليمان قندوزی نے سعيد خدری سے اس آیت « من عنده علم الكتاب » کی تفسیر میں روایت کو نقل کیا ہے کہ اس آیت سے مراد علی (ع) ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ:

عن عطية العوفي عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : سألت رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم عن هذه الآية « الذين عنده علم من الكتاب » قال : ذاك أخي سليمان بن داود عليهما السلام . وسألته عن قوله الله عز وجل « قل كفي بالله شهيدا بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب » قال : ذاك أخي علي بن أبي طالب صاحب المناقب .

ابو سعيد خدری کہتا ہے میں نے رسول خدا (ص) سے اس آيت « عنده علم من الكتاب » کے بارے میں سؤال کیا تو انھوں نے فرمایا: وہ میرے بھائی سلیمان ابن داود ہیں، (سعید خدری) کہتا ہے پھر میں نے کہا: یا رسول اللہ قرآن میں ایک دوسری آیت بھی ہے: « قل كفي بالله شهيدا بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب » تو رسول خدا (ص) نے فرمایا: اس سے مراد میرا بھائی علی ابن ابی طالب ہے۔

اور سعید خدری نے متعدد طرق سے نقل کرتے ہوئے روایت میں نقل کیا ہے کہ:

روي عن محمد بن مسلم وأبي حمزة الثمالي وجابر بن يزيد عن الباقر عليه السلام . وروي علي بن فضال والفضيل عن الرضا عليه السلام ، وقد روي عن موسي بن جعفر ، وعن زيد بن علي عليه السلام ، وعن محمد بن الحنفية ، وعن سلمان الفارسي ، وعن أبي سعيد الخدري وإسماعيل السدي أنهم قالوا في قوله تعالي : « قل كفي بالله شهيدا بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب » هو علي بن أبي طالب عليه السلام .

ایک دوسری روایت میں ذکر ہوا ہے کہ آیت مذکور امير المومنين علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

ينابيع المودة ، القندوزي ، ج 1 ، ص307 .

شواہد اور تائید :

مذکورہ روایات کے علاوہ اہل سنت کی کتب میں دوسری روایات بھی ہیں کہ جو امام علی کے بلند علمی مرتبے کو بیان کرتی ہیں کہ یہ روایات اس آیت « و من عنده علم الكتاب » کی تائید کرتی ہیں کہ اس آیت کا مصداق یقینی طور پر امیر المؤمنین علی (ع) ہی کی ذات مقدس ہے۔ بعض روایات کو ذکر کیا جا رہا ہے:

الف : أنا مدينۃ العلم و عليّ بابها ...

حاكم نشاپوری نے اس روايت کو ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا دروازہ ہیں، جو بھی اس شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے اسکے دروازے سے آنا ہو گا۔

حاكم نے اس روایت کے صحیح ہونے پر بھی تصريح کرتے ہوئے لکھا ہے:

حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ثنا محمد بن عبد الرحيم الهروي بالرملة ثنا أبو الصلت عبد السلام بن صالح ثنا أبو معاوية عن الأعمش عن مجاهد عن بن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلي الله عليه و آله : « أنا مدينة العلم و علي بابها فمن أراد المدينة فليأت الباب » . هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه و أبو الصلت ثقة مأمون ...

ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا دروازہ ہیں، جو بھی اس شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے اسکے دروازے سے آنا ہو گا۔

یہ حدیث صحیح السند ہے لیکن اسکے باوجود بخاری و مسلم نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا، حالانکہ ابا صلت ہروی بھی ثقہ اور جھوٹ سے محفوظ راوی ہے۔

النيسابوري ، محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم الوفاة : 405 هـ ، المستدرك علي الصحيحين ، دار النشر : دار الكتب العلمية ، بيروت - 1411هـ - 1990م ، ج 3 ص 126 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : مصطفي عبد القادر عطا .

عبد البر نے لکھا ہے: عمر ابن خطاب نے کہا ہے علی (ع) مقدمات کا فیصلہ کرنے اور شرعی حدود کو بیان کرنے میں تمام صحابہ سے عالم ہیں۔

قال عمر بن الخطاب: علي أقضانا ...

عمر کہتا ہے: ہم سب سے زیادہ قضاوت کا علم علی (ع) کے پاس ہے۔

يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر الوفاة : 463 ، الاستيعاب في معرفة الأصحاب ، ج 3 ، ص 1102 ، دار النشر : دار الجيل ، بيروت ، 1412 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : علي محمد البجاوي.

جوينی نے روايت پيغمبر اکرم (ص) سے نقل کیا ہے کہ ان حضرت نے تمام صحابہ کے سامنے فرمایا:

قال صلي الله عليه و سلم في أصحابه : أقضاهم علي بن أبي طالب عليه السلام أنا مدينة العلم و علي عليه السلام بابها ...

علی (ع) مقدمات کے فیصلے کرنے میں تم میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہے کہ میں شہر کا علم ہوں اور علی اسکا دروازہ ہیں۔

أبو المعالي عبد الملك بن عبد الله بن يوسف الجويني الوفاة : 478 هـ ، كتاب التلخيص في أصول الفقه ج 3 ، ص 12 ، دار النشر دار البشائر الإسلامية بيروت ، 1417هـ، 1996م ، تحقيق : عبد الله جولم النبالي وبشير أحمد العمري .

ب : سلونی عن كتاب الله تعالی:

بلاذری نے روايت کو علی (ع) سے نقل کیا ہے کہ ان حضرت نے فرمایا:

سلوني عن كتاب الله تعالي فوالله ما من آية إلا وأنا أعلم أبليل نزلت أم بنهار أفي سهل أو في جبل .

کتاب خدا میں سے مجھ سے سوال پوچھو، خدا کی قسم ہر آیت کے بارے میں مجھے علم ہے کہ وہ دن کو نازل ہوئی ہے یا رات کو، صحرا میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر۔

مسيب سے بھی نقل ہوا ہے کہ:

و قال ابن المسيب ما كان أحد من الناس يقول سلوني غير علي رضي الله عنه و قيل لعطاء أكان أحد في أصحاب رسول الله e أعلم من علي كرم الله تعالي و جهه قال: لا والله.

مسيب کہتا ہے آج تک کسی نے علی (ع) کے علاوہ سلونی سلونی نہیں کہا، عطاء کو کہا گیا کہ کیا رسول خدا (ص) کے اصحاب میں سے کوئی امیر المؤمنین علی (ع) سے زیادہ عالم تھا ؟ عطاء نے کہا: خدا کی قسم بالکل نہیں۔

انساب الاشراف ، احمد بن يحي بن جابر بلاذري ، متوفی 279 ، ج 1 ، ص 279 .

معاويہ (لع) نے جب امير المومنين علی (ع) کی شہادت کے بارے میں سنا تو حضرت کی شخصیت کے بارے میں کہا:

و قال معاوية رضي الله عنه حين بلغه قتل علي رضي الله عنه و الله لقد ذهب العلم و الفقه،

خدا کی قسم علم اور فقہ دنیا سے چلے گئے ہیں۔

ابن طفيل نے روايت کو امير المومنين علی (ع) سے نقل کیا ہے کہ:

ابن يونس أخبرنا أبو بكر بن عياش عن نصير عن سليمان الأحمسي عن أبيه قال قال علي عليه السلام : و الله ما نزلت آية إلا و قد علمت فيما نزلت و أين نزلت و علي من نزلت إن ربي و هب لي قلبا عقولا و لسانا طلقا .

خدا کی قسم میں ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کس کے بارے میں اور کہاں اور کس پر نازل ہوئی، بے شک میرے پروردگار نے مجھے فہیم قلب اور بلیغ زبان بخشی ہے۔

ایک روايت میں ابی طفيل نے علی (ع) سے نقل کیا ہے کہ امير المومنين علی (ع) نے فرمایا:

أخبرنا عبد الله بن جعفر الرقي أخبرنا عبيد الله بن عمرو عن معمر عن و هب بن أبي دبي عن أبي الطفيل قال قال علي عليه السلام : سلوني عن كتاب الله فإنه ليس من آية إلا و قد عرفت بليل نزلت أم بنهار في سهل أم في جبل .

مجھ سے کتاب خدا کے بارے میں سوال پوچھو کہ بے شک خدا کی قسم ہر آیت کے بارے میں مجھے علم ہے کہ وہ دن کو نازل ہوئی ہے یا رات کو، صحرا میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر۔

الطبقات الكبري ، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري الزهري الوفاة : 230 ، ج 2 ، ص 338 . دار النشر : دار صادر بيروت .

يحيی ابن معين نے لکھا ہے:

حدثنا يحيي قال حدثنا سفيان بن عيينة عن يحيي بن سعيد عن سعيد بن المسيب قال ما كان في أصحاب النبي صلي الله عليه و سلم أحد يقول سلوني غير علي بن أبي طالب .

ابن معين نے روایت ابن سعيد سے نقل کی ہے کہ رسول خدا (ص) کے اصحاب میں سے علی ابن ابی طالب کے علاوہ کسی نے بھی نہیں کہا کہ جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو مجھ سے پوچھو۔

تاريخ ابن معين « رواية الدوري » ، يحيي بن معين أبو زكريا الوفاة : 233 ، ج 3 ، ص 143 ، دار النشر : مركز البحث العلمي و إحياء التراث الإسلامي ، مكة المكرمة ، 1399 - 1979 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : تاريخ ابن معين ، رواية الدوري .

ابن حنبل نے بھی اسی مضمون والی روایت کو نقل کیا ہے:

حدثنا عبد الله نا عثمان بن أبي شيبة نا سفيان عن يحيي بن سعيد قال أراه عن سعيد قال لم يكن أحد من أصحاب النبي صلي الله عليه و سلم يقول سلوني الا علي بن أبي طالب .

أحمد بن حنبل أبو عبد الله الشيباني الوفاة : 241 ، فضائل الصحابة ، ج 2 ، ص 646 ، دار النشر ، مؤسسة الرسالة ، بيروت ، 140 - 1983 ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : وصي الله محمد عباس .

ابن جوزی نے آیت « من عنده علم الكتاب » کی تفسیر و مصداق کے بارے میں چند نظريات کو بیان کیا ہے کہ ان میں سے ایک نظریہ یہ ہے کہ اس آیت کے مصداق امیر المؤمنین علی (ع) ہیں، اس نے لکھا ہے:

أنه علي بن أبي طالب ، قاله ابن الحنفية.

اس آيت سے مراد امير المومنين علی (ع) ہیں۔

جہنوں نے اس آیت کا مصداق عبد اللہ ابن سلام کو قرار دیا ہے، اس بارے میں ابن جوزی نے لکھا ہے:

هو عبد الله بن سلام ؟ قال : و كيف ، و هذه السورة مكية ؟ و أخرج ابن المنذر عن الشعبي قال : ما نزل في عبد الله بن سلام رضي الله عنه شيء من القرآن .

یہ سوره مكی ہے اسلیے عبد اللہ ابن سلام سے اس آیت کا کوئی تعلق نہیں ہے، شعبی نے نقل کیا ہے کہ عبد اللہ ابن سلام کے بارے میں قرآن کی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔

ابن الجوزي ، أبو الفرج ، 508هـ 597 ،6 - 1201 . زاد المسير ، ج 4 ص 16 . و نيز : السُّيوطي ، جلال الدين ، 849 - 911 هـ، 1445 - 1505 ، الدر المنثور ، ج 6 ، ص 30 .

خلاصہ اور نتيجہ تحقیق:

اہل سنت کے مفسرین کے مطابق سورہ رعد کی آیت کے بارے میں تفسیر اور اس آیت کے ذیل میں استدلال کے طور پر ذکر کی گئی روایات سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ یہ آیت امیر المؤمنین علی (ع) کے بارے میں اور انکی شان میں نازل ہوئی ہے اور یہ آیت رسول خدا (ص) کے بعد حضرت علی (ع) کی بلند و عظیم علمی شخصیت کو تمام مسلمانوں کے درمیان واضح کرتی ہے۔

اسکے علاوہ اسی بات پر تائید کے طور پر روایات بھی موجود ہیں کہ رسول خدا (ص) نے متعدد مقامات پر حضرت علی (ع) کے بلند علمی مرتبے پر تصریح فرمائی اور ان حضرت کو اپنے علم کا دروازہ بھی قرار دیا ہے۔

التماس دعا۔۔۔۔۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات