2024 March 19
ایام فاطمیہ اور شہادت مظلومانہ صدیقۃ الکبری حضرت فاطمہ زہرا (س)
مندرجات: ٦١٩ تاریخ اشاعت: ٢٧ November ٢٠٢٣ - ١٤:٣٢ مشاہدات: 17604
یاداشتیں » پبلک
ایام فاطمیہ اور شہادت مظلومانہ صدیقۃ الکبری حضرت فاطمہ زہرا (س)

یہ ایام عصمت کبری حضرت فاطمہ زہرا (س) کى شہادت کے ایام ہیں، وہ پاک اور مقدس ذات جو ام ابیھا بھی ہے اور آئمہ معصومین (علیہم السلام) کى ماں بھی ہے.

وہ فاطمہ (س) کہ جس کى مرضی پیغمبر اکرم (ص) کى مرضی ہے اور پیغمبر (ص) کى مرضی خدا کى رضا ہے، جس کا غضب پیغمبر (ص) کا غضب اور پیغمبر کا غضب خدا کا غضب ہے۔

وہ فاطمہ (س) جس کى مادری پر ہمارے آئمہ(ع)، جو عالم انسانیت کے کامل ترین افراد ہیں، فخر کرتے ہیں۔

وہ فاطمہ (س) جس نے اپنی مختصر سی حیات میں ہی شیعیت کو ہمیشہ کے لیے بقا عطا فرمائی۔

وہ فاطمہ (س) جس کے روشن و جلی خطبے نے چاہنے والوں اور دشمنوں کو انگشت بدندان کر دیا۔

وہ فاطمہ جس نے اپنے پدر بزرگوار کى موت کى عظیم ترین مصیبت اور اپنے شوہر نامدار کى مظلومیت کو ، اپنے نالہ و شیون سے تمام لوگوں کو آگاہ کیا ، اور آج بھی وہ اندوہ ناک آواز مدینہ کى گلیوں میں گونج رہی ہے۔

 آپ (س) کى ذات والا مقام ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کے وجود مبارک کے تمام ابعاد اہل فکر و بصیرت کے لیے ابھی تک روشن نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کو فاطمہ کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ بشر اس کى حقیقی معرفت سے محروم ہے۔ وہ ذات کہ جس کى ناراضگی، خدا و پیغمبر (ص) کى ناراضگی ہے، اور جس کى خوشنودی خدا و رسول (ص) کى خوشنودی ہے۔ ایسی حقیقت کہ جو فقط اہل کساء کا مرکز ہی نہیں بلکہ آیت تطہیر  میں بھی اسی کو مرکزیت حاصل ہے اور اسی مبارک وجود کو ارادہ الٰہی کا واسطہ قرار دیا گیا ہے۔

ہم لوگوں کے لیے کہ جن کو ان بی بی اور ان کى اولاد طاہرہ کى پیروی کا شرف حاصل ہے، حالات کے مدنظر آپ (س) کے افکار و دستورات سے آشنائی بیحد ضروری ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وظائف کى انجام دہی میں ہم سے کوتاہی ہو جائے۔ ہمارے محترم علماء و خطباء مجالس عزا کو اعلٰی پیمانے پر منعقد کرنے کے علاوہ اس کے علمی و معنوی پہلوؤں پر خاص توجہ دیں، اور بحمد اللہ چونکہ مکتب تشیع استدلال و منطق کا مکتب ہے لہٰذا صاحبان تدبر و انصاف آسانی سے اس طرف مائل ہو جائیں گے۔

آج دشمن اچھی طرح سمجھ چکا ہے کہ اس قوم پر قابو پانے کے لیے اور اس پر مسلط ہونے کے لیے اس کے ایمان و اعتقادات کى لو کو کم کرنا پڑیگا لہٰذا کبھی سید الشہداء (ع) پر گریہ و عزاداری کو بیہودہ کاموں سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی حضرت فاطمہ زہرا (س) کى شہادت پر شبہات ایجاد کرتا ہے؛ جب کہ آپ (س) کى شہادت تاریخ اسلام کے حقائق اور مسلمات میں سے ہے۔

دشمن اپنے زعم ناقص میں حضرت (س) کى شہادت میں شبہ تو پیدا کر سکتا ہے لیکن رسول خدا (ص) کے بعد آپ (س) پر ہونے والے مظالم و مصائب کا ہرگز انکار نہیں کر سکتا، آپ کا جوانی میں دنیا سے رخصت ہونا ، مسجد النبی (ص) میں آپ (س) کا مستدل و شعلہ بیان خطبہ ، روز و شب کى آہ و بکا اور حریم ولایت کا مستحکم دفاع ، آپ (س) کى مظلومیت کى روشن دلیلیں ہیں، لہٰذا آپ (س) کے شوہر نامدار اور جہان اسلام آج بھی آپ (س) کى مظلومیت پر عزادار و سوگوار ہیں۔

ہم شیعوں کے لیے فخر کى بات ہے کہ ہمارے پاس ایسی شخصیت ہے کہ جو سیدۂ نساء العالمین اور صاحب عصمت و طہارت ہے اور آیہ تطہیر کہ جو پنج تن (ع) کے متعلق نازل ہوئی ہے، کے مطابق ارادہ الٰہی (ارادہ تکوینی) یہ ہے کہ وہ ہر قسم کى رجس و پلیدی اور گناہ و معصیت سے پاک و دور ہوں اور طہارت مطلقہ سے آراستہ ہوں۔

وہ ذات کہ جو اس منزل پر فائز ہے کہ جہاں تک ہمارے ناقص افکار کى رسائی ممکن نہیں اور ہماری عقل اس کو درک کرنے سے قاصر ہے۔

وہ راہ ولایت کى پہلی شہیدہ ہیں کہ جس کى فرزندی پر ہمارے آئمہ (ع) ناز کرتے تھے۔

فاطمہ وہ خاتون ہیں کہ جس نے سخت ترین مصائب و مظلومیت خصوصاً پیغمبر (ص) جیسے باپ کے دنیا سے رخصت ہونے کى مصیبت اور دشوار ترین حالات کہ جس میں عام انسان بولنے تک کى قدرت نہیں رکھتا، حکام و بزرگان قوم کے مقابل ایسا خطبہ دیا کہ عقلا جس کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایسے حالات اور ایسے مواقع پر ایک عورت کس طرح ایسا محکم و متقن خطبہ بیان کر سکتی ہے اور وہ بھی توحید، نبوت و امامت سے متعلق ایسے مطالب اور ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں کى سر زنش جنہوں نے دنیا کى راحت اور عیش و عشرت کے الٰہی فریضہ کو ترک کر دیا اور ظالم کے ظلم کے مقابلے میں تماشائی بنے رہے ۔

بصد افسوس اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ چودہ سو سالوں کے گزر جانے کے بعد آج بھی ہم اس بے مثل گوہر کو نہیں پہچان سکے ہیں اور اس سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ بعض کى جہالت اور نادانی یا نفس پرستی اس بات کا باعث بنی کہ انھوں نے آپ (س) کے مقام و منزلت ہی کو مورد شک و تردید کى نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ایک معمولی انسان کے لیے یہ سمجھنا دشوار ہے کہ ایک عورت اس مقام و منزلت کى حامل ہو کہ اس کى مرضی خدا کى مرضی کا محور بن جائے۔

ایک مدت سے بہت سے تعصب آمیز مطالب حضرت زہرا (س) کے بارے میں لکھے جا رہے ہیں جن کو سن کر اور پڑھ کر ہر حقیقت پسند انسان کا دل خون ہو جاتا ہے ۔

لہذا شیعوں پر فرض ہے کہ 3 جمادی الثانیہ جو صحیح روایات کى بنیاد پر حضرت زہرا (س) کى شہادت کى تاریخ ہے ، جتنا ممکن ہو اعلیٰ پیمانے پر مجلسیں برپا کریں اور سڑکوں پر جلوس نکالیں تا کہ آنحضرت (س) کا کچھ حق ادا ہو سکے ۔ ظاہر ہے کہ اس امر سے بے توجہی کا نتیجہ بہت برا ہو گا۔

ہمیں فخر ہے کہ دین کے حقیقی معارف آپ (س) کى اولاد طاہرہ کے ذریعہ ہی ہم تک پہنچے ہیں، ایسے معارف جو عقل سلیم کے مطابق اور ہر زمانے کے ساتھ سازگار ہیں، ایسے جامع معارف جو بشریت کى تمام حوائج کى جواب گو ہیں۔ اسی لیے اسلام کے سخت ترین دشمن اس نتیجہ پر پہنچے کہ اگر اس قوم کو مٹانا ہے تو ان سے فاطمیہ، عاشورا اور شعبان و رمضان چھین لیا جائے۔ تو اس وقت ہی اپنے ناپاک ارادوں کو جامہ عمل پہنایا جا سکتا ہے۔

وہ حقیقت جو پنجتن کا مرکز ہے اور خلقت کا عظیم راز ہے جس کو بشریت تو کیا ان کے چاہنے والے بھی نہیں پہچان سکے ہیں۔ وہ انسیہ جس کى نورانی حقیقت جہالت اور ظلم و عناد کى تاریکیوں میں گم ہو گئی اور قیامت تک آشکار نہ ہو سکے گی۔

شیعہ ہی کیا، تمام انسانیت اور ملائکہ ان کے وجود پر فخر کرتے ہیں، خداوند عالم کا یہ عظیم تحفہ، یہ کوثر جو دین پیغمبر (ص) کى بقاء کا ذریعہ بنا اور جس کے فرزند عالم بشریت کے علوم و کمالات کا سر چشمہ قرار پائے۔

اگر حضرت زہرا (س) کا وجود نہ ہوتا اور یہ گرانمایہ گوہر عالم وجود میں ظہور پذیر نہ ہوتا تو نہ جانے جہالت کی کتنی تاریکیاں اس عالم امکان میں ہوتی؟! آیت مودت کے حکم کے مطابق تمام انسانوں پر واجب ہے کہ دین اسلام کى ہدایت کے بدلے پیغمبر اسلام (ص) کے اقرباء اور ان کے اہل بیت (علیہم السلام) سے محبت ومودت رکھیں اور اقرباء میں سب سے واضح شخصیت حضرت زہرا (س) کى ہے.

اور یہ مودت کا فریضہ ہر زمانے میں ہر انسان کے لیے ہے فقط ان کے زمانے والوں سے مخصوص نہیں ہے۔

حضرت زہرا (س) کى مودت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کى یاد کو زندہ رکھا جائے اور ان کے وجود نازنین پر ہونے والی مصیبتوں کو بیان کیا جائے۔

ہم کبھی ان مصیبتوں کو فراموش نہیں کر سکتے، تاریخ گواہ ہے کہ مختصر سی زندگی میں آپ پر کتنے مصائب ڈہائے گئے کہ مولٰی الموحدین حضرت علی (ع) نے آپ کى شہادت کے بعد فرمایا: میرا غم دائمی اور ابدی ہے جو کبھی بھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔

کىا مولائے کائنات کے ان الفاظ کے بعد کوئی شیعہ، کوئی پیغمبر (ص) کا امتی اس غم کو فراموش کر سکتا ہے، اور اس غم کو چھوڑ سکتا ہے ؟

وہ ذات جس پر خداوند عالم کو فخر ہے ، جو قلب رسول خدا (ص) کى ٹھنڈک ، امیر المومنین علی (ع) کى ہمسر اور معصوم آئمہ کى ماں ہیں۔

وہ ذات جو عالمین کی عورتوں کى سردار ہے۔ اگرچہ قرآن میں خداوند عالم نے حضرت مریم (ع) کے لیے فرمایا ہے"و اصطفاک علٰی نساء العالمین" کہ مریم عالمین کى عورتوں میں سب سے بہتر ہیں لیکن معتبر روایات کى روشنی میں جناب مریم (ع) کی برتری کى وجہ یہ تھی کہ انھوں نے بغیر شوہر کے حضرت عیسی کو جنم دیا لہذا دنیا میں ان کا کوئی نظیر نہیں ہے۔ لیکن حضرت زہرا علم ،عصمت ،طہارت اور عبودیت کى وجہ سے تمام عورتوں سے افضل ہیں ۔

ضروری ہے کہ تمام مسلمان 3 جمادی الثانیہ حضرت زہرا (س) کى شہادت کى مناسبت سے مجلسیں برپا کریں جلوس نکالیں اور اس دن عاشور کى طرح عزاداری منائیں۔ بحمد اللہ ادھر چند سالوں سے محبان حضرت زہرا (س) اس فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں ہم ان کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں ۔ واضح رہے کہ حضرت زہرا (س) کا احترام حقیقت میں پیغمبر اسلام (ص) کى تعظیم اور ان کا احترام ہے۔

پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) نے فرمایا: فاطمہ کے غضب سے اللہ غبضناک ہوتا ہے فاطمہ کا غضب اللہ کا غضب ہے جس نے فاطمہ کو اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے خدا کو اذیت پہنچائی اور خدا کو اذیت پہنچنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

 حضرت فاطمہ زہرا (س) بنت محمد (ص) جن کا معروف نام فاطمۃ زہرا ہے۔ حضرت محمد (ص) اور حضرت خدیجہ (س) کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔ حضرت محمد (ص) کی وفات کے بعد ان کے اختلافات ابوبکر اور عمر سے بوجہ خلافت و مسئلہ فدک کے ہوئے ۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے ابوبکر کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی اس کی بیعت کی اور مرتے دم تک ابوبکر اور عمر سے کلام تک نہیں کیا اور وصیت کی کہ ابوبکر اور عمر کو ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے، آپ کی شہادت اپنے والد حضرت محمد (ص) کی وفات کے چند ماہ بعد ہوئی۔ کچھ اعتقادات اور  روایات کے مطابق آپ کی شہادت ان زخموں سے ہوئی جو دروازہ گرانے سے آپ کے بدن مبارک پر لگے تھے دروازہ عمر اور اس کے ساتھیوں نے اس لیے گرایا تھا کہ وہ حضرت علی (ع) کو ابوبکر کی بیعت کے لیے زبردستی لے جانا چاہتے تھے۔

تواریخ میں ہے کہ رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد کچھ صحابہ نے حضرت علی (ع) سمیت ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔ حضرت علی گوشہ نشین ہو گئے اس پر عمر آگ اور لکڑیاں لے آیا اور کہا کہ گھر سے نکلو ورنہ ہم آگ لگا دیں گے۔ حضرت فاطمہ (س) نے کہا کہ اس گھر میں حضور (ص) کے نواسے حسنین (ع) موجود ہیں۔ اس پر عمر نے کہا کہ ہیں تو ہوتے رہیں۔

حضرت علی کے باہر نہ آنے پر گھر کو آگ لگا دی گئی۔ حضرت فاطمہ دوڑ کر دروازے کے قریب آئیں اور کہا کہ ابھی تو میرے باپ کا کفن میلا نہ ہوا۔ یہ تم کیا کر رہے ہو۔ اس پر ان پر دروازہ گرا دیا گیا اسی ضرب سے حضرت فاطمہ شہید ہوئیں ، روایات کے مطابق ان کے بطن میں محسن بھی شہید ہو گئے۔

حضرت فاطمہ کے لیے چالیس قبریں بنائی گئیں تا کہ اصل قبر کا پتہ نہ چل سکے اکثر اور مشہور روایات کے مطابق حضرت فاطمہ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا، بعض روایات کے مطابق گھر میں دفن ہوئیں، اور جب عمر ابن عبد العزیز نے مسجد نبوی کو توسیع دی تو حضرت فاطمہ کا گھر مسجد میں شامل ہو گیا۔ نبی مکرم اسلام کی نور نظر، پارہ جگر حضرت فاطمہ زہرا (س) کی قبر آج تک مخفی ہے کسی کو صحیح پتہ نہیں کہ وہ کس مقام پر دفن ہیں اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی قبر کا مخفی ہونا ان پر ہونے والے مظالم کا واضح ثبوت ہے۔

تاریخ شہادت:

 

حضرت زہرا (س) کی تاریخ شہادت کے بارے میں کئی نظرئیے پائے جاتے ہیں:

کچھ سنی اور شیعہ علماء کا نظریہ ہے کہ آپ کی شہادت 11 ہجری 13 جمادی الاول کو ہوئی جن کو ہمارے علماء میں سے مرحوم کلینی صاحب الامامۃ و السیاسة جناب طبری شیعی صاحب کشف الغمہ وغیرہ نے ذکر کیا ہے:

بحارالانوار ج43 ص 193

اس نظرئیے کی بناء پر حضرت زہرا نے پیغمبر اکرم کے بعد صرف 75دن زندگی گذاری کیونکہ پیغمبر اکرم کی وفات 28 صفر 11 ہجری کو ہوئی تھی ۔

علامہ مجلسی بحارجلد ج43 ص170 . منتخب التواریخ منتہی الآمال .

 صاحب منتخب التواریخ ،صاحب منتہی الآمال وغیرہ نے لکھا ہے کہ جناب سیدہ کونین کی شہادت 3 جمادی الثانی 11 ہجری کو ہوئی جس کی بناء پر حضرت زہرا نے پیغمبر گرامی کی وفات کے بعد 95 دن زندگی گذاری۔

کافی ج1 ص458

الامامة و السیاسة ج1 ص20

دلائل الامامة کشف الغمہ.

 اس اختلاف کی دو وجہ ہو سکتی ہیں:

 قدیم زمانے میں اکثر اسلامی مطالب اور تواریخ خط کوفی میں لکھا جاتا تھا خط کوفی کی خصوصیت یہ تھی کہ نقطے کے بغیر لکھا جاتا تھا لہٰذا پڑھنے اور لکھنے میں لوگ اشتباہ کا شکار ہو جاتے تھے جیسے   75دن خمسہ و سبعون اور 95 دن خمسہ و تسعون کی شکل میں لکھا کرتے تھے لہٰذا نقطہ گزاری کے بعد اشتباہ ہوا ہے کیا خمسہ و سبعون تھا تا کہ 75 دن والا قول صحیح ہو جائے یا خمسہ و تسعون صحیح ہے تا کہ 95 والا قول صحیح ہو جائے۔

 دوسری وجہ یہ ہے کہ آئمہ معصومین (ع) سے دو قسم کی روایات منقول ہوئی ہیں، پہلی قسم کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زہرا نے پیغمبر اکرم کے بعد 75 دن زندگی گزاری ہے دوسری قسم کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر کی وفات کے 95دن بعد آپ نے جام شہادت نوش فرمایا اگرچہ تاریخ شہادت حضرت زہرا کے بارے میں اور بھی نظریات ہیں لیکن معروف اور مشہور یہی مذکو رہ دو نظرئیے ہیں لہٰذا باقی اقوال اور نظریات ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

 سبب شہادت حضرت زہرا (س):

تاریخ اسلام میں دو قسم کے خائن ( خیانت کار ) کسی سے مخفی نہیں ہیں:

*عداوت اور دشمنی کی وجہ سے حقائق اور حوادث کو تحریف و تبدیل کر کے نقل کرنے والے،

* دنیا اور مال کی خاطر حقائق اور حوادث کو تحریف و تبدیل کر کے نقل کرنے والے،

لیکن اگر تاریخ اور حقائق نقل کریں تو اپنا عقیدہ زیر سوال اور مذہب بے نقاب ہو جاتا ہے لہٰذا حضرت زہرا، اسلام میں مثالی خاتون ہونے کے باوجود حضرت محمد (ص) کی لخت جگر ہونے کے علاوہ صحابہ نے پیغمبر کی وفات کے فورا بعد حضرت زہرا کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ اگر تاریخ اور روایات کا مطالعہ کریں تو فریقین کی کتابوں میں حضرت زہرا پر ڈہائے گئے مظالم کم و بیش موجود ہیں اور اکسیویں صدی کے مفکر اور محقق تعصب سے ہٹ کر غور کریں تو حضرت زہرا (س) کی شہادت کا سبب بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔

 امام جعفر صادق (ع) سے پوچھا گیا حضرت زہرا کے وفات پانے کی علت کیا تھی ؟ آپ نے فرمایا عمر نے اپنے قنفذ نامی غلام کو حکم دیا کہ اے غلام حضرت زہرا پر تلوار کا اشارہ کر جب قنفذ کی تلوار کی ضربت آپ کے نازک جسم پر لگی تو محسن سقط ہوئے جس کی وجہ سے آپ بہت علیل ہوئیں اور دنیا سے چل بسیں۔

سید ابن طاووس ص9

سلیم ابن قیس سے نقل کیا گیا ہے کہ عمر ابن خطاب کے دور خلافت میں ایک سال تمام ملازمین کی تنخواہ کا آدھا آدھا حصہ کم کر دیا تھا صرف قنفذ کے حقوق کو حسب سابق پورا دیا اور سلیم نے کہا میں جب اس وقت مسجد نبوی میں داخل ہو ا تو دیکھا کہ مسجد کے ایک گوشہ میں حضرت علی کے ساتھ بنی ہاشم کی ایک جماعت سلمان، ابوذر مقداد محمد ابن ابوبکر ،عمر ابن ابی سلمہ ، قیس ابن سعد بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں جناب عباس نے حضرت علی سے پوچھا اے مولا اس سال عمر نے تمام ملازمین کی تنخواہ کو کم کر دیا ہے لیکن قنفذ کی تنخواہ کو کم نہیں کیا جس کی وجہ کیا ہے؟

حضرت نے چاروں اطراف نظر دوڑائی اور آنسو بہاتے ہوئے فرمایا:

شکر لہ ضربة ضربھا فاطمة بالسوّط فماتت و فی عضدھا اثرہ کانہ الدملج،

اقبال الاعمال ص 623

 عمر نے قنفذ کی تنخواہ کو اس لئے کم نہیں کیا کیونکہ اس نے جو تازیانہ حضرت زہرا کے بازو پر اشارہ کیا تھا جس کا عوض یہی تنخواہ کا کم نہ کرنا تھا حضرت زہرا جب دنیا سے رخصت ہوئیں تو اس ضربت کا نشان آپ کے بازوئے مبارک پر بازو بند کی طرح نمایاں تھا لہٰذا حضرت زہرا نے قنفذ کی ضربت کی وجہ سے جام شہادت نوش فرمایا:

قال النظام ان عمر ضرب بطن الفاطمة یوم البیعة حتی القت المحسن من بطنھا۔

نظام نے کہا بتحقیق عمر نے حضرت فاطمہ زہرا کے شکم مبارک پر بیعت کے دن ایک ایسی ضربت لگائی جس سے ان کا بچہ محسن سقط ہو گیا۔

برخانہ زہرا چہ گذشت ص50

بحار الانوار ج43

چنانچہ صاحب میزان الاعتدال نے کہا :

' 'ان عمر رفص فاطمة حتی اسقطت بمحسن ۔ ' '

بتحقیق عمرنے حضرت زہرا پر ایک ضربت لگا ئی جس سے محسن سقط ہوئے۔

بیت الاحزان ص143

نیز جناب ابراہیم ابن محمد الحدید جو الجوینی کے نام سے معروف ہیں جن کے بارے میں جناب ذہبی نے یوں تعریف کی ہے:

 (ھو امام محدث فرید فخر الاسلام صدر الدین) انھوں نے اپنی قابل قدر گراں بہا کتاب فرائد السمطین میں ایک لمبی روایت کو ابن عباس سے نقل کیا ہے جس کا ترجمہ قابل ذکر ہے۔

ایک دن پیغمبر اکرم بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں حضرت امام حسن تشریف لائے جب پیغمبر کی نظر امام پر پڑی تو گریہ کرنے لگے پھر فرمایا اے میرے فرزند میرے قریب تشریف لائیں امام پیغمبر کے قریب آئے تو پیغمبر نے ان کو اپنی دائیں ران پہ بٹھایا پھر امام حسین آئے جب پیغمبر کی نظر آپ پر پڑی تو روتے ہوئے فرمایا اے میرے فرزند میرے قریب تشریف لائیں امام آنحضرت کے قریب آئے تو آنحضرت نے آپ کو اپنی بائیں ران پہ بٹھایا اتنے میں جناب سیدہ فاطمہ زہرا تشریف لائیں تو ان کے نظر آتے ہی آپ رونے لگے اور فرمایا اے میری بیٹی فاطمہ میرے قریب تشریف لائیں آنحضرت نے حضرت فاطمہ کو اپنے قریب بٹھایا پھر جناب امام علی تشریف لائے جب پیغمبر اکرم کو حضرت علی نظر آئے تو گریہ کرتے ہوئے فرمایا اے میرے بھائی میرے قریب تشریف لائیں پیغمبر نے حضرت علی کو اپنے دائیں طرف بٹھایا اور حضرت زہرا کی فضیلت بیان کرنے کے بعد آنحضرت نے حضرت زہرا (س) کے بارے میں رونے کا سبب اس طرح بیان فرمایا:

و انّی لمّا راتیھا ذکرت ما یصنع بھا بعدی کانی بھا و قد دخل الذل بیتھا و انتہکت حرمتھا و غصب حقھا و منعت ارثھا و کسر جنبھا و اسقطت جنینھا و ھی تنادی یا محمداہ فلا تجاب و تسغیث فلا تغاث۔

بتحقیق جو سلوک میری رحلت کے بعد حضرت زہرا کے ساتھ کیا جائے گا وہ مجھے یاد آنے سے جب بھی حضرت زہرا نظر آتی ہیں بے اختیار آنسو آ جاتے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد ان کی حرمت پائمال اور ان کے گھر پر ذلت و خواری کا حملہ ان کے حقوق دینے سے انکار ان کا ارث دینے سے منع کر کے ان کا پہلو شہید کیا جائے گا اور ان کا بچہ سقط ہو گا اور وہ فریاد کرتی ہوئی یا محمداہ کی آواز بلند کریں گی لیکن کوئی جواب دینے والا نہیں ہو گا وہ استغاثہ کریں گی لیکن ان کے استغاثہ پر لبیک کہنے والا کوئی نہیں ہو گا۔

الوافی بالوافیات ج 6ص 17

میزان الاعتدال ج1 ص139

ان مذکورہ روایات سے بخوبی روشن ہو جاتا ہے کہ حضرت زہرا کے پیغمبر اکرم کی رحلت کے فورا بعد شہید ہونے کا سبب صحابہ کرام کی طرف سے ڈہائے گئے مظالم ہیں جن کا تحمل زمین اور آسمان کو نہ ہونے کا اعتراف خود حضرت زہرا نے کیا ہے:

صبت علی مصائب لوانھا

صبت علی الا یام صرن لیالیا

ترجمہ : مجھ پر ایسی مصیبتیں اور مشقتیں ڈہائی گئیں اگر دنوں پر ڈہائی جاتی تو دن اور رات بھی برداشت نہ کرتے ۔

فرائد السمطین، نقل از کتاب الحجتہ الغرّا

پس خود اہل سنت کے معروف مؤرخین اور مؤلفین کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے درج ذیل مطالب روشن ہو جاتے ہیں:

پیغمبر اکرم کی رحلت کے نو دن بعد فدک کو غصب کیا گیا۔

وفاء الوفاء ج 2 ص444

پیغمبر اکرم کے غسل و کفن سے پہلے امامت اور خلافت رسول خدا کو خائن اور منافق مسلمانوں نے پامال کر دیا۔ زہرا بتول کے گھر کو کہ خداوند کی وحی نازل ہونے کی جگہ تھی، پر حملہ کر کے ان کی شخصیت کو بھی پامال کر دیا گیا ان کے دروازے کو آگ لگائی گئی حضرت زہرا پر لگی ہوئی ضربت نے حضرت زہرا کو مظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا۔

نقل از کتاب الحجتہ الغرا .

لہٰذا وصیت میں حضرت زہرا نے فرمایا مجھے رات کو تجہیز و تکفین کرنا جس کا فلسفہ یہ تھا کہ زہرا دنیا کو یہ بتانا چاہتی تھیں کہ میں ان پر راضی نہیں ہوں چونکہ ان کے ہاتھوں ڈھائے گئے مظالم قابل عفو و درگذر نہیں ہے۔

حضرت زہرا (س) پیغمبر اسلام کے سوگ میں :

 

11 ہجری ایک بہت بڑا حادثہ پیش آیا اور وہ یہ کہ اس سال پیغمبر اسلام (ص) نے اس دنیا سے رحلت فرمائی ۔ یہ اتنا شدید صدمہ تھا کہ آپ کی وفات کے بعد حضرت علی (ع) کی زبان پر آپ کے لیے یہ جملے جاری ہوئے کہ :

اے پیغمبر خدا! آپ کی رحلت سے وہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے کہ جو کسی دوسرے کے مرنے سے ختم نہیں ہوا تھا۔ یعنی الله اور مخلوق کے درمیان کا رابطہ ختم ہو گیا سلسلہ وحی و نبوت بند ہو گیا۔ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد امت مسلمہ میں جو ہوا اس سب کو لکھنے کے لئے تو ایک مفصل کتاب کی ضرورت ہے لہٰذا ہم یہاں پر مختصر طور پر بس یہ لکھ رہے ہیں کہ پیغمبر اسلام کی وصیت کو بھلا دیا گیا، باغ فدک غصب کر لیا گیا، امام وقت و برحق کو خانہ نشینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا، جس گھر میں جبرئیل بھی بغیر اجازت کے قدم نہیں رکھتے تھے اس میں آگ لگائی گئ۔ حضرت زہرا (س) کی ذات جو کمالات و فضائل کا مرکز تھی اور جن کے بارے میں  پیغمبر اسلام نے امت کو بہت سی وصیتیں بھی فرمائیں تھیں ان کو در و دیوار کے بیچ اس طرح پیسا گیا کہ آپ کا پہلو شکستہ ہو گیا اور آپ کے بیٹے محسن کی شہادت واقع ہوئی۔ جب مہاجر و انصار میں سے کسی نے آپ کی مدد نہ کی تو آپ ان سے مایوس ہو گئیں۔

آپ ہر روز قبر رسول پر جاتیں اور اتنا روتیں کہ بے ہوش ہو جاتیں جب ان کو گھر لے کر آتے تھے اور وہ ہوش میں آتی تھیں تو پھر رونا شروع کر دیتی تھیں۔ ایک روز حضرت علی (ع) نے آپ سے فرمایا:

اے بنت رسول! مدینہ کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے علی! آپ زہرا سے کہیں کہ یا دن میں رویا کریں یا رات میں۔ حضرت زہرا نے جواب دیا اے ابو الحسن ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اب میں ان کے درمیان زیادہ دن زندہ نہیں رہوں گی میں جلدی ہی اپنے بابا کے پاس چلی جاؤں گی لیکن خدا کی قسم جب تک زندہ رہوں گی آرام سے نہ بیٹھوں گی۔

ہاں! پیغمبر اسلام کے بعد اہل بیت پر اتنے ظلم ہوئے کہ 75 یا 95 دن تک حضرت زہرا (س) اتنا روئیں کہ آپ کا نام حضرت یعقوب جیسے رونے والوں کے ساتھ لیا جانے لگا۔

حضرت زہرا (س) بستر شہادت پر:

بہرحال حضرت زہرا (س) کے غم و اندو کا زمانہ ختم ہوا۔ ہر انسان کی طرح آپ نے بھی اپنی زندگی کے آخرت ایام میں حضرت علی (ع) کو وصیت فرمائی۔ لیکن آپ کی وصیت عام لوگوں سے جدا تھی۔ آپ نے وصیت کی کہ اے علی! مجھے شب کی تاریکی میں چھپا کر دفن کرنا تا کہ ظالم میری نماز جنازہ اور دفن میں شریک نہ ہو سکیں۔

پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد کسی نے حضرت زہرا کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا لیکن ایک دن جب آپ سے کہا گیا کہ آپ کا تابوت ایسا بنایا جائے گا جس میں بدن کا اندازہ نہ ہو سکے گا تو آپ بہت خوش ہوئیں اور آپ کے طاہر لبوں پر تبسم بکھر گیا۔ ہاں ! یہ وہ بی بی ہیں کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: نہ کوئی غیر مرد اسے پہچانے اور نہ وہ کسی غیر مرد کو پہچانے۔

یہ جملہ حضرت زہرا (س) کو چاہنے والی لڑکیوں اور عورتوں کے لیے ایک درس ہے۔ ان کے برابر ہونا تو یقینا بہت مشکل کام ہے لیکن یہ ضرور سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی نظر میں سب سے اہم چیز عورت کی عفت و عصمت ہے۔

اسی دوران حضرت زہرا نے اسماء بنت عمیس سے کہا کہ پیغمبر اسلام (ص) کے حنوط سے جو کافور بچ گیا تھا اسے لے کر آؤ۔ اس کے بعد آپ نے پانی طلب فرمایا اور غسل کیا اور ایک چادر اوڑھ کر لیٹ گئیں۔ اسماء سے کہا کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز دینا اگر جواب نہ ملے تو سمجھنا کہ فاطمہ اپنے معبود کی بارگاہ میں پہنچ گئی ہے۔

جب اسماء نے تھوڑی دیر کے بعد آواز دی تو کوئی جواب نہ ملا اسماء نے دوبارہ آواز دی ۔

اے محمد مصطفی کی بیٹی!

اے اشرف مخلوق کی بیٹی!

اے سب سے بہترین انسان کی بیٹی!

اے الله کے سب سے زیادہ نزدیک انسان کی بیٹی!

جب اسماء کی ان آوازوں پر بھی سکوت چھایا رہا اور حضرت زہرا کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو اسماء نے آگے بڑھ کر آپ کے چہرے سے کپڑا ہٹا دیا اور جو چہرے پر نظر پڑی تو اسماء سمجھ گئی کہ رسول کی بیٹی اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہے۔

حسنین (ع) گھر میں داخل ہوئے اسماء سے سوال کیا کہ ہماری والدہٴ گرامی کہاں ہیں ؟ اسماء خاموش رہی، حسنین ماں کے حجرے میں داخل ہوئے اب جو ماں کے جنازے پر نظر پڑی تو امام حسن نے امام حسین کو سینہ سے لگا کر ماں کا پرسہ دینا شروع کیا۔ حضرت علی اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے جب حسنین نے جا کر ان کو ماں کی شہادت کی خبر سنائی تو کسی بھی میدان میں نہ گھبرانے والے علی یہ خبر سن کر بے ہوش ہو گئے اور جب ہوش آیا تو فرمایا: اب میں اپنے غم کو کس کے سامنے بیان کیا کروں گا ؟ پیغمبر کے بعد آپ کے پاس سکون ملتا تھا اب کس کے پاس جا کر آرام حاصل کیا کروں گا ؟

بنی ہاشم کی عورتیں جمع ہوئیں اور ساکنان مدینہ جگر گوشہ رسول، یادگار رسالت کے دنیا سے اٹھ جانے کے سبب چیخ مارتے ہوئے پیغمبر کے گھر میں جمع ہونے لگے ۔ یہ وہ فاطمہ زہرا ہیں جن کے لیے پیغمبر اسلام نے امت کو بہت سی وصیتیں کی تھیں یہ بی بی دل میں غم و اندوہ کا طوفان لیے اسلام و مسلمان کے مستقبل پر روتی ہوئی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔

رات کی تاریکی میں دفن ہونا:

 

حضرت زہرا (س) کی وصیت کے مطابق آپ کو رات کی تاریکی میں دفن کیا گیا ۔ حضرت زہرا کی شہادت نے غم پیغمبر کو دوبارہ تازہ کر دیا تھا ۔ مدینہ پر رات کا اندھیرا چھایا ہوا تھا ، عوام یہ افسوس کرتے کرتے سو گئے تھے کہ ہم نے پیغمبر کی وصیت پر عمل کیوں نہیں کیا! مہاجر و انصار اس لیے خاموش تھے کہ فاطمہ ہم سے مدد مانگتی رہیں مگر ہم نے مدد نہ کی ۔ گویا مدینہ پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ 13جمادی الاول یا 3 جمادی الثانی تھی، رات کا وقت تھا، ایک چھوٹا سا قافلہ پیغمبر کی امانت یعنی حضرت زہرا کے جنازہ کو آخری منزل کی طرف لے جا رہا تھا ۔ جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ انھیں انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا۔ جب کہ پیغمبر کی پیروی کا دعوی کرنے والے صحابہ سے مدینہ چھلک رہا تھا۔

اس طرح حضرت زہرا کو دفن کیا گیا ۔ کچھ لوگوں نے روایات نقل کیں ہیں کہ جب حضرت علی (ع) نے حضرت زہرا (س) کو دفن کر دیا تو پیغمبر اسلام سے خطاب کرتے ہوئے عرض کیا کہ اے پیغمبر خدا! آپ کے بعد امت نے آپکی بیٹی سے کیسا سلوک کیا، اس کے بارے میں خود اپنی بیٹی فاطمہ سے ہی معلوم کر لینا، اس لیے کہ آپکی بیٹی نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔

اس وقت شدت غم سے مولا کا دل بھر گیا اور آپ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔

حضرت زہرا (س) کی شہادت افسانہ نہیں ہے:

 

حال ہی میں ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان میں ایک تاریخ اسلام سے ناواقف وہابی شخص نے «فاطمہ زہرا کا افسانہ شہادت» کے عنوان پر ایک مضمون لکھا ہے۔ اس نے اپنے مضمون میں سیدہ کے فضائل و مناقب بیان کرنے کے بعد آپ کی شہادت کا انکار کر کے خلفاء اور صحابہ کی طرف سے کی گئی حضرت زہرا کی بے حرمتی کو چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے.

چونکہ اس نے تاریخ اسلام کے ایک حصے کو جھٹلانے اور اس میں تحریف کرنے کی کوشش کی ہے لہذا ہم نے ان تحریفات کے بعض حصوں کی طرف اشارہ کرنے اور متعلقہ تاریخی حقائق بیان کرنے کا ارادہ کیا ہے تا کہ ثابت کیا جائے کہ سیدہ عالمین کی شہادت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے اور اگر مذکورہ شخص اس بحث کا آغاز نہ کرتا تو ہم بھی ان حالات میں اس بحث میں داخل نہ ہوتے:

 اس تحریر میں درج ذیل امور پر روشنی ڈالی گئی ہے:

1ـ حضرت فاطمہ زہرا کی عصمت؛ رسول اللہ کی نظر میں،

2ـ قرآن و سنت میں سیدہ طاہرہ کے گھر کا احترام،

3ـ رسول خدا کی رحلت کے بعد آپ کے گھر کی بے حرمتی،

ہمیں امید ہے کہ ان تین نکات کی تشریح پڑھ کر اور حقیقت سے آگاہ ہو کر مذکورہ مضمون نویس اپنی تحریر سے پشمان  ہو گا،اور اپنے کیے کی تلافی اور جبران کرنے کا بھی اہتمام کرے گا۔

 تمام مطالب کو ہم نے اہل سنت کے معروف منابع و مآخذ سے نقل کیا ہے:

1-  حضرت فاطمہ زہرا (س) کی عصمت، رسول اللہ کی نظر میں:

دختر پیمبر (ص) نہایت اونچے مرتبے پر فائز تھیں اور ان کے بارے میں رسول اللہ کے ارشادات آپ (س) کی عصمت اور گناہ و پلیدی سے پاکیزگی پر دلالت کرتے ہیں:

فرماتے ہیں کہ: «فاطمة بضعة منّی فمن أغضبها أغضبنی».

فاطمہ میرے جسم و جان کا تکرا ہے جس نے انہیں غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا ہے».

فتح البارى فی شرح صحیح بخارى: ج7 ص 84

صحیح بخارى باب علامات النبوة ، جلد 6، ص 491

صحیح بخاری باب مغازى ج 8، ص 110

بغیر کہے سنے بھی ظاہر ہے کہ رسول خدا (ص) کا غضب آپ کے لئے اذیت و رنج کا سبب بھی ہے اور ایسے شخص کی سزا قرآن مجید میں یوں بیان ہوئی ہے:

وَ الّذین یؤْذُونَ رَسُول اللّه لَهُم عَذابٌ أَلیم،  سورہ توبہ 61

وہ لوگ جو رسول اللہ ص کو اذیت پہنچائیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے».

آپ (س) کی عصمت کے لیے اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ حدیث نبوی میں آپ کی رضا رسول خدا کی رضا کا باعث اور آپ کی ناراضگی خدا کی ناراضگی بتائی گئی ہے.

رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں کہ:

« فاطمةُ انّ اللّه یغضبُ لِغضبك و یرضى لرضاك»

بیٹی فاطمہ! خدا آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے اور آپ کی خوشنودی پر خوشنود ہوتا ہے.

مستدرك الحاكم: ج3 ص154

مجمع الزوائد: ج9 ص203

یاد رہے کہ حاكم نیشاپوری مستدرك الصحیحین میں ایسی احادیث نقل کرتے ہیں کہ جو بخاری اور مسلم کے قواعد حدیث کے مطابق صحیح ہوں.

اسی عالی مرتبے کی بدولت آپ (س) عالمین کی خواتین کی سردار ہیں اور رسول اللہ نے آپ کے حق میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

یا فاطمة! ألا ترضین أن تكونَ سیدةَ نساء العالمین، و سیدةَ نساءِ هذه الأُمّة و سیدة نساء المؤمنین.

بیٹی فاطمہ! کیا آپ راضی نہ ہونگی کہ خدا اتنی بڑی کرامت و عظمت آپ کو عطا فرمائے کہ آپ دنیا کی خواتین کی سردار اور اس امت کی خواتین کی سردار اور با ایمان خواتین کی سردار ہو ؟

مستدرك حاكم:ج3 ص156

2-  قرآن و سنت میں رسول خدا کا بی بی زہرا کے گھر کا احترام کرنا:

محدثین کہتے ہیں کہ جب یہ آیت رسول اللہ پر نازل ہوئی کہ :

فِی بُیوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَ یذْكَرَ فِیهَا اسْمُهُ یسَبِّحُ لَهُ فِیهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْآصَالِ۔

نور خدا ان گھروں میں ہے کہ خدا نے اجازت دی ہے کہ ان کی قدر و منزلت بلند و رفیع ہو اور اس (خدا) کا نام ان گھروں میں یاد کیا جائے اور (وہ) ان گھروں میں شب و روز خدا کی عبادت کرتے ہیں۔

 اور سورة النور کی آیت 35 میں ارشاد ہے کہ : اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِیهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِی زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّی یوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَیتُونِةٍ لَّا شَرْقِیةٍ وَ لَا غَرْبِیةٍ یكَادُ زَیتُهَا یضِیءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُّورٌ عَلَى نُورٍ یهْدِی اللَّهُ لِنُورِهِ۔

خداوند متعال آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور نور خداوندی کی مثال اس چراغ دان کی مثال ہے جس میں روشنی بخشنے والا چراغ ہو اور وہ چراغ ایک شیشے کے اندر قرار پایا ہو ایک روشن اور شفاف شیشہ چمکتے ہوئے روشن ستارے کی مانند، یہ چراغ اس تیل سے روشن ہوتا ہے جو زیتون کے مبارک درخت سے حاصل ہوا ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ ہے غربی (یہ تیل اتنا خالص اور صاف ہے کہ) کہ قریب ہے کہ آگ لگے بغیر شعلہ ور ہو جائے ایک نور ہے دوسرے نور کی بلندی کے اوپر اور خدا جسے چاہے نور کی جانب ہدایت کرتا ہے اور خدا انسانوں کے لیے مثالیں لاتا ہے اور خداوند ہر چیز پر عالم و دانا ہے.

اب سوال یہ ہے کہ یہ نور ہے کہاں ؟

چنانچہ خداوند متعال اسی سورہ نور کی آیت 36 میں ارشاد فرماتا ہے کہ:

فی بُیوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَ یذْكَرَ فِیهَا اسْمُهُ یسَبِّحُ لَهُ فِیهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْآصَالِ۔

نور خدا ان گھروں میں ہے کہ خداوند متعال نے رخصت و اجازت دی ہے کہ ان کی قدر و منزلت بلند و رفیع ہو اور ان میں خدا کے کا نام لیا جائے اور اس کے مکین شب و روز خداوند قدوس کی تسبیح کرتے ہیں.

آیت 37 میں ان گھروں کے مکینوں کا تعارف کراتے ہوئے خداوند ارشاد فرماتا ہے کہ:

رِجَالٌ لَّا تُلْهِیهِمْ تِجَارَةٌ وَ لَا بَیعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَ إِقَامِ الصَّلَاةِ وَ إِیتَاء الزَّكَاةِ یخَافُونَ یوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیهِ الْقُلُوبُ وَ الْأَبْصَارُ۔

(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں کہ جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گی.

آپ (ص) نے جب مسجد میں اس آیت کی تلاوت فرمائی تو ایک شخص اٹھا اور عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ ! ان نہایت اہم گھروں سے مراد و مقصود کونسے گھر ہیں ؟

آپ نے فرمایا: انبیاء کے گھر!

اس موقع پر ابوبکر اٹھے اور علی و فاطمہ (س) کے گھر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: کیا یہ گھر بھی ان ہی گھروں میں سے ہے؟

رسول اللہ نے فرمایا: ہاں، بلکہ یہ گھر انبیاء کے گھروں سے افضل ہے۔

در المنثور: ج6 ص606

رسول اللہ (ص) مسلسل 9 مہینوں تک اپنی بیٹی کے گھر کے دروازے پر آتے تھے اور اپنی بیٹی اور آپ کے خاوند (ع) کو سلام کرتے تھے اور دروازے ہی پر اس آیت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے:

إِنَّمَا یرِیدُ اللَّهُ لِیذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَ یطَهِّرَكُمْ تَطْهِیرًا۔

سورہ احزاب33

المصنف ابن ابى شیبه: ج8 ص572، كتاب المغازى.

خدا نے فقط ارادہ فرمایا کہ رجس و آلودگی کو تم خاندان (اہل بیت نبی) سے دور کر دے اور تمہیں ایسا پاک و مطہر کر دے کہ جیسے پاک کرنے کا حق ہے.

وہ گھر جو نور خدا کا مرکز ہے اور خدا نے حکم دیا ہے کہ اس گھر کی تعظیم و تکریم کی جائے یقینا نہایت اعلی درجے پر فائز ہے اور اس کا احترام بھی نہایت اعلی پائے کا ہے.

بے شک جس گھر میں اصحاب کساء ہوں گے اور خداوند متعال عظمت و جلالت کے ساتھ اس کا نام لے تو وہ گھر یقینی طور پر، تمام مسلمانوں کے لیے محترم ہونا چاہئے!!!

اب دیکھنا یہ ہے کہ:

 رسول اللہ (ص) کی رحلت کے بعد اس گھر کے احترام کا کس حد تک لحاظ رکھا گیا ؟

 کس طرح بعض لوگوں نے اس گھر کا احترام توڑ کر رکھ دیا ؟

اور پھر کس طرح انہوں نے صراحت کے ساتھ اس کا اعتراف بھی کیا؟ یہ حرمت شکن کون تھے اور ان کا مقصد کیا تھا ؟ 

3-  حضرت زہرا (س) کے گھر کی بے حرمتی ہونا:

افسوس کا مقام ہے کہ قرآن مجید اور رسول اللہ کی اتنی تاکید اور وصیتوں کے باوجود بھی بعض لوگوں نے اس گھر کی حرمت کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ اس کی توہین و بے حرمتی کا ارتکاب بھی کیا اور یہ مسئلہ بہت عیاں و آشکار اور ناقابل انکار ہے.

ہم اس سلسلے میں اہل سنت کے منابع و مصادر سے بعض نصوص نقل کرنا چاہیں گے کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سیدہ (س) کے گھر کی بے حرمتی اور بعد کے واقعات «افسانہ نہیں بلکہ مسلمہ تاریخی حقائق ہیں»!! اور اگرچہ خلفاء کے دور میں خاندان رسالت کے فضائل و مناقب پر شدید سختی اور پابندی تھی لیکن چونکہ «ہر شے کی حقیقت و صداقت اس کی نگہبان ہے» لہذا یہ تاریخی حقیقت زندہ  صورت میں تاریخ و حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہو گئی ہے اور ہم منابع و مآخذ نقل کرتے ہوئے معاصر مصنفین و مؤلفین تک ، ان کی تاریخی ترتیب کو اسلام کی پہلی صدی سے مدنظر رکھیں گے:

ابن ابى شیبہ اور ان کی کتاب المصنَّف:

ابوبكر ابن ابى شیبہ کتاب المصنَّف کے مؤلف ہیں. وہ صحیح سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ:

انّه حین بویع لأبی بكر بعد رسول اللّه (صلى الله علیه و آله) كان علی و الزبیر یدخلان على فاطمة بنت رسول اللّه، فیشاورونها و یرتجعون فی أمرهم.

فلما بلغ ذلك عمر بن الخطاب خرج حتى دخل على فاطمة، فقال: یا بنت رسول اللّه (صلى الله علیه و آله) و اللّه ما أحد أحبَّ إلینا من أبیك و ما من أحد أحب إلینا بعد أبیك منك، و أیم اللّه ما ذاك بمانعی إن اجتمع هؤلاء النفر عندك أن امرتهم أن یحرق علیهم البیت.

قال: فلما خرج عمر جاؤوها، فقالت: تعلمون انّ عمر قد جاءَنی، و قد حلف باللّه لئن عدتم لیحرقنّ علیكم البیت، و أیم اللّه لَیمضین لما حلف علیه.

 ترجمہ: جب لوگوں نے ابوبکر کے ساتھ بیعت کی، علی اور زبیر حضرت سیدہ کے گھر میں مشورے کیا کرتے تھے۔ اس بات کی اطلاع عمر کو ہوئی تو وہ سیدہ کے گھر آیا اور کہا: اے دختر رسول خدا! ہمارے لیے محبوبترین فرد آپ کے والد ہیں اور آپ کے والد کے بعد آپ ہیں لیکن خدا کی قسم یہ محبت اس بات کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی کہ اگر یہ افراد آپ کے گھر میں اکٹھے ہو جائیں تو میں حکم دوں کہ گھر کو ان کے ساتھ جلا ڈالیں.

یہ کہہ کر باہر چلا گیا، جب على (ع) اور زبیر گھر لوٹ آئے تو دختر رسول (ص) نے على(ع) اور زبیر سے کہا: عمر میرے پاس آیا اور قسم کھائی کہ اگر آپ لوگوں کا یہ اجتماع دہرایا گیا تو گھر کو تمہارے ساتھ نذر آتش کر دوں گا، خدا کی قسم اس نے جو قسم کھائی ہے، وہ اس پر عمل کرے گا۔

ابوبكر ابن ابى شیبہ، المصنَّف

ہم نے پہلے ہی اشارہ کیا کہ یہ روایت کتاب المصنف میں صحیح سند کے ساتھ نقل ہوئی ہے.

بلاذرى اور كتاب انساب الاشراف:

مشہور و معروف مؤلف اور عظیم تاریخ کے مالک احمد بن یحیى جابر بغدادى بلاذرى (متوفى 270) نے یہ تاریخی واقعہ اپنی کتاب انساب الاشراف میں یوں نقل کیا ہے کہ:

انّ أبابكر أرسل إلى علىّ یرید البیعة فلم یبایع، فجاء عمر و معه فتیلة! فتلقته فاطمة على الباب.

فقالت فاطمة: یابن الخطاب، أتراك محرقاً علىّ بابی؟ قال: نعم، و ذلك أقوى فیما جاء به أبوك...

ابوبكر نے علی (ع) کو بیعت کے لیے بلایا تو علی (ع) نے بیعت سے انکار کیا. اس کے بعد عمر فتیلہ اٹھا کر آیا اور گھر کے سامنے ہی سیدہ (س) کے روبرو ہوا. سیدہ نے فرمایا: یابن الخطاب! میں دیکھ رہی ہوں کہ تم میرا گھر جلانے کے لیے آئے ہو؟! عمر نے کہا: ہاں! میرا یہ عمل اسی چیز کی مدد کے لیے ہے جس کے لیے آپ کے والد مبعوث ہوئے تھے!!!!

انساب الأشراف: ج1 ص586 مطبوعہ دار المعارف، قاہره.

ابن قتیبہ اور كتاب الإمامة و السیاسة:

مشہور مورّخ عبد اللّہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری، بزرگ ادیب اور تاریخ اسلامی کے محنت کش اہل قلم ہیں. «تأویل مختلف الحدیث»، «ادب الكاتب» وغیرہ ان کی تالیفات ہیں...

الاعلام زركلى: ج4 ص137

 وہ اپنی کتاب «الإمامة و السیاسة» میں لکھتے ہیں کہ:

انّ أبابكر رضی اللّه عنه تفقد قوماً تخلّقوا عن بیعته عند علی كرم اللّه وجهه فبعث إلیهم عمر فجاء فناداهم و هم فی دار علی، فأبوا أن یخرجوا فدعا بالحطب و قال: و الّذی نفس عمر بیده لتخرجن أو لاحرقنها على من فیها، فقیل له: یا أبا حفص انّ فیها فاطمة فقال، و إن!!

ابوبکر نے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا جنہوں نے بیعت سے انکار کیا تھا اور عمر کو ان کے پاس بھیجا. عمر علی علیہ السلام کے گھر کے پاس آیا اور سب کو آواز دی اور کہا: سب باہر آجاؤ اور انہوں نے علی و فاطمہ (ع) کے گھر سے نکلنے سے اجتناب کیا اس موقع پر عمر نے لکڑیاں منگوائیں اور کہا: اس خدا کی قسم جس کے ہاتھوں میں عمر کی جان ہے کہ باہر آجاؤ ورنہ میں اس گھر کو آگ لگاؤں گا. ایک آدمی نے عمر سے کہا: اے اباحفص! اس گھر میں فاطمہ ہے؛ عمر نے کہا چاہے فاطمہ بھی ہو میں گھر کو آگ لگا دوں گا!!

الامامة و السیاسة:ص 12، مطبوعہ مكتبة تجاریة كبرى، مصر.

ابن قتیبہ نے اس داستان کو پرسوز و گداز انداز میں جاری رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ:

ثمّ قام عمر فمشى معه جماعة حتى أتوا فاطمة فدقّوا الباب فلمّا سمعت أصواتهم نادت بأعلى صوتها یا أبتاه رسول اللّه ماذا لقینا بعدك من ابن الخطاب، و ابن أبی قحافة فلما سمع القوم صوتها و بكائها انصرفوا. و بقی عمر و معه قوم فأخرجوا علیاً فمضوا به إلى أبی بكر فقالوا له بایع، فقال: إن أنا لم أفعل فمه؟ فقالوا: إذاً و اللّه الّذى لا إله إلاّ هو نضرب عنقك...!

عمر ایک گروہ کے ہمراہ سیدہ (س) کے گھر پہنچا. ان لوگوں نے دستک دی جب سیدہ (س) نے دستک کی صدا سنی تو بآواز بلند فرمایا: یا رسول اللہ (ص) آپ کے بعد خطاب اور ابی قحافہ کی بیٹوں کی جانب سے ہم پر کیا مصیبتیں آ پڑیں! عمر کے ہمراہ آنے والوں نے جب سیدہ کی گریہ و بکاء کی آواز سنی تو اکثر افراد لوٹ کر چلے گئے مگر عمر چند افراد کے ہمراہ کھڑا رہا اور علی (ع) کو گھر سے باہر لے آئے اور ابوبکر کے پاس لے گئے اور کہا: بیعت کرو! علی (ع) نے فرمایا: اگر بیعت نہ کروں تو کیا کرو گے؟ عمر نے کہااس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی خدا نہیں؛تمہارا سر قلم کریں گے!...

الامامة و السیاسة، ص 13.

یقینی طور پر تاریخ کا یہ حصہ شیخین سے محبت کرنے والے افراد کے لیے بہت ہی بھاری اور ناقابل یقین ہے لہذا ان میں سے کئی افراد نے مفروضوں کی بنیاد پر دعوی کیا ہے کہ:

گویا یہ کتاب ابن قتیبہ کی نہیں ہے جبکہ فن تاریخ کے استاد ابن ابی الحدید کو یقین ہے کہ مذکورہ کتاب ابن قتیبہ کی ہے اور ابن ابی الحدید نے اس کتاب سے متعدد بار اقتباسات لیے ہیں اور اس کے مضامین سے استناد کیا ہے. افسوس کا مقام ہے کہ یہ کتاب نئی طباعتوں میں تحریف کا شکار ہوئی ہے اور اس کے بعض مطالب و مضامین کو حذف کیا گیا ہے جبکہ وہی مضامین ابن ابی الحدید کی کتابوں میں الامامہ و السیاسہ کے حوالے سے نقل ہوئے ہیں اور موجود ہیں.

«زركلى» اپنی کتاب الاعلام میں اس کتاب کو ابن قتیبہ کی کاوش سمجھتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ: بعض علماء اس کتاب کو ابن قتیبہ سے نسبت دینے کے حوالے سے مختلف آراء کے قائل ہیں۔ بالفاظ دیگر زرکلی کا کہنا ہے کہ: مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب ابن قتیبہ کی ہے مگر دوسرے لوگ اس سلسلے میں شک و تردد کا شکار ہیں.

معجم المطبوعات العربیة: ج1 ص212

طبرى اور اس کی تاریخ:

محمّد بن جریر طبرى (متوفى 310) اپنی تاریخ میں بیت وحی کی بے حرمتی کی روایت یوں بیان کرتے ہیں:

أتى عمر بن الخطاب منزل علی و فیه طلحة و الزبیر و رجال من المهاجرین، فقال و اللّه لاحرقن علیكم أو لتخرجنّ إلى البیعة، فخرج علیه الزّبیر مصلتاً بالسیف فعثر فسقط السیف من یده، فوثبوا علیه فأخذوه.

عمر بن خطاب على کے گھر پر آئے جہاں مہاجرین کا ایک گروہ موجود تھا. عمر نے ان کی طرف رخ کرکے کہا: خدا کی قسم گھر کو آگ لگادوں گا مگر یہ کہ بیعت کے لئے باہر آ جاؤ. زبیر تلوار تان کر باہر آئے مگر اچانک ان کا پاؤں پھسلا اور گر پڑے تو دوسروں نے انہیں پکڑ لیا اور تلوار ان کے ہاتھ سے چھین لی...

تاریخ طبرى: ج2 ص443، مطبوعہ بیروت.

تاریخ کے اس حصے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیعت اخذ کرنے کا سلسلہ دھمکی اور زبردستی پر استوار تھا اب آپ خود فیصلہ کریں کہ اس طرح کی بیعت کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے ؟

ابن عبد ربہ اور عقد الفرید:

کتاب «عقد الفرید» کے مؤلف شہاب الدین احمد المعروف «ابن عبد ربہ اندلسى» متوفى (463 ھـ) نے اپنی کتاب میں تاریخ سقیفہ کے سلسلے میں مفصل بحث کی ہے اور «وہ لوگ جنہوں نے ابوبکر کی بیعت سے اجتناب کیا» کے عنوان کے تحت تحریر کیا ہے کہ:

فأمّا علی و العباس و الزبیر فقعدوا فی بیت فاطمة حتى بعثت إلیهم أبوبكر، عمر بن الخطاب لیخرجهم من بیت فاطمة و قال له: إن أبوا فقاتِلهم، فاقبل بقبس من نار أن یضرم علیهم الدار، فلقیته فاطمة فقال: یا ابن الخطاب أجئت لتحرق دارنا؟! قال: نعم، أو تدخلوا فیما دخلت فیه الأُمّة!:

على، عباس اور زبیر فاطمہ کے گھر میں بیٹھے تھے کہ ابوبکر نے عمر کو بھیجا اور کہا کہ انہیں وہاں سے نکال باہر کرو اور اگر باہر نہ نکلیں تو ان کے ساتھ لڑو! اسی وقت عمر آگ لے کر سیدہ کے گھر کی طرف روانہ ہوا تا کہ گھر کو نذر آتش کرے، اسی وقت سیدہ (س) سامنے آئیں. دختر رسول (ص) نے فرمایا: اے فرزند خطاب کیا تم ہمارا گھر جلانے کے لیے آئے ہو ؟ کہنے لگا: ہاں! مگر یہ کہ جو کام (ابوبکر کی بیعت)  امت نے کیا ہے، وہ تم بھی انجام دو۔

عقد الفرید: ج4 ص93، مطبوعہ مكتبة ہلال.

یہاں تک بیت فاطمہ (س) کی ہتک حرمت کے ارادے کا باب ختم ہوتا ہے، اور اب دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں انہوں نے اس مذموم اور ناپاک منصوبے کو عملی جامہ بھی پہنایا!

یہ گمان ہرگز پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ ان لوگوں کا مقصد صرف خوف و ہراس اور دھمکی تک محدود تھا تا کہ على(ع) اور آپ (ع) کے معتقدین بیعت پر مجبور ہو جائیں، اور یہ کہ وہ اس منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنانا چاہتے تھے.

حملہ انجام پایا!

 

یہاں ان لوگوں کی باتوں کا سلسلہ مکمل ہوا جنہوں نے صرف خلیفہ اور اس کے اصحاب کی بدنیتی کی طرف اشارہ کیا تھا. یہ وہ مؤرخین و مؤلفین تھے جو اس سانحے کی روداد مکمل نہ کر سکے یا کسی وجہ سے اسے مکمل کرنا ہی نہیں چاہتے تھے، جبکہ بعض دوسروں نے اس سانحے – یعنی بیت فاطمہ (س) پر حملے اور اس گھر کی بے حرمتی – کی روداد کی طرف اشارہ کیا ہے اور کسی حد تک حقیقت کے چہرے سے نقاب ہٹایا ہے. یہاں ہم گھر پر حملے اور اس گھر کی بے حرمتی کی رواداد کے مستندات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

ابو عبید اور كتاب الاموال:

ابو عبید قاسم بن سلام (متوفى 224) اپنی کتاب «الأموال» میں جو اسلامی فقہاء کے ہاں مورد اعتماد و وثوق ہے، سے نقل کرتے ہیں کہ:

عبد الرّحمن بن عوف کہتا ہے کہ: ابوبکر بیمار ہوا تو میں عیادت کے لیے ان کے سرہانے پہنچا. ہمارے درمیان طویل گفتگو ہوئی اور آخر میں ابوبکر نے مجھ سے کہا: اے کاش میں وہ تین کام جو میں نے سر انجام دئیے تھے، مجھ سے سرزد نہ ہوئے ہوتے، اور اے کاش میں تین چیزوں کے بارے میں نبی اکرم (ص) سے سوال ضرور کرتا:

وہ تین چیزیں جو میں نے سر انجام دیں اور اب آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش یہ چیزیں مجھ سے سرزد نہ ہوتیں، یہ ہیں:

«وددت انّی لم أكشف بیت فاطمة و تركته و ان اغلق على الحرب»۔

كاش میں نے فاطمہ کا گھر نہ کھلوایا ہوتا خواہ وہ جنگ کی نیت سے ہی بند کیا جا چکا ہوتا.

الأموال: پاورقى 4، مطبوعہ نشر كلیات ازهریة، الأموال،ص 144، مطبوعہ بیروت،

عقد الفرید ابن عبد ربه : ج4 ص93

 ابو عبید جب روایت کے اس حصے پر پہنچتے ہیں تو: لم أكشف بیت فاطمة و تركته = فاطمہ کا گھر نہ کھلواتا...کی بجائے لکھتا ہے: كذا و كذا. اور لکھتے ہیں: میں اس بات کو ذکر کرنے کا شوق ہرگز نہیں رکھتا!. اس سے بڑی علمی خیانت اور نا انصافی آپ نے کہیں دیکھی ہے، جب ہر قیمت پر طرفداری ہی کرنی ہے تو پھر عالم اور مؤرخ ہی کیوں بنے ہو ؟؟؟

لیکن اگرچہ «ابو عبید» نے تعصب یا کسی اور بنا پر حقیقت کو نقل کرنے سے گریز کیا ہے مگر کتاب الاموال پر تحقیق کرنے والے حضرات نے اس کے حاشیوں پر لکھا ہے کہ حذف شدہ جملے «میزان الاعتدال» میں اسی شکل میں بیان ہوئے ہیں جیسا کہ یہاں بیان ہوئے، اس کے علاوہ «طبرانى» اپنی کتاب «المعجم» میں، «ابن عبدربہ»، «عقد الفرید» میں اور دیگر افراد نے حذف شدہ جملے بیان کئے ہیں.

طبرانى اور معجم الكبیر:

ذہبی میزان الاعتدال میں ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانى کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: وہ معتبر شخص ہے۔

میزان الاعتدال: ج2 ص195

طبرانی نے «المعجم الكبیر» میں ابوبکر اور اس کے خطبات اور وفات کے بارے میں لکھا ہے کہ:

ابوبكر نے وفات کے وقت چند امور کی تمنا کی اور کہا: كاش میں تین کام سر انجام نہ دیتا اور تین چیزوں کے بارے میں رسول اللہ سے سوال کر لیتا۔

ابوبکر ان تین افعال کے بارے میں – جو اس نے سر انجام دیئے اور تمنا کی کہ کاش انہیں انجام نہ دیتا  کہتا ہے کہ:

 أمّا الثلاث اللائی وددت أنی لم أفعلهنّ، فوددت انّی لم أكن أكشف بیت فاطمة و تركته.

وہ تین چیزیں جو میری آرزو ہے کہ کاش مجھ سے سرزد نہ ہوتیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ کاش میں فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا!

معجم كبیر طبرانى: ج1 ص62، حدیث 34، تحقیق حمدی عبد المجید سلفی.

ان عبارات و تعبیرات سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ عمر نے اپنی دھمکی کو عملی پر بھی انجام دیا تھا۔

ابن عبد ربہ اور عقد الفرید:

كتاب «العقد الفرید» کے مؤلّف ابن عبد ربہ الاندلسى (متوفى 463 هـ) نے عبد الرحمن بن عوف سے نقل کیا ہے کہ:

ابوبکر بیمار ہوا تو میں اس کے پاس پر گیا تو اس نے کہا کہ: اے کاش میں تین چیزوں کا ارتکاب نہ کرتا اور ان تین چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ:

وودت انّی لم أكشف بیت فاطمة عن شی و إن كانوا اغلقوه على الحرب.

كاش میں فاطمہ کے گھر کا دروازہ نہ کھلواتا، خواه جنگ کی نوبت ہی کیون نہ آ جاتی!

عقد الفرید: ج4 ص93 مطبوعہ مكتبة الهلال.

نیز وہ عبارات بھی نقل ہونگی اور ان شخصیات کے نام بھی ذکر ہونگے جنہوں نے خلیفہ کا یہ قول نقل کیا ہے.

نَظّام اور كتاب الوافی بالوفیات:

نظم و نثر میں حسن کلام کی بنا پر نَظّام کے نام سے مشہور ہونے والے ابراہیم بن سیار معتزلى نے اپنی متعدد کتابوں میں بی بی فاطمہ (س) کے گھر پر اصحاب کے حاضر ہونے کے بعد پیش آنے والے واقعے کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

انّ عمر ضرب بطن فاطمة یوم البیعة حتى ألقت المحسن من بطنھا.

عمر نے بیعت لینے کی نیت سے فاطمہ زہرا (س) کے پیٹ پر زور سے ضرب لگائی اور فاطمہ کے بطن میں جو محسن نامی بچہ تھا وہ سقط ہو گیا !!

الوافی بالوفیات: ج6 ص17، نمبر، 2444

ملل و نحل الشهرستانى: ج1 ص57، مطبوعہ دار المعرفة، بیروت.

اور نظام کے حالات زندگی کے لئے کتاب «بحوث فی الملل و النحل»: ج3 ص248-255 کی طرف رجوع کیا جائے.

مبرد اور كتاب الكامل:

معروف ادیب و مؤلف اور اہم تألیفات کے مالک محمّد بن یزید بن عبد الأكبر بغدادى نے اپنی کتاب «الکامل» میں ابوبکر کی آخری تمنا کے بارے میں عبد الرحمن بن عوف سے نقل کیا ہے کہ: ابوبکر نے کہا کہ:

وددت انّی لم أكن كشفت عن بیت فاطمة و تركته و لو أغلق على الحرب.

آرزو کرتا ہوں کہ کاش بیت فاطمہ کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کا دروازہ نہ کھلواتا چاہے وہ دروازہ جنگ کی نیت سے ہی بند کیوں نہ ہوتا».

شرح نہج البلاغہ: ج2 ص46 - 47، مطبوعہ مصر.

مسعودى و «مروج الذہب:

مسعودى نے مروج الذہب میں لکھا ہے کہ:

ابوبکر جب حالت احتضار (جان کنی کی حالت) میں پہنچا تو کہنے لگا کہ: اے کاش میں تین اعمال کا ارتکاب نہ کرتا اور ان تین اعمال میں سے ایک یہ ہے:

فوددت انّی لم أكن فتشت بیت فاطمة و ذكر فی ذلك كلاماً كثیراً!

میری تمنا تھی کہ کاش خانہ زہرا کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس سلسلے میں انہوں نے بہت ساری باتیں بیان کیں»!!

مروج الذہب: ج2 ص301، مطبوعہ دار اندلس، بیروت.

گو کہ مسعودى اہل بیت (ع) کی محبت کے حوالے سے نسبتا اچھی شہرت رکھتا ہے مگر یہاں پہنچ کر وہ بھی مکمل بات بتانے سے گریز کرتا ہے اور کنائے و اشارے کے ساتھ گزر جاتا ہے [اور وہ بات جو خلیفہ نے بیان کی ہے ادہوری رہ جاتی ہے] البتّہ خدا حقیقت سے واقف ہے اور بندگان خدا کو بھی اجمالی علم حاصل ہے!

ابن ابى دارم اور كتاب میزان الاعتدال:

محدث كوفى «احمد بن محمّد» المعروف «ابن ابى دارم»، - جن کے بارے میں محمّد بن أحمد بن حماد كوفى کا بیان ہے کہ:

 «كان مستقیم الأمر، عامة دهره»: وہ اپنی پوری عمر میں راہ راست پر چلنے والے تھے اور اپنے زمانے کی نامی گرامی شخصیت تھے.

وہ اس مقام و مرتبے کے مالک ہوتے ہوئے، نقل کرتا ہے کہ یہ حدیث ان کے سامنے نقل کی گئی کہ:

انّ عمر رفس فاطمة حتى أسقطت بمحسن.

عمر نے فاطمہ کو لات ماری اور جو محسن نامی فرزند ان کے بطن میں تھا، وہ سقط ہو گیا»!

میزان الاعتدال: ج3 ص459

عبد الفتاح عبد المقصود اور كتاب الإمام علی (ع):

عبد المقصود نے «بیت الوحی» پر حملے کی روداد اپنی کتاب میں دو مقامات پر بیان کیا ہے، لیکن ہم ایک ہی روایت نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

لکھتا ہے کہ عمر نے گھر کے سامنے کھڑے ہو کر کہا:

«و الّذی نفس عمر بیده، لیخرجنَّ أو لأحرقنّها على من فیها...»! قالت له طائفة خافت اللّه، و رعت الرسول فی عقبه: «یا أبا حفص، إنّ فیها فاطمة...»! فصاح لایبالی: «و إن...»! و اقترب و قرع الباب، ثمّ ضربه و اقتحمه... و بدا له علی... و رنّ حینذاك صوت الزهراء عند مدخل الدار... فان هى الا طنین استغاثة...

ترجمہ: اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے کہ گھر سے باہر آ جاؤ ورنہ اس گھر کو اس کے ساکنین کے ساتھ ہی آگ لگا دوں گا. کچھ لوگ جو خدا کا خوف رکھنے اور رسول الله کے بعد آپ (ص) کے خاندان کی رعایت حال کرنے والے تھے، نے کہا: «ابا حفص، فاطمہ اس گھر میں ہیں »، لیکن وہ بے پروائی کے عالم میں چلّایا: "وَ اِن" تب بھی (یعنی حتیٰ اگر فاطمہ بھی گھر میں ہوں تب بھی میں اس گھر کو آگ لگا دوں گا) پس  عمر قریب تر گیا اور دروازے پر دستک دی اور پھر دروازے پر مکّوں اور لاتوں کی بوچھاڑ کر دی اور گھر میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی[دوازہ ٹوت گیا تھا اور سیدہ دروازے کی  پشت پر زخمی ہو گئی]... اس دوران علی (ع) ظاہر ہوئے اسی اثناء میں سیدہ (س) کی صدا گھر کے دروازے کے پاس سے سنائی دی اور وہ سیدہ کی فریاد اور استغاثے کے سوا کوئی اور صدا نہ تھی...!».

عبد الفتاح عبد المقصود، علی بن ابى طالب: ج4 ص276-277.

اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے «مقاتل ابن عطیہ» کی کتاب «الامامة و السیاسة» کی ایک حدیث پیش کرتے ہیں: اس نے  لکھا ہے کہ:

ان ابابكر بعد ما اخذ البیعة لنفسه من الناس بالارهاب و السیف و القوّة ارسل عمر، و قنفذاً و جماعة الى دار علىّ و فاطمه (علیه السلام) و جمع عمر الحطب على دار فاطمه و احرق باب الدار!...

ترجمہ: جب ابوبکر نے اپنے لیے خوف و ہراس پھیلا کر بزور شمشیر لوگوں سے اپنے لیے بیعت لی عمر نے قنفذ اور بعض دیگر افراد کو علی اور فاطمہ سلام اللہ علیہما کی گھر روانہ کیا اور خود لکڑیاں اکٹھی کر کے گھر کے دروازے کو آگ لگا دی...

كتاب الامامة و الخلافة، ص 160 - 161، تألیف مقاتل بن عطیة، جس پر قاہرہ کے جامعہ عین الشمس کے استاد داكتر حامد داؤد نے مقدمہ لکھا ہے، مطبوعہ بیروت، مؤسّسة البلاغ.

اس روایت کے ذیل میں بعض دیگر تعبیرات و عبارات ہیں جن کے ذکر سی قلم عاجز ہے.

نتیجہ:

 

 یہاں ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ان ہی کی کتابوں سے منقولہ روشن روایات کو پڑھ اور سن کر کیا پھر بھی لکھنا چاہیں گے کہ:

« فاطمہ سلام اللہ علیہا کا افسانہ شہادت...!»؟

انصاف، انسانیت اور غیرت كہاں ہے؟! انکو اہل بیت (ع) کے بغض نے اور بعض دوسروں کی محبت نے اتنا ہی اندھا کر دیا ہے!!!

قرآن کریم نے  ان جیسے لوگوں کے بارے میں کیا خوب فرمایا ہے کہ:
و لقد ذرانا لجھنم کثیرا من الجن و الانس لھم قلوب لا یفقھون بھا و لھم اعین لا یبصرون بھا و لھم آذان لا یسمعون بھا اولائک کالانعام بل ھم اضل اولائک ھم الغافلون
اور بتحقیق ہم نے بھر دیا جھنم کو بہت سے انسانوں اور جنوں سے انکے لیے کہ انکے دل ہیں جن سے وہ نہیں سمجھتے اور انکی آنکھیں ہیں جن سے وہ نہیں دیکھتے اور انکے کان ہیں جن سے وہ نہیں سنتے، یہ لوگ چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں یہ ہی لوگ غافل ہیں۔

سورہ اعراف آیت179
یقینا جو شخص روشن اور واضح منابع و مأخذ پر مبنی اس مختصر بحث کا مطالعہ کرے گا بخوبی جان لے گا کہ رسول اللہ (ص) کی رحلت کے بعد کیا آشوب بپا ہوا تھا اور خلافت و اقتدار کے حصول کے لیے اصحاب نے کیا کیا کارنامے سر انجام دیئے اور یہ تعصب سے دور آزاد اندیش انسانوں پر اتمام حجت الہیہ ہے، کیوں کہ ہم نے یہاں اپنی جانب سے کچھ بھی (بعنوان تبصرہ و تجزیہ) نہیں لکھا اور جو بھی لکھا ہے وہ ان منابع و مآخذ سے نقل  کر کے لکھا ہے کہ معتبر کتب ان کے نزدیک بھی قابل قبول ہیں!!!

عدم شناخت حضرت زہرا (س):

 

پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں آپ کے اصحاب نے حضرت زہرا کو نہیں پہچانا، ہمیں چاہیے کہ ان کو پہچانیں، ان مصائب اور مشکلات کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے آپ کو نہیں پہچانا تھا، اگر انہیں پہچانے تو کبھی بھی ایسا نہ کرتے کہ جس کا انجام حضرت صدیقہ طاہرہ کی شہادت کی صورت میں سامنے آئے۔

آپ کی شہادت ایک مسلم تاریخی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے ، اگر اہل سنت کی تاریخی کتابوں میں دیکھیں تو وہاں بھی ہر کتاب میں بار بار حضرت زہرا (س) کی شہادت کا واقعہ بیان اور نقل ہوا ہے ۔

لیکن اگر کوئی شخص انصاف اور غیرت کو دفن کرے اور صرف لجاجت سے کام لے تو اس صورت میں اس واقعہ کا انکار ممکن ہے

حضرت زہرا (س) اور پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی کے آخر لمحات:

 

آخری ایام میں پیغمبر اکرم (ص) کی بیماری نے شدت اختیار کر لی تھی ، حضرت فاطمہ زہرا (س)، پیغمبر اکرم (ص) کے بستر کے کنارے کھڑی ہوئی آپ کے نورانی چہرہ کی طرف دیکھ رہی تھیں، آپ کے چہرہ پر بخار کی تپش سے پسینہ آ رہا تھا ، حضرت فاطمہ زہرا (س) اپنے والد بزرگوار کو دیکھتی جاتی تھیں اور گریہ فرما رہی تھیں، پیغمبر اکرم (ص) اپنی بیٹی کی پریشانی کو برداشت نہ کر سکے، آپ نے حضرت زہرا (س) کے کان میں کچھ کہا جس سے آپ کو سکون مل گیا اور آپ مسکرائیں، اس وقت حضرت فاطمہ کی مسکراہٹ بڑی تعجب آور تھی، آپ سے سوال کیا گیا: رسول خدا (ص) نے آپ سے کیا فرمایا ؟ آپ نے جواب دیا: جب تک میرے والد بزرگوار زندہ ہیں میں اس راز کو بیان نہیں کروں گی، رسول خدا (ص) کی شہادت کے بعد وہ راز آشکار ہو گیا، حضرت فاطمہ (س) نے کہا: میرے والد بزرگوار نے مجھ سے کہا: میرے اہلبیت میں تم سب سے پہلے مجھ سے ملو گی ، اس وجہ سے میں خوش ہو گئی ۔

فدک حق حضرت زہرا (س):

 

فدک وراثت تھا یا رسول کی جانب سے شہزادی فاطمہ زہرا (س) کے لیے ہدیہ اور ھبہ کیا تھا ، خود علماء اہل سنت نے اس کو اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ باغ فدک کو رسول اکرم نے اپنی زندگی میں ہی شہزادی کو عنایت کیا تھا ۔

صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید الخدری اور حضرت عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور ص نے اپنی زندگی ہی میں فدک حضرت فاطمہ کو اس وقت ہبہ کر دیا جب سورہ حشر کی آیت 7 نازل ہوئی۔

در المنثور از جلال الدین سیوطی ج4ص177

دیگر تفاسیر میں سورہ حشر کی آیت 7 کے ذیل میں لکھا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد رسول خدا (ص) نے فدک کو حضرت فاطمہ زہرا (س) کو بخشا تھا۔

معراج النبوة از عبد الحق دہلوی  ص 228 ج 4 باب 10،حبیب السیار از غیاث الدین محمد خواندامیر

شاہ عبد العزیز نے فتاوی عزیزیہ میں اس بات کا اقرار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا کو فدک سے محروم کرنا درست نہیں ہے۔

فتاوی عزیزیہ از شاہ عبد العزیز

صحیح البخاری میں عائشہ سے روایت ہے کہ حضور (ص) کی وفات کے بعد فدک کی ملکیت پر حضرت فاطمہ زہرا اور ابوبکر میں اختلافات پیدا ہوئے۔ حضرت فاطمہ نے فدک پر اپنا حقِ ملکیت سمجھا جبکہ ابوبکر نے غلط فیصلہ دیا کہ چونکہ انبیا کی وراثت نہیں ہوتی اس لیے فدک حکومت کی ملکیت میں جائے گا، (حالانکہ ابوبکر کا یہ حکم واضح طور پر قرآن و سنت کے خلاف تھا۔)

اس پر حضرت فاطمہ ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور اپنی وفات تک اس سے کلام نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد رات کو جنازہ پڑھایا گیا جس کے بارے میں ابوبکر کو خبر تک نہ کی گئی۔

(صحیح بخاری اردو ترجمہ از مولانا داود مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند ج 5 حدیث نمبر 4240- 4241

گھر کا جلایا جانا اور حضرت محسن کی شہادت:

 

علماء اور محدثان کی ایک بڑی تعداد نے اس قضیہ کو نقل کیا ہے کہ جس میں آپ کے گھر کے دروازہ پر آگ کا لگانا ،دروازہ کو دھکا دینا جس کی وجہ سے آپ کا زخمی ہو جانا اور آپ کے بطن مبارک میں حضرت محسن کی شہادت واقع ہونا ، ہم یہاں صرف چند علماء کے اقوال کو بیان کر رہے ہیں ۔

شہرستانی:

 

شہرستانی نے اپنی کتاب الملل و النحل میں اس طرح نقل کیا ہے کہ بیعت کے دن (سقیفہ) عمر نے حضرت فاطمہ کو اس طرح مارا کہ کہ آپ کے بطن میں بچہ سقط ہو گیا ،اور اسکے بعد عمر نے حکم دیا کہ گھر کو آگ لگا دی جائے چاہے گھر میں کوئی بھی ہو جبکہ گھر میں علی اور حسنین کے علاوہ کوئی دوسرا نہ تھا۔

 الملل و النحل ،ج 1،ص57

شیخ الاسلام ذہبی:

 

ذہبی ،احمد بن محمد بن سری بن یحیی بن ابی دارم کے حالات بیان کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں کہ حافظ محمد بن احمد بن حماد کوفی کی تاریخ وفات کو ذکر کرنے کے بعد اس طرح لکھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سیدھے راستے پر چلتے تھے لیکن آخری عمر میں سب سے زیادہ جو چیز اس کے سامنے پڑھی جاتی تھی مطاعن تھے ، میں ایک دن اس کے پاس تھا کہ ایک فرد نے اس کے سامنے اس طرح روایت بیان کی: عمر نے حضرت فاطمہ کے سینے پر ایسی لات ماری کہ آپ کے بطن میں محسن سقط ہو گئے ۔

میزان الاعتدال،ج1،ص139

لسان المیزان ،ج1،ص268

سیر اعلام النبلاء،ج15،ص578

مقاتل بن عطیہ:

 

نقل کیا ہے کہ کہ جیسے ہی حضرت زہرا دروازے کے پیچھے آئیں تا کہ عمر اور اس کے ساتھیوں کو واپس کر سکیں ،عمر نے دروازے کو اس طرح دھکّا دیا کہ آپ کا حمل سقط ہو گیا اور دروازہ کی کیل آپ کے سینہ میں داخل ہو گئی .

موتمر علماء بغداد، ص63

مسعودی:

 

بیان کیاہے کہ سیدة النساء کو دروازہ کے پیچھے اس طرح دبایا گیا کہ آپ کا بچہ محسن شھید ہو گیا ۔

اثبات الوصیہ ،ص143

شہادت حضرت زہرا (س) در کتب معتبر اہل سنت:

 

آپ کی شہادت کو جہاں علماء تشیع نے بیان کیا ہے وہیں علماء اہل سنت من جملہ ابن قتیبہ، صاحب صحاح ستہ اور دیگر علماء نے بیان کیا ہے شہادت کا سبب بھی تمام علما نے ایک ہی بیان کیا ہے اور وہ عمر اور اسکے بعض ساتھیوں کا حضرت زہرا (س) کے گھر کے دروازے کو گرایا جانا اور گھر کو آگ لگانا ہے اس کے لیے آپ اہل سنت کی ان معتبر کتب کی طرف رجوع کر سکتے ہیں:

تاریخ طبری ، ابن جریر الطبری

مصنف ابن ابی شیبہ

مروج الذہب، علامہ مسعودی

الاستیعاب ، ابن عبد البر ص345 ذکر ابوبکر بن ابی قحافہ میں

ازالة الخفا ، شاہ ولی اللہ

منتخب کنز العمال ،حاشیہ مسند احمد بن حنبل ج 2 ص174 مطبوعہ مصر

مدارج النبوة رکن 4باب 3ص42 ، عبد الحق دہلوی

تاریخ یعقوبی ج2 ص116

الامامت و السیاست ، ابو محمد عبد اللہ بن مسلم قیتبہ ج1 ص12

تاریخ ابو الفدا ، امام اہل سنت عماد الدین اسماعیل بن علی ابو الفدا اردو ترجمہ از مولوی کریم الدین حنفی ص 177-179

عقد الفرید ،امام شہاب الدین احمد معروف بہ ابن عبد ربہ اندلسی۔ ج2 ص 176 مطبوع مصر

تاریخ بلاذری ،تذکرہ بیعت حضرت ابوبکر

معجم الکبیر ،ج 1،ص 62،طبرانی

فرائد السمطین،ج2،ص32-35 ،حموینی

موتمر علماء بغداد،ص63.،مقاتل بن عطیہ

شاعر مشرق جناب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے حضرت زہرا (س) کی شان اشعار میں بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

1- مریم از یک نسبت عیسی عزیز

از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز

2- نور چشم رحم للعالمین

آن امام اولین و آخرین

3- آن کہ جان در پیکر گیتی رسید

روزگار تازہ آیین آفرید

4- بانوی آن تاجدار ہل اتی

مرتضی مشکل گشا شیر خدا

5- پادشاہ و کلبہ ای ایوان او

یک حسام و یک زرہ سامان او

6- مادر آن مرکز پرگار عشق

مادر آن کاروان سالار عشق

7- آن یکی شمع شبستان حرم

حافظ جمعیت خیر الامم

8- تا نشینند آتش پیکار و کین

پشت پا زد بر سر تاج و نگین

9- و آن دگر مولای ابرار جہان

قوت بازوی احرار جہان

10- در نوای زندگی سوز از حسین

اہل حق حریت آموز از حسین

11- سیرت فرزندہا از امہات

جوہر صدق و صفا از امہات

12- بہر محتاجی دلش آن گونہ سوخت

با یہودی چادر خود را فروخت

13- مزرع تسلیم را حاصل بتول

مادران را اسو ہ کامل بتول

 ترجمہ اشعار:

1- مریم عیسی کے حوالے سے ایک ہی نسبت سے بزرگ و عزیز ہیں؛ جبکہ حضرت زہرا تین نسبتوں سے بزرگ و عزیز ہیں۔

2- سیدہ رحمۃ للعالمین کی نور چشم ہیں، جو اولین و آخرینِ عالم کے امام و رہبر ہیں۔

3- وہی جنہوں نے کائنات کے پیکر میں روح پھونک دی اور ایک تازہ دین سے معمور زمانے کی تخلیق فرمائی۔

4- وہ "ہل اتی" کے تاجدار، مرتضی مشکل گشا، شیر خدا کی زوج مکرمہ اور بانوئے معظمہ ہیں ۔

5- علی بادشاہ ہیں جن کا ایوان ایک جھونپڑی ہے اور ان کا پورا سامان ایک شمشیر اور ایک زرہ ہے۔

6- ماں ہیں ان کے جو عشق کا مرکزی نقطہ اور پرگار عشق ہیں اور وہ کاروان عشق کی سالار ۔

7- وہ دوسرے (امام حسن مجتبی ع) شبستان حرم کی شمع اور بہترین امت (امت مسلمہ) کے اجتماع و اتحاد کے حافظ ۔

8- اس لیے کہ جنگ اور دشمنی کی آگ بجھ جائے آپ (امام حسن) (ع) نے حکومت کو لات مار کر ترک کر دیا۔

9- اور وہ دوسرے (امام حسین ع) دنیا کے نیک سیرت لوگوں کے مولا اور دنیا کے حریت پسندوں کی قوت بازو ۔

10- زندگی کی نوا میں سوز ہے تو حسین سے ہے اور اہل حق نے اگر حریت سیکھی ہے تو حسین سے سیکھی ہے،

11- فرزندوں کی سیرت اور روش زندگی ماں سے ورثے میں ملتی ہے، صدق و خلوص کا جوہر ماں سے ملتا ہے۔

12- ایک محتاج و مسکین کی حالت پر ان کو اس قدر ترس آیا کہ اپنی چادر یہودی کو بیچ ڈالی۔

13- تسلیم اور عبودیت کی کھیتی کا حاصل حضرت بتول ہیں اور ماں کے لیے نمون کاملہ حضرت بتول (س) ہیں،

کتاب کلیات اقبال رح

یا فاطمة الزہراء یا بنت محمد یا قرة عین الرسول یا سیدتنا یا مولاتنا انا توجھنا و استشفعنا و توسلناک بک الی الله و قدمناک بین یدیہ حاجاتنا یا وجیھۃً عند الله اشفعی لنا عند الله۔ یا وجیھۃً عند الله اشفعی لنا عند الله۔ یا وجیھۃً عند الله اشفعی لنا عند الله۔

التماس دعا.....





Share
1 | سید علی عباس جعفری | | ٢٢:٣٧ - ١٩ January ٢٠٢١ |
Bhot khub hai ye mash Allah

جواب:
سلام علیکم ۔۔۔ بہت شکریہ جناب اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ آمین یا رب العالمین ۔۔
التماس دعا ۔
2 | سید اذکار حیدر نقوی | | ١٤:١٧ - ٢٤ December ٢٠٢١ |
سلام علیکم!
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ تحریر ہے اور بہترین نکات سے بھی استفادہ کیا،
سلامت رہیں

جواب:
سلام علیکم  ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔۔
 
اللہ آپ کو بھی سلامت رکھے اور ہمیں جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے حق سے دفاع کرنے اور ان کی سیرت کے مطابق چلنے کی توفیق دئے ۔ اللہ ہمیں قیامت کو ان کی شفاعت نصیب فرمائے ۔
 
                 الہی آمین ْ
   
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی