ماہ رمضان قرآن کریم کی بہار ہے، قرآن کریم سے اس مہینہ میں خاص طور پر فیض حاصل کیا جا سکتا ہے کیونکہ ماہ رمضان، نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں قرآن سے مانوس ہوتے ہوئے تلاوت کے علاوہ قرآن کی آیات کی گہرائی پر بھی غور اور تدبر کرنا چاہیے، اہل بیت (ع) کی سیرت اس بات کی تعلیم دیتی ہے۔
ماہ رمضان قرآن کریم کی بہار:
ماہ مبارک رمضان، قرآن کریم کی بہار اور قرآن سے انس پیدا کرنے کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں انسان بہترین طریقے سے ذہنی اور عملی طور پر قرآن کریم سے فیضیاب ہو سکتا ہے۔
وہ مہینہ ہے جس کی شب قدر میں رسول خدا (ص) کے قلب مطہر کو پورے قرآن، امین وحی سے موصول ہوا۔
وہ مہینہ ہے جس میں ہم روزہ رکھنے، عبادت، دعا و مناجات اور معنوی تیاری کرنے کے ذریعے، تعلیم قرآن حاصل کرنے کا استقبال کرتے ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ خالص روزہ کی بھرپور برکات اور اس کے ساتھ دیگر عبادتوں اور دعاؤں کی روشنی میں، قرآن سے اپنا رابطہ مزید مضبوط کریں۔
قرآن کریم، ماہ رمضان کی روح ہے کہ جس نے اس مہینہ کی عظمت کو بڑھا دیا ہے۔
قرآن کریم، ماہ رمضان کا وہ دل ہے کہ جس دل کی دھڑکنوں کے بغیر روزہ داروں کی معنوی حیات کی رگوں میں حقیقت کی لہر نہیں دوڑ سکتی۔
قرآن کریم، دلوں کی بہار ہے اور قرآن کریم کی بہار، ماہ رمضان ہے۔ جیسا کہ حضرت امام محمد باقر (ع) ارشاد فرماتے ہیں:
لِكُلِّ شيءٍ رَبيعٌ و رَبيعُ القُرآنِ شَهرُ رَمَضان،
ہر چیز کی کوئی بہار ہے اور قرآن کی بہار، ماہ رمضان ہے۔
الكافي، ج 2 ص 10، 630
ثواب الأعمال، ج 1 ص 129
معاني الأخبار، ج 1 ص 228
اور حضرت امیر المومنین علی (ع) قرآن مجید کی شان میں فرماتے ہیں:
وَ تَفَقَّهُوا فِيهِ فَاِنَّهُ رَبيعُ الْقُلوبِ،
اور قرآن میں غور کرو کیونکہ قرآن دلوں کی بہار ہے۔
اور حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:
وَ قَلْبُ شَهْرِ رَمَضان لَيْلَةُ الْقَدْرِ،
اور ماہ رمضان کا دل شب قدر ہے۔
بحارالانوار، ج96، ص386.
لہذا ماہ رمضان کی بہت ساری برکات، قرآن کریم کے سلسلے میں ہیں اور اس مہینہ میں قرآن کے نورانی احکام کو دلوں کے کھیت میں کاشت کرنا چاہیے تا کہ پروان چڑھیں اور قرآن کے پھَل کو اس مہینہ میں روح کی خوراک بنائیں اور اپنے دل کی قوت کو قرآن کی برکات کے سائے میں مضبوط کریں اور اس طرح فیضاب ہونا، قرآن سے حقیقی انس پانے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔
قرآن کریم سے مانوس ہونا:
انس، لفظی لحاظ سے وحشت (پریشانی) کا مخالف ہے۔
احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغة، ج 1، ص 145.
انسان کا کسی چیز سے انس پانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس چیز سے کسی قسم کی پریشانی اور اضطراب نہیں ہے اور اس کے ساتھ سکون پاتا ہے۔
حضرت امیر المومنین علی (ع) فرماتے ہیں:
مَنْ آنَسَ بِتَلاوَةِ الْقُرآنِ، لَمْ تُوحِشْهُ مُفارَقَةُ الاِخْوانِ،
جو شخص تلاوت قرآن سے مانوس ہو گیا تو، اسے دوستوں کی جدائی سے وحشت نہیں ہو گی۔
غرر الحکم، ح 8790.
امام سجاد (ع) اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
لَوْ ماتَ مِنْ بَيْنِ الْمَشْرِقِ وَالْمَغرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ، بَعْدَ اَنْ يَكُونَ الْقُرْآنُ مَعِي،
اگر تمام لوگ مشرق سے مغرب تک مر جائیں اور قرآن میرے ساتھ رہے، تو مجھے کوئی خوف نہیں ہو گا۔
تفسیر العیاشی، ج 1، ص 33، ح 23.
حقیقی عارف وہ ہے کہ جو خدا اور خدا کے کلام سے ایسا مانوس ہو جائے، جیسے حضرت امیر المومنین علی (ع) نے آیت:
يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ،
اے انسان تجھے رب کریم کے بارے میں کس شے نے دھوکہ میں رکھا ہے،
سورہ انفطار، آیت 6۔
کی وضاحت میں فرمایا:
وَكُنْ للّهِ مُطيعا وَ بِذِكْرِهِ آنِسا،
اللہ کے اطاعت گزار بن جاؤ اور اس کی یاد سے انس حاصل کرو۔
نهج البلاغه، خطبه223.
قرآن کریم سے مانوس ہونا، قرائت قرآن سے ہٹ کر ہے، اگرچہ قرائت انس کا مقدمہ ہے۔ قرآن کریم سے انس کی کچھ شرطیں ہیں کہ جن میں سے پہلی شرط قرآن سے محبت ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص عمر بھر قرآن کی قرائت کرے لیکن قرآن سے محبت نہ کرے۔
یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن زندہ حقیقت ہے، قرآن کریم سے انس یعنی انسان دن رات قرآن کا نظارہ کرے، اس کی زیارت کرے، اس کا بوسے لے، قرآن کو اپنے ساتھ رکھے اور لمحہ بھر اس سے غافل نہ ہو، اگر ایسا کرے گا تو قرآن کریم اپنا اثر دکھائے گا۔ یہ کام ہر عام آدمی کر سکتا ہے اور اس کام کی حد تک کا فیض حاصل کر سکتا ہے۔
ماہ رمضان، قرآن کی تجلی گاہ اور تلاوت قرآن کا موقع:
کیونکہ ماہ رمضان، نزو ل قرآن کا مہینہ، اللہ کا مہینہ اور تہذیب و تذکیہ کا مہینہ ہے اور قرآن جو اس مہینہ کی شب قدر میں نازل ہوا ہے، رسول خدا (ص) کے قلب مبارک پر نازل ہوا ہے،لہذا ماہ رمضان قرآن کی تجلی گاہ اور قرآن سے انس کا مہینہ ہے۔ روزے دار مؤمنین، اس مہینہ میں خداوند کریم کے مہمان ہیں اور قرآن کے بابرکت دسترخوان پر بیٹھے ہیں، لہذا تلاوت قرآن سے مانوس ہونا چاہیے اور قرآن کی آیات میں تدبر اور غور و خوض کرنے کے ذریعے قرآن کے مفاہیم سے فکری اور عملی فیض حاصل کرتے ہوئے، اپنے ملکوتی کمال میں اضافہ کرنا چاہیے۔
رسول خدا (ص) نے خطبہ شعبانیہ میں ارشاد فرمایا:
هُوَ شَهْرُ دُعِيتُمْ فيه اِلي ضِيافَةِ اللهِ ... وَ مَنْ تَلا فِيهِ آيَةً مِنَ الْقُرآنِ كانَ لَهُ مِثْلُ اَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرآنَ فِي غَيْرِهِ مِنَ الشّهُورِ،
ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے کہ جس میں تمہیں اللہ کی مہمانی کی دعوت دی گئی ہے… تم میں سے جو شخص اس مہینہ میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے، اس کا ثواب اس شخص کے برابر ہے کہ جو ماہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ختم قرآن کرے۔
عيون اخبار الرّضا، ج2، ص295.
ماہ رمضان کی دعاؤں میں قرآن کی تلاوت کا تذکرہ ہوا ہے۔ ماہ رمضان کی روزانہ کی دعائیں جو رسول اللہ (ص) سے نقل ہوئی ہیں، ان میں سے دوسرے دن کی دعا میں یہ فقرہ ہے:
اَللّهُمَّ وَفِقْني فِيهِ لِقَرائَةِ آياتِكَ،
خداوندا ! مجھے اِس دن میں اپنی آیات کی قرائت کی توفیق عطا فرما،
مفاتيح الجنان.
اور بیسویں دن کی دعا میں ہے:
اَللّهُمَّ وَفِّقْني فِيهِ لِتِلاوَةِ الْقُرآنِ،
خداوندا ! مجھے اِس دن میں تلاوت قرآن کی توفیق عطا فرما۔
مفاتيح الجنان.
قرآن سے مانوس ہونے کے ارکان:
1- آیات قرآن کی تلاوت:
رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں:
نَوِّروا بُیوتَکُم بِتِلاوَةِ القُرآنِ،
اپنے گھروں کو تلاوت قرآن کے ذریعے نورانی کرو۔
اصول کافی، ج 2 ص 610
2- تدبّر اور غور و خوض:
حضرت امیر المومنین علی (ع) فرماتے ہیں:
اَلا لا خَیرَ فی قِراءَةٍ لَیسَ فیها تَدَبُّرٌ،
آگاہ رہو کہ جس قرائت میں تدبّر نہ ہو، اس میں کوئی خیر (فائدہ) نہیں ہے۔
اصول کافی، ج 1 ص 36
3- قرآن کے دستورات پر عمل:
رسول اکرم (ص) کا ارشاد گرامی ہے:
و من قرء القرآن و لم يعمل به حشرہ الله يوم القيمة اعمى،
اور جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل نہ کرے، تو خداوند اسے قیامت کے دن اندھا محشور کرے گا۔
ثواب الأعمال، ج 1 ص 337
قرآن کے قاریوں کی اقسام:
القُرّاءُ ثلاثةٌ : قارئٌ قَرَأَ (القرآنَ) لِيَستَدِرَّ بهِ المُلوكَ و يَستَطيلَ بهِ علَى الناسِ فذاكَ مِن أهلِ النارِ، و قارئٌ قَرَأَ القرآنَ فَحَفِظَ حُروفَهُ و ضَيَّعَ حُدودَهُ فذاكَ مِن أهلِ النارِ ، و قارئٌ قَرَأَ (القرآنَ) فاستَتَرَ بهِ تَحتَ بُرنُسِهِ فهُو يَعمَلُ بمُحكَمِهِ و يُؤمِنُ بمُتَشابِهِهِ و يُقيمُ فَرائضَهُ و يُحِلُّ حَلالَهُ و يُحَرِّمُ حَرامَهُ فهذا مِمَّن يُنقِذُهُ اللّه ُ مِن مُضِلاّتِ الفِتَنِ و هُو مِن أهلِ الجَنّةِ و يُشَفَّعُ فيمَن شاءَ،
حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: قاری تین طرح کے ہیں:
وہ قاری جو قرآن پڑھتا ہے تا کہ اس ذریعے سے بادشاہوں سے فائدہ اٹھا سکے اور لوگوں پر فخر کرے، ایسا آدمی جہنمیوں میں سے ہے۔
اور وہ قاری جو قرآن پڑھتا ہے اور اس کے حروف کا خیال رکھتا ہے اور اس کے معانی کو چھوڑ دیتا ہے، یہ بھی جہنمیوں میں سے ہے۔
اور وہ قاری جو قرآن پڑھتا ہے اور اس کے ذریعے اپنی ٹوپی کے نیچے چھپ جاتا ہے اور اس کی محکم آیات پر عمل کرتا ہے اور اس کی متشابہ آیات پر ایمان لاتا ہے اور اس کے فرائض کو قائم کرتا ہے اور اس کے حلال کو، حلال اور حرام کو، حرام سمجھتا ہے، پس یہ (قاری) ان میں سے ہے جسے اللہ فتنہ کی گمراہیوں سے نجات دیتا ہے اور وہ جنتیوں میں سے ہے اور جس کی چاہے گا، وہ شفاعت کرے گا۔
الخصال، ص 143، 165
حضرت امام سجاد (ع) جب قرآن کریم کے آخر تک تلاوت کر لیتے، تو ایک دعا پڑھتے جس کا ایک فقرہ یہ ہے:
اَللّهُمَّ فَاِذا اَفَدْتَنَا الْمَعُونَةَ عَلي تِلاوَتِهِ وَ سَهَّلْتَ جَواسِيَ اَلْسِنَتِنا بِحُسْنِ عِبارَتِهِ، فَاجْعَلْنا مِمِّنْ يَرْعاهُ حَقّ رِعايَتِهِ،
خداوندا ! کیونکہ تو نے ہمیں اس کی تلاوت میں مدد فرمائی، اور تو نے ہماری زبانوں کی دشواری کو قرآن کی عبارت کی خوبصورتی کے ذریعہ آسان کر دیا، پس ہمیں ایسا قرار دے کہ قرآن کا ایسا خیال رکھیں جیسے اس کا خیال رکھنے کا حق ہے۔
صحيفہ سجاديہ، دعا 42
اہل بیت (ع) کا قرآن سے انس:
پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین (ع) قرآن سے بہت مانوس تھے، اور قرآن کریم کے ظاہری اور باطنی فیضان سے بہرہ مند ہوتے تھے، آیات قرآن کے صرف ظاہر کی تلاوت کرنے پر اکتفاء نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کی آیات میں تدبر اور غور بھی کیا کرتے تھے اور آیات کو آرام آرام سے پڑھتے تھے، دلکش آواز میں تلاوت کرتے اور اس کے معانی پر توجہ کرتے ہوئے، عمل کرنے کے ارادہ کے ساتھ پڑھتے تھے۔
1- حضرت امام حسین (ع) قرآن کریم سے اتنے مانوس تھے کہ کربلا میں نو محرم کے دن عصر کے وقت، جب دشمن آپ اور آپ کے اصحاب کے خیموں پر حملہ کرنا چاہتا تھا، تو آپ نے حضرت عباس (ع) سے فرمایا:
دشمنوں کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ آج رات ہمیں مہلت دیں کیونکہ:
هُوَ يَعْلَمُ اَنّي اُحِبُّ الصَّلاةَ لَهُ وَ تِلاوَةَ كِتابِهِ،
خدا جانتا ہے کہ میں اُس کے لیے نماز کو اور اس کی کتاب کی تلاوت کو پسند کرتا ہوں۔
ابن جرير طبري، تاريخ طبري، ج6، ص337
محدّث قمي، نفس المهموم، ص113.
2- حضرت امام زین العابدین (ع) جب سورہ حمد کی قرائت کرتے تو جب آیت مالِكِ يَومِ الدّين، تک پہنچتے، اس آیت کو خاص خضوع کے ساتھ اتنا دہراتے کہ آپ کی جان لب پر آنے کے قریب ہو جاتی تھی۔
اصول كافي، ج2، ص602 و616.
اور آنحضرت اتنی دلنواز اور پیاری آواز سے قرآن پڑھتے کہ جب سقّا (پانی پہنچانے والے) آپ کے گھر کے قریب سے گزرتے تو وہاں ٹھہر جاتے تا کہ آپ کی دلنشین آواز کو سنیں۔
اصول كافي، ج2، ص602 و616.
3- حضرت امام جعفر صادق (ع) آیات قرآن کی نماز میں خاص کیفیت کے ساتھ ایسے تلاوت کرتے تھے کہ اپنی عادی حالت سے باہر ہو جاتے۔ ایک دن یہی واقعہ ہوا، جب آپ معمولی حالت میں واپس پلٹ آئے تو حاضرین نے دریافت کیا:
یہ آپ کی کیسی کیفیت تھی ؟ آنحضرت نے فرمایا:
ما زِلْتُ اُكَرِّرُ آياتَ الْقُرْآنِ حَتّي بَلَغْتُ اِلي حالٍ كَاَنَّنِي سَمِعْتُها مُشافِهَةً مَمَّنْ اَنْزَلَها،
میں مسلسل آیاتِ قرآن کو دہراتا رہا یہاں تک کہ ایسی کیفیت میں پہنچا کہ گویا ان آیات کو براہ راست اس ذات سے سن رہا ہوں کہ جس ذات نے ان کو نازل کیا ہے۔
بحار الانوار، ج84، ص248.
4- حضرت امام رضا (ع) قرآن کریم سے اتنے مانوس تھے کہ ہر تین دنوں میں ایک بار پورے قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور فرماتے تھے:
اگر میں چاہوں کہ تین دن سے کم میں، قرآن کو ختم کروں تو کر سکتا ہوں، لیکن ہرگز میں نے کوئی آیت نہیں پڑھی مگر یہ کہ اس کے معنی میں غور کیا اور اس بارے میں کہ وہ آیت کس سلسلے میں اور کب نازل ہوئی ،غور کیا، لہذا ہر تین دنوں میں پورے قرآن کی تلاوت کرتا ہوں، ورنہ تین دن سے کم میں پورے قرآن کی تلاوت کر لیتا۔
مناقب آل ابي طالب، ج4، ص360.
5- قرآن کریم میں سینکڑوں بار يا اَيُّهَا الّذينَ آمَنُوا، اے صاحبان ایمان، کا جملہ ذکر ہوا ہے۔ حضرت امام علی رضا (ع) جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے، اس آیت پر پہنچتے اور اس کی تلاوت کرتے تو اچانک عرض کرتے:
لَبَّيْكَ اَللّهُمَّ لَبَّيْكَ،
قبول کرتا ہوں اے خداوندا (تیری دعوت کو) قبول کرتا ہوں۔
بحار الانوار، ج85، ص34.
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اہل بیت (ع) توجہ اور تدبر کے ساتھ، قرآن کی آیات کی تلاوت کیا کرتے تھے اور اسی وقت ارادہ کر لیتے تھے کہ خداوند کے فرامین پر عمل کریں۔
نتیجہ:
ماہ مبارک رمضان، قرآن کریم کی بہار ہے، قرآن سے مانوس ہوتے ہوئے اس مہینہ میں قرآن کریم کے معارف سے بھرپور فیض حاصل کرنا چاہیے۔ قرآن کے صرف ظاہری الفاظ کی قرائت نہ کی جائے، بلکہ قرائت کے علاوہ اس کے معانی اور گہرائیوں میں بھی غور و خوض کرنا چاہیے۔
اہل بیت (ع) قرآن سے بہت مانوس تھے اور ان کا قرآن کریم سے انس، تلاوت، تدبر اور غور کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔
ان حضرات کی سیرت ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے دستورات کی تعمیل بھی کرنی چاہیے۔
قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے نتائج:
رسول اكرم (ص):
مَن قَرَأَ القُرآنَ ابتِغاءَ وَجهِ اللّه و تَفَقُّهاً فِى الدّينِ كانَ لَهُ مِنَ الثَّوابِ مِثلَ جَميعِ ما اُعطِىَ المَلائِكَةُ و الأنبياءُ وَ المُرسَلونَ،
جو شخص اللہ کو راضی کرنے اور دین میں بصیرت حاصل کرنے کے لیے قرآن پڑھے تو تمام فرشتوں اور انبیاء اور مرسلین کو دیئے گئے، ثواب جیسا اس کے لیے ثواب ہو گا۔
وسائل الشيعه، ج6، ص184، ح7683
قرآن کریم کی فضیلت اور آداب تلاوت:
رسول اکرم (ص) کی وصیتوں میں سے ایک وصیت، تلاوت قرآن مجید کے بارے میں ہے۔ بعض روایات میں قاریوں کے درجات اور تلاوت کے ثواب کے بارے میں فرمایا ہے کہ :
جو صاحب ایمان جوانی میں قرآن کی تلاوت کرتا ہے، قرآن اس کے گوشت اور خون میں داخل ہو جاتا ہے اور خدا اس کو نیکو کاروں کے دستر خوان پر بٹھائے گا اور وہ آخرت میں قرآن کی پناہ میں ہو گا،
شرح چہل حدیث، ص 497
امام سجاد (ع) کی روایت ہے کہ:
قرآن ایک ایسا خزانہ ہے کہ جس کا جو حصہ بھی کھل جائے، وہی قابل دید اور لذت بخش ہے۔
اصول کافی، ج 2، ص 609، کتاب فضل القرآن
ایک اور روایت میں آپ (ع) تلاوت و تدبر کے درجات و مراتب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
اگر کوئی رات کو دس آیات تلاوت کرتا ہے تو وہ غافلین میں سے نہیں ہو گا اور اگر کوئی پچاس آیات کی تلاوت کرتا ہے تو وہ ذکر کرنے والوں میں سے ہو گا اور اگر کوئی دو سو آیات کی تلاوت کرتا ہے تو وہ خاشعین میں سے ہو گا۔
اصول کافی، ص 612
تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب:
قرآن کی عظمت کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ خالق متعال کا کلام ہے۔ اس کے مقام و منزلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے اور اس کی آیات انسانیت کی ہدایت اور سعادت کی ضمانت دیتی ہیں۔ قرآن ہر زمانے میں زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی راہنمائی کرتا ہے اور سعادت کی ضمانت دیتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن ہی کی زبان سے سن سکتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِيْ لِلَّتِی ھِي َاَقْوَمُ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے۔
سورہ بنی اسرائیل آیت 9
الٓرٰ کِتَابٌ اَنزَلنٰاہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلیَ النُّورِ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیْدِ،
(اے رسول یہ قرآن وہ) کتاب ہے جس کو ہم نے تمہارے پاس اس لیے نازل کیا تا کہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (کفر کی) تاریکی سے (ایمان کی) روشنی میں نکال لاؤ۔ غرض اسکی راہ پر لاؤ جو غالب اور سزا وارِ حمد ہے۔
سورہ ابراہیم آیت 1
ھَذٰا بَیانٌ لّلِنَّاسِ وَھُدیً وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِینَ۔
یہ (جو ہم نے کہا) عام لوگوں کے لیے تو صرف بیان (واقعہ) ہے (مگر) اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت ہے۔
سورہ آل عمران آیت 138
اس سلسلے میں رسول اکرم (ص) سے بھی روایت منقول ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:
کلام خدا کو دوسروں کے کلام پر وہی فوقیت اور فضیلت حاصل ہے کہ جو خود ذات باری تعالیٰ کو باقی مخلوقات پر ہے۔
بحار الانوار ج 19 ص 234
رسول اکرم (ص) جنہوں نے قرآن کو انسانیت کے سامنے پیش کیا اور اس کے احکام کی طرف دعوت دی، وہی رسول اکرم جو قرآنی تعلیمات اور اس کے حقائق کے ناشر ہیں، آپ قرآن سے اپنے اہل بیت (ع) کا تعلق یوں بیان فرماتے ہیں:
اِنِّیِ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقْلَیْنِ کَتَابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتِي أَھْلَ بَیتِي وَاَنّھُما لَن تَضِلُّ و لن یَفتَرِقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَيَّ الحَوْض،
میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت و اہل بیت اور یہ ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہونگے حتیٰ کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے۔
ترمذی، ج 13 ص 200، 201 ، باب مناقب اہل بیت۔
پس اہل بیت اور عترت پیغمبر ہی ہیں کہ جو قرآن کے راہنما اور اس کی فضیلتوں سے مکمل آگاہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم انہی کے اقوال پر اکتفاء کریں اور انہی کے ارشادات سے مستفیض ہوں۔
قرآن کی فضیلت میں بہت سی احادیث ائمہ اطہار (ع) سے منقول ہیں، جنہیں علامہ مجلسی مرحوم نے کتاب بحار الانوار کی جلد نمبر 16 میں یکجا نقل فرمایا ہے۔ البتہ ہم صرف چند احادیث پر اکتفاء کرتے ہیں:
حارث ہمدانی فرماتے ہیں: میں مسجد میں داخل ہوا اور دیکھا کہ کچھ لوگ بعض (بے فائدہ) باتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ میں امیر المؤمنین علی (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ آپ کے سامنے بیان کر دیا۔
آپ نے فرمایا: واقعاً ایسا ہی ہے ؟ میں نے عرض کیا، ہاں اے میرے مولا۔ آپ نے فرمایا: اے حارث ! میں نے رسول اکرم (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
عنقریب فتنے برپا ہوں گے۔ میں نے عرض کیا مولا ! ان فتنوں سے نجات حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟ آپ نے فرمایا: راہِ نجات کتاب الہی ہے۔ وہی کتاب جس میں گزشتہ اور آنے والی نسلوں کے واقعات اور خبریں اور تم لوگوں کے اختلافی مسائل کے فیصلے موجود ہیں۔ وہی کتاب جو حق کو باطل سے با آسانی تمیز دے سکتی ہے۔ اس میں مذاق اور شوخی کا کوئی پہلو نہیں۔ وہی کتاب جس کو اگر جابر و ظالم بادشاہ بھی ترک اور نظر انداز کرے، خدا اس کی کمر توڑ دیتا ہے۔ جو شخص غیرِ قرآن سے ہدایت حاصل کرنا چاہے، خالق اسے گمراہ کر دیتا ہے۔
یہ (قرآن) خدا کی مضبوط رسی اور حکمت آمیز ذکر ہے۔ یہ صراط مستقیم ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی منحرف نہیں کر سکتیں۔ قرآن کی بدولت زبانیں غلطیوں سے محفوظ رہی ہیں۔
علماء اور دانشور اسے پڑھنے اور اس میں فکر کرنے سے سیر نہیں ہوتے۔ زمانے کے گزرنے کے ساتھ یہ پرانی اور فرسودہ نہیں ہوتی اور نہ اس کے عجائبات ختم ہونے میں آتے ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جسے سن کر جن یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب و غریب قرآن سنا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے کہ جو بھی اس کی زبان میں بولے، صادق ہی ہو گا اور جو قرآن کی روشنی میں فیصلے کرے گا، یقینا عادل ہو گا۔ جو قرآن پر عمل کرے، وہ ماجور ہو گا، جو قرآن (احکام قرآن) کی طرف دعوت دے وہ صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے اس کے بعد امیر المؤمنین نے حارث ہمدانی سے فرمایا: حارث ! اس حدیث کو لے لو اور یاد رکھو۔
سنن دارمی، ج 2 ص 435
صحیح ترمذی، ج 11 ص 30
بحار الانوار ج 9، ص 7
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:
اِنَّ الْقُرآن حيٌلَمْ یُمُتْ، وَاِنَّہُ یَجْري کَمٰا یَجْري اللَّیْلُ وَالنَّھٰارُ، وَکَمٰا تَجْري الشَّمْسُ، وَیَجْري عَلَیٌ آخِرِنٰا کَمٰا یَجْري عَلَیٰ اَوَّلِنٰا۔
قرآن زندہ و جاوید ہے، اسے موت نہیں آ سکتی، دن اور رات کی طرح یہ بھی چلتا رہے گا اور سورج اور چاند کی طرح ہر دور میں ضوء فشانی کرتا رہے گا۔
بحار الانوار، ج 19 ص 6
اصول کافی میں ہے جب عمر ابن یزید نے امام جعفر صادق (ع) سے آیت کریمہ:
وَ الذیِنَ یَصِلونَ مَا امَرَ اللّٰہ ُ بِہ اَن یُّوْصَلَ،
کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:
ھٰذِہ نَزَلَتْ فیْ رَحِمِ آلِ مُحَمَّد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلہِ وَقَدْ تَکُوْنُ فی قَرٰابَتِکَ، فَلٰاَ تَکُوَنَنَّ مِمَّنْ یَقُوْلُ لِلشَّیٍ اِنَّہُ فی شَيْءٍ وٰاحِد۔
یہ آیت کریمہ ہم آل محمد کے بارے میں نازل ہوئی ہے، لیکن یہی آیہ شریفہ تمہارے قریبی رشتہ داروں پر منطبق ہو سکتی ہے، تم ان لوگوں میں سے نہ بنو جو ایک خاص مقام اور چیز پر نازل شدہ آیت کو اس مقام اور چیز سے مختص کر دیتے ہیں۔
تفسیر فرات میں ہے:
و لو ان الآیة اذا نزلت فی قوم ثم مات اولئک ماتت الآیة لما بقي من القرآن شيء ولکن القرآن یجري اولہ علی آخرہ ما دامت السماوات والارض ولکل قومٍ آیة یتلوھا ھم منھا من خیرا واشر۔
اگر کسی قوم پر کوئی آیت نازل ہو پھر وہ قوم مر جائے اور اس قوم کے ساتھ آیت بھی مر جائے تو قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہ جائے مگر ایسا نہیں جب تک آسمان اور زمین موجود ہیں، گزشتہ لوگوں کی طرح آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اس کی ہدایت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اور قرآن میں ہر قوم و ملت کے بارے میں ایک آیت موجود ہے جس میں ان کی اچھی یا برُی سر نوشت و تقدیر اور انجام کا ذکر ہے۔
تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب:
قرآن وہ آسمانی قانون اور ناموس الہیٰ ہے جو لوگوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ضمانت دیتا ہے۔ قرآن کی ہر آیت ہدایت کا سرچشمہ اور رحمت و راہنمائی کی کان و معدن ہے۔ جو بھی ابدی سعادت اور دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کا آرزو مند ہے، اسے چاہیے کہ شب و روز قرآن کریم سے عہد و پیمان باندھے، اس کی آیات کریمہ کو اپنے حافظہ میں جگہ دے اور انہیں اپنی فکر اور مزاج میں شامل کرے تا کہ ہمیشہ کی کامیابی اور ختم نہ ہونے والی تجارت کی طرف قدم بڑھا سکے۔
قرآن کی فضیلت میں ائمہ علیہم السلام اور ان کے جد امجد سے بہت سی روایات منقول ہیں، امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
قاَلَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من قٰرأ عَشَرَ آیاتٍ فی لَیْلَةٍ لَمْ یَکْتُب مِنَ الْغٰافلین وَمَنْ قَرأَ خَمْسْینَ آیَةً کُتِبَ مِنَ الذّٰکِرینَ وَمَنْ قَرأَمِاَئةَ آیةًکُتِبَ مِنَ القٰانِتینَ وَمَنْ قَرءَ مَائَتَیْ آیةً کُتِبَ مِنَ الخٰاشِعین ومن قرأ ثَلٰثَمِائَةَ آیةً کُتِبَ من الفٰائِزینَ وَمَنْ قَرأَ خَمْسَمِائَةُ آیةً کُتِبَ مِنَ المُجْتَھدِینَ وَمَنْ قَرأَ اَلَفَ آیةً کُتِبَ لَہُ قِنْطٰارٌ مِنْ تَبَرٍ۔
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: جو شخص رات کو دس آیات کی تلاوت کرے اس کا نام غافلین (جو یاد خدا سے بے بہرہ رہتے ہیں) میں نہیں لکھا جائے گا،
اور جو شخص پچاس آیات کی تلاوت کرے اس کا نام ذاکرین (جو خدا کو یاد کرتے ہیں۔ حرام و حلال کا خیال رکھتے ہیں) میں لکھا جائے گا،
اور جو شخص سو آیات کی تلاوت کرے اس کا نام قانتین(عبادت گزاروں) میں لکھا جائے گا،
اور جو شخص دو سو آیات کی تلاوت کرے اس کا نام خاشعین (جو خدا کے سامنے متواضع ہوں) میں لکھا جائے گا،
اور جو شخص تین سو آیات کی تلاوت کرے اس کا نام سعادت مندوں میں لکھا جائے گا،
جو شخص پانچ سو آیات کی تلاوت کرے اس کا نام عبادت اور پرستش خدا کی کوشش کرنے والوں میں لکھا جائیگا،
اور جو شخص ہزار آیات کی تلاوت کرے، وہ ایسا ہے جیسے اس نے کثیر مقدار میں سونا راہِ خدا میں دے دیا ہو۔
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:
اَلْقُرٰانُ عَھْدُ اللّٰہ اِلٰی خَلْقِہ، فَقَدْ یَنْبغَي لْلِمَرءِ المُسْلِمِ اَنْ یَنْظُرَ فی عَھْدِہِ، وَاَنْ یَقْرأ مِنْہُ فی کُلِّ یَوْمٍ خَمْسینَ آیةً۔
قرآن خداوند کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک عہد و میثاق ہے، مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنا عہد نامہ غور سے پڑھے اور روزانہ پچاس آیات کی تلاوت کرے۔
آپ نے مزید فرمایا:
مٰا یَمْنَع التّٰاجِر مِنْکُمْ الَمَشْغُولُ فی سُوْقِہِ اِذٰا رَجَعَ اِلیٰ مَنْزِلِہِ اَنْ لاٰ یَنٰامُ حَتّٰی یَقْرَأَ سورةً مِنَ الْقُرآنِ فَیُکْتَبُ لَہُ مکانَ کُلِّ آیةٍ یَقْرَأھٰا عشر حسنات ویمحی عنہ عَشَرَ سیّئات۔
جب تمہارے تاجر اپنی تجارت اور کاروبار سے فارغ ہو کر گھر واپس لوٹتے ہیں، تو سونے سے پہلے ایک سورہ کی تلاوت سے کونسی چیز ان کے لیے مانع اور رکاوٹ بنتی ہے (کیوں تلاوت نہیں کرتے ) تا کہ ہر آیت کے بدلے اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں اور اس کے نامہ اعمال میں سے دس برائیاں مٹا دی جائیں۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا:
عَلَیْکُمْ بِتِلٰاِوَةِ القُرْآن، فَاِنَّ دَرَجٰاتُ الجَنَّةِ عَلٰی عَدَدِ آیاتِ القُرْآن، فَاِذٰاکٰانَ یَوْمَ القِیٰامَةِ یُقٰالُ لِقٰارِی الْقُرآنَ اِقْرَأْ وَاِرْقِ، فَکُلَّمٰا قَرَأَ آیَةً رَقَیٰ دَرَجَةً۔
قرآن کی تلاوت ضرور کیا کرو (اس لیے کہ) آیات قرآن کی تعداد کے مطابق جنت کے درجات ہوں گے۔ جب قیامت کا دن ہو گا تو قاری قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جاؤ اور اپنے درجات بلند کرتے جاؤ۔ پھر وہ جیسے جیسے آیات کی تلاوت کرے گا، اس کے درجات بلند ہوتے چلیں جائیں گے۔
ایک حدیث یہ ہے:
اسحاق ابن عمار نے امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں عرض کیا:
جُعْلتُ فِدٰاکَ اِنّي اَحْفَظُ الْقُرْآنَ عَنْ ظَھْرِ قَلْبي فَاْقرأُہُ عَنْ ظَھْرَ قَلْبِي اَفْضَلُ اَوْ اُنْظُرُ فی الْمُصْحَفِ قٰاَل: فَقٰالَ لِي لَاٰ بَلْ اقرأَہُ وَانْظُر فی الْمُصْحَفِ فَھُوَ افْضَلُ اَمٰا عَلِمْتَ اِنَ النَّظُرَ فی الْمُصْحَفِ عِبٰادَةٌ۔ مِنْ قرا القُرْآنَ فی المُصْحَفِ مَتَّعَ بِبَصَرِہِ وَخَفَّفَ عَنْ وٰالِدَیْہِ وَاِنَ کٰانا کافِرین۔
میری جان آپ پر نثار ہو، میں نے قرآن حفظ کر لیا ہے اور زبانی ہی اس کی تلاوت کرتا ہوں، یہی بہتر ہے یا یہ کہ قرآن دیکھ کے تلاوت کروں ؟ آپ نے فرمایا: قرآن دیکھ کے تلاوت کیا کرو یہ بہتر ہے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ قرآن کو دیکھنا عبادت ہے، جو شخص قرآن میں دیکھ کے اس کی تلاوت کرے، اس کی آنکھ مستفید اور مستفیض ہوتی ہے اور اس کے والدین کے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے۔ اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔
گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکور ہیں:
اِنَّ الْبَیْتَ الَّذي یُقْرَأ فِیہ الْقُرْآنُ وَیُذْکَرُ اللّٰہُ تَعٰالی فیْہ تَکْثُرُ بَرَکَتُہُ وَتَحْضُرُہُ الْمَلاٰئِکَةِ، وَتَھْجُرُہْ الشِّیاطینَ وَیُضِيٴُ لِاَھْلِ السَّمٰاءِ کَمٰا یُضِيٴُ الْکَوْکَبُ الدُّري لِاَھْلِ الْاَرْضِ وَانَّ الْبَیْتَ الَّذي لٰاَ یَقُرأُ فِیہِ الْقُرْآنُ وَلٰا یُذْکِرُ اللّٰہُ تَعٰالٰی فِیہِ تَقِلُّ بَرَکَتہُ وَتَھْجُرُہُ اْلمَلاٰئِکَةِ وَتَحْضُرو الشَیٰاطین۔
وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہو اور ذکرِ خدا کیا جاتا ہو:
اس کی برکتوں میں اضافہ ہوتا ہے،
اس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے،
شیاطین اس گھر کو ترک کر دیتے ہیں،
اور یہ گھر آسمان والوں کو روشن نظر آتے ہیں، جس طرح آسمان کے ستارے اہل زمین کو نور بخشتے ہیں۔
اور وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی اور ذکر خدا نہیں ہوتا:
اس میں برکت کم ہوتی ہے،
فرشتے اسے ترک کر دیتے ہیں،
اور ان میں شیاطین بس جاتے ہیں۔
اصول کافی۔ کتاب فضل القرآن۔
وسائل طبة عین الدولہ۔ ج 1 ص 370
قرآن کی فضیلت اور وہ عزت و تکریم کہ جن سے خداوند قاری قرآن کو نوازتا ہے، روایات میں اتنی زیادہ ہے کہ جس سے عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں۔ رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
مَنْ قَرَء َحَرْفاً مِنْ کِتٰابِ اللّٰہِ تَعٰالیٰ فَلَہُ حَسَنَةً وَالْحَسَنَةُ بِعَشَرِ اَمُثٰالِھٰا لا اَقُولُ ”الم“ حَرَفٌ وَلٰکِنْ اَلِفْ حَرْفٌ وَلاٰمُ حَرْفٌ وَمیمُ حَرْفٌ۔
جو شخص کتاب الہی کے ایک حرف کی تلاوت کرے، اس کے اعمال میں ایک حسنہ اور نیکی لکھی جاتی ہے اور ہر حسنہ کا دس گنا ثواب ملتا ہے (اس کے بعد آپ نے فرمایا) میں یہ نہیں کہتا کہ الم یہ ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے ل دوسرا حرف ہے اور م تیسرا حرف ہے۔
اصول کافی کتاب فضل القرآن۔
قرآن میں غور و فکر اور اسکی تفسیر:
قرآن مجید اور صحیح روایات میں معانی قرآن کے سمجھنے اور اس کے مقاصد و اہداف میں فکر کی سخت تاکید کی گئی ہے، خداوند کا ارشاد ہے:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا،
تو کیا یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی) غور نہیں کرتے یا (انکے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔
سورہ محمد (ص)، آیت 47
اس آیہ کریمہ میں قرآن میں غور نہ کرنے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ ابن عباس نے رسول اکرم (ص) سے نقل کیا ہے، آنحضرت نے فرمایا:
اِعْرَبُوا الْقُرْآن اِلْتَمِسُوا غَراٰئِبَہ
قرآن کو بلند آواز سے پڑھا کرو اور اس کے عجائبات اور باریکیوں میں غور و خوض کیا کرو۔
تفسیر قرطبی، ذیل آیت،
الکافی کتاب فضل القرآن۔
ایک دن امیر المؤمنین نے لوگوں کے سامنے جابر ابن عبد اللہ انصاری کی تعریف کی تو کسی نے کہا: مولا ! آپ جابر کی تعریف کر رہے ہیں ! آپ نے فرمایا:
تمہیں معلوم نہیں جابر ابن عبد اللہ انصاری آیہ کریمہ:
اِنَ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدَّکَ اِلٰی مَعَادٍ،
کی تفسیر سمجھتے تھے۔
تفسیر قرطبی، ج 1 ص 78
الکافی کتاب فضل القرآن۔
زہری نے امام زین العابدین (ع) سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:
آیٰاتُ الْقُرْآنِ خَزٰائِنٌ فَکُلَّمٰا فُتِحَتْ خَزینَةٌ ینَبْغَي لَکَ اَنْ تَنْظُرَ مٰا فِیھٰا۔
قرآن کی آیات خزانے ہیں، جب بھی کوئی خزانہ کھولا جائے تو اس میں موجود موتیوں اور جواہرات کو ضرور دیکھا کرو (تلاش کیا کرو)۔
اصول الکافی، کتاب فضل القرآن۔
قرآن کریم کی تلاوت کے آداب:
سب سے زیادہ پاکیزہ کتاب قرآن کریم، ایک پاکیزہ ترین ذات کی طرف سے، پاکیزہ ترین قلب پر نازل ہوئی۔ اسی وجہ سے صرف وہ لوگ قرآن کریم کے قریب جا سکتے ہیں، جو ظاہری اور باطنی اعتبار سے پاک و پاکیزہ ہوں۔
انہ لقرآن کریم، فی کتاب مکنون، لا یمسہ الا المطھرون،
سورہ واقعه آيت 77، 78، 79
جسم کی طہارت:
قرآن کریم کو مس کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ جسم پاک ہو، فقہاء کے مطابق قرآن کریم کے خط کو مس کرنا یعنی بدن کے کسی حصے کو قرآن کے الفاظ تک پہنچانا، بغیر وضو کے حرام ہے۔
وضو ایسی چیز ہے جس کو انجام دینے سے ہمارا ذہن تمام خیالات سے خالی ہو جاتا ہے اور صرف معنوی افکار ہمارے ذہن میں حاوی ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ امام صادق (ع) نے وضو کی معنوی کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
جب وضو کرنے کا ارادہ کرو اور پانی کے نزدیک جاؤ تو اس شخص کی طرح ہو جاؤ جو پروردگار عالم کی رحمت کے قریب ہونا چاہتا ہے، اس لیے کہ خداوند نے پانی کو اپنے قریب کرنے اور مناجات کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
زبان اور منہ کی طہارت:
زبان کی پاکیزگی اور طہارت کے بارے میں آئمہ معصومین علیہم السلام سے چند حدیثیں نقل ہوئی ہیں :
امام صادق (ع) نے فرمایا: پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:
قرآن کے راستے کو پاکیزہ رکھیں۔
پوچھا: اے رسول خدا قرآن کا راستہ کون سا ہے ؟
فرمایا: آپ کے منہ۔
پوچھا: کیسے پاکیزہ رکھیں۔
فرمایا: مسواک کے ذریعے۔
مصباح الشریعه، باب دهم.
امام رضا (ع) نے اپنے آباء و اجداد کے ذریعہ رسول خدا (ص) سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا:
آپ کی زبانیں کلام الہی کا راستہ ہیں انہیں پاکیزہ رکھیں۔
الحیات، ج 2 ص 161، 162
وہ زبان جو غیبت، تہمت، جھوٹ جیسے گناہان کبیرہ سے آلودہ ہو ۔
وہ زبان جو حرام کھانوں کا مزہ لیتی رہی ہو۔
وہ زبان جو دوسروں کی دل شکنی کا سبب بنی ہو۔
وہ زبان جس کے شر سے دوسرے مسلمان ہمیشہ اذیت میں ہوں۔
کیسے پاک کلام الہی اس پر جاری ہو سکتا ہے ؟
جی ہاں، اس پاکیزہ کلام کی تلاوت کے لیے زبان کی پاکیزگی ضروری ہے، ورنہ صاف پانی بھی ایک گندی نالی میں گندا ہو جاتا ہے اور استعمال کے قابل نہیں رہتا اور اگر قرآن کریم ناپاک زبان پر جاری ہو گا تو :
رب تال القرآن و القرآن یلعنہ،
کتنے ایسے قرآن کی تلاوت کرنے والے ہیں کہ جن پر قرآن لعنت کرتا ہے۔
الحیات، ج 2 ص 161، 162
کا مصداق بن جائے گا۔
آنکھ کی طہارت:
رسول اسلام (ص) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:
اعط العین حقھا۔
آنکھ کا حق ادا کرو۔
عرض کیا گیا یا رسول اللہ آنکھ کا حق کیا ہے ؟
فرمایا: النظر الی المصحف،
قرآن پر نگاہ کرنا۔
اس لیے کہ قرآن کریم کی دیکھ کر تلاوت کرنا، ثواب رکھتا ہے اور اگر آنکھ آلودہ ہو ناپاک ہو تو قرآن پر نگاہ کرنے کی توفیق حاصل نہیں کرے گی ۔
مستدرک الوسائل ج 1 ص 291
روح کی طہارت:
وہ ناپاک روح جو شیطانی وسوسوں میں اسیر ہو، جو اپنی طہارت اور پاکیزگی کو کھو چکی ہو، جو مادیات کے ساتھ اس قدر وابستہ ہو کہ اس سے منہ پھیرنا محال ہو چکا ہو، جو گناہوں کی آلودگی سے کثیف ہو چکی ہو، وہ قرآن پاک کی معنویت اور اس کے نورانی پیغام کو کیسے ادراک کر سکتی ہے ؟
لیکن پاکیزہ روح جس کا مادیات کے ساتھ کوئی سروکار نہ ہو، جس نے خود سازی کے ذریعے اپنی پاکیزگی کو محفوظ رکھا ہو۔
جس نے آثار کبرائی میں تفکر و تدبر کے ذریعے شیطانی وسواس اور شرک آلود افکار سے کنارہ کشی اختیار کی ہو۔
ایسی پاک و پاکیزہ روح تلاوت قرآن کے دوران قرآن کی معنویت اور نورانیت سے لطف اندوز ہوتی ہے اور اس سے معنوی غذا حاصل کرتی ہے۔
باقی اعضائے بدن کی طہارت:
آیت اللہ جوادی آملی کے بقول:
کان، آنکھ ہاتھ اور دیگر اعضاء بھی قرآن کریم کے ادراک کے راستے ہیں ۔
آداب قرآن، مہدى مشایخى، ص 104
وہ کان جو قرآن کی دلربا آواز کو سنتا ہے اور اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، وہ کان جو قرآن کا مخاطب واقع ہوتا ہے لیکن ایک کان سے سن کر دوسرے سے باہر نکال دیتا ہے، وہ کان جو غیبت، تہمت وغیرہ سن کر لذت کا احساس کرتا ہے، ایسا کان پاکیزہ نہیں ہے۔ قرآن کی تلاوت کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
وہ ہاتھ جو دوسروں کا مال لوٹنے کا عادی رہا ہے، وہ ہاتھ جس سے دوسروں پر ظلم ہوتا رہا ہے، وہ قرآن کریم کو کیسے مس کر سکتا ہے:
لا یمسہ الا المطہرون، (سورہ واقعہ آیت 79)
آداب قرآن، مہدى مشایخى، ص 104
لہذا ضروری ہے کہ قرآن کریم کی حقیقت اور اس کے ظاہر اور باطن کو ادراک کرنے کے لیے، بدن کے تمام اعضاء پاکیزہ ہوں، تا کہ قرآن کی نورانیت اس پر اثر کر سکے۔
جسم کی ظاہری طہارت تو بہت آسان ہے، ایک نیت اور چند چلو پانی سے بدن کو ظاہری طور پر پاک کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد ظاہر قرآن کو لمس کیا جا سکتا ہے، لیکن باطن قرآن کو سمجھنے کے لیے بدن کی باطنی طہارت شرط ہے اور باطنی طہارت اور پاکیزگی کا حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
تلاوت قرآن کو سننے کے آداب:
سزاوار ہے کہ قرآن کریم کی جب تلاوت ہو رہی ہو تو انسان سکوت اور خاموشی اختیار کرے اور توجہ کے ساتھ اسے سنے۔
اپنے دل سے کلام الہی کا احترام کرے۔
اللہ کے کلام کو سننے کے لیے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرے۔
آیات قرآن پر تدبر اور تفکر کرے۔
آیات قرآن کے معانی کو اپنے وجود کے اندر محسوس کرے۔
اور روح کو اس نورانی کلام سے جلا بخشے۔
امالى صدوق، ص 179
الحیات ج 2 ص 171
حفظ قرآن کے آداب:
1- بچوں کو بچپنے سے حفظ قرآن کی عادت ڈالنی چاہیے۔
2- حفظ کرنے سے پہلے قرآن، اچھے طریقے سے پڑھنا آنا چاہیے۔
3- آیات کو عربی لب و لہجہ میں تلاوت کیا جائے اور حفظ کے ساتھ ساتھ اس مفہوم سے آشنائی بھی حاصل کی جائے۔
4- ترتیل کو سیکھا جائے اور ترتیل کے طریقہ سے قرآن کو حفظ کیا جائے۔
5- حفظ کے دوران ایک جلد اور ایک معین خط سے قرآن یاد کیا جائے۔
6- روزانہ آدھا گھنٹہ مشق کی جائے اور کم کم کر کے اس میں اضافہ کیا جائے۔
7- ایک معین وقت میں مثال کے طور پر ہر روز صبح سات بجے حفظ کیا جائے۔
8- حفظ چھوٹے سوروں سے آغاز کیا جانا چاہیے۔
9- غصہ، بھوک و پیاس کی حالت میں قرآن کو حفظ نہیں کرنا چاہیے۔
10- آیات کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ آیات کے نمبر اور صفحات بھی ذہن میں رکھے جائیں۔
11- حفظ قرآن روزانہ تکرار کا محتاج ہے۔
12- سفر میں زیادہ تکرار کیا جا سکتا ہے۔
13- حفظ کے لیے ترجمہ شدہ قرآن سے استفادہ نہ کریں۔
14- لمبے سوروں کو تھوڑا تھوڑا کر کے حفظ کیا جائے۔
15- دو آدمی مل کر مباحثہ کی صورت میں جلدی اور آسانی سے حفظ کر سکتے ہیں۔
قرآن کریم کی تلاوت کے آثار:
1- قلبی و باطنی نورانیت:
عن رسول اللہ (ص) : ان ھذہ القلوب تصدا کالحدید ۔ قیل: یا رسول اللہ فما جلاء ھا ؟
قال: تلاوۃ القرآن۔
رسول خدا (ص) نے فرمایا: ان دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہے کو زنگ لگتا ہے۔ کہا گیا : یا رسول اللہ ان کو کیسے جِلا دیں ؟ فرمایا: تلاوت قرآن سے۔
الحیاه، ج 2 ص 172
عن امیر المومنین: انّ اللہ سبحانہ لم یعظ احدا بمثل ھذا القرآن ، فانہ حبل اللہ المتین و سببہ الامین و فیہ ربیع القلب و ینابیع العلم و ما للقلب جلاء غیرہ۔
خداوند نے قرآن کریم کی حد تک کسی چیز کو بھی نصیحت کے ذریعہ نہیں دیا۔ اس لیے کہ قرآن، اللہ کی مضبوط رسی اور اطمینان بخش دستاویز ہے، اس میں دلوں کی بہار ہے اور علم کے چشمے ہیں،لہذا قرآن کے علاوہ دلوں کو جِلا دینے والی کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔
نھج البلاغہ
2- حافظے کا قوی ہونا:
روایات میں ہے کہ قرآن کو دیکھ کر تلاوت کرنے سے انسان کے حافظے میں اضافہ اور حافظہ قوی ہوتا ہے، خاص طور پر آیت الکرسی کی تلاوت کرنے سے انسان کا حافظہ قوی اور پختہ ہوتا ہے۔
3- اہل خانہ کے درمیان معنویت کا پیدا ہونا:
عن رسول اللہ (ص): ما اجتمع قوم فی بیت من بیوت اللہ یتلون کتاب اللہ و یتدارسونہ بینھم الاّ نزلت علیھم السکینۃ و غشیتھم الرحمہ و حفتھم الملائکۃ۔
کوئی گروہ کسی گھر میں تلاوت قرآن کرنے اور ایک دوسرے کو درس قرآن دینےکے لیے جمع نہیں ہو گا، مگر خداوند انہیں اطمینان اور سکون عطا کرے گا اور ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے گا۔
4- سعہ صدر اور وسعت رزق:
قال النبی (ص) : نوروا بیوتکم بتلاوۃ القرآن فان لبیت اذا کثر فیہ تلاوۃ القرآن کثر خیرہ و امتع اہلہ۔
اپنے گھروں کو تلاوت قرآن سے منور کرو، اس لیے کہ وہ گھر جن میں تلاوت قرآن کثرت سے ہوتی ہے، خداوند اس گھر پر اپنی نعمتوں اور برکتوں کی فراوانی کر دیتا ہے۔
عن علی (ع): افضل الذکر القرآن بہ تشرح الصدور و تستنیر السرائر۔
بہترین ذکر قران ہے، قرآن کے ذریعے اپنے سینوں میں فراخ دلی پیدا کرو اور اپنے باطن کو نورانی کرو۔
5- مشکلات کا مقابلہ کرنے پر قدرت اور اللہ پر بھروسہ،
قرآن مجید کی قرائت کے باطنی آداب سے کیا مراد ہے ؟
چونکہ قرآن مجید، پیغمبر اسلام (ص) کا لا فانی معجزہ اور خداوند کا کلام ہے، اس لیے صدر اسلام سے مسلمانوں کے درمیان خاص احترام و قدر و منزلت کا حامل رہا ہے۔
قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر اسلام (ص) کی احادیث کی رو سے، مسلمان اس آسمانی کتاب کی قرائت کے سلسلہ میں بھی خاص اور اپنی نوعیت کے شرائط اور آداب کی رعایت کرتے رہے ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کے سلسلہ میں اس قسم کے آداب، اس آسمانی کتاب کی تلاوت کے ظاہری آداب شمار ہوتے ہیں، لیکن چونکہ روایات کے مطابق قرآن مجید کا ایک ظاہر اور کئی باطن ہیں، اس لیے اس کی قرائت کے آداب بھی کئی ظاہری اور باطنی آداب پر مشتمل ہیں، یہ ایک ایسا امر ہے جس کے بارے میں قرآن مجید کی بعض آیات اور پیغمبر اسلام (ص) اور ائمہ اطہار (ع) کی روایات میں بخوبی اشارہ کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت کے آداب کو ظاہری اور معنوی یا باطنی آداب میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ظاہری آداب کے سلسلہ میں کچھ مقدمات اور شرائط کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
تلاوت قرآن مجید کے باطنی آداب:
خود قرآن مجید کی آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کو یوں تاکید کی ہے کہ قرآن مجید کو ترتیل اور سنجیدگی کے ساتھ پڑھنا چاہیے، اس بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ
اور قرآن کو ترتیل ( ٹہر ٹہر کر آرام سے اور ترتیب و سنجیدگی ) کے ساتھ پڑھو۔
سورہ مزمل آیت 4
ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ:
اور جن لوگوں کو ہم نے قرآن دیا ہے وہ اس کی با قاعدہ تلاوت کرتے ہیں اور انہیں اس پر ایمان بھی ہے اور جو اس کا انکار کرے گا، اس کا شمار خسارہ والوں میں ہو گا۔
سورہ بقره، آیت 121
یہ دو آیات اور اس بارے میں نقل کی گئی روایات ، تلاوت قرآن کے ظاہری آداب کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں اور قرآن مجید کی تلاوت کے باطنی آداب کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 121 کے ذیل میں نقل کی گئی ایک حدیث میں آیا ہے کہ امام صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ:
جو لوگ قرآن مجید کی تلاوت کے حق کے مطابق تلاوت کرتے ہیں، وہ ہم اہل بیت (ع) ہیں۔
کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج1، ص 215،
حقیقت میں امام صادق (ع) نے تلاوت کرنے والوں کا حقیقی مصداق بیان کیا ہے۔ ممکن ہے بہت سے مؤمن قرآن مجید کی تلاوت کے ظاہری اور باطنی آداب کی رعایت کرنے کے نتیجہ میں قرآن مجید کے حقیقی قاریوں کے مقام پر پہنچ جائیں، اس لیے آیہ شریفہ:
كِتابٌ أَنْزَلْناهُ إِلَيْكَ مُبارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آياتِه،
سورۀ ص، آیت 29
کو بیان کرتے ہوئے ہمارے چھٹے امام (ع) فرماتے ہیں:
اس کا مراد یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات کو دقت کے ساتھ پڑھیں اور اس کے حقائق کو سمجھ لیں اور اس کے احکام پر عمل کریں،
اور اس کے وعدوں کے بارے میں پر امید رہیں اور اس کے انتباہات سے ڈریں، اس کی داستانوں سے عبرت حاصل کریں اور اس کے اوامر کے سامنے تسلیم ہو جائیں اور اس کے نواہی کو قبول کریں، خدا کی قسم آیات کو حفظ کرنے سے مراد سوروں کے حروف کو پڑھنا اور تلاوت کرنا نہیں ہے۔
انھوں نے قرآن مجید کے حروف کو حفظ کیا ہے، لیکن خود قرآن کو ضائع کر دیا ہے، اس کی مراد صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات میں غور و فکر اور اس کے احکام پر عمل کرو، جیسا کہ خداوند ارشاد فرماتا ہے:
یہ ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تا کہ یہ لوگ اس کی آیات میں غور و فکر کریں اور صاحبان عقل نصیحت حاصل کریں۔
مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج1، ص 432،
اس نورانی حدیث کے پیش نظر ہم قرآن مجید کے باطنی آداب کے بارے میں مندرجہ ذیل مطالب کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں:
1- جب تلاوت کے دوران کسی وعدے پر پہنچ جائے تو اس تک پہنچنے کی امید رکھنی چاہیے اور اگر کسی انتباہ پر پہنچ جائے تو اس سے دوچار ہونے سے ڈرنا چاہیے، پس اگر بہشت یا جہنم سے متعلق آیات پر پہنچ جائے، تو رک کر خداوند سے بہشت کی درخواست کرنی چاہیے اور جہنم سے پناہ مانگنی چاہیے۔
مشهدی، محمد،تفسير كنز الدقائق و بحر الغرائب، ج2، ص 132،
مولا امام علی (ع) مؤمنین کی خصوصیات کے بارے میں فرماتے ہیں:
لیکن وہ رات کے وقت کھڑے ہو کر قرآن مجید کی اس کے خاص آداب کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں، جب کسی ایسی آیت پر پہنچتے ہیں کہ جس میں ہمت افزائی ہو تو اس سے امید باندھتے ہیں تا کہ اسے حاصل کریں، ان کی حالت اس فرد کی جیسی ہوتی ہے کہ جو کسی عزیز کی آمد کے شوق میں چشم براہ ہوتا ہے ، لیکن جب کسی ایسی آیت پر پہنچتے ہیں کہ جس میں خوف و ترس ہے، تو دل و جان سے اس پر غور کرتے ہیں، ان کے رونگھٹے کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے دل خوف و ہراس سے دو چار ہوتے ہیں اور اس خوف سے ان کے بدن ضعیف ہوتے ہیں، جیسا کہ وہ جہنم کے شعلوں اور آگ کی زنجیروں کی آواز سنتے ہیں، زمین پر گر جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوتے ہیں، خدا سے پناہ چاہتے ہیں تا کہ اس عذاب سے نجات پائیں۔
نهج البلاغه، صبحى صالح، ص 304
2- قرآن مجید کی تلاوت کے دوسرے باطنی آداب میں سے، قرآن مجید کو سمجھنا اور اس کی آیات میں تدبر کرنا اور انھیں جاننا اور احکام الہی پر عمل کرنا ہے۔ امام صادق (ع) امیر المؤمنین علی (ع) سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
آگاہ رہنا کہ جس تلاوت میں تدبر نہ ہو، اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔
کافی، ج1، ص 36.
3- اس امر پر توجہ کرنا کہ قرآن مجید، انسان کا کلام نہیں ہے اور خالق کی عظمت کو مد نظر رکھنا، کہ کلام کی تعظیم، متکلم کی تعظیم ہے۔
4- قرآن مجید کی تلاوت کے دوسرے باطنی آداب میں سے تحلیہ ہے، یعنی خود کو تلاوت کرنے والی ہر آیت کے متناسب بنانا ، اگر انبیاء (ع) کی داستان یا کوئی قصہ پڑھتا ہے تو اس سے عبرت حاصل کرے اور اگر الہی اسماء و صفات کو پڑھتا ہے، تو اس کے مصادیق کے بارے میں غور کرے۔
کاشفی سبزواری، ملا حسین، جواهر التفسیر، ص 270،
5- قرآن مجید کی تلاوت کے باطنی آداب میں سے ایک اور چیز تخلیہ ہے، جو لوگ قرآن مجید سے کوئی مطلب سیکھنا چاہتے ہیں، قرآن مجید کی طرف رجوع کرنے والے کو پہلے سے اپنے ذہن کو شبہات سے خالی کرنا چاہیے تا کہ وہ قرآن کو سمجھنے میں اثر نہ ڈالیں۔
کاشفی سبزواری، ملا حسین، جواهر التفسیر، ص 270،
6- قرآن مجید کی تلاوت کے باطنی آداب میں اپنے باطن سے نا پسندیدہ صفتوں خاص کر تکبر، ریاکاری اور حسد و طمع کو دور کرنا ہے ، کیونکہ اگر انسان ان بری صفتوں والے دل سے قرآن مجید کی تلاوت کرے گا، تو خداوند کے کلام کے معنی و مفہوم اس میں متجلی نہیں ہو سکیں گے۔
7- قرآن مجید کی تلاوت کے بلند ترین آداب میں سے روحی اور معنوی طہارت ہے۔ جب تک انسان پاک نہ ہو جائے، قرآن مجید اپنی حقیقت کو اسے نہیں دکھاتا ہے، کیونکہ خود قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ہے:
لا یمسّه الا المطهّرون،
سورہ واقعه، آیت 79
8- قرآن مجید کی تلاوت کے معنوی آداب میں سے یہ بھی ہے کہ قرآن مجید کا قاری قرآن مجید کو نہ صرف ایک متن کے عنوان سے دیکھے، بلکہ ایک شفاء بخش نسخہ کے عنوان سے دیکھے اور اس سے اسی کی توقع رکھے۔
روایت میں آیا ہے کہ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے قرآن مجید کو اسی نظریہ سے دیکھا ہے اور اس سے اپنی بیماریوں کی دوا حاصل کی ہے۔ خداوند ایسے قاریوں کی وجہ سے، جو دلوں کی شفاء کو قرآن مجید سے حاصل کرتے ہیں، لوگوں کے دشمنوں کو دور کرتا ہے اور ان پر باران رحمت نازل کرتا ہے۔
اصول کافی، ج2، ص 627.
التماس دعا۔۔۔۔۔