2024 March 19
جناب ابوبکر کا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جگہ نماز کی امامت۔
مندرجات: ١٩٠٦ تاریخ اشاعت: ٢١ October ٢٠٢١ - ١٦:٤٥ مشاہدات: 4133
یاداشتیں » پبلک
جناب ابوبکر کا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جگہ نماز کی امامت۔

 

جناب ابوبکر کا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی جگہ نماز کی امامت۔

(تحریر  رستمی نژاد ۔۔ ترجمہ سید محمد میثم زیدی )

اعتراض:

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری کے ایام میں خلیفہ اول نے آپ کی جگہ نماز کی امامت کروائی، اور یہ امامت صغری، امامت کبری کی دلیل ہے جبکہ حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی جگہ حتی ایکبار بھی اس ذمہ داری کو نہیں نبھایا  شیعہ اس تاریخی حقیقت سے منہ موڑتے ہیں۔

تحلیل اور جائزہ

اس اعتراض کے جواب میں چند نکتے بیان کریں گے:

پہلا نکتہ:

 کسی بھی نچلے درجے کے منصب کے لیے قابلیت کسی بڑے منصب کے لیے اس شخص کی قابلیت کی دلیل نہیں ہے بلکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے لہذا اگر پیغمبر ؐکی بیماری کے دوران کسی نے آپ کی جگہ نمازپڑھائی تو یہ اس کی قابلیت کی دلیل نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ:

 اگر امامت جماعت، منصب خلافت و ولایت کی نشانی ہے تو "ابن ام مکتوم" اور دوسرے افراد جنہوں نے حضرت ابوبکر سے زیادہ پیغمبرؐ کی غیر حاضری میں نماز جماعت برپا کی

[1]، یہ قانون ان پر لاگو کیوں نہیں ہوتا؟اس قانون کے مطابق ابن ام مکتوم خلافت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ پیغمبرؐ جنگ پر یا سفر پر جاتے ہوئے سب سے زیادہ سے نماز کے لیے  انہیں اپنی جگہ جانشین بنا کر جاتے تھے۔[2]

ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات قابل قبول ہے کہ کوتاہ مدت سفر پر جاتے ہوئے پیغمبرؐ اپنے لیے جانشین معین کر جاتے لیکن ابدی سفر پر جاتے ہوئے امت کو سرگرداں چھوڑ گیے اور کسی کو اپنا جانشین معین نہیں فرمایا؟ دوسرا سوال یہ کہ نماز کے لیے جانشین کے تعین کو پیغمبرؐ نے شورا کے حوالے  کیوں نہیں کیا؟

ایک اور سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا قانون(امامت صغری، امامت کبری کی دلیل ہے) کے مطابق حضرت علی دوسروں کی نسبت خلافت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ حضرت ابوبکر –روایت کے صحیح ہونے کی بناپر-پیغمبرؐ کی بیماری کے چند ایام میں امام جماعت بنے جبکہ حضرت علی جب پیغمبر جنگ تبوک کے لیے گیے مدینہ میں ۴ مہینے تمام حکومتی مناصب من جملہ امامت جماعت کے عہدے دار رہے[3]جب حضرت علی کی باری آتی ہے تو کوئی یہ کیوں نہیں کہتا کہ امامت صغری امامت کبری پر دلیل ہے؟
چوتھا نکتہ:

 نماز جماعت کی جانشینی سےخلافت کی جانشینی کو  ثابت کرنے پر استدلال وہابیوں کے کلامی بنیاد کے برخلاف ہے کیونکہ وہابی امام علی کی خلافت بارے آیات و روایات کے جواب میں کہتے ہیں کہ خلیفہ کا تعین شورا کے عہدے تھا اور اس بارے میں کوئی نص نہیں ہے۔ یہاں وہابی اپنا عقیدہ کیوں بھول گیے؟ اور یہ کہنے لگے امام جماعت کے لیے حضرت ابوبکر کا تعین ان کی خلافت کا تعین ہے۔آخرکار جانشینی کا مسئلہ شورا کے عہدے ہے یا خود پیغمبرؐ معین کر گیے؟

ابن کثیر دمشقی-وہابی بھی ان پر اعتبار کرتے ہیں- لکھتے ہیں: کسی بھی شخص کی پیغمبرؐ کے بعد جانشینی پر کوئی نص موجود نہیں ہے نہ ہی حضرت ابوبکر کے لیے جس کا اہل سنت مدعی ہیں نہ ہی حضرت علی کے لیے جس کا شیعہ مدعی ہیں۔[4]

پانچواں نکتہ:  اھل سنت سے دو سوال

اگر حضرت ابوبکر نے پیغمبرؐ کی جگہ نماز پڑھائی تو یہاں یہ دیکھنا ہے کہ کیا انہیں پیغمبرؐ نے نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا یا نہیں؟ اگر نہیں تو یہ ان کی قابلیت کی کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن اگر پیغمبر ؐکے حکم سے انہوں نے نماز پڑھائی؟ تو یہاں یہ دیکھنا ہے کہ کس وقت پیغمبرؐ نے انہیں امام جماعت کے منصب پر فائز کیا؟

وہابی کہتے ہیں کہ پیغمبر ؐکی بیماری جب شدید ہوگئی اور آپ بستر سے اٹھ کر مسجد نہیں جاپاتے اس وقت یہ حکم دیا تو یہاں دو سوال پیش آتےہیں کہ جب بیماری کی حالت میں پیغمبرؐ حضرت علی کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتے تھے تب کہا کہ پیغمبرؐ ہذیان کہہ رہے ہیں[5]لیکن اسی حال میں اگر ابوبکر کو امام جماعت بنا رہے ہیں تو نہ صرف آپ ہذیان کہہ رہے ہیں بلکہ یہی ابوبکر کی امامت کبری کی دلیل بن رہی ہے؟ دوسرا سوال یہ کہ تاریخی شواہد کے مطابق پیغمبرؐ اسامہ کو لشکر کا سپہ سالار مقرر کرنے کے  ایک دن بعد بیمار ہوئے۔[6]۔

جب پیغمبرؐ نے اسامہ کو حکم دیا کہ سپاہ کی تیاری کے لیے مدینہ سے باہر جاکر آمادہ ہوجائے اس وقت آپ نے مہاجر و انصار من جملہ حضرت ابوبکر و عمر کو اسامہ کی لشکر سے ملحق ہونے کا حکم دیا تھا۔[7]اور اسامہ سے مخالفت کرے والوں پر لعنت کی۔[8]

کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبرؐ نے حضرت ابوبکر کے لیے دو مخالف اور متعارض حکم صادر فرمایا ہو؟ اور ایک جانب سے انہیں اسامہ کےلشکر سے ملحق ہونے کے لیے مدینہ سے باہر جانے کا حکم دیا ہو اور دوسری جانب سے انہیں امام جماعت منصوب کیا ہو؟وہابی اس تضاد کا کیا جواب دینگے؟

اگر پیغمبر کی نگاہ میں حضرت ابوبکر خلافت کے حقدار تھے تو  انہیں مدینہ سے باہر بھیجتے ہوئے اس امر کے تحقق میں رکاوٹ ڈالا اور جیش اسامہ کے مخالفین پر لعنت کیوں کیا؟

چھٹا نکتہ:

بخاری نے صحیح میں حضرت ابوبکر کے نماز پڑھانے والی روایات کو ۱۰ جگہوں پر نقل کیا ہے لیکن یہ روایات اس قدر تضاد کا شکار ہیں کہ ایک دوسرے کی تکذیب کرتی ہیں۔ بعض احادیث میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبرؐ نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں[9]۔ بعض روایات کے مطابق اس بارے میں حضرت عائشہ اور حفصہ کے درمیان جھگڑا ہوا؛بخاری کی روایت میں ہے: «فقالت حفصة لعایشة: ما کنتُ لأصیب منکِ خیراً؛  میں نے کبھی تم سے کوئی خوبی نہیں دیکھی۔

[10] ایک اور حدیث کے مطابق پیغمبرؐ اسی حال میں جبکہ لوگوں نے انہیں شانوں سے پکڑا ہوا تھا مسجد تشریف لے آئیں اور ابوبکر کی اقتدا کی۔[11]ایک اور روایت کے مطابق  پیغمبر ؐمسجد جانا چاہتے تھے لیکن جا نہیں پائیں۔[12]ایک روایت کے مطابق آپ مسجد آئیں اور ابوبکر کو کنارے پر کر کے نماز پڑھائی۔[13]چند مزید روایات کے مطابق  پیغمبرؐ بیٹھ کر نماز پڑھنے میں مصروف ہوئے جبکہ ابوبکر نے نماز کا کچھ حصہ پڑھانے کے باوجود پیغمبر ؐکی اقتدا کی اور لوگوں نے ابوبکر کی اقتدا کی۔[14]اور اس کام میں واسطہ کون تھا اس کے بارے میں بعض نے حضرت عائشہ، بعض نے حفصہ اور بعض نے عبداللہ بن زمعہ اور بعض نے بلال کا نام لیا ہے۔[15]

یہ احادیث اس قدر تعارض کا شکار ہیں کہ ابن ابی الحدید اپنے شک کو چھپا نہیں سکے اور لکھتے ہیں: «وهذا یوهم صحّة ما تقوله الشیعة من أنّ صلاة أبي بکر کانت عن أمر عایشة؛ یہ شیعوں کے قول کو ثابت کرتا ہے کہ پیغمبرؐ کی جگہ نماز پڑھنے کا حکم حضرت عائشہ کا تھا۔[16]

آپ لکھتے ہیں کہ: میں نے اپنے استاد سے پوچھا: آپ کی نظر میں نماز کا حکم عائشہ کی طرف سے تھا ؟ انہوں نے جواب دیا: میں نہیں کہتا لیکن علی یہی کہتے ہیں میری اور علی کی ذمہ داری الگ ہے علی وہاں حاضر تھے اور میں وہاں حاضر نہیں تھا۔[17]

ساتواں نکتہ:

 یہاں صحیح بخاری کی ایک حدیث کے بعض  عبارتوں کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں تا کہ ان روایات کی اہمیت کا پتہ چلے: بخاری کے نقل کے مطابق: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں: ایک دن حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے کہا: پیغمبر ؐکی بیماری کے ایام کو میرے لیے بیان کرنا نہیں چاہیں گی؟ آپ نے کہا : کیوں  نہیں۔

پیغمبر بیماری کی شدت سے تین مرتبہ بے ہوش ہوئے اور جب ہوش میں آئیں تو پوچھا: لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ میں نے کہا لوگ آپ کے منتظر ہیں۔۔۔ فرمایا: کسی کو بھیج کر ابوبکر سے کہو نماز پڑھا دیں۔ کچھ دیر بعد جب ابوبکر نماز پڑھانے لگے پیغمبرؐ دولوگوں کے سہارے-ایک عباس تھا- نماز کے لیے مسجد تشریف لے گیے جب ابوبکر نے پیغمبر ؐکو دیکھا تو نماز چھوڑنا چاہا لیکن آپ نے ہاتھ سے انہیں نماز جاری رکھنے کو کہا اس کے بعد ان دونوں افراد سے کہا کہ مجھے ابوبکر کے پاس لے جاو۔

بخاری اس روایت کے تسلسل میں لکھتے ہیں: «فجعل أبوبکر یصلّي و هو یأتمّ بصلاة النبيّ و الناس بصلاة أبي بکر و النبيّ قاعد؛ ابوبکر نے نماز میں پیغمبر ؐکی اقتدا کی اور لوگوں نے ابوبکر کی اقتدا کی۔[18]

یہ کیسی عجیب نماز تھی؟ ابوبکر نماز میں مصروف ہوتے ہیں لوگ ان کی اقتدا کیے ہوئے ہیں پیغمبرؐ آجاتے ہیں اور ابوبکر کے پاس بیٹھتے ہیں جبکہ ابوبکر نماز کا کچھ حصہ پڑھا چکے ہیں، لیکن پیغمبر ؐکی اقتدا کرتے ہیں لیکن لوگ ابوبکر کی اقتدا پر نماز کو جاری رکھتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے ایک ہی وقت میں ابوبکر امام بھی اور ماموم بھی ہیں آپ کو سورہ حمد و سورہ پڑھنا ہے کہ نہیں؟ لوگوں نے پیغمبرؐ کی اقتدا کیوں نہیں کی؟ یہ اس حدیث کا حال ہے جو  بہترین اہل سنت مصادر حدیث میں نقل ہوا ہے کیا ان احادیث کی بنیاد پر امامت صغری سے امامت کبری کو ثابت کیا جاسکتا ہے؟ اگر اس قسم کے متعارض احادیث سے امامت ثابت ہوجاتی تو مہاجرین نے انصار کے مقابل اس سے استناد کیوں نہیں کیا؟ اس قسم کی بے بنیاد احادیث سے امامت ثابت ہوسکتی ہے تو حدیث منزلت جیسی متواتر حدیث سے امامت کو ثابت کیوں نہیں کیا جاسکتا؟

نتیجہ

امام جماعت بن کر پیغمبرؐ کی جگہ نماز پڑھانے سے خلافت کے لیے کسی کی قابلیت ثابت نہیں ہوتی اگر یہ جانشینی –برفرض- پیغمبرؐ کے حکم سے ہو تب بھی خلافت جیسے منصب کے لیے کسی شخص کی قابلیت ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔[19]

مزید مطالعہ کے لیے کتب

الغدیر؛ علامه امینی؛

المراجعات؛ سید شرف الدین عاملی؛

معالم المدرستین؛ علامه عسکری

 

 

 


[1][1] ۔ر.ک: تاریخ خلیفة، ص 48؛ تاریخ الامم و الملوک، ج ،2ص 555 ،536 ،479؛ الإصابة فی تمییز الصحابة، ج ،4ص .495ابن حجر در الاصابة مینویسد: «إنّ النبيّ (ص) استخلف ابن أمّ مکتوم ثلاث عشرة مرّة؛ في الأبواء و بواط وذي العشیرة و...وفي خروجه من حجّة الوداع و في خروجه إلی بدر.

[2] ۔الإصابة في تمییز الصحابة، ج ،4ص 49

[3] ۔تاریخ الیعقوبى، ج ،2ص .67

[4] ۔البدایةو النهایة، ج ،5ص « .270لم ینصّ علی الخلافة عیناً لأحد من الناس، لا لأبي بکر کما قد زعمه طائفة من أهل السنّة، و لا لعليّ کما یقوله طائفة من الرافضة.

[5] ۔صحیح البخاری، ج ،5ص « .137عن ابن عباس: ما یوم الخمیس! قال: اشتدّ برسول الله(ص) وجعه فقال: ائتوني بکتاب أکتب لکم کتاباً لا تضلّوا بعده أبداً فتنازعوا ولا ینبغي عند نبيّ تنازع، فقالوا: ما له؟ أهجر؟ استفهموه. فقال: ذروني فاّلذي أنا فیه خیر ممّا تدعوني إلیه.

[6] ۔ إمتاع الأسماع، ج ،2ص123

[7] ۔فتح الباری، ج ،8ص « .115فبدأ برسول الله(ص) وجعه في الیوم الثالث فقعد لأسامة لواءً بیده فأخذه أسامة فدفعه إلای بریدة و عسکر بالجُرف و کان ممّن انتدب مع أسامة کبار المهاجرین و الأنصار منهم أبوبکر و عمر وأبوعبیدة و...

[8] . تاریخ الامم و الملوک، ج ،3ص 186

[9] ۔صحیح البخاری، ج ،1ص 165

[10] ۔صحیح البخاری، ج ،1ص 166 – 165؛بخاری کی روایت میں ہے: «فقالت حفصة لعایشة: ما کنتُ لأصیب منکِ خیراً؛  میں نے کبھی تم سے کوئی خوبی نہیں دیکھی۔

[11] ۔صحیح البخاری، ج ،1ص 175

[12] ۔صحیح البخاری، ج ،1ص 166

[13] ۔تاریخ الطبری، ج ،2ص .439 : «فلمّا سمع أبوبکر حرکته (ص) تأخّر فجذب رسول الله(ص) ثوبه فأقامه مکانه و قعد رسول الله فقرأ من حیث انتهی أبوبکر

[14] ۔صحیح البخاری، ج 1ص۱۶۵

[15] ۔ملاحظہ ہو: صحیح البخاری، ج 1ص۱۶۵ اور اس کے بعد کے صفحے۔

[16] ۔شرح نهج البلاغة، ج ،13ص 34

[17] ۔شرح نهج البلاغة، ج ،9ص « .19فقلت له: أفتقول أنت: إنّ عایشة عیّنت أباها للصلاة و رسول الله(ص) لم یعیّنه؟ فقال: أمّا أنا فلا أقول ذلک و لکن علیّاً کان یقوله و تکلیفي غیر تکلیفه، إنّه کان حاضراً و لم أکن حاضراً۔

[18] صحیح البخاری، ج ،1ص 168؛ صحیح مسلم، ج ،2ُص20

[19]

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی