2024 December 8
ماہ مبارک رمضان، ماہ طہارت و بندگی
مندرجات: ٧٦٤ تاریخ اشاعت: ١١ March ٢٠٢٤ - ١٧:٣٢ مشاہدات: 9448
یاداشتیں » پبلک
جدید
ماہ مبارک رمضان، ماہ طہارت و بندگی

 

یہ وہ مہینہ ہے جس میں تم کو خداوند نے اپنی مہمانی کی طرف دعوت دی ہے اور تمہیں صاحب کرامت قرار دیا ہے ۔ اس مہینہ میں تمھاری ہر سانس تسبیح کا ثواب رکھتی ہے۔ تمہارا سونا عبادت ہے۔ تمہارے اعمال اس مہینہ میں قبول ہوتے ہیں۔ تمہاری دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ پس تم صدق دل سے صاف اور خالص نیت کے ساتھ گناہوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے خدا سے دعا کرو کہ وہ اس مہینے میں روزہ رکھنے اور تلاوت قرآن پاک کرنے کی تم کو توفیق عنایت فرمائے۔

وہ شخص بدبخت اور شقی ہے جو اس عظیم مہینہ میں اللہ کی بخشش سے محروم رہے۔ اس مہینہ کی بھوک اور پیاس سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو ۔ اپنے عزیز فقراء و محتاجوں کو صدقہ دو ، اپنے بزرگوں کا احترام کرو، اپنے بچوں سے نوازش و مہربانی کے ساتھ پیش آؤ، اپنے خاندان والوں کے ساتھ صلہ رحم کرو ، اپنی زبانوں کو محفوظ رکھو ( برے الفاظ غیبت وغیرہ سے ) اپنی نگاہوں کو محفوظ رکھو ان چیزوں سے جن کا دیکھنا تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔ یتیموں کے ساتھ مہربانی کرو تا کہ تمہارے بعد لوگ تمہارے یتیم پر رحم کریں۔ اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور نمازوں کے وقت خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا کے لیے اپنے ہاتھوں کو بلند کرو کیوں کہ یہ دعا کی قبولیت کا بہترین وقت ہے۔ خداوند عالم نماز کے وقت اپنے بندوں کی طرف رحمت کی نگاہ کرتا ہے اور مناجات کرنے والوں کا جواب دیتا۔ اے لوگو! تمہاری زندگی میں گرہیں پڑی ہوئی ہیں تم اللہ سے طلب مغفرت کر کے اپنی زندگی کی گرہیں کھولنے کی کوشش کرو۔ تمہاری پشت گناہوں کی سنگینی کی وجہ سے خمیدہ ہو چکی ہیں لہٰذا طولانی سجدے کے ذریعہ اپنی پشت کے وزن کو ہلکا کرو۔ خداوند عالم اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں اس مہینہ میں نماز گزاروں اور سجدہ کرنے والوں پر عذاب نہیں کروں گا اور قیامت میں انہیں جہنم کی آگ سے نہیں ڈراؤں گا۔

اے لوگو! اگر کوئی شخص اس مہینہ میں کسی مؤمن روزہ دار کو افطار کرائے تو اس کا ثواب ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے اور اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ کسی صحابی نے سوال کیا: یا رسول اللہ (ص) ہم اس پر قدرت نہیں رکھتے کہ مؤمنین کو افطار کرائیں، تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: تم آدھی کھجور یا ایک گھونٹ پانی ہی افطار میں دے کر اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے محفوظ کر سکتے ہو کیوں کہ خداوند عالم اس کو وہی ثواب عنایت فرمائے گا جو افطار دینے پر قدرت رکھنے والوں کو دیتا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے اخلاق کو درست کر لے اسے خداوند عالم قیامت کے دن پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزار دے گا۔ حالانکہ لوگوں کے قدم اس وقت وہاں ڈگمگا رہے ہوں گے۔ اگر کوئی اس مہینہ میں اپنے غلام یا کنیز سے کم کام لے قیامت میں خداوند عالم اس کے حساب و کتاب میں آسانی فرمائے گا۔ جو شخص اس مہینہ میں کسی یتیم کو مہربانی و عزت کی نگاہ سے دیکھے قیامت میں خداوند عالم بھی اس کو مہربانی کی نگاہ سے دیکھے گا۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے اعزہ و اقرباء کے ساتھ احسان اور صلہ رحم کرے خداوند عالم قیامت میں اپنی رحمت سے اسے نوازے گا۔ اور جو شخص اس مہینہ میں اپنے اعزہ و اقرباء سے قطع رحم کرے گا خداوند عالم قیامت کے دن اس کو اپنی رحمت سے محروم کر دے گا۔

رمضان المبارک کا مہینہ خداوند عالم کا مہینہ ہے، یہ مہینہ تمام مہینوں سے افضل ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں خداوند عالم آسمانوں، جنت اور اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور جہنم کا دروازہ بند کر دیتا ہے ۔ اس مہینہ کی ایک شب (شب قدر) ایسی ہے جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ۔

پس صاحبان ایمان کو اس بات کی فکر کرنا چاہیے کہ اس مہینہ کے دن و رات کس طرح سے گزاریں اور اپنے اعضاء و جوارح کو خداوند عالم کی نافرمانی سے کس طرح محفوظ رکھیں، کیوں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

جب تم روزہ رکھو تو اس کے ساتھ تمہارے بدن کے تمام اعضاء بھی روزہ رکھیں ، عام دنوں کے مانند نہ ہو جن میں تم بغیر روزہ کے رہتے ہو ۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں :

روزہ فقط کھانے پینے سے بچنے کا نام نہیں بلکہ روزہ کی حالت میں اپنی زبانوں کو بھی (جھوٹ ،گالی ،غیبت ،چغل خوری ،تہمت وغیرہ سے) محفوط رکھو۔ آنکھوں کو حرام چیزوں کی طرف نگاہ کرنے سے محفوظ رکھو ،لڑائی جھگڑا نہ کرو ،برے لوگوں سے بچو،اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے مطابق رکھو آخرت کی طرف بڑہو اور ہر وقت خوف خدا کو مد نظر رکھو اور اللہ کے عذاب سے ڈرو اور قائم آل محمد (ص) کے ظہور کی تعجیل کے لیے ہر وقت دعائیں مانگو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

غیبت کے زمانہ میں ظہور امام عصر (ع) کا انتظار واجب ہے۔

روزے کے کئی لحاظ سے مختلف مادی، روحانی، طبی اور معاشرتی آثار ہیں، جو اس کے ذریعے سے وجود انسانی میں پیدا ہوتے ہیں، روزہ رکھنا اگرچہ ظاہراً سختی و پابندی ہے لیکن انجام کار انسان کے لیے راحت و آسائش اور آرام و سلامتی کا باعث ہے، یہ بات طے ہے کہ اللہ تعالٰی ہمارے لیے راحت و آسانی چاہتا ہے نہ کہ تکلیف و تنگی، روزہ بھی دوسری عبادات کی طرح خداوند کے جاہ و جلال میں کوئی اضافہ نہیں کرتا بلکہ اس کے تمام تر فوائد خود انسانوں کے لیے ہیں۔

ذٰلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔

روزے کے نتیجے میں جو اثرات روزہ دار پر مرتب ہوتے ہیں، ان میں سے اہم ترین اخلاقی و تربیتی پہلو ہے، روزے روح انسانی کو لطیف تر، ارادے کو قوی تر اور مزاج انسانی کو معتدل تر بنا دیتے ہیں، روزہ دار حالت روزہ میں آب و غذا کی دستیابی کے باوجود اس کے قریب نہیں جاتا، اسی طرح وہ تمام جنسی لذات سے دوری و اجتناب اختیار کر لیتا ہے اور عملی طور یہ ثابت کر دیتا ہے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کی قید میں نہیں ہے، سرکش نفس کی لگام اس کے قبضے اور اختیار میں ہے، ہوس و شہوت و خواہشات نفسانی اس کے کنٹرول میں ہیں نہ کہ اس کے برعکس۔

حقیقت میں روزے کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی و معنوی اثر ہے، وہ انسان کہ جس کے قبضے میں طرح طرح کی غذائیں اور مشروبات ہوتے ہیں، جب اسے بھوک و پیاس محسوس ہوتی ہے تو فوراً ان کے پیچھے دوڑ نکلتا ہے، لیکن یہی روزہ وقتی پابندی کے ذریعے انسان میں قوت مدافعت اور قوت ارادی پیدا کرتا ہے اور اس انسان کو سخت سے سخت حوادث کے مقابلے کی طاقت بخشتا ہے، غرض کہ روزہ انسان کو حیوانیت سے بلند کر کے فرشتوں کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔

حضرت امام علی (ع) سے نقل ہوا ہے کہ: رسول خدا (ص) سے پوچھا گیا کہ ہم کون سا کام کریں کہ جس کی وجہ سے شیطان ہم سے دور رہے، آپ (ص) نے فرمایا:

الصوم یسود وجھہ، روزہ شیطان کا منہ کالا کر دیتا ہے۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ:

الصوم جنۃ من النار، روزہ جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے ڈھال ہے۔

امام علی (ع) روزے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

اللہ تعالٰی نے روزے کو شریعت میں اس لیے شامل کیا ہے تا کہ لوگوں میں روح اخلاص کی پرورش ہو۔

پیغمبر اکرم (ص) نے ایک اور مقام پر فرمایا ہے کہ:

بہشت کا ایک دروازہ ہے، جس کا نام ریان (سیراب کرنے والا) ہے، اس میں سے صرف روزہ دار داخل جنت ہونگے۔

روایت میں ہے کہ:

روزے دار کو چونکہ زیادہ تکلیف پیاس کی وجہ سے ہوتی ہے، جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہو گا تو وہ ایسا سیراب ہو گا کہ اسے پھر کبھی بھی پیاس و تشنگی کا احساس نہ ہو گا۔

حمزہ بن محمد نے امام حسن عسکری (ع) کو خط لکھا اور پوچھا کہ:

اللہ تعالی نے روزے کو کیوں فرض کیا ہے؟ تو آپ (ع) نے جواب میں فرمایا: تا کہ غنی اور دولتمند شخص کو بھی بھوک کی تکلیف کا علم ہو جائے اور وہ فقیروں پر ترس کھائے۔

من لا یحضر الفقیہ جلد 2 ص 55

ایک اور مشہور حدیث میں امام صادق (ع) سے منقول ہے کہ:

ہشام بن حکم نے روزے کی علت اور سبب کے بارے میں پوچھا تو آپ (ع) نے فرمایا: روزہ اس لیے واجب ہوا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات قائم ہو جائے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ غنی و مالدار بھی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کرے، کیونکہ مالدار عموماً جو کچھ چاہتے ہیں ان کے لیے فراہم ہوتا ہے، خدا چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کے درمیان مساوات قائم ہو اور دولتمند کو بھی بھوک، اور رنج کا ذائقہ چکھائے، تا کہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں۔ غرض کہ روزے کی انجام دہی سے صاحب ثروت لوگ بھوکوں و معاشرے کے محروم افراد کی کیفیت کا احساس کر سکتے ہیں اور اپنے شب و روز کی غذا میں بچت کر کے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔

روزے تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی پر طبی لحاظ سے بہترین اثرات مرتب کرتے ہیں، طب کی جدید تحقیقات کی روشنی میں روزہ بہت سی بیماریوں کے علاج کے لیے معجزانہ اثر رکھتا ہے، روزے سے انسانی معدے کو ایک نمایاں آرام ملتا ہے اور اس فعال ترین مشینری (معدے) کو آرام کی بہت ضرورت ہوتی ہے، یہ بھی واضح ہے کہ حکم اسلامی کی رو سے روزہ دار کو اجازت نہیں ہے کہ وہ سحری و افطاری کے کھانے میں افراط و اضافہ سے کام لے، تا کہ روزہ سے مکمل طبی نتیجہ حاصل کیا جا سکے، روزے کے بارے میں رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ:

روزہ رکھو تا کہ صحت مند رہو۔

ایک اور حدیث آپ سے مروی ہے کہ:

معدہ ہر بیماری کا گھر ہے اور امساک و فاقہ اعلٰی ترین دوا ہے۔

بحار الانوار ج 14 ص34

ماہ مبارک رمضان آسمانی کتب کے نزول اور تعلیم و تدریس کا مہینہ ہے، اس ماہ اللہ کی یاد میں قلوب نیکی کی جانب مائل ہوتے ہیں، اس لیے روح انسانی کی تربیت آسانی سے ہو جاتی ہے، سانسیں تسبیح کی مانند ہوتی ہیں اور سونا عبادت ہوتا ہے، اعمال و دعائیں قبول ہوتی ہیں، پیغمبر اسلام (ص) نے ماہ مبارک رمضان کی فضائل و برکات کے حوالے سے اپنے خطبہ میں کہا ہے کہ:

اے لوگو! یہ مہینہ تمام مہینوں سے بہتر ہے، اس کے دن دوسرے ایام سے بہتر، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں تمہیں خدا نے مہمان بننے کی دعوت دی ہے اور تمہیں ان لوگوں میں سے قرار دیا گیا ہے جو خدا کے اکرام و احترام کے زیر نظر ہیں، اس میں تمہاری سانسیں تسبیح کی مانند ہیں، تمہاری نیند عبادت ہے اور تمہارے اعمال و دعائیں مستجاب ہیں۔

لہذا خالص نیتوں اور پاک دلوں کے ساتھ خدا سے دعائیں مانگو، تا کہ وہ تمہیں روزہ رکھنے اور تلاوت قرآن کرنے کی توفیق عطا فرمائے، کیونکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اس مہینے خدا کی بخشش سے محروم رہ جائے، اپنے فقراء و مساکین پر احسان کرو، اپنے بڑے بوڑھوں کا احترام کرو، اور چھوٹوں پر مہربان ہو جاو، رشتہ داروں کے روابط کو جوڑ دو، اپنی زبانیں گناہوں سے پاک رکھو، اپنی آنکھیں ان چیزوں کو دیکھنے سے باز رکھو، جن کا دیکھنا حلال نہیں، اپنے کانوں کو ان چیزوں کے سننے سے روکو جن کا سننا حرام ہے اور لوگوں کے یتیموں سے شفقت و مہربانی سے پیش آؤ، تا کہ وہ بھی تمہارے یتیموں سے یہی سلوک کریں۔

وسائل الشیعہ ج 8  باب احکام شہر رمضان

ماہ رمضان اللہ کی مغفرت اور جہنم سے نجات کا مہینہ:

قال رسول الله صلى ‏الله ‏علیه ‏و ‏آله: إنَّما سُمِّیَ رَمَضانُ؛ لِأَنَّهُ یُرمِضُ الذُّنوبَ۔

رمضان کو اس لیے رمضان کہا جاتا ہے چونکہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔

الفردوس: ج 2 ص60

كنز العمّال:ج 8 ص466

الدرّ المنثور: ج1 ص444

قال رسول الله صلى ‏الله ‏علیه ‏و ‏آله: أتَدرونَ لِمَ سُمِّیَ شَعبانُ شَعبانَ؟ لِأَنَّهُ یَتَشَعَّبُ مِنهُ خَیرٌ كَثیرٌ لِرَمَضانَ، و إنَّما سُمِّیَ رَمَضانُ رَمَضانَ؛ لِأَنَّهُ تُرمَضُ فیهِ الذُّنوبُ ـ أی تُحرَقُ۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ شعبان کو کیوں شعبان کہا گیا ہے ؟ اس لیے کہ اس سے رمضان کے لیے خیر کثیر منشعب ہوتا اور وجود میں آتا ہے۔ اور رمضان کو اس لیے رمضان کہا گیا ہے چونکہ اس میں گناہ جل جاتے ہیں۔

مستدرك الوسائل:ج 7 ص484

كنز العمّال:ج 8 ص591

الدرّ المنثور عن عائشة: قیلَ لِلنَّبِیِّ صلى ‏الله ‏علیه ‏و ‏آله: یا رَسولَ الله، ما رَمَضانُ؟ قالَ: «أرمَضَ الله‏ُ فیهِ ذُنوبَ المُؤمِنینَ و غَفَرَها لَهُم۔

پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا گیا ، یا رسول اللہ! رمضان کیا ہے؟ فرمایا: خداوند عالم اس میں مؤمنین کے گناہوں کو جلا دیتا ہے اور انہیں معاف کر دیتا ہے۔

الدرّ المنثور: ج1 ص444

قال رسول الله‏ صلى ‏الله ‏علیه ‏و ‏آله: مَن صامَ رَمَضانَ و قامَهُ إیمانا وَاحتِسابا غُفِرَ لَهُ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنبِهِ، و مَن قامَ لَیلَةَ القَدرِ إیمانا وَاحتِسابا غُفِرَ لَهُ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنبِهِ۔

جو شخص ماہ رمضان میں ایمان کے ساتھ اور خدا سے جزا حاصل کرنے کی امید سے روزے رکھے اور نماز قائم کرے تو خداوند عالم اس کے پچھلے تمام گناہوں کو معاف کر دے گا، اور جو شخص شب قدر کو ایمان اور اجر الہی کی امید کے ساتھ عبادت کرے تو خدا اس کے گزشتہ تمام گناہوں کو بخش دے گا۔

سنن الترمذی: ج 3 ص67

صحیح البخاری: ج 2 ص672

صحیح مسلم: ج1 ص524

سنن أبی داود: ج 2 ص49

فضائل الأوقات للبیهقی:ج 40 ص57

فضائل الأشهر الثلاثة: ص 94 ، 105

الأمالی للطوسی: ص150 ، 247

بحارالأنوار: ج 96 ص 42، 366

قال رسول الله‏ صلى ‏الله ‏علیه ‏و ‏آله: شَهرُ رَمَضانَ شَهرٌ فَرَضَ الله‏ عز و جل عَلَیكُم صِیامَهُ؛ فَمَن صامَهُ إیمانا وَاحتِسابا خَرَجَ مِن ذُنوبِهِ كَیَومَ وَلَدَتهُ اُمُّهُ۔

ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں خداوند عالم نے تم پر روزے واجب کیے ہیں لہذا جو شخص اس میں ایمان اور خدا سے اجر حاصل کرنے کی امید سے روزہ رکھے تو ایسے گناہوں سے پاک ہو گا جیسے ماں کے بیٹ سے بغیر گناہ کے پیدا ہوا تھا۔

تهذیب الأحكام: ج 4 ص152

عوالی اللآلی: ج 3 ص132

بحارالأنوار: ج96 ص375

قال رسول الله صلى ‏الله ‏علیه ‏و ‏آله: مَن صامَ رَمَضانَ و خَتَمَهُ بِصَدَقَةٍ؛ و غَدا إلَى المُصَلّى بِغُسلٍ، رَجَعَ مَغفورا لَهُ۔

جو شخص ماہ رمضان میں روزہ رکھے اور صدقہ دے کر اسے افطار کرے اور غسل کر کے جانماز پر جائے تو اس حال میں واپس آئے گا کہ اس کے گناہ معاف ہوں گے۔

ثواب الأعمال: ج1 ص102

بحارالأنوار:ج 90 ص363

المعجم الأوسط : ج 6 ص57

كنز العمّال:ج 8 ص482

قال رسول الله صلى ‏الله ‏علیه ‏و ‏آله: یَأمُرُ الله‏ مَلَكا یُنادی فی كُلِّ یَومٍ مِن شَهرِ رَمَضانَ فِی الهَواءِ: أبشِروا عِبادی! فَقَد وَ هَبتُ لَكُم ذُنوبَكُمُ السّالِفَةَ، و شَفَّعتُ بَعضَهُم فی بَعضٍ فی لَیلَةِ القَدرِ، إلاّ مَن أفطَرَ عَلى مُسكِرٍ أو حِقدٍ عَلى أخیهِ المُسلِم۔

خداوند عالم ایک فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ ماہ رمضان کے ہر دن فضا میں یہ ندا دے: ' اے میرے بندو! خوشخبری! میں نے تمہارے گزشتہ تمام گناہ بخش دئیے اور شب قدر میں تمہارے ایک دوسرے کی نسبت شفاعت قبول کر لی سوائے شخص کے جس نے شراب سے افطار کیا ہو یا کسی مسلمان بھائی کی نسبت بغض و کینہ دل میں رکھا ہو۔

الدعوات: ص 207 ، 561

بحارالأنوار: ج97 ص5

قال رسول الله صلى ‏الله ‏علیه ‏و ‏آله: إنَّ رَمَضانَ شَهرٌ افتَرَضَ الله‏ُ عز و جل صِیامَهُ، و إنّی سَنَنتُ لِلمُسلِمینَ قِیامَهُ؛ فَمَن صامَهُ إیمانا وَاحتِسابا خَرَجَ مِنَ الذُّنوبِ كَیَومَ وَلَدَتهُ اُمُّهُ۔

بیشک رمضان ایسا مہینہ ہے کہ جس میں خداوند عالم نے روزے واجب کئے ہیں اور میں قیام (مستحبی نمازوں) کو اس میں مسلمانوں کے لیے اپنی سنت قرار دیتا ہوں لہذا جو شخص ایمان اور امید سے روزے رکھے تو وہ ایسے گناہوں سے پاک ہو گا جیسے ماں کے پیٹ سے پاک پیدا ہوا تھا۔

مسند ابن حنبل: ج1 ص413

سنن ابن ماجه: ج1 ص421

سنن النسائی: ج4 ص158

مسند أبی یعلى: ج1 ص395

مستدرك الوسائل: ج7 ص397

نقلاً عن القطب الراوندی فی النوادر عن عبدالرحمن عن أبیه عنه صلى ‏الله ‏علیه ‏و ‏آله و فیه «شهر فرض الله‏ صیامه و سنّ قیامه ... .»

قال رسول الله صلى ‏الله ‏علیه ‏و ‏آله: مَن صامَ رَمَضانَ؛ و عَرَفَ حُدودَهُ؛ و تَحَفَّظَ مِمّا كانَ یَنبَغی لَهُ أن یَتَحَفَّظَ فیهِ، كَفَّرَ ما قَبلَهُ۔

جو شخص رمضان میں روزے رکھے اور اس کی حدود کو پہچانے اور ان چیزوں سے خود کو محفوظ رکھے جن سے اس مہینہ میں محفوظ رہنا چاہیے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔

مسند ابن حنبل: ج4 ص110

صحیح ابن حبّان: ج8 ص220

السنن الكبرى: ج4 ص501

مسند أبی یعلى: ج2 ص19

كنز العمّال: ج8 ص481

فضائل الأشهر الثلاثة: ص 131 ، 138

جہنم کی آگ سے آزادی:

قال رسول الله‏ صلى ‏الله ‏علیه ‏و ‏آله: سُمِّیَ شَهرُ رَمَضانَ شَهرَ العِتقِ ؛ لِأَنَّ لله‏ فی كُلِّ یَومٍ ولَیلَةٍ سِتَّمِئَةِ عَتیقٍ، و فی آخِرِهِ مِثلَ ما أعتَقَ فیما مَضى۔

ماہ رمضان کو آزادی کا مہینہ کہا گیا ہے چونکہ خدا اس کے ہر دن و رات میں چھ سو افراد کو (جہنم کی آگ سے) آزاد کرتا ہے اور نیز مہینے کے آخر میں پورے مہینے کے برابر آزاد کرتا ہے۔

النوادر للأشعری: ج18 ص2

بحارالأنوار: ج96 ص381

قال رسول الله صلى ‏الله ‏علیه ‏و ‏آله: إنَّ الله‏ِِ تَعالى فی كُلِّ لَیلَةٍ مِن رَمَضانَ سِتَّمِئَةِ ألفِ عَتیقٍ مِنَ النّارِ قال البیهقی فی فضائل الأوقات: ...

خداوند عالم رمضان کی ہر رات کو چھ سو ہزار گناہ گاروں کو آزاد کرتاہے۔ بیہقی نے فضائل الاوقات میں کہا ہے: ہمارے علماء کے نزدیک عدد سے مراد کثرت ہے نہ کہ وہی تعداد کو حدیث میں وارد ہوئی ہے، اور یہ تمام چیزیں اس شخص کے لیے ہیں جو ماہ رمضان کی حدود کو پہچانتا ہو اور اس کے حقوق کا لحاظ رکھتا ہو۔ لہذا جب آخری رات ہو گی تو خدا اس سے پہلے جتنے افراد کو آزاد کر چکا ہو گا اتنی مقدار میں دوبارہ جہنم سے آزاد کرے گا۔

شُعَب الإیمان: ج3 ص303

فضائل الأوقات للبیهقی: ج44 ص69

كنزالعمّال: ج8 ص479

قال رسول الله صلى ‏الله ‏علیه ‏و ‏آله: إنَّ لله‏ِِ فی كُلِّ یَومِ جُمُعَةٍ سِتَّمِئَةِ ألفِ عَتیقٍ مِنَ النّارِ كُلُّهُم قَدِ استَوجَبوها، و فی كُلِّ ساعَةٍ مِن لَیلٍ أو نَهارٍ مِن شَهرِ رَمَضانَ ألفَ عَتیقٍ مِنَ النّارِ كُلُّهُم قَدِ استَوجَبوها، و لَهُ یَومَ الفِطرِ مِثلُ ما أعتَقَ فِی الشَّهرِ وَالجُمُعَةِ۔

خداوند عالم ہر جمعہ کے دن چھ سو ہزار افراد کو آتش جہنم سے آزاد کرتا ہے جو اس کے قابل ہوتے ہیں۔ اور ماہ رمضان کے دن و رات کے ہر گھنٹے میں ہزار افراد کو آزاد کرتا ہے جو اس قابل ہوتے ہیں، اور عید فطر کے دن اس مہینے اور تمام جمعہ کےدنوں کی مقدار میں آزاد کرتا ہے۔

مستدرك الوسائل : ج7 ص484

قال رسول الله صلى ‏الله ‏علیه ‏و ‏آله: إنَّ لله‏ِِ عز و جل عِندَ كُلِّ فَطرَةٍ الفطرة: المرَّةُ من الإفطار، عُتَقاءَ مِنَ النّارِ۔

خداوند عالم ہر افطار کے وقت کچھ افراد کو آتش جہنم سے نجات دیتا ہے۔

فضائل الأوقات للبیهقی: ج44 ص67

قال الإمام الصادق علیه‏السلام: إنَّ لله‏ِِ عزّ و جلّ فی كُلِّ لَیلَةٍ مِن شَهرِ رَمَضانَ عُتَقاءَ و طُلَقاءَ مِنَ النّارِ إلاّ مَن أفطَرَ عَلى مُسكِرٍ، فَإِذا كانَ فی آخِرِ لَیلَةٍ مِنهُ أعتَقَ فیها مِثلَ ما أعتَقَ فی جَمیعِهِ۔

خداوند عالم ماہ رمضان کی ہر رات میں کچھ افراد کو آتش جہنم سے نجات دیتا ہے مگر وہ شخص جس نے شراب کے ساتھ افطار کیا ہو۔ پس جب اس کی آخری رات ہو گی تو پورے مہینے کی مقدار میں بندوں کو آزاد کرے گا۔

الكافی: ج4 ص68

تهذیب الأحكام: ج4 ص193

كتاب من لا یحضره الفقیه: ج2 ص98

الأمالی للصدوق: ص113

 بحارالأنوار: 96 ص362

قال الإمام الصادق علیه‏السلام: إذا كانَ أوَّلُ لَیلَةٍ مِن شَهرِ رَمَضانَ غَفَرَ الله‏ُ لِمَن شاءَ مِنَ الخَلقِ، فَإِذا كانَتِ اللَّیلَةُ الَّتی تَلیها ضاعَفَهُم، فَإِذا كانَتِ اللَّیلَةُ الَّتی تَلیها ضاعَفَ كُلَّ ما أعتَقَ، حَتّى آخِرِ لَیلَةٍ فی شَهرِ رَمَضانَ تَضاعَفَ مِثلَ ما أعتَقَ فی كُلِّ لَیلَةٍ۔

جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو خداوند عالم اپنے بندوں میں سے جنہیں چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے اور جب دوسری رات آتی ہے تو اس کے دو برابر معاف کرتا ہے تیسری رات پچھلی رات کے دو برابر یہاں تک کہ اس کی آخری رات کو پچھلی تمام راتوں کے دو برابر آتش جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔

الإقبال، سید ابن طاؤوس: ج1 ص28

المصباح للكفعمیّ: ص 836.

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس قابل ہیں کہ خدا کے ان بندوں میں شمار ہو سکیں جنہیں وہ اس مبارک مہینہ میں آتش جہنم سے آزاد کرتا ہے؟ کیا ہم بھی آزاد ہونے والوں میں سے ہو سکتے ہیں ؟

ذرا سوچیے اور غور کیجئے۔ اگر ابھی تک اس قابل نہیں بنے ہیں تو ابھی فرصت ہاتھ سے نہیں گئی ہے اس مہینہ کے آخر تک ہم اپنے آپ کو خدا کے ان بندوں میں شامل کر سکتے ہیں جنہیں خدا اس مہینے کی آخری رات کو معاف کر دے گا اور جہنم سے نجات دے گا۔

قرآن و ماہ رمضان:

رمضان کے مہینہ کی فضیلت کی وجہ اس مہینہ میں قرآن کا نازل ہونا ہے۔

شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدیً للنّاس،

ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جسمیں قرآن نازل ہوا ہے اور یہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے ۔

سورہ بقرہ آیت 185

اسی وجہ سے قرآن اور ماہ مبارک رمضان میں ایک خاص رابطہ پایا جاتا ہے۔ جیسے موسم بہار میں انسان کا مزاج شاداب رہتا ہے اور گل و گیاہ سر سبز و شاداب رہتے ہیں۔ اسی طرح قرآن بھی دلوں کے لیے موسم بہار کی مانند ہے کہ جس کے پڑھنے حفظ کرنے اور اسکے مطلب کو سمجھنے میں انسان کا دل ہمیشہ ایک خاص شادابی کا احساس کرتا ہے۔

جیسا کہ امام علی (ع) فرماتے ہیں:

تعلموا کتاب اللہ تبارک و تعالی فانہ احسن الحدیث و ابلغ الموعظہ و تفقھوا فیہ فانہ ربیع القلوب۔

کتاب خداوند کو پڑھو کیونکہ اس کا کلام بہت لطیف و خوبصورت ہے اور اس کی نصیحت کامل ہے اور اسے سمجھو کیونکہ وہ دلوں کے لیے بہار ہے۔

اسی بناء پر قرآن اور رمضان کے مہینہ کا رابطہ آپس میں بہت گہرا ہے ۔

قرآن کو پڑھنے اور اسمیں غور و فکر کرنے کے بعد انسان اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ حیات طیبہ تک پہنچ جائے اور شب قدر کو درک کر سکے۔

رسول اکرم (ص) خطبہ شعبانیہ میں فرماتے ہیں :

رمضان کے مہینہ میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کا ثواب اس ثواب کے برابر ہے جو دوسرے مہینوں میں قرآن ختم کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔

ماہ رمضان ، عظیم ترین مہینہ:

ماہ رمضان کے تصور سے روزہ کا تصور فورا ذہن میں آتا ہے، اس لیے اسے روزوں کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔

تفسیر القمی . ج ا ص 46.

تفسیر صافی ، فیض كاشانی ، ج 1 ص 126

اور روزہ کے تصور سے صبر اور تحمل کا تصور بھی ذہن میں آ جاتا ہے اس لیے اسے "صبر کا مہینہ" بھی کہا جاتا ہے۔

ادوار فقه، شهابی ، محمود ، ج 2 ص 41

اللہ کا مہینہ، ضیافت الہی کا مہینہ بھی اس کے دوسرے نام ہیں۔

رمضان کیا ہے؟

رمضان مادہ "رمض" سے ماخوذ ہے جس کے اصلی معنی ہیں سورج کا شدت سے خاک پر چمکنا۔ اس کی وجہ تسمیہ:

ایک قول کے مطابق یہ نقل ہوئی ہے کہ عرب معمولا مہینوں کے نام اس وقت کے اعتبار سے انتخاب کرتے تھے جس میں وہ واقع ہوتا تھا۔ اس سال ماہ رمضان شدید گرمیوں کے موسم میں واقع ہوا انہوں نے اس کا نام رمضان انتخاب کر لیا۔

ایک قول کے مطابق رمضان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور چونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے اس لیے اس کے نام پر اس مہینہ کا نام رکھا گیا۔

مجاہد سے نقل ہوا ہے کہ رمضان نہ کہیں بلکہ ماہ رمضان کہیں اس لیے کہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ رمضان کسے کہتے ہیں؟۔

مجمع البیان علامه طبرسی ، ج1 ص 495

اسی کے ہم معنی بات تھوڑے فرق کے ساتھ المیزان میں بھی نقل ہوئی ہے۔

المیزان ، علامه طباطبایی ، ج 2ص 279

مختار الصحاح میں رمضان کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں مجمع البیان کے قول کو قبول کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نماز ظہر کو رمض کہا جاتا ہے اس لیے کہ شدت آفتاب کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ یہیں پر رمضان کے جمع کو رمضانات اور ارمضا لکھا ہے۔ نیز اسی کتاب میں رمض کے معنی احتراق [جلنا] کے بھی کیے گئے ہیں۔ اس صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ ماہ رمضان کو اس لیے رمضان کہا گیا ہے چونکہ اس میں مؤمنین کے گناہ جل جاتے ہیں اور وہ باطنی طور پر پاک و پاکیزہ ہو جاتے ہیں۔

مختار الصالح ، الرازی ، صص 257-256

میبدی نے اپنی تفسیر میں رمضان کی وجہ تسمیہ کو اس طرح بیان کیا ہے:

رمضان یا " رمضا" سے مشتق ہے یا "رمض ' ' سے۔ اگر رمضا سے لیا گیا ہے تو اس کا مطلب وہ گرم پتھر ہے جس پر جو چیز رکھی جائے جل جاتی ہے۔

اور اگر رمض سے ہے اس کا مطلب وہ بارش ہے جو جہاں پر ہو اسے پاک دے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا کہ رمضان کیسے کہتے ہیں؟ فرمایا:

ارمض الله فیه دنوب المؤمنین و غفرهالهم۔

خدا اس میں مؤمنین کے گناہوں کو دھو دیتا ہے یا جلا دیتا ہے اور انہیں بخش دیتا ہے۔

كشف الاسرار وعده الابرار، میبدی ، ج 1 ص 495

ماہ رمضان کو نزول قرآن کی وجہ سے دیگر مہینوں پر برتری حاصل ہوئی ہے۔ خداوند عالم نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے:

شهر رمضان الذی انزل فیه القران هدی للناس و بینات من الهدی و الفرقان فمن شهد منكم الشهر فلیصه ...»،

ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن انسانوں کی ہدایت کے لیے ، ہدایت کے ثبوت پیش کرنے کے لیے اور حق کو باطل سے جدا کرنے لیے نازل ہوا پس جو شخص ماہ رمضان کو درک کرے اسے چاہیے کہ اس کے روزے رکھے۔

سورہ بقرہ آیت 185

اے لوگو اس مہینہ میں بہشت کے دروازے کھل جاتے ہیں پس اپنے پروردگار سے چاہوں کہ انہیں تمہارے اوپر بند نہ کرے۔ اور اس مہینہ میں جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اپنے معبود سے کہو کہ انہیں تمہارے اوپر نہیں کھولے۔

نہ صرف قرآن ماہ مبارک میں نازل ہوا ہے بلکہ دیگر آسمانی کتابیں بھی اسی مہینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

نزلت التوراه فی ست مضین من شهر رمضان ...

وسائل الشیعه ، علامه حر عاملی ، ج 7 ص 225 ، حدیث 16

یعنی چھ رمضان کو توریت نازل ہوئی بارہ رمضان کو انجیل نازل ہوئی اور اٹھارہ رمضان کو زبور نازل ہوئی اور شب قدر کو قرآن نازل ہوا۔ اس کے علاوہ جناب ابراہیم اور جناب نوح کے مصحف بھی اسی مہینہ میں نازل ہوئے۔

تفسیر نمونه ، آیت الله مكارم شیرازی ، ج 1 ص 645

پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماہ رمضان تمام آسمانی کتب کے نزول کا مہینہ ہے کہ یہ خود رحمت ہے خدا کی طرف سے اس کے بندوں پر جو اسی مہینہ میں ان کے شامل حال ہوئی ہے۔

علمائے اہلسنت کی تفسیروں کے مطابق بعثت پیغمبر اکرم (ص )بھی اسی مہینہ میں انجام پائی ہے اس بناء پر ماہ رمضان کو ماہ بعثت بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس نظریہ کے ماننے والے علماء کے بقول پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت 17، 18 یا 24 رمضان کو واقع ہوئی ہے۔ یہ چونکہ ایک طرف سے بعثت کو نزول قرآن کے ساتھ ہی سمجھتے ہیں اور نزول قرآن ماہ رمضان میں ہوا ہے اس وجہ سے اور کچھ دیگر روایات سے استدلال کر کے اس بات کو مانتے ہیں کہ حضور (ص) کی بعثت ماہ رمضان میں ہی ہوئی ہے۔

درسنامه علوم قرآنی ، جوان آراسته ، حسین ، صص 92-77

انس بن مالک کہتے ہیں : میں نے رسول خدا سے سنا کہ آپ نے فرمایا: یہ رمضان کا مہینہ ہے اس میں بہشت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں شیاطین کو زنجیروں میں جھکڑ دیا جاتا ہے۔

كشف الاسرار و عده الابرار ، ج 1، ص 490

ماہ رمضان میں شب قدر پائی جاتی ہے اس وجہ سے بھی ماہ رمضان دیگر مہینوں سے برتر ہے۔ وہی شب قدر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جس میں زمین فرشتوں سے بھر جاتی ہے۔ شب قدر کی شرافت اور عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ اولیاء الہی اس کو درک کرنے کے لیے پورا سال ہر شب کو شب قدر سمجھ کر عبادت اور اللہ کی بندگی میں بسر کرتے ہیں تا کہ یقین کے ساتھ اس کو درک سکیں۔ شب قدر پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت سے پہلے بھی موجود تھی اور قیام قیامت تک موجود رہے گی اور چونکہ شب قدر قرآن کریم کی صراحت کے مطابق جو سورہ قدر میں واضح طور پر بیان ہوا ماہ رمضان میں پائی جاتی ہے اس وجہ سے رمضان ابتدا سے آج تک ایک خاص شرافت اور عظمت کا حامل رہا ہے۔

اللہ کی مغفرت ماہ مبارک میں دوسرے تمام مہینوں سے کئی گنا زیادہ اس کے بندوں کے شامل حال ہوتی ہے۔ اسی طریقے سے پیغمبر اسلام (ص) سے نقل ہوا ہے :

پہلی رمضان کو شیطان کے ہاتھ زنجیروں میں باندھ دیئے جاتے ہیں اور ہر رات ستر ہزار لوگوں کی بخشش ہوتی ہے جب شب قدر آتی ہے خداوند عالم جتنے بندوں کو ماہ رجب، شعبان اور رمضان میں معاف کر چکا ہوتا ہے اس سے کئی زیادہ اس شب میں معاف کرتا ہے۔ اور مؤمن اور اس کے بھائی کے درمان دشمنی باقی نہیں رہتی۔

وسایل الشیعه ، ج 7 ص 228 حدیث 21 

کشف الاسرار اور عدۃ الابرار میں ایک مفصل خطبہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہوا ہے جو آپ نے ماہ شعبان کے آخر مین بیان فرمایا:

اے لوگو! ۔۔۔۔ ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس کی ابتدا رحمت ، جس کا وسط مغفرت اور جس کی انتہا آتش دوزخ سے رہائی ہے۔۔۔۔۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے یہ پاکیزگی کا مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں مؤمن کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔۔۔۔

كشف الاسرار و عده الابرار ، ج 1، ص 490

رسول اسلام (ص) ماہ شعبان کے آخری جمعہ کے خطبہ میں یہ اعلان کرتے ہیں سب سے زیادہ عظمت ماہ رمضان کی ہے۔ علی علیہ السلام اٹھتے ہیں اور فرماتے ہیں: یا رسول اللہ اس مہینہ کے افضل ترین اعمال کون سے ہیں ؟ فرمایا: اے ابو الحسن ! اس مہینہ کے بہترین اعمال محرمات سے پرہیز کرنا ہے۔

اے لوگو! اللہ کا مہینہ اپنی برکتوں، رحمتوں اور مغفرتوں کو لے کر آپ کی طرف آ رہا ہے۔ یہ مہینہ اللہ کے نزدیک تمام مہینوں سے برتر ہے۔ اس کے ایام دوسرے ایام سے برتر، اس کی راتیں دوسری راتوں سے برتر، اس کے لمحات دوسرے لمحات سے برتر ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں آپ لوگوں کو اللہ کے ہاں دعوت دی گئی ہے۔ اور آپ لوگ ان میں سے قرار پائے ہیں جو بارگاہ رب العزت میں مشمول اکرام واقع ہوتے ہیں۔ اس مہینہ میں آپ کی سانسیں اللہ کی تسبیح، آپ کی نیند عبادت ، اعمال قبول اور دعائیں مستجاب ہیں۔ بنا بر ایں خالص نیتوں اور پاک دلوں سے اللہ سے چاہو کہ آپ کو روزہ رکھنے اور اس مہینہ میں قرآن کی تلاوت کرنے کی توفیق عنایت کرے۔اس لیے کہ بدبخت وہ شخص ہے جو اس مہینہ میں اللہ کی مغفرت سے محروم رہ جائے۔ اور اس مہینہ کی بھوک اور پیاس سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو۔ فقیروں اور بے سہارا لوگوں پر بخشش کرو، بوڑھوں کا اکرام کرو۔ چھوٹوں پر رحم کرو۔ اور صلہ رحم کو مضبوط کرو۔

اپنی زبانوں کو گناہ سے محفوظ رکھو، اپنی آنکھوں کو حرام دیکھنے سے بچائے رکھو، اور اپنے کانوں کو حرام سننے سے محفوظ رکھو۔ یتیموں کے ساتھ شفقت اور مہربانی سے کام لو تا کہ آپ کے یتیموں کے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا جائے۔۔۔۔ اپنے گناہوں سے بارگاہ خداوندی میں توبہ کرو، نماز کے وقت اپنے ہاتھوں کو دعا کے لیے خدا کی طرف بلند کرو یقینا نماز کا وقت بہترین وقت ہے جس میں خدا اپنے بندوں کی طرف رحمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جب اس کو پکارتے ہیں وہ اجابت کرتا ہے۔۔۔ اے لوگو ! تمہاری جانیں تمہارے اعمال کے گروی ہیں استغفار کر کے انہیں آزاد کراؤ اور تمہاری گردنیں گناہوں کے بوجھ سے لدھی ہوئی ہیں پس طولانی سجدے کر کے انہیں ہلکا کرو۔

جان لو کہ خداوند عالم نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ نماز پڑھنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کو عذاب نہیں کرے گا۔ روز قیامت جب لوگ پروردگار عالم کی بارگاہ میں قیام کریں گے ہرگز انہیں جہنم کی آگ نہیں دکھلائے گا۔۔۔۔

جو شخص برائی سے اپنے آپ کو بچائے گا قیامت کے دن عذاب الہی سے محفوظ رہے گا۔ اور جو شخص دوسروں پر رحم کرے گا خداوند قیامت کے دن اس پر اپنی رحمت نازل کرے گا۔ اور جو شخص اس مہینہ میں کسی پر رحم نہیں کھائے گا خدا قیامت کے دن اس پر رحم نہیں کھائے گا۔۔۔۔ اور جو شخص ایک آیت قرآن کی تلاوت کرے گا اس شخص کی طرح ہے جس نے رمضان کے علاوہ پورا قرآن ختم کیا ہو۔۔۔۔

اے لوگو! اس مہینہ میں بہشت کے دروازے کھلے ہیں پس اپنے پروردگار سے چاہو کہ انہیں تمہارے اوپر بند نہ کرے اور اس مہینہ میں دوزخ کے دروازے بند ہیں خدا سے کہو کہ انہیں تمہارے اوپر نہ کھولے۔ شیاطین اس مہینہ میں زنجیروں میں بند ہیں اپنے پروردگار سے چاہو کہ انہیں تمہارے اوپر مسلط نہ کرے۔ علی علیہ السلام نے فرمایا: میں کھڑا ہوا اور عرض کیا : اے رسول اللہ اس مہینہ میں بہترین اعمال کون سے ہیں؟ فرمایا: اے ابو الحسن ! اس مہینے میں بہترین اعمال محرمات سے پرہیز کرنا ہے۔

وسائل الشیعه ، ج 7 صص228 226 . حدیث 20   

ماہ مبارک رمضان کی خصوصیات:

اللہ کا مہینہ:

قال رسول الله‏ صلى‏ الله ‏علیه ‏و‏آله: شَعبانُ شَهری، و شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ اللهِ۔

شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔

فضائل الأشهر الثلاثة: ص 20 ،44

الأمالی للصدوق: ص 38 ، 71

تحف العقول: ج 419

الإقبال:  ج3 ص293

روضة الواعظين: ص441

دعائم الإسلام: ج1 ص 283

بحارالأنوار: ج 97 ص68

قال رسول الله صلى‏ الله ‏عليه ‏و‏آله: شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ اللهِ، و شَهرُ شَعبانَ شَهري؛ شَعبانُ المُطَهِّرُ، و رَمَضانُ المُكَفِّرُ۔

رمضان کا مہینہ اللہ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے۔ شعبان پاک کرنے والا اور رمضان گناہوں کو ڈھانپنے والا ہے۔

كنز العمّال: ج 8 ص466

قال رسول الله صلى ‏الله ‏عليه‏ و‏آله: رَمَضانُ شَهرُ اللهِ، و هُوَ رَبيعُ الفُقَراءِ۔

رمضان اللہ کا مہینہ ہے اور یہ مہینہ فقراء کی بہار کا مہینہ ہے۔

ثواب الأعمال: ص 5 ، 84

النوادر للأشعري: ص17

فضائل الأشهر الثلاثة: ص 37 ، 58

الجعفريّات: ص 58

النوادر للراوندي: ص 134

بحارالأنوار:  ج97 ص 75

الإمام عليّ عليه‏السلام: شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ الله‏ِ، و شَعبانُ ‏شَهرُ رَسولِ ‏الله صلى‏الله‏عليه‏و‏آله، و رَجَبٌ شَهري۔

رمضان اللہ کا مہینہ ہے شعبان پیغمبر کا اور رجب میرا مہینہ ہے۔

المقنعة: ص 373

مسارّ الشيعة: ص 56

مصباح المتهجّد: ص 797

ضیافت الہی کا مہینہ:

قال رسول الله صلى ‏الله ‏عليه‏ و‏آله ـ في وَصفِ شَهرِ رَمَضانَ ـ : هُوَ شَهرٌ دُعيتُم فيهِ إلى ضِيافَةِ اللهِ، و جُعِلتُم فيهِ مِن أهلِ كَرامَةِ اللهِ، أنفاسُكُم فيهِ تَسبيحٌ، و نَومُكُم فيهِ عِبادَةٌ، ...

پیغمبر اکرم (ص) نے ماہ رمضان کی تعریف میں فرمایا: یہ وہ مہینہ ہے جس میں تمہیں ضیافت الہی پر دعوت دی گئی ہے اس میں تمہاری سانسیں تسبیح اور تمہاری نیندیں عبادت ہیں۔ اس میں تمہارا عمل مقبول ہے اور تمہاری دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔

فضائل الأشهر الثلاثة: ص 61 ، 77

الأمالي للصدوق: ص 4 ، 84

عيون أخبار الرضا: ج 1 ص 295

الإقبال: ج1 ص 25

بحارالأنوار: ج 96 ص 356

قال رسول الله صلى‏ الله‏ عليه ‏و‏آله: إذا كانَ يَومُ القِيامَةِ يُنادِي المُنادي: أينَ أضيافُ اللّه‏ِ؟ فَيُؤتى بِالصّائِمينَ ... فَيُحمَلونَ عَلى نُجُبٍ مِن نورٍ، و عَلى رُؤوسِهِم تاجُ الكَرامَةِ، و يُذهَبُ بِهِم إلَى الجَنَّةِ۔

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: جب قیامت ہو گی تو ایک منادی ندا دے گا: کہاں ہیں اللہ کے مہمان ؟ پس روزے داروں کو لایا جائے گا ۔۔۔ انہیں بہترین سواریوں پر سوار کیا جائے گا اور ان کے سروں پر تاج سجایا جائے گا اور انہیں بہشت میں لے جایا جائے گا۔

مستدرك الوسائل: ج 4 ص22

قال الامام عليّ عليه‏السلام ـ مِن خُطبَتِهِ في أوَّلِ يَومٍ مِن شَهرِ رَمَضانَ: أيُّهَا الصّائِمُ، تَدَبَّر أمرَكَ؛ فَإِنَّكَ في شَهرِكَ هذا ضَيفُ رَبِّكَ، اُنظُر كَيفَ تَكونُ في لَيلِكَ و نَهارِكَ؟ و كَيفَ تَحفَظُ جَوارِحَكَ عَن مَعاصي رَبِّكَ؟ اُنظُر ألاّ تَكونَ بِاللَّيلِ نائِما و بِالنَّهارِ غافِلاً؛ ...

امام علی علیہ السلام نے ماہ رمضان کے پہلے دن خطبے میں فرمایا: اے روزہ دارو! اپنے امور میں تدبر کرو، کہ تم اس مہینہ میں اللہ کے مہمان ہو دیکھو کہ تمہاری راتیں اور دن کیسے ہیں؟ اور کیسے تم اپنے اعضاء و جوارح کو اپنے پروردگار کی معصیت سے محفوظ رکھتے ہو؟ دیکھو ایسا نہ ہو کہ تم رات کو سو جاو اور دن میں اس کی یاد سے غافل رہو۔ پس یہ مہینہ گزر جائے گا اور گناہوں کا بوجھ تمہاری گردنوں پر باقی رہ جائے گا۔ اور جب روزے دار اپنی جزا حاصل کریں گے تو تم سزا پانے والوں میں سے ہو گے۔ اور جب انہیں انکا مولا انعام سے نوازے گا تو تم محروم ہو جاو گے اور جب انہیں خدا کی ہمسائگی نصیب ہو گی تو تمہیں دور بھگا دیا جائےگا۔

فضائل الأشهر الثلاثة: ص 108 ، 101

قال الإمام الباقر عليه‏السلام: شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ رَمَضانَ، وَالصّائِمونَ فيهِ أضيافُ اللّه‏ِ و أهلُ كَرامَتِهِ، مَن دَخَلَ عَلَيهِ شَهرُ رَمَضانَ فَصامَ نَهارَهُ و قامَ وِردا مِن لَيلِهِ وَاجتَنَبَ ما حَرَّمَ الله‏ُ عَلَيهِ، دَخَلَ الجَنَّةَ بِغَيرِ حِسابٍ۔

ماہ رمضان، ماہ رمضان، اس میں روزہ دار اللہ کے مہمان اور اس کے کرم کے سزاوار ہیں۔ جس شخص پر ماہ رمضان وارد ہو اور وہ روزہ رکھے اور رات کے ایک حصے میں اللہ کی عبادت کرے نماز پڑھے اور جو کچھ اللہ نے اس پر حرام کیا ہےاس سے پرہیز کرے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو گا۔

فضائل الأشهر الثلاثة: ص 123 ، 130

تمام مہینوں کا سردار:

قال رسول الله صلى‏ الله ‏عليه‏ و‏آله: شَهرُ رَمَضانَ سَيِّدُ الشُّهورِ۔

 ماہ رمضان تمام مہینوں کا سردار ہے۔

شرح الأخبار : ج 1 ص 223

الفضائل ، ابن شاذان: ص 125

بحارالأنوار: ج40 ص54

فضائل الأوقات للبيهقي: ص 89 ، 205

شُعَب الإيمان: ج3 ص 314

كنز العمّال: ج8 ص 482

قال الإمام الرضا عليه‏السلام: إذا كانَ يَومُ القِيامَةِ زُفَّتِ الشُّهورُ إلَى الحَشرِ يَقدُمُها شَهرُ رَمَضانَ عَلَيهِ مِن كُلِّ زينَةٍ حَسَنَةٍ، فَهُوَ بَينَ الشُّهورِ يَومَئِذٍ كَالقَمَرِ بَينَ الكَواكِبِ، فَيَقولُ أهلُ الجَمعِ بَعضُهُم لِبَعضٍ: وَدِدنا لَو عَرَفنا هذِهِ الصُّوَرَ! ...

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا تو تمام مہینوں کو محشر میں لایا جائے گا اس حال میں کہ ماہ رمضان زیورات سے آراستہ سب سے آگے ہو گا۔ اس دن ماہ رمضان بقیہ مہینوں میں ایسے ہو گا جیسے چاند باقی ستاروں کے درمیان ہے۔ پس محشر میں لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: ہم ان چہروں کو پہچاننا چاہتے تھے۔

خدا کی جانب سے ایک منادی ندا دے گا : اے مخلوق خدا! یہ مہینوں کے چہرے ہیں کہ جو اس وقت سے اللہ کی بارگاہ میں موجود تھے جب سے زمین و آسمان خلق ہوئے کہ ان کی تعداد بارہ ہے اور انکا سردار ماہ رمضان ہے۔ میں نے اسے ظاہر کیا ہے تاکہ اس کی برتری کو دیگر مہینوں پر دکھلا سکوں تا کہ وہ مردوں اور عورتوں میں سے جو میرے بندے ہیں انکی شفاعت کرے اور میں اس کی شفاعت قبول کروں ۔

فضائل الأشهر الثلاثة: ص 110 ، 102

شب قدر ماہ رمضان میں ہے:

قال رسول الله صلى ‏الله ‏عليه ‏و‏آله: قَد جاءَكُم شَهرُ رَمَضانَ؛ شَهرٌ مُبارَكٌ ... فيهِ لَيلَةُ القَدرِ خَيرٌ مِن ألفِ شَهرٍ، مَن حُرِمَها فَقَد حُرِمَ۔

ماہ رمضان تمہارے پاس آ چکا ہے جو برکتوں والا مہینہ ہے۔۔۔ کہ جس میں شب قدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ محروم وہ شخص ہے جو اس رات محروم رہ جائے۔

تهذيب الأحكام: ج4 ص 152

الأمالي للمفيد: ج1 ص301 و ج2 ص 112

الأمالي للطوسي: ج 74 ص 108و ص 149، 246 ،

بحارالأنوار: ج 97 ص 17

سنن النسائي:  ج4 ص129،

مسند ابن حنبل: ج 3 ص8

سُئِلَ رَسولُ الله‏ِ صلى‏ الله ‏عليه ‏و‏آله عَن لَيلَةِ القَدرِ، فَقالَ: «هِيَ في كُلِّ رَمَضانَ۔

 پیغمبر خدا (ص) سے شب قدر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: شب قدر ہر رمضان میں پائی جاتی ہے۔

سنن أبي داود: ج 2 ص54

السنن الكبرى: ج4 ص506

مسند ابن حنبل عن أبي مرثد: سَأَلتُ أباذَرٍّ قُلتُ: كُنتَ سَأَلتَ رَسولَ الله صلى‏ الله ‏عليه‏ و‏آله عَن لَيلَةِ القَدرِ؟ قالَ: أنَا كُنتُ أسأَلَ النّاسِ عَنها يعني أشدّ الناس مسألةً عنها. قالَ: قُلتُ: يا رَسولَ اللهِ، أخبِرني عَن لَيلَةِ القَدرِ أ في رَمَضانَ هِيَ أو في غَيرِهِ؟ قالَ: «بَل هِيَ في رَمَضانَ.»

قالَ: قُلتُ: تَكونُ مَعَ الأَنبِياءِ ما كانوا فَإِذا قُبِضوا رُفِعَت، أم هِيَ إلى يَومِ القِيامَةِ؟ قالَ: «بَل هِيَ إلى يَومِ القِيامَةِ.

میں نے ابوذر سے پوچھا: کیا آپ نے رسول خدا(ص) سے شب قدر کےبارے میں معلوم کیا ہے؟

کہا: میں سب سے زیادہ اس کے سلسلے میں پوچھتا رہا ہوں۔

( جناب ابوذر نے کہا) میں نے رسول خدا (ص) سے پوچھا: اے رسول خدا (ص)! مجھے شب قدر کے بارے میں آگاہ کریں کہ کیا شب قدر رمضان میں ہے یا کسی اور مہینے میں؟

فرمایا: ماہ رمضان میں۔

میں نے کہا: کیا جب تک پیغمبر زندہ ہیں تب تک ہے یا انکی رحلت کے بعد بھی شب قدر قیامت تک ماہ رمضان میں رہے گی؟

فرمایا: شب قدر قیامت تک باقی رہے گی۔

مسند ابن حنبل: ج8 ص117

المستدرك على الصحيحين: ج1 ص603

السنن الكبرى: ج4 ص505

استقبال رمضان کے متعلق رحمت للعالمین حضرت محمد (ص ) کا خطبہ:

نبی کریم (ص) کے استقبالِ رمضان سے متعلق ایک خطبے کا تذکرہ ہمیں بیہقی کی درج ذیل روایت میں ملتا ہے۔ اس خطبے سے استقبالِ رمضان کے نبوی معمول پر روشنی پڑتی ہے، حضرت سلمان فارسی روایت کرتے ہیں کہ:

رسول اللہ (ص) نے شعبان کی آخری تاریخ کو خطبہ دیا اور فرمایا، اے لوگو! تمہارے اوپر ایک بڑا بزرگ مہینہ سایہ فگن ہوا ہے۔ یہ بڑی برکت والا مہینہ ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس کی ایک رات ایسی ہے کہ ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں کے قیام کو تطوع یعنی نفل قرار دیا ہے۔ جس شخص نے اس مہینے میں کوئی نیکی کر کے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ اس شخص کے مانند ہے، جس نے دوسرے دنوں میں کوئی فرض ادا کیا یعنی اُسے ایسا اجر ملے گا جیسا کہ دوسرے دنوں میں فرض ادا کرنے پر ملتا ہے، اور جس نے اس مہینے میں فرض ادا کیا تو وہ ایسا ہے جیسے دوسرے دنوں میں اُس نے ستّر فرض ادا کیے اور رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے، اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں مؤمن کا رزق بڑھایا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس میں کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور اس کی گردن کو دوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہے اور اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا اُس روزہ دار کے لیے روزہ رکھنے کا ہے، بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع ہو۔

حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ ہم نے یعنی صحابہ کرام نے عرض کی، یا رسول اللہ (ص) ! ہم میں سے ہر ایک کو یہ توفیق میسر نہیں ہے کہ کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے۔ نبی (ص ) نے فرمایا، اللہ تعالی یہ اجر اُس شخص کو بھی دے گا جو کسی روزہ دار کا دودھ کی لسّی سے روزہ کھلوا دے یا ایک کھجور کھلا دے یا ایک گھونٹ پانی پلا دے، اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے تو اللہ تعالی اُس کو میرے حوض سے پانی پلائے گا۔ اِس حوض سے پانی پی کر پھر اُسے پیاس محسوس نہ ہو گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ اور یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کے آغاز میں رحمت ہے، وسط میں مغفرت ہے اور آخر میں دوزخ سے رہائی ہے اور جس نے رمضان کے زمانے میں اپنے غلام سے ہلکی و کم خدمت لی، اللہ تعالی اسے بخش دے گا اور اُس کو دوزخ سے آزاد کر دے گا۔

 ماہ رمضان کی عظمت:

مندرجہ بالا خطبے میں رمضان المبارک کی عظمت کے چند پہلو بیان کیے گئے ہیں، اس مہینے میں ایک رات شبِ قدر ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس ماہ کے نفل، نیکی دوسرے ایام کے فرض کے مساوی حیثیت اور قدر و قیمت رکھتی ہے۔ اِس ماہ میں ایک فرض عبادت کی ادائیگی دوسرے دنوں کے ستّر فرائض کے برابر ہے۔

یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے:

اس مہینے میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس مہینے کے آغاز میں رحمت ہے، وسط میں مغفرت ہے اور آخر میں دوزخ سے رہائی ہے۔ رمضان کی عظمت واضح کرنے کے پہلو بہ پہلو نبی (ص) نے اس مہینے کے جن اہم اعمالِ صالحہ کی طرف توجہ دلائی ہے وہ درجِ ذیل ہیں۔

اس ماہ کے روزے فرض ہیں:

یہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے۔ روزہ دار کا روزہ کھلوانا بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔ اس مہینے میں اپنے زیرِدست افراد سے ہلکی خدمت لینی چاہیے۔ توقع ہے کہ ایسا کرنے والے شخص کو اللہ تعالیٰ بخش دے گا اور دوزخ سے اُسے آزاد کر دے گا۔

رمضان اور قرآن:

مندرجہ بالا حدیث میں بیان کردہ امور کے علاوہ ماہِ رمضان المبارک کی بنیادی خصوصیت نزولِ قرآن مجید سے اس کا تعلق ہے۔ سورہ بقرۃ میں اس پہلو کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدیٰ وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوْا اللّٰہَ عَلیٰ مَا ہَدَاکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن۔

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اِس مہینے کو پائے، اُس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو،

تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔

سورہ بقرۃ آیت 185

رمضان کے مہینے میں قرآن کی عظیم نعمت انسانوں کو عطا کی گئی۔ اس نعمت کی قدر دانی کے اظہار کے لیے تین کام بتائے گئے۔

اس پورے مہینے کے روزے رکھے جائیں۔ طرزِ کلام یہ ظاہر کرتا ہے کہ دنوں کی اس تعداد کی بھی اہمیت ہے، چنانچہ بیماری یا سفر کی وجہ سے کچھ روزے اگر چھوٹ جائیں تو بقیہ دنوں میں اس تعداد کو پورا کرنا ضروری ہے۔ اللہ کی کبریائی کا اعتراف و اعلان کیا جائے اور اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔ انسان قدر دانی کے اظہار کے مندرجہ بالا کام توجہ، خوش دلی اور شوق کے ساتھ اُسی وقت انجام دے سکتا ہے جب اُسے قرآن کے نعمت ہونے کا احساس ہو۔ قرآن کن پہلوؤں سے نعمت ہے اس کا جواب بہت وسیع ہے لیکن آیتِ بالا میں جن پہلوؤں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ یہ ہیں:

قرآن کتابِ ہدایت ہے:

اس میں وہ بینات ہیں جو اپنا مدعا بالکل واضح طور پر بیان کرتی ہیں۔

یہ کتاب کسوٹی  یعنی فرقان ہے یعنی حق اور باطل میں فرق کرتی ہے۔

اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدیٰ۔  سورہ الیل آیت 12

بے شک ہدایت دینا ہمارے ذمّہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کی یہ ہدایت ہر زمانے میں آتی رہی ہے اور اس وقت قرآن مجید اور اہلبیت (محمد و آل محمد ؑ) کی تعلیمات کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے، کیونکہ حضرت محمد (ص) کے فرمان کے مطابق میں تمہارے درمیان دو گران قدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں اگر میرے بعد تم نے ان کو تھامے رکھا تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ ایک کتاب اللہ قرآن اور دوسری میری عترت اہلبیت (محمد و آل محمد)۔

الٓمٓoذٰلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَo والَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا أُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالآخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَo أُوْلٰئِکَ عَلیٰ ہُدًی مِّن رَّبِّہِمْ وَأُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo

'الف لام میم۔ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے اُن پرہیزگار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے، یعنی قرآن اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں اُن سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔

سورہ البقرۃ: آیت 1 تا 6

سورہ آلِ عمران میں کہا گیا ہے کہ:

الٓمٓo اللّٰہُ لَا الٰہَ الاَّ ھوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُo نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ وَالاِنْجِیْلَo مِنْ قَبْلُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَأَنْزَلَ الْفُرْقَانَ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِآیَاتِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍo

  'الف، لام، میم۔ اللہ وہ زندہ و جاوید ہستی ہے جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، حقیقت میں اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اے نبی! اُس نے تم پر یہ کتاب نازل کی جو حق لے کر آئی ہے اور اُن کتابوں کی تصدیق کر رہی ہے جو پہلے سے آئی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے تورات اور انجیل نازل کر چکا ہے اور اس نے وہ کسوٹی اتاری ہے، جو حق اور باطل کا فرق دکھانے والی ہے،اب جو لوگ اللہ کے فرامین کو قبول کرنے سے انکار کر دیں اُن کو یقینا سخت سزا ملے گی۔ اللہ بے پناہ طاقت کا مالک ہے اور برائی کا بدلہ دینے والا ہے۔ کتابِ ہدایت ہونے کی بناء پر قرآن مجید کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ زندگی کے ہر موڑ پر حق کے متلاشیوں کو سلامتی کے راستے بتاتا ہے اور اللہ کی رضا کے طالبین کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔

سورہ آلِ عمران آیت 1 تا 4

رمضان المبارک، خدا کی مہمانی کا مہینہ:

1۔ خدا کی مہمانی کا مفہوم:

خدا کی مہمانی عام مہمانیوں سے بہت مختلف ہے۔ کیونکہ خدا نے ماہ مبارک رمضان میں ہمیں دعوت دی ہے۔ یہ دعوت کچھ چیزوں کو ترک کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو ترک کرنا، ذاتی انا پرستی کو ترک کرنا اور ظاہری اور باطنی شہوتوں کو ترک کرنا۔ یہ سب اس مہمانی میں شامل ہیں۔ دنیا میں موجود تمام برائیوں کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انسان خدا کی مہمانی میں داخل نہیں ہوتا اور اگر داخل ہوتا ہے تو اس سے صحیح طور پر  مستفید نہیں ہوتا۔

خدا کی اس دعوت کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تمام انسانوں کیلئے ہے کیونکہ خداوند عالم کی رحمت اور بخشش نامحدود ہے۔ تمام انسانوں کیلئے دعوت نامہ جاری کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

اے لوگو، خدا کا مہینہ تم تک آ پہنچا ہے، وہ مہینہ جس میں تم لوگوں کو خدا کی جانب سے دعوت دی گئی ہے۔

2۔ خدا کی مہمانی کے آداب:

ہر مہمانی کے کچھ آداب ہوتے ہیں اور یہ مہمانی اگر خدا کے حضور میں ہو تو اسکے آداب بھی خاص ہوتے ہیں۔ خدا کی مہمانی کے آداب کو درج ذیل عناوین میں بیان کیا جا سکتا ہے:

ا۔ نفسانی خواہشات کو ترک کرنا:

قرآن اور احادیث میں نفسانی خواہشات کی پیروی کو انسان کی تمام خطاؤں اور مصیبتوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: "نفسانی خواہشات کو "ھوی" اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ وہ اپنی پیروی کرنے والے کو پستی اور سقوط کی طرف لے جاتی ہیں۔ لہذا پستی سے بچنے کیلئے نفسانی خواہشات کی مخالفت انتہائی ضروری ہے۔

اگرچہ نفسانی خواہشات کی مخالفت ایک انتہائی مشکل اور محنت طلب کام ہے لیکن ممکن ہے۔ اس راستے میں انسان کو خدا سے مدد مانگنی چاہیے۔ نفس کے خلاف جہاد کا بہترین موقع ماہ مبارک رمضان ہے کیونکہ اس مہینے میں شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خطبہ شعبانیہ کے آخر میں فرماتے ہیں:

شیاطین اس مہینے میں قید کر دیئے جاتے ہیں، پس تم لوگ خدا سے دعا مانگو کہ ان شیاطین کو تم پر مسلط نہ کرے۔

امام زین العابدین علیہ السلام رمضان المبارک کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: سلام ہو تم پر اے دوست کہ تم نے شیاطین پر قابو پانے میں میری مدد کی اور میرا راستہ آسان کر دیا۔

ب۔ ماہ مبارک رمضان سے غفلت نہ برتنا:

اکثر انسان خدا کی نعمتوں سے غافل ہیں لہذا ان سے صحیح طور پر استفادہ بھی نہیں کر پاتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خداوند عالم نے انسان کو " کفور " اور " کفار " جیسے القاب سے نوازا ہے۔ اس بری خصلت کے حامل افراد نعمت زائل ہو جانے کے بعد اسکی عظمت کو جانتے ہیں اور پھر سوائے حسرت کے کچھ انکے ہاتھ نہیں آتا۔ بے شک خدا کی بہترین نعمتوں میں سے ایک ماہ مبارک رمضان ہے۔ صرف خدا کے خاص بندے ہی اس مہینے کی عظمت سے واقف ہیں۔

امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول رمضان المبارک کے وداع کی دعا میں یوں بیان ہوا ہے:

شکر اس خدا کا جس نے اپنی رضا کا ایک راستہ اپنا مہینہ یعنی رمضان المبارک کو قرار دیا ہے، روزے، اسلام اور پاکیزگی کا مہینہ، اے خدا محمد اور انکی اولاد پر درود بھیج اور ہمیں ماہ رمضان کی فضیلت کو سمجھنے اور اسکے احترام کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرما۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم (ص) ہمیشہ رمضان المبارک شروع ہونے پر خدا سے عرض کرتے تھے اے خدایا رمضان المبارک آ پہنچا۔ اسی طرح خود امام صادق علیہ السلام بھی ہمیشہ رمضان المبارک شروع ہونے پر فرماتے تھے: خدایا، رمضان المبارک جس میں تو نے قرآن کو نازل فرمایا ہے آ پہنچا ہے۔

بزرگ عالم دین مرحوم شوشتری امام صادق علیہ السلام کی سیرت میں فرماتے ہیں: امام صادق علیہ السلام ان الفاظ سے خدا کو یہ بتانا نہیں چاہتے تھے کہ رمضان المبارک شروع ہو گیا ہے بلکہ خدا کے حضور عرض کرنا چاہتے تھے کہ اے خدایا میں رمضان المبارک کے شروع ہونے سے آگاہ ہوں اور اس سے غافل نہیں ہوں۔

ج۔ مہمانی کے مہینے میں خدا کا شکر ادا کرنا:

شکر گزاری ایک انتہائی اچھی خصوصیت ہے جس پر قرآن اور احادیث میں بہت تاکید ہوئی ہے۔ لہذا ماہ مبارک رمضان میں خدا کی جانب سے دعوت نامہ پانے والے افراد کیلئے ضروری ہے کہ وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیھم السلام کی سیرت کی پیروی کرتے ہوئے اس عظیم نعمت پر خالق متعال کا شکر ادا کریں۔

ابن عباس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں: اگر تم لوگ رمضان المبارک کی فضیلت کو جان لیتے تو خدا کا بہت زیادہ شکر ادا کرتے۔

د۔ رمضان المبارک کے احترام کو مدنظر رکھنا:

بعض روایات میں نقل ہوا ہے: کچھ گناہوں کی سزا رمضان المبارک کے احترام کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے کئی برابر ہو جاتی ہے۔

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں: ہم پر لازم ہے کہ رمضان المبارک کا احترام اور اسکے حق کا خیال رکھیں۔

امام زین العابدین علیہ السلام ایک اور دعا میں فرماتے ہیں: خدایا، کس قدر خوش بخت ہے وہ انسان جو تیری خاطر ماہ مبارک رمضان کے احترام کا خیال رکھتا ہے۔

رمضان المبارک کا احترام یہ ہے کہ اس مہینے میں انسان خدا کی معصیت نہ کرے، اگر کسی وجہ سے اسکا روزہ نہیں ہے تو سب کے سامنے کھانے پینے سے پرہیز کرے اور خدا کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرے۔

 مولا علی (ع)، قرآن اور رمضان:

ليکن افسوس ! تہجر کے يخ زدہ پہاڑوں کو پگھلانے کے لیے جو کتاب نازل ہوئی تھی آج وہی کتاب تہجر کا شکار ہے اور آواز دے رہی ہے مجھے کس طرح ميرے ماننے والوں نے خود اپنے ہی وجود ميں منجمد کر ديا۔ ميں تو منجمد شدہ پيکروں کو آوازِ حق کی گرمی سے پگھلا کر اشرف المخلوقات انسان کو کمال کی انتہا پر پہنچانے آئی تھی، ليکن آج ميرا وجود ہی ايک حرف بن کر رہ گیا ہے۔

علی (ع) قرآن ناطق تاريخ بشريت کی مظلوم ترين شخصيت اتنی بڑی کائنات ميں وہ اکيلا انسان جو صدياں گزر جانے کے بعد آج بھی اکيلا اسی جگہ کھڑا ہے جہاں صديوں پہلے کھڑا تھا ۔ اس انتظار ميں کہ شايد کچھ ايسے افراد مل جائيں جو اسے سمجھ سکيں اور پھر اسکا اکيلا پن دور ہو جائے ليکن زمانہ جيسے جيسے آگے بڑھ رہا ہے وہ اور زيادہ اکيلا ہوتا چلا جا رہا ہے، بالکل قرآن کی طرح۔ علی اور قرآن کتنی يکسانيت ہے دونوں ميں ؟ سچ کتنی اپنائيت ہے دونوں ميں؟ جيسے دونوں کا وجود ايک دوسرے کے لیے ہو دونوں ايک دوسرے کے درد کو سمجھتے ہوں . يہ بھی کيا عجيب اتفاق ہے امت محمدی کو مالک کی طرف سے دو عظيم عطيے ملے ليکن دونوں مظلوم، دونوں تنہا، دونوں درد کے مارے مگر آپس ميں ہماہنگ اس جہت سے کہ دونوں پر ظلم کرنے والے اور کوئی نہيں بلکہ خود اپنے ہی ماننے والے مسلمان ہيں ۔

علیا ولی الله:

جس طرح آج کروڑوں لوگ اپنی زندگی ميں صبح و شام قرآن کا ورد کرتے ہيں ليکن نہ انہيں قرآنی معارف کا علم ہے اور نہ وہ يہ جانتے ہيں کہ قرآن ان سے کيا کہنا چاہتا ہے، اسی طرح علی کی ذات بھی ہے ۔ لوگ علی کا تذکرہ کرتے نہيں تھکتے، صبح و شام علی علی کرتے ہيں انکی محفلوں ميں علی کا نام ہے، مجلسوں ميں علی کا ذکر ہے، تقريبوں ميں علی کا چرچا ہے، خلوت کدوں ميں علی کے نام کا ورد ہے ليکن انہيں نہيں معلوم کہ يہ شخصيت کن اسرار کی حامل ہے اور خود يہ ذات اپنے چاہنے والوں سے کيا چاہتی ہے انہيں تو اس بات کا بھی علم نہيں ہے کہ جن فضيلتوں کا تذکرہ وہ دن بھر کرتے رہتے ہيں وہ تمام فضيلتيں تو فضائلِ علی کے سمندر کا ايک قطرہ  ہيں اور بس ! علی کی ذات تو کچھ اور ہی ہے!!!

آج قرآن کے نام پر نہ جانے کتنی محفليں ہوتی ہيں نہ جانے کتنی نشستوں کا اہتمام کيا جاتا ہے نہ جانے دنيا ميں کن کن طريقوں سے قرآن کی قرآت کے مختلف مقابلے ہوتے ہیں، نہ جانے کتنی جگہ قرآن فہمی کے دروس رکھے جاتے ہيں بالکل اسی طرح علی کے نام پر بھی محفليں سجتی ہيں، بے شمار تقريبيں ہوتی ہيں، لا تعداد سيمينار ہوتے ہيں ليکن صبح و شام نہ قرآن کے ورد کرنے والوں کو قرآن کے مفاہيم کا اندازہ ہے اور نہ ہی اس کے آفاقی پيغامات پر کوئی غور و خوض کرنے پر اپنے آپ کو آمادہ کر پاتا ہے نہ ہی علی کے نام کو صبح سے شام تک اپنی زبان پر لينے والے افراد يہ جانتے ہيں کہ علی کی شخصيت کيا ہے اور کردار و اخلاق علوی کسے کہتے ہيں؟

يہ امر بھی قابل حيرت ہے کہ علی کے نام کو ورد زباں بنانے والے افراد جہاں اس مبارک نام کو اپنی ہر محفل کي زينت بنانا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہيں وہيں علی پر پڑنے والی مصيبتوں پر روتے بھی ہيں اور خوب خوب روتے ہيں کوئی نہ انکی محبت کو خدشہ دار بنا سکتا ہے اور نہ کوئی انکے عمل ميں نقص ڈھونڈ سکتا ہے، واقعی اور حقيقی معنی ميں يہ علی سے محبت کرتے ہيں اور علی کو چاہتے ہيں اور اسی لیے علی کا نام آتے ہی خوشيوں کی ايک لہر ان کے وجود ميں دوڑ جاتی ہے اور علی کی مصيبتوں کا تذکرہ ہوتے ہی آنکھوں ميں آنسو آ جاتے ہيں ليکن افسوس تو يہاں ہوتا ہے کہ علی کے ان چاہنے والوں اور عاشقوں کو نہيں معلوم کہ خود علی کيوں رو رہے ہيں؟

آج جس ضربت نے سرِ علی کو دو پارہ کر ديا اس پر رونے والے تو بہت مل جائيں گے ليکن وہ زخم زباں جنہوں نے علی کے حساس وجود کو اندر سے ٹکڑے ٹکڑے کر ديا اس پر رونے والا کوئی نہيں ملتا وہ نشتر کہ جو علی کے دل کے آر پار ہو گئے ان پر گريہ کرنے والا کوئی نہيں ہے اور نہايت درجہ افسوس تو يہ ہے کہ رونا تو در کنار نہ کسی کو علی کے دل ميں چبھے نشتر نظر آتے ہيں اور نہ کسی کو علی کے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دينے والے مصائب دکھتے ہيں۔ کوئی اپنے آپ سے نہيں پوچھتا کہ علی کے اوپر پڑنے والی وہ کونسی مصیبت ہے جو رات کی تاریکی میں علی کو چاہ میں سر ڈال کر رونے پر مجبور کر رہی ہے، آخر وہ کونسا راز ہے جسے علی بنی نوع بشر کے فرد فرد تک پہنچانا چاہتا ہے اور جب اسکی آواز خود اس کے ہی ہونٹوں میں دب کر ٹوٹ جاتی ہے تو نخلستانوں میں بلک بلک کر اپنے معبود کی بارگاہ میں فریاد کرتا ہے:

ربنا ما خلقت ہذا باطلا سبحانک فقناعذاب النار۔۔۔

علی بن ابی طالب (ع):

آئیے ! اس مبارک مہینے میں جہاں ہر طرف برکات کا نزول ہے کچھ ان اساسی اور بنیادی مسائل پر وقت نکال کر غور کرتے ہیں کہ:

علی کی تنہائی کا راز آخر کیا ہے؟

قرآن آج بھی آخر کیوں تنہا ہے؟

ہم علی اور قرآن کی تنہائی کو دور کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟

ہماری اجتماعی زندگی میں قرآن کا کتنا دخل ہے؟

ہم اپنے معاشرے کو کس قدر قرآن کا پابند بنا سکتے ہیں کہیں ہمارا زمانہ وہی زمانہ تو نہیں جس کے لیے علی نے کہا تھا کہ:

"و انہ سیاتی علیکم بعدی زمان۔۔۔و لیس عند اھل ذلک الزمان سلعۃ ابور من الکتاب۔۔۔ فقد نبذ الکتاب حملتہ و تناساہ حفظتہ۔۔۔"

یاد رکھو میرے بعد تمہارے سامنے وہ زمانہ آنے والا ہے جب اس زمانے والوں کے نزديک کتابِ خدا سے زيادہ بے قيمت کوئی متاع نہ ہو گا ۔ حاملان کتاب، کتاب کو چھوڑ ديں گے اور حافظان قرآن، قرآن کو بھولا دينگے۔

نہج البلاغہ ۔خطبہ 5

قرآن کے متعالی مفاہیم کو سمجھنے اور نئی نسل تک منتقل کرنے اور قرآن کے ساتھ کی جانے والی علی کی خدمات کو بیان کرنے کے لیے اس مبارک مہینے میں کہ جس میں ایک طرف قرآن نازل ہوا تو دوسری طرف محافظ قرآن کے خون سے محراب مسجد رنگین ہو گئی۔

قرآن و سنت کی روشنی میں رمضان المبارک کی خصوصیات و معنوی اثرات:

ہجری قمری سال کا نواں مہینہ رمضان المبارک ہے جس میں طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک چند امور سے قربت خدا کی نیت سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ مثلاً کھانا پینا اور بعض دوسرے مباح کام ترک کر دیئے جاتے ہیں۔ شرعی زبان میں اس ترک کا نام "روزہ" ہے۔ جو اسلام کی ایک اہم ترین عبادت ہے۔ روزہ فقط اسلام میں ہی واجب نہیں بلکہ تمام ملل و مذاہب میں کسی نہ کسی شکل میں روزہ رکھا جاتا ہے اور تمام الہی ادیان اس کی افادیت کے قائل ہیں۔ البتہ ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھنا اسلام سے ہی مختص ہے۔ اسی لیے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ماہ مبارک رمضان کو اپنی ایک دعا میں جو صحیفہ سجادیہ میں موجود ہے شہرالاسلام، یعنی اسلام کا مہینہ قرار دیا ہے۔

ماہ مبارک رمضان کی وجہ تسمیہ:

ماہ مبارک رمضان کو " رمضان " کے نام سے کیوں یاد کیا جاتا ہے؟۔ اس سلسلے میں چند اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر قول اپنی جگہ ایک دلیل رکھتا ہے لیکن ہم یہاں ان اقوال میں جو وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے اسی کے ذکر پر اکتفا کریں گے:

1- رمضان "رمض" سے ماخوذ ہے جس کے معنی "دھوپ کی شدت سے پتھر، ریت وغیرہ کے گرم ہونے" کے ہیں۔ اسی لیے جلتی ہوئی زمین کو " رمضا " کہا جاتا ہے اور جب پہلی دفعہ روزے واجب ہوئے تو ماہ مبارک رمضان سخت گرمیوں کے ایام میں پڑا تھا۔ جب روزوں کی وجہ سے گرمیوں کا احساس بڑھا تو اس مہینے کا نام رمضان پڑ گیا۔ یا یہ کہ یہ مہینہ گناہوں کو اس طرح جلاتا ہے جس طرح سورج کی تمازت زمین کی رطوبتوں کو جلا دیتی ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

"انما سمی رمضان لان رمضان یرمض الذنوب"۔

رمضان کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔

تفسیر نور، جلد 1، صفحہ 370

2- یہ کہ رمضان "رمضی" سے ماخوذ ہے جس کے معنی "ایسا ابر و باراں ہے جو موسم گرما کے اخیر میں آئے اور گرمی کی تیزی کو دور کر دے"۔ رمضان کا مہینہ بھی گناہوں کے جوش کو کم کرتا ہے اور برائیوں کو دھو ڈالتا ہے۔

3- رمضان کسی دوسرے لفظ سے نہیں لیا گیا بلکہ یہ اللہ تعالی کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ہے۔ چونکہ اس مہینے کو خداوند عالم کے ساتھ ایک خصوصی نسبت حاصل ہے لہذا خدا کے ساتھ منسوب ہونے کی وجہ سے رمضان کہلاتا ہے۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ منسوب ہے:

"لا تقولوا ھذا رمضان و لا ذھب رمضان و لا جاء رمضان فان رمضان اسم من اسماء اللہ تعالی و ھو عز و جل لا یجیئو و لا یذھب ولکن قولوا شھر رمضان"۔

یہ نہ کہا کرو کہ یہ رمضان ہے اور رمضان گیا اور رمضان آیا۔ اس لئے کہ رمضان اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور خداوند عالم کہیں آتا جاتا نہیں ہے لہذا کہا کرو ماہ رمضان۔

ترجمہ، صحیفہ کاملہ، مفتی جعفر حسین، صفحہ 320

روزہ گذشتہ امتوں میں:

تفسیر نمونہ میں مفسرین نے لکھا ہے: "موجودہ تورات اور انجیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ روزہ یہود و نصاری میں بھی تھا جیسا کہ "قاموس کتاب مقدس" میں بھی ہے۔ روزہ ہر زمانے کی امتوں، گروہوں اور مذہب میں غم و اندوہ اور اچانک مصیبت کے موقع پر معمول تھا۔

قاموس کتاب مقدس، صفحہ 42

تورات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے چالیس دن تک روزہ رکھا جیسا کہ لکھا ہے: "جب میں پہاڑ پر گیا تاکہ پتھر کی تختیاں یعنی وہ عہد والی تختیاں جو خدا نے تمہارے ساتھ منسلک کر دی ہیں حاصل کروں اس وقت میں پہاڑ میں چالیس راتوں تک رہا، وہاں میں نے نہ روٹی کھائی اور نہ پانی پیا۔

تورات، سفر تشینہ، فصل 9، نمبر 9

یہودی جب توبہ کرتے اور رضای الہی طلب کرتے تو روزہ رکھتے تھے۔ اکثر اوقات یہودی جب موقع پاتے کہ خدا کی بارگاہ میں عجز و انکساری اور تواضع کا اظہار کریں تو روزہ رکھتے تاکہ اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے روزہ اور توبہ کے ذریعے حضرت اقدس الہی کی رضا و خوشنودی حاصل کریں۔

قاموس کتاب مقدس، ص 428

" روزہ فقط اسلام میں ہی واجب نہیں بلکہ تمام ملل و مذاہب میں کسی نہ کسی شکل میں روزہ رکھا جاتا ہے اور تمام الہی ادیان اس کی افادیت کے قائل ہیں۔ "

 احتمال ہے کہ "روزہ اعظم با کفارہ" سال میں مخصوص ایک دن کیلئے ہو جس کا یہودیوں میں رواج تھا البتہ وہ دوسرے موقتی روزے بھی رکھتے تھے مثلاً شلیم کی بربادی کے وقت رکھا گیا روزہ وغیرہ۔

قاموس کتاب مقدس، ص 428

 جیسا کہ انجیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی چالیس دن روزے رکھے۔ "اس وقت عیسی قوت روح کے ساتھ بیابان میں لے جائے گئے تاکہ ابلیس انھیں آزمائے۔ پس انہوں نے چالیس شب و روز روزہ رکھا اور وہ بھوکے رہے۔

انجیل متی، باب 4، نمبر 1 و 2

انجیل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ان کے حواری بھی روزہ رکھتے تھے۔ جیسا کہ انجیل میں ہے: "انہوں نے اس سے کہا کہ کیا بات ہے کہ یحیی کے شاگرد ہمیشہ روزہ رکھتے ہیں اور دعا کرتے رہتے ہیں جبکہ تمہارے شاگرد ہمیشہ کھاتے پیتے رہتے ہیں لیکن ایک زمانہ آئے گا جب داماد ان میں سے اٹھا لیا جائے گا اور وہ اس وقت روزہ رکھیں گے۔

انجیل لوقا، باب 5، نمبر 33-35،

کتاب مقدس میں بھی ہے: "اس بنا پر حواریین اور گذشتہ زمانے کے مومنین کی زندگی انکار لذات، بے شمار زحمات اور روزہ داری سے بھری پڑی تھی۔

قاموس کتاب مقدس، ص 428،

قرآن اور ماہ مبارک رمضان:

قرآن مجید کی آیات میں ماہ مبارک رمضان اور فریضہ روزہ کی بہت سی خصوصیات بیان ہوئی ہیں جن میں سے چند ایک یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔

1-  روزے کی تشریع:

قرآن مجید روزے کی تشریع اور وجوب کے بارے میں ایک آیت میں صراحت سے فرماتا ہے:

یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون،

اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے والوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیار کرو۔

سورہ بقرہ، آیت 183

2- روزے کے چند اہم مسئلے:

"ایاماً معدودات فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر و علی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین فمن تطوع خیرا فھو لہ و ان تصوموا خیر لکم ان کنتم تعلمون"

گنتی کے چند دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی پوری کر لے، اور اسکی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت حاصل کرے وہ اس کیلئے بہترین ہے، تمہارے حق میں بہترین کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم یہ جان سکو۔

سورہ بقرہ، آیت 184

اس آیت سے روزے کے جو چند احکام اخذ ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:

الف: معین اور مخصوص ایام میں روزے کا واجب ہونا،

ب: معذور افراد کیلئے روزے کی قضا،

3-  ماہ مبارک رمضان کی خصوصیات:

قرآن کی سورہ بقرہ کی آیت 185 میں اس ماہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے خداوند عالم فرماتا ہے:

"شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس و بینت من الھدی و الفرقان فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ و من کان مریضا او علی سفر فعدۃ ایام اخر یرید اللہ بکم الیسر و لا یریدکم العسر و لتکملوا العدۃ و لتکبروا اللہ علی ما ھداکم و لعلکم تشکرون"

ماہ مبارک رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کیلئے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں موجود ہیں۔ تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے تو وہ روزہ رکھے، ہاں جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے۔ اللہ تعالی تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ تم روزوں کی تکمیل کرو اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بزرگی بیان کرو، شاید تم شکرگزار ہو جاؤ۔

اس آیت کریمہ میں ماہ مبارک رمضان میں روزوں کے وجوب کی وجوہات بیان کی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اسی بنا پر اسے دوسرے مہینوں پر برتری حاصل ہے۔ سب سے پہلی خاصیت یہ ہے کہ قرآن، جو ہدایت اور انسانی رہبری کی کتاب ہے اور جس نے اپنے قوانین اور احکام کی صحیح روش کو غیرصحیح راستے سے جدا کر دیا ہے اور جو انسانی سعادت کا دستور لے کر آئی ہے، اسی مہینے میں نازل ہوا ہے۔ روایات میں ہے کہ تمام عظِم آسمانی کتابیں جیسے تورات، انجیل، زبور، صحیفے اور قرآن مجید اسی ماہ میں نازل ہوئی ہیں۔

روایات معصومین علیہم السلام اور ماہ مبارک رمضان:

1- روزے کی اہمیت:

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"بنی الاسلام علی خمس دعائم علی الصلوۃ و الزکوۃ و الصوم و الحج و الولایۃ"

 اسلام پانچ بنیادوں پر قائم ہے: نماز، زکات، روزہ، حج اور ولایت۔

بحار الانوار، ج 76، ص 257،

2- روزہ داروں کی فضیلت:

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"نوم الصائم عبادۃ و صمتہ تسبیح و عملہ متقبل و دعاءہ مستجاب عند الافطار دعوۃ لا ترد"

روزے دار کی نیند عبادت اور اسکی خاموش تسبیح اور اسکا عمل قبول شدہ ہے، اسکی دعا مستجاب ہو گی اور افطار کے وقت اسکی دعا رد نہیں کی جائے گی۔

بحار الانوار، جلد 96، ص 253

3- روزے کی حکمت:

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا:

"فرض اللہ الصیام تثبیتاً للاخلاص"

خداوند متعال نے روزے کو اس لیے واجب کیا ہے تاکہ لوگوں کے اخلاص کو محکم کرے۔

بحار الانوار، ج 96، ص 368

4- روزہ بدن کی زکات:

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

"لکل شی زکوۃ و زکوۃ الابدان الصیام"

ہر چیز کی زکات ہے اور انسانوں کے بدن کی زکات روزہ ہے۔

بحار الانوار، ج 96، ص 246

5-  روزہ عبادت خالص:

حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے فرمایا:

"الصوم عبادۃ بین العبد و خالقہ لا یطلع علیھا غیرہ و کذلک لا یجاری عنھا غیرہ"

روزہ خدا اور انسان کے درمیان ایک ایسی عبادت ہے جس سے خدا کے سوا کوئی آگاہ نہیں ہوتا لہذا خدا کے علاوہ کوئی اور اس کا اجر ادا نہیں کر سکتا۔

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج 20، ص 296

6- روزہ آتش جہنم کی ڈھال:

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"الا اخبرک بابواب الخیر؟ الصوم جنۃ من النار"

کیا میں تمہیں نیکی کے دروازوں کی خبر نہ دوں؟ اسکے بعد فرمایا: روزہ آتش جہنم کی ڈھال ہے۔

روضۃ المتقین، ج 3، ص 228

7- روزہ محبوب پیامبر اکرم (ص):

پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

"ان من الدنیا احب ثلاثۃ اشیاء الصوم فی الصیف و الضرب بالسیف و اکرام الضیف"

میں دنیا میں سے تین چیزوں سے محبت کرتا ہوں، موسم گرما کا روزہ، راہ خدا میں تلوار چلانا اور مہمان کا احترام کرنا۔

مواعظ العددیہ، ص 76

8- زندگی کی مشکلات میں روزے سے مدد حاصل کرنا:

"و استعینوا فی الصبر و الصلوۃ" کے ذیل میں امام معصوم علیہ السلام فرماتے ہیں: "الصبر الصوم اذا نزلت بالرجل الشدۃ او النازلۃ فلیصم"

آیہ شریفہ کے ذیل میں امام معصوم علیہ السلام سے منقول ہے: صبر سے مراد روزہ ہے، جب بھی زندگی میں تمہیں کوئی مشکل پیش آئے تو روزہ رکھو اور اس سے مدد طلب کرو۔

بحار الانوار، ج 96، ص 254

9-  برترین روزہ:

حضرت امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

"صوم القلب خیر من صیام اللسان و صوم اللسان خیر من صیام البطن"

دل کا روزہ زبان کے روزے سے بہتر اور زبان کا روزہ پیٹ کے روزے سے برتر ہے۔

غررالحکم، ج 1، ص 417

10- حقیقی روزہ:

مولای متقیان حضرت امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

الصیام اجتناب المحارم کما یمتنع الرجل من الطعام و الشراب،

روزہ محرمات الہی سے پرہیز کا نام ہے جیسا کہ انسان کھانے پینے کی چیزوں سے پرہیز کرتا ہے۔

بحار الانوار، ج 96، ص 294

11- بے ارزش روزہ:

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

"لا صیام لمن عصی الامام و لا صیام لعبد ایق حتی یرجع و لا صیام لامراۃ ناشزۃ حتی تتوب و لا صیام لولد عاق حتی یبر"

چند لوگوں کا روزہ صحیح نہیں: جو شخص امام معصوم علیہ السلام کی نافرمانی کرے، وہ غلام جو اپنے آقا سے بھاگ جائے، وہ عورت جو اپنے شوہر کے حقوق ادا نہ کرے، وہ فرزند جو والدین کا عاق ہو مگر یہ کہ غام واپس آ جائے اور عورت توبہ کر لے اور فرزند نیک بن جائے۔

بحار الانوار، ج 96، ص 294

12- برترین اجر و ثواب:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

"الصوم لی و انا اجزی بہ"

روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کا اجر و ثواب دوں گا۔

روضۃ المتقین، ج 3، ص 225

13- شیطان کے چہرے کا سیاہ ہونا:

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

الصوم یسود وجھہ الشیطان،

روزہ شیطان کے چہرے کو سیاہ کر دیتا ہے۔

روضۃ المتقین، ج 3، ص 227

14- روزہ اور تندرستی:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

"اغزوا تغنموا و صوموا تصحوا سافروا تستغنوا"

جنگ و جہاد کرو اور غنیمت حاصل کرو، روزہ رکھو تاکہ سلامت رہو اور سفر کرو تا کہ بے نیاز اور غنی ہو جاؤ۔

بحار الانوار، ج 62، ص 294

15- روزہ اور مغفرت:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

"یا جابر ھذا شھر رمضان من صام نھارہ و قام وردا من لیلۃ و عف بطنہ و فرجہ و کف لسانہ خرج من ذنوبہ کخروجہ من الشھر فقال جابر یا رسول اللہ ما احسن ھذا الحدیث فقال رسول اللہ یا جابر و ما اشد ھذا الشروط"

اے جابر، یہ ماہ رمضان کا مہینہ ہے، جس نے اس ماہ میں روزہ رکھا، رات دعا اور عبادت میں گزاری، پیٹ اور شرم گاہ کی عفت کا خیال رکھا اور زبان کو قابو میں رکھا وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل گیا جیسے ماہ رمضان سے نکل گیا۔ جابر نے عرض کی یا رسول اللہ یہ حدیث کس قدر اچھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے جابر ان شروط پر عمل کرنا اور انکی رعایت کرنا بھی کس قدر مشکل ہے۔

فروع کافی، ج 4، ص 87

16- فقراء کے ساتھ ہمدردی:

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"انما فرض اللہ عزوجل لیستوی الغنی و الفقیر۔۔۔۔۔۔۔ و ان یذیق الغنی مس الجوع و الالم لیرق علی الضعیف و یرحم الجائع"

خدا نے مسلمانوں پر روزہ واجب کیا ہے تا کہ فقیر اور غنی برابر ہو جائیں ۔۔۔۔۔۔ اور خدا نے روزے کے ذریعے اغنیا کو بھوک و پیاس کی سختی اور درد کا ذائقہ چکھانے کا ارادہ کیا ہے تا کہ وہ ضعفاء اور بھوکے پیاسے لوگوں پر رحم کریں۔

وسائل الشیعہ، ج 7، ص 3

17- روزہ اور شہوات نفسانی کا خاتمہ:

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔۔۔۔۔ فاالصوم یمیت مراد النفس و شھوۃ الطبع فیہ صفاء القلب و طھارۃ الجوارح و عمارۃ الظاھر و الباطن و الشکر علی النعم و الاحسان الی فقراء و زیادۃ التضرع و الخشوع و البکاء و حبل الالتجاء الی اللہ و سبب انکسار الشھوۃ و تخفیف الحساب و تضعیف الحسنات و فیہ من الفوائد ما لا یحصی"

رسول اللہ صلی اللہ علی و آلہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ خواہشات نفسانی اور طبیعت کی شہوت کو کمزور کرتا ہے، قلب کی پاکیزگی، بدن کے اعضاء کی صفائی کا باعث بنتا ہے اور انسان کے ظاہر و باطن کو آباد کرتا ہے۔ نیز نعمت کے شکر، فقرا پر احسان، اور پروردگار کی بارگاہ میں تضرع اور خشوع اور گریہ و زاری کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح خدا کی محکم رسی سے تمسک اور شہوت کے ختم ہونے اور حساب کتاب میں تخفیف اور نیکی کے دو برابر ہونے کے علاوہ بے شمار حسنات و فوائد کا موجب بنتا ہے۔

بحار الانوار، ج 96، ص 254

18- ماہ مبارک رمضان کا بہترین عمل:

جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ماہ مبارک رمضان کی فضیلت میں ایک خطبہ بیان فرما رہے تھے تو حضرت علی علیہ السلام نے پوچھا: ماہ مبارک رمضان میں بہترین عمل کون سا ہے؟۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا:

"یا اباالحسن افضل الاعمال فی ھذا الشھر الورع عن محارم اللہ"

اے ابوالحسن، اس ماہ مبارک میں بہترین عمل محرمات الہی کی نسبت ورع اور تقوی اختیار کرنا ہے۔

وسائل الشیعہ، ج 10، ص 30

ماہ مبارک رمضان اور صحیفہ سجادیہ:

امام زین العابدین علیہ السلام "دعائے استقبال ماہ رمضان" میں اس ماہ مبارک کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے جس نے اپنے لطف اور احسان کے راستوں میں سے ایک راستہ اپنے مہینہ یعنی رمضان کے مبارک مہینے، صیام کے مہینے، اسلام کے مہینے، پاکیزگی کے مہینے، تصفیہ و تطہیر کے مہینے، عبادت و قیام کے مہینے کو قرار دیا ہے۔ وہ مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا، جو لوگوں کیلئے رہنما اور ہدایت ہے، ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی روشن صداقتیں رکھتا ہے چنانچہ تمام مہینوں پر اس کی فضیلت اور برتری کو آشکارا کیا۔ ان فراوان عزتوں اور نمایاں فضیلتوں کی وجہ سے جو اس کیلئے قرار دیں اور اسکی عظمت کے اظہار کیلئے جو چیزیں دوسرے مہینوں میں جائز کی تھیں اس میں حرام کر دیں اور اس کیلئے احترام کے پیش نظر کھانے پینے کی چیزوں سے منع کر دیا اور ایک واضح زمانہ اس کیلئے معین کر دیا۔ خدائے بزرگ و برتر یہ اجازت نہیں دیتا کہ اسے اس سے موخر کر دیا جائے۔ پھر یہ کہ اس کی راتوں میں سے ایک رات کو ہزار مہینوں کی راتوں پر فضیلت دی اور اسکا نام "شب قدر" رکھ دیا۔ اس رات میں فرشتے اور روح القدس ہر اس امر کے ساتھ جو اسکا قطعی فیصلہ ہوتا ہے اسکے بندوں میں سے جس پر وہ چاہتا ہے نازل ہوتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی کی رات ہے جسکی برکت طلوع فجر تک دائم و برقرار ہے۔ اے اللہ، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور انکی آل علیھم السلام پر رحمت نازل فرما اور ہمیں ہدایت فرما کہ ہم اس مہینہ کے فضل و شرف کو پہچانیں۔ اسکی عزت و حرمت کو بلند جانیں اور اس کے روزے رکھنے میں ہمارے اعضاء کو نافرمانیوں سے روکنے اور ان کاموں میں مصروف رکھنے جو تیری خوشنودی کا باعث ہیں ہماری اعانت فرما تاکہ ہم بیہودہ باتوں کی طرف کان نہ لگائیں، ممنوع چیزوں کی طرف پیش قدمی نہ کریں، تیری حلال کی ہوئی چیزوں کے علاوہ کسی چیز کو ہمارے پیٹ قبول نہ کریں، تیری بیان کی ہوئی باتوں کے سوا ہماری زبانیں گویا نہ ہوں۔ صرف ان چیزوں کے بجا لانے کا بار اٹھائیں جو تیرے ثواب سے قریب کریں اور صرف ان کاموں کو انجام دیں جو تیرے عذاب سے بچائیں"

صحیفہ کاملہ ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین، دعائے استقبال ماہ رمضان،

روزے کے معنوی اثرات:

1- تربیتی اور اجتماعی اثرات:

وجود انسانی میں روزے کے جو اثرات پیدا ہوتے ہیں ان میں سب سے اہم اس کا اخلاقی پہلو اور تربیتی فلسفہ ہے۔ روح انسانی کو لطیف تر بنانا، انسان کے ارادے کو قوی کرنا اور انسانی مزاج میں اعتدال پیدا کرنا روزے کے اہم فوائد میں سے ہے۔ روزے دار کیلئے ضروری ہے کہ حالت روزہ میں آب و غذا کی دستیابی کے باوجود اسکے قریب نہ جائے اور اسی طرح جنسی لذات سے چشم پوشی کرے اور عملی طور پر ثابت کرے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کی قید میں نہیں ہے، سرکش نفس کی لگام اسکے قبضے میں ہے اور ہوا و ہوس اور شہوات و خواہشات اسکے کنٹرول میں ہیں۔

حقیقت میں روزے کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی اور معنوی اثر ہے۔ وہ انسان جس کے قبضے میں طرح طرح کی غذائیں اور مشروبات ہیں جب اسے بھوک یا پیاس لگتی ہے تو وہ انکے پیچھے جاتا ہے۔ وہ درخت جو باغ میں نہر کے کنارے اگے ہوتے ہیں نازپروردہ ہوتے ہیں۔ وہ حوادث کا مقابلہ بہت کم کر سکتے ہیں۔ ان میں باقی رہنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ اگر انہیں چند دن پانی نہ ملے تو پژمردہ ہو کر خشک ہو جائیں جبکہ وہ درخت جو پتھروں کے درمیان پہاڑوں اور بیابانوں میں اگتے ہیں انکی شاخیں شروع سے سخت طوفانوں، تمازت آفتاب اور کڑاکے کی سردی کا مقابلہ کرنے کی عادی ہوتی ہیں اور طرح طرح کی محرومیوں سے دست و گریبان رہتی ہیں۔ ایسے درخت ہمیشہ مضبوط، سخت کوش اور سخت جان ہوتے ہیں۔

روزہ بھی انسان کی روح اور جان کے ساتھ یہی عمل کرتا ہے۔ روزہ وقتی پابندیوں کے ذریعے انسان میں قوت مدافعت اور قوت ارادی پیدا کرتا ہے اور اسے سخت حوادث کے مقابلے میں طاقت بخشتا ہے۔ چونکہ روزہ سرکش طبائع و جذبات پر کنٹرول کرتا ہے لہذا اسکے ذریعے انسان کے دل پر نور ضیاء کی بارش ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ روزہ انسان کو عالم حیوانات سے بلند کر کے فرشتوں کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ "لعلکم تتقون" ان تمام مطالب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مشہور حدیث ہے کہ روزہ جہنم کی آگ سے بچنے کیلئے ڈھال ہے۔

نہج البلاغہ میں عبادات کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام روزے کے بارے میں فرماتے ہیں:

"والصیام ابتلاء لاخلاص الخلق"

اللہ تعالی نے روزے کو شریعت میں اس لئے شامل کیا کہ لوگوں میں روح اخلاص کی پرورش ہو۔

نہج البلاغہ، کلمات قصار، نمبر 252

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

"ان للجنۃ باباً یدعی الریان لا یدخل منھا الا الصائمون"

بہشت کا ایک دروازہ ہے جسکا نام ریان یعنی سیراب کرنے والا ہے۔ اس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے۔

ترجمہ تفسیر نمونہ، ج 1، ص 443

2-  روزے کے معاشرتی اثرات:

روزہ انسانی معاشرے کیلئے ایک درس مساوات ہے کیونکہ اس مذہبی فریضے کی انجام دہی سے صاحب ثروت لوگ بھوکوں اور محروم افراد کی حالت زار کا احساس کر سکتے ہیں اور انکی مدد کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ البتہ ممکن ہے بھوکے اور محروم لوگوں کی توصیف کر کے خداوند عالم صاحب قدرت لوگوں کو انکی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہو اور اگر یہ معاملہ حسی اور عینی پہلو اختیار کر جائے تو اسکا دوسرا اثر ہو۔ روزہ اس اہم اجتماعی موضوع کو حسی رنگ دیتا ہے۔ ایک مشہور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ہشام بن حکم نے روزے کی علت اور سبب کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:

"انما فرض اللہ الصیام لیستوی بہ الغنی و الفقیر ذلک ان الغنی لم یکن لیجد مس الجوع فیرحم الفقیر و ان الغنی کلما اراد شیئا قدر علیہ فاراد اللہ تعالی ان یسوی بین خلقہ و ان یذیق الغنی من الجوع و الالم لیرق علی الضعیف و یرحم الجائع"

اللہ تعالی نے روزہ اس لئے واجب کیا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات قائم ہو جائے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ غنی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کرے کیونکہ مالدار عموماً جو کچھ چاہتے ہیں انکے لئے فراہم ہوتا ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ اسکے بندوں کے درمیان مساوات ہو اور مالداروں کو بھی بھوک اور درد و رنج کا ذائقہ چکھائے تاکہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں۔

وسائل الشیعہ، ج 7، باب 1

3- روزے کے طبی اثرات:

طب کی جدید اور قدیم تحقیقات کی روشنی میں امساک [کھانے پینے سے پرہیز] بہت سی بیماریوں کے علاج کیلئے معجزانہ اثر رکھتا ہے جو قابل انکار نہیں ہے۔ شاید ہی کوئی حکیم ہو جس نے اپنی مشروح تالیفات اور تصنیفات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ نہ کیا ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سی بیماریاں زیادہ کھانے سے پیدا ہوتی ہیں۔ چونکہ اضافی مواد بدن میں جذب نہیں ہوتا لہذا مزاحم اور مجتمع چربیاں پیدا ہوتی ہیں یا اضافی شوگر کا باعث بنتا ہے۔ عضلات کا یہ اضافی مواد درحقیقت بدن میں ایک متعفن بیماری کے جراثیم کی پرورش کیلئے گندگی کا ڈھیر بن جاتا ہے۔

ایسے میں ان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بہترین حل یہ ہے کہ گندگی کے ان ڈھیروں کو امساک اور روزے کے ذریعے ختم کر دیا جائے۔ روزہ ان اضافی غلاضتوں اور بدن میں جذب نہ ہونے والے مواد کو جلا دیتا ہے۔ درحقیقت روزہ بدن کو صفائی شدہ مکان بنا دیتا ہے۔ علاوہ ازیں روزے سے معدے کو ایک نمایاں آرام ملتا ہے اور اس سے ہاضمے کی مشینری کی سروس ہو جاتی ہے۔ چونکہ یہ انسانی بدن کی حساس ترین مشینری ہے جو سارا سال کام کرتی رہتی ہے لہذا اس کیلئے ایسا آرام بہت ضروری ہے۔ یہ واضح ہے کہ احکام اسلامی کی رو سے روزے دار کو اجازت نہیں ہے کہ وہ سحری اور افطاری کی غذا میں افراط اور زیادتی سے کام لے۔ یہ اس لئے ہے تاکہ اس حفظان صحت اور علاج سے مکمل نتیجہ حاصل کیا جا سکے ورنہ ممکن ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کئے جا سکیں۔

ایک روسی دانشور الکسی سوفرین لکھتا ہے: "روزہ ان بیماریوں کے علاج کیلئے خاص طور پر مفید ہے جو خون کی کمی، انتڑیوں کی کمزوری، التہاب زائدہ، خارجی و داخلی قدیم پھوڑے، تپ دق، ٹی بی، اسکلیروز، نقرس، استسقار، جوڑوں کا درد، نوراستنی، عرق النساء، خراز، امراض چشم، شوگر، امراض جلد، امراض گردہ، امراض جگر کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ امساک اور روزے کے ذریعے علاج صرف مندرجہ بالا بیماریوں سے ہی مخصوص نہیں بلکہ وہ بیماریاں جو انسانی بدن کے اصول سے مربوط ہیں اور جسم کے خلیوں سے چمٹی ہوتی ہیں مثلاً سرطان، سفلین اور طاعون وغیرہ کیلئے بھی شفا بخش ہے۔

روزے کا فلسفہ اہلبيت (ع) کی نگاہ ميں:

روزہ مادی اور معنوی، جسمانی اور روحانی لحاظ سے بہت سارے فوائد کا حامل ہے- روزہ معدہ کو مختلف بيماريوں سے سالم اورمحفوظ رکھنے ميں فوق العادہ تاثير رکھتا ہے- روزہ جسم اور روح دونوں کو پاکيزہ کرتا ہے -

پيغمبر اکرم (ص) اور روزہ:

پيغمبر اکرم (ص) نے فرمايا:

المعدۃ بيت کل داء- والحمئۃ راس کل دواء-

معدہ ہر مرض کا مرکز ہے اور پرہيزاور (ہر نامناسب غذا کھانے سے ) اجتناب ہر شفا کی اساس اور اصل ہے-

اور نيز آپ نے فرمايا:

صوموا تصحوا، و سافروا تستغنوا-

روزہ رکھو تا کہ صحت ياب رہو اور سفر کرو تاکہ مالدار ہو جاؤ-

اس ليے سفر اور تجارتی مال کو ايک جگہ سے دوسری جگہ ليجانا اور ايک ملک سے دوسرے ملک ميں ليجانا، انسان کی اقتصادی حالت کو بہتر بناتا ہے اور اس کی مالی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔

حضرت رسول خدا (ص) نے فرمايا:

لکل شي ء زکاۃ و زکاۃ الابدان الصيام

ہر چيز کے ليے ايک زکات ہے اور جسم کی زکات روزہ ہے۔

حضرت علی(ع) اور روزہ:

امام علی عليہ السلام نہج البلاغہ کے ايک خطبہ ميں ارشاد فرماتے ہيں:

و مجاهدة الصيام في الايام المفروضات ، تسكينا لاطرافهم و تخشيعا لابصارهم ، و تذليلا لنفوسهم و تخفيفا لقلوبهم ، و اذهابا للخيلاء عنهم و لما في ذلك من تعفير عتاق الوجوه بالتراب تواضعا و التصاق كرائم الجوارح بالارض تصاغرا و لحوق البطون بالمتون من الصيام تذللا.

جن ایام میں روزہ واجب ہے ان میں سختی کو تحمل کر کے روزہ رکھنے سے بدن کے اعضاء کو آرام و سکون ملتا ہے- اور اس کی آنکھیں خاشع ہو جاتی ہیں اور نفس رام ہو جاتا ہے اور دل ہلکاہو جاتا ہے اور ان عبادتوں کے ذریعے خود پسندی ختم ہو جاتی ہے اور تواضع کے ساتھ اپنا چہرہ خاک پر رکھنے اور سجدے کی جگہوں کو زمین پر رکھنے سے غرور ٹوٹتا ہے- اور روزہ رکھنے سے شکم کمر سے لگ جاتے ہیں-

1: روزہ اخلاص کے لیے امتحان ہے:

حضرت علی (ع) دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

و الصیام ابتلاء الاخلاص الخلق

روزہ لوگوں کے اخلاص کو پرکھنے کے لیے رکھا گیا ہے-

روزہ کے واجب ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ لوگوں کے اخلاص کا امتحان لیا جائے- چونکہ واقعی معنی میں عمل کے اندر اخلاص روزہ سے ہی پیدا ہوتا ہے۔

2: روزہ عذاب الٰہی کے مقابلہ میں ڈھال ہے:

امام علی (ع) نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

صوم شھت رمضان فانہ جنۃ من العقاب

روزہ کے واجب ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ روزہ عذاب الٰہی کے مقابلے میں ڈھال ہے اور گناہوں کی بخشش کا سبب بنتا ہے۔

امام رضا (ع) اور روزہ:

جب امام رضا (ع) سے روزہ کے فلسفہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:

بتحقیق لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ بھوک اور پياس کی سختی کا مزہ چکھيں- اور اس کے بعد روزہ قيامت کی بھوک اور پياس کا احساس کريں- جيسا کہ پيغمبر اکرم (ص) نے خطبہ شعبانيہ ميں فرمايا:

واذکروا بجوعکم و عطشکم جوع يوم القيامۃ و عطشہ-

اپنے روزہ کی بھوک اور پياس کے ذريعے قيامت کی بھوک و پياس کو ياد کرو۔

يہ ياد دہانی انسان کو قيامت کے ليے آمادہ اور رضائے خدا کو حاصل کرنے کے ليے مزيد جد و جہد کرنے پر تيار کرتی ہے۔

امام رضا (ع) دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہيں:

روزہ رکھنے کا سبب بھوک اور پياس کی سختی کو درک کرنا ہے تا کہ انسان متواضع، متضرع اور صابر ہو جائے، اور اسی طرح سے روزہ کے ذريعے انسان ميں انکساری اور شہوات پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔

ہاں، روزہ سب سے افضل عبادت ہے۔ شريعت اسلامی اور احکام خداوندی نے شہوات کو حد اعتدال ميں رکھنے کے ليے روزہ کو وسيلہ قرار ديا ہے اور نفس کو پاکيزہ بنانے اور بری صفات اور رذيلہ خصلتوں کو دور کرنے کے ليے روزہ کو واجب کيا ہے، البتہ روزہ رکھنے سے مراد صرف کھانے پينے کو ترک کرنا نہيں ہے، بلکہ روزہ يعنی " کف النفس" نفس کو بچانا- جيسا کہ رسول خدا (ص) نے فرمايا:

روزہ ہر انسان کے ليے سپر اور ڈھال ہے اس ليے روزہ دار کو چاہيے کہ بري بات منہ سے نہ نکالے اور بيہودہ کام انجام نہ دے-

پس روزہ انسان کو انحرافات، لغزشوں اور شيطان کے فريبوں سے نجات دلاتاہے، اور اگر روزہ دار ان مراتب تک نہ پہنچ سکے تو گويا اس نے صرف بھوک اور پيا س کوبرداشت کيا ہے اور يہ روزہ کا سب سے نچلا درجہ ہے۔

 روزہ کيا ہے اور يہ کس کے لیے ہے ؟

ماه خداوند:

اَيُّھٰاالنّٰاسُ اِنَّہُ قَدْاَقْبَلَ اِلَيْکُمْ شَھْرُاللّٰہِ بِالْبَرَکَةِ وَالرَّحْمَةِ وَالْمَغْفِرَةِ،شَھْر ھُوَعِنْدَاللّٰہِ اَفْضَلُ الشُّھُورِ،وَاَيَّامُہُ اَفْضَلُ الاَيَّامِ وَ لَيٰاليِہِ اَفْضَلُ اللَّيٰاليِ وَسَاعٰاتُہُ اَفْضَلُ السّٰاعٰاتِ-وَ ھُوَ شَھْردُعيِتُمْ فِيْہِ اِليٰ ضِيٰافَةِ اللّٰہِ۔

يعنی! ' 'اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ ماہ خدا (ماہ مبارک رمضان ) تم سے قريب ہے جو اپنے ہمراہ برکت و رحمت و مغفرت ليے آ رہا ہے۔ يہ وہ مہينہ ہے جو خدا کے نزديک تمام مہينوں سے اعلی و افضل ہے اس کے دن تمام دنوں سے افضل ہيں ،اس کی راتيں تمام مہينوں کی راتوں سے برتر ہيں اور اس کے لمحات و ساعات تمام مہينوں کے لمحات و ساعات سے بہتر ہيں-يہ وہ مہينہ ہے جس ميں تم اللہ کی مہما ن نوازی ميں مدعو کيے گئے ہو-

واضح ہے کہ جو اللہ کا مہمان بن جائے وہ يقيناً! بہرہ مند و فيضياب ہوتا ہے، لہذا خداوند عالم نے يہ ارشاد فرمايا : اے صاحبان ِ ايمان تمہارے اوپر روزے اسي طرح لکھ دیئے گئے ہيں، جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے تا کہ اس طرح تم متقی و پرہيزگار بن جاؤ۔

سورہء بقرہ آیت 183

خالقِ اکبر نے روزے کی صورت ميں صاحبان ايمان کو اپنی بارگاہ اہديت ميں آنے کی دعوت دی ہے تا کہ وہ اس سے بہرہ مند و فيضياب ہو سکيں، کيونکہ روزہ تقرب پروردگار کا وسيلہ ہے ، روزہ اسلام کا بنيادی رکن ہے ، روزہ جہاد اکبر ہے ، روزہ بدن کی زکوٰة ہے ، روزہ امير و غریب کے فرق کو مٹا ديتا ہے ، روزہ ہر مشکل ميں مؤمن کا مددگار ہوتا ہے ، روزہ سے شيطان رو سياہ ہوتا ہے ، روزہ بدن کی  معنوی پاکيزگی کا موجب ہے ، روزہ جسمانی صحت کا موجب ہے ، روزہ قبوليت اعمال کا وسيلہ ہے ، روزہ سينے کے وسواس کو دور کرتا ہے ، روزہ انسان کی خواہشات کی زنجيروں کو توڑ ديتا ہے ، روزہ برکات خداوندی و  رحمت الہی کے نازل ہونے کا سبب ہے ، روزہ عذاب جہنم اور ديگر خطرات کے سامنے ڈھال بن جاتا ہے، روزہ انسان کے دائمی و ابدی دشمن ' ' نفس امارہ ' 'کو شکست ديتا ہے، روزہ شہوات نفسانی و خواہشات کے کمزور کرنے کا موجب ہے ، روزہ صرف اللہ ہی کے لیے اور وہی اس کی جزا دے گا ، روزہ منعم حقيقی کے انعامات و احسانات کا شکريہ ہے ، روزہ رکھنے سے حافظہ ميں اضافہ ہوتا ہے ، روزہ داروں کی دعائيں مستجاب ہوتيں ، روزہ دار خداوند عالم کا مہمان ہوتا ہے ، روزہ دار کے منہ سے نکلنے والی بو مشک سے زيادہ پاکيزہ ہوتی ہے۔

روزے داروں پر فرشتے درود و سلام بھيجتے ہيں ، فرشتے روزہ داروں کے لیے دعا کرتے ہيں ، روزہ داروں کے چہروں سے ملائکہ اپنا بدن مس کرتے ہيں ، روزہ داروں کا سانس لينا تسبيح خدا شمار ہوتا ہے ، روزہ داروں کو اس کے عمل کی جزا کئی گناہ کر کے دی جاتی ہے ، روزے سے انسان کے اندر تقوی اور پرہيزگاری کی طاقت پيدا ہوتی ہے۔

روزے سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائيگی کا جذبہ پيدا ہوتا ہے ، روزے سے انسان کے افعال حرکات ميں نظم و ضبط پيدا ہوتا ہے ، خداوند عالم نے بہشت کا ايک دروازہ روزہ داروں سے مخصوص کر رکھا ہے۔

معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ: جنگ تبوک میں اتنی شدت کی گرمی تھی کہ لوگ سایہ کو تلاش کر رہے تھے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے نزدیک تھا آنحضرت (ص)  کے قریب آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ (ص) !مجھے ایسے کام کی رہنمائی کردیں جو مجھے جہنم سے نکال کر جنت کی طرف لے جائے !

آنحضرت (ص) نے فرمایا : بڑا اچھا سوال کیا ہے .. . اگر تم یہ چاہتے ہی ہو تو سنو اے معاذ! بس خداوند عالم کی عبادت و پرستش کرو، اس کے مقابلہ میں کسی غیر کو اس کا شریک و ہمتا قرار نہ دو ، نماز کا قیام کرو، زکوٰة ِواجب کی ادائیگی کرو اور ماہ مبارک رمضان کا روزہ رکھو۔ اب اگر چاہو تو تمہیں ابواب ِخیر کی بھی خبر دے دوں !؟ میں نے عرض کیا: ہاں : یا رسول اللہ! فرمائیں، آنحضرت (ص) نے فرمایا:  روزہ جہنم کی آگ سے بچنے کی سِپر ہے ، صدقہ معصیت پر پردہ پوشی کرتا ہے ، اور یاد الہی میں شب بیداری کرنا موجب رضایت پروردگار ہے۔

روزے کا منکر اور جان بوجھ کر بغیر کسی عذر کے روزے نہ رکھنے والا اس شخص کی طرح ہے جو خدا ، رسول (ص) اور آئمہ اطہار علیہم السلام کے حکم کا منکر ہو اور ان کی معرفت نہ رکھتا ہو، لہذا ایسا منکرِ احکام الہی اور مغضوب خدا ہے، جو شخص اس ماہ مبارک سے فیض یاب نہیں ہوتا وہ شقی ترین انسان ہے، اسے مسلمان کہنا اور مولائے کائنات حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے شیعوں کی طرف منسوب کرنا جہالت اور جرم عظیم ہے اس لیے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں : ہمارے شیعہ وہ ہیں جو ہمارے ہر حکم کو تسلیم کریں اور ہمارے دشمنوں سے عداوت رکھیں پس جو لوگ ایسے نہ ہوں وہ ہمارے شیعہ نہیں ہیں۔

اَلْلّٰہُمَّ اجْعَلْ صِيٰامِي فِيْہِ صِيٰامَ الصَّائِمِيْنَ وَ قِيٰامِي فِيْہِ قِيٰامَ الْقٰائِمِيْنَ وَ نَبِّھْنِي فِيْہِ عَنْ نَوْمَةِ الْغٰافِلِيْنَ وَھَبْ لِي جُرْمِي فِيْہِ يٰااِلٰہَ الْعٰالِمِيْنَ وَاعْفُ عَنِّي يٰاعٰافِياً عَنِ الْمُجْرِمِيْنَ۔

خدايا! ميرا روزہ اس ميں روزہ داروں کے روزہ کی طرح قرار دے اور ميری نماز، نماز گذاروں کی طرح قرار دے اور مجھ کو ہوشيار کر دے غافلوں کی نيند سے اور ميرے گناہ کو بخش دے اے عالمين کے معبود ! اور مجھ کو معاف کر دے اے گنہ گاروں کے معاف کرنے والے !

رمضان المبارک کے فضائل:

شیخ صدوق نے معتبر سند کیساتھ امام علی رضا (ع) سے اور حضرت نے اپنے آباء طاہرین (ع) کے واسطے سے امیر المؤمنین (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

ایک روز رسول اللہ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! تمہاری طرف رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ آ رہا ہے، جس میں گناہ معاف ہوتے ہیں، یہ مہینہ خدا کے ہاں سارے مہینوں سے افضل و بہتر ہے۔ جس کے دن دوسرے مہینوں کے دنوں سے بہتر، جس کی راتیں دوسرے مہینوں کی راتوں سے بہتر اور جس کی گھڑیاں دوسرے مہینوں کی گھڑیوں سے بہتر ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں حق تعالیٰ نے تمہیں اپنی مہمان نوازی میں بلایا ہے اور اس مہینے میں خدا نے تمہیں بزرگی والے لوگوں میں قرار دیا ہے کہ اس میں سانس لینا تمہاری تسبیح اور تمہارا سونا عبادت کا درجہ پاتا ہے۔ اس میں تمہارے اعمال قبول کیے جاتے اور دعائیں منظور کی جاتی ہیں۔ پس تم اچھی نیت اور بری باتوں سے دلوں کے پاک کرنے کے ساتھ اس ماہ میں خدائے تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ تم کو اس ماہ کے روزے رکھنے اور اس میں تلاوتِ قرآن کرنے کی توفیق عطا کرے کیونکہ جو شخص اس بڑائی والے مہینے میں خدا کی طرف سے بخشش سے محروم رہ گیا وہ بدبخت اور بد انجام ہو گا، اس مہینے کی بھوک پیاس میں قیامت والی بھوک پیاس کا تصور کرو، اپنے فقیروں اور مسکینوں کو صدقہ دو، بوڑھوں کی تعظیم کرو، چھوٹوں پر رحم کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ نرمی و مہربانی کرو اپنی زبانوں کو ان باتوں سے بچاؤ کہ جو نہ کہنی چاہئیں، جن چیزوں کا دیکھنا حلال نہیں ان سے اپنی نگاہوں کو بچائے رکھو، جن چیزوں کا سننا تمہارے لیے روا نہیں ان سے اپنے کانوں کو بند رکھو، دوسرے لوگوں کے یتیم بچوں پر رحم کرو تا کہ تمہارے بعد لوگ تمہارے یتیم بچوں پر رحم کریں ،اپنے گناہوں سے توبہ کرو، خدا کی طرف رخ کرو، نمازوں کے بعد اپنے ہاتھ دعا کے لیے  اٹھاؤ کہ یہ بہترین اوقات ہیں جن میں حق تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے اور جو بندے اس وقت اس سے مناجات کرتے ہیں وہ انکو جواب دیتا ہے اور جو بندے اسے پکارتے ہیں ان کی  پکار پر لبیک کہتا ہے اے لوگو! اس میں شک نہیں کہ تمہاری جانیں گروی پڑی ہیں۔ تم خدا سے مغفرت طلب کر کے ان کو چھڑانے کی کوشش کرو۔ تمہاری کمریں گناہوں کے بوجھ سے دبی ہوئی ہیں تم زیادہ سجدے کر کے ان کا بوجھ ہلکا کرو، کیونکہ خدا نے اپنی عزت و عظمت کی قسم کھا رکھی ہے کہ اس مہینے میں نمازیں پڑھنے اور سجدے کرنے والوں کو عذاب نہ دے اور قیامت میں ان کو جہنم کی آگ کا خوف نہ دلائے اے لوگو! جو شخص اس ماہ میں کسی مؤمن کا روزہ افطار کرائے تو اسے گناہوں کی بخشش اور ایک غلام کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔ آنحضرت کے اصحاب میں سے بعض نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم سب تو اس عمل کی توفیق نہیں رکھتے تب آپ نے فرمایا کہ تم افطار میں آدھی کھجور یا ایک گھونٹ شربت دے کر بھی خود کو آتشِ جہنم سے بچا سکتے ہو۔ کیونکہ حق تعالیٰ اس کو بھی پورا اجر دے گا جو اس سے کچھ زیادہ دینے کی توفیق نہ رکھتا ہو۔ اے لوگو! جو شخص اس مہینے میں اپنا اخلاق درست کرے تو حق تعالیٰ قیامت میں اس کو پل صراط پر سے با آسانی گزار دے گا۔ جبکہ لوگوں کے پاؤں پھسل رہے ہوں گے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام اور لونڈی سے تھوڑی خدمت لے تو قیامت میں خدا اس کا حساب آسانی کے ساتھ لے گا اور جو شخص اس مہینے میں کسی یتیم کو عزت اور مہربانی کی نظر سے دیکھے تو قیامت میں خدا اس کو احترام کی نگاہ سے دیکھے گا۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے نیکی اور اچھائی کا برتاؤ کرے تو حق تعالیٰ قیامت میں اس کو اپنی رحمت کے ساتھ ملائے رکھے گا اور جو کوئی اپنے قریبی عزیزوں سے بدسلوکی کرے تو خدا روز قیامت اسے اپنے سایہ رحمت سے محروم رکھے گا۔ جو شخص اس مہینے میں سنتی نمازیں بجا لائے تو خدائے تعالیٰ قیامت کے دن اسے دوزخ سے برائت نامہ عطا کرے گا، اور جو شخص اس ماہ میں اپنی واجب نمازیں ادا کرے تو حق تعالیٰ اس کے اعمال کا پلڑا بھاری کر دے گا۔ جبکہ دوسرے لوگوں کے پلڑے ہلکے ہوں گے، جو شخص اس مہینے میں قرآن پاک کی ایک آیت پڑھے تو خداوند کریم اس کے لیے کسی اور مہینے میں ختم قرآن کا ثواب لکھے گا، اے لوگو! بے شک اس ماہ میں جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں- پس اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ انہیں تم پر بند نہ کرے، دوزخ کے دروازے اس مہینے میں بند ہیں، پس خدائے تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ انہیں تم پر نہ کھولے اور شیطانوں کو اس مہینے میں زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے، پس خدا سے سوال کرو کہ وہ انہیں تم پر مسلط نہ ہونے دے، .......،

شیخ صدوق نے روایت کی ہے کہ جب ماہِ رمضان داخل ہوتا تھا تو رسول اللہ تمام غلاموں کو آزاد فرما دیا کرتے تھے، اسیروں کو رہا کر دیا کرتے تھے اور ہر سوالی کو عطا فرمایا کرتے تھے۔

ماہ رمضان کی عظمت:

تاریخی اعتبار سے دیکھا جاۓ تو روزہ زمانہ قدیم سے مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں رائج رہا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کی ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ روزہ ایک قدیم ترین عبادت ہے اور خدا نے کسی بھی امت کو اس دلنواز عبادت سے محروم نہیں رکھا ہے۔

دوسرے مذاہب کی مقدس کتابوں میں بھی روزہ کے متعلق اشارے موجود ہیں حتی کہ ایسے مذاہب کہ جو آسمانی نہیں اور توحید کے پیروکار نہیں ان میں بھی روزوں کی تاریخ ملتی ہے۔

آیۃ اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی نے تفسیر نمونہ کی جلد اول میں اشارہ کیا ہے ، زیادہ تر قومیں کسی غم و اندوہ میں مبتلا ہو جانے کی صورت میں بلا اور مصیبت برطرف کرنے کے لیے روزہ سے مدد حاصل کرتی تھیں۔

ایک روایت کے مطابق جس وقت حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کو کشتی میں سوار کیا اور کشتی دریا میں رواں دواں ہوئی جناب نوح ( ع) نے سب سے روزہ رکھنے کی تاکید کی ، رجب کا مہینہ تھا نماز و دعا کا بھی حکم دے سکتے تھے کہ سب کے ساتھ دعا و مناجات کریں لیکن ایسے سخت حالات میں دعا و مناجات کی فرمائش کے بجائے روزہ رکھنے کی تاکید روزہ کی اہمیت اور مشکلات کو برطرف کرنے میں روزہ کی تاثیر کو نمایاں کرتی ہے۔

ایک شخص نے خدا کے برگزیدہ بندوں کے درمیان روزہ کی تاریخ کے بارے میں مشہور مفسر ابن عباس سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا ہے " اعلیٰ ترین روزہ ، میرے بھائی داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے جو پورے سال ایک دن روزہ رکھتے اور دوسرے دن افطار کرتے تھے ، حضرت سلیمان علیہ السلام ہر مہینہ تین دن شروع میں تین دن وسط میں اور تین دن آخر ماہ میں روزہ رکھتے تھے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمیشہ روزہ سے رہتے تھے ، حضرت مریم (ع) دو دن روزہ رکھتی تھیں اور دو دن افطار کرتی تھیں۔ اسلامی روایات کی روشنی میں خود حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم ہر مہینہ کی پہلی ، درمیانی اور آخری تاریخوں میں روزہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے " یہ روزے ہمیشہ رکھنے چاہیے۔

قرآن کی روشنی میں ماہ رمضان اور روزه کی فضیلت:

یا أیّھا الّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون۔

ترجمہ:اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے شاید تم اس طرح متّقی بن جاؤ. 

رمضان کا مہینہ ایک مبارک اور باعظمت مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں مسلسل رحمت پروردگار نازل ہوتی رہتی ہے اس مہینہ میں پروردگار نے اپنے بندوں کو یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول کرے گا یہی وہ مہینہ ہے جس میں انسان دنیا و آخرت کی نیکیاں حاصل کرتے ہوئے کمال کی منزل تک پہنچ سکتا ہے، اور پچاس سال کا معنوی سفر ایک دن یا ایک گھنٹہ میں طے کر سکتا ہے۔ اپنی اصلاح اور نفس امارہ پر کنٹرول کی ایک فرصت ہے، جو خداوند متعال نے انسان کو دی ہے، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں ایک بار پھر ماہ مبارک رمضان نصیب ہوا اور یہ خود ایک طرح سے توفیق الہی ہے تا کہ انسان خدا کی بارگاہ میں آ کر اپنے گناہوں کی بخشش کا سامان کر سکے ، ورنہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو  پچھلے سال ہمارے اور آپ کے ساتھ تھے، لیکن آج وہ اس دار فنا سے دار بقاء کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔

 ماہ مبارک عبادت و بندگی کا مہینہ ہے، امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

قال اللہ تبارک و تعالٰی : یا عبادی الصّدیقین تنعموا بعبادتی فی الدّنیا فانّکم تتنعّمون بھا فی الآخرة،

خداوند متعال فرماتا ہے: اے میرے سچے بندو ! دنیا میں میری عبادت کی نعمت سے فائدہ اٹھاؤ تا کہ اس کے سبب آخرت کی نعمتوں کو پا سکو۔

یعنی اگر آخرت کی بے بہا نعمتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر دنیا میں میری نعمتوں کو بجا لاؤ اس لیے کہ اگر تم دنیا میں میری نعمتوں کی قدر نہیں کرو گے تو میں تمہیں آخرت کی نعمتوں سے محروم کر دوں گا، اور اگر تم نے دنیا میں میری نعمتوں کی قدر کی تو پھر روز قیامت میں تمھارے لیے اپنی نعمتوں کی بارش کر دوں گا۔

انہیں دنیا کی نعمتوں میں سے ایک ماہ مبارک اور اس کے روزے ہیں کہ اگر حکم پروردگار پر لبیک کہتے ہوئے روزہ رکھا ، بھوک و پیاس کو تحمل کیا تو جب جنّت میں داخل ہو گے تو آواز قدرت آئے گی:

ترجمہ: اب آرام سے کھاؤ پیو کہ تم نے گذشتہ دنوں میں ان نعمتوں کا انتظام کیا ہے۔

ماہ مبارک کے روز و شب انسان کے لیے نعمت پروردگار ہیں جن کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہنا چاہیے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بابرکت اوقات اور اس زندگی کی نعمت کا کیسے شکریہ ادا کیا جائے، امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

جس شخص نے صبح اٹھتے وقت چار بار کہا : الحمد للہ ربّ العالمین اس نے اس دن کا شکر ادا کر دیا اور جس نے شام کو کہا اس نے اس رات کا شکر ادا کر دیا۔

کتنا آسان طریقہ بتادیا امام علیہ السلام نے اور پھر اس مہینہ میں تو ہر عمل دس برابر فضیلت رکھتا ہے ایک آیت کا ثواب دس کے برابر ، ایک نیکی کا ثواب دس برابر، امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں :

من قرء فی شھر رمضان آیة من کتاب اللہ کان کمن ختم القرآن فی غیرہ من الشّھور،

 جو شخص ماہ مبارک میں قرآن کی ایک آیت پڑھے تو اس کا اجر اتنا ہی ہے جتنا دوسرے مہینوں میں پورا قرآن پڑھنے کا ہے۔

 کسی شخص نے رسول اکرم (ص) سے سوال کیا :

یا رسول اللہ ! ثواب رجب أبلغ أم ثواب شھر رمضان ؟ فقال رسول اللہ: لیس علی ثواب رمضان قیاس،

یا رسول اللہ! رجب کا ثواب زیادہ ہے یا ماہ رمضان کا ؟ تو رسول خدا نے فرمایا : ماہ رمضان کے ثواب پر قیاس نہیں کیا جا سکتا.گویا خداوند متعال بہانہ طلب کر رہا ہے کہ کسی طرح میرا بندہ میرے سامنے آ کر جھکے تو سہی . کسی طرح آ کر مجھ سے راز و نیاز کرے تو سہی تا کہ میں اس کو بخشش دوں۔

رسول خدا (ص) ماہ مبارک کی فضیلت بیان فرماتے ہیں:

انّ شھر رمضان ، شھر عظیم یضاعف اللہ فیہ الحسنات و یمحو فیہ السیئات و یرفع فیہ الدرجات۔

ماہ مبارک عظیم مہینہ ہے جس میں خداوند متعال نیکیوں کو دو برابر کر دیتا ہے. گناہوں کو مٹا دیتا اور درجات کو بلند کرتا ہے.

اگر کوئی شخص ماہ مبارک میں سالم رہے تو پورا سال صحیح و سالم رہے گا اور ماہ مبارک کو سال کا آغاز شمار کیا جاتا ہے۔ اب یہ حدیث مطلق ہے جسم کی سلامتی کو بھی شامل ہے اور اسی طرح روح کی بھی، یعنی اگر کوئی  شخص اس مہینہ میں نفس امارہ پر کنٹرول کرتے ہوئے اپنی روح کو سالم غذا دے تو خداوند متعال کی مدد اس کے شامل حال ہو گی اور وہ اسے اپنی رحمت سے پورا سال گناہوں سے محفوظ رکھے گا۔ اسی لیے تو علمائے اخلاق فرماتے ہیں کہ:

رمضان المبارک خود سازی کا مہینہ ہے تہذیب نفس کا مہینہ ہے، اس ماہ میں انسان اپنے نفس کا تزکیہ کر سکتا ہے، اور اگر وہ پورے مہنیہ کے روزے صحیح آداب کے ساتھ بجا لاتا ہے تو اسے اپنے نفس پر قابو پانے کا ملکہ حاصل ہو جائے گا اور پھر شیطان آسانی سے اسے گمراہ نہیں کر پائے گا۔

جو نیکی کرنی ہے وہ اس مہینہ میں کر لیں ، جو صدقات و خیرات دینا چاہتے ہیں وہ اس مہینہ میں حقدار تک پہنچائیں اس میں سستی مت کریں۔ مولائے کائنات امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

اے انسان تیرے پاس تین ہی تو دن ہیں ایک کل کا دن جو گذر چکا اور اس پر تیرا قابو نہیں چلتا اس لیے کہ جو اس میں تو نے انجام دینا تھا دے دیا، اس کے دوبارہ آنے کی امید نہیں اور ایک آنے والے کل کا دن ہے، جس کے آنے کی تیرے پاس ضمانت نہیں ، ممکن ہے زندہ رہے، ممکن ہے اس دنیا سے جانا پڑ جائے، تو بس ایک ہی دن تیرے پاس رہ جاتا ہے اور وہ آج کا دن ہے جو کچھ بجا لانا چاہتا ہے اس دن میں بجا لا، اگر کسی غریب کی مدد کرنا ہے تو اس دن میں کر لے ، اگر کسی یتیم کو کھانا کھلانا ہے تو آج کے دن میں کھلا لے ، اگر کسی کو صدقہ دینا ہے تو آج کے دن میں دے ، اگر خمس نہیں نکالا تو آج ہی کے اپنا حساب کر لے ، اگر کسی ماں  یا بہن نے آج تک پردہ کی رعایت نہیں کی تو جناب زینب سلام اللہ علیھا کا واسطہ دے کر توبہ کر لے،  اگر آج تک نماز سے بھاگتا رہا تو آج اس مبارک مہینہ میں اپنے ربّ کی بارگاہ میں سر جھکا لے خدا رحیم ہے تیری توبہ قبول کر لے گا، اس لیے کہ اس نے خود فرمایا ہے:

أدعونی أستجب لکم،

اے میرے بندے مجھے پکار میں تیری دعا قبول کروں گا۔

یہ مہینہ دعاؤں کا مہینہ ہے بخشش کا مہینہ ہے، اور پھر خود رسول مکرم اسلام (ص) فرماتے ہیں:

رمضان المبارک کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے چونکہ وہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے،

آئیں مل کر دعا کریں کہ اے پالنے والے تجھے اس مقدس مہینے کی عظمت کا واسطہ ہم سب کو اس ماہ میں اپنے اپنے نفس کی تہذیب و اصلاح اور اسے اس طرح گناہوں سے پاک کرنے کی توفیق عطا فرما جس طرح تو چاہتا ہے اس لیے کہ تیری مدد کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں ہے۔

امام صادق علیہ السلام اپنے فرزند ارجمند کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اذا دخل شھر رمضان ، فاجھدوا أنفسکم فانّ فیہ تقسیم الأرزاق و تکتب الآجال و فیہ یکتب وفد اللہ الّذین یفدون الیہ و فیہ لیلة العمل فیھا خیر من العمل فی ألف شھر۔

جب ماہ مبارک آ جائے تو سعی و کوشش کرو اس لیے کہ اس ماہ میں رزق تقسیم ہوتا ہے تقدیر لکھی جاتی ہے اور ان لوگوں کے نام لکھے جاتے ہیں جو حج سے شرفیاب ہوں گے، اور اس ماہ میں ایک رات ایسی ہے کہ جس میں عمل ہزار مہینوں کے عمل سے بہتر ہے۔

رسول خدا (ص) اس مقدس مہینہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

أنّ شھرکم ھذا لیس کالشّھور ، أنّہ اذا أقبل الیکم أقبل بالبرکة و الرّحمة، و اذا أدبر عنکم أدبر بغفران الذّنوب ، ھذا شھر الحسنات فیہ مضاعفة ، و اعمال الخیر فیہ مقبولة۔

یہ مہینہ عام مہینوں کے مانند نہیں ہے، جب یہ مہینہ آتا ہے تو برکت و رحمت لیکر آتا ہے اور جب جاتا ہے تو گناہوں کی بخشش کے ساتھ جاتا ہے ، اس ماہ میں نیکیاں دو برابر ہو جاتی ہیں اور نیک اعمال قبول ہوتے ہیں،

یعنی اسکا آنا بھی مبارک ہے اور اس کا جانا بھی مبارک بلکہ یہ مہینہ پورے کا پورا مبارک ہے لہذا اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیک عمل کرنے کی کوشش کریں،کوئی لمحہ ایسا نہ ہو جو ذکر خدا سے خالی ہو اور یہی ہمارے آئمہ ہدٰی علیہم السلام کی سیرت ہے۔ امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں ملتا ہے:

جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو امام زین العابدین علیہ السلام کی زبان پر دعا، تسبیح ، استغفار اور تکبیر کے سوا کچھ جاری نہ ہوتا تھا۔

وہ خدا کتنا مہربان ہے کہ اپنے بندوں کی بخشش کے لیے ملائکہ کو حکم دیتا ہے کہ اس ماہ میں شیطان کو رسیوں سے جکڑ دیں تا کہ کوئی مؤمن اس کے وسوسہ کا شکار ہو کر اس ماہ کی برکتوں سے محروم نہ رہ جائے لیکن اگر اسکے بعد بھی کوئی انسان اس ماہ مبارک میں گناہ کرے اور اپنے نفس پر کنٹرول نہ کر سکے تو اس سے بڑھکر کوئی بدبخت نہیں ہے. رسولخدا (ص) کا فرمان ہے:

قد وکّل اللہ بکلّ شیطان مرید سبعة من الملائکة فلیس بمحلول حتّیٰ ینقضی شھرکم ھذا،

خداوند متعال نے ہر فریب دینے والے شیطان پر سات فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے تا کہ وہ تمہیں فریب نہ دے سکے، یہاں تک کہ ماہ مبارک ختم ہو۔

کتنا کریم ہے وہ ربّ کہ اس مہینہ کی عظمت کی خاطر اتنا کچھ اہتمام کیا جا رہا ، اب اس کے بعد چاہیے تو یہ کہ کوئی مؤمن شیطان رجیم کے دھوکے میں نہ آئے اور کم از کم اس ماہ میں اپنے آپ کو گناہ سے بچائے رکھے اور نافرمانی خدا سے محفوظ رہے ورنہ غضب خدا کا مستحق قرار پائے گا۔ اسی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

من أدرک شھر رمضان فلم یغفرلہ فأبعدہ اللہ،

جوشخص ماہ رمضان المبارک کو پائے مگر بخشا نہ جائے تو خدا اسے راندہ درگاہ کر دیتا ہے۔

اس میں کوئی ظلم بھی نہیں اس لیے کہ ایک شخص کے لیے آپ تمام امکانات فراہم کریں اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود وہ آپکی امید پر پورا نہ اترے تو واضح ہے کہ آپ اس سے کیا برتاؤ کریں گے؟؟؟

اس مبارک مہینہ سے خوب فائدہ اٹھائیں اسلیے کہ نہیں معلوم کہ آئندہ سال یہ سعادت نصیب ہو یا نہ ہو ؟ تا کہ جب یہ ماہ انتہاء کو پہنچے تو ہمارا کوئی گناہ باقی نہ رہ گیا ہو۔ جب رمضان المبارک کے آخری ایّام آتے تو رسول گرامی اسلام (ص) یہ دعا فرمایا کرتے تھے:

اللّھمّ لا تجعلہ آخر العھد من صیامی شھر رمضان ، فان جعلتہ فاجعلنی مرحوما و لا تجعلنی محروما۔

خدایا! اس ماہ رمضان کو میرے روزوں کا آخری مہینہ قرار نہ دے ، پس اگر یہ میرا آخری مہینہ ہے تو مجھے اپنی رحمت سے نواز دے اور اس سے محروم نہ رکھ ۔

روزے کا فلسفہ:

یاأیّھاالّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون.

ترجمہ: اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے تا کہ شاید اس طرح تم متّقی بن جاؤ۔

خداوند متعال نے روزے کا فلسفہ تقوٰی کو قرار دیا ہے یعنی روزہ تم پر اس لیے واجب قرار دیا تا کہ تم متقی بن سکو، پرہیز گار بن سکو، اور پھر روایات میں اسے روح ایمان کہا گیا، امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

جس شخص نے ماہ رمضان میں ایک دن روزہ نہ رکھا اس سے روح ایمان نکل گئی۔

یعنی روزے کی اہمیت اور اس کے فلسفہ کا پتہ اسی فرمان سے چل جاتا ہے کہ روزے کے واجب قرار دینے کا مقصد ایمان کو بچانا ہے اور اسی ایمان کو بچانے والی طاقت کا دوسرا نام تقوٰی ہے جسے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 183میں روزے کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔  

تو یہ تقوٰی کیا ہے جسے پروردگار عالم نے روزے کا فلسفہ اور اس کا مقصد قرار دیا ہے ؟ روایات میں تقوٰی کی تعریف میں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں:

1- اطاعت پروردگار              2- گناہوں سے اجتناب         

3- دنیا سے دل نہ لگانا

رسول خدا (ص) فرماتے ہیں:

تمہارے لیے تقوٰی ضروری ہے اس لیے کہ ہر کام کا سرمایہ یہی تقوٰی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایسا روزہ جو انسان کو گناہوں سے نہ بچا سکے اسے بھوک و پیاس کا نام تو دیا جا سکتا ہے مگر روزہ نہیں کہا جا سکتا اس لیے کہ روزہ کا مقصد اور اس کا جو فلسفہ ہے اگر وہ حاصل نہ ہو تو اس کا معنی یہ ہے کہ جس روزہ کا حکم دیا گیا تھا ہم نے وہ نہیں رکھا ، بلکہ یہ ہماری اپنی مرضی کا روزہ ہے جبکہ خدا ایسی عبادت کو پسند ہی نہیں کرتا جو انسان خدا کی اطاعت کے بجائے اپنی مرضی سے بجا لائے ورنہ شیطان کو بارگاہ ربّ العزّت سے نکالے جانے کا کوئی جواز ہی نہیں رہتا چونکہ اس نے عبادت سے تو انکار نہیں کیا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

قلت یا رسول اللہ ! ما افضل الأعمال فی ھذا الشھر ؟ فقال یا ابا الحسن أفضل الأعمال فی ھذا الشّھر ، ألورع من محارم اللہ ۔عزّوجلّ۔

امیر المؤمنین علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس مہینہ میں کونسا عمل افضل ہے ؟ فرمایا : اے ابو الحسن ! اس ماہ میں افضل ترین عمل گناہوں سے پرہیز یعنی تقوٰی الہی اختیار کرنا ہے۔

نیز مولائے کائنات (ع) فرماتے ہیں:

ماہ رمضان میں کثرت کے ساتھ دعا اور استغفار کرو اس لیے کہ دعا تم سے بلاؤں کو دور کرتی ہے اور استغفار تمہارے گناہوں کے مٹانے کا باعث بنتا ہے۔

آنحضرت (ص) نے فرمایا:

 من صام شھر رمضان فاجتنب فیہ الحرام والبھتان رضی اللہ عنہ و أوجب لہ الجنان۔

جو شخص ماہ رمضان کا روزہ رکھے اور حرام کاموں اور بہتان سے بچے تو خدا اس سے راضی اور اس پر جنّت کو واجب  کر دیتا ہے۔

اور پھر ایک دوسری روایت میں فرمایا:

انّ الجنّة مشتاقة الی أربعة نفر : 1- الی مطعم الجیعان . 2- وحافظ اللّسان.  3- و تالی القرآن . 4- وصائم شھر رمضان.

جنّت چار لوگوں کی مشتاق ہے:

1- کسی بھوکے کو کھانا کھلانے والے

2- اپنی زبان کی حفاظت کرنے والے

3- قرآن کی تلاوت کرنے والے

4- ماہ رمضان میں روزہ رکھنے والے

روزے کا فلسفہ یہی ہے کہ انسان حرام کاموں سے بچے اور کمال حقیقی کی راہوں کو طے کر سکے، رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں خداوند متعال نے تم پر روزے واجب قرار دیئے ہیں پس جو شخص ایمان اور احتساب کی خاطر روزہ رکھے تو وہ اسی طرح گناہوں سے پاک ہو جائے گا جس طرح ولادت کے دن پاک تھا۔

ویسے بھی گناہ سے اپنے آپ کو بچانا اور حرام کاموں سے دور رہنا مؤمن کی صفت ہے اس لیے کہ گناہ خود ایک آگ ہے جو انسان کے دامن کو لگی ہوئی ہو اور خدا نہ کرے اگر کسی کے دامن کو آگ لگ جائے تو وہ کبھی سکون سے نہیں بیٹھتا جب تک اسے بجھا نہ لے اسی طرح عقل مند انسان وہی ہے جو گناہ کے بعد پشیمان ہو اور پھر سچی توبہ کر لے اس لیے کہ معصوم تو ہم میں سے کوئی نہیں ہے لہذا اگر خدا نہ کرے غلطی سے کوئی گناہ کر بیٹھے تو فورا اس کی بار گاہ میں آ کر جھکیں ، یہ مہینہ توبہ کے لیے ایک بہترین موقع ہے کیونکہ اس میں ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ آئیں اہل بیت علیہم السلام کا واسطہ دیں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا وعدہ کریں، یقینا خدا قبول کرے گا۔ رسول خدا (ص) فرماتے ہیں:

من صام شھر رمضان فحفظ فیہ نفسہ من المحارم دخل الجنّة،

جو شخص ماہ مبارک میں روزہ رکھے اور اپنے نفس کو حرام چیزوں سے محفوظ رکھے ، جنّت میں داخل ہو گا۔

امام صادق علیہ السلام روزہ کا ایک اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

خداوند متعال نے روزے اس لیے واجب قرار دیئے ہیں تا کہ غنی و فقیر برابر ہو سکیں، اور چونکہ غنی بھوک کا احساس نہیں کر سکتا جب تک کہ غریب پر رحم نہ کرے اس لیے کہ وہ جب کوئی چیز چاہتا ہے اسے مل جاتی ہے، لہذا خدا نے یہ ارادہ کیا کہ اپنی مخلوق کے درمیان مساوات برقرار کرے اور وہ اس طرح کہ غنی بھوک و درد کی لذت لے تا کہ اسکے دل میں غریب کے لیے نرمی پیدا ہو اور بھوکے پر رحم کرے۔

یہ ہے روزے کا فلسفہ کہ انسان بھوک تحمل کرے تا کہ اسے دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس ہو لیکن افسوس ہے کہ آج تو یہ عبادت بھی سیاسی صورت اختیار کر گئی ہے بڑی بڑی افطار پارٹیاں دی جاتی ہیں جن میں غریبوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے ان کے بھوکے بچوں اور انہیں مزید اذیت دی جاتی ہے نہ جانے یہ کیسی اہل بیت علیہم السلام اور اپنے نبی کی پیروی ہو رہی ہے، اس لیے کہ دین کے ہادی تو یہ بتا رہے ہیں کہ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ غریبوں اور فقیروں کی مدد کرو جبکہ ہم علاقہ کے مالدار لوگوں کو دعوت کرتے ہیں اور باقاعدہ کارڈ کے ذریعہ سے کہ جن میں سے اکثر روزہ رکھتے ہی نہیں!!!

روزہ افطار کروانے کا بہت بڑا ثواب ہے لیکن کس کو ؟ روزہ دار اور غریب لوگوں کو، ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ ان لوگوں کو افطار نہ کروائیں ان کو بھی کروائیں لیکن خدارا غریبوں کا خیال رکھیں جن کا یہ حق ہے، خداوند متعال ہمیں روزے کے فلسفہ اور اس کے مقصد سے آگاہ ہونے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور اس با برکت مہینہ میں غریبوں کی مدد کرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین، و بحقّ محمد و آلہ الطاہرین و صلّی اللہ علی محمد و آل محمد و عجّل فرجھم.....

آئیں ہم سب بھی مل کر یہی دعا کریں کہ اے پالنے والے ہمیں اگلے سال بھی اس مقدس مہینہ کی برکتیں نصیب کرنا لیکن اگر تو اپنی رضا سے ہمیں اپنے پاس بلا لے تو ایسے عالم میں اس دنیا سے جائیں کہ تو ہم سے راضی ہو اور ہمارے امام بھی ہم سے خوشنود ہوں۔

السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا شَهْرَ اللهِ الاكْبَرَ، وَيَا عِيْدَ أَوْلِيَائِهِ.

السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَـا أكْرَمَ مَصْحُـوب مِنَ الاوْقَاتِ، وَيَا خَيْرَ شَهْر فِي الايَّامِ وَالسَّاعَاتِ.

السَّلاَمُ عَلَيْكَ مِنْ شَهْر قَرُبَتْ فِيهِ الامالُ وَنُشِرَتْ فِيهِ الاَعْمَالُ.

السَّلاَمُ عَلَيْكَ مِنْ نَاصِر أَعَانَ عَلَى الشَّيْطَانِ وَصَاحِب سَهَّلَ سُبُلَ الاحْسَانِ.

أَلسَّلاَمُ عَلَيْكَ مِنْ شَهْر لا تُنَافِسُهُ الايَّامُ.

أَلسَّلاَمُ عَلَيْكَ مِنْ شَهْر هُوَ مِنْ كُلِّ أَمْر سَلاَمٌ.

أَلسَّلاَمُ عَلَيْـكَ وَعَلَى لَيْلَةِ الْقَدْرِ الَّتِي هِيَ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْر.

أَلسَّلاَمُ عَلَيْـكَ یا شَهْرَ الصِّيَامِ ، ‌و‌ شَهْرَ الْإِسْلَامِ ، ‌و‌ شَهْرَ الطَّهُورِ ، ‌و‌ شَهْرَ الَّتمْحِيصِ ، ‌و‌ شَهْرَ الْقِيَامِ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ ، هُدًى لِلنَّاسِ ، ‌و‌ بَيِّنَاتٍ ‌من‌ الْهُدَى ‌و‌ الْفُرْقَانِ ،

التماس دعا.....





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی