2024 March 19
امام جعفر صادق (ع) اور مسئله خلافت
مندرجات: ٤٥٨ تاریخ اشاعت: ٠٥ December ٢٠١٧ - ١١:٣٠ مشاہدات: 5605
یاداشتیں » پبلک
امام جعفر صادق (ع) اور مسئله خلافت

پہلا سوال یہ ہے  كہ حضرت امام جعفر صادق (ع) كا دور امامت بنی امیہ كی حكومت كے آخری ایام اور بنی عباس كے اوائل اقتدار میں شروع ہوتا ہے۔

سیاسی اعتبار سے امام (ع) كے لئے بہترین موقعہ ہاتھ میں آیا۔ بنی عباس نے تو اس موقعہ پر بھر پور طریقے سے فائدہ اٹھا لیا۔ امام (ع) نے ان سنہری لمحوں سے استفادہ كیوں نھیں كیا؟ بنی امیہ كا اقتدار زوال پذیر تھا۔ عربوں اور ایرانىوں، دینی اور غیر دینی حلقوں میں بنی امیہ كے بارے میں شدید ترین مخالفت وجود میں آ چكی تھی۔ دینی حلقوں میں مخالفت كی وجہ ان كا علانیہ طور گناہوں كا ارتكاب كرنا تھا۔ دیندار طبقہ كے نزدیک بنی امیہ فاسق و فاجر اور نالائق لوگ تھے؟ اس كے علاوہ انھوں نے بزرگان اسلام اور دیگر دینی شخصیات پر جو مظالم ڈھائے ہیں وہ انتھائی قابل مذمت اور لائق نفرت تھے۔ اس طرح كی كئی مخالف وجوہات نفرت واختلاف كا باعث بن چكی تھیں" خاص طور پر امام حسین علیہ السلام كی شہادت نے بنی امیہ كے ناپاك اقتدار كو خاك میں ملا دیا۔ پھر رہی سہی كسر جناب زید بن علی ابن الحسین اور یحیی بن زید كے انقلابات نے نكال دی۔ مذہبی اور دینی اعتبار سے ان كا اثر و رسوخ بالكل ناپید ہو گیا تھا۔ بنی امیہ علانیہ طور پر فسق و فجور كے مرتكب ہوئے تھے، عیاشی اور شرابخوری میں تو انھوں نے بڑے بڑے رنگین مزاج حكمرانوں كو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ یھی وجہ ہے كہ لوگ ان سے سخت نفرت كرتے تھے۔ اور ان كو لا دین عناصر سے تعبیر كیا جاتا تھا۔ كچھ حكران ظلم و ستم كے حوالے سے بہت ظالم وسفاك شمار كیے جاتے تھے ان میں ایك نام سلاطین بنی امیہ كا ہے۔ عراق میں حجاج بن یوسف اور خراسان میں چند حكمرانوں نے ایرانى عوام پر مظالم ڈھائے۔ وہ لوگ بنی امیہ كے مظالم كو ان مظالم كا سر چشمہ قرار دیتے تھے۔ اس لئے شروع ہی سے اسلام اور خلافت میں تفریق قائم كی گئی خاص طور پر علویوں كی تحریك خراسان میں غیر معمولی طور پر مؤثر ثابت ہوئی ۔ اگر چہ یہ انقلابی لوگ خود تو شہید ہو گئے لیكن ان كے خیالات اور ان كی تحریكوں نے مردہ قوموں میں جان ڈال دی۔ اور ان كے نتائج لوگوں پر بہت اچھے مرتب ہوئے۔

جناب زید بن زین العابدین (ع) نے كوفہ كی حدود میں انقلاب برپا كیا وہاں كے لوگوں نے ان كے ساتھ عہد و پیمان كیا اور آپ كی بیعت كى، لیكن چند افراد كے سوا كوفیوں نے آپ كے ساتھ وفا نہ كى، جس كی وجہ سے اس عظیم بھادر و جری نوجوان كو بڑی بیدردی كے ساتھ شہید كر دیا گیا۔ ان ظالموں نے آپ كی قبر پر دو مرتبہ پانی چھوڑ دیا تاكہ لوگوں كو آپ كی قبر مبارک كے بارے میں پتہ نہ چل سكے، لیكن وہ چند دنوں كے بعد پھر آئے قبر كو كھود كر جناب زید كی لاش كو سولی پر لٹكا دیا اور كچھ دنوں تک اسی حالت میں لٹكتی رہی اور كہا پر وہ لاش خشك ہو گئی۔ كہا جاتا ھے كہ جناب زید كی لاش چار سالوں تك سولی پر لٹكتی رہی۔ جناب زید كا ایك انقلابی بیٹا تھا ان كا نام یحیی تھا۔ انھوں نے انقلاب برپا كیا لیكن كامیاب نہ ہو سكے اور خراسان چلے گئے۔ پھر جناب یحیی بنی امیہ كے ساتھ جنگ كرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ آپ كی محبت لوگوں كے دلوں میں گھر كرتی چلی گئی۔ آپ كی شہادت كے بعد خراسان كے عوام كو پتہ چلا كہ خاندان رسالت كے ان نوجوانوں نے ایك ظالم حكومت كے خلاف جھاد كیا اور خود اسلام اور مسلمانوں كا دفاع كرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اس زمانے میں خبریں بہت دیر سے پھنچا كرتی تھیں۔ جناب یحیی نے امام حسین علیہ السلام اور جناب زید كی شھادت كو از سر نو زندہ كر دیا۔ لوگوں كو بعد میں پتہ چلا كہ آل محمد (ص) نے بنی امیہ كے خلاف كس پاكیزہ مقصد كے تحت قیام كیا تھا۔

مورخین لكھتے ھیں جب جناب یحیی شھید ہوئے تو خراسان كے عوام نے ستر روز تك سوگ منایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے انقلابی سوچ ركھنے والے لوگوں كا اثر پہلے ہی سے تھا لیكن جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے لوگوں كے اذہان میں انقلابی اثرات گھر كرتے جاتے ہیں۔ ایک انقلابی اپنے اندر كئی انقلاب ركھتا ہے۔ بہر حال خراسان كی سرزمین ایک بڑے انقلاب كیلئے سازگار ہو گئی۔ لوگ بنی امیہ كے خلاف كھلے عام نفرت كرنے لگے۔

بنی امیہ كے خلاف عوامی رد عمل اور بنی عباس:

نے سیاسی حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود كو خوب مستحكم و مضبوط كیا، یہ تین بھائی تھے ان كے نام یہ ہیں۔ ابراہیم امام، ابو العباس سفاح اور ابو جعفر منصور یہ تینوں عباس بن عبد المطلب كی اولاد سے ہیں۔ یہ عبد اللہ كے بیٹے تھے۔ عبد اللہ بن عباس كا شمار حضرت علی علیہ السلام كے اصحاب میں سے ہوتا ہے۔ اس كا علی نام سے ایک بیٹا تھا۔ اور علی كے بیٹے كا نام عبد اللہ تھا" پھر عبد اللہ كے تین بیٹے تھے۔ ابراہیم، ابو العباس سفاح اور ابو جعفر، یہ تینوں بہت ہی با صلاحیت، قابل ترین افراد تھے۔ ان تینوں بھائیوں نے بنی امیہ كے آخری دور حكومت میں بھر پور طریقے سے فائدہ اٹھایا۔ وہ اس طرح كہ انھوں نے خفیہ طور پر مبلغین كی ایک جماعت تیار كی اور پس پردہ انقلابی پروگرام تشكیل دینے میں شب و روز مصروف رہے۔ اور خود حجاز و عراق اور شام میں چھپے رہے، ان كے نمائندے اطراف و اكناف میں پھیل كر امویوں كے خلاف پروپیگنڈا كرتے تھے، خاص طور پر خراسان میں ایک عجیب قسم كا ماحول بن چكا تھا۔ لیكن ان كی تحریك كا پس منظر منفی تھا یہ كسی اچھے انسان كو اپنے ساتھ نہ ملاتے۔ یہ آل محمد (ص) كے گھرانے میں صرف ایک شخصیت كا نام استعمال كر كے لوگوں كو اپنی طرف متوجہ كرتے۔ اس سے معلوم ھوا كہ عوام كی توجہ كا مركز آل محمد (ص) ہی تھے۔ ان عباسیوں نے ایك كھیل كھیلا كہ ابو مسلم خراسانی كا نام استعمال كیا اس سے ان كا مقصد ایرانى عوام كو اپنی طرف متوجہ كرنا تھا۔

وہ قومی تعصب پھیلا كر بھی لوگوں كی ہمدردیاں حاصل كرنا چاہتے تھے، وقت كی قلت كے پیش نظر میں اس مسئلہ پر مزید روشنی نھیں ڈالنا چاہتا، البتہ میرے اس مدعا پر تاریخی شواہد ضرور موجود ہیں۔ ان كو بھی لوگ بالكل پسند نھیں كرتے تھے۔ لیكن بنی امیہ سے نجات حاصل كرنے كیلئے وہ ان كو اقتدار پر لے آنا چاہتے تھے۔ بنی امیہ ہر لحاظ سے اپنا مقام كھو چكے تھے، اگر چہ بنی امیہ ظاہری طور پر خود كو مسلمان كہلواتے تھے۔ لیكن ان كا اسلام سے دور تك واسطہ نہ تھا۔ خراسان میں ان كا اثر و رسوخ بالكل نہ تھا كہ لوگوں كو اس وقت كی حكومت كے خلاف اكٹھا كر سكیں اور خراسان كی فضا میں ایك خاص قسم كا تلاطم پیدا ہو چكا تھا، اگر چہ یہ لوگ چاہتے تھے كہ خلافت اور اسلام ہر دونوں كو اپنے پروگرام سے خارج كر دیں، لیكن نہ كرسكے، اور یہ اسلام كی بقاء اور مسلمانوں كی ترقی كا نام استعمال كر كے آگے بڑھتے گئے اور سال  129كے پہلے دن مرو كے ایک قصبے"سفید نج" میں اپنے قیام كا رسمی طور پر اعلان كیا۔ عید الفطر كا دن تھا۔ نماز عید كے بعد اس انقلاب كا اعلان كیا گیا، انھوں نے اپنے پرچم پر اس آیت كو تحریر كیا اور اسی آیہ كو اپنے انقلابی اھداف كا ماٹو قرار دیا:

"اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا وان اللہ علی نصرھم لقدیر"         حج، ۳۹.

جن (مسلمانوں) سے (كفار) لڑا كرتے تھے چونكہ وہ (بہت) ستائے گئے اس وجہ سے انھیں بھی (جہادكی) اجازت دے دی گئی اور خدا تو ان لوگوں كی مدد پر یقیناً قادر (و توانا) ہے۔

پھر انھوں نے سورہ حجرات كی آیہ نمبر 13 كو اپنے منشور میں شامل كیا ارشاد خداوندی ہے:

یا ایھاالناس انا خلقناكم من ذكر و انثیٰ و جعلناكم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اكرمكم عنداللہ اتقكم۔

لوگو ہم نے تو سب كو ایك مرد اور ایك عورت سے پیدا كیا اور ہم نے تمہارے قبیلے اور برادریاں بنائیں تاكہ ایك دوسرے كو شناخت كر سكیں اس میں شك نھیں كہ خدا كے نزدیك تم سب سے بڑا عزت دار وہی ہے جو بڑا پرہیز گار ہو۔"

اس آیت سے بنی نوع انسان كو سمجھایا جا رہا ہے كہ اسلام اگر كسی كو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے تو وہ اس كا متقی ہونا ہے۔ چونكہ اموی خاندان عربوں كو غیر عربوں پر ترجیح دیتے تھے اسلام نے ان كے اس نظریہ كی نفی كر كے ایك بار پھر اپنے دستور كی تائید كی ہے كہ خاندانی و جاہت، مالی آسودگی كو باعث فخر سمجھنے والو! تقوی ہی معیار انسانیت ہے۔

ایک حدیث ہے اور اس كو میں نے كتاب اسلام اور ایران كا تقابلی جائزہ میں نقل كیا ہے كہ پیغمبر اكرم (ص) نے فرمایا ہے یا ایک صحابی نے نقل كیا ہے كہ میں نے خواب میں دیكھا كہ سفید رنگ كے گوسفند كالے رنگ كے گوسفند میں داخل ہو گئے اور یہ ایک دوسرے سے ملے ہیں اور اس كے نتیجہ میں ان كی اولاد پیدا ہوئی ہے۔ پیغمبر اكرم (ص) نے اس خواب كی تعبیر ان الفاظ میں فرمائی كہ عجمی اسلام میں تمھارے ساتھ شركت كریں گے، اور آپ لوگوں میں شادیاں كریں گے۔ آپ كی عورتیں ان كے مردوں اور ان كی عورتیں آپ كے مردوں كے ساتھ بیاہی جائیں گی۔ یعنی آپ لوگ ایک دوسرے كے ساتھ رشتے كریں گے۔ میں نے اس جملہ سے یہ سمجھا كہ آپ (ص) نے فرمایا كہ میں دیكھ رہا ہوں كہ ایک روز تم عجم كے ساتھ اور عجم تمھارے ساتھ اسلام كی خاطر جنگ كریں گے یعنی ایک روز تم عجم كے ساتھ جنگ كر كے انھیں مسلمان كریں گے اور ایک روز عجم تمھارے ساتھ لڑیں گے اور تمھیں اسلام كی طرف لوٹائیں گے اس حدیث كا مفھوم یھی ھے كہ اس قسم كا انقلاب آئے گا۔

بنی عباس انتھائی مضبوط پروگرام اور ٹھوس پالیسی پر عمل كرتے ہوئے تحریک كو پروان چڑھا رھے تھے۔ ان كا طریقہ كار بہت عمدہ اور منظم تھا انھوں نے ابو مسلم كو خراسان اپنے مقصد كی تكمیل كیلئے بھیجا تھا۔ وہ یہ ہر گز نہیں چاہتے تھے كہ انقلاب ابو مسلم كے نام پر كامیاب ہو بلكہ انھوں نے چند مبلغوں كو خراسان بھیجا كہ جا كر لوگوں میں اچھے انداز میں تقریریں كر كے عوام كو امویوں كے خلاف اور عباسیوں كے حق میں جمع كریں۔ ابو مسلم كے نسب كے بارے میں آج تك معلوم نھیں ہو سكا تاریخ میں تو یہاں تک بھی پتہ نہیں ہے كہ ابو مسلم ایرانى تھے یا عربى؟ پھر اگر ایرانى تھے تو پھر كیا اصفھانی تھے یا خراسانى؟ وہ ایک غلام تھا اس كی عمر 24برس كی تھی كہ ابراہیم امام نے اس غیر معمولی صلاحیتوں كو بھانپ لیا اور اس كو تبلیغ كے لئے خراسان روانہ كیا تا كہ وہ خراسان كے عوام كے اندر ایک انقلاب برپا كر دے۔ اس نوجوان میں قائدانہ صلاحیتیں بھر پور طریقے سے موجود تھیں۔ یہ شخص سیاسی لحاظ سے تو خاصا با صلاحیت تھا لیكن حقیقت میں بہت برا انسان تھا۔ اس میں انسانیت كی بوتك نہ آتی تھی۔ ابو مسلم حجاج بن یوسف كی مانند تھا، اگر عرب حجاج پر فخر كرتے ہیں تو ہم بھی ابو مسلم پر فخر كرتے ہیں۔

حجاج بہت ہی زیرک اور ہوشیار انسان تھا۔ اس میں قائدانہ صلاحتیں كوٹ كوٹ كر بھری ہوئی تھیں، لیكن وہ انسانیت كے حوالے سے بہت ہی پست اور كمینہ شخص تھا۔ اس نے اپنے زمانہ اقتدار میں بیس ہزار آدمی قتل كیے اور ابو مسلم كے بارے میں مشہور ہے كہ اس نے چھ لاكھ آدمی قتل كیے۔ اس نے معمولی بات پر اپنے قریبی دوستوں كو بھی موت كے گھاٹ اتاردیا اور اس نے یہ نھیں دیكھا كہ یہ ایرانى ہے یا عربی كہ ہم كہہ سكیں كہ وہ قومی تعصب ركھتا تھا۔

میں نھیں سمجھتا كہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس تحریك میں كسی قسم كی مداخلت كی ھو، لیكن بنو عباس نے بڑھ چڑھ كر حصہ لیا۔ ان كا یہ نعرہ تھا كہ وہ بنی امیہ سے خلافت ہر صورت میں لے كر رہیں گے۔ اس كیلئے وہ كسی قسم كی قربانی سے دریغ نہیں كریں گے۔ یہاں پر قابل ذكر بات یہ ہے كہ بنو عباس كے پاس دو اشخاص ایسے ہیں كہ جو شروع سے لے كر آخر تك تحریك عباسیہ كی قیادت كرتے رہے۔ ایک عراق میں تھا اور وہ پس پردہ كام كر رہا تھا اور دوسرا خراسان میں، اور جو كوفہ میں تھا وہ تاریخ میں ابو سلمہ خلال كے نام سے مشہورہے اور جو خراسان میں تھا اس كا نام ابو مسلم ہے۔ میں پہلے عرض كر چكا ہوں كہ اس كو بنی عباس نے خراسان روانہ كیا اور اس نے بہت كم مدت میں بے شمار كامیابیاں سمیٹیں۔ ابو سلمہ كی حیثیت صدر اور ابو مسلم كی ایك وزیر كی تھی۔ یہ پڑھا لكھاشخص، سمجھدار سیاستدان اور بہترین منتظم تھا۔ گفتگو كرتے وقت دوسروں كو متأثر كر دیتا۔ یھی وجہ ہے كہ ابو مسلم ابو سلمہ سے حسد كرتا تھا۔ جب اس نے خراسان میں اپنی تحریك كا آغاز كیا تو ابو سلمہ كو درمیان سے ہٹا دیا اور ابو عباس سفاح كے نام ابو سلمہ كےخلاف ڈھیر سارے خط لكھ ڈالے، اور اس كو خطر ناك شخص كے طور پر متعارف كروایا اور كھا كہ اس كو تحریك سے خارج كر دیجئے۔ اس نے اسی قسم كے خطوط بنی عباس كے مختلف اشخاص كی طرف ارسال كیے۔

لیكن سفاح نےاس كے اس مطالبے كو مسترد كر دیا اور كھہ دیا كہ وہ مخلصانہ طویل خدمات كے صلے میں ابو سلمہ كےخلاف كسی قسم كا قدم نھیں اٹھا سكتے۔ پھر اعتراض كرنے والوں نے سفاح سے شكایت كی كہ ابو سلمہ اندر سے كچھ ہے اور باہر سے كچھ اور، وہ چاہتاہے كہ آل عباس سے خلافت لے كر آل ابی طالب (ع) كے حوالے كرے۔ یہ سن كر سفاح نے كھا مجھ پر اس قسم كے الزام كی حقیقت ثابت نہ ہو سكی اگر ابو سلمہ اس طرح كی سوچ ركھتا ھے كہ وہ ایك انسان كی حیثیت سے اس طرح كی غلطی كر سكتا ھے۔ وہ ابو سلمہ كے خلاف جتنی بھی كوششیں كرتا تھا كار گر ثابت نہ ہوتی تھیں۔ كیونكہ ابو سفاح ابو سلمہ اس كو كسی نہ كسی حوالے سے نقصان دے سكتا ہے۔ اس لئے اس نے اس كے قتل كا منصوبہ بنا لیا۔ ابو سلمہ كی عادت تھی كہ وہ سفاح كے ساتھ رات گئے تك رہتا وہ دونوں ایك دوسرے كے ساتھ باتیں كرتے ایك رات وہ سفاح سے ملاقات كر كے واپس آ رہا تھا كہ ابو مسلم كے ساتھیوں اس كو قتل كر دیا۔ چونكہ سفاح كے كچھ آدمی اس قتل میں شریك تھے اس لئے ابو سلمہ كا خون كسی شمار میں نہ آ سكا۔ یہ واقعہ سفاح كے اقتدار كے ابتدائی دنوں میں پیش آیا۔ اس سانحہ كی كچھ وجوہات ہوسكتی ہیں۔ ان میں كچھ محركات یہ بھی ہیں۔

ابو سلمہ كا خط امام جعفر صادق (ع) اور عبد اللہ محض كے نام:

مشہور مورخ مسعودی نے مروج الذہب میں لكھا ہے كہ ابو سلمہ اپنی زندگی كے آخری لمحات میں اس فكر میں مستغرق رہتا تھا كہ خلافت آل عباس سے لے كر آل ابی طالب (ع) كے حوالے كرے۔ اگر چہ وہ شروع میں آل عباس كیلئے كام كرتا رہا۔132ھ میں جب بنی عباس نے رسمی طور پر اپنی حكومت كی داغ بیل ڈالی اس وقت ابراہیم امام شام كے علاقہ میں كام كرتا تھا لیكن وہ منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ وہ بھائیوں میں سے بڑا تھا۔ اس لئے اس كی خواہش تھی كہ وہ خلیفہ وقت بنے لیكن وہ بنی امیہ كے آخری دور میں خلیفہ مروان بن محمد كے ہتھے چڑھ گیا اور اس كو یہ فكر دامن گیر ہوئی كہ اگر اس كے خفیہ ٹھكانے كا كسی كو پتہ چل گیا تو وہ گرفتار كر لیا جائے گا۔ چنانچہ اس نے ایك وصیت نامہ لكھ كر مقامی كسان كے ذریعے اپنے بھائیوں كو بھجوایا۔ وہ كوفہ كے نواحی قصبے حمیمہ میں مقیم تھے، اس نے اس وصیت نامے میں اپنے سیاسی مستقبل كے بارے میں اپنی حالیہ پالیسی كے بارے میں اعلان كیا اور اپنا جانشین مقرر كیا اور اس میں اس نے یہ لكھا كہ اگر میں آپ لوگوں سے جدا ہو گیا تو میرا جانشین سفاح ہو گا (سفاح منصور سے چھوٹا تھا) اس نے اپنے بھائیوں كو حكم دیا كہ وہ یھاں سے كوفہ چلے جائیں اور كسی خفیہ مكان میں جاكر پناہ لیں اور انقلاب كا وقت قریب ہے۔ اس كو قتل كر دیا گیا اور اس كا خط اس كے بھائیوں كے پاس پھنچایا گیا۔ وہ وہاں سے چھپتے چھپاتے كوفہ چلے آئے اور ایك لمبے عرصے تك وہیں پہ مقیم رہے۔ ابو سلمہ بھی كوفہ میں چھپا ہوا تھا اور تحریك كی قیات كررہا تھا دو تین مہینوں كے اندر اندر یہ لوگ رسمی طور پر ظاہر ہوئے اور جنگ كر كے بہت بڑی فتح حاصل كی۔

مورخین نے لكھا ہے كہ اس انقلاب كے بعد ابراہیم امام كو قتل كردیا گیا۔ حكومت سفاح كے ہاتھ میں آ گئی۔ اس واقعہ كے بعد ابو سلمہ كو پریشانی لاحق ہوئی اور وہ سوچنے لگا كہ خلافت كیوں نہ آل عباس سے لے كر آل ابو طالب كے حوالے كی جائے۔ اس نے دو علیحدہ علیحدہ خطوط لكھے ایك خط امام جعفر صادق علیہ السلام كی خدمت میں روانہ كیا اور دوسرا خط عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب (ع) كے نام ارسال كیا۔ (حضرت امام حسن (ع) كے ایك بیٹے كا نام حسن تھا جسے حسن مثنی سے یاد كیا جاتا ہے یعنی دوسرے حسن، حسن مثنی كربلا میں شریك جہاد ہوئے لیكن زخمی ہوئے اور درجئہ شہادت پر فائز نہ ہو سكے۔

اس جنگ میں ان كی ماں كی طرف سے ایك رشتہ داران كے پاس آیا اور عبید اللہ ابن زیاد سے سفارش كی كہ ان كو كچھ نہ كہا جائے۔ حسن مثنیٰ نے اپنا علاج معالجہ كرایا اور صحت یاب ہو گئے۔ ان كے دو صاجزادے تھے ایك كانام عبد اللہ تھا۔ عبد اللہ ماں كے لحاظ سے امام حسین علیہ السلام كے نواسے تھے اور باپ كی طرف سے امام حسن علیہ السلام كے پوتے تھے۔ آپ دو طریقوں سے فخر كرتے ہوئے كھا كرتے تھے كہ میں دو حوالوں سے پیغمبر اسلام (ص) كا بیٹا ہوں۔ اسی وجہ سے ان كو عبد اللہ محض كھا جاتا تھا۔ یعنی خالصتاً اولاد پیغمبر، عبد اللہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام كے دور امامت میں اولاد امام حسن علیہ السلام كے سربراہ تھے، جیسا كہ امام جعفر صادق علیہ السلام اولاد امام حسین علیہ السلام كے سربراہ تھے۔

ابو سلمہ نے ایك شخص كے ذریعہ سے یہ دو خطوط روانہ كیے، اور اس كو تاكید كی كہ اس كی خبر كسی كو بھی نہ ہو۔ خط كا خلاصہ یہ تھا كہ خلافت میرے ہاتھ میں ہے۔ خراسان بھی میرے پاس ہے اور كوفہ پر بھی میرا كنٹرول ھے، اور اب تك میری ہی وجہ سے خلافت بنی عباس كو ملی ہے۔ اگر آپ حضرات راضی ہوں تو میں حالات كو پلٹ دیتا ہوں یعنی وہ خلافت آپ كو دے دیتا ہوں۔

امام صادق (ع) اور عبداللہ محض كا رد عمل:

قاصد وہ خط سب سے پھلے امام جعفر صادق علیہ السلام كی خدمت میں لے آیا۔ رات كی تاریكی چھا چكی تھی۔ اس كے بعد عبد اللہ محض كو ابو سلمہ كا خط پھنچایا گیا۔ جب اس نے یہ خط حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام كی خدمت اقدس میں پیش كیا تو عرض كی مولا یہ خط آپ كے ماننے والے ابو سلمہ كا ہے۔ حضرت نے فرمایا ابو سلمہ ہمارا شیعہ نہیں ہے۔ قاصد نے كہا آپ مجھے ہر صورت میں جواب سے نوازیں۔آپ نے چراغ منگوایا آپ نے ابو سلمہ كا خط نہ پڑھا اور اس كے سامنے وہ خط پھاڑ كر جلا دیا اور فرمایا اپنے دوست (ابو سلمہ) سے كھنا كہ اس كا جواب یھی ہے اس كے بعد حضرت نے یہ شعر پڑھا ؂

ایا موقدانارا لغیرك ضوءھا

یا حاطبافی غیر حبلك تحطب

یعنی آگ روشن كرنے والے اور، اس كی روشنی سے دوسرے مستفید ہوں۔ اے وہ كہ جو صحرا میں لكڑیاں اكٹھی كرتا ہے اور تو خیال كرتا ھے كہ یہ تو اپنی رسی میں ڈالی ہیں تجھے یہ خبر نہیں ہے تو نے جتنی بھی لكڑیاں جمع كی ہیں اس كو تیرے دشمن اٹھا كر لے جائیں گے۔"

اس شعر سے حضرت كا مقصد یہ تھا كہ ایك شخص محنت كرتا ہے لیكن اس كی محنت سے استفادہ دوسرے لوگ كرتے ہیں گویا آپ كہہ رہے تھے كہ ابو سلمہ بھی كتنا بد بخت شخص ہے كہ اس نے حكومت كی تشكیل دینے كیلئے بہت زیادہ محنت كی ہے لیكن اس سے فائدہ دوسروں نے اٹھایا ہے یا اس شعر كا مطلب یہ تھا كہ اگر ہم خلافت كے لئے محنت كرتے ہیں اور وہ نااہل ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔

كتنے افسوس اور دكھ كی بات ہے حضرت نے خط كو جلا دیا اور اس قاصد كو جواب نہ دیا ابو سلمہ كا قاصد وہاں سے اٹھا اور عبد اللہ محض كے پاس آیا اور ان كو ابو سلمہ كا خط دیا۔ عبد اللہ خط كو پڑھ كر بے حد مسرور ہوئے۔ مورخ مسعودی نے لكھا ہے كہ عبد اللہ صبح ہوتے ہی اپنے گھوڑے پر سوار ہو كر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام كے در دولت پر آئے۔ امام علیہ السلام نے ان كا احترام كیا، حضرت جانتے تھے كہ عبد اللہ كے آنے كی وجہ كیا ہے؟ فرمایا لگتا ہے كہ آپ كوئی نئی خبر لے كر آئے ہیں۔ عبد اللہ نے عرض كی جی ہاں ایسی خبر كہ جس كی تعریف و توصیف بیان نہ كی جاسكے۔ (نعم ھو اجل من ان یوصف) یہ خط ابو سلمہ نے مجھے بھیجاہے انھوں نے اس خط میں تحریر كیا ہے كہ خراسان كے تمام شیعہ اس بات پر مكمل طور پر تیارہیں كہ خلافت و ولایت ہمارے سپرد كردیں۔ انھوں نے مجھ سے درخواست كی ہے كہ ان كی یہ پیشكش قبول كر لوں۔ یہ سن كر امام علیہ السلام نے فرمایا:

"ومتی كان اھل خراسان شیعۃ لك؟"

خراسان والے آپ كے شیعہ كب بنے ہیں؟"

انت بعثت ابا مسلم الی خراسان؟"

كیا آپ نے ابو مسلم كو خراسان بھیجا ہے؟"

آپ نے خراسان والوں سے كہا ہے كہ وہ سیاہ لباس پہنیں اور ماتمی لباس كو اپنا شعار بنائیں۔ كیا یہ خراسان سے آئے ہیں یالائے گئے ہیں؟تم تو ایك آدمی كو بھی نہیں پہچانتے؟ امام علیہ السلام كی باتیں سن كر عبد اللہ ناراض ہو گئے۔ انسان جب كوئی چیز پسند كرے اور اس كی خوشخبری سننے كے بعد كوئی اور بات سننا گوار نہیں كرتا۔ گویا یہ انسان كی سرشت میں شامل ہے۔ اس نے حضرت امام جعفر صادق سے بحث كرنی شروع كردی اور حضرت سے كہا كہ آپ كیا چاہتے ہیں:

"انما یرید القوم ابنی محمدا لانہ مھدی ھذہ الامۃ"

یہ میرے بیٹے محمد كو خلافت دینا چاہتے ہیں آُپ نے فرمایا كہ خدا كی قسم اس امت كا امام مھدی آپ كا بیٹا محمد نہیں ہے اگر اس نے قیام كیا تو قتل كیا جائے گا۔ یہ سن كر عبد اللہ اظہار ناراضگی كرتے ہوئے بولا آپ خواہ مخواہ ہماری مخالفت كر رہے ہیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا بخداہم تمہاری خیر خواہی اور بھلائی كے سوا اور كچھ نہیں چاہتے۔ آپ كا مقصد كبھی پورا نہیں ہو گا۔ اس كے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا كہ بخدا ابو سلمہ نے بالكل اسی طرح كا خط ہماری طرف بھی روانہ كیا ہے لیكن ہم نے پڑھنے كی بجائے اس كو آگ میں جلا دیا۔ عبد اللہ ناراض ہو كر چلے گئے۔ ان حالات كو دیكھ كر بخوبی اندازہ لگایا جا سكتا ہے كہ اس وقت سیاسی فضا كس قدر مكدر تھى، بنی عباس كی تحریك كامیاب ہوتی ہے؟ ابو مسلم اس وقت خاصا فعال ہوتاہے۔ اور وہ ابو سلمہ جیسے انقلابی شخص كو قتل كرا دیتا ہے۔ سفاح بھی اس كی حمایت كرنے لگ جاتا ہے۔ پھر ایسا ہوا كہ ابو سلمہ كا قاصد ابھی مدینہ سے كوفہ نہ پھنچا تھا كہ ابو سلمہ قتل ہو چكا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے عبداللہ محض كا جواب ابو سلمہ كے ہاتھوں تك نہ پہنچ سكا۔

ایك تحقیق:

اس واقعہ كو جس خوبی كے ساتھ مسعودی نے لكھا ہے اتنا اور كسی مورخ نے نہیں لكھا۔ میرے نزدیك ابو سلمہ كا مسئلہ بہت واضح ہے كہ وہ شخص سیاستدان تھا۔ وہ امام جعفر صادق علیہ السلام كے شیعوں میں ہر گز نہ تھا۔ مطلب صاف ظاہر ہے كہ وہ ایك مرتبہ آل عباس كیلئے كام كرتا ہے اور دوسری مرتبہ وہ اپنی پالیسی بدل لیتا ہے۔ دراصل عوام كی اكثریت یہ نہیں چاہتی تھی كہ خلافت خاندان رسالت سے باہر كسی دوسرے شخص كے پاس جائے۔ آل ابی طالب میں دو شخصیات اہم شمار كی جاتی تھیں ایك حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور دوسرے جناب عبد اللہ محض، ابو سلمہ ان دونوں شخصیات كے ساتھ دینداری اور خلوص كی وجہ سے یہ كام نھیں كر رہا تھا وہ چاہتا تھا كہ خلافت بدلنے سے اس كے ذاتی مفادات محفوظ رہیں۔ ابھی اس كو امام جعفر صادق علیہ السلام اور عبد اللہ محض كی طرف سے جواب موصول نہ ہوا تھا كہ ابو سلمہ قتل ہو گیا۔ جب میں یہ بات كرتے ہوئے لوگوں كو سنتا ہوں تو مجھے حیرانگی ہوتی ہے كہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابو سلمہ كے خط كا جواب كیوں نھیں دیا تھا اور اس كی دعوت قبول كیوں نھیں كی تھى؟ اسكا جواب بھی صاف ظاھر ہے كہ یہاں پر بھی حالات سازگار نہ تھے۔

صورت حال نہ روحانی لحاظ سے اچھی تھی اور نہ ظاھری لحاظ سے بھتر تھی بلكہ امام علیہ السلام نے جو بھی اقدامات كیے وہ حقیقت پر مبنی تھے ہم پہلے بھی كہہ چكے ہیں كہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے شروع ہی سے بنی عباس كی كسی قسم كی حمایت نھیں كی۔ دراصل آپ نہ امویوں كے حق میں تھے اور نہ عباسیوں كے حق میں۔ یہ دو خاندان اور موروثی حكمران ذاتی مفاد كے علاوہ كوئی سوچ نہ ركھتے تھے۔ ہم نے كتاب الفرج اصفہانی سے استفادہ كیا۔ اس سلسلے میں جتنی ابو الفرج نے تفصیل لكھی ہے اتنا اور كسی مورخ نے نھیں لكھا۔ ابو الفرج اموی مورخ تھے۔ اور سنی المذہب تھے ان كو اصفہان میں سكونت ركھنے كی وجہ سے اصفہانی كہا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ اصفہانی نہ تھے بلكہ اموی تھے اگر چہ یہ اموی مورخ تھے لیكن انھوں نے تاریخ نویسی میں اعتدال قائم ركھا اس لئے جناب شیخ مفید (رح) نے اپنی كتاب ارشاد میں ابو الفرج سے روایات نقل كی ہیں۔

ہاشمی رہنماؤں كی خفیہ میٹنگ:

در اصل بات یہ ہے كہ شروع میں یہ طے پایا تھا كہ امویوں كے خلاف تحریك شروع كی جائے۔ بنی ہاشم كے سركردہ لیڑر ابواء مقام پر جمع ہو گئے تھے۔ یہ مقام مكہ و مدینہ كے درمیان واقع ہے۔ (ابواء یہ ایك تاریخ جگہ ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں پیغمبر اكرم (ص) كی والدہ ماجدہ نے انتقال فرمایا تھا۔) حضور (ص) پاك كی عمر پانچ سال كے لگ بھگ تھی بی بی اپنے اس عظیم صاجزادے كو اپنے ھمراہ لائی تھیں۔ حضرت آمنہ كے رشتہ دار مدینہ میں آباد تھے۔ اس لئے حضور پاك مدینہ والوں كے ساتھ ایك خاص نسبت ركھتے تھے۔ بی بی مدینہ سے ھو كر واپس  مكہ جا رہی تھیں كہ راستہ میں مریض ہوئیں اور وہیں پر انتقال فرمایا اس جگہ كو مورخین نے ابواء كے نام سے یاد كیا ھے۔ حضور پاك (ص) اپنی ماں كی كنیز خاص بی بی ام ایمن كے ساتھ مدینہ چلے گئے اور آپ كی والدہ ماجدہ كو ابواء ہی میں سپرد خاك كیا گیا۔ آپ نے عالم غربت میں اپنی عظیم ماں كی المناك رحلت كو اپنی آنكھوں سے دیكھا اور عمر بھر آپ اس غم كو نہ بھلا سكے۔ یھی وجہ ہے كہ آپ 53 سال كی عمر میں مدینہ واپس لوٹ آئے اور اپنی زندگی كے آخری دس سال مدینہ ہی میں گزارے۔ آپ ایك موقعہ پر اثناء سفر میں ابواء نامی جگہ سے گزرے  تو آپ چند لمحوں كیلئے اپنے صحابہ سے جدا ھو گئے اور ایك خاص جگہ پر رك گئے ۔ دعا پڑھی اس كے بعد زار و قطار رونے لگے۔ صحابہ كرام نے تعجب كیا كہ حضور پاك (ص)  رونے كی وجہ كیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ میری والد ماجدہ كی قبر اطہر ہے۔ آج سے پچاس سال قبل جب میں پانچ سالہ بچہ تھا تو یھیں پر والدہ محترمہ كا انتقال ہوا تھا۔ آپ پچاس سالوں كے بعد اس مقام پر گئے اور دعا پڑھی اور اس كے بعد اپنی انتہائی عزیز ترین ماں كی یاد میں بہت ہی زیادہ روئے"۔ چناچہ ابواء كے مقام پر ہونے والی خفیہ میٹنگ میں اولاد امام حسن (ع) عبد اللہ محض اور آپ كے دونوں صاجزادے محمد و ابراہیم موجود تھے۔ اسی طرح بنی عباس كی نمائندگی كرتے ہوئے ابراہیم امام، ابو العباس سفاح، ابو جعفر منصور اور ان كے چند بزرگوں نے شركت كی۔ اس وقت عبد اللہ محض نے گفتگو كا آغاز كرتے ہوئے كہا كہ اے بنی ہاشم! اس وقت لوگوں كی نگاہیں آپ كی طرف لگی ہوئی ہیں۔ اور عوام كی آپ سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ كو یھاں پر اكٹھے ہونے كا موقعہ بخشا ہے لہذا سب مل جل كر اس نوجوان (عبداللہ محض كے بیٹے) كی بیعت كریں۔ ان كو اپنی تحریك كا قائد منتخب كریں۔ اور امویوں كے خلاف وسیع پیمانے پر جنگ كا آغاز كریں۔ یہ واقعہ ابو سلمہ كے واقعات سے پہلے كا ہے۔ تقریباً انقلاب خراسان سے بارہ سال قبل۔ اس وقت اولاد امام حسن علیہ السلام اور بنو عباس كی مشتركہ خواہش تھی كہ وہ ایك دوسرے كے ساتھ متحد ہو كر امویوں كا مقابلہ كریں۔

محمد نفس زكیہ كی بیعت:

بنی عباس كا شروع سے یہی پروگرام تھا كہ وہ آل علی علیہ السلا میں ایسے نوجوان كو اپنے ساتھ ملائے ركھیں كہ جو لوگوں میں مقبول ہو اور لوگ اس كی وجہ سے ایك پلیٹ فارم پر جمع ھو سكتے ہوں۔ جب ان كی تحریك كامیاب ھو جائے گی تو اس نوجوان كو درمیان میں سے ہٹا دیا جائے گا۔ اس كام كیلئے انھوں نے محمد نفس زكیہ كو منتخب كیا ۔ محمد جناب عبد اللہ محض كے صاحبزادے تھے ۔ عبد اللہ بہت ہی متقی اور پرھیز گار اور انتہائی خوبصورت شخصیت كے مالك تھے۔ ان كا بیٹا محمد كردار و گفتار اور شكل و صورت میں ھو بھو اپنے باپ كی تصویر تھا۔ اسلامی روایات میں ھے كہ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ھے تو اولاد پیغمبر (ص) میں سے ایك نوجوان ظاھر ھوتا ھے اور اپنے جد امجد كی طرح اسی كا نام بھی محمد ھو گا اسی طرح اسلامی تحریكیں چلتی رہیں گی اور اولاد زھرا (ع) میں سے ایك سید زادہ انقلابی جد وجھد كی قیادت كرتا رھے گا۔ اولاد امام حسن علیہ السلام كے دل میں یہ خیال پیدا ھوا كہ امت كا مہدی یھی محمد ھے۔ بنو عباس كے نزدیك بھی یھی محمد مھدی كے طور پر نمودار ھوئے تھے۔ یہ بھی ھو سكتا ھے كہ انھوں نے سازش كر كے ان كو مہدی وقت مان لیا ھو؟

بہر حال ابو الفرج نقل كرتے ھیں كہ عبد اللہ محض نے لوگوں سے خطاب كرتے ھوئے مزید كھا ہمیں متحد ھو كر ایك ایسے نوجوان كی قیادت میں كام شروع كر دینا چاھیے كہ جو اس مظلوم ملت كو ظالموں كے شكنجوں سے نجات دے سكے۔ اسكے بعد بولے ایھا الناس اے لوگو! میری بات غور سے سنو ان ابنی ھذا ھو المہدی كہ میرا بیٹا محمد ہی مہدی دوراں ہے۔ آپ سب مل كر ان كی بیعت كریں۔ اس اثناء میں منصور بولا كہ مہدی كے عنوان سے نھیں البتہ یہ نوجوان موجودہ دور میں قیادت كے فرائض احسن طریقے سے نبھا سكتا ھے۔ آپ سچ كہہ رھے ہیں ھم سب كو اس نوجوان كی بیعت كرنی چاہیے۔ میٹنگ كے تمام شركاء نے ایك زبان ھو كر اس كی تصدیق كی اور ایك ایك كر كے انھوں نے محمد كی بیعت كی۔ اس كے بعد انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام كو پیغام بھیجا كہ آپ بھی تشریف لائیں۔ جب حضرت تشریف فرما ھوئے سب نے حضرت كا استقبال كیا۔ عبد اللہ محض جو صدر مجلس تھے نے اپنے پہلو میں حضرت كو جگہ دی۔ اس كے بعد انھوں نے امام علیہ السلام كی خدمت میں رپورٹ پیش كی اور كہا جیسا كہ آپ بخوبی جانتے ھیں كہ ملكی و سیاسی حالات مخدوش ہیں لھذا وقت كا تقاضا یہ ھے كہ ہم میں سے كوئی شخص اٹھے اور امت و ملت كی قیادت كرے۔ اس میٹنگ كے تمام شركاء نے میرے بیٹے محمد كی بیعت كی ھے ۔كیونكہ ھمارے نزدیك مھدی دوراں یہی محمد ہی ھیں۔ لھذا آپ ان كی بیعت كریں۔ فقال جعفر لا تفعلوا امام علیہ السلام نے فرمایا نھیں تم ایسا نہ كرو:

فان ھذا الامر ثم یات بعد ان كنت تری ان ابنك ھذا ھو المھدی فلیس بہ ولا ھذا اوانہ

رھی بات مھدی علیہ السلام كے ظھور كی تو یہ وقت ظھور نھیں ھے۔ اے عبداللہ اگر تم خیال كرتے ھو كہ تمھارا یہ بیٹا محمد مھدی ھے تو تم سخت غلطی پر ھو، تمھارا بیٹا ھر گز مھدی نھیں ھے اس وقت مھدی علیہ السلام كا مسئلہ نھیں ھے اور نہ ھی ان كی آمد اور ظھور كا وقت ھوا ھے۔"

وان كنت انما یرید ان تخرجہ غضبا للہ ولیامر بالمعروف وینہ عن المنكر فانا واللہ لا ندعك فانت شیخنا ونبایع ابنك فی الامر "

حضرت نے اپنا موقف واضح كرتے ہوئے فرمایا اگر تم مھدی كے نام پر بیعت لے رہے ہو تو میں ہرگز بیعت نھیں كروں گا۔ كیونكہ یہ سراسر جھوٹ ہے یہ مہدی نھیں ہے اور نہ ہی مھدی (ع) كے ظہور كا وقت ہوا ھے لیكن اگر آپ نیكی كے فروغ اور برائیوں اور ظلم كے خاتمے كے لئے جھاد كریں گے تو ھم آپ لوگوں كا ہر طرح سے ساتھ دیں گے۔"

امام علیہ السلام كے اس فرمان سے آپ كا موقف كھل كر سامنے آ جاتا ھے۔ آپ نے نیكیوں كی ترویج اور برائیوں كے خاتمہ كے لئے ساتھ دینے كا وعدہ تو كیا لیكن آپ نے ان كی غلط پالیسیوں كی مخالفت كر دی كہ یہ محمد مھدی نھیں ھے۔ جب آپ نے بیعت كا انكار كیا تو عبد اللہ ناراض ھو گئے۔ جب آپ نے عبد اللہ كی ناراضگی كو دیكھا تو فرمایا دیكھو عبد اللہ میں آپ سے كہہ رھا ھوں كہ تمہارا بیٹا محمد مہدی نھیں ہیں ہم اھل بیت كے نزدیك یہ ایك ایسا راز ھے كہ جس كو ھم ہی جانتے ھیں ھمارے سوا كوئی اور نھیں جانتا كہ وقت كا امام كون ھے اور مھدی (ع) كون ھو گا؟ یاد ركھو تمھارا یہ بیٹا بہت جلد قتل كر دیا جائے گا۔ ابو الفرج نے لكھا ھے كہ عبد اللہ سخت ناراض ھوئے اور كھا خیر آپ نے جو كھنا تھا كہہ دیا لیكن ھمارا نظریہ یھی ھے كہ محمد مھدی وقت ہے، آپ حسد اور خاندانی رقابت كے باعث اس قسم كی باتیں كر رھے ھیں۔

فقال واللہ ماذاك یحملنی ولكن ھذا واخوتہ وابنانھم دونكم وضرب یدہ ظھر ابی العباس

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنا دست مبارك ابو العباس كی پشت پر مارتے ھوئے فرمایا یہ بھائی مسند خلافت پر فائز ھو جائیں گے اور آپ اور آپ كے بیٹے محروم رھیں گے۔"

اس كے بعد آپ نے عبداللہ حسن كے كندھے پر ھاتھ ركھ كر فرمایا:

"ما ھی الیك و لا الی ابنیك"

تم اور تمھارے بیٹے خلافت تك نھیں پھنچ سكیں گے۔"

ان كو قتل ھونے سے بچائیے۔ بنو عباس آپ كو خلافت تك پھنچنے نھیں دیں گے۔ اور تمھارے دونوں بیٹے قتل كر دئیے جائیں گے۔ اس كے بعد امام علیہ السلام اپنی جگہ سے اٹھ كھڑے ھوئے۔ آپ نے اپنا ایك ہاتھ عبدالعزیز عمران زھری كے كندھے پر ركھتے ھوئے اس سے كہا:

"ارایت صاحب الرداء الاصغر؟"

كیا آپ نے اس شخص كو دیكھا ہے كہ جس نے سبز قبا پہنی ھوئی تھى؟"

(آپ كی اس سے مراد ابو جعفر منصور تھی) وہ بولا نعم جی ھاں آپ نے فرمایا خدا كی قسم ہم جانتے ہیں كہ یھی شخص مستقبل قریب میں عبد اللہ كے بیٹوں كو قتل كردے گا۔

یہ سن كر عبد العزیز سخت متعجب ھوا اور اپنے آپ سے كھنے لگا یہ لوگ آج تو اس كی بیعت كر رھے ھیں اور كل اسے قتل كردیں گے؟ آپ نے فرمایا ھاں عبد العزیز ایسا ہی ھو گا عبد العزیز نے كہا میرے دل میں تھوڑا سا شك گزرا ھو سكتا ہے امام علیہ السلام نے حسد وغیرہ كی وجہ سے ایسا كھا ھو لیكن خدا كی قسم میں نے اپنی زندگی ھی میں دیكھ لیا كہ ابو جعفر منصور نے عبد اللہ كے دونوں بیٹوں كو قتل كر دیا۔ دوسری طرف حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام محمد سے بے حد پیار كرتے تھے۔ ابو الفرج كے بقول

كان جعفر بن محمد اذا رای محمد بن عبداللہ بن الحسن تغر غرت عیناہ

كہ امام علیہ السلام كی نگاہ مبارك جب محمد پر پڑتی تو آپ كی آنكھو سے بے ساختہ آنسو چھلك پڑتے اور فرمایا كرتے:

بنفسی ھو ان الناس فیقولون فیہ انہ لمقتول لیس ھذا فی كتاب علی من خلفاء ھذہ الامۃ

میری جان قربان ہو اس پر لوگ جو اس كے بارے میں مھدی ہونے كے قائل ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ یہ نوجوان قتل كیا جائے گا ھمارے پاس حضرت علی علیہ السلام كی ایك كتاب موجود ھے اس میں محمد كا نام خلفاء میں شامل نھیں ھے۔"

اس سے معلوم ھوتا ہے كہ شروع میں تحریك كا آغاز ہی مھدویت كے نام پر ہوا ہے لیكن امام جعفر صادق (ع) نے اس كی سخت مخالفت كی اور فرمایا اگر یہ تحریك نیكیوں كے فروغ اور برائیوں كے خاتمہ كے لئے ھے تو پھر ھم اس كے ساتھ ہر طرح كا تعاون كریں گے لیكن ہم محمد كو مھدی كے طور پر تسلیم نھیں كرسكتے، رہی بات بنو عباس كی تو ان كا مطمع نظر سیاسی و حكومتی مفادات حاصل كرنے كے سوا كچھ نھیں ہے ۔

امام جعفر صادق (ع) كے دور امامت كی چند خصوصیات:

یھاں پر ہم جس لازمی نكتے كا ذكر كرنا چاہتے ھیں وہ یہ ہے كہ امام جعفر صادق علیہ السلام كا دور امامت اسلامی خدمات كے حوالے سے بے نظیر اور بھترین دور ہے۔ آپ كے دور میں مختلف قسم كی تحریكوں نے جنم لیا، بے شمار انقلابات رونما ھوئے ۔ امام علیہ السلام كے والد گرامی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام كا انتقال 114 كو ھوا۔ آپ اس وقت امام وقت مقرر ھوئے اور148 تك زندہ رھے۔ ظھور اسلام سے لیكر اب تك دو تین نسلیں حلقہ اسلام میں داخل ھو چكی تھیں۔ سیاسی و تمدنی لحاظ سے بے تحاشا ترقی ھوئی۔ اور كچھ ایسی جماعتیں بھی وجود میں  آئیں جو خدا كی منكر تھیں۔ زندیق اس دور میں رونما ھوئے یہ لوگ خدا، دین اور پیغمبر كے مخالف تھے۔ بنی عباس كی طرف سے ان بے دین عناصر كو ھر لحاظ سے آزادی حاصل تھی۔ صوفیاء  بھی اسی دور میں ظاھر ہوئے اور كچھ ایسے فقہا بھی پیدا ھوئے كہ جو فقہ كو قیاس كی طرف لے گئے۔ اس دور میں مختلف نظریات ركھنے والے لوگ، جماعتیں پیدا ھوئیں۔ اس نوع كی تبدیلی اور جدت و ندرت پہلے ادوار میں نہ تھی۔

امام حسین (ع) اور امام جعفر صادق (ع) كے زمانوں كا زمین و آسمان كا فرق ھے۔ امام حسین علیہ السلام كے دور میں بہت زیادہ گھٹن تھی اور مشكل ترین دور تھا اس لئے امام عالی مقام نے اپنے دور امامت میں حدیث كے پانچ چھ جملے بیان فرمائے اس كے علاوہ كوئی حدیث نظر نھیں آتى، لیكن امام جعفر صادق علیہ السلام كا دور امام تعلیمی و تربیتی حوالے سے بھترین دور تھا۔ آپ نے فرصت كے ان لمحوں سے فائدہ اٹھاتے ھوئے بہت كم مدت میں چار ھزار فضلاء تیار كیے۔ لھذا اگر ھم فرض كریں (جو كہ غلط ھے) كہ امام جعفر صادق علیہ السلام كو وھی حالات پیش آتے جو امام حسین علیہ السلام كو پیش آئے تھے تو پھر بھی امام جعفر صادق علیہ السلام علمی كارنامے انجام دیتے؟ ھم نے پہلے عرض كیا ھے كہ آئمہ طاھرین كی حیات طیبہ كا انداز ایك جیسا ھوتا ھے اور آپ كی شھادت وہی رنگ لاتی جو كہ امام حسین (ع) كی لائی ھے۔ اگر چہ آپ ایك وقت درجئہ شھادت پر فائز بھی ھوئے لیكن آپ كو قدرت نے خوب موقعہ فراہم كیا كہ آپ نے علمی و دینی لحاظ سے غیر معمولی كارنامے سر انجام دیئے۔ آج امام جعفر صادق علیہ السلام كا نام پوری دنیا میں ایك بہت بڑے مصلح كے طور پر مانا جانا جاتا ھے۔

ابو سلمہ كو وزیر آل محمد (ع) اور ابو مسلم كو امیر آل محمد (ص) كے لقب سے یاد كیا گیا ھے۔ یھی نوجوان امویوں كی حكومت كے خاتمے كا باعث بنے اگرچہ انھوں نے عباسیوں كو اقتدار حكومت سونپنے میں بھر پور كردار ادا كیا تاہم ابو سلمہ ایسا نوجوان ھے كہ جو آخر میں اس چیز كی خواھش ركھتا تھا كہ اقتدار آل علی (ع) كو منتقل كیا جائے۔ انھوں نے اسی مقصد كی تكمیل كیلئے ایك خط امام جعفر صادق علیہ السلام اور عبد اللہ محض كے نام بھی ارسال كیا تھا ان دونوں شخصیات میں عبد اللہ حكومت ملنے پر خوش اور آمادہ تھے لیكن امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابو سلمہ كی اس پیش كش كو ذرہ بھر اہمیت نہ دی۔ یھاں تك آپ نے اس كے خط كو بھی نہ پڑھا جب آپ كی خدمت میں چراغ لایا گیا تو امام علیہ السلام نے اس خط كو نہ فقط پھاڑ دیا بلكہ اسے جلا بھی دیا اور فرمایا اس خط كا جواب یھی ہے ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے سیاسی و حكومتی امور میں دلچسپی لینے اور ان میں مداخلت كرنے كی بجائے گوشہ نشینی كو ترجیح دی اور آپ اقتدار كو سنبھالنے كی ذرا بھر خواہش نہ ركھتے تھے اور نہ ھی اس كے لئے كسی قسم كی كوشش كا سوال پیدا ھوتا ھے كہ امام علیہ السلام اگر كوشش كرتے تو اقتدار كو اپنے ہاتھ میں لے سكتے تھے۔ اس كے باوجود آپ خاموش كیوں رھے؟ اس عدم دلچسپی كی وجہ كیا ھو سكتی ھے؟ جبكہ فضا بھی امام كے حق میں تھی۔ بالفرض اگر اس مقصد كے لئے آپ شھید بھی ھو جاتے تو شھادت بھی آل محمد (ص) كے لئے سب سے بڑا اعزاز ھے۔ ان سوالات كا جواب دیتے ھوئے، ایك بار پھر ہم امام جعفر صادق علیہ السلام كی ہمہ جہت شخصیت كے بارے میں كچھ روشنی ڈالتے ہیں تا كہ حقیقت پوری طرح سے روشن ہو جائے۔ہم نے پہلے عرض كیا ھے كہ اگر امام حسین علیہ السلام اس دور میں ھوتے تو آپ كا انداز زندگی بالكل امام جعفر صادق علیہ السلام اور دیگر آئمہ طاھرین (ع) جیسا ھوتا چونكہ امام حسین علیہ السلام اور دیگر اماموں كے دور ھائے امامت میں فرق تھا اس لئے ھر امام نے مصلحت و حكمت عملی اپناتے ہوئے امن و آشتی كا راستہ اختیار كیا۔ ھماری گفتگو كا محوریہ نھیں ہے كہ امام علیہ السلام نے اقتدار كیوں نھیں قبول كیا؟ بلكہ بات یہ ھے كہ آپ چپ كیوں رھے اور میدان جنگ میں آ كر اپنی جان جان آفرین كے حوالے كیوں نھیں كى؟

امام حسین (ع) اور امام صادق (ع) كے ادوار میں باھمی فرق:

ان دو اماموں كا آپس میں ایك صدی كا فاصلہ ھے۔ امام حسین علیہ السلام كی شھادت سال 61 ھجری كو ھوئی اور امام صادق علیہ السلام كی شہادت 148 كو واقع ھوئی گویا ان دو اماموں كی شہادتیں 87 سال ایك دوسرے سے فرق ركھتی ھیں۔ اس مدت میں زمانہ بہت بدلا، حالات نے كروٹ لی اور دنیائے اسلام میں گونا گوں تبدیلیاں ھوئیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام كے دور میں صرف ایك مسئلہ خلافت تھا كہ جس پر اختلاف ہوا دوسرے لفظوں میں ہر چیز خلافت میں سموئی ھوئی تھى، اور خلافت ہی كو معیار زندگی سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت اختلاف كا مقصد اور بحث كا ما حصل یہ تھا كہ كس كو "امیر امت" متعین كیا جائے اور كس كو نہ كیا جائے۔ اسی وجہ سے خلافت كا تصور زندگی كے تمام شعبوں پر محیط تھا۔ معاویہ سیاسی لحاظ سے بہت ھی طاقتور اور ظالم شخص تھا۔ اس كے دور حكومت میں سانس لینا بھی مشكل تھا۔ لوگ حكومت وقت كے خلاف ایك جملہ تك نہ كہہ سكتے تھے۔ تاریخ میں ملتا ھے كہ اگر كوئی شخص حضرت علی علیہ السلام كی فضیلت میں كوئی حدیث بیان كرنا چاھتا تو وہ اپنے اندر خوف محسوس كرتا تھا اور اس كو دھڑكا سا لگا رہتا كہ كھیں حكومت وقت كو پتہ نہ چل جائے۔ نماز جمعہ كے اجتماعات میں حضرت علی علیہ السلام پر كھلے عام تبرا كیا جاتا تھا۔ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام كی موجودگی میں منبر پر حضرت امیر علیہ السلام پر (نعوذ باللہ) لعنت كی جاتی تھی۔ جب ھم امام حسین علیہ السلام كی تاریخ كا مطالعہ كرتے ھیں تو معلوم ھوتا ھے كہ اس وقت كا موسم كس قدر پتھریلا اور سخت تھا؟

كیسا عجیب دور تھا كہ امام حسین علیہ السلام جیسے امام سے ایك حدیث، ایك جمعہ، ایك مكالمہ ایك خطبہ اور ایك تقریر اور ایك ملاقات كا ذكر نھیں ھے۔ عجیب قسم كی گھٹن تھی۔ لوگوں كو آپ سے ملنے نھیں دیا جاتا تھا۔آپ نے پچاس سالوں میں كتنی تلخیاں دیكھیں۔ كتنی پابندیاں برداشت كیں۔ یہ صرف امام حسین علیہ السلام ہی جانتے ہیں یھاں تك آپ سے تین جملے بھی حدیث كے نقل نھیں كیے گئے۔ آپ ہر لحاظ سے مصائب میں گھرے ہوئے تھے۔یہ دور بھی گزر گیا جانے والے چلے گئے اور آنے والے آگئے بنی امیہ كی حكومت ختم ھوئی اور بنو عباس كی حكومت شروع ھوئی اس وقت لوگوں میں علمی و فكری لحاظ سے كافی تبدیلی ھو چكی تھی۔ لوگ فكری لحاظ سے آزادی محسوس كرتے تھے۔ اس دور میں جس تیزی سے علمی وفكری ترقی ہوئی اس كی تاریخ میں كوئی نظیر نھیں ھے۔ اسلامی تعلیمات كی نشر و اشاعت پر وسیع پیمانے پر كام ھونے لگا مثال كے طور پر علم قرات، علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ اور دیگر ادبی سرگرمیاں عروج پر ھونے لگیں یھاں تك كہ طب، فلسفہ، نجوم اور ریاضی وغیرہ جیسے علوم منظر عام پر آنے لگے۔

یہ سب كچھ تاریخ میں موجود ھے كہ حالات كا رخ بدلنے سے لوگوں میں علمی و فكری شعور پیدا ھوا۔ باصلاحیت افراد كو اپنی صلاحیتیں آزمانے كا موقعہ ملا۔ یہ علمی فضا اور تعلیمی ماحول امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام كے زمانوں سے قبل وجود تك نہ ركھتا تھا۔ یہ سب كچھ صرف حالات بدلنے سے ھوا كہ لوگ اچانك علم و عمل، فكر و نظر كی باتیں سننے لگے اور پھر كیا ھوا كہ چھار سو علم كی روشنی پھیلتی چلی گئی۔ اب اگر بنو عباس پابندی عائد كرنا بھی چاھتے تو ان كے بس سے باھر تھا۔ كیونكہ عربوں كے علاوہ دوسری قومیں مشرف بہ اسلام ہو چكی تھیں۔ ان قوموں میں ایرانى غیر معمولی حد تك روشن فكر تھے۔ ان میں جوش و جذبہ بھی تھا اور علمی صلاحیت بھی۔ مصری اور شامى لوگ بھی فكری اعتبار سے خاصے زرخیز تھے۔ ان علاقوں میں دنیا كے مختلف افراد آ كر آباد ھوئے۔ پھر دنیا كے لوگوں كی آمد و رفت نے اس خطے كو علم و ادب كا گھوارا بنا دیا۔ مختلف قومیں، مختلف نظریات اور پھر بحث مباحثوں سے فضا میں حیرت انگیز تبدیلی رونما ھوئی۔ یھاں پر اسلام اور مسلمانوں كو غلبہ حاصل ھو چكا تھا۔ لوگ چاھتے تھے كہ اسلام كے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل كریں۔ دوسری طرف عرب قرآن مجید میں كچھ زیادہ غور و خوض نہ كرتے تھے، لیكن دوسری قوموں میں قرآنی تعلیمات حاصل كرنے كے بارے میں بہت زیادہ جذبہ كار فرما تھا۔ اس دور میں قرآن مجید كے ترجمہ، تفسیر اور مفاھیم پر خاصہ كام ھوا اور لوگ قرآن مجید كو بنیادی حیثیت دے كر بات كرتے تھے۔

نظریات كی جنگ:

اچانك پھر كیا ھوا كہ عقائد و نظریات كا بازار گرم ھو گیا، سب سے پہلے تو تفسیر قرآن، قرات اور آیات قرانی پر بحث ھونے لگی۔ ایك ایسی جماعت پیدا ھوئی كہ جو لوگوں كو علم قرات، اور الفاظ، حروف كی صحیح ادائیگی كے بارے میں تعلیم دینے لگى، اس وقت قرآن مجید كی اشاعت و طباعت ایسی نہ تھی كہ جیسا كہ ھمارے دور میں ھے۔ ان میں سے ایك شخص كھتا تھا میں قرات كرتا ھوں اور یہ روایت فلاں بن فلاں صحابی سے نقل كرتا ھوں اور ان كی اكثریت حضرت علی علیہ السلام تك پھنچتی تھی۔ دوسرے افراد مختلف شخصیات سے روایت كرتے اسی طرح بحثوں اور مذاكروں كا سلسلہ عروج تك جا پھنچا۔ یہ لوگ مساجد میں جاكر لوگوں كو قرآن مجید كی تعلیم دیتے۔ عربوں كی نسبت غیر عرب زیادہ شوق و ذوق سے شركت كرتے تھے، اس كی وجہ یہ ھے كہ عجمی لوگ قرآن مجید كو پڑھنے اور سمجھنے میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ ایك قرات كے استاد مسجد میں آ كر لوگوں كو درس قرآن دیتے اور ان كے ارد گرد لوگوں كا ایك ہجوم جمع ھو جاتا۔ اتفاق سے قرات میں بھی اختلاف پیدا ھو گیا پھر قرآن مجید كے معانی پر اختلاف پیدا ھو گیا، كوئی كچھ معنی كرتا اور كوئی كچھ ۔ اسی طرح احادیث كے بارے میں بھی مختلف آراء تھیں۔ حافظ احادیث كو بہت زیادہ احترام كی نظر سے دیكھا جاتا تھا۔ وہ مساجد و محافل میں بڑے فخر و انبساط سے احادیث نقل كرتا اور لوگوں كو نئے اسلوب كے ساتھ حدیثیں بیان كرتا۔ نقل احادیث كے مراحل بھی بیان كرتا كہ یہ حدیث میں نے فلاں سے سنی اور اس نے فلاں سے اور فلاں نے پیغمبر اكرم (ص) سے نقل كی ھے پھر اس كا معنی و مفھوم یہ ھے۔

ان میں قابل احترام طبقہ فقھاء كا تھا لوگ ان سے فقھی مسائل پوچھتے تھے جیسا كہ اب بھی لوگ علماء سے شرعی و فقھی مسائل دریافت كرتے ھیں۔فقھاء كی ایك كثیر تعداد مختلف علاقوں میں پھیل گئی۔ لوگوں كو آسان طریقے سے بتایا جاتا تھا كہ یہ چیز حلال ھے اور یہ حرام یہ چیز پاك ھے اور یہ نجس یہ كاروبار صحیح ھے اور یہ ناجائز وغیرہ وغیرہ، مدینہ بہت بڑا علمی مركز تھا اور دوسرا بڑا مركز كوفہ میں قائم تھا۔ جناب ابو حنیفہ كوفہ میں تھے بصرہ بھی علمی لحاظ سے كافی اچھی شھرت كا حامل تھا۔ اس كے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام كے دور امامت میں اندلس فتح ھوا تو یھاں پر بھی علمی مركز قائم ھو گیا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے كہ ہر اسلامی شہر علم و عمل كا مركز كھلاتا تھا كھا جاتا تھا كہ فلاں فقیہ كا یہ نظریہ ھے اور فلاں فقیہ یہ فرماتے ھیں مختلف مكاتب فكر كی موجودگی میں اختلاف رائے كا پیدا ھونا ضروری امر تھا۔ چنانچہ فقھی میدان میں بھی عقائد كی جنگ چھڑ گئی اور یہ روز بروز زور پكڑتی گئی۔ ان تمام اختلافات سے بڑھ كر اختلاف "علم كلام" كا تھا۔

پہلی صدی ہی میں متكلم حضرات كی آمد شروع ھوگئی جیسا كہ ہم امام جعفر صادق علیہ السلام كے دور میں دیكھتے ھیں كہ "متكلمین" آپس میں بحث مباحثہ كرتے اور امام جعفر صادق علیہ السلام كے بعض شاگرد علم كلام میں خاص مہارت ركھتے تھے اور اعتراض كرنے والوں كو بڑے شائستہ طریقے سے جواب دیتے تھے۔ یہ لوگ خدا، صفات خدا اور قرآن مجید كی ان آیات سے متعلق بحث و تمحیص كرتے جو خدا كے بارے میں ھوا كرتی تھیں۔ كہا جاتا تھا كہ خدا كی فلاں صفت عین ذات ھے یا نھیں، كیا وہ حادث ہے یا قدیم؟ نبوت اور وحی كے بارے میں بحث كی جاتی تھى، شیطان كو بھی بحث میں لایا جاتا ہے كہ یہ كون ہے؟ اور كھاں سے آیا ہے اس كا كام كیاہے اور اس كے شر سے كیسے بچا جاسكتا ہے؟ پھر ایمان اور عمل پر روشنی ڈالی جاتی قضا وقدر، جبر و اختیار پر گفتگو ھوتی۔ غرض كہ علم كلام كے ماہرین كے مابین نوك جھونك ہوتی رہتی اور مباحثوں كا یہ طویل سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور آج تك موجود ھے اور قیامت تك رھے گا لیكن بحث كے وقت انسان انتھا پسندانہ رویے كو ترك كركے صلح و آشتی اور پرامن رویے كو اپنے سامنے ركھے۔ ان بحثوں كا نتیجہ تھا كہ ایك خطر ناك ترین گروہ پیدا ھو گیا۔ ان كو آپ زندیق، لا مذھب كہہ سكتے ھیں۔ یہ لوگ خدا اور ادیان كے قائل نہ تھے۔ ان كو ھر لحاظ سے مكمل آزادی تھى، یہ مكہ و مدینہ، مسجد الحرام یھاں تك مسجد الحرام اور مسجد النبی میں بیٹھ كر اپنے عقائد كی ترویج كرتے تھے۔

اگر چہ وہ ھمارے نزدیك ایك بے دین كی سی حیثیت ركھتے ھیں لیكن وہ پڑھے لكھے ضرور تھے، ان كے سینوں میں علم اور ان كے ذھنوں میں فكر تھى، جو انھیں كچھ سوچنے اور بولنے پر مجبور كر رھی تھی یہ اور بات ھے كہ وہ سیدھی راہ سے بھٹك گئے تھے۔ ان میں كچھ سریانی زبان بولتے تھے اور كچھ یونانی زبان جانتے تھے، كچھ ایرانى تھے كہ فارسی بولتے تھے۔ كچھ ھندی زبان جانتے تھے۔ سر زمین ھند سے كافی زندیق منگوائے گئے تھے۔ یہ ایك الگ بحث ھے كہ زندیقیوں كا وجود كھاں سے شروع ھوا اور اس كی وجہ كیا ھے؟اس دور كی ایك اور بات كہ لوگ افراط وتفریط كا شكار ھو گئے تھے۔ كچھ لوگ صوفیوں اور خشك مقدس مولویوں كے روپ میں سامنے آ گئے۔ یہ صوفی حضرات بھی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام كے دور امامت میں وارد ھوئے۔ انھوں نے بہت جلد اپنا ایك مستقل اور الگ گروہ بنا لیا۔ یہ كھلے عام تبلیغ كرتے تھے۔

یہ لوگ اسلام كے خلاف كوئی بات نہ كرتے بلكہ لوگوں كو یہ باور كرانے كی كوشش كرتے تھے كہ اصل اسلام وہی ہے كہ جو یہ كہہ رہے ہیں۔ ان خشك مقدس مولویوں نے لوگوں میں عجیب قسم كا نظریہ پیدا كرنے كی بھر پور كوشش كی۔ ان كا ظاھری صالحانہ، عابدانہ اور زاھدانہ انداز اختیار كرنا زبردست كشش كا باعث بنا اور یہ خالص اور حقیقی دین اسلام كے لیے زبر دست خطرے كا باعث تھا خوارج بھی اسی نظریہ كی پیداوار ھیں۔

امام جعفر صادق (ع) اور مختلف مكاتب فكر:

ھم دیكھتے ہیں كہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اتنی بڑی مشكلات اور پریشانیوں كے باوجود مختلف فكر سے تعلق ركھنے والے افراد كی اسلامی طریقے سے تربیت كرنے كی بھر پور كوششیں كیں۔ قرآت اور تفسیر میں امام علیہ السلام نے انتھائی قابل ترین شاگرد تیار كیے جو لوگوں كو قرآن مجید كی صحیح طریقے سے تعلیم دیتے اور ان كو صحیح تفسیر سے متعارف كراتے، جہاں كہیں كسی قسم كی غلطی دیكھتے فوراً پكار اٹھتے اور بروقت اصلاح كرنے كی كوشش كرتے۔ پھر ایسے ہونہار طلبہ بھی میدان میں آئے جو علم حدیث میں پوری طرح سے مھارت ركھتے۔ نا سمجھ لوگوں كو بتایا جاتا كہ حدیث صحیح ھے اور یہ صحیح نھیں ھے۔ اس حدیث كا سلسلہ پیغمبر اسلام (ص) تك پھنچتا ھے اور یہ حدیث من گھڑت ہے۔

فقھی مسائل كے حل اور لوگوں كی شرعی احكام میں تربیت كے لیے آپ كے لائق ترین شاگردوں نے بھر پور كردار ادا كیا۔ جولوگ فقہ سے نا آشنائی ركھتے یہ نوجوان طلبہ قریہ قریہ جا كر لوگوں كو حلال و حرام اور دیگر مسائل فقھی كی تعلیم دیتے۔ یہ ایك عجیب اتفاق ھے كہ اھل سنت كے تمام بڑے مذھبی رھنما كسی نہ كسی حوالے سے امام جعفر صادق علیہ السلام سے علمی فیض حاصل كرتے رھے ھیں۔تاریخ كی تمام كتب میں درج ہے كہ جناب ابو حنیفہ دو سال تك امام علیہ السلام سے پڑھتے رھے ھیں۔ جناب ابو حنیفہ كا ایك قول بہت مشھور ہے اور یہ قول تمام كتب اھل سنت میں موجود ہے كہ ملت حنفیہ كے سر براہ جناب ابو حنیفہ نے فرمایا كہ

"لولا السنتان لھلك نعمان"

اگر میں نے وہ دو سال امام علیہ السلام كی شاگردی میں نہ گزارے ہوتے تو میں ھلاك ہوجاتا۔

جناب ابو حنیفہ كا اصل نام نعمان ھے۔ كتب میں آپ كو نعمان بن ثابت بن زوطی بن مرزبان، كے نام سے یاد كیا گیا ھے۔ آپ كے آباؤ اجداد ایرانى تھے۔

اسی طرح اھلسنت كے دوسرے امام جناب مالك بن انس امام جعفر صادق علیہ السلام كے ھم عصر تھے۔ جناب مالك نے بھی امام علیہ السلام سے كسب فیض كیا اور عمر بھر اس پر فخر كرتے رھے۔ امام شافعی كا دور بعد كا دور ھے انھوں نے جناب ابو حنیفہ كے شاگردوں، مالك بن انس اور احمد بن حنبل سے استفادہ كیا۔ لیكن ان كے اساتذہ كا سلسلہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے جا ملتا ھے۔ اپنے وقت كے چند علماء، فقہاء، محدثین امام جعفر صادق علیہ السلام كی علمی و دینی فیوضیات سے مستفیض ھوئے۔ امام علیہ السلام كے حلقہ درس میں علماء و فضلاء كا تمام وقت رش لگا رھتا تھا۔ اب میں اھل سنت كے بعض علماء كے امام جعفر صادق علیہ السلام كے بارے میں تاثرات پیش كرتا ھوں اس امید كے ساتھ كہ ھمارے محترم قارئین اسے پسند فرمائیں گے۔

امام جعفر صادق (ع) كے بار ے میں جناب مالك كے تاثرات:

جناب مالك بن انس مدینہ میں رھائش پزیر تھے۔ نسبتاً خود پسند انسان تھے۔ ان كا كھنا ھے كہ میں جب بھی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام كی خدمت میں حاضر ھوتا تو آپ كو ھمیشہ اور ھر وقت ہنستا مسكراتا ھوا پاتا۔

"وكان كثیر التبسم"

آپ كے ہونٹوں پر ھمیشہ مسكراہٹ كے پھول كھلے ھوئے رہتے تھے۔"

گویا آپ كو میں نے ھمیشہ خوش اخلاق پایا۔ آپ كی ایك عادت یہ تھی كہ جب آپ كے سامنے پیغمبر اسلام (ص) كا نام مبارك لیا جاتا تو آپ كے چھرے كا رنگ یكسر بدل جاتا۔ میں اكثر اوقات امام علیہ السلام كے پاس آتا رھتا تھا۔ آپ اپنے زمانے كے عابد و زاھد انسان تھے۔ تقوی و پرھیز گاری اور راستبازی میں آپ كا كوئی ثانی نھیں تھا۔ جناب مالك ایك واقعہ نقل كرتے ھوئے كہتے ھیں كہ میں ایك مرتبہ امام علیہ السلام كے ھمراہ تھا جب ھم مدینہ سے نكل كر مسجد الشجرہ پر پھنچے تو ھم نے احرام باندھ لیا ھم چاھتے تھے كہ لبیك كھیں اور رسمی طور پر محرم ھو جائیں، چنانچہ ھم نے لبیك كھنا شروع كیا اور احرام باندھا تو میری نگاہ امام علیہ السلام پر پڑی تو میں نے دیكھا كہ آپ كے چھرہ اقدس كا رنگ یكسر بدل گیا ھے، اور آپ كا بدن كانپ رھا ھے۔ یوں لگتا تھا كہ شاید سواری سے گر جائیں۔ خدا خوفی كی وجہ سے آپ پر عجیب قسم كی كیفیت طاری تھی۔ میں نے عرض كیا اے فرزند رسول (ص) ! اب آپ لبیك كہہ ھی دیں تو آپ نے فرمایا میں كیا كھوں اور كیسے كھوں اگر میں لبیك كھتا ھوں؟ تو مجھے جواب ملے كہ لا لبیك تو اس وقت میں كیا كروں گا؟ اس روایت كو آقا شیخ عباس قمی اور دوسرے مورخین نے اپنی كتب میں نقل كیا ھے۔ اس روایت كے راوی جناب مالك بن انس ھیں جو اھل سنت حضرات كے بہت بڑے امام ہیں جناب مالك كا كھنا ھے كہ:

ما رات عین ولا سمعت اذن ولا خطر علی قلب بشر افضل من جعفر بن محمد۔

آنكھ نے نھیں دیكھا كان نے نھیں سنا اور كسی كے خیال خاطر میں نھیں آیا كہ كوئی مرد امام جعفر صادق علیہ السلام سے افضل نظر سے گزرا ھو۔"

محمد شہرستانی جو كتاب الملل والنحل كے مصنف ھیں آپ پانچویں ھجری میں بہت بڑے عالم، متكلم، فلسفی ھو كر گزرے ھیں۔ دینی و مذھبی اور فلسفیانہ اعتبار سے یہ كتاب دنیا بھر میں مشھور ھے۔ مصنف كتاب ایك جگہ پر امام جعفر صادق علیہ السلام كا تذكرہ كرتے ھوئے لكھتا ھے كہ:

"ھو ذو علم غریر"

كہ آپ كا علم ٹھاٹھیں مارتا ھوا سمندر تھا۔"

و ادب كامل فی الحكمۃ"

حكمت میں ادب كامل تھے۔"

وزھد فی الدنیا وورع تام عن الشھوات"

آپ غیر معمولی پر متقی و پرھیز گار تھے آپ خواہشات نفسانی سے دور رہتے تھے۔"

ویفیض علیٰ الموالی لہ اسرار العلوم ثم (دخل العراق)

آپ سرزمین مدینہ میں رہ كر دوستوں اور لوگوں كو علم كی خیرات بانٹتے تھے۔" پھر آپ عراق تشریف لے آئے یہ مصنف امام علیہ السلام كی سیاست سے كنارہ كشی پر تبصرہ كرتے ھوئے لكھتا ھے۔"

و لا نازع فی الخلافۃ احدا"

كہ آپ نے خلافت كے مسئلہ پر كسی سے كسی قسم كا اختلاف و نزاع نہ كیا۔

اس كنارہ گیری كی وجہ یہ تھی كہ چونكہ آپ علم و معرفت كے سمندر میں غوطہ زن رھتے تھے اس لیے دوسرے كاموں كے لیے آپ كے پاس وقت ھی نہ تھا۔ میں محمد شھرستانی كی توجیہ كو صحیح نھیں سمجھتا۔ میرا مقصود اس سے یہ ھے كہ اس نے كھلے لفظوں میں امام كی غیر معمولی معرفت كا اعتراف كیا ھے لكھتا ھے۔

"ومن غرق فی بحر المعرفۃ لم یقع فی شط"

كہ جو دریائے معرفت میں ڈوبا ھوا ھو وہ خود كو كنارے پر نھیں لے آئے گا" اس كے نزدیك خلافت و حكومت ایك سطحی سی چیزیں ھیں جبكہ علم و معرفت كی بات ھی كچھ اور ھے۔

ومن تعلیٰ الیٰ ذروۃ الحقیقۃ لم یخف من حط

كہ جو حقیقت كی بلند و بالا چوٹیوں پر پھنچ جائے وہ نیچے كی طرف آنے سے كیسے ڈرے گا۔"

با وجودیكہ شھرستانی شیعوں كا مخالف شخص ھے، لیكن امام جعفر صادق علیہ السلام كے بارے میں مدحت سرائی كر رھا ھے۔ اس نے اپنی كتاب الملل و النحل میں شیعوں كے خلاف بہت زیادہ زھر اگلا ھے۔ لیكن اس نے امام علیہ السلام كو بہت ہی اچھے لفظوں كے ساتھ یاد كیا ھے۔ اگر چہ یہ دشمن تھا لیكن حقیقت كو ماننے پر مجبور ھو گیا۔ یہ نہ مانتا تو كیسے نہ مانتا؟ امام جعفر صادق علیہ السلام جیسا كوئی ھوتا تو یہ سامنے لاتا۔ سورج كا بھلا چراغوں سے كیسے مقابلہ كیا جا سكتا ہے؟ اب بھی دنیا میں ایسے علماء موجود ھیں جو شیعیت كے سخت دشمن ہیں۔ لیكن امام جعفر صادق علیہ السلام كا بیحد احترام كرتے ھیں۔ وہ كہتے ھیں كہ شیعہ حضرات سے جن باتوں پر ھمارا اختلاف ھے۔ وہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے بیان كردہ باتوں میں نھیں ھے كیونكہ صادق آل محمد علیھم السلام ایك انتھائی باكمال شخصیت و بے نظیر حیثیت كے مالك انسان تھے اور آپ كی علمی خدمات اور دینی احسانات كو كبھی اور كسی طور بھی نھیں بھلایا جا سكتا۔

احمد آمین كی رائے فجر الاسلام، ضحیٰ الاسلام، ظھر الاسلام، یوم الاسلام یہ احمد آمین كی معروف ترین كتب ہیں۔ احمد آمین ھمارے ہم عصر عالم دین ہیں۔ اور یہ شیعوں كے سخت مخالف ھیں۔ ان كو مذھب شیعہ كے بارے میں ذرا بھر علم نھیں ہے۔ سنی سنائی باتوں كو وجہ اعتراض بناكر شیعوں كے خلاف اپنی كتابوں میں انھوں نے بھت كچھ لكھا ھے۔ حالانكہ اس سطح اور اس پائے كے عالم دین كو حق كو سامنے ركھ كر حقیقت پسندی كا مظاھرہ كرنا چاھیے تھا۔ لیكن انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام كی جتنی تعریف كی ھے اتنی كسی اور سنی عالم نے نھیں كی۔ امام علیہ السلام كے فرامین اور ارشادات كی تفسیر و تشریح اس انداز میں كی ھے كہ كوئی عالم دین بھی نہ كر سكے۔ اس كی وجہ یہ ھے كہ انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام كی سیرت اور تاریخ كا مطالعہ كیا ھے۔ ملت اسلامیہ، مذھب جعفریہ كے بارے میں ذرا بھر بھی تحقیق كرنے كی زحمت گوارا نہیں كی۔ كاش وہ شیعوں كے بارے میں حقیقت پسندی سے كام لیتے اور ایك عظیم اور شریف ملت پر الزامات عائد كر كے اپنی كتب كے صفحات كو سیاہ نہ كرتے؟

جاحظ كا اعتراف:

میرے نزدیك جاحظ كی علمی صلاحیت اور دینی قابلیت دوسرے سنی علماء سے بڑھ كر ھے۔ یہ شخص دوسری صدی كے اواخر اور تیسری صدی كے اوائل كا سب سے بڑا عالم ھے۔ یہ شخص ذھانت و متانت كا عظیم شاہكار ھونے كےساتھ ساتھ غیر معمولی حد تك صاحب مطالعہ تھا۔ جاحظ نہ صرف اپنے عھد كا بہت بڑا ادیب ھے بلكہ ایك بہت بڑا محقق اور مورخ بھی ہے انھوں نے حیوان شناسی پر ایك كتاب الحیوان تحریر كی تھی آج یہ كتاب یورپی سائنسدانوں كے نزدیك بہت اھمیت ركھتی ھے۔ بلكہ ماھرین حیوانات اس كتاب پر نئے نئے تحقیقات كر رھے ھیں۔ جانوروں اور حیوانات كے بارے میں اس سے بڑھ كر كوئی كتاب نھیں ھے۔ یہ كتاب اس دور میں لكھی گئی جب یونان اور غیر یونان میں جدید علوم نے اتنی ترقی نہ كی تھی۔ اس وقت ان كے پاس كسی قسم كا موادنہ تھا۔ انھوں نے اپنی طرف سے حیوانات پر تحقیق كر كے دنیا بھر كے جدید و قدیم ماھرین كو ورطئہ حیرت میں ڈال دیا ھے۔

جاحظ ایك متعصب سنی عالم ھے۔ انھوں نے شیعوں كے ساتھ مناظرے بھی كئے اور انتھا پسندی كے باعث شیعہ حضرات ان كو ناصبی بھی كھتے ھیں۔ لیكن میں ذاتی طور پر كم از كم ان كو ناصبی نھیں كھہ سكتا۔ یہ شخص امام جعفر صادق علیہ السلام كے دور كا عالم ھے۔ ھوسكتا ھے اس نے امام علیہ السلام كا آخری دور پایا ھو؟ شاید یہ اس وقت بچہ ھو یا یہ بھی ھوسكتا ھے كہ امام علیہ السلام كا دور ایك نسل قبل كا دور ھو۔ كھنے كا مقصد یہ ھے كہ اس كا دور اور امام علیہ السلام ایك دوسرے كے بہت قریب ھے۔ بھر حال جاحظ امام جعفر صادق (ع) كے بارے میں اظھار خیال كرتے ھوئے لكھتا ھے كہ:

جعفر بن محمد الذی ملأ الدنیا علمہ و فقہہ

كہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے پوری دنیا كو علم و دانش اور معرفت و حكمت سے پر كردیا ہے۔"

ویقال ان ابا حنیفۃ من تلامذتہ و كذلك سفیان الثورى"

كہا جاتا ھے كہ جناب ابو حنیفہ اور سفیان ثوری كا شمار امام علیہ السلام كے شاگردان خاص میں سے ھوتا ھے سفیان ثوری بہت بڑے فقیھہ اور صوفی ھو كر گزرے ھیں۔

میر علی ہندی كا نظریہ:

میر علی ھندی ھمارے ھم عصر سنی عالم ھیں وہ امام جعفر صادق علیہ السلام كے بارے میں اظھارے خیال كرتے ھوئے لكھتے ھیں كہ

لا مشاحۃ ان انتشار العلم فی ذلك الحین قد ساعد علی فك الفكر من عقالہ

علوم كا پھیلاؤ اس زمانے میں ممكن بنایا گیا اور لوگوں كو فكری آزادی ملی اور ھر طرح كی پابندیاں ختم كر دی گئیں۔"

فاصبحت المناقشات الفلسفیۃ عامۃ فی كل حاضرۃ من حواضر العالم الاسلامى

دنیا بھر كے اسلامی حلقوں میں علمی و عقلی اور فلسفیانہ مباحث كو رواج ملا۔

جناب ھندی مزید لكھتے ھیں كہ:

ولا یفوتنا ان نشیر الی ان الذی تزعم تلك الحركۃ ھو حفید علی ابن ابی طالب المسمی بالامام الصادق

ھم سب كو یہ بات ھرگز نھیں بھولنی چاھیے كہ جس عظیم شخصیت نے دنیائے اسلام میں فكری انقلاب كی قیادت كی ھے وہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام كے پوتے ھیں اور انكا نام نامی امام صادق (ع) ھے۔"

و ھو رجل رحب افق التفكیر

وہ ایسے انسان تھے كہ جن كا افق فكری بہت بلند ھے یعنی جن كی فكری وسعت كی كوئی حد نہ تھی۔"

بعید اغوار العقل

ان كی عقل و فكر بہت گھری تھی ۔"

ملم كل المام بعلوم عصرہ

آپ اپنے عھد كے تمام علوم پر خصوصی توجہ ركھتے تھے۔ جناب ھندی مزید كھتے ہیں ۔

و یعتبر فی الواقع ھو اول من اسس المدارس الفلسفیۃ المشھورۃ فی الاسلام

در حقیقت سب سے پھلے جس شخصیت نے جدید علمی مراكز قائم كیے ھیں وہ امام جعفر صادق علیہ السلام ہی ہیں۔"

و لم یكن یحضر حلقتہ العلمیۃ اولئك الذین اصبحوا مؤسسی المذاھب الفقھیۃ فحسب بل كان یحضرھا طلاب الفسفۃ والمتفلسفون من انحاء الواسعۃ"

وہ كہتا ھے كہ آپ نہ صرف ابو حنیفہ جیسی بزرگ شخصیت كے استاد تھے بلكہ جدید علوم كی بھی طلبہ كو تعلیم دیا كرتے تھے گویا جدید ترقی امام علیہ السلام كی مرھون منت ھے۔

احمد زكی صالح كے خیالات:

كتاب امام صادق علیہ السلام میں آغا مظفر احمد زكی صالح ماھنامہ الرسالۃ العصریہ سے نقل كرتے ھیں كہ شیعہ فرقہ كی علمی پیشرفت تمام فرقوں سے زیادہ ھے۔ كھا جاتا ھے كہ علوم كی ترقی اور پیشرفت میں اھل ایران كا بھت بڑا عمل دخل ھے۔ یہ اس وقت كی بات ھے كہ جب ایران میں شیعوں كی اكثریت نہ تھی۔ ابھی ھم اس كے بارے میں بحث نھیں كرتے یہ پھر  كبھی سھی یہ مصری لكھتا ھے:

من الجلی الواضح لدی كل من درس علم الكلام الفرق الشیعۃ كانت انشط الفرق الاسلامیۃ حركۃ

كہ واضح سی بات ھے كہ ہر وہ شخص جو ذرا بھر علمی شعور ركھتا ھے وہ اس بات كا معترف ہے كہ شیعہ فرقہ كی مذھبی و علمی پیشرفت تمام فرقوں سے زیادہ ھے۔"

و كانت اولیٰ من اسس المذاھب الدینیۃ علی اسس فلسفیۃ حتی ان البعض ینسب الفلسفۃ خاصۃ بعلی بن ابی طالب

"یعنی شیعہ پہلا اسلامی مذھب ھے كہ جو دینی مسائل كو فكری و عقلی بنیادوں پر حل كرتا ہے۔ شیعہ یعنی امام جعفر صادق علیہ السلام كے دور امامت میں مختلف علوم كو عقلی و فكری لحاظ سے پركھا جاتا تھا۔ اس كی بھترین دلیل یہ ھے كہ اھل تسنن كی احادیث كی ان كتابوں (صحیح بخارى، صحیح مسلم، جامع ترمذى، سنن ابی داؤد و صحیح نسائی) میں صرف اور صرف فروعی مسائل كو پیش كیا گیا ھے۔ دوسرے لفظوں میں بتایا گیا ھے كہ وضو كے احكام یہ ھیں، نماز كے مسائل كچھ اس طرح كے ھیں۔ روزہ، حج، جھاد، وغیرہ كے احكام یہ ھیں۔ مثال كے طور پر پیغمبر اسلام (ص) نے سفر میں اس طرح عمل فرمایا ھے لیكن آپ اگر شیعہ كی احادیث كی كتب كا مطالعہ كریں تو آپ دیكھیں گے شیعہ احادیث میں سب سے پھلے عقل و جھل كے بارے میں گفتگو كی گئی ھے، لیكن اھل سنت حضرات كی كتب میں اس طرح كی باتیں موجود نھیں ہیں۔ میں یہ کہنا چاھتا ھوں كہ اس كی بنیاد صرف امام جعفر صادق علیہ السلام ھیں، بلكہ امام صادق علیہ السلام كے ساتھ ساتھ اس میں تمام آئمہ طاھرین علیھم السلام كی كوشش بھی شامل ھیں۔ اس كی اصل بنیاد تو خود حضرت پیغمبر اكرم (ص) كی ذات گرامی ھے۔ اس عظیم مشن كا آغاز حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے كیا تھا اور اسے آگے آل محمد (ص) نے بڑھایا ھے۔

چونكہ امام جعفر صادق (ع) كو كام كرنے كا خوب موقعہ ملا ہے اس لیے آپ نے اپنے آباءو اجداد كی علمی میراث كو كما حقہ محفوظ ركھا ہے۔ اور اس عظیم ورثہ كو قیامت تك آنے والی نسلوں كیلئے ثمر آور بنادیا۔ ھماری احادیث كی كتب میں كتاب العقل والجھل كے بعد كتاب التوحید آتی ھے۔ ھمارے پاس توحید الٰھی كے بارے میں ہزاروں مختلف احادیث موجود ھیں۔ ذات خداوندى، معرفت الٰھى، فضاء و قدر، جبر و اختیار سے متعلق ملت جعفریہ كے پاس نہ ختم ھونے والا ذخیرہ احادیث موجود ھے۔ شیعہ قوم فخر سے كھہ سكتی ھے كہ امام جعفر صادق علیہ السلام اور ھمارے جلیل القدر دیگر آئمہ طاھرین نے جتنا ھمیں دیا ھے اتنا كسی اور پیشوا نے اپنی ملت كو نھیں دیا۔ اس لیے ھم كھہ سكتے ھیں كہ فكرى، علمی اور عقلی و نظریاتی لحاظ سے امام جعفر صادق علیہ السلام نے نئے علوم كی بنیاد ركھ كر بنی نوع انسان پر بہت بڑا احسان كیا ھے۔

جابر بن حیان:

ایك وقت ایسا آیا كہ ایك نئی اور حیرت انگیز خبر نے پوری دنیا كو ورطئہ حیرت میں ڈال دیا وہ تھی جابر بن حیان كی علمی دنیا میں آمد ۔ تاریخ اسلام كے اس عظیم ھیرو كو جابر بن حیان صوفی بھی كھا جاتا ھے۔ اس دانائے راز نے علمی انكشاف اور سائنسی تحقیقات كے حوالے سے ایك نئی تاریخ رقم كر كے مسلمانوں كا سر فخر سے بلند كر دیا۔ ابن الندیم نے اپنی مشھور كتاب الفھرستمیں جناب جابر كو یاد كرتے ھوئے لكھا ھے كہ جابر بن حیان ایك سو پچاس علمی وفلسفی كتب كے مصنف و مؤلف ھیں۔ كیمسٹری جابر بن حیان كے فكری احسانات كا صلہ ھے۔ ان كو كیمسٹری كی دنیا میں باپ اور بانی كا درجہ دیا جاتا ھے۔ ابن الندیم كے مطابق جناب جابر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام كے دستر خوان علم سے خوشہ چینی كرنے والوں میں سے ایك ھیں۔

ابن خلكان ایك سنی مصنف ھے۔ وہ جابر بن حیان كے بارے میں لكھتے ھیں كہ كیمسٹری كا یہ بانی امام جعفر صادق علیہ السلام كا شاگر تھا۔ دوسرے مورخین نے بھی كچھ اس طرح كی عبارت تحریر كی ھے۔ لطف كی بات یہ ھے كہ جن جن علوم كی جناب جابر نے بنیاد ركھی ھے وہ ان سے پہلے بالكل وجود ھی نہ ركھتے تھے۔ پھر كیا ھوا كہ جابر بن حیان نے نئی نئی اختراعات ایجاد كر كے جدید ترین دنیا كو حیران كر دیا۔ اس موضوع پر اب تك سینكڑوں كتابیں اور رسالہ جات شائع ھو چكے ھیں۔ دنیا بھر كے سائنسدان اور ماہرین نے جناب جابر كی جدید علمی خدمات كو بیحد سراھتے ھوئے كھا ھے كہ اگر جابر نہ ھوتے تو پوری انسانیت اتنے بڑے علم سے محروم رھتی۔ ایران كے ممتاز دانشور جناب تقی زادہ نے جابر بن حیان كی علمی ودینی خدمات پر انھیں زبردست خراج تحسین پیش كیا ھے۔ میرے خیال میں جابر كے متعلق بہت سی چیزیں مخفی اور پوشیدہ ھیں۔ تعجب كی بات یہ ھے كہ شیعہ كتب میں بھی جناب جابر جیسے عظیم ہیرو كا تذكرہ بھت كم ھوا ہے۔ یھاں تك كہ بعض شیعہ علم رجال اور حدیث كی كتابوں میں اسی بزرگ ھستی كا نام كھیں پہ استعمال نھیں ھوا۔ ابن الندیم شائد شیعہ ھو اس لئے انھوں نے جناب جابر كا نام اور تذكرہ خاص اھتمام اور احترام كے ساتھ كیا ھے۔ یہ ایك حقیقت ھے كہ پوری دنیا كو بالآخر ماننا پڑا كہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے جس طرح لائق و فائق علماء تیار كئے ھیں اتنے اور كسی مذھب نے پیشوا نھیں كئے۔

ھشام بن الحكم:

امام جعفر صادق علیہ السلام كے ایك اور معروف شاگرد كا نام ھشام بن الحكم ھے۔ یہ شخص واقعتاً نابغہ روزگار ھے، اپنے دور كے تمام دانشوروں پر ھمیشہ ان كو برتری حاصل رھی ھے۔ آپ جب بھی كسی موضوع پر بات چیت كرتے تو سننے والوں كو مسحور كر دیتے۔ اس مرد قلندر كی زبان میں عجیب تاثیر تھی۔ جناب ھشام سے بڑے بڑے علماء آكر شوق وذوق كے ساتھ بحث و مباحثہ كرتے اور سمندر علم كی جولانیوں اور طوفان خیزیوں كو دیكھ كر وہ اپنے اندر ایك خاص قسم كا اطمینان و سكون حاصل كرتے۔ یہ سب كچھ میں اھل سنت بھائیوں كی كتب سے پیش كر رھا ھوں۔ ابو الھزیل علاف ایك ایرانى النسل دانشور تھے۔ آپ علم كلام كے اعلیٰ پایہ كے ماھر تسلیم كیے جاتے تھے۔ شبلی نعمانی تاریخ علم كلام میں لكھتا ھے كہ ابو الھزیل كے مقابلے میں كوئی شخص بحث نھیں كرسكتا تھا۔ لیكن یھی ابو الھزیل ھشام بن الحكم كے سامنے آنے كی جرأت نہ كرتا تھا۔ جناب ھشام نے جدید علوم میں جدید تحقیق كو رواج دیا۔ آپ نے طبعیات كے بارے میں ایسے ایسے اسرار و رموز كو بیان كیا ھے كہ وہ لوگوں كے وھم و خیال میں بھی نہ تھے۔ ان كا كھنا ھے كہ رنگ و بو انسانی جسم كا ایك مستقل جزو ھے اور وہ ایك ایسی چیز ھے جو فضا میں پھیل جاتی ھے۔

ابو الھزیل ھشام كے شاگردوں میں سے تھا اور وہ اكثر اپنی علمی آراء میں اپنے استاد محترم جناب ھشام كا حوالہ ضرور دیا كرتے تھے۔ اور ھشام امام جعفر صادق علیہ السلام كی شاگردی پر نہ فقط فخر كیا كرتے تھے بلكہ خود كو "خوش نصیب" كھا كرتے تھے۔ جیسا كہ ھم نے پھلے عرض كیا ھے كہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے تعلیم و تربیت اور تھذیب و تمدن كے فروغ اور احیاء كے لیے شب و روز كام كیا۔ فرصت كے لمحوں كو ضروری اور اھم كاموں پر استعمال كیا، چونكہ ھمارے آئمہ میں سے كسی كو كام كرنے كا موقعہ ھی نہ دیا گیا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام واحد ھستی ھیں كہ جنھوں نے بہت كم عرصے میں صدیوں كا كام كر دكھایا۔ پھر امام رضا علیہ السلام كو بھی علمی و دینی خدمات كے حوالے سے كچھ كام كرنے كا موقعہ میسر آیا۔ ان كے بعد فضا بدتر ھوتی چلی گئى، حضرت امام موسیٰ كاظم علیہ السلام كا دور انتھائی مصیبتوں، پریشانیوں اور دكھوں كا دور ھے۔ آپ پر حد سے زیادہ پابندیاں عائد كر دی گئیں، بغیر كسی وجہ اور جرم و خطا كے آپ كو زندگی بھر زندانوں میں رہ كر اسیرانہ زندگی بسر كرنی پڑی۔

ان كے بعد دیگر آئمہ طاھرین علیھم السلام عالم جوانی میں شھید كر دیئے گئے۔ ان كا دشمن بھی كتنا بزدل تھا كہ اكثر كو زھر كے ذریعہ شھید كر دیا گیا۔ ان پر عرصہ حیات ا س لیے تنگ كر دیا تھا كہ وہ علم و عمل كے فروغ اور انسانیت كی فلاح و بھبود كے لیے كام نہ كر سكیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام كو ایك تو كام كرنے كا موقع مل گیا دوسرا آپ نے عمر بھی لمبی پائی تقریباً ستر سال تك زندہ رھے۔

اب یہ صورت حال كس قدر واضح ھو گئی ھے كہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام كے ادوار میں كتنا فرق تھا؟ امام عالی مقام علیہ السلام كو ذرا بھر كام كرنے كا موقعہ نہ مل سكا، یعنی حالات ھی اتنے نا گفتہ بہ تھے كہ مصیبتوں اور مجبوریوں كی وجہ سے سخت پریشان رھے۔ پھر انتھائی بے دردی كے ساتھ آپ كو شھید كر دیا گیا، لیكن آپ كی اور آپ كے ساتھیوں كی مظلومیت نے پوری دنیا میں حق و انصاف كا بول بالا كر دیا اور ظالم كا نام اور كردار ایك گالی بن كر رہ گیا۔

امام حسین علیہ السلام كے لیے دو ہی صورتیں تھیں ایك یہ كہ آپ خاموش ھو كر بیٹھ جاتے اور عبادت كرتے دوسری صورت وہی تھی جو كہ آپ نے اختیار كى، یعنی میدان جھاد میں اتر كر اپنی جان جان آفرین كے حوالے كر دی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام كو حالات و واقعات نے كام كرنے كا وقت اور موقعہ فراھم كر دیا۔ شہادت تو آپ كو نصیب ھونی تھی۔ آپ كو جو نھی موقعہ ملا آپ نے چھار سو علم كی شمعیں روشن كر كے جگہ جگہ روشنی پھیلا دی۔ علم كی روشنی اور عمل كی خوشبو نے ظلمت و جھالت میں ڈوبے ھوئے معاشرے كو از سر نو زندہ كر كے اسے روشن و منور كر دیا۔ عرض كرنے كا مقصد یہ ھے كہ آئمہ اطھار (ع) كی زندگی كا مقصد اور مشن اور طریقہ كار ایك جیسا ھے۔ دوسرے لفظوں میں اگر امام صادق علیہ السلام نہ ھوتے تو امام حسین علیہ السلام بھی نہ ھوتے۔ اسی طرح امام حسین (ع) نہ ھوتے تو امام صادق (ع) نہ ھوتے۔ یہ ھستیاں ایك دوسرے كے ساتھ لازم و ملزوم كی حیثیت ركھتی ھیں۔ امام حسین  علیہ السلام نے ظلم اور باطل كے خلاف جھاد كرتے ھوئے شھادت پائی۔ پھر آنے والے آئمہ اطھار (ع) نے ان كے فلسفہ شھادت اور مقصد قیام كو عملی لحاظ سے پایہ تكمیل تك پھنچایا۔

امام جعفر صادق (ع) نے اگر چہ حكومت وقت كے خلاف علانیہ طور پر جنگ شروع نھیں كی تھی۔ لیكن یہ بھی پوری دنیا جانتی ھے كہ آپ حكام وقت سے نہ فقط دور رھے بلكہ خفیہ طور پر ان كے ساتھ بھر پور مقابلہ بھی كیا۔ ایك طرح كی امام علیہ السلام سرد جنگ لڑتے رھے۔ آپ (ع) كی وجہ سے اس وقت كے ظالم حكمرانوں كی ظالمانہ كاروائیوں كی داستانیں عام ھوئیں اور ان كی آمریت كا جنازہ اس طرح اٹھا كہ مستحق لعن و نفریں ٹہرے، یھی وجہ ھے كہ منصور كو مجبور ھو كر كہنا پڑا كہ:

"ھذا الشجی معترض فی الحلق"

كہ جعفر بن محمد میرے حلق میں پھنسی ھوئی ہڈی كے مانند ہیں۔ میں نہ ان كو باہر نكال سكتا ھوں اور نہ نگلنے كے قابل رھا ھوں نہ میں ان كا عیب تلاش كركے ان كو سزادے سكتا ھوں، اور نہ ان كو برداشت كرسكتا ھوں۔"

یہ سب كچھ دیكھتے ھوئے كہ وہ جو كچھ بھی كر رھے ھیں وہ ھمارے خلاف ھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔برداشت كر رھا ھوں۔ مجھے پتہ ھے كہ امام علیہ السلام نے ھمارے خلاف لوگوں كو ایك نہ ایك دن اكٹھا كر ھی لینا ھے۔ اس كے باوجود بھی میں اتنا بے بس ھوں كہ ان كے خلاف ذرا بھر اقدام نھیں كرسكتا۔

اس سے پتہ چلتا ھے كہ امام علیہ السلام نے اپنی حسن سیاست اور بھترین حكمت عملی كی بدولت اپنے مكار، عیار اور با اختیار دشمن كو بے بس كیے ركھا۔ ھم سب پر لازم ھے كہ اپنے دشمنوں، مخالفوں كے مقابلے میں ھمہ وقت تیار ھیں۔ ھوشیاری و بیداری كے ساتھ ساتھ ھمارا قومی و ملی اتحاد بھی وقت كی اھم ضرورت ھے۔ ھمارا بزدل دشمن گھات لگائے بیٹھا ھے۔ وہ كسی وقت بھی ھمیں نقصان پھنچا سكتا ھے۔ جوں جوں وقت گزرتا جارھا ھے۔ طاقت و غلبہ كے تصور كی اھمیت بڑھتی جارھی ھے۔ خوش نصیب ھیں وہ لوگ جو وقت كی نبض تھام كر سوچ سمجھ كر آگے بڑھتے ھیں اور پھر بڑھتے چلے جاتے ھیں۔

علمی پیشرفت كے اصل محركات:

جیسا كہ ھم نے پہلے بھی عرض كیا ھے كہ امام جعفر صادق علیہ السلام كے دور امامت میں غیر معمولی طور پر ترقی ھوئی ھے۔ معاشرہ میں فكر و شعور كو جگہ ملی گویا سوئی ھوئی انسانیت ایك بار پھر پوری توانائی كے ساتھ جاگ اٹھى، بحثوں، مذاكروں اور مناظروں كا سلسلہ شروع ھو گیا تھا۔ انھی مذاكرات سے اسلام كو بہت زیادہ فائدہ ھوا، علمی ترقی اور پیشرفت كے تین بڑے محركات ھمیں اپنی طرف متوجہ كرنے ھیں۔ پھلا سبب یہ تھا كہ اس وقت پورے كا پورا معاشرہ مذھبی تھا۔ لوگ مذھبی و دینی نظریات كے تحت زندگی گزار رھے تھے۔

پھر قرآن و حدیث میں لوگوں كو علم حاصل كرنے كی ترغیب دی گئی تھی۔ لوگوں سے كھا گیا تھا كہ جو جانتے ھیں وہ نہ جاننے والوں كو تعلیم دیں، حسن تربیت كی طرف بھی اسلام نے خصوصی توجہ دی ھے۔ یہ محرك تھا كہ جس كی وجہ سے علم و دانش كی اس عالمگیر تحریك كو بہت زیادہ ترقی ھوئی۔ دیكھتے ھی دیكھتے قافلے كے قافلے اس كا رواں علم میں شامل ھو گئے۔ دوسرا عامل یہ تھا كہ مختلف قوموں، قبیلوں، علاقوں اور ذاتوں سے تعلق ركھنے والے لوگ مشرف بہ اسلام ہو چكے تھے۔ ان افراد كو تحصیل علم سے خاص لگاؤ تھا۔ تیسرا محرك یہ تھا كہ اسلام كو ھی وطن قرار دیا گیا یعنی جھاں اسلام ھے اس شھر، علاقے اور جگہ كو وطن سمجھا جائے۔ اس كا سب سے بڑا فائدہ یہ ھوا كہ اس وقت جتنے بھی ذات پات اور نسل پرستی تصورات تھے وہ اسی وقت دم توڑ گئے۔ اخوت و برادری كا تصور رواج پكڑنے لگا۔ ایك وقت ایسا بھی آیا كہ اگر استاد مصری ھے تو شاگرد خراسانی یا شاگرد مصری ھے تو استاد خراسانى، ایك بہت بڑا دینی مدرسہ تشكیل دیا گیا۔ آپ كے حلقہ درس میں نافع، عكرمہ جیسے غلام بھی درس میں شركت كرتے ھیں، پھر عراقى، شامى، حجازى، ایرانى، اور ھندی طلبہ كی رفت و آمد شروع ھو گئی۔ دینی ادارے كی تشكیل سے لوگوں كا آپس میں رابط بڑھا اور اس سے ایك ھمہ گیر انقلاب كا راستہ ھموار ھوا۔ اس زمانے میں مسلم، غیر مسلم ایك دوسرے كے ساتھ رھتے۔ رواداری كا یہ عالم تھا كہ كوئی بھی كسی كے خلاف كوئی بات نھیں كرتا تھا۔ عیسائىوں كے بڑے بڑے پادری موجود تھے۔ وہ مسلمانوں اور ان كے علماء كا دلی طور پر احترام كرتے بلكہ غیر مسلم مسلمانوں كے علم و تجربہ سے استفادہ كرتے۔ پھر كیا ھوا؟ كہ دوسری صدی میں مسلمانوں كی اقلیت اكثریت میں بدل گئی۔ اس لحاظ سے مسلمانوں كا عیسائىوں كے ساتھ روداری كا مظاھرہ كرنا كافی حد تك مفید ثابت ھوا۔ حدیث میں بھی ھے كہ اگر آپ كو كسی علم یا فن كی ضرورت پڑے اور مسلمانوں كے پاس نہ ھو تو وہ غیر مسلم سے بھی حاصل كر سكتے ھیں۔ نھج البلاغہ میں اس چیز كی تاكید كی گئی ھے اور علامہ مجلسی (رح) نے بحار میں تحریر فرمایا كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا ارشاد گرامی ھے كہ:

"خذوا الحكمۃ و لو من مشرك"

یعنی اگر آپ كو مشرك سے بھی علم و حكمت حاصل كرنا پڑے تو وہ ضرور حاصل كریں۔

اور ایك حدیث میں ھے كہ:

"الحكمۃ ضالۃ المؤمن یاخذھا اینما وجدھا"

یعنی حكمت مومن كا گم كردہ خزانہ ھے اس كو حاصل كرو چاہے جہاں سے بھی ملے۔

بعض جگہوں میں یہ بھی كھا گیا ہے كہ:

"و لو من ید مشرك"

كہ خواہ پڑھانے والا مشرك ہی كیوں نہ ھو۔"

قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ھے:

یؤتی الحكمۃ من یشاء ومن یوت الحكمۃ فقد اوتی خیراً كثیرا۔

بقرہ، 269.

اور جس كو (خدا كی طرف سے) حكمت عطا كی گئی تو اس میں شك ہی نھیں كہ اسے خوبیوں كی بڑی دولت ہاتھ لگی۔

واقعاً صحیح ھے كہ علم مومن كا گمشدہ خزانہ ھے اگر انسان كی كوئی چیز گم ھو جائے تو وہ اس كے لئے كتنا پریشان ھوتا ھے اور ا س كو كس طرح تلاش كرتا ھے۔ مثال كے طور پر آپ كی ایك قیمتی انگوٹھی ھو اگر وہ گم ھو جائے، تو آپ جگہ جگہ چھان ماریں گے اور اگر وہ آپ كو مل جائے توبہت زیادہ خوشی ھوگی۔ علم سے زیادہ قیمتی چیز كونسی ھو سكتی ہے اس كو تلاش كرنے اور طلب كرنے كیلئے انسان كو اتنی محنت كرنی چاھیے۔ اس كے لیے ضروری نھیں ھے كہ تعلیم دینے والا اور فن سیكھانے والا مومن و مسلمان ہی ھو، بلكہ آپ علوم اور جدید ٹیكنالوجی كافروں، مشركوں سے بھی حاصل كر سكتے ھیں۔ حضرت علی علیہ السلام كا ارشاد گرامی ہے "مومن علم كو كافر كے پاس عارضی مال كے طور پر دیكھتا ھے اور خود كو اس كا اصلی مالك سمجھتا ھے" اور وہ خیال كرتا ھے كہ علم كا لباس مومن ہی كو جچتا ہے كافر كو نہیں۔

جیسا كہ ھم نے پہلے عرض كیا ھے كہ مسلمانوں كا غیر مسلموں كے ساتھ اچھا سلوك كرنا اس بات كا سبب بنا كہ وہ تحقیق و تلاش كرتے ھوئے دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ ایك وقت تھا كہ مسلمان، عیسائى، یھودى، مجوسی وغیرہ سب ایك جگہ، ایك شہر، ایك محلّہ میں رھتے تھے۔ وہ انتھا پسندی كا مظاھرہ كرنے كی بجائے ایك دوسرے سے استفادہ كرتے تھے۔ یہ بات پورے معاشرے كے لیے مفید ثابت ہوئی۔ مشہور مور خ جرجی زیدان نے اس وسعت قلبی كو انسانی معاشرہ بالخصوص مسلمانوں كے لیے نیك شگون قرار دیا ھے۔ وہ سید رضی كے واقعہ كو نقل كرتے ھوئے لكھتا ھے كہ سید رضی اپنے دور كے بہت بڑے عالم دین تھے بلكہ غیر معمولی طور پر درجہ اجتھاد پر فائز تھے۔ آپ سید مرتضی علم الھدی كے چھوٹے بھائی تھے جب ان كے ہم عصر عالم دین ابو اسحاق صابی نے انتقال كیا تو رضی نے ان كی شان مین ایك قصیدہ كھا۔ ابو اسحاق صابی مسلمان نہ تھے یہ مجوسی فرقے سے ملتے جلتے خیالات كے حامل تھے۔ یہ بھی ھو سكتا ھے كہ وہ عیسائى ھوں۔ یہ اعلی پایہ كے ادیب، ممتاز دانشور تھے۔ ادیب ھونے كے ناطے سے قرآن مجید سے بہت زیادہ عقیدت ركھتے تھے۔ وہ اپنی تحریر و تقریر میں قرآن مجید كی متعدد آیات كا حوالہ دیا كرتے تھے۔ ماہ رمضان میں دن كو كوئی چیز نھیں كھاتے تھے۔ كسی نے ان سے پوچھ لیا كہ آپ ایك غیر مسلم ہیں تو رمضان میں دن كو كھاتے پیتے كیوں نھیں ہیں تو كھا كرتے تھے كہ ادب كا تقاضا یہ ہے كہ ہم افراد معاشرہ كا احترام كرتے ہوئے ان كی مذھبی اقدار كا احترام كریں چنانچہ سید رضی نے كہا۔

ارایت من حملوا علی الاعواد

ارایت كیف خبا ضیاء النادى

كیا آپ نے دیكھا كہ یہ كون شخص تھا كہ جس كو لوگوں نے تابوت میں ركھ كر اپنے كندھوں پر اٹھا ركھا تھا؟ كیا آپ نے سمجھا ھے كہ ھماری محفلوں كا چراغ بجھ گیا ھے؟ یہ ایك پہاڑ تھا جو گرگیا كچھ لوگوں نے سید رضی پر اعتراض كیا كہ آپ ایك سید، اولاد پیغمبر اور بزرگ عالم دین ھوتے ھوئے ایك كافر كی تعریف كی ھے؟ فرمایا جی ہاں:

"انما رثیت علمہ"

كہ میں نے اس كے علم كا مرثیہ كہا ہے۔"

وہ ایك بہت بڑا عالم تھا، دانشمند تھا میں نے اس پر اس لیے مرثیہ كہا كہ اہل علم ہم سے جدا ہو گیا ھے، اگر اس زمانے میں ایسا كیا جائے تو لوگ اس عالم كو شھر بدر كردیں گے۔ جرجی زیدان كہتا ھے كہ ایك جلیل القدر عالم دین نے حسن اخلاق اور رواداری كا مظاھرہ كر كے اپنی خاندانی عظمت اور اسلام كی پاسداری كا عملی ثبوت دیا ھے۔ سید رضی حضرت علی علیہ السلام كے ایك لحاظ سے شاگر تھے۔ كہ انھوں نے مولا امیر المومنین علیہ السلام كے بكھرے ھوئے كلام كو جمع كر كے نھج البلاغہ كے نام سے ایك ایسی كتاب تالیف كی كہ جسے قرآن مجید كے بعد بہت زیادہ احترام كی نگاہ سے دیكھا جاتا ھے۔ سید رضی اپنے جد امجد پیغمبر اسلام (ص) اور حضرت علی علیہ السلام كی تعلیمات سے بھت زیادہ قریب تھے۔ اسی لیے تو كھتے ھیں كہ علم و حكمت جھاں كھیں بھی ملے اسے لے لو۔ یہ تھے وہ محركات كہ جن كی وجہ سے لوگوں میں فكری و نظریاتی اور شعوری طور پر پختگی پیدا ھوئی اور تعلیم و تربیت، علم و عمل كے حوالے سے جتنی بھی ترقی ھے یہ سب كچھ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام كی مھربانیوں كا نتیجہ ھے۔ پس ہماری گفتگو كا نتیجہ یہ ھوا كہ اگر چہ امام جعفر صادق علیہ السلام كو ظاھری حكومت نھیں ملی اگر مل جاتی تو آپ اور بھی بہتر كارنامے انجام دیتے لیكن آپ كو جس طرح اور جیسا بھی كام كرنے كا موقعہ ملا آپ نے كوئی لمحہ ضائع كئے بغیر بے شمار قابل ستائش كام كیے۔ مجموعی طور پر ھم كھہ سكتے ھیں كہ مسلمانوں كے جتنے بھی علمی و دینی كارنامے تاریخ میں موجود ہیں وہ سب صادق آل محمد علیہ السلام كے مرہون منت ہیں۔

شیعہ تعلیمی مراكز تو روز روشن كی طرح واضح ھیں۔ اھل سنت بھائیوں كے تعلیمی و دینی مراكز میں امام علیہ السلام كے پاك و پاكیزہ علوم كی روشنی ضرور پھنچی ھے۔ اہل سنت حضرات كی سب سے بڑی یونیورسٹی الازہر كو صدیوں قبل فاطمی شیعوں نے تشكیل دیا تھا اور جامعہ ازھر كے بعد پھر اھل تسنن كے مدرسے اور دینی ادارے بنتے چلے گئے۔ ان لوگوں كے اس اعتراض (كہ امام علیہ السلام میدان جنگ میں جھاد كرتے تو بھتر تھا؟) كا جواب ھم نے دے دیا ہے ان كو یہ بات بھی بغور سننی چاھیے كہ اسلام جنگ كے ساتھ كبھی نھیں پھیلا بلكہ اسلام تو امن و سلامتی كا پیامبر ھے۔ مسلمان تو صرف دفاع كرنے كا مجاز ھے، آپ اسے جھاد كے نام سے بھی تعبیر كر سكتے ھیں۔ امام علیہ السلام كی حلم و بردباری اور حسن تدبر نے نہ فقط ماحول كو خوشگوار بنایا بلكہ لوگوں كو شعور بخشا، علم جیسی روشنی سے مالا مال كر دیا، اسلام اور مسلمانوں كی عظمت و رفعت میں اضافہ ھوا۔

باقی رہا یہ سوال كہ آئمہ طاھرین (ع) عنان حكومت ھاتھ میں لے كر اسلام اور مسلمانوں كی بخوبی خدمت كر سكتے تھے انھوں نے اس موقعہ سے فائدہ نھیں اٹھایا پر امن رہنے كے باوجود بھی ان كو جام شھادت نوش كرنا پڑا؟

 تو اس كا جواب یہ ہے كہ حالات اس قدر بھی سازگار و خوشگوار نہ تھے كہ آئمہ اطھار (ع) كو حكومت و خلافت مل جاتى؟ امام علیہ السلام نے حكمرانوں سے ٹكرانے كی بجائے ایك اہم تعمیری كام كی طرف توجہ دی۔ علماء فضلاء، فقھاء اور دانشور تیار كر كے آپ نے قیامت تك كے انسانوں پر احسان عظیم كر دیا۔ وقت وقت كی بات ہے آئمہ طاھرین علیھم السلام نے ھر حال، ہر موقعہ پر اسلام اور مظلوم طبقہ كی بھر پور طریقے سے ترجمانی كی۔ حضرت امام رضا علیہ السلام كو مامون كی مجلس میں جانے كا موقعہ ملا آپ نے سركاری محفلوں اور حكومتی میٹنگوں میں حق كی كھل كر ترجمانی كی اور جیسے بھی بن پڑا غریبوں اور بے سہارا لوگوں كی مدد كی۔ امام رضا علیہ السلام دو سال تك مامون كے قریب رھے۔ اس دور میں آپ سے كچھ نہ كچھ احادیث نقل كی گئیں اس كے بعد آپ كی كوئی حدیث نظر نھیں آتی۔ دوسرے لفظوں میں مامون كے دور میں آپ كو دین اسلام كی ترویج كیلئے كام كرنے كا موقعہ ملا اس كی وجہ مامون كی قربت ہے اس كے بعد پابندیوں كا دور شروع ہو گیا۔ آپ جو كرنا چاہتے تھے وہ بندشوں اور ركاوٹوں كی نظر ہو گیا۔ پھر آپ كو جام شہادت نوش كرنا پڑا۔ جو آپ كے باپ دادا كے ورثہ میں شامل تھا۔

التماس دعا





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی