2024 March 29
جناب ابوبکر کی امامت ، خلافت پر دلیل ۔۔۔۔
مندرجات: ٢١٦١ تاریخ اشاعت: ١٧ November ٢٠٢٢ - ٠٩:٠٧ مشاہدات: 3904
مضامین و مقالات » پبلک
جناب ابوبکر کی امامت ، خلافت پر دلیل ۔۔۔۔

جناب ابوبکر کی امامت ، خلافت پر دلیل ۔۔۔۔

مطالب کی فہرست :

سوال کی وضاحت :

سند کی تحقیق :

جناب عائشہ کی شخصیت پر ایک نگاہ :

ان دلائل میں موجود تضادات کی تحقیق

کیا امام جماعت بننے اور خلافت کے ساتھ کوئی تلازم موجود تھا ؟

ابوبکر اسامہ کے لشکر میں۔

کچھ سوالات :

 

 

اگر رسول اللہ[ص] نے علی [ع] کو اپنا جانشین بنایا تھا تو کیوں ابوبکر کو اپنی جگہ امامت کے لئے بھیجا ؟

سوال کی وضاحت  اور جواب

حدیث غدیر پر ہونے والے اشکالات میں سے ایک اشکال یہ  ہے کہ اگر رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلّم نے غدیر کے دن حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین بنایا تھا تو زندگی کے آخری لمحات میں کیوں ابوبکر کو اپنی جگہ جماعت کرانے  مسجد بھیجا ؟ جبکہ حضرت علی علیہ السلام کو اپنی جگہ نمار کی جماعت کرانے بھیجنا چاہئے تھا  ۔

اہل سنت والے یہاں یہ بھی کہتے ہیں کہ ابوبکر کو جماعت کرانے کے لئے اپنا جانشین بنایا انہیں اپنے بعد خلیفہ بنانا اور  اپنے جانشین کے طور پر انتخاب کرنا تو نہیں ہے لیکن یہ اس  حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جناب ابوبکر جانشین اور خلیفہ  بننے کی صلاحیت اور لیاقت رکھتے ہیں ،آپ اس کام کے ذریعے اصحاب کو خلیفہ انتخاب کرنے کے مسئلے میں سرگرداں نہیں رکھنا چاہتے تھے ۔۔۔۔ 

جواب :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات میں آپ کی طرف سے جناب ابوبکر کو نماز جماعت کرانے پر مامور کرنے کو بتانے والی روایات مجموعی طور پر گیارہ ہیں۔ ان میں سے ایک موطا ابن مالک میں ہے اور دس روایتیں صحیح بخاری میں ہیں۔

سند کے اعتبار سے سب ضعیف یا مرسل ہیں ،اسی طرح متن اور مضمون کے اعتبار سے بھی ان میں شدید اختلاف موجود ہے، روایات کے مضمون میں موجود تناقضات اور تضاد کی وجہ سے اس قسم کی روایات قابل اعتباد نہیں ہیں ۔

اس شبھہ کا تفصیل جواب دیا ہوا ہے، ہم اس کا خلاصہ یہاں نقل کرتے ہیں

سند کی تحقیق :

الموطأ مالك کی روایت :

وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - خَرَجَ فِي مَرَضِهِ، فَأَتَي فَوَجَدَ أَبَا بَكْرٍ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَاسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - أَنْ كَمَا أَنْتَ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - إِلَي جَنْبِ أبِي بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - وَهُوَ جَالِسٌ، وَكَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ أبِي بَكْرٍ.

رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  بیماری کی حالت میں گھر سے نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے ۔ دیکھا ،ابوبکر نماز کی جماعت کرا رہا ہے اور لوگ ان کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے ہیں  اور جب ابوبکر کو پتہ چلا تو پیچھے ہٹا ،آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اشارہ کیا اور اپنی جگہ پر رہنے کا حکم دیا ،پھر آپ ابوبکر کے پاس بیٹھیں ،ابوبکر نے رسول صلي اللّه عليه وآله وسلم   کی اقتدا میں نماز ادا کی، جبکہ لوگ اس وقت ابوبکر کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے ۔۔۔۔مالک نے ھشام بن عروۃ سے نقل کیا ہے :

 

الموطّأ، مالك (179 هـ )، ج 1، ص 136 .

الف. ارسال روايت

هذا مرسل في الموطأ

موطا کی روایت مرسل ہے

الاستذكار، ابن عبد البر( 463 هـ )، ج 2، ص 175 .

لم يختلف عن مالك فيما علمت في إرسال هذا الحديث

موطا کی روایت کے مرسل ہونے میں اختلاف نہیں ہے .

التمهيد، ابن عبد البر( 463 هـ )،ج 22، ص 315 .

ب. هشام (ابوالمنذر): 

هشام بن عروه بن زبير بن عوام

هشام بن عروة بن الزبير بن العوام الأسدي ثقة فقيه ربما دلس

...  یہ مدلس تھا ۔۔

تقريب التهذيب، ابن حجر( 852 هـ )، ج2، ص267 .

قال عبد الرحمان بن يوسف بن خراش : كان مالك لا يرضاه.

مالک اس سے راضی نہیں تھا .

تهذيب الكمال، مزي (742 هـ )، ج 30، ص 239 .

ان سب سے اہم بات یہ ہے کہ ابن حجر نے اس کو «طبقات المدلّسين»  میں ذکر کیا ہے .

طبقات المدلسين، ابن حجر( 852 هـ )، ص 26 .

ج. عروه بن زبير: 

اہل بیت کے دشمنوں میں سے تھا ،معاویہ کے پارٹی کا بندہ تھا اور روایت جعل کرنے والوں میں اس کا شمار ہوتا تھا ۔۔۔

 بخاری کی پہلی روایت :

664 - حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ الأَسْوَدُ قَالَ كُنَّا عِنْدَ عَائِشَةَ - رضي الله عنها - فَذَكَرْنَا الْمُوَاظَبَةَ عَلَي الصَّلاَةِ وَالتَّعْظِيمَ لَهَا ، قَالَتْ لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ ، فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَأُذِّنَ ، فَقَالَ « مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» . فَقِيلَ لَهُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ ، إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ ، وَأَعَادَ فَأَعَادُوا لَهُ ، فَأَعَادَ الثَّالِثَةَ فَقَالَ «إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ». فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّي ، فَوَجَدَ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً ، فَخَرَجَ يُهَادَي بَيْنَ رَجُلَيْنِ كَأَنِّي أَنْظُرُ رِجْلَيْهِ تَخُطَّانِ مِنَ الْوَجَعِ ، فَأَرَادَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَتَأَخَّرَ ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - أَنْ مَكَانَكَ ، ثُمَّ أُتِيَ بِهِ حَتَّي جَلَسَ إِلَي جَنْبِهِ . قِيلَ لِلأَعْمَشِ وَكَانَ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - يُصَلِّي وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلاَتِهِ ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ بِرَأْسِهِ نَعَمْ . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنِ الأَعْمَشِ بَعْضَهُ . وَزَادَ أَبُو مُعَاوِيَةَ جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا.

عائشہ نقل کرتی ہے :  نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کے مرض الموت میں جب نماز کا وقت آیا اور اذان دی گئی تو فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس وقت آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  سے کہا گیا کہ ابوبکر بڑے نرم دل ہیں۔ اگر وہ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کی جگہ کھڑے ہوں گے تو نماز پڑھانا ان کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے پھر وہی حکم فرمایا، اور آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کے سامنے پھر وہی بات دہرا دی گئی۔ تیسری مرتبہ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے فرمایا کہ تم تو بالکل یوسف کی ساتھ والی عورتوں کی طرح ہو۔ (کہ دل میں کچھ ہے اور ظاہر کچھ اور کر رہی ہوابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ آخر ابوبکر نماز پڑھانے کے لیے گیا ۔ اتنے میں نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے مرض میں کچھ کمی محسوس کی اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر باہر تشریف لے گئے۔ گویا میں اس وقت آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کے قدموں کو دیکھ رہی ہوں کہ تکلیف کی وجہ سے زمین پر لکیر کرتے جاتے تھے۔ ابوبکر نے یہ دیکھ کر چاہا کہ پیچھے ہٹ جائے۔ لیکن نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے اشارہ سے انہیں اپنی جگہ رہنے کے لیے کہا۔ پھر ان کے قریب آئے اور بازو میں بیٹھ گئے۔ جب اعمش نے یہ حدیث بیان کی، ان سے پوچھا گیا کہ کیا نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے نماز پڑھائی۔ اور ابوبکر نے آپ کی اقتداء کی اور لوگوں نے ابوبکر کی نماز کی اقتداء کی؟ اعمش نے سر کے اشارہ سے بتلایا کہ ہاں۔ ابوداؤد طیالسی نے اس حدیث کا ایک ٹکڑا شعبہ سے روایت کیا ہے اور شعبہ نے اعمش سے اور ابومعاویہ نے اس روایت میں یہ زیادہ کیا کہ نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  ابوبکر کے بائیں طرف بیٹھے۔ پس ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔

صحيح بخاري ، محمد بن اسماعيل ( 256 هـ ) ، ج 1 ، ص 161 ، كتاب الاذان ، باب حد المريض ان يشهد الجماعة

سند کی تحقیق :

الف . ابراهيم: ابراهيم بن يزيد نخعي

یہ مدلسین میں سے ہے ، حاكم نيشابوري نے انہیں مدلسین کے چوتھے طبقہ سے قرار دیا ہے .

ب . اعمش: سليمان بن مهران الاعمش

یہ بھی تدلیس کرتا تھا . تدلیس قبیح اور عدالت کے لئے مضر ہے :

سليمان بن مهران الأعمش وكان يدلس وصفه بذلك النسائي والدارقطني وغيرهم

... یہ تدلیس کرتا تھا

طبقات المدلّسين، ابن حجر( 852 هـ )، ص 33 .

 بخاری کی دوسری روایت :

682 - حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - وَجَعُهُ قِيلَ لَهُ فِي الصَّلاَةِ فَقَالَ « مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ » . قَالَتْ عَائِشَةُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ ، إِذَا قَرَأَ غَلَبَهُ الْبُكَاءُ . قَالَ « مُرُوهُ فَيُصَلِّي » فَعَاوَدَتْهُ . قَالَ « مُرُوهُ فَيُصَلِّي ، إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ ».  مروا ابا بكر فليصل للناس، فقالت حفصة لعائشة: ما كنت لاصيب منك خيرا".

عائشہ نے نقل کیا ہے :  رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے اپنی بیماری میں فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ عائشہ بیان کرتی ہے کہ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو روتے روتے وہ (قرآن مجیدسنا نہ سکیں گے، اس لیے آپ عمر سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ عائشہ کہتی ہے  میں نے حفصہ سے کہا کہ وہ بھی کہیں کہ اگر ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو روتے روتے لوگوں کو (قرآننہ سنا سکیں گے۔ اس لیے عمر سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حفصہ نے بھی اسی طرح کہا تو آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے فرمایا کہ خاموش رہو۔ تم صواحب یوسف کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پس حفصہ نے عائشہ سے کہا۔ بھلا مجھ کو کہیں تم سے بھلائی پہنچ سکتی ہے؟

 

صحيح بخاري ، محمد بن اسماعيل ( 256 هـ ) ، ج 1 ، ص 166 . ، كتاب الاذان ، باب اهل العلم والفضل احق بالامامه.

سند کی تحقیق

الف . يحيي بن سليمان:

9532 - يحيي بن سليمان ، وعنه البخاري ، وجماعة . وثقه بعض الحفاظ . قال أبو حاتم : شيخ . وقال النسائي : ليس بثقة . وقال ابن حبان . ربما أغرب .

...نسائی نے کہا ہے یہ ثقه نہیں ہے اور غریب روایات نقل کرتا ہے  ۔

ميزان الاعتدال، ذهبي( 747 هـ )، ج 4، ص 382 .

ب . ابن شهاب (زُهْري): .

زهري، یہ بھی بنی امیہ کے احادیث جعل کرنے کے گروہ میں موجود تھا .

تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ( 571 هـ ) ، ج 42 ، ص 228 ـ تهذيب التهذيب ، ابن حجر (852 هـ ) ، ج 4 ، ص 197 ـ سير أعلام النبلاء ، ذهبي ( 748هـ ) ، ج 5 ، ص 337 ـ سير أعلام النبلاء ، ذهبي (748 هـ )، ج 5 ، ص 331 ـ تهذيب الكمال ، مزي ( 742 هـ ) ، ج 5 ، ص 88 و تاريخ الإسلام ، الذهبي ( 748 هـ ) ، ج 9 ، ص 92 ـ

زهري یہ بھی مدلس تھا .

تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس، ابن حجر عسقلاني، ص109، شماره 102/36.

زهري، امير المؤمنين علي عليه السّلام سے روگرداں تھا .

شرح نهج البلاغة ، ابن أبي الحديد ( 656 هـ ) ، ج 4 ، ص 102 .

بخاری کی تیسری روایت

683 - حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَي قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي مَرَضِهِ ، فَكَانَ يُصَلِّي بِهِمْ . قَالَ عُرْوَةُ فَوَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - فِي نَفْسِهِ خِفَّةً ، فَخَرَجَ فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ يَؤُمُّ النَّاسَ ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ اسْتَأْخَرَ ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ أَنْ كَمَا أَنْتَ ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - حِذَاءَ أَبِي بَكْرٍ إِلَي جَنْبِهِ ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ .

 انہوں نے عائشہ سے۔ آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے اپنی بیماری میں حکم دیا کہ ابوبکر لوگوں کو نماز پڑھائے۔ اس لیے آپ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ عروہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے اپنے آپ کو کچھ ہلکا پایا اور باہر تشریف لائے۔ اس وقت ابوبکر نماز پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے جب نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن نبی آپ  نے اشارے سے انہیں اپنی جگہ قائم رہنے کا حکم فرمایا۔ پس رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  ابوبکر صدیق کے بازو میں بیٹھ گئے۔ ابوبکر نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر کی پیروی کرتے تھے۔.

صحيح بخاري ، محمد بن اسماعيل ( 256 هـ ) ، ج 1 ، ص 167 . كتاب الاذان ، باب من قام الي جنب الامام لعلة.

هشام بن عروه  اور اس کا باپ عروه بن زبير

ان دونوں کا ذکر گذر گیا .

عايشه: کے بارے میں  (دسویں روایت میں بحث کریں گے )

بخاری کی چوتھی روایت

678 - حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَي قَالَ مَرِضَ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - فَاشْتَدَّ مَرَضُهُ فَقَالَ « مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ » . قَالَتْ عَائِشَةُ إِنَّهُ رَجُلٌ رَقِيقٌ ، إِذَا قَامَ مَقَامَكَ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ . قَالَ « مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ » فَعَادَتْ فَقَالَ « مُرِي أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ » . فَأَتَاهُ الرَّسُولُ فَصَلَّي بِالنَّاسِ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ - صلي الله عليه وسلم - .

ابوموسیٰ اشعری سے نقل ہے :  نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  بیمار ہوئے اور جب بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے فرمایا کہ ابوبکر  سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے ۔ اس پر عائشہ بولی کہ وہ نرم دل ہیں جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان کے لیے نماز پڑھانا مشکل ہو گا۔ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائے۔ عائشہ نے پھر وہی بات کہی۔ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں، تم لوگ صواحب یوسف (زلیخاکی طرح (باتیں بناتیہو۔ آخر ابوبکر صدیق کے پاس آدمی بلانے آیا اور آپ نے لوگوں کو نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کی زندگی میں ہی نماز پڑھائی۔

صحيح بخاري ، محمد بن اسماعيل ( 256 هـ ) ، ج 1 ، ص 165 . كتاب الاذان ، باب اهل العلم و الفضل احق بالامامة.

سند کی تحقیق

الف. روایت مرسل ہے ۔

ب. ابو برده: 

عامر بن ابي موسي اشعري  کہ جو  شريح قاضي کے بعد کوفہ کا قاضی بنا ۔

1 . از یہ امیر المومنین علیہ السلام کے دشمنوں میں سے تھا .

2 . حجر بن عدی کے قتل میں اس کا بھی بڑا کردار تھا .

3 .  جناب عمار کے قاتل کے حق میں اس کا جملہ مشہور ہے .

شرح نهج البلاغه ، ابن ابي الحديد ( 656 هـ ) ، ج 4 ، ص 99 .

ج . عبد الملك بن عمير

اہل سنت کی کتب رجال میں اس کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے :

«رجل مدلس» ، «ضعيف جدا» ، «كثير الغلط» ، «مضطرب الحديث جدا» ، «مخلّط» ، «ليس بحافظ».

مثلا  مزي نے  تهذيب الكمال  اور  ابن حجر نے  تهذيب التهذيب میں ذکر کیا ہے  :

وقال علي بن الحسن الهسنجاني: سمعت أحمد بن حنبل يقول: عبد الملك بن عمير مضطرب الحديث جدا مع قلة روايته.

د . ابو موسي اشعري

اس کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا رویہ امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ اچھا نہیں تھا . صفین کے بعد تحکیم کے مسئلے میں امیر المومنین علیہ السلام کو خلافت سے خلع کرنے میں اس کا بھی کردار تھا ۔

 جیساکہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق خلیفہ دوم نے استذان کے مسئلے میں اس کے قول پر اعتماد نہیں کیا ،لہذا اس سے بھی اس کی روایت کے عدم اعتبار کی تائید ہوتی ہے ۔

صحيح مسلم نيشابوري( 261 هـ ) ، ج 6 ، ص178 .

بخاری کی پانچویں روایت ۔۔۔

679 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ - رضي الله عنها - أَنَّهَا قَالَتْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - قَالَ فِي مَرَضِهِ « مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ » . قَالَتْ عَائِشَةُ قُلْتُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ الْبُكَاءِ ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ . فَقَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ الْبُكَاءِ ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ . فَفَعَلَتْ حَفْصَةُ . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - « مَهْ ، إِنَّكُنَّ لأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ » . فَقَالَتْ حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ مَا كُنْتُ لأُصِيبَ مِنْكِ خَيْرًا.

عروہ بن زبیر نے عائشہ سے نقل کیا ہے : رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے اپنی بیماری میں فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو روتے روتے وہ (قرآن مجیدسنا نہ سکیں گے، اس لیے آپ عمر سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ عائشہ کہتی ہے  میں نے حفصہ سے کہا کہ وہ بھی کہیں کہ اگر ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو روتے روتے لوگوں کو (قرآننہ سنا سکیں گے۔ اس لیے عمر سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حفصہ نے بھی اسی طرح کہا تو آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے فرمایا کہ خاموش رہو۔ تم صواحب یوسف کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پس حفصہ نے عائشہ سے کہا۔ بھلا مجھ کو کہیں تم سے بھلائی پہنچ سکتی ہے؟

صحيح بخاري، محمد بن اسماعيل ( 256 هـ )، ج 1، ص 165. كتاب الاذان، باب اهل العلم والفضل احق بالامامة.

سند کی تحقیق

1. هشام بن عروه

2. عروه بن زبير

ان دونوں کی حالت زندگی گزر گئی ۔

 بخاری کی چھٹی روایت ۔۔۔

712 - حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ قَالَ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ - رضي الله عنها - قَالَتْ لَمَّا مَرِضَ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَتَاهُ بِلاَلٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلاَةِ فَقَالَ « مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ » . قُلْتُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ ، إِنْ يَقُمْ مَقَامَكَ يَبْكِي فَلاَ يَقْدِرُ عَلَي الْقِرَاءَةِ . قَالَ « مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ » . فَقُلْتُ مِثْلَهُ فَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ « إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ » . فَصَلَّي وَخَرَجَ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - يُهَادَي بَيْنَ رَجُلَيْنِ ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَخُطُّ بِرِجْلَيْهِ الأَرْضَ ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ يَتَأَخَّرُ ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ أَنْ صَلِّ ، فَتَأَخَّرَ أَبُو بَكْرٍ - رضي الله عنه - وَقَعَدَ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - إِلَي جَنْبِهِ ، وَأَبُو بَكْرٍ يُسْمِعُ النَّاسَ التَّكْبِيرَ.

عائشہ سے نقل ہے :  نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کے مرض الوفات میں بلال نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر خدمت ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر کچے دل کے آدمی ہیں اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رو دیں گے اور قرآت نہ کر سکیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو وہ نماز پڑھائے میں نے وہی عذر پھر دہرایا۔ پھر آپ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تم لوگ تو بالکل صواحب یوسف کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ خیر ابوبکر نے نماز شروع کرا دی۔ پھر نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  (اپنا مزاج ذرا ہلکا پا کردو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے باہر تشریف لائے۔ گویا میری نظروں کے سامنے وہ منظر ہے کہ آپ کے قدم زمین پر نشان کر رہے تھے۔ ابوبکر آپ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔ لیکن آپ نے اشارہ سے انہیں نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ ابوبکر پیچھے ہٹ گئے اور نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  ان کے بازو میں بیٹھے۔ ابوبکر لوگوں کو نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کی تکبیر سنا رہے تھے۔ عبداللہ بن داؤد کے ساتھ اس حدیث کو محاضر نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے۔

صحيح بخاري ، محمد بن اسماعيل ( 256 هـ ) ، ج 1 ، ص 174 . كتاب الاذان ، باب من اسمع الناس بتكبير الامام.

سند کی تحقیق :

اعمش: کے بارے میں پہلے ذکر ہوا .

عايشه: کے بارے میں بعد میں ذکر ہوگا۔

بخاری کی ساتویں روایت

713 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - جَاءَ بِلاَلٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلاَةِ فَقَالَ « مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ » . فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ ، وَإِنَّهُ مَتَي مَا يَقُمْ مَقَامَكَ لاَ يُسْمِعُ النَّاسَ ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ . فَقَالَ « مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ » . فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ ، وَإِنَّهُ مَتَي يَقُمْ مَقَامَكَ لاَ يُسْمِعِ النَّاسَ ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ . قَالَ « إِنَّكُنَّ لأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ » . فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - فِي نَفْسِهِ خِفَّةً ، فَقَامَ يُهَادَي بَيْنَ رَجُلَيْنِ ، وَرِجْلاَهُ يَخُطَّانِ فِي الأَرْضِ حَتَّي دَخَلَ الْمَسْجِدَ ، فَلَمَّا سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ ذَهَبَ أَبُو بَكْرٍ يَتَأَخَّرُ ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - حَتَّي جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - يُصَلِّي قَاعِدًا ، يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - وَالنَّاسُ مُقْتَدُونَ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ .

ابراہیم نخعی سے، انہوں نے اسود سے، انہوں نے عائشہ نقل کیا ہئ : نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  زیادہ بیمار ہو گئے تھے تو بلال آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کو نماز کی خبر دینے آئے۔ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں اور جب بھی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے لوگوں کو (شدت گریہ کی وجہ سےآواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر سے کہتے تو بہتر تھا۔ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ پھر میں نے حفصہ سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں اور اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر سے کہیں تو بہتر ہو گا۔ اس پر آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے فرمایا کہ تم لوگ صواحب یوسف سے کم نہیں ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ جب ابوبکر نماز پڑھانے لگے تو نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے اپنے مرض میں کچھ ہلکا پن محسوس فرمایا اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے۔ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کے پاؤں زمین پر نشان کر رہے تھے۔ اس طرح چل کر آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  مسجد میں داخل ہوئے۔ جب ابوبکر نے آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کی آہٹ پائی تو پیچھے ہٹنے لگے اس لیے رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے اشارہ سے روکا پھر نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  ابوبکر کے بائیں طرف بیٹھ گئے تو ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ اور رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  بیٹھ کر۔ ابوبکر رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر کی اقتداء۔

صحيح بخاري ، محمد بن اسماعيل ( 256 هـ ) ، ج 1 ، ص 174 . كتاب الاذان ،باب الرجل يأتم ويأتم الناس بالمأموم.

سند کی تحقیق

أبو معاويه: محمد بن حازم الضرير

مزی نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

قال عباس الدوري، عن يحيي بن معين: ليس بثقة .

یہ ثقہ نہیں ہے

تهذيب الكمال، ج 12، ص 364 .

اعمش: کا ذکر ہوچکا  .

عايشه: کے بارے میں بعد میں بحث ہوگی ۔

بخاری کی آٹھویں روایت

680 - حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ الأَنْصَارِيُّ - وَكَانَ تَبِعَ النَّبِيَّ - صلي الله عليه وسلم - وَخَدَمَهُ وَصَحِبَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يُصَلِّي لَهُمْ فِي وَجَعِ النَّبِيِّ - صلي الله عليه وسلم - الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ ، حَتَّي إِذَا كَانَ يَوْمُ الاِثْنَيْنِ وَهُمْ صُفُوفٌ فِي الصَّلاَةِ ، فَكَشَفَ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - سِتْرَ الْحُجْرَةِ يَنْظُرُ إِلَيْنَا ، وَهْوَ قَائِمٌ كَأَنَّ وَجْهَهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ ، ثُمَّ تَبَسَّمَ يَضْحَكُ ، فَهَمَمْنَا أَنْ نَفْتَتِنَ مِنَ الْفَرَحِ بِرُؤْيَةِ النَّبِيِّ - صلي الله عليه وسلم - ، فَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ عَلَي عَقِبَيْهِ لِيَصِلَ الصَّفَّ ، وَظَنَّ أَنَّ النَّبِيَّ - صلي الله عليه وسلم - خَارِجٌ إِلَي الصَّلاَةِ ، فَأَشَارَ إِلَيْنَا النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - أَنْ أَتِمُّوا صَلاَتَكُمْ ، وَأَرْخَي السِّتْرَ ، فَتُوُفِّيَ مِنْ يَوْمِهِ .

 انس بن مالک انصاری نے خبر دی .... آپ نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کی پیروی کرنے والے، آپ کے خادم اور صحابی تھے .... کہ نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کے مرض الموت میں ابوبکر صدیق نماز پڑھاتے تھے۔ پیر کے دن جب لوگ نماز میں صف باندھے کھڑے ہوئے تھے تو نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  حجرہ کا پردہ ہٹائے کھڑے ہوئے، ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کا چہرہ مبارک (حسن و جمال اور صفائی میںگویا مصحف کا ورق تھا۔ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  مسکرا کر ہنسنے لگے۔ ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ خطرہ ہو گیا کہ کہیں ہم سب آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کو دیکھنے ہی میں نہ مشغول ہو جائیں اور نماز توڑ دیں۔ ابوبکر الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر صف کے ساتھ آملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں، لیکن آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے ہمیں اشارہ کیا کہ نماز پوری کر لو۔ پھر آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے پردہ ڈال دیا۔ پس نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کی وفات اسی دن ہو گئی۔ ( «اناللہ و انا الیہ راجعون»).

صحيح بخاري ، محمد بن اسماعيل ( 256 هـ ) ، ج 1 ، ص 165 . كتاب الاذان ، باب اهل العلم والفضل احق بالامامة.

ابن شهاب (زهري): اس کے بارے میں بیان ہوا ۔۔۔.

انس بن مالك:

اس کی بنیادی مشکل جھوٹ بولنا تھا ۔دو نمونے ؛

پہلا نمونہ ـ

 انس نے  حديث غدير چھپائی :

  بلاذري کی روایت میں نقل ہوا ہے :

قال علي علي المنبر: انشد [نشدت] الله رجلا سمع رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول يوم غدير خم: اللهم وال من والاه وعاد من عاداه إلا قام فشهد وتحت المنبر أنس بن مالك والبراء بن عازب وجرير بن عبد الله [البجلي] فأعادها فلم يجبه أحد. فقال: اللهم من كتم هذه الشهادة وهو يعرفها فلا تخرجه من الدنيا حتي تجعل به آية يعرف بها. قال: فبرص أنس وعمي البراء ورجع جرير أعرابيا بعد هجرته فأتي السراة فمات في بيت أمه بالسراة.

[حضرت] علي [عليه السلام ] نے مسجد کے ممبر پر لوگوں کے اجتماع سے خطاب میں فرمایا: میں تم لوگوں کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ جس نے بھی غدیر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: «اللهم وال من والاه وعاد من عاداه» وہ اٹھے اور گواہی دی. أنس بن مالك ، براء بن عازب اور  جرير بن عبد الله [بجلي] ممبر کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے ،یہ لوگ خاموش رہے ،امیر المومنین علیہ السلام نے دوبارہ سوال کیا ،لیکن ان لوگوں  نے جواب نہیں دیا ،یہاں تک کہ امیر المومنین علیہ السلام نے اس طرح نفرین کی :اے اللہ جو جاننے کے باوجود گواہی نہیں دیتا ،مرنے سے پر اس پر ایسی نشانی ظاہر کرئے کہ جو اس کی پہچان بن جائے ،راوی نقل کرتا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کے اس نفرین کے بعد انس بن مالک برض اور براﺀ کی بیماری میں مبتلا ہوا اور اندھا ہوگیا اور جریر بھی عرفہ کے اطراف میں موجود اپنی والدی کے گھر پہنچتے ہیں دنیا سے چلا گیا ۔

أنساب الأشراف بلاذري، ج2، ص 156 و 157.

أبو محمد ابن قتيبة نے  كتاب المعارف، ص251 میں نقل کیا ہے :

أنس بن مالك كان بوجهه برص وذكر قوم: إن عليا رضي الله عنه سأله عن قول رسول الله: اللهم وال من والاه ، وعاد من عاداه . فقال : كبرت سني ونسيت ، فقال علي: إن كنت كاذبا فضربك الله بيضاء لا تواريها العمامة.

انس بن مالك کے چہرے پر برص(پيسي) ظاہر ہوا . بعض لوگوں نے کہا ہے : امير المؤمنين عليه السّلام نے رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلّم کے اس کلام «اللهم وال من والاه ، وعاد من عاداه» کے بارے میں پوچھا ، تو اس اجتماع میں انس بھی تھا ،انہوں نے جواب دیا : میں اب بوڑھا ہوا ہوں ،مجھے یہ یاد نہیں ہے ۔ امير المؤمنين عليه السّلام نے فرمایا : اگر جھوٹ بولا ہے تو اللہ آپ کو برض کی بیماری میں مبتلا کرئے ،یہاں تک کہ عمامہ کے ذریعے سے بھی اسے نہ چھپاسکے ۔

ر . ك . الغدير، علامه أميني، ج 1، ص 192.

... وأما أنس فقد برصت قدماه .

  [امير المؤمنين عليه السّلام کے نفرين] کی وجہ سے انس کے دونوں پیرو برض کی بیماری میں مبتلا ہوئے ۔

ر . ك . الغدير ، علّامه اميني ، ج 1، ص190.

حدثنا سليمان بن أحمد، ثنا أحمد بن إبراهيم بن كيسان، ثنا إسماعيل بن عمرو البجلي، ثنا مسعر بن كدام عن طلحة بن مصرف عن عميرة ابن سعد قال: شهدت عليا علي المنبر ناشدا أصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم وفيهم أبو سعيد وأبو هريرة وأنس بن مالك وهم حول المنبر وعلي علي المنبر وحول المنبر اثنا عشر رجلا هؤلاء منهم. فقال علي نشدتكم بالله هل سمعتم رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول: من كنت مولاه فعلي مولاه؟ فقاموا كلهم فقالوا: اللهم نعم، وقعد رجل، فقال: ما منعك أن تقوم؟ قال: يا أمير المؤمنين كبرت ونسيت. فقال: اللهم إن كان كاذبا فاضربه ببلاء حسن. قال: فما مات حتي رأينا بين عينيه نكتة بيضاء لا تواريه العمامة ...

حلية الأولياء، ج 5 ، ص 27- 26 .

اس روایت میں واضح طور پر انس کا نام ذکر نہیں ہوا ہے لیکن دوسری روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جناب انس ہی یہاں مراد ہے ۔

دوسرا نمونہ :

انس نے  طير مشوي ( مرغ بریان ) کے مسئلے میں جھوٹ بولا :

المستدرك ، حاكم نيشابوري( 405 هـ ) ، ج 3 ، ص 131 .

نهمين روايت بخاري

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمْ يَخْرُجِ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - ثَلاَثًا ، فَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ ، فَذَهَبَ أَبُو بَكْرٍ يَتَقَدَّمُ فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - بِالْحِجَابِ فَرَفَعَهُ ، فَلَمَّا وَضَحَ وَجْهُ النَّبِيِّ - صلي الله عليه وسلم - مَا نَظَرْنَا مَنْظَرًا كَانَ أَعْجَبَ إِلَيْنَا مِنْ وَجْهِ النَّبِيِّ - صلي الله عليه وسلم - حِينَ وَضَحَ لَنَا ، فَأَوْمَأَ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - بِيَدِهِ إِلَي أَبِي بَكْرٍ أَنْ يَتَقَدَّمَ ، وَأَرْخَي النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - الْحِجَابَ ، فَلَمْ يُقْدَرْ عَلَيْهِ حَتَّي مَاتَ .

انس بن مالک نے  بیان کیا، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  (ایام بیماری میں) تین دن تک باہر تشریف نہیں لائے۔ ان ہی دنوں میں ایک دن نماز قائم کی گئی۔ ابوبکر آگے بڑھنے کو تھے کہ نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے (حجرہ مبارک کا) پردہ اٹھایا۔ جب نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کا چہرہ مبارک دکھائی دیا۔ تو آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کے روئے پاک و مبارک سے زیادہ حسین منظر ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔  پھر آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے ابوبکر صدیق کو آگے بڑھنے کے لیے اشارہ کیا اور آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے پردہ گرا دیا اور اس کے بعد وفات تک کوئی آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کو دیکھنے پر قادر نہ ہو سکا۔

صحيح بخاري ، محمد بن اسماعيل ( 256 هـ ) كتاب الاذان ، باب اهل العلم والفضل احق بالامامة. رقم الحديث: 681

سند کی تحقیق

ابو معمّر: عبد الله بن عمرو بن أبي الحجاج أبو معمر المنقري البصري

ان کے بارے میں رازی نے لکھا ہے : أنه لم يكن يحفظ وكان له قدر عند اهل العلم.

الجرح والتعديل، رازي ( 327 هـ )، ج 5، ص 119.

انس: ان کے بارے میں بحث ہوچکی۔

بخاری کی دسویں روایت

687 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ مُوسَي بْنِ أَبِي عَائِشَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَي عَائِشَةَ فَقُلْتُ أَلاَ تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - قَالَتْ بَلَي ، ثَقُلَ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - فَقَالَ « أَصَلَّي النَّاسُ». قُلْنَا لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ. قَالَ «ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ». قَالَتْ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ فَذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ - صلي الله عليه وسلم- «أَصَلَّي النَّاسُ». قُلْنَا لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ «ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ». قَالَتْ فَقَعَدَ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ «أَصَلَّي النَّاسُ». قُلْنَا لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ «ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ»، فَقَعَدَ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ «أَصَلَّي النَّاسُ». فَقُلْنَا لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ - وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ لِصَلاَةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ - فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - إِلَي أَبِي بَكْرٍ بِأَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَأَتَاهُ الرَّسُولُ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ - وَكَانَ رَجُلاً رَقِيقًا - يَا عُمَرُ صَلِّ بِالنَّاسِ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ. فَصَلَّي أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الأَيَّامَ، ثُمَّ إِنَّ النَّبِيَّ - صلي الله عليه وسلم - وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ لِصَلاَةِ الظُّهْرِ، وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - بِأَنْ لاَ يَتَأَخَّرَ. قَالَ «أَجْلِسَانِي إِلَي جَنْبِهِ». فَأَجْلَسَاهُ إِلَي جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ. قَالَ فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي وَهْوَ يَأْتَمُّ بِصَلاَةِ النَّبِيِّ - صلي الله عليه وسلم - وَالنَّاسُ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَالنَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - قَاعِدٌ. قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَدَخَلْتُ عَلَي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ لَهُ أَلاَ أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ عَنْ مَرَضِ النَّبِيِّ - صلي الله عليه وسلم - قَالَ هَاتِ. فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَدِيثَهَا، فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ أَسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ قُلْتُ لاَ. قَالَ هُوَ عَلِيٌّ.

عائشہ سے نقل ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کا مرض بڑھ گیا۔ تو آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے عرض کی جی نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظام کر رہے ہیں۔ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے فرمایا کہ میرے لیے ایک لگن میں پانی رکھ دو۔ عائشہ نے کہا کہ ہم نے پانی رکھ دیا اور آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر آپ اٹھنے لگے، لیکن آپ بیہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو پھر آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی نہیں، یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے (پھر) فرمایا کہ لگن میں میرے لیے پانی رکھ دو۔ عائشہ فرماتی ہیں کہ ہم نے پھر پانی رکھ دیا اور آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے بیٹھ کر غسل فرمایا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن (دوبارہ) پھر آپ بیہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو آپ نے پھر یہی فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے پھر فرمایا کہ لگن میں پانی لاؤ اور آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی، لیکن پھر آپ بیہوش ہو گئے۔ پھر جب ہوش ہوا تو آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ لوگ مسجد میں عشاء کی نماز کے لیے بیٹھے ہوئے نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کا انتظار کر رہے تھے۔ آخر آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے ابوبکر کے پاس آدمی بھیجا اور حکم فرمایا کہ وہ نماز پڑھا دیں۔ بھیجے ہوئے شخص نے آ کر کہا کہ رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے آپ کو نماز پڑھانے کے لیے حکم فرمایا ہے۔ ابوبکر بڑے نرم دل انسان تھے۔ انہوں نے عمر سے کہا کہ تم نماز پڑھاؤ، لیکن عمر نے جواب دیا کہ آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر جب نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کو مزاج کچھ ہلکا معلوم ہوا تو دو مردوں کا سہارا لے کر جن میں ایک عباس تھے ظہر کی نماز کے لیے گھر سے باہر تشریف لائے اور ابوبکر نماز پڑھا رہے تھے، جب انہوں نے نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے اشارے سے انہیں روکا کہ پیچھے نہ ہٹو! پھر آپ نے ان دونوں مردوں سے فرمایا کہ مجھے ابوبکر کے بازو میں بٹھا دو۔ چنانچہ دونوں نے آپ کو ابوبکر کے بازو میں بٹھا دیا۔ راوی نے کہا کہ پھر ابوبکر نماز میں نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کی پیروی کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر کی نماز کی پیروی کر رہے تھے۔ نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ رہے تھے۔ عبیداللہ نے کہا کہ پھر میں عبداللہ بن عباس کی خدمت میں گیا اور ان سے عرض کی کہ عائشہ نے نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کی بیماری کے بارے میں جو حدیث بیان کی ہے کیا میں وہ آپ کو سناؤں؟ انہوں نے فرمایا کہ ضرور سناؤ۔ میں نے یہ حدیث سنا دی۔ انہوں نے کسی بات کا انکار نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا کہ عائشہ نے ان صاحب کا نام بھی تم کو بتایا جو عباس کے ساتھ تھے۔ میں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا وہ علی علیہ السلام  تھے۔

صحيح بخاري، كتاب الاذان --- باب إنما جعل الإمام ليؤتم به: رقم الحديث: 687

عائشه:

اس سلسلے کی اکثر روایات خود جناب عائشہ ہے ،جیساکہ بعض روایات میں حفصہ کے ساتھ ان کا اس سلسلے میں داخی کشمکش پر شاہد موجود ہے ۔

جناب عائشہ کی شخصیت پر ایک نگاہ :

الف : عائشه کی حساسيت

جناب عائشہ کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے والد اور اپنے خاندان والوں کے لئے شان اور فضیلت کسب کرنے کے درپے رہتی تھی ،اسی لئے جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کسی بیوی سے محبت کا اظہار کرتے یا اس کے پاس زیادہ رہتے ،دیکھتی تو فورا اس کے خلاف بغاوت شروع کرتی ۔۔جیساکہ زینب بنت جحش کے ساتھ ایسا رویہ اپنایا اور حفصہ کے ساتھ ملکر یہ سازش تیار کی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان میں سے جس کے پاس بھی تشریف لائیں تو یہ کہنا : مجھے مغافیر کی بو آرہی ہے ۔ یہ کام اس لئے کیا تاکہ زینب بنت جحش کے ساتھ پاس بیٹھ کر شہید کھانے سے آپ کو روکا جاسکے ۔  

4912 - حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَي أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَائِشَةَ - رضي الله عنها - قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - يَشْرَبُ عَسَلاً عِنْدَ زَيْنَبَ ابْنَةِ جَحْشٍ وَيَمْكُثُ عِنْدَهَا فَوَاطَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ عَنْ أَيَّتُنَا دَخَلَ عَلَيْهَا فَلْتَقُلْ لَهُ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ. قَالَ «لاَ وَلَكِنِّي كُنْتُ أَشْرَبُ عَسَلاً عِنْدَ زَيْنَبَ ابْنَةِ جَحْشٍ فَلَنْ أَعُودَ لَهُ وَقَدْ حَلَفْتُ لاَ تُخْبِرِي بِذَلِكِ أَحَدًا».

 عائشہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  زینب بنت جحش کے گھر میں شہد پیتے اور وہاں ٹھہرتے تھے پھر میں نے اور حفصہ نے ایسے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  (زینب کے یہاں سے شہد پی کر آنے کے بعد) داخل ہوں تو وہ کہے کہ کیا آپ نے پیاز کھائی ہے۔ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے۔ چنانچہ جب آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  تشریف لائے تو منصوبہ بندی کے تحت یہی کہا گیا۔ نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  بدبو کو بہت ناپسند فرماتے تھے۔ اس لیے آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے فرمایا کہ میں نے مغافیر نہیں کھائی ہے البتہ زینب بنت جحش کے یہاں سے شہد پیا تھا لیکن اب اسے بھی ہرگز نہیں پیوں گا۔ میں نے اس کی قسم کھا لی ہے لیکن تم کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا۔

صحيح بخاري ، محمد بن اسماعيل ( 256 هـ ) ، ج 6 ، ص 69 . تفسير يا ايها النبي لم تحرم ما احل الله لك

ب . جناب عايشه اورحضرت خديجه سلام الله عليها

جب عائشہ  دیکھتی کہ آنحضرت صلي اللّه عليه وآله ، حضرت خديجه عليها السلام  کی تعریف کررہے ہیں اور ان کی ستائش میں مصروف ہیں تو غیرت گوارا نہیں کرتی اور ان کی شان میں گستاخی کرتی :

23719 - عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَكَرَ خَدِيجَةَ أَثْنَي عَلَيْهَا فَأَحْسَنَ الثَّنَاءَ قَالَتْ فَغِرْتُ يَوْمًا فَقُلْتُ مَا أَكْثَرَ مَا تَذْكُرُهَا حَمْرَاءَ الشِّدْقِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا خَيْرًا مِنْهَا

 آپ کتنے زیادہ  دانت سے خالی بوڑھی عورت کو یاد کرتے ہیں جبکہ اللہ نے آپ کو ان سے بہتر دی ہے ۔

مسند ، احمد بن حنبل ( 241 هـ ) ، ج 6 ، ص 118.

ج . عائشہ کا  امير المؤمنين عليه السّلام کے ساتھ رویہ :

ایک دن کسی نے جناب عائشہ کے سامنے ،حضرت علی علیہ السلام اور جناب عمار یاسر رضی اللہ عنہ کے خلاف بدگوئی کی ،عائشہ نے کہا : میں علی کے بارے میں کچھ نہیں کہتی ہوں لیکن عمار کے بارے میں جان لے :  میں نے رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله سے یہ بات سنی ہے : «جب بھی عمار دو میں سے ایک کو اختیار کرنے پر مجبور ہو تو جو  زیادہ کمال اور بہتر کا انتخاب کرتے ہیں».

23676 - جَاءَ رَجُلٌ فَوَقَعَ فِي عَلِيٍّ وَفِي عَمَّارٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَي عَنْهُمَا عِنْدَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ أَمَّا عَلِيٌّ فَلَسْتُ قَائِلَةً لَكَ فِيهِ شَيْئًا وَأَمَّا عَمَّارٌ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يُخَيَّرُ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَرْشَدَهُمَا

 مسند ، احمد بن حنبل ( 241 هـ ) ، ج 6 ، ص 113.

د .  اميرالمومنين عليه السلام کے بعد عائشہ کا کردار

طبري ، أبو الفرج ، ابن سعد  اور  ابن اثير نے نقل کیا ہے کہ جب  اميرالمومنين عليه السلام به کی شهادت  کی خبر عائشه تک پہنچی تو ایک شعر کہا :

فالقت عصاها و استقر بها النوي كما قرّ عيناً بالاياب المسافر

یہ خبر سن کر فورا ہاتھ میں موجود عصاﺀ پھینگ دہی اور اس طرح بیٹھ گئی جس طرح مسافر سفر سے واپس آنے کے بعد آرام اور سکون اور خوش حال ہو کر بیٹھ جاتے ہیں ۔

پھر پوچھا : کس نے علی کو قتل کیا ؟ جواب دیا بنی مراد کے ایک شخص نے ۔

عايشه نے  کہا:

فان يك نائياً فلقد نعاه غلام ليس في فيه التراب

يعني: اگر وہ دور ہے تو اس کی خبر ایک جوان لے کر آیا ہے کہ جس کے منہ میں مٹی نہیں اور جب زينب بنت امّ سلمه نے ان سے سوال کیا : علی علیہ السلام کے قتل کی وجپ سے یہ سب شادی کیوں ؟ جواب دیا ۔جب بھی یہ خبر میں بول جاوں تو دوبارہ مجھے اس کی یاد دلانا ۔  

تاريخ الطبري ( 310 هـ )، ج 4، ص 115، بتحقيق نخبة من العلماء الأجلاء، ط. مؤسسة الأعلمي ـ بيروت في ذكر سبب عن مقتل أمير المؤمنين من حوادث سنة 40 هـ و الكامل لابن أثير ( 630 هـ) ، ج 3 ، ص 198 و معجم الشعراء للمرزباني كما في أعيان الشيعة ، ج 3 ، ص 285 و مقاتل الطالبيين ، ابوالفرج اصفهاني ( 356 هـ ) ، ص 26.

 دوسری جگہ نقل ہوا ہے :

روي أبو الفرج في مقتل الإمام علي[عليه السلام] وقال: لمّا أن جاء عائشة قتل الامام علي سجدت أي: سجدت شكرا للّه مما بشروها به.

جب عائشہ کو [حضرت] علي [عليه السلام] کی شہادت کی خبر ملی تو خوشی کے مارے سجدہ ریز ہوئی ۔

مقاتل الطالبيين ، ابوالفرج اصفهاني ( 356 هـ ) ، ص 27 ، بتحقيق كاظم المظفر ط. المكتبة الحيدرية ـ النجف وط. القاهرة سنة ، 1368 هـ ص 43.

جناب عائشہ حضرت علی علیہ السلام کے نام کو چھپاتی تھی ۔

جیساکہ اس سلسلے میں اہم ترین نکتہ جناب عائشہ کا امیر المومنین علیہ السلام کے خلاف بغاوت اور آپ سے جنگ کی کمانڈری ہے ۔

د . عائشه نے قلم و دوات والی حدیث جعل کی ۔

24199 - عَنْ عَائِشَةَ قَالَت لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ائْتِنِي بِكَتِفٍ أَوْ لَوْحٍ حَتَّي أَكْتُبَ لِأَبِي بَكْرٍ كِتَابًا لَا يُخْتَلَفُ عَلَيْهِ فَلَمَّا ذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لِيَقُومَ قَالَ أَبَي اللَّهُ وَالْمُؤْمِنُونَ أَنْ يُخْتَلَفَ عَلَيْكَ يَا أَبَا بَكْرٍ

عائشه کہتی ہے : جب رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم  کی حالت خراب ہوئی تو آپ نے، عبدالرحمان بن ابي بكر سے فرمایا : كتف يا لوح لائے تاکہ ابوبکر کے حق میں ایک چیز لکھوں یہاں تک کہ کوئی ان کی مخالفت نہ کرئے ،اور جب ابوبکر اٹھنے لگا تو فرمایا : اللہ مومون کے لئے یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ اے ابوبکر تیری مخالفت کرئے ۔  

مسند ، احمد بن حنبل ( 241 هـ ) ، ج 6 ، ص 47 .

هـ . جناب عائشہ نے آنحضرت ص کے حکم کی مخالفت کی ۔

3355 - حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ أَرْقَمَ بْنِ شُرَحْبِيلَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ كَانَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ فَقَالَ ادْعُوا لِي عَلِيًّا قَالَتْ عَائِشَةُ نَدْعُو لَكَ أَبَا بَكْرٍ قَالَ ادْعُوهُ قَالَتْ حَفْصَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَدْعُو لَكَ عُمَرَ قَالَ ادْعُوهُ قَالَتْ أُمُّ الْفَضْلِ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَدْعُو لَكَ الْعَبَّاسَ قَالَ ادْعُوهُ فَلَمَّا اجْتَمَعُوا رَفَعَ رَأْسَهُ فَلَمْ يَرَ عَلِيًّا فَسَكَتَ فَقَالَ عُمَرُ قُومُوا عن رسول الله

عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  اس بیماری میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کی وفات ہوئی، اس وقت آپ عائشہ کے گھر میں تھے، آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے فرمایا: ”علی علیہ السلام  کو بلاؤ“ عائشہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم ابوبکر کو بلا دیں؟ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے فرمایا: ”انہیں بلاؤ“ حفصہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا عمر کو بلا دیں؟ آپ نے فرمایا: ”بلا دو، ام الفضل نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم عباس کو بلا دیں؟ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے فرمایا: ”ہاں“ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے اپنا سر اٹھا کر ان لوگوں کی طرف دیکھا لیکن علی علیہ السلام آپ کو نظر نہیں آیا ، آپ خاموش رہے، عمر نے کہا: رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کے پاس سے اٹھ جاؤ 

سنن ابن ماجه، محمد بن يزيد قزويني(273 هـ )ـ مسند احمد ( 241 هـ )، ج 6 ، ص 47.

و . عائشہ امیر المومنین علیہ السلام کے نام لینے کو گوارا نہیں کرتی تھی

جیساکہ بخاری میں جناب عائشہ سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیماری کی حالت میں دونوں ہاتھ عباس اور ایک اور شخص کے کاندھے پر رکھ کر نکلے۔

ثُمَّ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا العَبَّاسُ لِصَلاَةِ الظُّهْرِ۔۔

صحيح البخاري ، كِتَابُ الأَذَانِ: بَابٌ: إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ

 اب یہاں دوسرے شخص کا نام نہیں لیتی ۔بخاری کے مشہور شارح عینی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جس کا نام نہیں لیا وہ علی علیہ السلام  ہیں،  عائشہ کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کو پسند نہیں کرتی تھی لہذا ان کا نام نہیں لیا ۔

ولكن عائشة لا تطيب نفسا له بخير

عايشه کیونکہ علي کے بارے میں دل خوش نہیں تھی لہذا ان کا نام نہیں لیا .

عمدة القاري ، عيني(855 هـ ) ، ج 5 ، ص 192 .

ان دلائل میں موجود تضادات کی تحقیق

اب سند کی تحقیق اور سب اسناد کی خرابی کو دیکھنے کے بعد ،ہم ان روایات کے مضامین میں موجود تضادات کو جاننے کے لئے ان روایات کے ہر جملے پر دقت کرتے ہیں ۔ اب ان سب کو دیکھنے کے بعد ان روایات سے استدلال کرنے والوں کے نتیجے کے برخلاف ایک نتیجہ سامنے آتا پے ۔

ان روایات کے بارے میں کچھ سوالات

کیا ابوبکر آنحضرت کے حکم کے بغیر آپ کی جگے پر امامت کرا رہا تھا ؟!!؟

موطأ مالك والی حدیث کے اس جملے پر توجہ دیں :

خَرَجَ فِي مَرَضِهِ، فَأَتَي فَوَجَدَ أَبَا بَكْرٍ

رسول اللہ صلّي الله عليه وآله وسلّم مریضی کی حالت میں مسجد میں تشریف لایا اور دیکھا ابوبکر جماعت کرا رہا ہے ۔

اب اس روایت کے مطابق ابوبکر کو نماز جماعت کی امامت کا حکم ہی نہیں ہوا تھا ،آپ جب مسجد میں تشریف لائیں تو دیکھا ابوبکر آگے کھڑا ہے ۔

اب اس روایت کو اور اس جیسی دوسری روایت کو دیکھنے کے بعد نتیجہ برعکس نہیں نکلے گا ؟  

اب کیا  سوره احزاب کی آیت «لا تقدموا بين يدي الله و رسوله»  کے مطابق جناب ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی اجازت کے بغیر ان سے آگے نہیں نکلا ؟

کیا جناب عائشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم  کے آگے تعلل سے کام  لیتی تھی؟!!

۔۔۔۔۔فَقُلْتُ مِثْلَهُ فَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ « إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ». فَصَلَّي وَخَرَجَ النَّبِيُّ - صلي الله عليه وسلم - يُهَادَي بَيْنَ رَجُلَيْنِ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَخُطُّ بِرِجْلَيْهِ الأَرْضَ

۔۔۔۔۔آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر کچے دل کے آدمی ہیں اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رو دیں گے اور قرآت نہ کر سکیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو وہ نماز پڑھائیں۔ میں نے وہی عذر پھر دہرایا۔ پھر آپ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تم لوگ تو بالکل صواحب یوسف کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔.

اب اس کو دیکھنے کے بعد کیا یہ احتمال دینا صحیح نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی اور شخص مثلا امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں یہ حکم دیا تھا لیکن جناب عائشہ نے اس حکم کو نہیں مانی اور اپنے والد کو ترجیح دی اور آپ نارض ہوئے اور جناب عائشہ اور حفصہ سے ناراض ہوئے اور خود ہی مسجد میں بیماری کی حالت تشریف لائیں۔ ؟!!

اس نکتے کی تائید کے لئے ایک  قرینہ

لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ كَانَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ فَقَالَ ادْعُوا لِي عَلِيًّا قَالَتْ عَائِشَةُ نَدْعُو لَكَ أَبَا بَكْرٍ قَالَ ادْعُوهُ قَالَتْ حَفْصَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَدْعُو لَكَ عُمَرَ قَالَ ادْعُوهُ قَالَتْ أُمُّ الْفَضْلِ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَدْعُو لَكَ الْعَبَّاسَ قَالَ ادْعُوهُ فَلَمَّا اجْتَمَعُوا رَفَعَ رَأْسَهُ فَلَمْ يَرَ عَلِيًّا فَسَكَتَ...

  جب رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  اس بیماری میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کی وفات ہوئی، اس وقت آپ عائشہ   کے گھر میں تھے، آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے فرمایا: ”علی ( کو  کو بلاؤ“ عائشہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم ابوبکر کو بلا دیں؟ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے فرمایا: ”انہیں بلاؤ“ حفصہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا عمر کو بلا دیں؟ آپ نے فرمایا: ”بلا دو، ام الفضل نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم عباس کو بلا دیں؟ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے فرمایا: ”ہاں“ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے اپنا سر اٹھا کر ان لوگوں کی طرف دیکھا اور علی نظر نہیں آیا  تو آپ خاموش ہوئے ۔

اب دیکھیں اس روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شروع میں حضرت علی علیہ السلام  کو بلایا ، لیکن ان لوگوں نے دوسروں کو بھی بلانے کی فرمائش کی اور جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے بلانے کا کہا تھا ،انہیں نہیں بلایا ۔اور آپ خاموش ہوگئے ۔

اب دیکھیں جناب عائشہ سب فضیلتوں کو اپنے لئے ہی چاہتی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمائیشات پر بھی توجہ نہیں دیتی تھی ۔

لہذا اس قسم کی حرکتوں کو دیکھنے کے بعد یہ کہنا صحیح ہے کہ اس داستان میں جناب عائشہ کا بنیادی کردار تھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین کے آگے تعلل سے کام لیتی تھی تاکہ کسی نہ کسی طرح یہ فضیلت اپنے والد کے  لئے ثابت ہو ۔۔۔

خاص کر اس بات پر توجہ کے بعد کہ جناب عائشہ کا رویہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ اچھا نہیں تھا اور جیساکہ اس سے پہلے نقل ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نماز جماعت کے مسئلے میں جناب عائشہ کو  امیر المومنین علیہ السلام کے نام تک لینا گوارا نہیں ، ان چیزوں کو دیکھنے کے بعد کیا  اس احتمال کو تقویت نہیں ملتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہتے تھے کہ آپ کی جگہ امیر المومنین علیہ السلام جماعت کرائے۔ جب بھی آپ نے اس چیز کا اظہار کیا آُپ کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی یہاں تک کہ آپ نے غصے میں فرمایا: تم لوگ تو بالکل صواحب اور جناب یوسف کے اطراف والوں کی طرح ہو۔

اب کیوں جب انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کو بلانے کے لئے کہا تو فورا اس حکم پر عمل نہیں کیا اور انہیں بلانے کے بجائے ابوبکر وغیرہ کو بلانے کی اجازت لینے کی کوشش کی ۔

اور اسی طرح باقی بعض روایت کی بناید پر آگر آپ  نے شروع میں ہی ابوبکر کو بلایا تھا تو کیوں ان کے اس فرمان کے آگے تسلیم نہیں ہوئی اور جناب عائشہ آپ کے حکم کو ماننے کے بجائے اس میں تعلل کرتی رہی ۔۔۔؟

کیا یہ آنحضرت [ص] کی نافرمانی کے زمرے نہیں  آتا ؟

 کیا رسول اللہ [ص] سے زیادہ جناب عائشہ بہتر جانتی تھی ؟ یہاں تک کہ آنحضرت [ص] نے ان کے بارے سخت تعبیر استعمال کی اور انہیں جناب یوسف علیہ السلام کی اطراف والی عورتوں کی طرف تشبیہ دی کہ جو عورتیں آپنے مفاد اور خواہشات کی فکر میں رہتی تھیں؟

کیا آںحضرت ص کے فرمان کو نہ ماننا اور آپ کو عام انسان کی طرح سمجھنا جناب عائشہ کی عدالت پر ضربہ نہیں ہے ؟

 وَأَعَادَ فَأَعَادُوا لَهُ، فَأَعَادَ الثَّالِثَةَ فَقَالَ «إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ»

آنحضرت [ص] نے کئی دفعہ اپنی بات کو تکرار کیا لیکن ہر بار آپ کے ارد گرد موجود ان عورتوں نے آپ کی باتوں کو نہیں مانا اسی وجہ سے آپ نے سخت تعبیر استعمال کیا۔  

کیا ابوبکر آنحضرت [ص] کی بیماری کی وجہ سے کمزور اور رقیق القلب ہوا تھا ؟

قَالَتْ عَائِشَةُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ ، إِذَا قَرَأَ غَلَبَهُ الْبُكَاءُ

قَالَتْ عَائِشَةُ إِنَّهُ رَجُلٌ رَقِيقٌ ، إِذَا قَامَ مَقَامَكَ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ

ان میں عائشہ اپنی اس نافرمانی کی توجیہ میں کہتی ہے : وہ نرم دل ہیں ،آپ کی بیماری کی وجہ سے وہ کم طاقت ہوئے ہیں لہذا آپ کی جگہ کھڑے ہو کر نماز ادا نہیں کرسکتے ۔ اب دیکھیں کہ ابوبکر آنحضرت [ص] کی بیماری کی وجہ سے نرم دل ہوا ہو ، یہاں تک کہ  

 گریہ و زاری کی وجہ سے نماز ادا نہیں کرسکے ۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جب آنحضرت [ص] دنیا سے چلے گئے تو آپ کے جنازے کو چھوڑ کر سقیفہ میں چلے گئے اور دنیوی مقام کی دوڑ لیں لگ گئے ؟ آپ کے جنازے کو زمین پر رکھا اور آُپ کے تجہیز ، تکفین اور تغسیل کی رسم میں شریک نہیں ہوئے۔ سقیفہ میں نہ غم کے آثار نہ گریہ اور آشک ۔۔۔ ؟

آنحضرت [ص] بیماری کی حالت میں دو بندوں کے سہارے مسجد میں کیوں تشریف لائیں؟!!

آںحضرت صلي الله عليه وآله وسلم سخت بیماری کی وجہ سے مسجد میں حاضر ہونے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ،اب اس وجہ سے آپ نے کسی کو مسجد میں نماز جماعت کرانے کا حکم دیے تھے تو پھر کیوں نماز جماعت شروع ہوتے ہی آپ دو بندوں کے سہارے شدّت بيماري اور نا توانائي کے باوجود حضور مسجد میں حاضر ہوئے اور خود ہی نماز کی جماعت کرانے لگے ۔

فَخَرَجَ يُهَادَي بَيْنَ رَجُلَيْنِ كَأَنِّي أَنْظُرُ رِجْلَيْهِ تَخُطَّانِ مِنَ الْوَجَعِ

دو آدمیوں کا سہارا لے کر باہر تشریف لے گئے۔ گویا میں اس وقت آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کے قدموں کو دیکھ رہی ہوں کہ تکلیف کی وجہ سے زمین پر لکیر کرتے جاتے تھے۔

اب کیا جناب ابوبکر جیسے شخص کی موجودگی میں آپ اس حالت میں مسجد میں داخل ہوئے اور ایک اور نماز جماعت شروع کی ؟!!

کیا ایسی نماز قابل تصور ہے ؟!!

فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - وَهُوَ جَالِسٌ، وَكَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ أبِي بَكْرٍ

وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - يُصَلِّي قَاعِدًا، يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - وَالنَّاسُ مُقْتَدُونَ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ.

اب یہاں عجیب و غریب قسم کی نماز جماعت انجام پائی ہے،ابوبکر نماز جماعت ادا کر رہا ہے، لیکن اسی وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لاتے ہیں ابوبکر پیچھے ہٹنا چاہتا ہے ،آنحضرت [ص] انہیں وہیں کھڑے پوئے کے لئے کہتے ہیں اور ان کے سامنے اپنی نماز شروع کرتے ہیں ،ابوبکر اسی حالت میں آنحضرت [ص] کی اقتدا کرتے ہیں ،لوگ کہ جو ابوبکر کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے ،اسی طرح نماز کو ابوبکر کی اقتدا میں انجام دیتے ہیں ۔

 اب یہاں جب ابوبکر آنحضرت [ص] کی اقتدا میں نماز ادا کرسکتا ہے تو لوگ کیوں ابوبکر کی اقتدا کرئے ؟

کیا ایسی جماعت آںحضرت [ص] کی ۲۳ سالہ زندگی میں کبھی ہوئی تھی ؟

کیا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موجودگی میں ابوبکر کی اقتدا میں نماز پڑھنے سے نماز جماعت کی فضیلت کم نہیں ہوتی؟

روایت کے مطابق ابوبکر نماز پڑھ رہا تھا ،لہذا  سورہ حمد کی ایک حد تک قرائت کرچکا تھا ،اتنے میں آںحضرت صلي الله عليه وآله وسلّم تشریف لاتے ہیں اور نماز اداﺀ  کرنا شروع کرتے ہیں اور قرائت شروع کرتے ہیں اور ابوبکر اپنی قرائت چھوڑ دیتا ہے  اور خاموش ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتدا شروع کرتا ہے ،لیکن لوگوں کا امام جماعت بھی ہے ،لوگ ابوبکر کی اقتدا میں جماعت جاری رکھتے ہیں۔

اب یہ کیسی جماعت ہے کہ جس میں امام اور ماموم دونوں سورہ حمد اور دوسری سورۃ نہیں پڑھتے ؟

جیساکہ ایسی جماعت حدیث سنے والوں کے لئے عجیب تھی لہذا اعمش سے سوال ہوتا ہے :

وَكَانَ النَّبِيُّ يُصَلِّي وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلاَتِهِ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ؟

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جماعت شروع کی اور ابوبکر نے آُپ کی اقتدا میں اور لوگوں نے ابوبکر کی اقتدا میں نماز جماعت ادا کی ؟

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اعمش بھی اس کی توجیہ نہیں کرسکتے لیکن مشکل سے سر ہلاتا ہے ۔

فَقَالَ بِرَأْسِهِ نَعَمْ

آنحضرت کے حکم میں دخل و تصرف اور مشکوک حرکتیں !!!

روایت کے اس حصے پر توجہ دیں :

فَقَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ الْبُكَاءِ ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ . فَفَعَلَتْ حَفْصَةُ . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - « مَهْ ، إِنَّكُنَّ لأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ » . فَقَالَتْ حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ مَا كُنْتُ لأُصِيبَ مِنْكِ خَيْرًا.

عائشہ کہتی ہے  میں نے حفصہ سے کہا کہ وہ بھی کہیں کہ اگر ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو روتے روتے لوگوں کو (قرآننہ سنا سکیں گے۔ اس لیے عمر سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حفصہ نے  بھی اسی طرح کہا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ خاموش رہو۔ تم صواحب یوسف کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پس حفصہ نے عائشہ سے کہا۔ بھلا مجھ کو کہیں تم سے بھلائی پہنچ سکتی ہے؟

اب اگر رسول اللہ صلّي الله عليه وآله وسلّم کی تشخیص کے مطابق ابوبکر آپ کی نیابت میں نماز ادا کرنے کے لئے زیادہ مناسب تھا تو عائشہ کس وجہ سے آپ کے اس حکم کی نافرمانی کرتی ہے اور اس حکم پر عمل کرنے کے بجائے عمر کو آگے لانے کی کوشش کرتی ہیں اور نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں ؟

کیا آںحضرت رسول اللہ صلّي الله عليه وآله وسلّم یہ  تشخيص نہیں دئے سکتے کہ کون اس کام کے لئے مناسب ہے ؟!!

عائشہ کیوں حفصہ کو آگے کرتی ہے اور ابوبکر کی جگہ  عمر کو جماعت کرانے کا حکم دیتی ہے ؟

کیا حفصہ کا آنحضرت [ص] سے تعلق زیادہ بہتر تھایا عائشہ کا ؟! یا ان کے آپس میں کچھ مسائل تھے جس کہ وجہ سے آنحضرت کی طرف سے ڈانٹ اور سخت الفاظ کا سامنا کرتی ہے۔

اگر  قابلیت صرف ابوبکر میں تھی تو عائشہ کیوں حفصہ سے عمر کو جماعت کرانے کے لئے کہتی ہے ؟

کیا آنحضرت کا یہ رد عمل اور سخت جواب ان دونوں کی عدالت کو خدشہ دار نہیں کرتا ؟

کیا جناب حفصہ کا کام ایک تو آنحضرت کے حکم کی مخالفت اور ساتھ ہی جناب عائشہ کے ساتھ مخالفت میں شریک ہونا نہیں ہے ؟!!

جناب حفصہ کا جناب عايشه کو یوں کہنا «مَا كُنْتُ لأُصِيبَ مِنْكِ خَيْرًا» (کیا مجھے کوئی خیر تمہاری طرف سے ملا ہے ) کیا یہ جملہ عائشہ کی عدالت کو خراب کرنا نہیں ہے ؟

کیا اس سے یہ احتمال نہیں دیا جاسکتا کہ ان کے آپس میں کوئی سری باتیں تھیں اور ایک خاص پروگرام کے تحت اس طرح پیش کر رہی تھیں کہ امام جماعت کا حکم  کسی نہ کسی طرح ابوبکر اور عمر کے لئے ہی ہو ؟!!

ابوبکر امام جماعت تھا یا ماموم تھا یا مکبر  ؟!!

چھٹی روایت کے اس حصے پر دقت کریں :

... فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ يَتَأَخَّرُ ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ أَنْ صَلِّ ، فَتَأَخَّرَ أَبُو بَكْرٍ وَقَعَدَ النَّبِيُّ إِلَي جَنْبِهِ ، وَأَبُو بَكْرٍ يُسْمِعُ النَّاسَ التَّكْبِيرَ...

... ابوبکر آپ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔ لیکن آپ نے اشارہ سے انہیں نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ ابوبکر پیچھے ہٹ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے بازو میں بیٹھے۔ ابوبکر لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تکبیر سنا رہے تھے۔

کیا یہ والی روایت اس سلسلے کی دوسری روایات کے ساتھ معارض اور متضاد نہیں ہے ؟

کیونکہ اس روایت کے مطابق ابوبکر نے اپنی نماز ختم کی اور ایک مکبر کے طور پر کھڑے ہوگئے.

تناقض در تناقض

... أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يُصَلِّي لَهُمْ فِي وَجَعِ النَّبِيِّ ...

... ابوبكر رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلّم کی پوری بیماری کی مدت میں جماعت کراتا رہا  ...

اگر چہ باقی روایات کے درمیان بھی تناقض اور تضاد موجود ہے لیکن آٹھویں روایت کا دوسری روایات کے ساتھ تناقض بہت ہی واضح ہے ۔اس روایت کے مطابق آپ نے اس پوری مدت میں ابوبکر کو جماعت سونپھی ۔۔

اب کیا جناب عائشہ اور دوسروں کو اس کا علم نہیں تھا کہ آپ نے مکمل طور پر اس دوران ابوبکر کو جماعت کرانے کا کہا تھا ؟

اسی طرح اس روایت کا اس سے پہلے اور بعد والی روایات کے ساتھ تناقض اور تضاد کے موارد میں سے ایک یہ جملہ ہے :

... فَأَشَارَ إِلَيْنَا النَّبِيُّ أَنْ أَتِمُّوا صَلاَتَكُمْ ، وَأَرْخَي السِّتْرَ ، فَتُوُفِّيَ مِنْ يَوْمِهِ .

... ابوبکر الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر صف کے ساتھ آ ملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں، لیکن آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے ہمیں اشارہ کیا کہ نماز پوری کر لو۔ پھر آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے پردہ ڈال دیا۔ پس نبی کریم صلي اللّه عليه وآله وسلم  کی وفات اسی دن ہو گئی۔ ۔

اس روایت کا مضمون وہی  «كتاب موطّأ مالك» والی روایت کے شبیھہ ہے ،کوئی حکم ہی نہیں تھا ،بلکہ ابوبکر آنحضرت [ص] کی طرف سے بتائے بغیر خود اپنی طرف سے جماعت کرا رہا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو بیماری کے تیسرے دن پتہ چلا ۔ اب اگر بات یہ ہے تو  اس پر دوسرے اشکالات وارد ہوں گے ۔

اگر مالک کی روایت کو قبول کرئے تو اس روایت کا عائشہ سے نقل شدہ دوسری روایات کا کیا حکم ہوگا اور ان میں موجود تضادات کو کیسے حل کرئے گا؟!!

ابوبكر اور عمر ایک دوسرے سے تعارف کرتے ہیں !

روایت کے اس حصے پر بھی دقت کرئے تو کئی اعتراضات وارد ہوسکتے ہیں:

... فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ - وَكَانَ رَجُلاً رَقِيقًا - يَا عُمَرُ صَلِّ بِالنَّاسِ . فَقَالَ لَهُ عُمَرُ أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ ...

... ابوبكر [ جو نرم دل انسان تھا] نے عمر سے کہا : آپ آگے جاکر جماعت کرائے اور عمر نے کہا : آپ اس کے زیادہ مستحق اور سزاوار ہے ۔

اگر بعض روایات میں عائشہ اور حفصہ کا ایک دوسرے سے تعارف کی بات ہوئی ہے تو یہاں ابوبکر اور عمر کا آپس میں تعارف کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو آگے جانے کا کہہ رہے ہیں۔ اب یہ سوال یہاں بھی باقی ہے کہ یہ جو ان کے درمیان معاملہ چل رہا تھا تو کیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطلاع کے ساتھ ایسا کر رہے تھے یا اطلاع کے بغیر  ؟  اگر آپ کی اطلاع کے ساتھ ایسا کر رہے تھے تو یہ نے یہ کیوں عمر سے نہیں کہا اور آگر آپ نے عمر کو اس حکم کے لئے مناسب نہیں سمجھا تو پھر ابوبکر نے ایسا کام کیوں کیا ؟

کیا امام جماعت بننے اور خلافت کے ساتھ کوئی تلازم موجود تھا ؟

ابن تیمیہ کا ان میں کوئی تعلق نہ ہونے کا اعتراف

فالاستخلاف في الحياة نوع نيابة لا بد منه لكل ولي أمر وليس كل من يصلح للاستخلاف في الحياة علي بعض الأمة يصلح أن يستخلف بعد الموت فإن النبي صلي الله عليه و سلم استخلف في حياته غير واحد و منهم من لا يصلح للخلافة بعد موته ۔۔

کوئی کسی کو اپنی زندگی میں کسی کام کے لئے اپنا جانشین بنایا ہے تو یہ اس نائب بنانا ہے جیساکہ ہر حاکم ایسا کرنے پر مجبور ہے ،لیکن ایسا نہیں ہے جس کو اپنی زندگی میں بعض کاموں کے لئے اپنا نائب بنایا ہو تو یہ اس کی موت کے بعد بھی اس کے جانشین بنے کی اہلیت رکھتا ہو۔  

 

جیساکہ پيامبر صلي الله عليه [وآله] وسلّم نے اپنی زندگی میں بعض صحابہ کو اپنی جگہ امام جماعت بنایا جبکہ ان میں سے بعض آپ کے بعد خلافت کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔  

منهاج السنة النبوية ، أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس ، ج 7 ، ص 339 . الناشر : مؤسسة قرطبة الطبعة الأولي ، 1406 ، تحقيق : د. محمد رشاد سالم ، عدد الأجزاء : 8

الف: کسی کو اپنا جانشین بنانا ،آنحضرت [ص] کے رائج کاموں میں سے تھا .

پیغمبر صلّي الله عليه وآله جب کبھی کچھ دنوں کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو کسی کو اپنا جانشین بنا کر ہی جاتے تھے ۔

... النبي صلي الله عليه وسلم استخلف في كل غزاة غزاها رجلا من أصحابه

... رسول اللہ صلي الله عليه [وآله] وسلّم کسی جنگ کے لئے بھی مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو کسی صحابی کو اپنا جانشین بنا کر ہی جاتے تھے ۔

تفسير القرطبي، قرطبي(671 هق )، ج 1، ص 268

ب : عبد الرحمن بن عوف ،خلافت کے لئے ابوبکر سے زیادہ مناسب تھا .

اگر خلافت کے مستحق ہونے کا ملاک امام جماعت بنانا اور امام جماعت بننے سے اس کا ماموم سے مقدم ہونا لازم آتا ہے تو عبدالرحمن بن عوف  کا رسول خدا صلّي الله عليه و آله وسلّم پر مقدم ہونا لازم آئے گا یا کم از کم ابوبکر سے زیادہ خلافت کے لئے مناسب ہونا لازم آئے گا ۔کیونکہ رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلّم نے ان کے پیچھے نماز ادا کی ہے ۔

اهل سنّت کے بزرگ علماﺀ کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ رسول اللہ صلّي الله عليه وآله وسلّم نے صبح کی نماز عبدالرحمن بن عوف کے پیچھے پڑھی ہے : (اگر چه شيعه عقیدہ ہے کہ «لا تقدموا بين يدي الله و رسوله» حجرات/1 کے مطابق یہ صحیح نہیں ہے ،آپ کے ہوتے ہوئے اور  کوئی جماعت کرائے  ).

في غزوة تبوك هذه صلي رسول الله صلي الله عليه وسلم خلف عبد الرحمن بن عوف صلاة الفجر

تبوك کی جنگ میں رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلّم نے  عبدالرحمن بن عوف کے پیچھے صبح کی نماز پڑھی ۔۔

البداية والنهاية ، ابن كثير( 744 هـ ) ، ج 5 ، ص 28 .

ج : سالم مولي ابي حذيفه کو بھی آنحضرت [ص] نے امام جماعت بنایا ؛

692 - حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ لَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الأَوَّلُونَ الْعُصْبَةَ - مَوْضِعٌ بِقُبَاءٍ - قَبْلَ مَقْدَمِ رَسُولِ اللَّهِ - صلي الله عليه وسلم - كَانَ يَؤُمُّهُمْ سَالِمٌ مَوْلَي أَبِي حُذَيْفَةَ

جس وقت مہاجرین کا پہلا گروہ قباء کی جگہ پہنچے تو رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلّم کی مدینہ آمد سے پہلے مولي ابي حذيفه جماعت کے فرائض انجام دئے رہے تھے ۔.

صحيح بخاري ، محمد بن اسماعيل ( 256 هـ ) ، ج 1 ، ص 170 ، كتاب الاذان ، باب العبد و المولي

اگر آپ کی طرف سے کسی کو امام جماعت کا کام سونپنا آپ کے بعد آپ کے جانشین بننے کی دلیل ہے تو جناب سالم تو آپ کے مدینہ تشریف آوری سے پہلے کافی عرصہ تک یہ فریضہ انجام دیتے رہے ۔

ج : نبینا ۔ ابن امّ مكتوم، ابوبکر سے زیادہ جانشینی کا مستحق تھا .

595 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَنْبَرِيُّ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ -صلي الله عليه وسلم- اسْتَخْلَفَ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ يَؤُمُّ النَّاسَ وَهُوَ أَعْمَي.

... پيامبر صلّي الله عليه [وآله] وسلّم نے ابن امّ مكتوم کو جو ایک  نابينا شخص تھا ،اس کو امامت کے لئے جانشین بنایا .

سنن أبي داود، أبو داود سليمان بن الأشعث السجستاني، ج 1، ص 143 .

قال ابن عبد البر روي جماعة من أهل العلم بالنسب والسير أن النبي صلي الله عليه وسلم استخلف بن أم مكتوم ثلاث عشرة مرة في الأبواء وبواط وذي العشيرة وغزوته في طلب كرز بن جابر وغزوة السويق وغطفان وفي غزوة أحد وحمراء الأسد ونجران وذات الرقاع وفي خروجه من حجة الوداع وفي خروجه إلي بدر

...پيامبر صلّي الله عليه [وآله] و سلّم نے ابن مکتوم کو تیرہ مرتبہ نماز کے لئے اپنا جانشین بنایا ...

الإصابة، ابن حجر(852 هق)، ج 4، ص 495 .

د: بعض دوسرے کاموں میں  آپ کے جانشین کہ جو امام جماعت میں جانشینی سے زیادہ اہم تھا ۔۔۔.

ذیل میں ہم بعض اصحاب کے ناموں کا ذکر کرتے ہیں کہ جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بعض کاموں میں آپ کا جانشین بنایا کہ جو نماز جماعت میں جانشین بنانے سے کچھ کم نہیں تھا۔لہذا اگر اسی معیار کو سامنے رکھے تو یہ لوگ خلیفہ بننے کے زیادہ سزاوار ہیں، دیکھیں :

استخلف [النبي(ص ) ] علي المدينة ، ابن أم مكتوم ثلاث عشرة مرة في غزواته...

واستخلف أبا رهم الغفاري كلثوم بن حصين حين سار إلي مكة وحنين والطائف

واستخلف محمد بن مسلمة في غزوة قرقرة الكدر

وفي غزوة بني المصطلق ، نميلة بن عبد الله الليثي

وفي غزوة الحديبية ، عو يف بن الأضبط من بني الديل

وفي غزوة خيبر ، أبا رهم الغفاري

وفي عمرة القضاء ، أبا رهم أيضا

وفي غزوة تبوك ، سباع بن عرفطة الغفاري

وفي بعض غزواته ، غالب بن عبد الله الليثي

واستخلف علي مكة عند انصرافه عنها ، عتاب بن أسيد فلم يزل عليها حتي مات أبو بكر

وعثمان بن أبي العاصي الثقفي علي الطائف

وسالم بن عثمان بن معتب علي الأحلاف من ثقيف علي بني مالك

وعمرو بن سعيد بن العاصي علي قري عربية خيبر ووادي القري وتيماء وتبوك

... والحكم بن سعيد بن العاصي علي السوق

و فرق اليمن فاستعمل علي صنعاء ، خالد بن سعيد بن العاصي

وعلي كندة والصدف ، المهاجر بن أبي أمية

وعلي حضر موت ، زياد بن لبيد الأنصاري أحد بني بياضة

ومعاذ بن جبل علي الجند والقضاء وتعليم الناس الاسلام وشرائعه وقراءة القرآن

و ولي أبا موسي الأشعري ، زبيد ورمع وعدن والساحل

وجعل قبض الصدقات مع العمال الذين بها إلي معاذ بن جبل

وبعث عمرو بن حزم إلي بلحارث بن كعب

وأبا سفيان بن حرب إلي نجران

وقد بعث أيضا عليا إلي نجران فجمع صدقاتهم

وقدم علي رسول الله صلي الله عليه وسلم في حجة الوداع

و سعيد بن القشب الأزدي حليف بني أمية علي جرش وبحرها

والعلاء ابن الحضرمي علي البحرين ثم عزله

وولي أبان بن سعيد وبحرها

قبض رسول الله صلي الله عليه وسلم وأبان علي البحرين

وعمرو بن العاصي إلي عمان

قبض رسول الله صلي الله عليه وسلم وعمرو عليها

ويقال : قد كان بعث أبا زيد الأنصاري إلي عمان

وسليط بن سليط أحد بني عامر بن لؤي إلي أهل اليمامة فأسلموا

فأقرهم رسول الله صلي الله عليه وسلم علي ما في أيديهم وأموالهم

تاريخ خليفة بن خياط، خليفة بن خياط العصفري(240 هق)، ص 62 .

عمر اعتراف کرتا ہے کہ رسول اللہ [ص] نے ابوبکر کو اپنا جانشین نہیں بنایا ہے ؛

بخاري اور مسلم نے  عبد اللّه بن عمر سے نقل کیا ہے :

عن عبدالله بن عمر قال: قيل لعمر: ألا تستخلف؟ فقال: إن أستخلف فقد استخلف من هو خير منّي: أبو بكر، وإن أترك فقد ترك من هو خير منّي: رسول اللّه صلي اللّه عليه وسلم.

اگر میں خلیفہ منتخب کروں تو یہ ابوبکر کا طریقہ کار ہے کہ جو مجھ سے بہتر ہے ،انہوں نے خلیفہ انتخاب کیا اور اگر میں خلیفہ انتخاب نہ کروں تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طریقہ ہے اور آپ مجھ سے بہتر تھے ،آپ نے خلیفہ منتخب نہیں فرمایا

 ! صحيح بخاري، ج 4، ص2256، ح 7218، كتاب الأحكام، باب الاستخلاف 51 ـ صحيح مسلم، ج 3 ، ص1454، ح 1823،كتاب الإمارة، باب الاستخلاف وتركه.

نووي نے  صحيح بخاري کی شرح میں اس روایت کے ذیل میں لکھا ہے :

وفي هذا الحديث دليل علي أنّ النبي صلي اللّه عليه وسلم لم ينصّ علي خليفة، وهو إجماع أهل السنّة وغيرهم.

یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کی خلافت پر تصریح نہیں فرمائی ہے  اور اس پر اھل سنت اور دوسروں کا اجماع ہے۔

صحيح مسلم بشرح النووي، 12/205.

ابن كثير کی نظر بھی قابل توجہ ہے :

إنّ رسول اللّه صلي اللّه عليه وسلم لم ينصّ علي الخلافة عيناً لأحد من الناس ، لا لأبي بكر كما قد زعمه طائفة من أهل السنّة، ولا لعليّ كما يقوله طائفة من الرافضة.

پیغمبر اکرم ص نے کسی کی خلافت پر تصریح نہیں فرمائی ہے، نہ ابوبکر کی خلافت پر ،جیساکہ اہل سنت کے ایک گروہ کا یہ نظریہ ہے اور نہ علی ع کی خلافت پر کہ بعض شیعہ اس چیز کا اعتقاد رکھتے ہیں ۔

البداية والنهاية، ابن كثير، ج 5، ص 219 .

إيجي  نے «المواقف» ص 400  میں ، عبد القاهر بغدادي  نے  «الفرق بين الفرق» ص 349 میں  اور أبو حامد غزالي  نے  قواعد العقائد، ص 226  پر اسی نظریے کہ تائید کی ہے ۔

استاد کا شاگرد کے لئے اعتراف :

ابن ابي الحديد معتزلي کہتا ہے :

سألت الشيخ (أي أستاذه) أفتقول أنت أن عائشة عينت أباها للصلاة ورسول اللّه لم يعيّنه؟ فقال: أما أنا فلا أقول ذلك، لكن عليّاً كان يقوله، وتكليفي غير تكليفه، كان حاضراً ولم أكن حاضراً.

میں نے اپنے استاد سے کہا : کیا آپ کا یہ نظریہ ہے کہ ابوبکر کو عائشہ نے ہی مسجد میں نماز کے لئے بھیجا اور آنحضرت [ص] نے اسے ایسا حکم نہیں دیا تھا ؟  استاد نے جواب دیا : نہیں میں ایسی بات نہیں کرتا ہوں ،بلکہ یہ بات حضرت علی علیہ السلام کی ہے . ان کی اپنی کچھ ذمہ داریاں تھیں اور میری اپنی ذمہ داریاں ہیں وہ موقع پر موجود تھے لیکن میں اس وقت موجود نہیں تھا ۔.

شرح نهج البلاغة، ج9 ، ص 198.

فاسق و فاجر کا امام جماعت بنا ۔

بعض وہابی علماﺀ سے دھاڑی صاف کیے ہوئے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں سوال ہوا تو ان لوگوں نے جواب دیا ، کہ اہل سنت  سے تعلق رکھنے والے فاسق و فاجر کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ۔

دیکھیں :

س 1 : فقد صدرت فتوي في الجمهورية الجزائرية من أحد كبار المشايخ قال فيها : إن الإمام الحالق لحيته لا تجوز الصلاة وراءه فنريد من سيادتكم أن تبينوا لنا هل هذه الفتوي صحيحة أم غير صحيحة ؟ كذلك نريد منكم التوضيح والبرهان من فضلكم ؟

ج 1 : إعفاء اللحية واجب ، وحلقها حرام ، كما ثبت في الحديث الصحيح أن النبي ( ص ) قال : أنهكوا الشوارب واعفوا اللحي (1) ومذهب أهل السنة والجماعة الصلاة خلف كل بر وفاجر ، طلبا للألفة والجماعة ودرءا للخلاف والفرقة ، فإذا وجد غير حليق اللحية إماما صلي وراءه ، وإن لم يجد صلي خلفه ولو كان حالقا للحيته ، وصلاته صحيحة ، وبهذا يعلم أن الفتوي المذكورة في السؤال غير صحيحة .

وبالله التوفيق وصلي الله علي نبينا

محمد وآله وصحبه وسلم .

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

عضو عضو نائب الرئيس الرئيس عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز

سؤال 1. الجزائر کے ایک بزرگ سے سوال ہوا: کیا دھاڑی صاف کیے ہوئے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ؟  تو انہوں نے جواب میں اس کو باطل کہا ،کیا ان کا یہ فتوا صحیح ہے ؟

جواب 1: دھاڑی پڑھا کر رکھنا واجب اور اس کو صاف کرنا حرام ہے جیساکہ  رسول خدا صلي الله عليه وآله نے فرمایا : موچھیں کاٹ لو اور دھاڑی لمبی رکھو . اہل سنت و الجماعت کے نذدیک الفت کی خاطر اور اختلاف سے بچنے کی خاطر ہر فاسق و فاجر کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

فتاوي اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء - جمع أحمد بن عبد الرزاق الدويش - ج 7 ص 396

اب اس سلسلے کی روایات اور فتوایا کو دیکھنے کے بعد کیا امام جماعت بننا ابوبکر کے لئے بہت بڑی فضیلت ہے ؟

ابوبکر اسامہ کے لشکر میں

الف . ابوبكر اور عمر اسامه کے لشکر میں

اب اگر یہ ثابت ہو کہ ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات میں مدینہ سے باھر اسامہ کے لشکر میں تھے تو پھر امام جماعت والی روایات کا مضمون ہی خراب ہوجاتا ہے .

ابن حجر عسقلاني نے صحيح بخاري، کی شرح میں اس مطلب پر اعتراف کیا ہے:

باب بعث النبي صلي الله عليه وسلم أسامة بن زيد في مرضه الذي توفي فيه

فبدأ برسول الله صلي الله عليه وسلم وجعه في اليوم الثالث فعقد لأسامة لواء بيده فأخذه أسامة فدفعه إلي بريدة وعسكر بالجرف وكان ممن انتدب مع أسامة كبار المهاجرين والأنصار منهم أبو بكر وعمر وأبو عبيدة ...

... جن لوگوں کو  اسامہ کے ساتھ  روانہ کیا ، ان میں مهاجر اور انصار کے بزرگان بھی تھے جیسے ابوبكر ،عمر  اور  ابوعبيده   ...

فتح الباري ، ابن حجر (852 هـ ) ، ج 8 ، ص 115 .

ب . اسامہ کے لشکر سے تخلف کرنے والوں پر آنحضرت [ص] کی لعنت۔

ابوبکر کی امام جماعت بننے سے استدلال کرنے والوں کا اگر یہ کہنا ہے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ابوبکر کو اپنے بعد آپ کا جانشین بنایا جائے ،اگر ان لوگوں کہ یہ باتیں صحیح ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیوں اپنی زندگی کے آخری لمحات میں خاص کر ابوبکر اور عمر کو اسامہ کے لشکر کے ساتھ مدینہ سے نکلنے کا حکم دئے رہے تھے ،کیوں  ان لوگوں کو ایک ۱۸ سارہ جوان کی کمانڈری میں مدینہ چھوڑ کر جاننے کا حکم دئے رہے تھے؟  جبکہ یہ بھی ممکن تھا کہ اس جنگ کے نتیجے میں یہ لوگ مارے جائے ۔ یہاں تک کہ آپ کو جب پتہ چلا کہ لوگ آپ کے حکم پر عمل نہیں کر رہے ہیں تو آپ کو سخت غصہ آیا اور ان لوگوں پر لعن کیا ۔۔۔ اب اگر مقصد ابوبکر کو مقام جانشین دینا تھا اور ساتھ آپ کو یہ بھی علم  تھا کہ ایک دو دن میں دنیا سے جانا ہی ہے تو پھر آپ ابوبکر کو کیوں مدینہ سے نکل جانے کا حکم دئے رہے تھے ؟ کیا جس کو اپنا جانشین بنایا ہو اس کو اپنے سے دور کرنا چاہئے یا اپنے نذدیک رکھنا چاہئے تھا ؟ 

اہل سنت کے بعض معتبر روایات میں ہے :

الخلاف الثاني في مرضه أنه قال جهزوا جيش أسامة لعن الله من تخلف عنه فقال قوم يجب علينا امتثال أمره واسامة قد برز من المدينة وقال قوم قد اشتد مرض النبي عليه الصلاة والسلام فلا تسع قلوبنا مفارقته والحالة هذه فنصبر حتي نبصر أي شيء يكون من أمره

... پیغمبر صلي الله عليه وآله وسلم  نے فرمایا : اس پر اللہ کی لعنت ہو جو اسامہ کے لشکر میں شریک نہیں ہوئے ۔

الملل والنحل ، شهرستاني (548 هـ ) ، ج1 ، ص23 .

وكاختلافهم بعد ذلك في التخلف عن جيش أسامة فقال قوم بموجب الاتباع لقوله صلي الله عليه وسلم جهزوا جيش أسامة لعن الله من تخلف عنه

... پيامبر اكرم[ صلي الله عليه وآله وسلم]نے فرمایا : اس پر اللہ کی لعنت ہو جو اسامہ کے لشکر میں شریک نہیں ہوئے ۔

المواقف ، عضد الدين عبدالرحمن بن أحمد إيجي (756 هـ ) ، ج3 ، ص 650 .

وقام أسامة فتجهز للخروج ، فلما أفاق رسول الله صلي الله عليه وآله سأل عن أسامة والبعث ، فأخبر أنهم يتجهزون ، فجعل يقول : أنفذوا بعث أسامة ، لعن الله من تخلف عنه وكرّر ذلك

... پيامبر اكرم[ صلي الله عليه وآله وسلم]نے فرمایا : اس پر اللہ کی لعنت ہو جو اسامہ کے لشکر میں شریک نہیں ہوئے ۔

شرح نهج البلاغة ، ابن أبي الحديد ( 656 هـ ) ، ج 6 ، ص 52 .

کچھ سوالات :

الف: کیا ابوبکر کو امام جماعت قرار دینے کا یہ حکم ھزیان گوئی نہیں ہے ؟!!

جیساکہ آپ نے اگر اپنی زندگی کے آخری ایام میں ابوبکر کے لئے ایسا حکم دیا ہے تو یہ سوال اٹھتا ہے انہیں ایام میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بعد لوگوں کو گمراہی سے نجات دینے کے لئے ایک نسخہ لکھنا چاہا اور لوگوں کو قلم و دوات لانے کے لئے کہا تو خاص کر جناب عمر آڑے آیا اور آپ کی طرف ھزیان گوئی کی نسبت دی اور آپکے اس حکم پر عمل ہونے نہیں دیا ۔۔۔اب کیا نماز جماعت کا یہ حکم بھی ھزیان گوئی نہیں ہوسکتا ؟  !!

بخاري نے  نقل کیا ہے :

هلّم أكتب لكم كتاباً لا تضلّوا بعده! فقال عمر: إنّ النبيّ صلي الله عليه وسلم قد غلب عليه الوجع، وعندكم القرآن حسبنا كتاب اللّه

آٗو میں تم لوگوں کے لئے ایک نسخہ لکھوں تاکہ تم لوگ کبھی گمراہ نہ ہوں۔ عمر آڑے آیا اور کہا آپ پر مرض کا غلبہ ہے [لہذا ایسی بات کر رہے ہیں ] قرآن تم لوگوں کے پاس ہے ، اللہ کی کتاب ہمارے لئے کافی ہے ۔

صحيح بخاري، ج 7، ص 9، كتاب المرضي باب قول المريض قوموا عنّي.

  بخاری اور مسلم کی دوسری روایت میں ہے :

عن ابن عبّاس قال: يوم الخميس وما يوم الخميس ... فقالوا: إنّ رسول اللّه صلي اللّه عليه وسلم ـ يهجر.

ابن عباس کہتا ہے : جمعرات کا دن ، جمعرات کا دن کیسا دن تھا ! ... لوگوں نے کہا : رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلّم هذيان گوئی کر رہے ہیں ۔

صحيح مسلم، ج 5، ص 76 كتاب الوصيّة باب ترك الوصيّة لمن ليس عنده شيء ـ صحيح بخاري، ج 4، ص 31، كتاب الجهاد والسير.

اسی طرح جب عمر کو ابوبکر جانشین بنارہا تھا اور وصیت لکھوا رہا تھا تو ابوبکر بے ھوش ہوا ،عثمان نے وصیت نامہ مکمل کیا اور عمر کا نام لکھا تو کیوں یہاں ھذیان گوئی نہیں کہا  ؟

لما حضرت أبا بكر الصديق الوفاة دعا عثمان بن عفان فأملي عليه عهده ، ثم أغمي علي أبي بكر قبل أن يملي أحدا فكتب عثمان عمر بن الخطاب ، فأفاق أبو بكر فقال لعثمان كتبت أحدا ؟ فقال : ظننتك لما بك وخشيت الفرقة فكتبت عمر بن الخطاب فقال : يرحمك الله ، أما لو كتبت نفسك لكنت لها أهلا.

جب ابوبکر کی موت کا وقت قریب آیا تو عثمان کو بلایا اور ان سے وصیت نامہ لکھنے کے لئے کہا ۔ وصیت لکھوا رہا تھا  لیکن کسی کا نام لکھنے سے پہلے بیماری کی وجہ سے بے ہوش ہوا ۔

تو عثمان نے عمر بن الخطاب کا نام لکھ دیا ، ابوبکر کو ہوش آیا اور عثمان سے پوچھا : کہا کسی کا نام لکھا ؟

عثمان نے کہا : میں نے سوچا  کہ آپ دنیا سے چلے جائیں گے اور ہوش میں نہیں آئے گا مجھے لوگوں میں تفرقہ کا خوف ہوا لہذا میں نے عمر بن الخطاب کا نام لکھ دیا ۔

ابوبکر نے کہا : اللہ آپ پر رحمت نازل کرئے ۔ اگر اپنا نام بھی میرے بعد جانشین کے عنوان سے لکھ دیتا تو آپ بھی کوئی بات نہ تھی کیونکہ آپ بھی اس  مقام کے اہل ہو۔۔۔۔

 كنز العمال، ج 5، ص 678; تاريخ مدينة دمشق لابن عساكر، ج 39، ص 186 و ج 44، ص 248 ر.ك: تاريخ الطبري، ج 2 ص 353; سيرة عمر لابن الجوزي: 37; تاريخ ابن خلدون، ج 2 ص 85.

اب کس بات کو قبول کرئے ؟!!

ایک تو سابقہ روایتیں ہیں کہ جن میں بقول جناب عائشہ کے ،آنحضرت [ص] نے ابوبکر کو نماز جماعت کرانے کا حکم دیا ، لیکن ساتھ ہی عائشہ سے خو دوسری روایات بھی ہیں کہ جو سابقہ روایاتوں کے مضمون کو خراب کرتی ہیں جیساکہ نقل ہوا ہے :

عن عائشة قالت: اشتكي رسول اللّه(صلي الله عليه وآله وسلم) فدخل عليه ناس من أصحابه يعودونه فصلّي رسول اللّه جالساً فصلّوا بصلاته قياماً.

 عائشہ کہتی ہے کہ رسول اللہ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کی عیادت کے لئے صحابہ کرام آئے۔ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  نے بیٹھ کر نماز پڑھائی لیکن کچھ لوگ آپ صلي اللّه عليه وآله وسلم  کے پیچھے کھڑے تھے۔۔

صحيح مسلم، ج 2، ص19.

عن عائشة: أنّ رسول اللّه صلي الله عليه وسلم صلّي في مرضه وهو جالس وخلفه قوم.

عايشه کہتی ہے : رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلّم بیماری کی حالت میں بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور بعض لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے ۔ ۔

مسند احمد، ج 6، ص 57 .

عن عائشة: صلّي رسول اللّه صلي الله عليه وسلم خلف أبي بكر قاعداً في مرضه الذي مات فيه

عايشه کہتی ہے : رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلّم بیماری کی حالت میں بیٹھ کر نماز پڑھاتے تھے اور ابوبکر نے اسی بیماری کی حالت[ کہ جس بیماری میں آپ فوت ہوئے] میں کھڑے ہوکر آپ کی اقتداﺀ کی ۔

مسند احمد، ج 6 ، ص 159 .

کیا ابوبکر ،رسول اللہ [ص] پر مقدم ہوگا ؟

اگرچہ اسامہ کے لشکر میں موجودگی کی روایات کو سامنے رکھے تو ابوبکر کا رسول اللہ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں مدینہ میں ہونے کی خبر  کی نفی ہوتی ہے ۔اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ابوبکر مدینہ میں ہی تھا تو ذیل کی روایت ایک اور حقیقت ہمارے لئے بیان کرتی ہے اور اس واقعے کے حقائق کو سمجھنے کے لئے نئے دروازے ہمارے لئے کھول دیتی ہے ۔

 ذیل کی روایت کے مطابق ابوبکر کی طرف سے نماز جماعت کی خبر سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سخت بیماری کی حالت میں مسجد میں تشریف لاتے ہیں اور ابوبکر کی جگہ جماعت کراتے ہیں اور ابوبکر ایک مکبر کی حیثیت سے بیٹھ جاتا ہے!!!

عن عائشة: قال رسول اللّه صلي الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه: مروا أبابكر يصلّي بالناس ... وصلّي النبي خلفه قاعداً

عايشه کہتی ہے : رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلّم جس بیماری سے آپ فوت ہوئے اس بیماری کی حالت میں آپ نے ابوبکر کو جماعت کرانے کا حکم دیا ۔۔۔۔ ... اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و وآلہ وسلم نے ابوبکر کے پیچھے نماز پڑھی .

مسند احمد، ج 6 ، ص 159 .

اب اگر بات یہی ہے تو یہ سورہ حجرات کی آیت «ولا تقدموا بين يدي الله و رسوله» سے ٹکراتی ہے کہ جس کے مطابق تمام فقہاﺀ نے یہی کہا ہے آپ سے مقدم ہوکر نماز ادا کرنا صحیح نہیں ہے اور ایسی نماز باطل ہے  .

ابوبكر صرف مکبر تھا :

ابن حجر نے امام شافعی سے نقل کیا ہے :

... قد صرّح الشافعي بأنه صلي الله عليه [وآله] وسلم لم يصل بالناس في مرض موته في المسجد إلا مرة واحدة وهي هذه التي صلي فيها قاعدا وكان أبو بكر فيها أولا إماما ثم صار مأموما يسمع الناس التكبير ...

... شافعي نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس بیماری کی حالت میں جس میں آپ فوت ہوئے ،آپ نے ایک ہی بار بیٹھ کر نماز جماعت کرائی اس نماز میں پہلے ابوبکر امام تھا ،پھر بعد میں ابوبکر ماموم بنا اور آپ کی آواز کو لوگوں تک پہنچایا ۔

فتح الباري في شرح صحيح البخاري ، ابن حجر ( 852 هـ ) ، ج 2 ، ص 145 .

اب اگر بات یہی ہے تو ابوبکر نے ایک ہی مرتبہ جماعت کرائی اور اس میں بھی پہلے امام ،پھر ماموم بنا اور مکبر کی حیثیت  سے آپ کی آواز لوگوں تک پہنچائی .

 التماس دعا۔۔۔۔

 

تحقيقاتي ادارہ حضرت وليّ عصر (عج)




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی