2024 March 28
امام جواد (ع) کی شخصیت علمائے اہل سنت کی نظر میں
مندرجات: ٦٩١ تاریخ اشاعت: ٠٢ February ٢٠٢٣ - ١١:١٥ مشاہدات: 6008
مضامین و مقالات » پبلک
امام جواد (ع) کی شخصیت علمائے اہل سنت کی نظر میں

 

ماہ رجب کی 10 تاریخ کو 195 ہجری کو مدینہ منورہ کے مبارک آسمان پر چودویں کا مبارک چاند محمد تقی الجواد کے نام سے طلوع ہوا، کہ جسے امام رضا (ع) نے اسلام کا مبارک ترین مولود قرار دے کر اس چاند کی روشنی میں مزید چار چاند لگا دئیے۔

آپ کے والد حضرت علی بن موسی الرضا سلام الله عليہ اور مادر گرامی خَيزُرَان سلام الله عليہا تھیں۔ امام جواد، اپنے والد امام رضا کی مبارک زندگی کے تقریبا آخری حصے میں، اس دنیا میں تشریف لائے اور اپنے وجود گرامی سے سلسلہ امامت کے منقطع ہونے کا گمان کرنے والوں کی باطل امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

امام جواد (ع) 17 سال تک امامت کے الہی منصب پر فائز رہے اور امت محمدی کی ہدایت کے فرائض کو انجام دیتے رہے۔ آخر کار امام جواد 25 سال کی عمر میں، جوانی کے ایام میں 220 ہجری میں شہر کاظمین میں شہید ہوئے اور اسی شہر میں اپنے جدّ حضرت موسی بن جعفر الکاظم (ع) کے دامن میں دفن ہوئے۔

امام جواد (ع) کے زمانے میں معاشرے میں علمی مناظروں کا بہت رواج تھا، اور امام رضا (ع) کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے آپس میں ہونے والے علمی و دینی مناظرے، امام جواد کی طرف منتقل ہو گئے، کہ ان حالات میں ایسا ہونا، خود امام کے لیے بہت حسّاس تھا۔ حتی امام جواد کے لیے یہ وہ حالت تھی کہ جس نے امام کو دوسرے تمام آئمہ سے الگ اور جدا کر دیا تھا۔ علم لدنی کے مالک امام جواد کی عمر کم  ہونے کے باوجود، آپکو علمی مناظرات میں مد مقابل کا جواب دینے میں اتنا تسلط حاصل تھا کہ حتی اس طرح سے اہل سنت کے علماء کی توجہ کو اپنی طرف جلب کیا ہے، کہ نہ فقط یہ کہ اس امام کے زمانے میں بلکہ طول تاریخ میں ان علماء کو اپنے فضائل اور کرامات لکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔

اس تحریر میں ہم اسی امام ہمام کی نورانی و مقدس شخصیت کے بارے میں اہل سنت کے بعض علماء کے اقوال و نظریات کو ذکر کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں:

1.جاحظ (متوفی 250 ہجری):

جاحظ کا شمار تیسری صدی کے علماء میں سے ہوتا ہے، اس نے بنی امیہ کے جعلی اور جھوٹے فضائل کا جواب دینے والے دس آئمہ کے اسماء کو ذکر کیا ہے، اور ان میں امام جواد (ع) کے نام کو بھی ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

و من الذي يعد من قريش ما يعده الطالبيون عشرة في نسق ؛ كل واحدٍ منهم : عالمٌ ، زاهدٌ ، ناسكٌ ، شجاعٌ ، جوادٌ ، طاهرٌ ، زاكٍ ، فمنهم خلفاء ، ومنهم مرشحون : ابن ابن ابن ابن، هكذا إلى عشرة ، و هم الحسن [العسكري] بن علي بن محمّد بن علي بن موسى بن جعفر بن محمّد بن علي بن الحسين بن علي، و هذا لم يتفق لبيت من بيوت العرب ، و لا من بيوت العجم.

اور وہ کہ جسکا قریش میں شمار ہوتا ہے، وہ بنی ہاشم کی اولاد میں سے ہیں کہ وہ ایک سلسلے میں دس بندے ہیں اور ہر ایک ان میں عالم، زاہد، عابد، شجاع، کریم، پاک و طاہر تھا، ان میں سے بعض خلیفہ تھے اور بعض میں خلیفہ بننے کی صلاحیت اور قابلیت موجود تھی، وہ ترتیب کے ساتھ باپ اور بیٹے تھے، اس طرح سے وہ دس بندے ہوتے ہیں کہ وہ :

       حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسين بن علی [سلام الله عليہم اجعين] اور عربوں میں شرافت اور بزرگی کے لحاظ سے کوئی بھی اس گھرانے کے برابر نہیں ہے۔

الجاحظ، أبو عثمان عمرو بن بحر بن محبوب بن فزارة الليثي الكناني البصري، رسائل الجاحظ، ص 453 ، تحقيق: علي ابو ملحم،  ناشر : دار ومكتبة الهلال ، بيروت، 2002 م.

2.ابن عربی (متوفی 638 ہجری):

مرحوم آيت الله العظمی مرعشی نجفی (رح) نے کتاب المناقب، کہ جو ابن روزبہان کی کتاب وسیلۃ الخادم کے اندر ہی چھپی ہے، میں ابن عربی سے نقل کرتے ہوئے، امام جواد (ع) کی مدح کو ایسے لکھا ہے کہ:

 و على باب الله المفتوح , و كتاب الله المشروح , ماهية الماهيات ، مطلق المقيدات ، و سر السريات الوجود ، ظل الله الممدود ، المنطبع في مرآة العرفان ، و المنقطع مِن نيله حبل الوجدان ، غواص بحر القدم ، محيط الفضل و الكرم ، حامل سر الرسول ، مهندس الأرواح و العقول ، أديب معلمة الأسماء و الشؤون ، فهرس الكاف و النون ، غاية الظهور و الإيجاد ، محمد بن علي الجواد (عليه السلام).

اور درود و سلام ہو، خداوند کے کھلے در رحمت پر، خداوند کی تشریح شدہ کتاب پر، موجودات کی حقیقت پر، مقیدات سے مطلق و آزاد، موجودات کے اسرار میں سب سے زیادہ پنہان سرّ، خداوند کی رحمت کا پھیلا ہوا سایہ، آئینہ عرفان و معرفت خدا میں نقش شدہ تصویر، وہ کہ افکار کی پروان و اڑان جس تک نہ پہنچ سکے، خداوند کے بحر بیکران میں غوطہ زن، تمام فضائل و کرامات کا احاطہ کرنے والا، رسول خدا کے اسرار کا حمل کرنے والا،  ارواح اور عقلوں کا اندازہ کرنے والا، اسماء اور انکے مراتب کے بارے میں ادب کرنے والا معلم، تمام موجودات کی کھلی ہوئی فہرست، ہدف ایجاد و ظہور موجودات، یعنی محمد بن علی الجواد (عليہ السلام).

المرعشي النجفي، السيد شهاب الدين (متوفي1411هـ)، شرح إحقاق الحق، ج 29 ص 21 ، تحقيق وتعليق: السيد شهاب الدين المرعشي النجفي،‌ ناشر: منشورات مكتبة آية الله العظمى المرعشي النجفي - قم – ايران.

3.محمد بن طلحہ (متوفی 652 ہجری):

محمد بن طلحہ شافعی نے بھی امام جواد (ع) کی مدح میں لکھا ہے کہ:

هذا أبو جعفر محمد الثاني .. و هو و إن كان صغير السن فهو كبير القدر رفيع الذكر . ثم قال: و أما مناقبه فما اتّسعت حلبات مجالها، و لا امتدّت أوقات آجالها.

اور وہ ( امام جواد ) اگرچے انکی عمر کم تھی، لیکن مقام و منزلت کے لحاظ سے بہت بزرگ اور مشہور تھے، لیکن افسوس کہ اس مقام و منزلت اور فضائل کو مختلف میدانوں میں نشر کرنے کا وقت بہت ہی کم تھا اور یہ فضائل مکمل طور پر لوگوں کے درمیان منتشر بھی نہیں ہو سکے۔ یعنی آپکی زندگی بہت ہی کم تھی۔

     الشافعي، محمد بن طلحة (متوفي652هـ)، مطالب السؤول في مناقب آل الرسول (ع)، ص 467 و 468 ، تحقيق : ماجد ابن أحمد العطية. كتابخانہ اهل بيت عليهم السلام کی سی ڈی کے مطابق،

4.سبط ابن جوزی (متوفی 654 ہجری)

اس نے امام جواد (ع) کے بارے میں لکھا ہے کہ:

فصل في ذکر ولده محمد الجواد

هو محمد بن علي بن موسي بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن ابي طالب ... و کان علي منهاج ابيه في العلم و التقي و الزهد و الجود و لمّا مات ابوه قدم علي المامون فاکرمه و اعطاه ما کان يعطي اباه.

یہ فصل ان ( امام رضا ) کے بیٹے محمد الجواد کے ذکر کے بارے میں ہے:

وہ محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسين بن علی بن ابی طالب ہیں، ان کا علم، پاکی و طہارت، زہد و دنیا سے دوری، بخشش و عطا کرنا، اپنے والد کی روش و طریقے پر تھا۔ جب انکے والد محترم دنیا سے رخصت ہوئے تو، وہ مامون کے پاس آئے اور جو کچھ وہ ان کے والد کو عطا کرتا تھا، اب امام جواد کو دیتا تھا۔

سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبوالمظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي (متوفى654هـ)، تذكرة الخواص، ص358 - 359، ناشر: مكتبة نينوى الحديثة ـ طهران ، ناصر خسرو.

5.محمد بن عبد الواحد موصلی (متوفی 657 ہجری):

موصلی اہل سنت کے شافعی مذہب کا عالم ہے، اس نے بھی امام جواد (ع) کا تعارف اس طرح سے بیان کیا ہے کہ:

و هو الامام التاسع الناطق بالسداد و المتصف بالرشاد و العلم المستفاد، و الفضل المنتشر بين العباد، المکين الامين، وارث النبيين، و خلاصة رب العالمين، الکبير العلم و الحلم، ذو المنطق البليغ و التبيان، و الفصاحة و البيان، و الجواد العامر، و العقل الباهر، الذي له من الروايات اعلاها، و من المناقب اجلها و اسماها.

[امام جواد سلام الله عليه] امام نہم اور محکم و پائیدار قول کے بولنے والے، ہدایت کرنے و قابل استفادہ علم دینے میں مشہور، ایسے صاحب فضائل کہ جو فضائل لوگوں کے درمیان منتشر ہو گئے تھے، امانت داری میں عظیم مقام رکھنے والے، انبیاء کے علم کے وارث تھے۔ خداوند کی ذات کا عملی نمونہ اور خلاصہ، صاحب علم لدنی، صبر و حلم میں بلند مقام رکھنے والے، فصیح و بلیغ کلام کرنے والے، ایسے صاحب عقل کہ جو واضح تھے، بالا  ترین اور بہترین فضائل اور مناقب کی روایات انہی کے بارے میں ہیں۔

      الموصلي، شرف الدين أبي محمد عمر بن شجاع الدين محمد بن عبد الواحد، مناقب آل محمد المسمي بـ النعيم المقيم لعتره النبأ العظيم، ص 144 ، تحقيق العلامة السيد علي عاشور، دارالنشر: موسسة الأعلمي – بيروت – لبنان، الطبعة الأولي، 1424 هـ - 2003 م.

6.ابن خلکان (متوفی 681 ہجری):

ابن خلکان نے بھی ان امام جواد (ع) کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

محمد الجواد أبو جعفر محمد بن علي الرضا بن موسى الكاظم ... المعروف بالجواد أحد الأئمة الاثني عشر.

محمد الجواد، [انکی کنیت] ابو جعفر محمد بن علی الرضا بن موسی الکاظم ... ہے کہ جو جواد ( بہت زیادہ عطاء کرنے والا ) کے لقب سے معروف و مشہور ہیں۔ وہ بارہ آئمہ میں سے ایک امام ہیں۔

    إبن خلكان، ابو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفى681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج 4 ص 175، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.

7.ابن تيميہ حرانی (متوفی 728 ہجری):

ابن تيميہ حرانی وہابیوں کا نظریہ پرداز اور انکا مغز متفکر ہے، اس نے بھی امام کی بلند شخصیت کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

«إن محمد بن علي الجواد كان من أعيان بني هاشم و هو معروف بالسخاء و السؤدد و لهذا سمي الجواد»

امام جواد، بنی ہاشم کے بزرگان میں سے تھے، وہ بزرگی اور بخشش کرنے میں اپنے زمانے میں ضرب المثل بن چکے تھے۔ اسی بخشش اور عطا کرنے کی وجہ سے انکو جوّاد کا نام دیا گیا تھا۔

     ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفى 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 4 ص 68 ، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ..

8.ذہبی (متوفى748 ہجری):

شمس الدين ذہبی، کہ جو اہل سنت کے بزرگ علماء میں سے ہیں، اس نے امام جواد (ع) کے بارے میں لکھا ہے کہ:

محمد بن الرضا علي بن الكاظم موسى بن الصادق جعفر بن الباقر محمد بن زبد العابدين علي بن الشهيد الحسين ابن أمير المؤمنين علي بن أبي طالب كان يلقب بالجواد، وبالقانع، وبالمرتضى كان من سروات آل بيت النبي صلى الله عليه و سلم ... وكان أحدالموصوفين بالسخاء، ولذلك لقب بالجواد.

..... انکا لقب جواد، اور قناعت کرنے والے تھے، رسول خدا کے اہل بیت کے بزرگان میں انکا شمار ہوتا تھا۔ وہ ایسے تھے کہ جو لوگوں میں سخی اور بخشش کرنے والے مشہور تھے، اسی وجہ سے انکو جوّاد کا لقب دیا گیا تھا۔

     الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفى748 هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 15 ص 385 ، تحقيق: د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي – لبنان، بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.

صفدی شافعی نے بھی ذہبی کی طرح کے کلمات نقل کیے ہیں:

     الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفى764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 4 ص 79 ، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.

9.ابن صباغ مالكی (متوفی 855 ہجری):

  ابن صباغ نے امام جواد کو ان الفاظ سے یاد کیا ہے کہ:

و إن كان صغير السنّ فهو كبير القدر رفيع الذكر، القائم بالإمامة بعد عليّ بن موسى الرضا»

امام جواد اگرچے انکی عمر کم تھی، لیکن لیکن مقام و منزلت کے لحاظ سے بہت بزرگ اور مشہور تھے، وہ امام رضا کی شہادت کے بعد مقام و منصب امامت پر فائز ہوئے تھے۔

       المالكي، علي بن محمد بن أحمد المالكي المكي المعروف بابن الصباغ (متوفي885هـ)، الفصول المهمة في معرفة الأئمة، ج 2 ص 103 ، تحقيق: سامي الغريري، ناشر: دار الحديث للطباعة والنشر مركز الطباعة والنشر في دار الحديث – قم، الطبعة الأولى: 1422 هـ .

10.غياث الدين بن ہمام الدين حسينی خواند مير (متوفی 942 ہجری):

فارسی کی تاریخ میں مغلوں کے دور سے لے کر آج تک کتاب روضۃ الصفا کے بعد جو کتاب تالیف ہوئی ہے، وہ کتاب حبیب السیر ہے کہ جسکے مصنف کا نام غياث الدين بن ہمام الدين حسينی خواند مير ہے، کہ جو دہم ہجری کے علماء میں سے ہے۔

کتاب حبیب السیر کہ جو قدیم فارسی زبان میں لکھی گئی ہے، جو 14 جلدوں پر مشتمل ہے، کہ اس کتاب کی جلد دوم میں مندرجہ ذیل مباحث ذکر ہوئی ہیں:

1. فضائل آئمہ اطہار سلام الله عليہم اجمعين.

2. حُکام بنی اميہ.

3. خلفائے بنی عباسی.

4. وہ حکماء کہ جو اموی اور عباسی دور میں موجود تھے.

مصنف نے اسی جلد دوم میں امام جواد (ع) کی شخصیت کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

بچپن کے ایام میں ہی نبوت کے گلشن کے پھول کے افعال و کردار سے امامت و بزرگی کے آثار نمایاں تھے۔ دین پروری، علم و دانش کے ایسے آسمان تھے کہ جو محکم و پائیدار تھے۔ شجرہ طیبہ کے ثمر اور اپنے آباؤ اجداد کی طرح کرم اور سخاوت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔

     غياث الدين بن همام الدين الحسيني المدعو به خواندامير، تاريخ حبيب السير، ج 2 ص 93 ، مقدمه جلال الدين همائي؛ زيرنظر محمد دبيرسياقي، دارالنشر: تهران: کتابخانه خيام، 1333 ش.

11.ابن طولون (متوفی 953 ہجری):

شمس الدين محمد بن طولون دمشقی نے بھی ان امام ہمام کے بارے میں لکھا ہے کہ:

تاسعهم ابنه محمد و هو ابو جعفر محمد الجواد بن علي الرضا بن موسي الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العبادين بن الحسين بن علي بن ابي طالب رضي الله عنهم، المعروف بالجواد... و له حکايات و اخبار کثيرة.

آئمہ معصومین میں سے وہ نویں امام تھے، وہ ابو جعفر، محمد الجواد بن علی الرضا بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زين العابدين بن الحسين بن علی بن ابی طالب رضی الله عنہم ہیں کہ جو جواد کے لقب سے مشہور ہیں..... ان سے بہت سی روایات اور حکایات نقل ہوئی ہیں۔

شمس الدین محمد بن طولون، (متوفی 953 هـ)، الأئمة الاثنا عشر، ص 103-104، تحقیق: الدکتور صلاح الدین المنجد، دارالنشر: منشورات الرضی -قم .

12.قرمانی(متوفی 1019 ہجری):

احمد بن يوسف قرمانی عالم اہل سنت نے امام کی عظیم شخصیت کے بارے میں لکھا ہے کہ:

و أما مناقبه فما امتدت أوقاتها و لا تأخر ميقاتها ، بل قضت عليه الأقدار الإلهية بقلة بقائه في الدنيا ، فقل مقامه و عاجله حمامه ، و لم تطل أيامه غير أن الله عز و جل خصه بمنقبة شريفة و آية منيفة.

ان کے فضائل زمانے کے لحاظ سے زیادہ دیر پا موجود نہ رہے، انکی زندگی کے مقرر شدہ ایام میں تاخیر نہ ہوئی اور خداوند کی یہی تقدیر تھی کہ وہ اس دنیا میں بہت کم ایام زندگی گزاریں، انکی زندگی کے ایام زیادہ طولانی نہیں تھے، یعنی امام کی عمر مبارک بہت ہی کم تھی، لیکن اسکے باوجود خداوند نے انکو ایسے فضائل عطا کیے تھے کہ جو انکی ذات کے ساتھ خاص تھے اور علامات بزرگی و شرافت بھی خداوند نے انکو عطا کیں تھیں۔

القرماني، أحمد بن يوسف، (المتوفى: 1019هـ)، أخبار الدول و آثار الأول في التاريخ، ج 1 ص 346 ، المحقق، الدکتور فهمي سعد، الدکتور أحمد حطيط، دار النشر: عالم الکتاب، الطبعة الأولي: 1412 هـ.

13.عبد الفتاح حنفی ہندی (متوفى 1096 ہجری):

مرحوم آيت الله العظمی مرعشی نجفی نے کتاب مفتاح العارف کہ جسکے مصنف علامة عارف خواجة مولوی عبد الفتاح ابن محمد نعمان حنفی ہندی ہیں، سے ایسے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

كان الإمام محمد بن علي الرضا يكنى بأبي جعفر ، فهو سمي جده الباقر و كنيه ، و لذلك يقال له أبو جعفر الثاني ، و كان عليه السلام صاحب الخوارق و الكرامة من طفوليته.

امام محمد بن علی الرضا، انکی کنیت ابو جعفر کہ انکا نام اور کنیت انکے جدّ امام باقر کی طرح تھا۔ انکو ابو جعفر ثانی کہا جاتا تھا۔ وہ اپنے بچپن کے ایام سے ہی صاحب کرامات اور بہت حیرت انگیز کام کرنے والے تھے۔

المرعشي النجفي، السيد شهاب الدين (متوفي1411هـ)، شرح إحقاق الحق، ج 19 ص 585 ، تحقيق وتعليق: السيد شهاب الدين المرعشي النجفي،‌ ناشر: منشورات مكتبة آية الله العظمى المرعشي النجفي - قم – ايران.

14.شبراوی شافعی (متوفی 1171 ہجری):

اس عالم اہل سنت نے امام جواد (ع) کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے کہ:

التاسع من الآئمة محمد الجواد و هو ابو جعفر محمد الجواد بن علي الرضا...و کراماته رضي الله عنه کثيرة و مناقبه شهيرة.

آئمہ میں سے نویں امام، محمد تھے، کہ انکا لقب جواد ہے۔ اور وہ ابو    جعفر محمد الجواد امام رضا کے فرزند ہیں ......

انکی کرامات زیادہ، جبکہ فضائل اور مناقب بھی بہت ہی مشہور ہیں۔

       الشبراوي، الشافعي، عبد الله بن محمد بن عامر، الاتحاف بحبّ الاشراف، ص64 ، مطعبة مصطفي البابي الحلبي وأخويه بمصر .

15.شبلنجی (متوفی 1308 ہجری):

شبلنجی شافعی مذہب کے بزرگان میں سے ہے، اس نے امام جواد (ع) کی چند کرامات کو ذکر کرنے کے بعد ایسے لکھا ہے کہ:

و لم يزل مشعوفا به لما ظهر له بعد ذلک من فضله و علمه و کمال عقله و ظهور براهنه مع صغر سنه و عزم علي تزويجه بابنته ام الفضل.

مامون ہمیشہ ہی انکا دلدادہ تھا، کیونکہ امام نے کم سنی کے باوجود اپنے آپ سے فضل و علم و کمال بنحو احسن ظاہر کیا تھا، اور اسی وجہ سے اپنی شخصیت کے عظیم ہونے پر دلیل و برہان بھی ثابت کر چکے تھے، اسی وجہ سے مامون نے ان سے اپنی بیٹی ام فضل کی شادی کرنے کا ارادہ کیا تھا۔

     شبلنجي الشافعي، حسن بن مومن، نور الابصار في مناقب آل بيت النبي المختار، ص 297 ، قدم له: دکتور عبد العزيز سالمان، المکتبة التوفيقية،

16.نبہانی شافعی (متوفی 1350 ہجری):

   اس نے بھی امام کی شخصیت کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

محمد الجواد بن علي الرضا أحد أکابر الائمة و مصابيح الامة من ساداتنا أهل البيت.

محمد جواد فرزند علی [بن موسی] الرضا، بزرگترین آئمہ میں سے اور اس امت کا چمکتا ہوا چراغ ہیں۔ وہ رسول خدا کے اہل بیت اور ہمارے بزرگان میں سے ہیں۔

النبهاني، يوسف بن اسماعيل، جامع کرامات الأولياء، ص168 ، مرکز أهل سنة برکات رضا فور بندر غجرات، هند، الطبعة الأولي، 2001 م.

17.خير الدين زرکلی (متوفی1410ہجری):

زرکلی کہ اہل سنت کا نسب شناس عالم ہے، اس نے امام کے بارے میں لکھا ہے کہ:

«الملقب بالجواد تاسع الائمة الاثني عشر عند الاماميه کان رفيع القدر کأسلافه ذکيا طلق اللسان قوي البديهة»

انکا لقب جواد ہے، وہ شیعہ اثنا عشری کے نویں امام ہیں۔ اپنے جدّ کی طرح انکا مقام و منزلت بہت بلند تھی۔ وہ ایک ذہین اور آزاد و بے باک بیان اور بہت ہی حاضر جواب تھے۔

      الزركلي، خير الدين (متوفي1410هـ)،‌ الأعلام، ج 6 ص 272 ، ناشر: دار العلم للملايين - بيروت – لبنان، چاپ: الخامسة، سال چاپ : أيار - مايو 1980 مكتبہ اهل البيت کی سی ڈی کے مطابق،

نتیجہ:

امام جواد(ع) کی بلند مرتبہ شخصیت  کہ جو آسمان امامت و ولایت کے نویں ستارے تھے، اس سے بالا تر ہے کہ ایک عام انسان اپنی محدود عقل و علم کے مطابق انکی شان و مقام کو بیان کر سکے، وہ چند الفاظ کہ جو ہم نے  اہل سنت کے علماء  کے امام جواد(ع) کی شان کے بارے میں بیان کیے ہیں، وہ   ان امام ہمام کے فضائل کے بحربیکران کا فقط ایک قطرہ تھا کہ جو آپ عزیزان کی خدمت میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ فضائل اہل سنت کی معتبر ترین کتب میں ذکر و نقل ہوئے ہیں۔ شیعہ مذہب کی کتب تو آئمہ معصومین(ع) کے فضائل سے بھری پڑی ہیں۔ آئمہ معصومین کی نورانی  شخصیت کو فقط خداوندکی ذات مقدس کما حقّہ   ہی جانتی ہے، اسی  لیے انکی شان بیان کرنا، ایک عام انسان کے اختیار سے خارج و بہت دور ہے، کیونکہ ایک نور کی صحیح تعریف، ایک نور ہی کر سکتا ہے، ورنہ ایک ظلمت کا نور سے کیا کام ہے؟؟؟

التماس دعا.....

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی