2024 April 27
اہل بیت علیهم السلام اور ابوبکر کے درمیان اختلافات کے بارے میں "محمد بن صالح العثیمین" کی رائے کا تجزیہ اور تنقید
مندرجات: ٢٢٩٠ تاریخ اشاعت: ٠٥ August ٢٠٢٣ - ١٨:٤٨ مشاہدات: 744
مضامین و مقالات » پبلک
جدید
اہل بیت علیهم السلام اور ابوبکر کے درمیان اختلافات کے بارے میں "محمد بن صالح العثیمین" کی رائے کا تجزیہ اور تنقید

 

 

1.مقدمه

"محمد بن صالح العثیمین" کا شمار ممتاز وہابی شخصیات میں ہوتا ہے۔  وہ مفسر، اصولی اور عبدالعزیز بن باز کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں۔ ان کی فقہی اور حدیثی آراء نے عصری وہابی فکر پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔ اس دانشمند کے اہم کاموں میں سے ایک کتاب "لقاء الباب المفتوح" ہے۔ اس کتاب میں ان کے خیالات اور فتاویٰ کا مجموعہ ہے۔

2. مسئلہ کا بیان

اس کتاب میں اٹھائے گئے سب سے اہم سوالات میں سے ایک وہ سوال ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اہل بیت علیہم السلام اور ابوبکر و عمر کے درمیان ہونے والے تنازعات سے متعلق ہے:

«فضیلة الشیخ! ذکر بعض المؤرخین أن علیاً رضی الله عنه لم یبایع أبا بکر بالخلافة إلا بعد مضی ستة أشهر من خلافته، وبعد وفاة فاطمة بنت محمد رضی الله عنها، فما مدى صحة هذا القول؟

محترم شیخ، سوال یہ ہے کہ بعض مورخین نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے چھ مہینے اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی وفات تک حضرت ابوبکر کی خلافت کی بیعت نہیں کی۔  یہ قول کتنا سچا ہے؟

اس اہم اور حساس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں:

أولاً: إن هذا قوله لا یصح، وقد قیل: إن علی بن أبی طالب بایع أبا بکر من یومه لکنه أسرَّ ذلک عن فاطمة؛ لأن فاطمة رضی الله عنها صار فی قلب‌ها شیء على أبی بکر رضی الله عنه حین منع‌ها من میراث أبیها صلوات الله وسلامه علیه وقوله هو الحق، لأن النبی صلى الله علیه وسلم قال: (إننا معشر الأنبیاء لا نورث) لکن تعرف النساء، وربما یکون هناک أحدٌ من الأعداء یملأ قلب‌ها غیظاً على أبی بکر رضی الله عنه، ولا أدری إن کنت نسیت أنها رضی الله عنها بایعت فی آخر الأمر، لکن علیاً بایع بلا شک مع الناس، إنما غایة ما هنالک أنه أسر ذلک عن فاطمة رضی الله عنها.

اول تو یہ قول صحیح نہیں ہے اور کہا گیا ہے: حضرت علی علیہ السلام نے اسی دن حضرت ابوبکر سے بیعت کی لیکن انہوں نے اس بیعت کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے چھپایا! کیونکہ وہ ابوبکر سے تھوڑا مایوس تھا کیونکہ اس نے اسے اپنے والد سے وراثت سے روکا تھا! اور ابوبکر کا عقیدہ درست تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اننا معشر الانبیاء لا نورث" کا مطلب ہے کہ ہم تمام انبیاء کوئی میراث نہیں چھوڑتے!  خواتین ائمہ کے خاص اخلاق ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ مشہور ہیں! شاید دشمنوں میں سے کسی نے، جس کے دل میں ابوبکر کے لیے نفرت بھری ہوئی تھی، اس معاملے میں مداخلت کی، اور مجھے نہیں معلوم کہ آخر اس نے ان کی بیعت کی یا نہیں؟  لیکن علی نے بلاشبہ لوگوں کے ساتھ ابوبکر کی بیعت کی، حقیقت یہ ہے کہ اس نے ابوبکر کی بیعت کو اپنی بیوی حضرت زہرا سے چھپایا۔

محمد بن صالح العثیمین، لقاء الباب المفتوح، گفتگوی 97، صفحه 17 

3. محمد بن عثیمین کی غلط فکر پر تنقید:

مندرجہ بالا سوال و جواب پر کئی طریقوں سے تنقید کی جا سکتی ہے:

3/1۔ سوال میں ایک هوشمندانه موڑ ہے جس کا مقصد بعض تاریخی حقائق کو جھٹلانا ہے۔

اس مسئلہ پر متعدد روایات اور تاریخی سند کا جائزہ لینے سے - جن میں سے بعض کا ذکر ذیل میں کیا جائے گا - یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر کی بیعت نہ کرنے کا اصول بخاری، مسلم، ترمذی، احمد، ابن حنبل، نسائی، بیهقی وغیرہ جیسے عظیم محدثین کے نزدیک ایک غیر متنازعہ معاملہ تھا۔

سائل نے مذکورہ حدیثی سند کی صداقت پر سوال اٹھانے کے بجائے عنوان کو تاریخی کتب کی سند میں بدل دیا ہے - یقیناً ایک آدھے پیراگراف کی صورت میں اور بعض تاریخی کتب کہہ کر - اور عدم وفا اور اختلاف کے ثبوت اورسند میں کمزوری ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

3/2۔ مستند اہلسنت منابع میں عدم وفاداری کی نشاندہی کرنے والی روایت کا وجود

محمد بن عثیمین نے امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے چھ ماہ تک ابوبکر کی عدم وفاداری پر دلالت کرنے والی روایتوں اور خبروں کی عدم سند کا دعویٰ کیا ہے۔  یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ صحیح بخاری و مسلم میں اہل سنت کے درمیان جو کچھ ہوا اس کی روایت موجود ہے جو اس وہابی شیخ کے جھوٹ کو بے نقاب کرتی ہے:

«... أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَیْهَا السَّلاَمُ، بِنْتَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِی بَکْرٍ تَسْأَلُهُ مِیرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ... فَأَبَى أَبُوبَکْرٍ أَنْ یَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَیْئًا، فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِی بَکْرٍ فِی ذَلِکَ، فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُکَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّیَتْ، وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّیَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِیٌّ لَیْلًا، وَلَمْ یُؤْذِنْ بِهَا أَبَابَکْرٍ وَصَلَّى عَلَیْهَا، ... وَلَمْ یَکُنْ یُبَایِعُ تِلْکَ الأَشْهُرَ ...»

درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ابوبکر کو پیغام بھیجا اور میراث کی درخواست کی۔۔۔۔۔ ابوبکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دینے سے انکار کر دیا اور کچھ بھی نہ دیا۔  چنانچہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ابوبکر کے اس عمل سے سخت ناراض ہوئیں اور ابوبکر سے اس وقت تک بات نہیں کی جب تک کہ ان کا انتقال نہ ہوگیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہے اور جب ان کا انتقال ہوا تو علی نے انہیں رات کو دفن کیا اور حضرت ابوبکر کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے جسد خاکی پر نماز پڑھنے کی اجازت نہ دی اور خود ان پر نماز پڑھی... آپ علیہ السلام نے ان چھ مہینوں میں ابوبکر سے بیعت نہیں کی۔

بخاری جعفی، محمد بن إسماعیل أبو عبدالله (متوفای 256 هـ)، صحیح البخاری، ج 4، ص 1549، ح 3998، تحقیق د. مصطفی دیب البغا، ناشر: دار ابن کثیر، الیمامة - بیروت، الطبعة: الثالثة، 1407 – 1987

قشیری نیشابوری، مسلم بن الحجاج أبو الحسین، صحیح مسلم، ج 3، ص 1380، ح 1759، ناشر: دار إحیاء التراث العربی – بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، 5 جلد، به همراه تحقیقات محمد فؤاد عبد الباقی

قابل ذکر ہے کہ مذکورہ روایت کے مطابق امیر المومنین علی علیہ السلام نے چھ ماہ تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی!  "بخاری" کی تعبیر یوں ہے: "وَلَمْ یَکُنْ یُبَایِعُ تِلْکَ الأَشْهُرَ ..." اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان چھ مہینوں میں جب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا زندہ تھیں، ان میں بیعت بالکل نہیں تھی۔  "لَمْ یَکُنْ یبایع" کے لفظ کا استعمال اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے شروع سے ہی ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی!

مندرجہ بالا روایت کی سند چونکہ صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہے، اس لیے تمام اہل سنت علماء کا  اتفاق اور اجماع ہے۔

3/3۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے غصے اورارتباط منقطع ہونے کو ایک عام خاتون کی دل آزاری تک کم کرنا

صحیح بخاری اور مسلم جیسے مستند اہلسنت ذرائع کے مطابق - جس کا پچھلے حصے میں ذکر کیا گیا ہے - حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ابوبکر سے ناراض ہوگئیں اور ان سے رابطہ منقطع کردیا یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا۔  دریں اثنا، محمد بن عثیمین نے اس غصے کو ایک عام خاتون کی مایوسی میں بدلنے کی بہت کوشش کی ہے۔

اہل بیت علیہم السلام کے ظلم و ستم سے متعلق بعض حقائق کو روز روشن کی طرح کیوں جھٹلایا جاتا ہے؟  صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے شدید غصے کو سادہ دکھ میں کیوں بدل دیا گیا؟ فاطمی کے غصے کا کیا اثر ہوتا ہے؟  کیا محمد بن عثیمین کو معلوم تھا کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے غضب کو ثابت کر کے ابوبکر کے خلاف غضب الٰہی اور نبوی غضب میں خلیفہ اول بھی شامل ہے؟  کیونکہ اہل سنت کے بعض منابع اور احادیث کے مطابق صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے غضب کا تعلق اللہ تعالیٰ کے غضب سے ہے:

4734 - حدثنا أبو سهل أحمد بن محمد بن زیاد القطان ببغداد ثنا إسماعیل بن إسحاق القاضی ثنا إسحاق بن محمد الفروی ثنا عبد الله بن جعفر الزاهری عن جعفر بن محمد عن عبد الله بن أبی رافع عن المسور بن مخرمة رضی الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله علیه و سلم: إنما فاطمة شجنة منی یبسطنی ما یبسطها و یقبضنی ما یقبضها  هذا حدیث صحیح الإسناد و لم یخرجاه  تعلیق الذهبی قی التلخیص: صحیح

مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ میری شجنه ہے۔ جو چیز اسے خوش کرتی ہے وہ مجھے خوش کرتی ہے اور جو چیز اسے غمگین کرتی ہے وہ مجھے غمگین کرتی ہے۔ یہ حدیث بخاری اور مسلم کی اپنی صحیح میں موجود شرائط کی بنا پر صحیح ہے۔

حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک على الصحیحین، ج3، ص: 168، دار الکتب العلمیة – بیروت، الطبعة الأولى، 1411 – 1990، تحقیق: مصطفى عبد القادر عطا، عدد الأجزاء: 4

لغت میں شجنہ کا مطلب ہے قربت اور انحصار اور ایک چیز کا دوسری چیز کے ساتھ مضبوط الجھنا۔ مثال کے طور پر، ایک انگور کا درخت جس کی ایک اصلی شاخ ہے  یا انسانی دل، جس کا اپنے رگ‌وں سے گہرا تعلق ہے۔  یہ درخت اور دل کی اصلی شاخ اور کلیدی رگ کی تعلق کو شجنه کہا جاتا ہے۔

ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج۱۳،ص۲۳۳، بیروت، چاپ: سوم، 1414 ه.ق.

ابن اثیر، مبارک بن محمد، النهایة فی غریب الحدیث و الأثر، ج۲، ص۴۴۷،  قم، چاپ: چهارم، 1367 ه.ش.

اس روایت کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجنه ہیں۔ یہ مضبوط تعلق اور انحصار ایسا ہے کہ اگر صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا خوش ہوں تو پوری کائنات کا دل، یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہے! اور اگر وہ ناراض اور غمگین ہے تو وہ بھی ناراض اور غمگین ہوگا۔ اس کے مطابق صدیقہ طاہرہ کا خوشی اور ناخوشی، اطمینان اور غصہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خوشی اور ناخوشی، اطمینان اور غصہ کا سبب ہے۔ نیز آیات اور روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ اور اطمینان خدا کے غضب اور رضایت سے مربوط ہے۔ درج ذیل حدیث صحیح بخاری کی سب سے مستند کتابوں میں شامل ہے۔ اس کتاب کی روایات کو تمام اہل سنت نے قبول کیا ہے۔

3510 - حدثنا أبو الولید حدثنا ابن عیینة عن عمرو بن دینار عن ابن أبی ملیکة عن المسور بن مخرمة: أن رسول الله صلى الله علیه و سلم قال: فاطمة بضعة منی فمن أغضبها أغضبنی.

"...مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے، جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا"۔

بخاری جعفی، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح المختصر، ج3، ص: 1361، دار ابن کثیر، الیمامة – بیروت، الطبعة الثالثة، 1407 – 1987، 6 جلد

مذکورہ بالا روایت کا مقصد حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے غصے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے کے درمیان قطعی تعلق کو بیان کرنا ہے۔  آیات الٰہی کا ذکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں:

«إِنَّ الَّذینَ یُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِی الدُّنْیا وَ الْآخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذاباً مُهینا» (الأحزاب: 57)

بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول(ص) کو اذیت پہنچاتے ہیں اللہ ان پر دنیا و آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کیلئے رسوا کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ (57)

نتیجہ یہ ہے کہ جو کوئی فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اذیت دیتا ہے اس پر دنیا اور آخرت میں خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لعنت ہے۔ جی ہاں! محمد بن عثیمین کو ابوبکر کا دفاع کرنے اور صحیح بخاری و مسلم کی قطعی سچائیوں سے فرار کی وجہ سے حقائق کا انکار کرنا پڑا۔

3/4۔ حضرت علی علیه السلام کی ابوبکر کے ساتھ بلا وجہ خفیہ بیعت کا الزام

وہابی مصنف ایک تبصرہ میں کہتے ہیں: «... إن علی بن أبی طالب بایع أبا بکر من یومه لکنه أسرَّ ذلک عن فاطمة ...»  بے شک علی (علیہ السلام) نے ابوبکر کی بیعت چھپ کر اور خفیہ طور پر کی تھی تاکہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کو پتہ نہ چل سکے! یہ دعویٰ بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے کیا گیا ہے اور ضعیف ہے! ایک طرف تو وہابی عالم اولیاء اللہ سے علم غیب کی تردید کرتا ہے، لیکن یہاں وہ غیب کی بات کرتا ہے اور ایسی بیعت کا دعویٰ کرتا ہے جس کے بارے میں صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا اور ان سے بڑھ کر کئی صحابہ کو معلوم نہیں!

3/5۔ بخاری اور مسلم کی صحیح روایت کو دیگر روایات اور تاریخی شواہد پر فوقیت

اگر ہم فرض کریں کہ سقیفہ کے دن حضرت علی علیه السلام کی ابوبکر سے بیعت کرنے کے بارے میں اہلسنت کی روایات موجود ہیں کہ یہ روایتیں بخاری اور مسلم وغیرہ کی صحیح روایات سے تعارض ہیں کہ چھ ماہ کے بعد بیعت [بلاشبہ شیعہ کے اصولوں کے مطابق واجب]، اہل سنت کا بنیادی اصول کے مطابق صحیح بخاری اور مسلم کی روایت کو مقدم کرنا ہے۔ سبکی 'رفع الحجاب ' میں لکھتے ہیں:

«... فالصحیحان مقدمان علیه، ولو کان على شرطهما؛ لأن لشهرتهما وقبول الأمة بالقبول ما لیس لغیرهما، وإن ساواهما فی درجة الصحة، ولذلک قال الأستاذ أبو إسحاق وغیره من أئمتنا: إن کل ما فیهما مقطوع به»

"صحیح بخاری اور مسلم ابن ماجہ کی کتابوں پر مقدم ہیں۔  اگرچہ یہ دونوں کے معیار پر مبنی ہے؛  کیونکہ ان دونوں کتابوں کی شہرت اور قوم کی طرف سے ان کی قبولیت ایک ایسی خصوصیت ہے جو دوسری کتابوں میں نہیں ہے۔ حالانکہ سند کے اعتبار سے یہ صحیح بخاری و مسلم کے برابر ہے۔  چنانچہ استاد ابواسحاق اور ہمارے دوسرے قائدین نے کہا ہے: بے شک ان ​​دونوں کتابوں میں جو کچھ ہے وہ یقینی ہے۔

السبکی، تاج الدین أبی النصر عبد الوهاب بن علی بن عبد الکافی (متوفای 646 هـ)، رفع الحاجب عن مختصر ابن الحاجب، ج 4، ص 618، تحقیق: علی محمد معوض، عادل أحمد عبد الموجود، دار النشر: عالم الکتب - لبنان / بیروت - 1999 م - 1419 هـ الطبعة: الأولى

مذکورہ قاعدہ کے مطابق اگر وہابیت کی روایت بھی صحیح سند ہے تو بخاری اور مسلم کی صحیح روایت اس سے پہلے ہے۔

  سبکی کے علاوہ بخاری دہلوی بھی لکھتے ہیں:

«فاعلم أن الذی تقرر عند جمهور المحدثین أن صحیح البخاری مقدم على سائر الکتب المصنفة حتى قالوا أصح الکتب بعد کتاب الله تعالى صحیح البخاری»

’’آپ کو معلوم ہے کہ جمہور محدثین سے ثابت ہے کہ صحیح بخاری دوسری کتابوں سے آگے ہے جہاں تک وہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بعد سب سے زیادہ مستند کتابیں صحیح بخاری ہیں۔

البخاری الدهلوی، عبد الحق بن سیف الدین بن سعد الله (متوفای 1052 هـ)، مقدمة فی أصول الحدیث، ج 1، ص 85، تحقیق: سلمان الحسینی الندوی، دار النشر: دار البشائر الإسلامیة - بیروت – لبنان، الطبعة: الثانیة 1406 هـ - 1986 م

نتیجہ یہ ہے کہ بخاری و مسلم کی صحیح روایات کے باوجود جو خلافت کے مسئلہ میں حضرت علی علیہ السلام اور حضرت ابوبکر کے درمیان گہرے اختلاف کی نشاندہی کرتی ہیں۔  کسی دوسری روایت میں اس کی تردید کی طاقت نہیں ہے اور ایک فقیہ اور عالم کو ان روایات کے مندرجات پر حکمرانی کرنی چاہیے!

اس قطعی اصول کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ محمد بن عثیمین نے حضرت علی علیہ السلام کی خفیہ بیعت پر دلالت کرنے والی [خیالی] روایات پیش کیں اور صحیح علمی بنیاد اور اس کے لوازمات کا ذکر نہیں کیا۔

3/6۔ ایک جعلی حدیث کا حوالہ دینا جو تمام انبیاء کی غیر میراث پر دلالت کرتا ہے۔

ابوبکر کی رازداری کا دفاع کرنے اور فدک کو غصب کرنے اور صدیقہ طاہرہ پر ظلم و ستم کے اپنے جرم کا جواز پیش کرنے کے لیے، محمد بن عثیمین نے جعلی حدیث "انا معشر الانبیاء لا نورث ماترکنا" کا حوالہ دے کر صدقہ کیا۔  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس اور  حضرت علی کی مخالفت کا ذکر نہیں کرتے۔ کیونکہ ان دو عظیم صحابہ کے نقطہ نظر سے ابوبکر ایک خیانت کار، جھوٹے، فاسق و فاجر شخص تھے ان کے اس دعوے میں کہ انبیاء کی میراث نہیں ہے۔ مسلم نیشابوری اپنی صحیح میں اس طرح نقل کرتے ہیں:

«... فقال أبو بکر قال رسول الله صلى الله علیه و سلم (ما نورث ما ترکنا صدقة) فرأیتماه کاذبا آثما غادرا خائنا والله یعلم إنه لصادق بار راشد تابع للحق ثم توفی أبو بکر وأنا ولی رسول الله صلى الله علیه و سلم و ولی أبا بکر فرأیتمانی کاذبا آثما غادرا خائنا ...»

"... ابوبکر نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  "ہم انبیاء میراث نہیں چھوڑتے اور جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے۔"  اور تم دونوں [امیر المومنین علی (علیہ السلام) اور عباس] اسے غدار، جھوٹا، غدار اور گنہگار سمجھتے تھے، جب کہ خدا جانتا ہے کہ وہ سچا، نیک، صالح اور حق کا فرمانبردار تھا۔  پھر ابوبکر کا انتقال ہو گیا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین ہوا،  لیکن تم دونوں مجھے غدار، جھوٹا، غدار اور گناہ گار سمجھتے ہو؟"

قشیری نیشابوری، مسلم بن الحجاج أبو الحسین، صحیح مسلم، ج3، ص1376، ح: 941،  ناشر: دار إحیاء التراث العربی – بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، 5جلد، به همراه تحقیقات محمد فؤاد عبد الباقی

نیز یہ بھی واضح رہے کہ ابوبکر کی نقل کی گئی روایت متعدد علمی، روایت، قرآنی، تاریخی وغیرہ شواہد پر مبنی جعلی اور جھوٹی ہے، اور ہم ذیل میں ان میں سے دو شواہد کا ذکر کریں گے:

3/6/1۔ اہل بیت علیہم السلام کی "لانورث" حدیث کی مخالفت

حدیث "لا نورث" کے اصل مخالفین میں حضرت فاطمہ زہرا اور امیر المومنین علیہا السلام ہیں۔  بخاری کی صحیح روایت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) اور حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) ابوبکر کے اس دعوے کے خلاف تھے:

«حَدَّثَنَا یَحْیَى بْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ عُقَیْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَیْهَا السَّلاَمُ، بِنْتَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِی بَکْرٍ تَسْأَلُهُ مِیرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَیْهِ بِالْمَدِینَةِ وَفَدَکَ، وَمَا بَقِىَ مِنْ خُمُسِ خَیْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - قَالَ «لاَ نُورَثُ، مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا یَأْکُلُ آلُ مُحَمَّدٍ - صلى الله علیه وسلم - فِى هَذَا الْمَالِ». وَإِنِّى وَاللَّهِ لاَ أُغَیِّرُ شَیْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - عَنْ حَالِهَا الَّتِى کَانَ عَلَیْهَا فِى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم - وَلأَعْمَلَنَّ فِیهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله علیه وسلم فَأَبَى أَبُوبَکْرٍ أَنْ یَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَیْئًا، فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِی بَکْرٍ فِی ذَلِکَ، فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُکَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّیَتْ، وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّیَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِیٌّ لَیْلًا، وَلَمْ یُؤْذِنْ بِهَا أَبَابَکْرٍ وَصَلَّى عَلَیْهَا»

’’درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ابوبکرکو پیغام بھیجا اور میراث کی درخواست کی۔ مدینہ میں فی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خالصہ بھی شامل ہے جو فدک اور باقی خیبر کا خمس تھا۔  بے شک ابوبکر نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے جواب میں فرمایا:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم انبیاء میراث نہیں چھوڑتے، اور ہمارا وقف صدقہ ہے، اور بے شک آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس مال سے کھاتے ہیں۔" "  اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ کو اس کی سابقہ​​حالت سے نہیں بدلوں گا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا، اور میں اس مال کے ساتھ بھی ایسا ہی کروں گا جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ چنانچہ ابوبکر نے اس میں سے کچھ بھی فاطمہ کو واپس کرنے سے انکار کردیا۔  چنانچہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ابوبکر کے اس فعل سے بہت ناراض ہوئیں اور ابوبکر سے کوئی بات نہیں کی۔  [ایک اور روایت میں، "فلم تزل مهاجرته حتی توفیت ..." کا مطلب ہے کہ اس کا غصہ مسلسل جاری رہا...] یہاں تک کہ اس کی موت ہوگئی۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہے اور جب آپ کا انتقال ہوا توحضرت علی  نے انہیں رات کو دفن کیا اور حضرت ابوبکر کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے جسد خاکی پر نماز پڑھنے کی اطلاع نہیں دی اور اس نے خود نماز پڑھی۔"

بخاری جعفی، محمد بن إسماعیل أبو عبدالله (متوفای 256 هـ)، صحیح البخاری، ج 4، ص 1549، ح 3998 و ج 3، ص 2226، ح 2926 تحقیق د. مصطفی دیب البغا، ناشر: دار ابن کثیر، الیمامة - بیروت، الطبعة: الثالثة، 1407 – 1987

قشیری نیشابوری، مسلم بن الحجاج أبو الحسین، صحیح مسلم، ج 3، ص 1380، ح 1759، ناشر: دار إحیاء التراث العربی – بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، 5 جلد، به همراه تحقیقات محمد فؤاد عبد الباقی

مندرجہ بالا حدیث سے حضرت زہرا کی ابوبکر کے دعوے کی مخالفت اور وفات تک ان کے غصے کے بارے میں واضح ہے۔

صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی مخالفت کے علاوہ ابوبکر کے انبیاء کی وراثت نہ ہونے کے دعویٰ کی مخالفت کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام نے بھی اس دعوے کی مخالفت کی۔ یہ مخالفت برسوں جاری رہی۔  جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، مسلم نیشابوری نے اپنی صحیح میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں عمر بن خطاب نے اعتراف کیا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے ان کا اور ابوبکر کو غدار، جھوٹا، گنہگار وغیرہ کے طور پر متعارف کرایا ہے۔  مندرجہ بالا سند کے علاوہ، جو اہل بیت علیہم السلام کی حدیث "لا نورث" کے قطعی اور غیر واضح انکار کو ظاہر کرتی ہیں، ایک ایسا مضمون جس نے اہلسنت عمائدین کو چیلنج کیا اور ان کے ذہنوں میں نہ دینے والے جواب کے سوالات پیدا کئے، یہ اس وقت کہ حضرت علی علیہ السلام نے کئی سالوں کے سقیفہ واقعات کے بعد دوبارہ عمر بن الخطاب کی خلافت کے آخری سالوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میراث کے عنوان سے اپنے کھوئے ہوئے حقوق کا مطالبہ کیا۔ ابن حجر اس بارے میں لکھتے ہیں:

«وَفِی ذَلِکَ إِشْکَال شَدِید وَهُوَ أَنَّ أَصْلَ الْقِصَّةِ صَرِیح فِی أَنَّ الْعَبَّاس وَعَلِیًّا قَدْ عَلِمَا بِأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «لَا نُورَثُ» فَإِنْ کَانَا سَمِعَاهُ مِنْ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَکَیْفَ یَطْلُبَانِهِ مِنْ أَبِی بَکْر؟ وَإِنْ کَانَا إِنَّمَا سَمِعَاهُ مِنْ أَبِی بَکْر أَوْ فِی زَمَنِهِ بِحَیْثُ أَفَادَ عِنْدَهُمَا الْعِلْم بِذَلِکَ فَکَیْفَ یَطْلُبَانِهِ بَعْدَ ذَلِکَ مِنْ عُمَر؟»

"اور اس بار بار کے مطالبے میں ایک بہت سنگین مسئلہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ اصل قصہ اس میں واضح ہے کہ عباس اور علی علیہما السلام کو خبر ہوگیے تھے کہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہا: ہم نبی میراث نہیں چھوڑتے۔ اگر انہوں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو تو تو وہ ابوبکر سے میراث کیسے مانگتا ہے؟ نیز اگر ان دونوں نے یہ روایت صرف ابوبکر سے سنی تھی اور ابوبکر کے قول سے انہیں یہ علم حاصل ہوا تھا کہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے، اس کے باوجود انہوں نے عمر کے زمانے میں دوبارہ ارث کا مطالبہ کیوں کیا؟

العسقلانی الشافعی، أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج 6، 207، ناشر: دار المعرفة - بیروت، 1379، 13 جلدی

ابن حجر کے سوالات کے سلسلے میں ہمیں یہ کہنا ضروری ہے:

اول: عمر بن خطاب کے اقرار پر غور کریں کہ ان کا جھوٹا، غدار، فاسق وغیرہ ہونا حضرت علی کے قول کے مطابق یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس امام کے لیے ان کی مبینہ روایت [ابوبکر و عمر] سے حدیث "لا نورت" کے بارے میں کوئی علم حاصل نہیں ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا کوئی لفظ نہیں کہا۔

دوم: یہ ماننے کے بجائے کہ یہ حدیث حضرت زہرا اور حضرت علی کی مخالفت کی وجہ سے جھوٹی ہے، سوالات اٹھا کر اور ابہام پیدا کر کے ابوبکر کا دفاع کرنے کی کوشش کیا جا رہا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام اور حضرت زہرا علیہا السلام کی مخالفت کے علاوہ حدیث کے منابع میں امام حسن اور حسین علیہما السلام نے فدک کی جائیداد میں سے اپنے حق کا مطالبہ کیا تھا مولا علی علیہ السلام کا دور حکومت۔  یہ ابوبکر اور عمر کے دعوے کے خلاف ہے:

4172 - قال الشافعی: أخبرنا، عن جعفر بن محمد، عن أبیه، أن حسنا، وحسینا، وابن عباس، وعبد الله بن جعفر سألوا علیا بقسم من الخمس، قال: «هُوَ لَکُمْ حَقٌّ، وَلَکِنِّی مُحَارِبُ مُعَاوِیَةَ، فَإِنْ شِئْتُمْ تَرَکْتُمْ حَقَّکُمْ مِنْهُ»

درحقیقت امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام، عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر نے امیر المومنین علیہ السلام سے خمس تقسیم کرنے کو کہا۔ جواب میں انہونے فرمایا: یہ خمس تمہارا حق ہے (ذی القربی) لیکن میں معاویہ کے ساتھ جنگ ​​میں مصروف ہوں، اس لیے اگر تم اپنے حق خمس سے دستبردار ہونا چاہتے ہو تو یہ تمہارے اختیار میں ہے۔

بیهقی، أحمد بن الحسین، معرفة السنن والآثار، ج 9، ص 271، محقق: عبد المعطی أمین قلعجی، ناشر: جامعة الدراسات الإسلامیة و دار والوعی و دار قتیبة، کراتشی و حلب و دمشق، چاپ اول، سال نشر:1412 هـ، 1991 م، 15 جلد

نتیجہ:

اہل بیت علیہم السلام کی مخالفت اور انکار "لا نورث" کی روایت کے حوالے سے بالکل واضح ہے۔  اگر کوئی ان کو آیات تطہیر اور مباہلہ وغیرہ کی مثالیں نہ سمجھے اور ان کے ہزاروں فضائل و مناقب پر غور نہ کرے اور ان کے مقام کو ایک صحابی کے برابر سمجھے تو دو صحابہ کی مخالفت کے ساتھ جو ان کی ولادت سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک زندہ رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تربیت کی تھی، اس سے حدیث "لا نورث" کی سند کے بارے میں شدید شکوک پیدا ہوں گے۔

3/6/2۔ قرآن کی مخالفت

ابوبکر کی نقل کردہ حدیث، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انبیاء کو میراث نہیں ملی، قرآن کریم کی متعدد آیات سے تعارض ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے خطبہ فدکیہ میں اس معاملے کو بہترین انداز میں بیان فرمایا ہے:

«وَ أَنْتُمُ الْآنَ تَزْعُمُونَ أَنْ لَا إِرْثَ لَنَا أَ فَحُکْمَ الْجاهِلِیَّةِ یَبْغُونَ وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُکْماً لِقَوْمٍ یُوقِنُونَ أَ فَلَا تَعْلَمُونَ؟ بَلَى قَدْ تَجَلَّى لَکُمْ کَالشَّمْسِ الضَّاحِیَةِ أَنِّی ابْنَتُهُ أَیُّهَا الْمُسْلِمُونَ أَ أُغْلَبُ عَلَى إِرْثِی یَا ابْنَ أَبِی قُحَافَةَ أَ فِی کِتَابِ اللَّهِ تَرِثُ أَبَاکَ وَ لَا أَرِثُ أَبِی لَقَدْ جِئْتَ شَیْئاً فَرِیًّا أَ فَعَلَى عَمْدٍ تَرَکْتُمْ کِتَابَ اللَّهِ وَ نَبَذْتُمُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِکُمْ إِذْ یَقُولُ وَ وَرِثَ سُلَیْمانُ داوُدَ وَ قَالَ فِیمَا اقْتَصَّ مِنْ خَبَرِ یَحْیَى بْنِ زَکَرِیَّا إِذْ قَالَ- فَهَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا یَرِثُنِی وَ یَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ وَ قَالَ وَ أُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ فِی کِتابِ اللَّهِ وَ قَالَ یُوصِیکُمُ اللَّهُ فِی أَوْلادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ وَ قَالَ إِنْ تَرَکَ خَیْراً الْوَصِیَّةُ لِلْوالِدَیْنِ وَ الْأَقْرَبِینَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِینَ- وَ زَعَمْتُمْ أَنْ لَا حُظْوَةَ لِی وَ لَا أَرِثَ مِنْ أَبِی وَ لَا رَحِمَ بَیْنَنَا أَ فَخَصَّکُمُ اللَّهُ بِآیَةٍ أَخْرَجَ أَبِی مِنْهَا أَمْ هَلْ تَقُولُونَ إِنَّ أَهْلَ مِلَّتَیْنِ لَا یَتَوَارَثَانِ أَ وَ لَسْتُ أَنَا وَ أَبِی مِنْ أَهْلِ مِلَّةٍ وَاحِدَةٍ أَمْ أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِخُصُوصِ الْقُرْآنِ وَ عُمُومِهِ مِنْ أَبِی وَ ابْنِ عَمِّی فَدُونَکَهَا مَخْطُومَةً مَرْحُولَةً تَلْقَاکَ یَوْمَ حَشْرِکَ فَنِعْمَ الْحَکَمُ اللَّهُ وَ الزَّعِیمُ مُحَمَّدٌ وَ الْمَوْعِدُ الْقِیَامَة»

طبرسى، احمد بن على، الإحتجاج على أهل اللجاج (للطبرسی)، ج1؛ ص102، مشهد، چاپ: اول، 1403 ق.

’’اور اب تم سمجھتے ہو کہ ہماری کوئی میراث نہیں، کیا تم جاہلیت کے اصولوں پر چل رہے ہو؟  اب اہل یقین کی نظر میں خدا کے حکم سے بہتر کوئی حکم نہیں، کیا تم نہیں سمجھتے؟  ہاں تم پر حقیقت واضح ہے کہ میں نبی کی بیٹی ہوں۔ اے مسلمانو کیا یہ درست ہے کہ مجھے میراث سے محروم کر دیا جائے؟ اے ابو قحافہ کے بیٹے کیا قرآن میں ہے کہ تو اپنے باپ سے میراث لو اور میں اپنے باپ سے میراث نہ لوں؟  کیا آپ کو اپنی تحقیقات سے کوئی نیا اور جھوٹا فیصلہ ملا؟ کیا تم نے جان بوجھ کر خدا کی کتاب کو چھوڑ دیا ہے اور اس کے احکام کو نظرانداز کیا ہے؟  کیونکہ خدا فرماتا ہے:

اور سلیمان داؤد کے وارث ہوئے اور کہا اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہمیں ہر قسم کی چیزیں عطا کی گئی ہیں۔ بےشک یہ (اللہ کا) کھلا ہوا فضل و کرم ہے۔(نمل ۱۶)

اور زکریا علیہ السلام کے بیٹے [پیدائش] کا قصہ بھی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اور میں اپنے بعد بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں۔ اور میری بیوی بانجھ ہے سو تو ہی مجھے (خاص) اپنے پاس سے ایک وارث عطا کر۔ (5) جو میرا بھی وارث بنے اور آل یعقوب کا بھی اور اے میرے پروردگار! تو اسے پسندیدہ بنا۔ (6) (ارشاد ہوا) اے زکریا! ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ جس کا نام یحییٰ ہوگا جس کا اس سے پہلے ہم نے کوئی ہمنام نہیں بنایا۔ (7) زکریا نے (از راہ تعجب) کہا اے میرے پروردگار! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا؟ جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچا ہوا ہوں۔ (8) ارشاد ہوا: ایسا ہی ہوگا۔ تمہارا پروردگار فرماتا ہے کہ وہ مجھ پر آسان ہے اور میں نے ہی اس سے پہلے تمہیں پیدا کیا جبکہ تم کچھ بھی نہ تھے۔ (9)

اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ بھی تم ہی میں داخل ہیں اور جو صاحبانِ قرابت ہیں، وہ اللہ کی کتاب میں (میراث کے سلسلہ میں) ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ بے شک اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔ (انفال:75)

اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ برابر ہے دو لڑکیوں کے اب اگر لڑکیاں ہی وارث ہوں اور ہوں بھی دو سے اوپر تو ان کو دو تہائی ترکہ دیا جائے گا اور ایک لڑکی (وارث) ہو تو اسے آدھا ترکہ دیا جائے گا۔ اور اگر میت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کے لئے ترکہ کا چھٹا حصہ ہوگا (اور باقی اولاد کا) اور اگر بے اولاد ہو۔ اور اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کو تیسرا حصہ ملے گا (باقی ۳/۲ باپ کو ملے گا) اور اگر اس (مرنے والے) کے بھائی (بہن) ہوں تو پھر اس کی ماں کو چھٹا حصہ ملے گا (باقی ۶/۵ بہن بھائیوں کو ملے گا) مگر یہ تقسیم اس وقت ہوگی، جب میت کی وصیت پوری کر دی جائے۔ جو وہ کر گیا ہو اور اس کا قرضہ ادا کر دیا جائے گا جو اس پر ہو۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ یا تمہاری اولاد میں سے نفع رسانی کے لحاظ سے کون تمہارے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے اللہ کی طرف سے مقرر ہیں، یقینا اللہ بڑا جاننے والا اور بڑا حکمت والا ہے۔ (نساء:11)

تم پر لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آکھڑی ہو۔ بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب وصیت کر جائے اپنے ماں، باپ اور زیادہ قریبی رشتہ داروں کیلئے۔ یہ پرہیزگاروں کے ذمہ حق ہے (لازم ہے)۔ (180)

اور تم نے سوچا کہ میں اپنے باپ کی میراث کا حقدار نہیں ہوں اور ہمارے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے؟ کیا قرآن کی عام آیات آپ کے لیے مخصوص ہیں، لیکن میرے والد اس میں شامل نہیں؟!  کہی آپ یہ نہ سمجھے کہ ہم دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اور وارث نہیں ہیں؟ [میں اور میرے والد ایک ہی مذہب سے نہیں ہیں اور ایک دوسرے کے وارث نہیں ہیں؟!] کیا آپ میرے والد اور میرے چچا زاد بھائی کے بارے میں بالعموم اور قرآن مجید کی آیات کو نہیں جانتے؟! پھر انہوں نے ابوبکر سے کہا: آج تم نے ہم سے فدک چھین لیا، اور اگرچہ تمہاری کوئی مخالفت نہیں ہے، لیکن جان لو کہ حشر کے دن خدا ہی حاکم ہے، اور وہ کیا ہی اچھا حکمران ہے!  اور ہمارے قائد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کتنے اچھے رہنما ہیں!  اور ہمارا وعدہ قیامت کا دن ہو گا..."

طبرسى، احمد بن على، الإحتجاج / ترجمه جعفرى، ج1، ص: 235و234، تهران، چاپ: اول، 1381 ش.

ابوبکر کی دعویٰ کردہ حدیث درج ذیل دو طریقوں سے قرآن سے تعارض ہے:

پہلی شکل: عموم "لا نورث"، خاص طور پرقید "انا معاشر الانبیاء" پر غور کرتے ہوئے کہ متن عموم اوراباء کو تخصیص کیا گیا ہے۔  قرآن مجید کی متعدد آیات سے اس کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور اس خلاف ورزی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت جھوٹی ہے۔

دوسری جہت: وراثت اور وصیت کے معاملے میں قرآن کے بہت سے مجموعوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارثوں کی خارج ہونا اسے بغیر کسی تنازعہ یا شک کے ایک قطعی اور مضبوط وجہ کی ضرورت ہے کیونکہ:

اول: ارث کی آیات قران میں متعدد ہیں اور سب کے معنی ایک ہیں اور شارع حکیم ارث کی تمام حدود کو بیان کرنے کی صلاحیت میں تھا  اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان اور ورثاء کی تقسیم کا کوئی حوالہ نہیں دیا ہے۔  دوسرے لفظوں میں قرآنی حوالوں کی کثرت، جو شرائط اور اشارے سے خالی ہے، اسے مشکوک روایت اور خبر سے جوڑنے سے روکتی ہے۔  باوجود اس کے کہ ارث کی متعدد آیات قید کو بیان کرنے کی کوشش میں تھیں، انہوں نے اس قید کا ذکر نہیں کیا۔  ان معاملات میں، عقلمندوں کے رسم و رواج آسانی سے احکام کی تقسیم اور متعدد درخواستوں کی قید کو قبول نہیں کرتے۔

دوم: ارث کی آیات کے تحت خدائے حکیم نے ان قوانین کو یوں بیان کیا ہے:  "تلک حدود الله (13/ نساء)" کا مطلب ہے "خدائی عظمت کی حدیں" اور پوری شدت کے ساتھ اس نے سب کو اس کی پابندی کی دعوت دی ہے اور ان حدود کی خلاف ورزی اور سرکشی کے خلاف سخت تنبیہ کی ہے۔  اور یہ حوصلہ افزائی اور دھمکیوں ایجاد کرتا ہے۔

آئیے ہر قسم کی پابندی اور مختص کو دقت اور درستگی کے ساتھ جانچتے ہیں، اور مختص اور پابندی میں شک کی صورت میں - زیادہ واضح الفاظ میں، مختص کی اہلیت میں شک اور پابندی اور مختص کی پابندی - کے عمومیات اور اطلاقات قرآن پر عمل کریں۔  چونکہ اس احتیاط کی خوبی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، ارث کی ان آیات کی تقسیم، قاتل کو مقتول سے ارث نہ ملنے کے بارے میں، قطعی ثبوت ہے اور تمام مسلمانوں کا معاملہ ہے۔

یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ہماری بحث میں آیاتِ ارث کی عموم کی حد بندی اور تخصیص یعنی خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میراث ہونا ایک متنازعہ اور مشکوک معاملہ ہے۔ قابل اعتراض معنی اور قید کے ساتھ قرآن کی متعدد آیات کا حوالہ دینا بند نہیں کیا جا سکتا۔

اگر آپ کہیں: کیا مالی  ارث کے بارے میں صدیقہ طاہرہ کی بحث کا موضوع حکمت اور علم جیسی چیزیں نہیں ہیں؟

جواب میں ہم کہیں گے: اول:  ارث ایک مادی وراثت ہے جائیداد میں، اور اسکے مخالفت کی صورت میں ایک قرینہ اور تشبیہ کی ضرورت ہے۔

دوم: بعض اہل سنت علماء نے بھی انبیاء کی  ارث کو مالی میراث قرار دیا ہے۔ ابو جعفر نحاس جو سنی علماء میں سے ہیں لکھتے ہیں:

«فأما معنى یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ فللعلماء فیه ثلاثة أجوبة: قیل: هی وراثة نبوّة، وقیل: هی وراثة حکمة، وقیل: هی وراثة مال. فأما قولهم وراثة نبوة محال لأن النبوة لا تورث، ولو کانت تورث لقال قائل: الناس کلّهم ینسبون إلى نوح صلّى الله علیه وسلّم، وهو نبیّ مرسل. ووراثة الحکمة والعلم مذهب حسن. وفی الحدیث «العلماء ورثة الأنبیاء» وأما وراثة المال فلا یمتنع وإن کان قوم قد أنکروه لقول النبیّ صلى الله علیه وسلم: «لا نورث ما ترکنا صدقة» فهذا لا حجّة فیه لأن الواحد یخبر عن نفسه بإخبار الجمیع وقد یؤول هذا بمعنى لا نورث الذی ترکناه صدقة لأن النبیّ صلّى الله علیه وسلّم لم یخلف شیئا یورث عنه»

لیکن "یرثنی ویرث من آل یعقوب" کے معنی علماء کے پاس اس کے تین جواب ہیں۔  کہا گیا ہے کہ ارث سے مراد میراث نبوت ہے اور کہا گیا ہے کہ ارث سے مراد   میراث حکمت ہے اور کہا گیا ہے کہ میراث مال مراد ہے۔  البتہ ان کا بیان، جس کا مطلب وراثت نبوت ہے، ناممکن ہے، کیونکہ نبوت وراثت میں نہیں ملتی، اور اگر وراثت میں ملی تو کہا جائے گا کہ تمام لوگ نوح کی طرف منسوب ہیں کیونکہ وہ ایک بھیجے ہوئے نبی ہیں۔  اور حکمت اور علم کی وراثت حسن کا کلام اور عقیدہ ہے اور ہمارے ہاں حدیث میں ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔

  جہاں تک مال کی وراثت کا تعلق ہے تو اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، خواہ کوئی گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی وجہ سے کہے "ہم میراث نہیں چھوڑتے اور جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے" انہوں نے انکار کیا ہے اس بیان میں کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ ایک شخص  صیغہ جمع کے ساتھ اپنے بارے میں دوسروں کو آگاہ کرتا ہے۔ اور اس حدیث کی تشریح اس طرح کی جاتی ہے کہ جو کچھ ہم نے صدقہ کے طور پر چھوڑا ہے وہ میراث میں نہیں ملے گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کوئی چیز ان سے وراثت میں نہیں چھوڑی تھی۔

أبو جعفر أحمد بن محمد بن إسماعیل، اعراب القرآن، .ص599. بیروت، لبنان، ط دارالمعرفة، 1421، چاپ اول

احمد بن عبدالعزیز القصیر وہابی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے:

«وهناک عدد من المفسرین فسروا الآیات بإرث المال لا النبوة، لکن لم یجیبوا عن الحدیث، ومن هؤلاء : ابن عباس، وأبو صالح، وعکرمة، والضحاک، والحسن البصری، وسفیان الثوری، وابن جریر. حیث قالوا فی تفسیر قوله تعالى: (یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ) قالوا: یرث من زکریا المال، ومن آل یعقوب النبوة. وعن الحسن فی قوله تعالى: (وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُودَ) قال: ورث المال والملک، لا النبوة والعلم»

بہت سے مفسرین ایسے ہیں جنہوں نے آیت کو مال کی وراثت سے تعبیر کیا نہ کہ نبوت سے، لیکن انہوں نے حدیث کے بارے میں کوئی جواب نہیں دیا، اور یہ لوگ ہیں: ابن عباس، ابو صالح، عکرمہ، ضحاک، حسن بصری، سفیان ثوری اور ابن جریر نے اس آیت کی تفسیر میں کہا:  وہ زکریا سے مال اور یعقوب کے خاندان سے نبوت کا وارث ہے، اور حسن بصری نے (سلیمان داؤد کے بارے میں) کہا:  اسے دولت اور حکومت وراثت میں ملی، نبوت اور علم نہیں۔

ابن مقرن، احمد بن عبدالعزیز، الاحادیث المشکلة الواردة فی تفسیر القرآن الکریم. ص348. ط دار ابن الجوزی،

نتیجہ یہ ہے کہ ابوبکر نے جنگ انبیاء کی وراثت کی جو دلیل پیش کی ہے وہ قرآن کی آیات کے خلاف ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی