2024 December 8
شیعہ نماز ظہر اور عصر ، نماز مغرب اور عشاء ملا کر کیوں پڑھتے ہیں
مندرجات: ١٨٦٧ تاریخ اشاعت: ٢٤ January ٢٠٢٣ - ٠٨:٣٥ مشاہدات: 6454
یاداشتیں » پبلک
نمازوں کو ملاکر پڑھنا
شیعہ نماز ظہر اور عصر ، نماز مغرب اور عشاء ملا کر کیوں پڑھتے ہیں

کیا شیعہ پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھتے ؟

تحریر :رستمی نژاد ۔     ترجمہ : سید میثم زیدی 
اعتراض: شیعہ کیوں دوسرے مسلمانوں کو طرح یومیہ نمازوں کو پانچ وقت نہیں پڑھتے۔ انھوں نے نماز عصر اور عشاء کو حذف کرکے دوسرے اسلام سے جدا ہوگئے ہیں۔ یہ کام تمام مسلمانوں کی مخالفت ہے اور سیرت پیغمبر اکرم ص کے بھی خلاف ہے۔

 

 

تجزیہ اور تحلیل:

  

اس اعتراض کے جواب میں چند نکتے قابل غور ہیں:

پہلا نکتہ: یہ مسالہ، ایک فقہی جزئی مسالہ ہے اور اس میں معمولی سا اختلاف پایا جاتا ہے۔ البتہ اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ شیعوں نے نمزا عصر اور عشا کو حذف نہیں کیا ہے بلکہ ان نمازوں کو طہر اور مغرب کی نماز کے ساتھ ملاکر پڑھتے ہیں۔ اور اس مسالہ کو شیعہ فقہاء نے آیات و روایات کی بنیاد پر بیان کیا ہے اور شریعت نے اس کی اجازت دی ہے۔

نماز یومیہ کے وقت کے سلسلہ میں قرآن کی جو آیت نازل ہوئی ہے وہ بھی تین ہی وقتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ "  أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا؛

[1] آپ زوال آفتاب سے رات کی تاریکی تک نماز قائم کریں اور نماز صبح بھی کہ نماز صبح کے لئے گواہی کا انتظام کیا گیا ہے؛

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا اس آیت میں "قرآن الفجر" کی تعبیر سے نماز صبح کے وقت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ لیکن بقیہ چار نمازوں کے لئے کلی طور پر ابتداءظہر سے آدھی رات تک اشارہ ہوا ہے۔ اس اطلاق سے استفادہ ہوتا ہے کہ ان چار نمازوں کا ٹائم ظہر کی ابتدا سے آدھی رات تک ہے۔ اگر روایات نے نماز ظہر و عصر کے وقت کو غروب سے پہلے اور نماز مغرب و عشاء کو مغرب سے آدھی رات تک مشخص نہ کیا ہوتا تو آیت کے مطلق ہونے کی بنا پر ان چاروں نمازوں کا مشترک وقت ظہر سے لیکر آدھی رات تک ہوتا۔

لیکن کیونکہ خاص دلیل موجود ہے اس لئے نماز ظہر و عصر کا وقت غروب سے پہلے ہے اور نماز مغرب و عشاء کا ٹائم اس کے بعد آدھی رات تک ہے۔ اس مسالہ میں آیت مقید ہوجاتی ہے لیکن دوسرے موارد میں جہاں کوئی خاص دلیل نہیں آئی ہے آیت مطلق رہے گی۔ لہٰذا اطلاق آیت کی بنیاد پر نماز ظہر و عصر کا مشترکہ وقت ظہر کی ابتدا سے غروب تک ہے اور مغرب سے آدھی رات تک مغرب اور عشاء کا مشترکہ وقت ہے۔ اگرچہ دوسرے جزئیات بھی ہیں جو روایات میں آئے ہیں۔

اگر آیت سے یہ استفادہ کیا جائے تو یہ بات واضح یوجاتی ہے کہ نماز ظہر عصر اور اسی طرح نماز مغرب و عشاء کو ملاکر پڑھنا جائز ہے۔فخر رازی نے اس مطلب کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ چیزوں کو مفروض کرتے ہوئےکچھ مفروضوں میں ان نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کو جائز مانتے ہوئے لکھتے ہیں: اگر غسق کو رات کی تاریکی کے معنی میں لیں تو لفظ "الی" کہ جس کے معنی انتھاء کے ہیں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہہ نکلتا ہے کہ ابتداء ظہر سے آدھی رات تک ان چاروں نمازوں کا پڑھنا جائز ہے۔[2]

ابن عاشور (اہل سنت کے معاصر مفسر) اس حقیقت کے اعتراف کے ضمن میں کہتے ہیں کہ آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ان نمازوں کے وقت میں امتداد پایا جاتا ہے وہ لکھتے ہیں:نماز کے وقت کے جاری رہنا ایک طرح سے نمازی کے لئے توسیع کا باعث بنتا ہے اور یہ چیز دین کے آسان ہونے سے بھی سازگار ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آلوسی مفسر اہل سنت نے اس مسالہ میں شیعہ فقھاء پر اعتراض کرنے کی بہت کوشش کرنے کے بعد  مجبور ہوکر اس طرح سے لکھا ہے: " نعم ما ذھبواالیہ مما یویدہ ظواھر بعض الاحادیث السحیحۃ؛ نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ملاکر پڑھنے کے جواز کے سلسلہ میں جو شیعہ فقھاء کا نظریہ اس کی تائید بہت سی صحیح روایتیں کرتی ہیں۔[3] اس کے بعد وہ بعض آحادیث کو نقل بھی کرتے ہیں۔

دوسرا  نکتہ: فقہ شیعہ کے لحاظ سے نماز یومیہ کو پانچ وقت پڑھنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی مشکل نہیں ہے بلکہ یہ عمل افضل  ہے۔[4] لیکن کسی بھی شیعہ فقیہ نے اس کے واجب ہونے کا حکم نہیں دیا ہے۔ یعنی شیعہ فقہاء کے نظریہ کے مطابق نماز ظیر، عصر، مغرب اور عشاءکے دو وقت ہیں: خاص وقت۔ مشترکہ وقت۔

نماز عصر کا خاص وقت: یہ وہ وقت ہے جس میں فقط غروب تک نماز عصر پڑھنے کا ٹائم ہو۔

نماز ظہر و عصر کا مشترکہ وقت: نماز ظہر کے خاص وقت کے ختم ہونے سے نماز عصر کے خاص وقت کی ابتداء تک  نماز ظہر و عصر کا مشترکہ وقت ہے۔ اس وقت میں دونوں نمازوں کو ایک ساتھ بغیر فاصلہ کے پڑھ سکتے ہیں۔

نماز مغرب کا خاص وقت:مغرب کے شرعی وقت کی ابتدا سے جتنی دیر میں تین رکعت نماز پڑھی جائے۔ اس محدود وقت میں فقط مغرب ہی کی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔

نماز عشاء کا خاص وقت: یہ وہ وقت ہے جس میں فقط نیمہ شب شرعی تک فقط نماز عشاء کے پڑھنے کا ٹائم ہو۔

نماز مغرب اور عشاء کا مشترکہ وقت: نماز مغرب کے خاص وقت کے ختم ہونے سے نماز عصر کے خاص وقت کی ابتداء تک ان دونوں نمازوں کا مشترکہ ٹائم اس میں دونوں نمازوں کو ایک ساتھ بغیر فاصلہ کے پڑھ سکتے ہیں۔

لیکن زیادہ تر اہل سنت معتقد ہیں کہ ظہر شرعی کی ابتدا (وقت زوال)سے لیکر اس وقت تک جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے و ظہر کا خاص وقت ہے۔ اس وقت میں نماز عصر نہیں پڑھ سکتے اور اس کے بعد نماز مگرب تک نماز عصر کا ٹائم ہے۔ اسی طرح ان کا ماننا ہے کہ غروب کی ابتداء سے مغرب سے شفق کے زائل ہونے تک مغرب کا خاص وقت ہے اور اس وقت میں نماز عشاء نہیں پڑھی جاسکتی اور شفق کے زائل ہونے سے آدھی رات تک نمازعشاء کا ٹائم ہے۔[5]

نتیجہ: شیعہ فقھاء کے نظریہ کے مطابق نماز ظہر کا وقت ہونے پر نماز ظہر پڑھ سکتے ہیں اور اس کے فورا بعد نماز عصر ادا کی جاسکتی ہے یا نمازظہر کو نماز عصر کے خاص وقت تک ٹال سکتے ہیں اس طرح سے کہ نماز عصر کے خاص وقت سے پہلے اسے ادا کرلیں اور اس کے بعد نماز عصر پڑھیں اور اس طریقہ سے دونوں نمازوں کو جمع کرلیں۔ اگرچہ مستحب ہے کہ نماز ظہر کو زوال کے بعد اور نماز عصر کو ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہونے کے بعد پڑھا جائے۔ اسی طرح مغرب کا وقت ہونے پر نماز مغرب اور اس کے فورا بعد نماز عشاء پڑھ سکتے ہیں۔ یا نمازمغرب کو نماز عشاء کے خاص وقت تک ٹال سکتے ہیں اس طرح سے کہ نماز مغرب کو نماز عشاء کے  خاص وقت سے پہلے  ادا کرلیں اور اس کے بعد نماز عشاء پڑھیں اس طرح سے دونوں نمازوں کو جمع کرلیں۔ اگرچہ مستحب ہے کہ نماز مغرب کو غروب شرعی کے بعد اور نماز عشاء کو مغرب کی طرف سے شفق کے زائل ہونے کے بعد پڑھا جائے۔ لیکن اس کے مقابلہ میں فقھای اہل سنت دو نمازوں (ظہر و عصر، مغرب و عشاء)کو ملاکر ہر جگہ اور ہر وقت اس طرح جیسے بیان کیا گیا جائز نہیں مانتے بلکہ وہ فقط بعض موارد میں نماز کو ملاکر پڑھنے کے قائل ہیں۔ جو درج ذیل ہیں:

الف) مزدلفہ اور عرفہ میں دو نمازوں کو جمع کرنا: تمام فقھاء شیعہ اور اہل سنت ان جگہوں پر دو نمازوں کے جمع کرنے کو افضل مانتے ہیں۔

ب) حالت سفر میں دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنا: زیادہ تر فقھا (ابو حنیفہ، حسن اور نخعی کے علاوہ ) سفر میں دو نمازوں کے جمع کرنے کے قائل ہیں۔

ج) سفر کے علاوہ مجبوری کی صورت میں دو نمازوں کو جمع کرنا: فقھای اہل سنت کا مشھور فتویٰ ہے کہ مجبوری کی حالت میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے۔ فقط ابوحنیفہ حج، عرفہ اور مزدلفہ کے علاوہ دو نمازوں کے جمع کرنے کا قائل نہیں ہے۔[6] 

ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شیعہ اور اہل سنت کے درمیان دو نمازوں کو جمع کرنے کے مسالہ میں اختلاف اختیاری صورت میں ہے۔ جس کو شیعہ جائز مانتے ہیں اور اہل سنت جائز نہیں مانتے۔

تیسرا نکتہ: اختیاری حالت میں دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنے کی تائید اہل سنت کی حدیثی کتابوں میں بھی ہوئی ہے۔ اور اس طرح کی روایات واضح طور پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی موجود ہیں یہاں تک کہ صحیح مسلم نے اپنی کتاب میں "باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر"[7] کے عنوان سے ایک باب تشکیل دیا ہے یہ روایریں واضح طور پر شیعوں کے نظریہ کی تائید کرتی ہیں۔

یہاں پر ان روایتوں میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:

بخاری[8] اور مسلم[9] نے ابن عباس سے نقل کیا ہے انھوں نے فرمایا: "ان النبی (ص)صلی بالمدینۃ سبعا و ثمانیا: الظھر و العصر و المغرب و العشاء؛ رسول خدا ص نے مدینہ میں (وطن میں) نماز ظہر و عصر اور اسی طرح مغرب اور عشاء کو آٹھ رکعت اور سات رکعت ملاکر پڑھا۔یہ بات واضح ہے کہ نماز ظہر و عصر ملاکر آٹھ رکعت ہے اور مغرب و عشاء سات رکعت ہے۔

اسی طرح بہت سے علماء من جملہ مسلم، مالک بن انس اور ابوداود نے اپنی کتابوں میں ابن عباس سے نقل کیا ہے: "صلی رسول اللہ الظھر و العصر جمیعا و المغرب و العشاء جمیعا فی غیر خوف ولا سفر؛ رسول خدا ص نے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ملاکر پڑھا جبکہ نہ کسی طرح کا خوف تھا ور نہ ہی آپ سفر میں تھے۔[10] دلچسپ بات یہ ہے کہ وہابی عالم البانی نے اس روایت کو صحیح مانا ہے۔[11]

ایک دوسری روایت جو اہم کتابوں جیسے صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن نسائی اور بیھقی میں نقل ہے اور اس میںدو نمازوں کے جمع کرنے کے جواز کا فلسفہ بھی بیان کیا گیا ہے۔

اس کے مقابلہ میں ابن عباس سے منقول ہے: جمع رسول اللہ (ص) بین الظھر و العصر و المغرب و العشاء بالمدینۃ فی غیر خوف و لا مطر۔ قال قلت لابن عباس لم فعل ذالک؟ کیی لا یحرج امتہ؛ رسول خدا ص نے مدینہ میں نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ملاکر پڑھا جبکہ نہ کسی طرح کا خوف تھا ور نہ ہی بارش تھی۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے ابن عباس سے اس کی وجہ پوچھی۔ انھوں نے فرمایا تاکہ امت سختی میں نہ پڑے۔[12] البانی نے اس روایت کو بھی صحیح مانا ہے۔[13]

اس روایت میں قابل غور بات یہ ہے کہ دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنے کا فلسفہ امت کو سختی سے بچانا بتایا گیا ہے۔ اور ہمارے زمانہ میں اس کی رعایت بہت سے مسلمانوں کو نماز کی طرف مائل کرسکتی ہے۔ اور تجارت اور پڑھائی وغیرہ میں پے در پے فاصلہ سے بچاسکتی ہے۔    

اسی طرح ابن قدامہ سے منقول ہے: پیغمبر اکرم ص اپنی امت کی آسانی کے لئے بغیر کسی خوف اور بارش کے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ملاکر پڑھا کرتے تھے۔[14]

 ایک دوسری روایت میں عبداللہ ابن شقیق نے ابوھریرہ سے پوچھا: کیا یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر ص نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ملاکر پڑھا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا ہاں صحیح ہے۔[15]

ان روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شیعہ اور سنی فقھاءکے فتووں کے مطابق نماز یومیہ کو پانچ وقت میں پڑھنا صحیح ہے۔ لیکن ان روایات کی بنا پر نمازوں کو جمع کرکے پڑھنا رائج تھا اور رسول اسلام ص نے اس کی حکمت امت کو مشقت سے بچانا بتایا ہے۔ اس لئے یہاں یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ فقھای اسلام ان روایات کی تائید کرنے کے باوجود لوگوں کی آسانی کے لئے انھیں کیوں اس شرعی چھوٹ سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دیتے؟ کیوں وہ اجازت نہیں دیتے کہ لوگ پانچ بار کام چھوڑنے کے بجائے تین بار کام چھوڑ کر نماز پڑھیں اور اس شرعی چھوٹ سے محروم نہ ہوں؟

چوتھا نکتہ: اگرچہ اس وقت دنیا کے تمام مسلمان پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں لیکن فتووں کے لحاظ سے ان کے درمیان بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ شافعی حضرات سفر، بیماری، برف و بارش اور تیز ہواوں کی صورت میں پیدا ہونے والے خوف کی وجہ سے نماز کو جمع کرنے کے قائل ہیں۔

مالکیوں کے یہاں بھی مشھور ہے کہ سفر، بیماری، بارش، تاریکی اور مزدلفہ اور عرفہ میں حاجیوں کے لئے نماز کو جمع کرکے پڑھنا جائز ہے۔

حنبلیوں نے بھی درج ذیل موارد میں نماز کو جمع کرنے کا فتویٰ دیا ہے۔ عرفہ اور مذدلفہ میں، حالت سفر میں، بیماری کی حالت میں، دودھ پلانے والی خاتون کے لئے، مستحاضہ خاتون کے لئے، اس شخص کے لئے جس کا پیشاب نکل جاتا ہے، اس شخص کے لئے جو طہارت سے عاجز ہے، ببوہ شخص جو وقت کی شناخت سے عاجز ہے، اسی طرح اس شخص کے لئے جسے جان یا مال یا آبرو کا ڈر ہو؛ زندگی میں نقصان کا خوف ہو، برف و بارش میں، تیز ہوا کی صورت میں اور زمین کے گیلا ہوجانے کی حالت میں۔[16]

نتیجہ:            

     نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ملاکر پڑھنا آیت کے اطلاق کی بنا پر ہےاور فریقین کی روایات اور پیغمبر ص، اہل بیت علیہم السلام اور صحابا کی سیرت بھی اس بات کی تائید کرتی ہے۔

اور روایات کے مطابق نمازوں کو جمع کرنے کا فلسفہ لوگوں کو آسانی دینا ہے جو ہمارے زمانہ میں بہت ضروری ہے۔ اس لئے امت اسلام کو اس آرام و آسائش سے محروم نہیں کرنا چاہیے ۔

مزید مطالعہ کے لئے کتابیں:

الجمع بین الصلاتین؛ سید محمد رضا مدرسی

     مسائل خلافیہ حار فیھا اھل السنۃ؛ علی آل محسن؛

فقھیات بین السنۃ و الشیعۃ؛ عاطف سلام

        فلک النجاۃ؛ علی محمد فتح الدین حنفی؛

شیعہ جواب دیتے ہیں ؛ آیت اللہ مکارم شیرازی

 راہنمای حقیقت؛ آیت اللہ جعفر سبحانی؛ 

 

 



[1] ۔ سورہ اسراء، آیۃ/78

[2] ۔ التفسیر الکبیر، ج 21۔ ص  384۔

[3] ۔ روح المعانی، ج 8 ص 127۔

[4] ۔ الخلاف، ص 257۔ المھذب ص 69۔ الوسیلۃ الی نیل الفضیلۃ، ص81۔۔

[5] ۔ المجموع محیی الدین نووی، ج 3؛ ص 21

[6] ۔ الفقہ علی مذاھب الاربعۃ، کتاب الصلاۃ، الجمع بین الصلاتین

[7] ۔ صحیح مسلم، ج 1، ص 150۔

[8] ۔ صحیح البخاری، ج1، ص 137۔

[9] ۔ صحیح مسلم، ج 2؛ ص 152۔

[10]۔ صحیح مسلم، ج 2؛ ص 151؛ الموطا، ص 73،ح 327؛ سنن ابو داود، ج 1، ص271؛ ح 1210/1211 سنن الکبریٰ، ج 3؛ص 166۔

[11] ۔ ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل، ج 3؛ ص 178۔

[12] ۔ صحیح مسلم، ج 2، ص 152؛ سنن ترمذی؛ ج1 ص 121؛ ح 187؛ سنن ابوداود، ج 1؛ ص 272، ح 1211۔

[13] ۔ ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل، ج 3؛ ص 35/36

[14] ۔المغنی، ج 2؛ ص 121۔

[15] ۔ مسند احمد، ج 1۔ ص 121۔

[16] ۔ الفقہ علی المذاھب الارب الاربعۃ، ج 1؛ ص 438/442۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی