حدیث اثنی عشر خلیفۃ اور شیعہ ائمہ (ع)
(تحریر رستمی نژاد ۔۔ ترجمہ سید میثم زیدی )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے واضح طور اپنے بارہ جاشین ہونے کا اعلان کیا ؟ لیکن لیکن ۔۔۔۔
اعتراض:
شیعہ ائمہ کی امامت کو ثابت کرنے کے لیے اثنی عشر خلیفہ، حدیث سے استناد کرتے ہیں جس میں پیغمبرؐ نے فرمایا: «بارہ خلیفے آئیں گے جو سب قریش سے ہونگے۔» جبکہ یہ حدیث شیعوں کے بارہ امام سے کوئی تعلق نہیں رکھتی کیونکہ شیعہ ائمہ میں سے صرف حضرت علی اور حضرت حسن خلافت پر پہنچے باقی ائمہ خلیفہ نہ بنے۔لہذا حدیث اثنی عشر، شیعہ اماموں کے بارےمیں نہیں ہے۔
تحلیل اور جائزہ
اس اعتراض کے جواب میں چند نکتوں کو بیان کریں گے:
پہلا نکتہ: مذکورہ حدیث فریقین کے متفق علیہ روایات میں سے ہے جو شیعہ اور اہل سنت مصادر حدیث میں بکثرت نقل ہوئی ہے یہاں تک کہ بخاری و مسلم نے صحیحین میں اسے مکرر بیان کیا ہے۔
اس حدیث کے مطابق پیغمبرؐ کے بعد آپ کے جانشوں کی تعداد ۱۲ افراد ہیں جو سب کے سب قریش سے ہیں۔ مسلم و بخاری نے جابر سمرۃ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں اپنے والد کے ساتھ پیغمبر کے پاس حاضر ہوئیں آپ کو فرماتے سنا: «إنّ هذا الدین لا ینقضي حتّی یمضي فیهم اثنا عشر خلیفة، اس دین کو اس وقت تک زوال نہیں آئے گا جب تک اس میں ۱۲ خلیفہ نہ بنے» پھر پیغمبر نے کچھ فرمایا جو میں نہیں سن سکا۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا : انہوں نے کہا: پیغمبر ؐنے فرمایا: «کُلّهُم مِن قُرَیش؛ سب کے سب قریش سے ہونگے»[1]
بعض احادیث میں پیغمبر نے اپنے بعد خلفاء کی تعداد نقبائے بنی اسرائیل کے برابر بیان کیا ہے۔ عبد اللہ بن مسعود نے نقل کیا ہے: کہ آپ سے پوچھا: آپ کے بعد خلفاء کی تعداد کتنے ہیں؟ پیغمبر نے فرمایا: «اثنا عشر، کعدّة نقباء بني إسرائیل؛ بارہ نفر بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے برابر »[2]
دوسرا نکتہ: اگرچہ مذکورہ احادیث کا مضمون ایک ہے لیکن مختلف الفاظ میں بیان ہوئی ہیں۔حدیث میں الفاظ کی تبدیلی دو حصوں سے متعلق ہے:
پہلا حصہ، بارہ خلفاء کی توصیف و تعریف دوسرا حصہ: اس دور میں اسلام و مسلمانوں کی حالت۔ اب ہم ان دو حصوں پر روشنی ڈالیں گے:
الف: بارہ خلفاء کی صفات بیان کرنے والے الفاظ
اس بارے میں احادیث میں مختلف الفاط ذکر ہوئے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ مشہور الفاظ کو ذیل میں بیان کریں گے:
۱: خلیفہ، اہل سنت مصادر حدیث میں یہ لفظ زیادہ استعمال ہوا ہے[3]لہذا یہ حدیث، «حدیث
اثنی عشر خلیفه» سے مشہور ہوئی ہے۔
۲:امیر، یہ لفظ صحیح بخاری میں بیان ہوا ہے۔ اس حدیث کے مطابق پیغبرؐ نے فرمایا: »یکون اثنی عشر أمیراً«[4]
۳: قیّم، بعض مصادر میں یہ لفظ بیان ہوا ہے۔ طبرانی نے نقل کیا ہے: «یکون لهذه الأمة اثنا عشر قیّماً»[5]
۴: ولایت، مسلم نے نقل کیا ہے: «ما وُلّیهم اثنا عشر رجلاً»[6]
اگرچہ احادیث کے الفاط مختلف ہیں لیکن سب ایک ہی مضمون کی جانب اشارہ کر رہی ہیں اور وہ ہے((ولایت اور سرپرستی))۔
ب: اس دور کی صفات
۱: اسلام کی عزت، مسلم نے نقل کیا ہے: «لایزال الإسلام عزیزاً إلی اثنی عشر خلیفة».[7]
2: دین کی عزت اور سربلندی، مسلم نے نقل کیا ہے: «لایزال هذا الدین عزیزاً منیعاً إلی
اثنی عشر خلیفة»[8]
۳:دین کی پابرجائی، اسے بھی مسلم نے نقل کیا ہے: «لایزال الدین قائماً حتّی تقوم الساعة و یکون علیکم اثنا عشر خلیفة»[9]
۴: دینی رہبریت کا استحکام،«إنّ هذا الأمر لاینقضي حتّی یمضي فیهم اثنا عشر خلیفة»[10]
۵:لوگوں کے امور کا منظم اور جاری ہونا: «لا یزال أمر الناس ماضیاً ما وُلّیهم اثنا عشر رجلاً»[11]
۶: دینداروں کے اپنے دشمنوں پر پیروزی، احمد بن حنبل نے مسند میں نقل کیا ہے: «لا یزال أهل هذا الدین یُنصرون علی من ناواهم إلی اثنی عشر خلیفة»[12]
ان کے علاوہ بھی کچھ الفاظ ایسے ہیں جو اس دور کی صفات کو بیان کرتے ہیں یہاں بطور نمونہ کچھ جملوں کو بیان کریں گے: «لا تهلک هذه الأمّة حتّی یکون منها اثنی عشر خلیفة، کلّهم یعمل بالهدی و دین الحقّ؛ جب تک لگام امر بارہ لوگوں کے ہاتھ میں رہے گا، یہ امت نابود نہیں ہوگی، وہ بارہ افراد ہدایت اور دین حق کے مطابق عمل کریں گے۔»[13]
دیلمی نے فردوس الاخبار میں روایت کی ہے: «الأئمّة بعدي اثنی عشر، من أهل بیتي»۔
یہ وہ صفات ہیں جو پیغمبر کی زبانی ان بارہ افراد کے لیے بیان ہوئے ہیں۔ وہابیت ان احادیث کو شیعوں کے بارہ اماموں کے بارے میں قبول نہیں کرتے ،لیکن کیا یہ لوگ ان کے علاوہ ان خصوصیات کے ساتھ کوئی اور دور دیکھا سکتے ہیں؟ ایسا دور جس میں حاکم قریش سے ہوں اور اسلام باعزت اور سربلند و مسلمانوں کے امور بھی منظم ہوں؟
وہابیت جو یزید و معاویہ کو اثنی عشر حدیث کے مصداق مانتے ہیں ان کے دور میں حدیث میں مذکور خصوصیات پائی جاتی ہیں؟کیا وہابیت کی نگاہ میں مروان بن حکم جسے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لعن کیا تھا، اسلام کے لیے سربلندی اور باعث عزت تھا؟ کیا یزید جس نے خانہ کعبہ کو آگ لگایا، باعث عزت اسلام تھا؟
تیسرا نکتہ:وہابیت اس حدیث کے مصداق کو ائمہ اہل بیت ماننے سے انکار کرتے ہیں تو وہ اس حدیث کے لیے کیا مصداق اور مفہوم پیش کرتے ہیں؟ جبکہ اہل سنت علماء اس حدیث کی تشریح میں حیران رہ گئے ہیں اور آج تک اس کے لیے قابل قبول معنی بیان نہ کر سکے وہابیت کے پاس بیان کرنے کےلیے کیا ہے؟۔
ابن حجر عسقلانی نے ابن جوزی سے نقل کیا ہے: «قد أطلتُ البحث عن معنی هذا الحدیث و تَطلّبتُ مظانَه و سألتُ عنه فلم أَقَع علی المقصود به؛ میں نے اس حدیث کے معنی تک پہنچنے کے لیے بہت کوششیں کی، جہاں کہیں بھی گماں ہوتا اسے جستجو کیا، اور سوال و جواب کیا لیکن آج تک اس حدیث کے مفھوم کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔»[14]
عینی- شارح صحیح بخاری -مھلب کے قول سے لکھتا ہے «لم ألقَ أحداً یقطع في هذا الحدیث،میں نے کسی کو نہیں پایا جس نے یقینا اس حدیث کو سمجھا ہو۔«[15]
ابوبکر ابن عربی شرح سنن ترمذی میں، خلفائے راشدین، خلفائَ بنی امیہ اور بنی عباس کو گننے کے بعد مشاہدہ کرتا ہے کہ ان احتمالات کو کسی طرح ثابت نہیں کیا جاسکتا لہذا لکھتے ہیں: «و لم أعلم للحدیث معنیً، میں اس حدیث کے معنی نہیں جانتا«[16]
چوتھا نکتہ: اگر اس حدیث کے متن پر توجہ دیں تو حدیث کا معنی یہ نہیں ہے کہ یہ بارہ نفر خلیفہ ہونگےاور خلافت پر مستقر ہونگے۔ بلکہ پیغمبرؐ کے بیان میں شرط پوشیدہ ہے۔یعنی اگر امور کا لگام ان بارہ افراد کے ہاتھ میں ہو اور لوگ بھی ان کی رہبری کو قبول کر لیں تو عزت و سربلندی نصیب ہوگی۔ ان احادیث کا مطالعہ ذہنی پس منظر اورتعصب کی عینک اتار کر انصاف سےکیا جائے تو حدیث«لا یزال أمر الناس ماضیاً ما وُلّیهم اثنا عشر رجلاً»؛ کا یہی معنی ہوگا: لوگوں کے امور منظم ہونگے جب تک ان کی سرپرستی بارہ (عظیم) مرد کے ذمے ہوگی۔
«ما وُلّیهم» کی عبارت اسی معنی کو بیان کرتی ہے کہ جب تک یہ بارہ افراد لوگوں کی سرپرستی کریں گے لوگوں کے امور منظم ہونگے نہ یہ کہ حقیقت میں وہ حکومت پر پہنچیں گے۔دوسرے الفاط میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ: یہ احادیث مقام انشاء کے لیے بیان ہوئی ہے نہ کہ مقام اخبار کے لیے۔یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس حدیث کے ذریعے امت سے یہ چاہتے ہیں کہ اگر عزت اور سربلندی چاہیے تو ان بارہ افراد کی امامت کے سامنے گردن جھکا دیں۔ نہ یہ کہ آپ ان کی حکومت کے بارے خبر دینا چاہتے تھے۔ لہذا پیغمبر کا یہ کلام مقام ثبوت اور واقع سے متعلق ہے اور مقام اثبات اور خارج سے تعلق نہیں رکھتا۔
پانچواں نکتہ: مسلم علما اس حدیث کی تطبیق اور مصادیق معین کرنے کے لیے حیران وپریشان ہیں اور آج تک ایسے مصادیق جس سے مطمئن ہوجائیں نہیں ڈھونڈ پائے ہیں۔
اس کی دلیل واضح ہے کیونکہ خلفائے راشدین کے بعد قریشی صرف دوگروہ مسند خلافت پر بیٹھ پائے ہیں۔ ایک اموی سلسلہ دوسرا عباسی سلسلہ اور ان کی تعداد ۱۲ افراد کے ساتھ قابل تطبیق نہیں ہے۔ لہذا مسلم دانشوروں نے ۱۲ عدد کے ساتھ خلفاء کی تطبیق کے لیے بعید از نظررائے دی ہیں۔ یہاں تک کہ یزید اور ولید کو بھی ۱۲ عدد میں شمار کیا ہے پھر بھی قابل قبول مصداق اس حدیث کے لیے بیان نہ کر سکے۔ اگر تعصب چھوڑ کر تھوڑا غور و فکر کریں تو یہ حدیث بارہ ائمہ اہل بیت سے مطابقت رکھتی ہے۔
البتہ جس وقت بخاری اس حدیث کو صحیح میں نقل کر رہا تھا اسے نہیں معلوم تھا کہ یہ حدیث شیعوں کے برحق ہونے کی واضح دلیل ہوگی کیونکہ بخاری امام حسن عسکریؑ کے دور میں وفات پاچکا تھا جبکہ بارہویں امام کا دور نہیں آپہنچا تھا لہذا انہوں نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ آئندہ نسلوں کے لیے یہ حدیث درد سر کا باعث بنے گی۔
ابن کثیر- شاگرد ابن تیمیہ- سورہ مائدہ آیت۱۲ کی تفسیر میں(( بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَي عشر نَقِیبًا))، اثنی عشر خلیفہ کی بحث میں مختلف احتمالات کو بیان کرنے بعد لکھتے ہیں: و في التوراة البشارة باسماعیل و أن یقیم من صُلبه اثنا عشر عظیماً؛ توریت میں اسماعیل کو بشارت دی گئی ہے کہ ان کی نسل سے بارہ افراد قیام کریں گے)
اس کے بعد لکھتے ہیں: یہ بارہ افراد جس کی توریت میں خبر دی گئی ہے وہی ہیں جن کا حدیث اثنی عشر میں ذکر ہوا ہے۔[17]
اس کے بعد ابن کثیر لکھتے ہیں: « و بعض الجهلة ممّن أسلم من الیهود إذا اقترن بهم بعض الشیعة یوهّمونهم أنّهم الأئمّۀ الاثنی عشر فیشیَع کثیر منهم جهلاً و سَفَهاً؛بعض جاہل یہودی جب اسلام لے آئے اور شیعوں سے نشست و برخواست کی لہذا جہالت کی بنیاد پر شیعہ ہوگئے« [18]
اس کلام سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے کے یہودی توریت میں مندرج بارہ افراد کو صرف شیعہ بارہ امام جانتے تھے۔
اسی طرح ابن کثیر اپنی دوسری کتاب میں اپنے استاد-ابن تیمیہ- سے نقل کرتے ہیں: «و غَلَط کثیر ممّن تشرّف بالإسلام من الیهود فظنّوا أنّهم الّذین تدعوا إلیهم فرقة الرافضة فأتبعوهم؛ بہت سارے یہودی جب اسلام لے آئے تو غلطی سے یہ خیال کیا کہ توریت کی بشارت فرقہ رافضیہ کے بارہ اماموں کے متعلق ہے لہذا شیعہ ہوگئے۔«[19]
دلچسپ بات یہ کہ موجودہ توریت میں، زبان عبری کے ماہرین کی رپورٹ کے مطابق یہ بشارت اب بھی موجود ہے جو یہ ہے: «فی لیشاعیل بَیرختی أوتو، فی هِفریتی أوتو فی هِربیتی بِمِئودا شنیم عَسار نسیئیم یولید فی نِتتیف لکوی کدول«
علامه عسکری نے مذکورہ ٹیکسٹ کا عربی میں ترجمہ کیا ہے: «و اسماعیل أبارکه و أثمره و أکثره جدّاً جدّا،ً اثنا عشر إماماً یلد، و أجعله أمّة کبیرة؛ اسماعیل کو مبارک قرار دیا، اور پرثمر قرار دیا، اسےکثرت دی اور بارہ امام اس کی نسل سے پیدا ہونگے اور اسے بڑی امت قرار دیا«[20]
اب سوال یہ ہے کہ اگر حدیث اثنی عشر خلیفہ وہی توریت کی بشارت ہے تو بارہ خلفاء کو حضرت اسماعیل و ابراہیم خلیل الرحمان کے نسل سے ہونا چاہیے۔ کیا یزید اور اس جیسے دوسرے اموی اور عباسی خلیفوں کو ابراہیم و اسماعیل کی برکت مان لیں؟ کیا وہابی نظریے کے مطابق نسل اسماعیل کی باشخصیت ہستیوں کے عنوان سے مروان بن حکم جیسے لوگوں کے بارے بشارت دی گئی ہے؟ جس پر پیغمبر نے لعنت کی ہے۔؟
تعجب کی بات یہ ہے کہ جب وہابیت اور ان کے ہم فکر افراد ان احادیث کا مشاہدہ کرتے ہیں تو حدیث کے معنی پر توجہ کرنے کی بجائے اور بارہ ائمہ کے حقیقی مصداق کو ڈھونڈنے کی جگہ، حسد و کینہ اور غصے سےشیعہ ائمہ کی شخصیات پر حملہ کرتے ہیں۔
ابن کثیر لکھتے ہیں: «و لیس المراد بهؤلاء الخلفاء الاثنی عشر الأئمّة الاثنی عشر الّذین یعتقد فیهم الاثنی عشریّة من الروافض لجهلهم و قلّة عقلهم؛ اس حدیث میں بارہ امام سے مراد شیعہ اثنی عشریہ رافضیوں کے بارہ امام مراد نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ جاہل اور کم عقل ہیں۔»[21]
یہ ابن کثیر جیسے دانشوروں کے سوچ کی حد ہے۔ اس کے بجائے کہ اس حدیث کا صحیح معنی بیان کیا جائے، شیعوں کی توہین کرکے، لوگوں کے سوچ پر پابندی لگاتے ہیں، کہ کہیں خدا نخواستہ کوئی شخص خود ہی حدیث کا معنی سجمھ نہ لے۔حقیقت میں اگر پوچھے تو ابن کثیر کو اتنا غصہ کیوں آیا ؟ کہیں اس لیے تو نہیں کہ انہیں پتہ چل گیاتھا کہ ہر باانصاف شخص، تعصب اور ذہنی پس منظر کو کنارے پر رکھ کر اس حدیث کو پڑھے گا تو شیعوں کی حقیقت اس پر واضح ہوجائے گی؟ اگر شیعہ کم عقل اور بے وقوف ہیں تو اس حدیث کا کیا قصور ہے اور اثنی عشر سے مراد بارہ معصوم امام کیوں نہیں ہوسکتے؟ ابن کثیر خود تو عاقل تھے انہوں نے اس حدیث کا صحیح معنی بیان کیوں نہیں کیا؟ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض دانشوروں نے صرف اس لیےکہ یہ حدیث شیعہ عقیدہ کے مطابق ہے، حدیث کا انکار کیا ہے۔جبکہ سند اور دلالت کے لحاظ سے حدیث میں کوئی مشکل نہیں ہے لیکن اعتراض ہے تو صرف یہ کہ یہ حدیث شیعہ مذہب کے مطابق ہے۔لہذا حدیث کے صحیح ہونے پر یقین ہونے کے باوجود انکار کیا گیا۔ ہے۔
عظیم آبادی-اہل سنت دانشور- نے عون المعبود میں شاہ ولی اللہ کے قول سے لکھا ہے: «و قد استُشکل في حدیث «لا یزال هذا الدین ظاهراً إلی أن یبعث الله اثنی عشر خلیفة کلّهم من قریش» و وجه الاستشکال أنّ هذا الحدیث ناظر إلی مذهب الاثنا عشریۀ الّذین أثبتوا اثنی عشر إماماً؛ اس حدیث(اثنی عشر خلیفه) پر اعتراض ہوا ہے اور اعتراض کی وجہ یہ ہے کہ یہ حدیث شیعہ مذہب پر ناظر ہے جو بارہ اماموں کے قائل ہیں۔ (لہذا یہ حدیث قابل قبول نہیں ہے۔)[22]
(حدیث کو سمجھنے میں ایک اہم غلط فہمی )
بعض نے خلافت اور خلیفہ کا معنی صرف کسی کے اقتدار اور حکومت ہاتھ میں لینے کو سمجھا ہے۔ اسی لئے جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد مسند حکومت پر قابض ہوئے اسے خلیفہ کہا ۔جبکہ جانشین کے لئے ضروری ہے کہ جس کا جانشین بن رہا ہے اس کی جیسی صفات اور خصوصیات کا وہ مالک ہو۔اور اپنے سے پہلے والے کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کی اہلیت رکھتا ہو۔اس اعتبار سے کسی کو خلیفہ اور جانشین کہنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ یہ دیکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خصوصیات اور ان کی بنیادی ذمہ داریوں کیا کیا ہیں ؟ پھر دیکھے کہ جس کو ان کا جانشین کہا جاتا ہے کیا اس میں اس مقام کے لئے مناسب خصوصیات موجود ہے یا نہیں۔
واضح ہے کہ تاریخی اعتبار سے اس لفظ کا استعمال اس کے حقیقی معنی کے اعتبار سے نہیں ہوا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث میں لفظ کا معنی وہ نہیں ہے جو بعد میں رائج ہوا ۔اسی لئے اس حدیث کے معنی کو سمجھنے اور اس کے مطابق عقیدہ بنانے میں بہت سارے مشکل میں پڑ گئے ہیں ۔
اگر لفظ کے حقیقی معنی اور حدیث کے الفاظ کے اعتبار سے حدیث کا معنی کرئے تو معلوم ہوگا کہ اس کا حقیقی مصداق ائمہ اہل بیت ؑ ہی ہیں ۔ان کے علاوہ کسی کو اس کا مصداق کہنا مقام نبوت اور رسالت کو ایک دنیوی مقام سمجھنا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک بادشاہ اور عام حاکم کی طرح قرار دینا ہے ۔ (نعوذ باللہ من ذالک )[ ملکوتی]
لہذا یہ حدیث مقام انشاء میں بیان ہوئی ہے نہ کہ مقام اخبار میں، انشاء سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اس حدیث کے ذریعے اپنی امت سے چاہتے ہیں کہ اگر سربلندی اور عزت چاہیے تو اس کی چابی ان بارہ لوگوں کے پاس ہے۔ ان کی سرپرستی کو قبول کرے تاکہ عزت نصیب ہوجائے اور اس حدیث میں آیندہ کی خبر نہیں دی گئی۔
نتیجہ یہ کہ: شیعہ بارہ امام کے علاوہ اس حدیث کا کوئی مصداق نہیں ہے۔ لہذا شارحین اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس حدیث کے لیے بارہ امام کے علاوہ کوئی اور مصداق ڈھونڈ نہیں سکے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث صرف بارہ اماموں پر قابل تطبیق ہے۔
(تحریر رستمی نژاد ۔۔ ترجمہ سید میثم زیدی )
[1] ۔صحیح البخاری، ج ،8ص 127؛ صحیح مسلم، ج ،6ص۳
[2] . مسند احمد، ج ،1ص 398؛ مسند ابویعلی، ج ،8ص 444؛ المستدرک علی الصحیحین، ج ،4ص .501
[3] ۔صحیح مسلم، ج ،6ص .۳
[4] ۔صحیح البخاری، ج ،8ص ۱۲۷
[5] ۔المعجم الکبیر، ج ،2ص ،196المعجم الأوسط، ج ،3ص .2۰۱
[6] صحیح مسلم، ج ،6ص 3
[7] . صحیح مسلم، ج ،6ص 3
[8] . صحیح مسلم، ج ،6ص4
[9] ۔صحیح مسلم، ج ،6ص 3
[10] . صحیح مسلم، ج ،6ص 3
[11] . صحیح مسلم، ج ،6ص 3
[12] ۔مسند احمد، ج ،5ص 9۸
[13] ۔. فتح الباری، ج ،13ص 184؛ تاریخ بغداد، ج ،4ص .2۵۸
[14] ۔فتح الباری، ج ،13ص173
[15] ۔3عمدۀ القاری، ج ،24ص ۲۸۱
[16] ۔عارضة الاحوذی، ج ،9ص 68
[17].تفسیر القرآن العظیم، ج ،3ص 59
[18] . تفسیر القرآن العظیم، ج ،3ص 59
[19] ۔البدایۀ و النهایۀ، ج ،6ص2۸۰
[20] ۔. 4معالم المدرستین، ج ،1ص 5۳۹
[21] . تفسیر القرآن العظیم، ج ،3ص59
[22] ۔عون المعبود، ج ۱۱ص۲۴۴