2024 March 28
ہماری عزادری اور امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد ۔
مندرجات: ٢٠٤٢ تاریخ اشاعت: ٠٣ August ٢٠٢٢ - ١٠:٤٦ مشاہدات: 3677
یاداشتیں » پبلک
ہماری عزادری اور امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد ۔

 بسمہ تعالیٰ

  ہماری عزادری اور امام حسین علیہ السلام  کے قیام کا مقصد ۔

مقدمہ : فرزند پیغمبرؑ  امام  حسین ؑ کی قربانی   دین کی بقاء اور  معاشرے میں دینی تعلیمات  کی حاکمیت   کی  راہ میں  ایک بے مثال  قربانی تھی۔لہذا اس قربانی کی یاد   منانا   شعائر اللہ میں سے   ہے اور  دین ہمیں شعائر الٰہی  کی تعظیم  کی سفارش کرتا ہے[1]۔’’ واقعہ کربلا کی یاد  ذہنوں سے محو نہ ہونے دینا در اصل دین کی حفاطت  کی ایک تدبیر ہے ۔ اگر عزاداری صحیح اصولوں کے مطابق انجام پائے تو  یہ بڑی تعداد میں ایسے افراد کی تربیت  کرسکتی ہے جو اسلام اور مسلمانوں اور خود ہماری ملت کو موجودہ زوال و انحطاط سے نجات  دلاسکتے ہیں ‘‘   اور جس طرح سے  امام مظلوم کا قیام  اسلام کی بقاء کا  باعث  تھا ،بامقصد عزاداری  بھی اسلام کی بقاء اور موجودہ حالات میں مسلمانوں کی نجات  کی ضامن ہے ۔

         ہم عزاداری  کی مجالس  کے اہداف کو خود امام  کے قیام کے اہداف کے ساتھ  ہماہنگ  کرنے کے جذبے سے   اس  تحریر کو  عزاداران  امام مظلوم ؑ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔  انشاء اللہ  یہ کاوش امام ؑ کے قیام کے اہداف کو زندہ رکھنے   کی راہ میں  موئثر  ہوگی ۔

    امام حسینؑ ؑکے قیام کا مقصد :

  عزاداری  کے اہداف کے بارے  بحث سے  پہلے خود امام مظلومؑ  کے قیام  کے مقاصد سے آگاہ ہونا بے حد  ضروری ہے کیونکہ  عزاداری کے اہداف خود   سید شہداءؑ ؑ کے قیام کے اہداف سے  جدا قابل تصور نہیں ہیں۔ امام ؑ کے قیام کے اہداف  سے  آشنا ئی جہاں امام مظلوم ؑ کی عزاداری منانے کا صحیح طریقہ  ہمیں بتاتی ہے  اور ہماری عزاداری کو سمت و سو  دیتی ہے،   وہاں  امامؑ کے حقیقی عزادار اور ماتمی  کی  پہچان   کے سلسلے میں  ہماری راہنمائی کرتی ہے ۔ہم امام ؑ کے قیام کے اہداف کے سلسلے میں  امام ؑ کے بعض   کلمات یہاں نقل کرتے ہیں ۔

1:  رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے فرمان  سے استدلال  اور  بنی امیہ کے حاکموں  کے خلاف قیام کو واجب قرار دیتے ہوئے آپ  نے فرمایا : اے لوگو!رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے فرمایا :  جو  کسی ظالم فرمان روا کو دیکھے جو حرام الہٰی کو حلال  شمار کرتا ہو،خدا سے کئے گئے عہد و  پیمان کو کو توڑتا ہو، اس کے پیغمبر کی سنت کی مخالفت کرتا ہو... اور ان تمام  باتوں کے باوجود زبان و عمل سے اپنی مخالفت کا اظہار نہ کرے تو خدا  اسکو ظالم فرمان روا کے ساتھ ایک ہی جگہ جہنم میں  رکھے گا۔

اے لوگو:  بنو امیہ کے حکمرانوں نے شیطان کی اطاعت   کو اختیار کیا ہے۔ خداے رحمن کی اطاعت ترک کردی ہے ۔فساد پھیلا  رکھا ہے۔ قوانین الہٰی کو معطل کر رکھا ہے۔ بیت المال کو اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے۔ حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال سمجھا ہے ۔ ایسے میں  دین خدا  کی نصرت  اور شریعت کی بالادستی کے لئے قیام کرنے کا میں زیادہ سزاوار ہوں{ أنساب الأشراف  1 /414 } .

2: بصرہ والوں کے نام خط میں آپ ؑنے فرمایا : میں تمہیں قرآن و سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں کیونکہ سنت مٹ چکی ہے اور  بدعت زندہ ہوچکی ہے. اگر تم لوگ میری بات سنو  اور میری اطاعت کرو  تو میں تم لوگوں کو راہ حق کی طرف رہنمائی کروں گا { البداية والنهاية ،8 /170}۔

3: آپ نے  روز عاشور اپنے  باوفاء اصحاب سے خطاب میں فرمایا: اے  شریفو!یہ جنت ہے اور جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں  اور رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اور راہ حق کے شہداء تمہارے انتظار میں ہیں اور تمہیں خوش آمدید کہہ رہے ہیں ۔ پس اللہ اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے دین کی نصرت اور حمایت کرو  اور  رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی ذریت سے دفاع کرو۔{  موسوعه کلمات الامام الحسین،  ص 445.}

’’ امامؑ کے فرض منصبی ، کلمات ،فرامین ،مکتوبات کا مطالعہ کیا جاے  تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آپ کی تحریک امت کے سیاسی و اجتماعی نظام کی اصلاح کے لئے تھی۔حسین بن علی ؑ کی تحریک مسلمانوں کو اموی اقتدار سے نجات دلانے ، شریعت کی بالادستی ،اسلامی احکام کے نفاذ اور اپنے حق کی بازیابی کے لئے تھی ۔حسین بن علیؑ اپنی تحریک کے ذریعے مسلمانوں میں ایک ایسے مکتب کی بنیاد رکھنا  چاہتے تھے  جس کے ماننے والے مسلمانوں کے امور و معاملات سے کسی طرح غافل  اور لا تعلق نہ ہوں ، اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والے رجحانات  اور ان کے خلاف  ہونے والے اقدامات  سے نہ صرف آگاہ ہوں بلکہ  انہیں ناکام بنانے کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی گریز  نہ کریں  ۔‘‘

 لہذا امام مظلوم کی تحریک کا مقصد  اسلام کی بقاء ، اسلامی معاشرے  کو  ظالم اور  بے دین   حاکموں  سے نجات دلا کر  ہر قسم کی  بے دینی ،انحراف ، کج روی   کو ختم کر کے  لوگوں کو  اسلامی تعلیمات   کے سایے میں  زندگی گزارنے کے  مواقع فراہم کرنا تھا۔

حقیقی عزاداری  اور مقصد عزاداری :  

 الحمد لِلَّه ہم   ماتمی اور عزادار  ہیں   ، عزاداری ہماری  پہچان کا ایک ذریعہ ہے ۔  ہم  خود  کو حسینیؑ کہنے  اور     اپنے حسینی ؑ ہونے پر فخر بھی کرتے ہیں اور  اپنے اس تعلق کو   کسی صورت میں بھی ہاتھ سے دینے کے لئے تیار  نہیں ہیں ۔یقینا  ہماری ’’ عزاداری کا  مقصد ،رخ اور سمت وہی ہونی چاہے جو امام حسینؑ کی تحریک  کا مقصد ،رخ اور سمت تھی۔ کیونکہ عزاداری در اصل ایک تبلیغی عمل ہے اور اس کا مقصد امام حسینؑ کی تحریک کو زندہ رکھنا  اور اسے مسلسل آگے بڑھانا ہے۔عزاداری، حسینی پیغام  کو عام کرنے کا ذریعہ ہے ۔ یہ  محض غم کی داستان نہیں بلکہ  اس کا پیغام  مسلمانوں کے اجتماعی  اور انفرادی  معاملات میں دین کی حکمرانی کا قیام ہے۔اس کا بنیادی مقصد      امام  حسینؑ کی  تحریک کے مقاصد     پر روشنی ڈالنا  اور اس سے  درس عبرت لیتے ہوئے اپنے دور  میں دین کے خلاف  کی جانے والی ریشہ دوانیوں کا تدارک ہے۔ عزاداری کا مقصد  امام حسین ؑ کی  اس تحریک  سے وابستگی  کا اظہار اور اس کے لئے ہر قسم کی قربانی کا عزم ہے ۔‘‘

لہذا    عزاداری صرف غم کی ایک داستان سنا کر  اہل بیتؑ سے  اظہار عقیدت  کرنے کی ایک رسم  نہیں ہے ۔ عزاداری لوگوں کو امام کی تحریک سے آشنا کرانے  اور اس تحریک میں شمولیت کی دعوت کا نام ہے ۔عزاداری  عاشورا کے اہداف کو بیان کرنے اور انہیں عملی جامعہ پہنانے  کی ایک انقلابی سرگرمی کا نام ہے ۔ عزاداری ہر دور میں دین کی حفاظت  اور اسلام کی بالادستی  کی  راہ میں جدو جہد اور اسلامی معاشرے   کو  بے دین  ،ظالم حاکموں سے نجات دلا کر عدل و انصاف پر مبنی اسلامی نظام  کے قیام کی راہ میں ایک آگاہانہ جد و جہد  کا نام ہے ۔    

کیا ہماری عزاداری اپنی صحیح راہ پر گامزن ہے  ؟

 امام مظلوم کی تحریک کے مقاصد  کو سامنے رکھ کر  ہر ماتمی ، عزادار اور حسینی  کو    خود  سے  یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ  کیا ہم حقیقی عزادار  اور حسینیؑ ہیں ؟ کیا ہماری عزاداری  اسی راہ  پر گامزن ہے جس  پر  امام  حسینؑ  اور ان  کے  باوفا اصحاب کی تحریک گامزن تھی ؟ 

کیا  دین کی راہ میں  خاندان  پیغمبر کی اس عظیم قربانی  کی یاد منانے کے ذریعے   ہم دینی  دستورات    کو معاشرے میں  زندہ کرنے  اور  بے دینی   کے سیلاب میں کرفتار  لوگوں   کو نجات دلانے کی  ذمہ داری کا   احساس کرتے ہیں ؟

اگر ان سوالوں کا  جواب مثبت ہو  تو  ہمیں  یہ کہنے کا حق  حاصل ہے «ليتنا كنّا معكم‏ فنفوز فوزا عظيما»   کاش ہم بھی کربلا میں  آپ کے ساتھ  ہوتے تو ہم بھی   آپ پر جانثاری کی  سعادت حاصل کرتے۔ 

لیکن  اگر ان  سوالوں کا جواب مثبت نہ ہو  تو یہ سوالات اٹھتے ہیں  کہ  ہماری عزاداری کا حسینی تحریک  سے کیا تعلق ہے ؟ 

عزادار اور ماتمی  کا  امام مظلوم ؑ کے قیام کے مقاصد  سے دور  ی  کی وجہ کیا ہے ؟     

ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ آج   ’’ہماری عزاداری اپنی صحیح راہ پر گامزن نہیں ہے  ممکن ہے کسی  گوشے  میں بامقصد عزاداری منائی جاتی ہو لیکن من حیث مجموع عزاداری  کے اجتماعات  میں افادیت اور مقصدیت کا فقدان نظر آتاہے  ۔عزاداری  کے اس قدر اجتماعات کے باوجود  لوگ بہت زیادہ امام کی تحریک کے بارے میں نہیں جانتے ، امام کے اقوال اور کلمات سے نسل جوان بے بہرہ  ہے ۔عام طور پر عزاداری  کے اجتماعات میں دوسرے موضوعات پر تو بات ہوتی ہے لیکن  خود امام کی تحریک کے موضوع پر اظہار نظر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ،ذکر حسینؑ صرف مصائب کے وقت ہوتا ہے۔‘‘

آج ہمارے  اجتماعات میں  مجموعی طور پر کربلا  غم کی  ایک داستان اور عزادار   اور شیعہ  ہونے  کی پہچان آل رسول  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے مصائب   پر رونے کو ہی قرار  دیا جاتا ہے ۔ دیندار ی  اور  اہل بیتؑ سے وابستگی کے غلط معیارات بیان کرنے کے ذریعے اہل بیت ؑ کی نسبت سے اپنے فرائض کی ادائیگی کو صرف عزاداری  میں ہی منحصر سمجھتے ہیں  ۔جیساکہ عزاداری کی مجلسوں میں ہزاروں لوگوں کی شرکت  کے باوجود  نماز  کی صفوں میں   کم تعداد افراد کی شرکت  یہ بتاتی ہے  کہ  عزادری اور مجلسوں میں   مقصد حسینی  کا  فقدان  پایا جاتاہے۔  بقول شاعر :

مقصد قربانی حسین ؑ یہی تو ہے ۔۔۔۔۔ ہر گھر میں جانماز ہو فرش عزا کے ساتھ ۔

یقینا  عزاداری  اہل بیت ؑ سے اظہار عقیدت کا  بہترین ذریعہ ہے ۔ اہل بیت ؑ کی مظلومیت پر رونا اور ماتم کرنا دین  کا حصہ اور شیعہ ہونے کی ایک علامت ہے  ۔لیکن  اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس دین کی حفاظت کے لئے اہل بیت ؑ نے یہ سارے مصائب جھیلے ، اس دین  کی تعلیمات پر عمل او ر اس کی تبلیغ کو  ان پر رونے والے اہمییت نہ دے ۔ کیسے ممکن ہے اہل بیت ؑ کا تذکرہ  اور ان کے  فضائل و مصائب  کا بیان تو ہو لیکن  ان کی سیرت اور تعلیمات کا تذکرہ اور ان کی تبلیغ نہ ہو ؟

یہ بات معقول  نہیں ہے کہ  جس دین کے دستورات کی پیروی  ، تبلیغ اور ان کی حفاظت کی راہ میں قربانی   ائمہ کی مشترکہ سیرت ہو لیکن اہل بیتؑ    کا محب اور شیعہ ہونے کا مطلب صرف  ماتم کرنا اور ان کے مصائب  پر رونا ہی ہو  اور  دینی دستورات کی رعایت  ان کے لئے  ضروری نہ ہو  ۔ کیا امام حسینؑ نے یہ عظیم قربانی اسی لئے دی تھی کہ  ان پر  ماتم کرنے والے نماز و غیرہ کی پابندی سے آزاد ہو ؟یا اس لئے دی تھی کہ  دین  بچ جاے اور  لوگ  دینی دستورات  کو  اہمیت دے ؟  

بامقصد عزاداری کی طرف قدم  کیسے اٹھایا جائے  ؟

   اس سلسلے میں دو قسم کے  معروضات اور  اصول اور آداب پیش کیے جاسکتے ہیں   ۔

’’  الف : اراکین  مجالس کے بارے کچھ  معروضات۔ 

     ب:  عمومی طور پر اجتماعات  اور  ان  میں شریک لوگوں کے بارے میں بعض معروضات۔

  الف : اراکین  مجالس کے بارے کچھ  معروضات۔ 

مجالس عزاء کے   ارکان سے مراد  بانیا ن ، خطباء ، ذاکرین  اورعزادار  ہیں ۔  عزاداری کی  اس موجودہ صورت حال کا قصور وار  ایک طبقہ یا ایک گروہ نہیں ،ہر طبقے کا کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرور ہے۔ اس لئے  ان  سب کو اپنے رویوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

        بانیان کی ذمہ داری  :  خطیب کے انتخاب میں معیار  سیاسی، گروہی اور ذاتی مفادات نہ ہو   بلکہ امام ؑ کی تحریک کے مقاصد سے مکمل آشنا  اور اس  پر ایمان  اور اس راہ میں فداکاری کا جذبہ رکھنا   خطیب کے انتخاب کا معیار ہو۔‘‘

بانیان  کو چاہئے کہ وہ مجلس  کی  کامیابی  کا  میزان مجلس میں      نعرہ   لگنے  ، داد  دینے  اور واہ واہ کہنے  کو قرار نہ دیں ،بلکہ اس پر ایمان رکھیں کہ  اہل بیتؑ  کی پسند کی مجلس  وہی ہے جس  میں ان  کے فضائل کے ساتھ  ان کی سیرت اور تعلیمات  کا بیان بھی ہو   اور  مجلس سے  لوگ دین شناس  ہو  کر اور   دینداری کا  جذبہ لے کر اٹھیں   ۔    

عزاداروں کی ذمہ داری  : ’’ عزاداروں کی ذمہ داری  ’’حسینی تحریک سے آشنائی‘‘ اس   کا فروغ  اور زیادہ سے زیادہ  لوگوں کو امام حسین ؑ کے مقاصد سے روشناس کرانا  ہے۔  ‘‘   ’’عزادار وں   کو چاہے کہ خطیبوں اور ذاکرین سے  یہ توقع رکھیں کہ  وہ   امام حسین ؑ کی تحریک کے اہداف پر روشنی ڈال کر موجودہ  دور میں خاص کر نوجوان نسل کو حسینی کردار اپنانے   کے طور طریقوں  سے آگاہ کریں ‘‘  اور اس  بات پر  توجہ  دیں  کہ  اہل بیت ؑ نے سارے  مظالم  دین کی حفاظت کی راہ   میں جد وجہد کے نتیجے میں سہے ہیں ۔ لہذا  حسینی ممبر  سے آئمہ اہل بیت ؑ کی سیرت، تعلیمات اور دینی  دستورات سننے کو بعض جذباتی  اور احساساتی  باتوں کے سننے  پر ترجیح  دیں اور  خطیب سے  یہ توقع  رکھیں  کہ وہ  دین  کے احکام اور تعلیمات سے  انہیں روشناس کرائے۔     

ذاکرین اور  خطباء کی ذمہ داری  :

“ انہیں  چاہے کہ وہ عزاداروں کے سامنے  امام حسین ؑ کی تحریک  کے مقاصد  و محرکات پر روشنی  ڈالیں۔ امام کے مقصد  و مشن سے لوگوں کو آگاہ کریں،نوجوان نسل کے ذہنوں میں موجود شکوک و شبہات کو حل کریں  ۔  ایسی   احادیث کو بیان کرنے سے اجتناب کریں  جو ہمارے اصول عقائد  اور مبانی فقہی کی کسوٹی پر پوری نہ اترتی ہوں ۔عزاداروں کے سامنے  اس انحراف کو عیان کیا جاے  جس کی بنیاد  رسول مقبولصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے بعد پڑی  اور جس کے نتائج یزید جیسے فاسق و فاجر کی تخت نشینی کی صورت میں سامنے آئے .

 عصر حاضر میں حسینی تحریک سے استفادہ کے لئے   ، اسلام  کے اجتماعی و سیاسی پہلوں کی وضاحت ،اسلامی اخلاق کا احیاء، معاشرے میں موجود خرابیوں کی نشاندہی، تحریفات سے مقابلہ  اور مسلمانوں کی یک جہتی جیسے موضوعات کو عزاداری  کی  مجالس اور اجتماعات  میں زیر بحث لائیں  ۔

امام کی تحریک کے اہداف کے پیش نظر  ہماری مجالس ،ہمارے نوحے اور مرثیے ایسے مضامین پر مشتمل ہوں جو لوگوں میں ان مقاصد کا شعور پیدا کریں ، ان مقاصد کی اہمیت لوگوں کے اذہان میں بٹھائیں،  ان اہداف  سے انہیں وابستہ کریں  اور انہیں ان کے حصول کے لئے متحرک کریں۔‘‘

 لہذا خاص کر اہل ممبر کی ذمہ داری ہے کہ وہ  اہل بیت ؑ  کے فضائل  بیان کرنے کے ذریعے  اپنے سامعین  کے اندر   ان کی سیرت اور تعلیمات پر عمل کا جذبہ  پیدا کریں  ۔  ایسا نہ ہو کہ اہل بیت ؑ کے فضائل کا تذکرہ صرف  داد لینے کے  لئے ہو   اور   ان فضائل کو بیان کر کے  لوگوں کے سامنے ایسے معیارات رکھنے سے اجتناب کیا جائے  جن کی وجہ  سے  لوگ  دینی دستورات   اور  ان کی رعایت کو  عزاداری میں ہی خلاصہ کرے    اور اہل بیت ؑ سے وابستگی اور ان کے شیعہ ہونے کو   ماتم  داری میں  ہی منحصر  سمجھ بیٹھیں   ۔

   ذاکرین  اور  خطباء حضرات کو چاہئے کہ وہ  جناب میثم تمار ، جناب  قمبر ،جناب  کمیل  اور جناب  کمیت اسدی  جیسے لوگوں کو  اپنا آیڈیل بنائیں کہ جنہوں نے  اہل بیت ؑ کے تذکرے اور ان کے فضائل بیان کرنے کو نہ صرف   اپنا  ذریعہ معاش نہیں بنایا بلکہ   اہل بیت ؑ سے دفاع کی  راہ میں  اپنا سب کچھ   قربان  کر  دیا  ۔

      بعمومی طور پر اجتماعات  اور  ان میں شریک لوگوں کے بارے میں بعض معروضات۔

 “ عزاداری کے رسوم اور اجتماعات میں شرعی اصول اور  دینی اقدار  پیش نظر ہوں ، دین کو کمزور کرنے والا ، مسلمانوں میں انتشار پھلانے  اور ہمارے مذہب  کو تماشا بنانے  والا کوئی عمل انجام نہ دیا جاے ، عزاداری میں ہر وہ چیز ممنوع  ہے جو مذہب کی کمزوری ،مکتب کی ہتک حرمت کا موجب ہوں اور جس سے عزاداری کے منانے کا مقصد فوت ہوتا ہو۔ 

عزاداری کے دوران  شرعی اصولوں کی پابندی  کا سنجیدہ اہتمام ہونا چاہے ،عزاداری  کی رسوم اوراجتماعات  سے رنج و الم اور سوگواری ظاہر ہو،  لوگ دیکھ کر ایسا محسوس کریں کہ یہ اپنی کسی عزیز ترین ہستی کے غم میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ جلوس عزا کے دوران ہر قسم کے غیر شرعی  اور غیر مہذب اعمال سے اجتناب کیا جانا چاہے  اور   ایسے اعمال انجام دیں جنہیں  دیکھ کر لوگ امام حسین سے محبت  اور ان کے مکتب سے لگاو  پیدا کریں ۔‘‘

لہذا دین کی راہ میں خاندان نبوت کی اس  عظیم قربانی کی  یاد  منانے کا صحیح طریقہ دین کی تبلیغ اور دینی دستورات کی رعایت  ہے ۔ اس بنا پر         حسینی خطیب یا ذاکر   وہی  ہے جو دینداری اور  دین کی طرف دعوت کو  زیادہ اہمیت دے  ۔ حقیقی   عزا دار وہی  ہے جو دینی  امور   سے آشنائی اور ان کی پابندی کا شوق رکھے۔ حسینی  مجلس وہی ہے جس  سے اس میں   شریک لوگ  دین شناس ہوکر   اور   دین  پر عمل اور دین کی راہ میں قربانی کا جذبہ لے کر  اٹھیں   کیونکہ حسینیت اور دینداری قابل جدا ئی   اور انفکاک  نہیں ہے ،  یہ ایک سکے کے دو رخ ہے    ۔ 

حوالہ جات  : عزاداری اور تبلیغ /عزاداری کے اصول و آداب / خطباء و شعراء  /عزداری امام حسینؑ چند معروضات/

نوٹ :یہ مقالہ  شہید  سعید حیدر زیدی  کے  عزاداری کے موضوعات پر  مختلف  مقالات سے  جمع کو سامنے رکھ کر تیار کیا ہے ۔  


[1]۔ قرآن  مجید  نے دین کی راہ میں جناب  ابراہیم  ؑکے خاندان کی عظیم قربانی   کی یاد کو    شعائر الٰہی  کے طور پر بیان کیا ہے ۔اس بنا پر    دین کی راہ  میں خاندان پیغمبر ﷺ کی عظیم قربانی   بھی شعائر الٰہی میں سے ہے ۔

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی