2024 March 19
جناب عائشه اور رضاع کبیر جائز ہونے کا فتوا +سند
مندرجات: ١٩٣٤ تاریخ اشاعت: ١٩ January ٢٠٢٣ - ٠٩:٣٦ مشاہدات: 6554
یاداشتیں » پبلک
جناب عائشه اور رضاع کبیر جائز ہونے کا فتوا +سند

{کسی عورت کا کسی نامحرم مرد کو دودھ پلانے سے محرمیت ثابت ہوتی ہے}

{جناب عائشہ کا 40 سال تک فتوا }

رضاع اور رضاع کبیر کی وضاحت

اس فتوے کی اسناد

کچھ اعتراضات :

اھل سنت کے بعض علماء کی توجیہات :

اھل سنت کے علماء کی طرف سے جناب عائشہ کی شان میں گستاخی:

اھل سنت کے علماء کا نظریہ

حرف آخر ۔

  

رضاع اور رضاع کبیر کی وضاحت

رِضاعی مَحرم، وہ رشتہ دار ہیں جو دودھ پلانے کى وجہ سے ایک دوسرے کے مَحْرَم بنتے ہیں اور اسى کى بنا پر ان کے درمیان بعض خاص احکام جارى ہوتے ہیں؛ جیسے شادى کا حرام ہونا۔۔

فقہى اصطلاح میں کسى اور عورت کا دودھ پینے والے بچے کو «مرتضع»، اور دودھ پلانے والى عورت کو «مرضعہ» اور دودھ پلانے والى عورت جس مرد سے حاملہ ہوئى ہے اس مرد کو «فحل» یا «صاحب لبن» (دودھ کا صاحب) کہا جاتا ہے۔

رضاع کی دو قسمیں ہیں :  

رضاع صغیر : ایک بچہ ماں کے علاوہ کسی عورت کا دودھ پیے تو یہ بچہ اس عورت کا رضائی بچہ ہوگا

اور یہ شیعہ اھل سنت دونوں کے ہاں جائز ہے ۔

رضاع کبیر :  رضاع کبیر کا مطلب یہ ہے کہ کوئى مرد کسى نامحرم عورت کا دودھ پى لے۔  

اھل سنت کی کتابوں میں موجود روایات کے مطابق جناب عائشہ اس کو جائز سمجھتی تھی اور اپنے اس فتوا کے لئے قرآن اور سنت سے سند بھی پیش کرتی تھی ۔ جناب عائشہ کے اس فتوے کے مطابق  عورت کسی جوان اور بڑے شخص کو  دودھ پلاسکتی ہے اور اس طرح دودھ پلانے سے وہ اس کے بیٹے کی طرح محرم ہوگا اور پھر اس کے لئے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس فتوے پر جناب عائشہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد 40 سال تک عمل کرتی رہی ۔

 اس فتوے کی اسناد

جناب عایشه  نے رضاع کبیر کے لئے  قرآن کریم  سے سند پیش کی ؛

1944 - حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «لَقَدْ نَزَلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ، وَرَضَاعَةُ الْكَبِيرِ عَشْرًا، وَلَقَدْ كَانَ فِي صَحِيفَةٍ تَحْتَ سَرِيرِي، فَلَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَشَاغَلْنَا بِمَوْتِهِ، دَخَلَ دَاجِنٌ فَأَكَلَهَا»

جناب عايشه کہتی ہیں کہ رجم کی آیت اور بڑی عمر کے آدمی کو دس بار دودھ پلا دینے کی آیت اتری، اور یہ دونوں آیتیں ایک کاغذ پہ لکھی ہوئی میرے تخت کے نیچے تھیں، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اور ہم آپ کی وفات میں مشغول تھے ایک بکری آئی اور وہ کاغذ کھا گئی۔

سنن ابن ماجه ج1 ص625 المؤلف: ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني، وماجة اسم أبيه يزيد (المتوفى: 273هـ)، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، الناشر: دار إحياء الكتب العربية - فيصل عيسى البابي الحلبي ،عدد الأجزاء: 2

 

جناب عائشہ حدیث سے استدلال کرتی ہیں ۔

26 - (1453) حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أَرَى فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ مِنْ دُخُولِ سَالِمٍ وَهُوَ حَلِيفُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرْضِعِيهِ»، قَالَتْ: وَكَيْفَ أُرْضِعُهُ؟ وَهُوَ رَجُلٌ كَبِيرٌ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: «قَدْ عَلِمْتُ أَنَّهُ رَجُلٌ كَبِيرٌ»، زَادَ عَمْرٌو فِي حَدِيثِهِ: وَكَانَ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ أَبِي عُمَرَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

جناب عائشہ سے روایت ہے کہ سہلہ بنت سہیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں ابوحذیفہ کے چہرے میں کچھ خفگی پاتی ہوں جب سالم میرے گھر آتا ہے اور وہ ان کا حلیف ہے تو آپ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تم سالم کو دودھ پلا دو۔“ انہوں نے کہا میں اسے دودھ کیوں کر پلاؤں؟ اور وہ جوان مرد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم مسکراۓ اور آپ  نے فرمایا: ”کہ میں جانتا ہوں کہ وہ جوان مرد ہے ۔

 صحيح مسلم ج2 ص1076 المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري (المتوفى: 261هـ)، المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، عدد الأجزاء:5

سنن ابن ماجه ج 1 ص625 المؤلف: ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني، وماجة اسم أبيه يزيد (المتوفى: 273هـ)، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، الناشر: دار إحياء الكتب العربية - فيصل عيسى البابي الحلبي،عدد الأجزاء: 2

 

 

 30 - (1453) وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، وَهَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ، - وَاللَّفْظُ لِهَارُونَ -، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ نَافِعٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، تَقُولُ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ لِعَائِشَةَ: وَاللهِ مَا تَطِيبُ نَفْسِي أَنْ يَرَانِي الْغُلَامُ قَدِ اسْتَغْنَى عَنِ الرَّضَاعَةِ، فَقَالَتْ: لِمَ، قَدْ جَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، وَاللهِ إِنِّي لَأَرَى فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ مِنْ دُخُولِ سَالِمٍ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرْضِعِيهِ»، فَقَالَتْ: إِنَّهُ ذُو لِحْيَةٍ فَقَالَ: «أَرْضِعِيهِ يَذْهَبْ مَا فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ»، فَقَالَتْ: وَاللهِ مَا عَرَفْتُهُ فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ۔

ازواج ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے جناب ام سلمہ ، جناب عائشہ سے کہتی تھیں کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ کوئی ایسا جوان مجھے دیکھے کہ جو دودھ پینے سے بےنیاز ہو ۔تو جناب عائشہ نے کہا : کیوں؟ جبکہ سہلہ بنت سہیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں ابوحذیفہ کے چہرے میں کچھ خفگی پاتی ہوں جب سالم میرے گھر آتا ہے اور وہ ان کا حلیف ہے تو آپ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تم سالم کو دودھ پلا دو۔“ انہوں نے کہا میں اسے دودھ کیوں کر پلاؤں، اس کی دھاڑی بھی نکلی ہوئی ہے:۔ آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے دودھ پلاو ،ابوحذیفہ کے چہرے سے خفگی دور ہوجائے گی۔ پھر سھلہ کہتی ہے : اللہ کی قسم میں نے پھر اس کے چہرے پر خفگی نہیں دیکھی۔

  صحيح مسلم ج2 ص1077 المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري (المتوفى: 261هـ)، المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، عدد الأجزاء: 5 

....فَبِذَلِكَ كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَأْمُرُ بَنَاتِ أَخَوَاتِهَا وَبَنَاتِ إِخْوَتِهَا أَنْ يُرْضِعْنَ مَنْ أَحَبَّتْ عَائِشَةُ أَنْ يَرَاهَا وَيَدْخُلَ عَلَيْهَا، وَإِنْ كَانَ كَبِيرًا خَمْسَ رَضَعَاتٍ، ثُمَّ يَدْخُلُ عَلَيْهَا...

جناب عائشه اپنی بہنوں اور بھائیوں کی بیٹیوں کو یہ حکم دیتی تھی کہ جن مردوں  کو وہ خود{جناب عائشہ} دیکھنا چاہتی ہے یا جو  ان کے پاس آنا جانا چاہتے ہیں، انہیں دودھ پلائے، اگر بڑے ہو تو پانچ مرتبہ دودھ پلائے اور پھر وہ ان کے پاس جائے  ۔

سنن أبي داود - ج2 ص223 المؤلف: أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السَِّجِسْتاني (المتوفى: 275هـ)، المحقق: محمد محيي الدين عبد الحميد، الناشر: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت، عدد الأجزاء: 4 

  32 - (1455) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدِي رَجُلٌ قَاعِدٌ، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ وَرَأَيْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، قَالَتْ: فَقَالَ: «انْظُرْنَ إِخْوَتَكُنَّ مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَإِنَّمَا الرَّضَاعَةُ مِنَ الْمَجَاعَةِ»،

جناب عايشه کہتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم میرے پاس آئے اور میرے نزدیک ایک شخص تھا تو آپ  کو ناگوار ہوا اور آپ کے چہرے پر میں نے غصہ دیکھا اور میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ میرا دودھ شریک بھائی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ذرا غور کیا کرو دودھ کے بھائیوں میں اس لیے کہ دودھ پینا وہی معتبر ہے جو بھوک کے وقت میں ہو ۔۔۔

صحيح مسلم ج2 ص1078 المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري (المتوفى: 261هـ)، المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، عدد الأجزاء:5

صحيح البخاري ج3 ص170 و ج7 ص10 المؤلف: محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، المحقق: محمد زهير بن ناصر الناصر، الناشر: دار طوق النجاة (مصورة عن السلطانية بإضافة ترقيم ترقيم محمد فؤاد عبد الباقي)، الطبعة: الأولى، 1422هـ، عدد الأجزاء: 9

سنن أبي داود - ج2 ص222 المؤلف: أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السَِّجِسْتاني (المتوفى: 275هـ)، المحقق: محمد محيي الدين عبد الحميد، الناشر: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت، عدد الأجزاء: 4

سنن ابن ماجه ج1 ص626 المؤلف: ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني، وماجة اسم أبيه يزيد (المتوفى: 273هـ)، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، الناشر: دار إحياء الكتب العربية - فيصل عيسى البابي الحلبي ،عدد الأجزاء: 2

السنن الصغرى للنسائي ج6 ص102 المؤلف: أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب بن علي الخراساني، النسائي (المتوفى: 303هـ)، تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة، الناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب الطبعة: الثانية، 1406 - 1986،عدد الأجزاء: 9 (8 ومجلد للفهارس)

 

 
 
 
 

جناب ام سلمه کا جناب عایشه کے فتوے سے نارضگی کا اظہار ۔

31 - (1454) حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَمْعَةَ، أَنَّ أُمَّهُ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، أَخْبَرَتْهُ أَنَّ أُمَّهَا أُمَّ سَلَمَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَتْ تَقُولُ: " أَبَى سَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُدْخِلْنَ عَلَيْهِنَّ أَحَدًا بِتِلْكَ الرَّضَاعَةِ، وَقُلْنَ لِعَائِشَةَ: وَاللهِ مَا نَرَى هَذَا إِلَّا رُخْصَةً أَرْخَصَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسَالِمٍ خَاصَّةً، فَمَا هُوَ بِدَاخِلٍ عَلَيْنَا أَحَدٌ بِهَذِهِ الرَّضَاعَةِ، وَلَا رَائِينَا "

زینب بنت ابی سلمة کہتی ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کی بیوی جناب  ام سلمہ فرماتی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی تمام بیبیوں کو یہ منظور نہیں تھا کہ کوئی اس طرح کا دودھ پی کر ان کے گھر میں آئے  اور ازواج، جناب عائشہ سے سے کہتی تھیں کہ ہم تو یہی جانتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف سالم کے لیے اس کی اجازت دی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم ہمارے سامنے ایسا دودھ پلا کر کسی کو نہیں لائے اور نہ ہم کو کسی کے سامنے کیا۔

صحيح مسلم ج2 ص1078 المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري (المتوفى: 261هـ)، المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، عدد الأجزاء:5

  

 29 - (1453) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ، لِعَائِشَةَ، إِنَّهُ يَدْخُلُ عَلَيْكِ الْغُلَامُ الْأَيْفَعُ، الَّذِي مَا أُحِبُّ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيَّ، قَالَ: فَقَالَتْ عَائِشَةُ: أَمَا لَكِ فِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسْوَةٌ؟ قَالَتْ: إِنَّ امْرَأَةَ أَبِي حُذَيْفَةَ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ سَالِمًا يَدْخُلُ عَلَيَّ وَهُوَ رَجُلٌ، وَفِي نَفْسِ أَبِي حُذَيْفَةَ مِنْهُ شَيْءٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرْضِعِيهِ حَتَّى يَدْخُلَ عَلَيْكِ»

 جناب ام سلمہ، جناب عائشہ سے کہتی تھی کہ آپ کے پاس غلام ایفع {یعنی نوجوان لڑکا} آتا ہے، مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ اس طرح کوئی میرے پاس آئے۔ تو تو جناب عائشہ  نے جواب دیا کہ کیا آپ  کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی پیروی اچھی نہیں لگتی؟ حالانکہ ابوحذیفہ کی بیوی نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! سالم میرے پاس آتا ہے اور وہ جوان مرد ہے، ابوحذیفہ کے دل میں اس کے آنے سے کراہت ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ ّلہ وسلم نے فرمایا: کہ تم اس کو دودھ پلا دو کہ وہ تمہارے پاس آیا کرے۔

صحيح مسلم ج2 ص1078 المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري (المتوفى: 261هـ)، المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، عدد الأجزاء:5

 

کچھ اعتراضات :

 عجیب بات ہے کہ جناب عائشہ کی ان دو دلیلوں کو  دوسری ازواج قبول نہیں کرتی تھیں ۔

اب اس پر کئی اعتراضات ہوئے ہیں، ان اعتراضات میں سے بعض درج ذیل ہیں ؛

ü      اگر سالم «سهلة» کے ساتھ نامحرم ہو تو کیسے اس کا دودھ پی سکتا ہے ؟

ü      أبو حذيفة ،سالم کا اس کی بیوی کی طرف نگاہ کرنے سے تو ناراض ہوتا ہے، لیکن وہ پھر اس کی بیوی کے پستان کو چوسنے اور ان کے دودھ پینے سے ناراض نہیں ہوتا!!!

ü      کیا یہ بات قابل قبول ہے کہ کسی عورت کی طرف نگاہ کرنا حرام ہو لیکن اس کی پستان کو چوسنا حرام نہ ہو ؟ کیا یہ مزاق نہیں ہے ؟!

 

اھل سنت کے بعض علماء کی توجیہات :

بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ سھلہ نے کسی برتن میں دودھ نکال کر پلائی ہو ، لہذا مذکورہ اعتراض وارد نہیں ہوگا !!!

 لیکن ان لوگوں نے اس پر توجہ نہیں دی ہے کہ سھلہ تو دودھ دینے کو اچھا محسوس نہیں کرتی تھی اور ان کا مقصد وہی پستان سے پلانا ہی تھا ۔

 اس کے علاوہ «رضاع» اصطلاح میں پستان چوسنے کو کہا جاتا ہے ، رضاع وہاں کہا جاتا ہے جہاں بچہ پستان سے دودھ پیے، کسی برتن اور ظرف میں دودھ ڈال کر پلانے کو رضاع نہیں کہا جاتا۔

  «رضاع كبير» پر جس  آیت سے استدلال ہوا ہے اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ آیت نسخ حکم اور نسخ تلاوت ہوئی ہے !

جواب :

اولا : خود جناب عايشه کے بقول یہ آیت حضرت رسول خدا(صلی الله علیه وآله) کی وفات تک بستر اور تکیہ کےنیچے پڑی تھی، اب کیا آپ کی وفات کے بعد جبرئیل امین نازل ہوئے ہیں اور اس آیت کو نسخ کیا ہے ۔

 ثانيا :  کیسے ممکن ہے کہ قرآن کا ایک حکم آیا ہو اور صرف جناب عائشہ کو اس حکم کا علم ہوا ہو  اور پھر بعد میں حکم نسخ ہوا ہو لیکن کسی کو پتہ نہ چلا ہو ، یہاں تک کہ بعد میں اھل سنت کے علماء کو اس کا علم ہو اور اس کو جناب عائشہ کی باتوں کی توجیہ کے طور پر بیان کرئے ؟

ثالثا :  خود جناب عائشہ مدعی ہے کہ وہ آیت اللہ کے ایک حکم پر مشتمل تھی اور  وہ بکری کھا گئی اور نسخ نہیں ہوئی ہے  ،اب اگر بکری نہ کھاتی تو کیا یہ حکم باقی رہتا ۔ اور نص قرآن کے مطابق عورت نامحرم بڑے مرد کو دودھ پالاتی اور اس کو اپنا بیٹا بناتی ؟ 

 روایات میں رضاع کی شرائط ۔۔

اب اھل سنت کے اس گروہ اور وھابیوں کے جواب میں کہتے ہیں:

جو چیز محرمیت کا سبب بنتی ہے وہ "رضاع" ہے نه "شرب" رضاع یعنی دودھ مستقیم طور پر سینہ اور پستان سے پینا۔

لہذا غیر مستقیم دودھ پینے سے مثلا کسی برتن میں ڈال کر دودھ پینے سے کوئی کسی کا محرم نہیں بنتا اور "رضاع" ثابت نہیں ہوتا . رضاع اس معنی میں ہے کہ کوئی بچہ ان شرائط کے ساتھ جن کو فقہاء نے بیان کیا ہے،مستقیم طور پر کسی عورت کے سینے سے دودھ پیے ۔

-1946 حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا رَضَاعَ إِلَّا مَا فَتَقَ الْأَمْعَاءَ۔۔۔۔۔۔۔

عبداللہ بن زبیر ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے نقل کرتا ہے کہ ”رضاعت معتبر نہیں ہے مگر وہ جو آنتوں کو پھاڑ دے{یعنی بچہ سیر ہو کر پیے اور  کسی اور غذا کی ضرورت نہ ہو ۔

سنن ابن ماجه ج1 ص626 المؤلف: ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني، وماجة اسم أبيه يزيد (المتوفى: 273هـ)، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي ، الناشر: دار إحياء الكتب العربية - فيصل عيسى البابي الحلبي، عدد الأجزاء: 2

  

 اس سے بھی واضح تر حدیث یہ ہے :

1152 -حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ المُنْذِرِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُحَرِّمُ مِنَ الرِّضَاعَةِ إِلَّا مَا فَتَقَ الأَمْعَاءَ فِي الثَّدْيِ، وَكَانَ قَبْلَ الفِطَامِ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  ام المؤمنین ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رضاعت سے حرمت اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب وہ انتڑیوں کو پھاڑ دے  اور دوھ بھی پستان سے پیے اور یہ دودھ چھڑانے سے پہلے ہو ۔۔

: امام ترمذی کہتے ہیں:

۱یہ حدیث حسن صحیح ہے،

سنن الترمذي ج3 ص450 المؤلف: محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، الترمذي، أبو عيسى (المتوفى: 279هـ)، وإبراهيم عطوة عوض المدرس في الأزهر الشريف (جـ 4، 5)، الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر،الطبعة: الثانية، 1395 هـ - 1975 م،عدد الأجزاء: 5 أجزاء

   

جیساکہ ابن حزم س سلسلے میں لکھتا ہے :

ولا يسمى إرضاعا إلا ما وضعته المرأة المرضعة من ثديها في الرضيع يقال أرضعته ترضعه إرضاعا ...

لأنه ليس برضاع إنما الرضاع ما مص من الثدي هذا نص قول الليث وهذا قولنا وهو قول أبي سليمان وأصحابنا.

رضاع اور ارضاع ، اس صورت میں ثابت ہوگا کہ جب ایک عورت مستقیم  اپنے پستان کو بچے یا مرد کے منہ میں رکھے ۔ لہذا رضاع کہنا اس صورت میں صحیح ہے کہ جب بچہ یا مرد سینے سے ہی دودھ پیے  اور یہ لیث بن سعید کا فتوا ہے  اور ہمارا اور ابی سلیمان اور ہمارے سارے فقہاء کا نظریہ ہے ۔

ابن حزم اندلسی ، المحلی ، ج 10 ، ص 7

  اھل سنت کے علماء کی طرف سے جناب عائشہ کی شان میں گستاخی:

 اب جب یہ باتیں جناب عائشہ سے نقل ہوئی تو اھل سنت کے بعض علماء نے جناب عایشہ کی شان میں توھین کی ہیں ،مثلا ڈاکٹر موسي شاھین جو وھابی رائٹر ہے، اس نے صحيح مسلم کی اپنی شرح ،بنام "فتح المنعم شرح صحيح مسلم " میں جناب عایشہ کی شان میں توھین کرتے ہوئے لکھا ہے :

و کانت عائشه ـ رضي الله عنها ـ ترى أن إرضاع الکبير يحرمه، و أرضعت غلاما فعلا، و کان يدخل عليها، و أنکر بقية أمهات المؤمنين ذلک.

جناب عائشه کا نظریہ یہ تھا کہ  رضاع كبير محرمیت کا سبب ہے ،انہوں نے خود بھی کسی جوان کو دودھ پلائی ہے اور وہ جوان ان کے پاس آیا ہے ۔لیکن دوسری ازواج نے اس کا انکر کیا ہے .

شاهين لاشين، دکتر موسي ، کتاب فتح المنعم شرح صحيح مسلم ج۵ ص۶۲۲.

  

 محمد الطاهر بن عاشور، متوفاى ۱۲۸۴ هـ کہ جو اھل سنت کے ایک مشھور  مفسر ہے ،اس نے اپنی كتاب " تفسیر التحریر و التنویر"  میں واضح طور پر کہتا ہے : کہ وہ خود مردوں کو دودھ پلاتی تھی۔۔۔

 وَكَانَتْ عَائِشَةُ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا أَرَادَتْ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْهَا أَحَدٌ الْحِجَابَ أَرْضَعَتْهُ، تَأَوَّلَتْ ذَلِكَ مِنْ إِذْنِ النَّبِيءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسَهْلَةَ زَوْجِ أَبِي حُذَيْفَةَ ، وَهُوَ رَأْيٌ لَمْ يُوَافِقْهَا عَلَيْهِ أُمَّهَاتُ الْمُؤْمِنِينَ، وَأَبَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ أَحَدٌ عَلَيْهِنَّ بِذَلِكَ، وَقَالَ بِهِ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، بِإِعْمَالِ رَضَاعِ الْكَبِيرِ. وَقَدْ رَجَعَ عَنْهُ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ بَعْدَ أَنْ أَفْتَى بِهِ.۔۔۔۔

ام المؤمنین عایشه، جب بھی کوئی شخص ان کے پاس آتا تو اسے دودھ پلاتی اور ان کی دلیل یہ تھی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوحذیفہ کی بیوی ،سھلہ کو اس چیز کی اجازت دی ہے،  لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے باقی ازواج اس کو قبول نہیں کرتی تھیں اور کسی کو اس طرح دودھ پی کر اپنے پاس آنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں. لیث بن سعد بھی رضاع كبیر کے نظریے کو مانتا تھا ؛ ابوموسى اشعرى نے پہلے ایسا فتوا دیا لیکن بعد میں رجوع کیا ۔

التحرير والتنوير - ج4 ص297 المؤلف : محمد الطاهر بن محمد بن محمد الطاهر بن عاشور التونسي (المتوفى : 1393هـ) ، الناشر : الدار التونسية للنشر - تونس ، سنة النشر: 1984 هـ ،عدد الأجزاء : 30

  

  اب ممکن ہے کوئی یہ سوال کرئے کہ جناب عائشہ کیسی دودھ پلاتی تھی جبکہ اس وقت ان کا شوھر بھی نہیں تھا اور وہ کبھی صاحب فرزند بھی نہیں ہوئی ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے : اهل سنت کے علماء نے واضح طور پر کہا ہے کہ دودھ پلانے کے لئے بچہ جننا ضروری نہیں ہے ؛ بلکہ اتنا کافی ہے کہ لڑکی حیض ہونے کی عمر کو پہنچے ،یہاں تک کہ باکرہ عورتیں بھی دودھ پلاسکتی ہیں اور اگر پلائے تو محرمیت بھی ثابت ہوجائے گی ۔

انصارى شافعى نے كتاب أسنى المطالب میں لکھا ہے :

(وَهِيَ ثَلَاثَةٌ الْأَوَّلُ الْمُرْضِعُ فَيُشْتَرَطُ كَوْنُهَا امْرَأَةً حَيَّةً بَلَغَتْ سِنَّ الْحَيْضِ ، وَإِنْ لَمْ تَلِدْ) وَلَمْ يُحْكَمْ بِبُلُوغِهَا سَوَاءٌ أَكَانَتْ مُزَوَّجَةً أَمْ بِكْرًا أَمْ غَيْرَهُمَا... .

رضاع کے تین رکن ہیں : اول: دودھ دینے والی عورت کا زندہ ہونا ضروری ہے اور وہ حیض کی عمر کو پہنچی ہو ،بچہ جننا ضروری نہیں ہے اور بالغ ہونا بھی ضروری نہیں ہے،اس میں بھی فرق نہیں ہے کہ لڑکی شادی شدہ ہو یا شادی شدہ نہ ہو ۔

أسنى المطالب في شرح روض الطالب ج3 ص415 المؤلف: زكريا بن محمد بن زكريا الأنصاري، زين الدين أبو يحيى السنيكي (المتوفى: 926هـ)، عدد الأجزاء: 4 ، الناشر: دار الكتاب الإسلامي 

 

 بجيرمى نے بھی منهج الطلاب کے حاشیے میں یہی بات نقل کی ہے :

(أَرْكَانُهُ) ثَلَاثَةٌ (رَضِيعٌ، وَلَبَنٌ، وَمُرْضِعٌ، وَشُرِطَ فِيهِ كَوْنُهُ آدَمِيَّةً حَيَّةً) حَيَاةً مُسْتَقِرَّةً (بَلَغَتْ) وَلَوْ بِكْرًا (سِنَّ حَيْضٍ) أَيْ: تِسْعَ سِنِينَ قَمَرِيَّةً تَقْرِيبِيَّةً

رضاع کے لئے تین رکن ہیں : دودھ پینے والا ، دودھ ، اور دودھ پلانے والا ۔، دودھ پلانے والی عورت کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ انسان ہو ، زندہ ہو اور بالغ ہوئی ہو یہاں تک کہ باکرہ بھی ہو اور حیض کی عمر کو پہنچی ہو ۔ یعنی تقربا قمری ۹ سال مکمل ہوئی ہو ۔

 حاشية البجيرمي على شرح المنهج ج4 ص97 المؤلف: سليمان بن محمد بن عمر البُجَيْرَمِيّ المصري الشافعي (المتوفى: 1221هـ)، الناشر: مطبعة الحلبي، الطبعة: بدون طبعة،تاريخ النشر: 1369هـ - 1950م، عدد الأجزاء:4

  

   بغوى نے السنة کی شرح  میں لکھا ہے :

وَإِذا نزل للبكر لبن، فأرضعت بِهِ صَبيا، تثبت الْحُرْمَة إِذا كَانَت فِي سنّ يحْتَمل فِيهَا الْبلُوغ، وَهِي تسع سِنِين

اگر کسی باکرہ عورت سے دودھ نکلے اور وہ  کسی بچے کو دودھ پلائے تو محرمیت ثبت ہوگی ،لیکن شرط یہ ہے بلوغ کی عمر میں ہو اور ۹ سال کا ہو ۔

شرح السنة ج9 ص79 المؤلف: محيي السنة، أبو محمد الحسين بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوي الشافعي (المتوفى: 516هـ)، تحقيق: شعيب الأرنؤوط-محمد زهير الشاويش ، الناشر: المكتب الإسلامي - دمشق، بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ - 1983م، عدد الأجزاء: 15

  


 اھل سنت کے علماء کیا کہتے ہیں ۔

اھل سنت کا ایک بڑا عالم عظیم آبادی اس سلسلے لکھتا ہے :

والحديث قد استدل به من قال إن إرضاع الكبير يثبت به التحريم وهو مذهب عائشة وعروة بن الزبير وعطاء بن أبي رباح والليث بن سعد وبن علية وبن حزم

جن علماء نے رضاع کبیر کے ذریعے محرمیت ثابت ہونے کا فتوا دیا ہے انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے  اور یہ جناب عائشہ ، عروه بن زبیر ، عطاء بن ابی رباح ( کہ جو اھل سنت کےبڑے علماء میں سے ہیں ) ، لیث بن سعد و بن علیه  اور  ابن حزم وغیرہ کا نظریہ ہے .

عظیم آبادی ، عون المعبود ، ج 6 ، ص 46۔۔   محمد أشرف بن أمير ۔۔۔ الصديقي، العظيم آبادي (المتوفى: 1329هـ) الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت

الطبعة: الثانية، 1415 هـ ، عدد الأجزاء: 14

 

عظیم آبادی اس بات کی طرح اشارہ کرتا ہے کہ رضاع کبیر اور رضاع صغیر کے باب میں موجود احادیث کے درمیان اس طرح جمع کیا گیا ہے کہ رضاع کبیر کو صرف ضرورت کے ساتھ مختص کیا جائے یعنی یہ حکم صرف وہاں ہے جہاں کسی لئے محرم ہونا ضروری ہو ۔

اسی مطلب کو بیان کرنے کے بعد عظیم آبادی کہتا ہے کہ ابن تیمیہ اور شوکانی کا نظریہ بھی یہی ہے ۔

وقد جمع بين حديث الباب وبين هذه الأحاديث بأن الرضاع يعتبر فيه الصغر إلا فيما دعت إليه الحاجة كرضاع الكبير الذي لا يستغني عن دخوله على المرأة ويشق احتجابها منه ويجعل حديث الباب مخصصا لعموم هذه الأحاديث وإليه ذهب شيخ الإسلام بن تيمية

وقال الشوكاني وهذا هو الراجح عندي وقال هذه طريقة متوسطة بين طريقة من استدل بهذه الأحاديث على أنه لا حكم لرضاع الكبير مطلقا وبين من جعل رضاع الكبير كرضاع الصغير مطلقا لما لا يخلو عنه كل واحدة من هاتين الطريقتين من التعسف انتهى ۔۔۔۔

عظیم آبادی ، عون المعبود ، ج 6 ، ص 47
حرف آخر

ایک شاذ روایت کی تحقیق :

 2386 -حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دِينَارٍ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ أَوْسٍ الْعَبْدِيُّ [ص:312]، عَنْ مِصْدَعٍ أَبِي يَحْيَى، عَنْ عَائِشَةَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُقَبِّلُهَا وَهُوَ صَائِمٌ، وَيَمُصُّ لِسَانَهَا»، قَالَ ابْنُ الْأَعْرَابِيِّ: «هَذَا الْإِسْنَادُ لَيْسَ بِصَحِيحٍ»

ام المؤمنین عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزے کی حالت میں ان کا بوسہ لیتے اور ان کی زبان چوستے تھے۔ ابن اعرابی کہتے ہیں: اس کی سند صحیح نہیں ہے.  

سنن أبي داود ج1 ص3 المؤلف: أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السَِّجِسْتاني (المتوفى: 275هـ)، المحقق: محمد محيي الدين عبد الحميد، الناشر: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت،عدد الأجزاء: 4

 

کیا اس قسم کی احادیث شرم آور نہیں ؟

اگر یہ روایت صحیح ہو تو عام عورت کے لئے بھی اس طرح میاں بیوی کے اندرونی مسائل کو دوسروں کے لئے بیان کرنا شرم آور ہے ،  اب اگر یہ رسول اللہ صلی اللہ کی بیوی کی طرف سے اس طرح  اندر کی باتوں کو بیان کیا جائے تو کیا یہ مناسب کام ہے ۔۔۔؟

کیا اس طرح اسرار کو بیان کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی شان میں توھین نہیں ؟

کیا ایک اہم شخصیت کی بیوی کے لئے اس طرح اپنے شوہر کے اسرار کو بیان کرنا مناسب ہے ؟

ابن ابی شیبه نے اپنی کتاب" المصنف " میں لکھا ہے :

-22351حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ عِمْرَانَ، رَجُلٍ مِنْ زَيْدِ اللَّهِ عَنِ امْرَأَةٍ مِنْهُمْ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا شَوَّفَتْ جَارِيَةً وَطَافَتْ بِهَا وَقَالَتْ: «لَعَلَّنَا نُصِيبُ بِهَا بَعْضَ شَبَابِ قُرَيْشٍ«

جناب عایشه سے نقل ہوئی ہے کہ ایک دن انہوں نے ایک کنیز کو  بناو سنگھار کر پھراتی اور کہا شاید اس کنیز کے ذریعے قریش کے بعض جوانوں کا شکار کرسکیے۔

المصنف في الأحاديث والآثار ج4 ص484 المؤلف: أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد بن إبراهيم بن عثمان بن خواستي العبسي (المتوفى: 235هـ)،المحقق: كمال يوسف الحوت؛ الناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409، عدد الأجزاء: 7

  

 اب ہم اھل سنت کے علماء سے سوال کرتے ہیں اگر یہ روایت صحیح ہو تو کیا ان کا یہ کام گناہ کبیرہ نہیں ہے ؟

کیا ان کا یہ کام قرآن کی نص اور حکم کی مخالفت نہیں ہے  «و قرن فی بیوتکن و لا تبرجن تبرج الجاهلیه الاولی» ؟

عجیب کرامت

 مزے کی بات یہ ہے کہ بعض لوگوں نے اس قسم کی بے ہودہ باتوں کو بنیاد بنا کر اپنی دوسری بے ہودہ باتوں کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہیں ۔ جیساکہ ابو محمد يافعى کہ جو اھل سنت کے مشہور علم ہے ،اس نے ابومحمد دولابى کے زندگی نامے میں لکھا ہے : اس بندے کی بہت سی کرامتیں تھیں۔ اس کی کرامتوں میں سے ایک ہے کہ وہ اپنے سینے سے بچے کو دودھ پلاتا تھا ، اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :  ایک بچہ ان کے پاس تھا لیکن اس کی ماں وہاں نہیں تھی بچہ رونے لگا،تو ابومحمد دولائی کا سینا دودھ سے بھر گیا ۔ انہوں نے بچے کو دودھ پالایا ،بچہ خاموش ہوا ۔۔۔۔

 

 ومما وقع لوالد المذكور محمد بن سالم بن غرائب الآيات، وعجائب الكرامات في ضمن الفعل الذي هو في الظاهر مستقبح، وفي الباطن مستملح، وذلك ما شاع في بلادهم عند الفقراء المباركين.

وأخبرني به غير واحد من الصالحين أنه جاء إنسان من العرب إلى الشيخ الفقيه محمد بن سالم المذكور، وذكر له أنه كان له زوجة جميلة يحبها، فوقع بينه وبينها مخاصمة ومغاضبة وطلقها، وبانت منه بدون الثلاث، ثم ندم ندماً شديداً، وطلب أن ترجع إليه بنكاح جديد فامتنع أهلها، وكانوا من عرب تلك البلاد، فدخل عليهم، وألح في ذلك، فلم يقبلوا، ثم كلمه أن يرسل إليهم ويستحضرهم عنده، ويتكلم معهم، ويشفع له في أن يزوجوها منه فقال: يكون خيراً إن شاء الله تعالى، فطمع في قضاء حاجته لعلمه أنهم لا يخالفون الشيخ المذكور، فلما كان بعد يومين أو ثلاثة أبصر مملوكه زوجته تمشي بين بيوت المكان الذي الشيخ نازل فيه، ففرح بذلك فرحاً شديداً ظناً منه أنها جاءت مع سيدتها وأوليائها باستحضار الشيخ لهم بسببه، فسألها ما جاء بك إلى هنا.

مرآة الجنان وعبرة اليقظان ج4 ص260 المؤلف: أبو محمد عفيف الدين عبد الله بن أسعد بن علي بن سليمان اليافعي (المتوفى: 768هـ)، وضع حواشيه: خليل المنصور، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان،الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1997 م ،شرایط رضاع

  

 

 

 

 

 






Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی