2024 March 29
بنت پیغمبر }ص{ کا بچہ کیسے سقط ہوا؟ کیا خلیفہ دوم نے جناب فاطمہ کو ٹھوکر مارا اور اسی وجہ سے جناب محسن بن علی ابن ابی طالب سقط ہوا ۔۔۔
مندرجات: ٢١٠٦ تاریخ اشاعت: ١٦ October ٢٠٢١ - ١٥:٠٥ مشاہدات: 2286
سوال و جواب » فاطمہ زهرا
بنت پیغمبر }ص{ کا بچہ کیسے سقط ہوا؟ کیا خلیفہ دوم نے جناب فاطمہ کو ٹھوکر مارا اور اسی وجہ سے جناب محسن بن علی ابن ابی طالب سقط ہوا ۔۔۔

بنت پیغمبر }ص{ کا بچہ کیسے سقط ہوا؟

کیا خلیفہ دوم نے جناب فاطمہ کو ٹھوکر مارا اور اسی وجہ سے جناب محسن بن علی ابن ابی طالب سقط ہوا ۔۔۔

اھل سنت کی مندرجہ ذیل کتابوں میں ابن ابی دارم ابوبکر احمد بن محمد سے روایت نقل ہوئی ہے ۔

أنَّ عُمر رَفَسَ فَاطِمَة حَتَّى أَسقطتْ محسّناً.

عمر نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ٹھوکر مارا اس سے جناب محسن جو اس وقت آپ کے پیٹ میں تھا ،سقط ہوا۔۔۔۔

سیر أعلام النبلاء ج 15 ص 578

میزان الإعتدال ج 1 ص 283

لسان المیزان ج 1 ص 268

 

اس روایت پر ہونے والا اہم اعتراض۔

اس روایت پر جو اعتراض ہوا ہے وہ اس «ابی دارم» راوی کی وجہ سے ہے ،اھل سنت کے علما اس کو رافضی کہہ کر اس کی تضعیف کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

اھل سنت کی علم رجال کی کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فقیہ اور قابل اعتماد شخص تھا ،جیساکہ امام ذھبی نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

الإمام الحافظ الفاضل...كان موصوفا بالحفظ والمعرفة...وقال محمد بن حماد الحافظ كان مستقيم الأمر عامة دهره

سیر أعلام النبلاء ج 15ص576و577و578۔

امام ،حافظ ،صاحب فضیلت ۔حفظ اور علم و معرفت کے لحاظ سے مشہور اور جانی پہچانی شخصیت تھی ۔ ۔۔۔۔

قابل توجہ نکتہ :

اس روایت پر اعتراض کی بنیادی وجہ ابی دارم پر رافضی ہونے کے عنوان کی وجہ سے ہے اور اس طعن کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف قرار دینے کی کوشش ہوئی ہے ،اب اگر صحاح ستہ کی روایات پر نظر ڈالے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ عنوان راوی کے لئے طعن اور اس کی روایت ضعیف ہونے کا موجب نہیں ہے ۔

اھل سنت کی صحیحین اور صحاح ستہ میں رافضی راویاں ۔

عبيد الله بن موسي

ذهبى نے اس کے بارے میں کہا ہے :

الامام، الحافظ، العابد...قال ابن مندة كان أحمد بن حنبل يدل الناس على عبيد الله وكان معروفا بالرفض لم يدع أحدا اسمه معاوية يدخل داره.

ابن منده نے کہا ہے : احمد بن حنبل لوگوں کو اس کی طرف راہنمائی کرتا تھا اور اس کا رافضی ہونا مشہور تھا اور یہ کسی بھی معاویہ نام والے شخص کو اپنے گھر میں داخل ہونے نہیں دیتا تھا۔

سیر أعلام النبلاء  ج9، ص553و556

ذھبی اسی کتاب، سیر أعلام النبلاء میں واضح طور پر کہتا ہے کہ عبید الله بن موسی صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہے ۔

وحديثه في الكتب الستة.

سیر أعلام النبلاء  ج9، ص555

جیساکہ صحیح بخاری میں اس سے ۳۰ سے بھی زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں ۔

جعفر بن سليمان

اھل سنت کے علما نے اس کو غالی اور رافضی کہا ہے .

خطيب بغدادى نے يزيد بن زريع سے نقل کیا ہے :

 فان جعفر بن سليمان رافضي

تاریخ بغداد، ج6، ص382

جبکہ  مزى نے تهذیب الکمال میں لکھا ہے :

روى له البخاري في "الأدب"والباقون

بخارى نے کتاب الأدب المفرد میں اور صحاح کے باقی مصنفین نے (مسلم، ابوداوود، ترمذي، نسائي و ابن ماجه) اس سے روایات نقل کی ہیں .

تهذیب الکمال، ج5، ص50

یہ صحیح بخاری اور سنن ابن ماجہ کے  راویوں میں سے ہے ۔

ر ک :

 صحیح بخاری جلد 6 ص 2710

 سنن ابن ماجه جلد 1 صفحه 568

فضل بن محمد شعرانى

خطیب بغدادی نے  الکفایه میں اس کے بارے میں لکھا ہے :

وسئل عن الفضل بن محمد الشعراني، فقال: صدوق في الرواية إلا أنه كان من الغالين في التشيع، قيل له: فقد حدثت عنه في الصحيح، فقال: لأن كتاب أستاذي ملآن من حديث الشيعة يعني مسلم بن الحجاج .

اس سے فضل بن محمد شعرانى کے بارے میں سوال ہوا ؛ کہا : وہ سچا انسان ہے ،لیکن اس کے بارے میں اشکال یہ ہے کہ وہ تشیع میں زیادہ روی کرتا تھا ،اس سے پھر سوال ہوا کہ اس سے صحیح مسلم میں روایت نقل ہوئی ہے ؟  جواب دیا کہ میرے استاد کی کتاب[صحيح مسلم]  میں اس سے بہت سے شیعہ راوی موجود ہیں ۔۔

الکفایة فی علم الدرایة، ص131

اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے راوی ہیں کہ جن سے اھل سنت کی صحاح ستہ میں روایات موجود ہیں کہ جنہیں رافضی کہا گہا ہے ۔ اسی لئے بعض اھلسنت کے علما نے کہا ہے :  اگر ہم شیعہ راویوں کو نکال دئے تو ہمیں اپنی کتابوں کو ختم کرنا ہوگا۔  

خطيب بغدادى نے الكفاية فى علم الرواية میں لکھا ہے :

قال علي بن المديني: لو تركت أهل البصرة لحال القدر، ولو تركت أهل الكوفة لذلك الرأي، يعني التشيع، خربت الكتب . قوله: خربت الكتب، يعني لذهب الحديث.

علی بن مداینی نے کہا ہے : اگر بصرہ والوں کو قدری ہونے اور کوفہ والوں کو شیعہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا جائے اور ان سے روایت نقل نہ کرئے تو ساری حدیثی کتابوں کو خراب کیا ہے یعنی ان میں موجود ساری احادیث ختم ہوگی ۔

الکفایة فی علم الدرایة، ص129

عباد بن يعقوب الرواجني

یہ بھی بخاری ،ترمذی اور سنن ابن ماجه وغیرہ کے رایوں میں سے ہے ،جیساکہ مزّی نے اس سلسلے میں کہا ہے :

رَوَى عَنه : البخاري حديثًا واحدًا مقرونا بغيرة ، والتِّرْمِذِيّ ، وابن ماجة

تهذیب الکمال، ج14، ص177

مزی نے  بھی  ان کے رافضی ہونے کے بارے میں لکھا ہے :

و قال أبو أحمد بن عدى: سمعت عبدان يذكر عن أبى بكر بن أبى شيبة أو هناد بن السرى، أنهما أو أحدهما فسقه ونسبه إلى أنه يشتم السلف... و روى أحاديثاً أنكرت عليه فى فضائل أهل البيت، و فى مثالب غيرهم.و قال على بن محمد المروزى: سئل صالح بن محمد، عن عباد بن يعقوب الرواجنى، فقال: كان يشتم عثمان.قال: و سمعت صالحا يقول: سمعت عباد بن يعقوب يقول: الله أعدل من أن يدخل طلحة و الزبير الجنة، قلت: ويلك، و لم؟ قال: لأنهما قاتلا على بن أبى طالب بعد أن بايعاه.

تهذیب الکمال، ج14، ص178

احمد بن عدى کہتا ہے : میں نے عبدان سے سنا ہے اور انہوں نے  ابوبكر بن ابی شيبه یا هناد بن سرى سے نقل کیا ہے ، کہ ان دونوں نے یا ان میں سے ایک نے اس پر فسق اور اصحاب کے بارے بدگوئی کی تہمت لگائی ہے ۔اس نے اھل بیت کی فضیلت میں اور دوسروں کی برائی میں ایسی احادیث نقل کی ہے کہ جن کی تائید نہیں ہوئی ۔

علي بن محمد مروزى کہتا ہے : کہ صالح بن محمد  سے  عباد بن يعقوب رواجنى کے بارے میں سوال ہوا ،کہا : وہ عثمان کی بدگوئی کرتا تھا ۔

اسی طرح عباد کہتا تھا : اللہ کی عدالت کا تقاضا ہے کہ طلحہ اور زبیر کو بہشت میں داخل نہ کرئے ، کہا : افسوس ہو تم پر ، کہا : کیونکہ ان دونوں نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی اور پھر ان سے جنگ بھی کی۔

اسماعيل بن خليفه

مزى نے تهذيب الكمال میں اس کے بارے میں لکھا ہے :

إسماعيل بن خليفة العبسي... رَوَى عَن: إبراهيم بن حسن بن حسن بن علي بن أَبي طالب. والحكم بن عتيبة (ت ق)، والسري بن إسماعيل... وفضيل بن عَمْرو الفقيمي (ق).

 (ق) سے مراد ،ابن ماجه اور (ت) سے مراد ترمذى ہے .

تهذیب الکمال، ج3، ص77

آگے لکھتا ہے :

وَقَال (عمرو بن علي) أيضا: سألت عبد الرحمن عن حديث أبي اسرائيل، فأبى أن يحدثني به، وَقَال: كان يشتم عثمان.

وقَال البُخارِيُّ: تركه ابن مهدي، وكان يشتم عثمان.

عمرو بن علي کہتا ہے : عبد الرحمن  سے ابواسرائيل کی روايات کے بارے میں سوال ہوا  ،اس نے میری بات پر توجہ نہیں دی اور کہا ابواسرائيل (اسماعيل بن خليفه) عثمان کی بدگوئی کرتا تھا ۔

تهذیب الکمال، ج3، ص79

نتیجہ :

رافضی ہونا کسی کی روایت کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔

 

ایک اور سوال :

کیا شیخین کی بدگوئی اور ان کو برا بلا کہنا ، کہنے والے سے روایات نقل نہ کرنے کا سبب ہوسکتا ہے ؟

جواب :

اھل سنت کی معتبر کتب صحاح ستہ میں بعض ایسے راوی بھی ہیں کہ جو خلیفہ کو برا بلا کہتے تھے ۔ لیکن اھل سنت کے علما نے ان سے روایات نقل کی ہیں اور انہیں ثقہ کہا ہے ۔

اب ہم یہاں ان میں سے چند ایک کی  طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

تليد بن سليمان المحاربي

یہ سنن ترمذى کے روایوں میں سے ہے ،یہ  ابوبكر  اور عمر کو برا بلا کہتا تھا . مزى نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

وقال أبو داود: رافضي خبيث، رجل سوء، يشتم أبا بكر وعمر.

ابوداوود نے کہا ہے : وہ  پلید و ناپاک  اور برا شخص تھا ،ابوبکر اور عمر کو برا بلا کہتا تھا ۔

تهذیب الکمال، ج4، ص322

مزی نے مزید لکھا ہے :وَقَال [عَباس الدُّورِيُّ ] في موضع آخر: كذاب، كان يشتم عثمان، وكل من شتم عثمان، أو طلحة، أو أحدا من أصحاب رسول الله ، دجال، لا يكتب عنه، وعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين.

عباس دوري،‌ نے ایک اور جگہ پر  سليمان کے بارے میں لکھا ہے : یہ بہت ہی جھوٹا انسان تھا اور عثمان کو گالی دیتا تھا اور جب بھی عثمان ، طلحہ یا اصحاب میں سے کسی ایک کو گالی دے تو وہ دجال ہے اور اس سے روایت نقل نہیں کیجائے گی ،اس پر اللہ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہو ۔

تهذیب الکمال، ج4، ص322

عبد الرزاق بن همام

شمس الدين ذهبى نے ان کے بارے میں کہا ہے :

وله ما ينفرد به، ونقموا عليه التشيّع، وما كان يغلو فيه بل كان يحبّ عليّاً ويبغض من قاتله.

اس نے ایسی چیزیں نقل کی ہے جو اس کے علاوہ کسی نے نقل نہیں کیا ہے،وہ غالی شیعہ تھا ،حضرت علی علیہ السلام سے محبت کرتا تھا اور جنہوں نے ان سے جنگ کی ہیں ،یہ ان سے دشمنی کرتا تھا ۔

تذکرة الحفاظ، ج1، ص364

ہماری مجلس اور محفل کو ابوسفیان کے بیٹے کے ذکر سے گندا اور خراب نہ کرئے ۔

ذهبی نے عبدالرزاق کا معاویه کے بارے میں موقف کے بیان میں لکھا ہے :

سمعت مخلدا الشعيرى يقول: كنت عند عبد الرزاق فذكر رجل معاوية، فقال: لا تُقْذِر مجلسَنا بذكر ولد أبى سفيان.

مخلد شعيرى سے سنا ہے کہ میں عبد الرزاق کے پاس تھا ،معاویہ کے بارے میں بات چلی تو  عبد الرزاق نے کہا: ہماری مجلس اور محفل کو ابوسفیان کے بیٹے کا ذکر کر کے گندی نہ کرئے ۔

سیر أعلام النبلاء، ج9، ص570

عبد الرزاق کا  عمر پر اعتراض

ذهبى نے ميزان الإعتدال میں لکھا ہے :

سمعت علي بن عبداللّه بن المبارك الصنعانى يقول: كان زيد بن المبارك لزم عبد الرزاق فأكثر عنه، ثم خرق كتبه، ولزم محمد بن ثور، فقيل له في ذلك، فقال: كنا عند عبد الرزاق فحدثنا بحديث ابن الحدثان، فلما قرأ قول عمر رضى اللّه عنه لعلى والعباس رضى اللّه عنهما فجئت أنت تطلب ميراثك من ابن أخيك، وجاء هذا يطلب ميراث أمرأته من أبيها. قال عبد الرزاق: انظر إلى هذا الانوَك [احمق، الجاهل العاجز] يقول: من ابن أخيك، من أبيها! لا يقول: رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم. قال زيد بن المبارك: فقمت فلم أعد إليه، ولا أروى عنه.

میزان الاعتدال، ج4، ص343-344

علي بن عبد الله بن مبارك صنعانى سے سنا ہے کہ : زيد بن مبارك کہ جو عبد الرزاق کے ساتھ رہتا تھا اور اس کی باتیں وہ زیادہ سنتا تھا  لیکن آخر کار اس کی کتابوں کو پھاڑا اور محمد بن ثور  کے ساتھ رہنے لگا اور  اس سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا : عبد الرزاق کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، تو ابن حدثان کی حدیث کی بات چلی اور جب عمر بن خطاب کی بات کے اس حصہ تک بات پہنچی  کہ جس میں  علي اور عباس سے کہا : تم اپنے بھائی کے بیٹے سے اپنی ارث لینے اور علی اپنی بیوی کا ان کے باب سے ملنے والی ارث لینے آئے ہیں۔

عبد الرزاق نے یہاں کہا : دیکھو یہ احمق کہتا ہے : بھائی کے بیٹے ، یہ نہیں کہتا ہے : رسول اللہ ص ، روای کہتا ہے : میں عبد الزاق کی اسی بات کی وجہ سے اس کے پاس سے دور ہوا اور اس کے پاس پھر نہیں گیا اور اس سے روایت بھی نقل نہیں کی ۔

يحيي بن معين  نے  عبد الرزاق سے دفاع کیا ہے ۔

حاكم نيشابورى نے معرفة علوم الحديث میں يحيى بن معين سے نقل کیا ہے :

لو ارتد عبد الرزاق عن الاسلام ما تركنا حديثه.

اگر عبد الرزاق اسلام بھی منہ موڑ لے تو پھر بھی میں اس کی روایت کو نہیں چھوڑتا۔

معرفة علوم الحدیث، ص140

 

نواصب کی توثيق

ان باتوں کے علاوہ اھل سنت کے علم جرح و تعديل کے علما نے ایسے راویوں کی توثیق کی ہے کہ جو اميرالمؤمنین عليه السلام کو  گالی اور برا بلا کہتے تھے ۔

 اب سوال یہ ہے کہ سب و شتم  صحابہ اگر روای کی تضعیف اور عدم توثیق کا سبب ہے تو کیوں نواصب کی توثیق کی گئی ؟

کیا جو ابوبکر اور عمر کو سب و شتم کرئے وہ ضعیف ،لیکن جو امیر المومنین علیہ السلام کو سب و شتم کرئے وہ قابل اعتماد اور موثق ہوسکتا ہے ؟ یہ دہرا اور متضاد معیار کیوں ؟.

ہم ذیل میں ایسے راویوں کا ذکر کرتے ہیں کہ جو نواصب میں سے ہونے کے باوجود اھل سنت کے علما کی نظر میں ثقہ اور قابل اعتماد ہیں ۔

حريز بن عثمان الحمصي

یہ ایسا منحوس آدمی ہے کہ جو حضرت علی علیه السلام پر لعن کرتا تھا .

ذهبی لکھتا ہے :

عن أحمد بن سليمان المروزي: حدثنا إسماعيل بن عياش، قال: عادلت حريز بن عثمان من مصر إلى مكة فجعل يسب عليا ويلعنه.

احمد بن سليمان  نے اسماعيل بن عياش سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا تھا : مصر  سے مكه تک حريز بن عثمان کے ساتھ رہا ،وہ اس مدت میں  حضرت علی علیہ السلام کو برا بلا کہتا اور ان پر لعن کرتا تھا .

تاریخ الإسلام، ج10، ص123

 حریز بن عثمان کی توثيقات

اب عجیب بات یہ ہے کہ یہ ان راویوں میں سے ہے کہ جس کی بہت سارے لوگوں نے توثیق کی ہے ۔

جیساکہ مزى نے  تهذيب الكمال میں اور ابن حجر عسقلانى نے اس کی توثيقات کے بیان میں لکھا ہے :

وسألت أحمد بن حنبل عنه فقال ثقة ثقة وقال أيضا ليس بالشام أثبت من حريز... قال: وَقَال أبو داود: سمعت أحمد وذكر له حريز وأبو بكر بن أَبي مريم وصفوان، فقال: ليس فيهم مثل حريز، ليس أثبت منه، ولم يكن يرى القدر، قال: وسمعت أحمد مرة أخرى يقول: حريز ثقة، ثقة.

تهذیب الکمال، ج5، ص572-573

تاریخ الإسلام، ج10، ص123

احمد بن حنبل سے اس کے بارے میں سوال ہوا ، اس نے دو مرتبہ کہا : ثقه  ہے ، ثقہ ہے  (یعنی بہت ہی قابل اعتماد ہے ). اور کہا : شام میں اس سے زیادہ حدیث نقل کرنے میں قابل اعتماد اور اطمنان کوئی نہیں ہے ۔

.معاذ بن معاذ کہتا ہے : جس وقت احمد بن حنبل  کے سامنے  حريز، ابوبكر بن مريم اور صفوان کی بات چلی تو میں نے اس کو یہ کہتے ہوئے سنا ، ان میں کوئی بھی حریز سے زیادہ قابل اعتماد نہیں ہے ،احمد بن حنبل سے سنا ہے کہ وہ کہتا تھا :حریز قابل اعتماد ہے ،قابل اعتماد ہے ۔

جیساکہ امام بخاری نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

6- حَرِيز بْن عثمان، أَبو عثمان، الحِمصِي، الرَّحَبِيّ.

عَنْ راشد بْن سعد، سَمِعَ منه الحَكَم بْن نافع.

وقال مُحَمد بْن المُثَنى: حدَّثنا مُعاذ بْن مُعاذ، قَالَ: حدَّثنا حَرِيز بْن عثمان، أَبو عثمان، ولا أعلم أني رأَيتُ أحدا من أهل الشام أُفَضِّلُهُ عليه.

التاريخ الكبير للبخاري بحواشي محمود خليل (3/ 103):

 

- حَرِيْزُ بنُ عُثْمَانَ أَبُو عُثْمَانَ الرَّحَبِيُّ (خ، 4) الحَافِظُ، العَالِمُ، المُتْقِنُ، أَبُو عُثْمَانَ الرَّحَبِيُّ، المَشْرِقِيُّ، الحِمْصِيُّ.مُحَدِّثُ حِمْصَ، مِنْ بَقَايَا التَّابِعِيْنَ الصِّغَارِ.

سير أعلام النبلاء [ مشكول + موافق للمطبوع ] (13/ 96):

 

عمر بن سعد بن أبي وقاص

مزى  نے تهذيب الكمال  میں اور  ابن حجر نے  تهذيب التهذيب میں عمر بن سعد بن ابی وقاص، کہ جو کربلا میں یزیدی فوج کا مشہور کمانڈر تھا ،اس کے بارے میں لکھا ہے :

وَقَال أحمد بن عَبد الله العجلي: كان يروي عَن أبيه أحاديث، وروى الناس عنه. وهو الذي قتل الحسين، وهو تابعي ثقة.

عجلى کہتا ہے : عمر بن سعد اپنے باپ اور دوسروں سے روایت نقل کرتا تھا اور یہ تابعی اور ثقہ ہے اور یہ وہی ہے کہ جس نے حسين [عليه السلام] کو شہید کردیا ۔

تهذیب الکمال، ج21، ص357

اب یہ کیسے ممکن ہے کہ جو شخص فرزند رسول خدا (ص) کو اس طرح ظلم و بربریت کے ساتھ شہید کرتا اور سول خدا (ص) کی نواسیوں اور ان کے اہل بیت کے مخدرات کو اسیر بناتا ہے ،لیکن ان سب کے باوجود وہ قابل اعتماد اور ثقہ ہو ؟ اور اس کی روایت اہل سنت کے لئے حجت ہو ،لیکن جو امیر المومنین علیہ السلام  سے محبت کرتا ہو اور انہیں تین خلفا پر برتری دیتا ہو تو یہ لوگ ثقہ نہ ہو اور ان کی روایت اسی وجہ سے ضعیف ہو اور حجت نہ ہو؟

عُمَرُ بنُ سَعْدِ بنِ أَبِي وَقَّاصٍ الزُّهْرِيُّ ** (س)  أَمِيْرُ السَّرِيَةِ الَّذِيْنَ قَاتَلُوا الحُسَيْنَ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- ثُمَّ قَتَلَهُ۔

سير أعلام النبلاء ط الرسالة (4/ 349):

 

عمر بن سعد بن أبي وقاص الزهري المدني: أمير، من القادة الشجعان. سيره عبيد الله بن زياد على أربعة آلاف لقتال الديلم، وكتب له عهده على الريّ. ثم لما علم ابن زياد بمسير الحسين بن علي (رضي الله عنه) من مكة متجها إلى الكوفة، كتب إلى صاحب الترجمة أن يعود بمن معه، فعاد، فولاه قتال الحسين، فاستعفاه، فهدده، فأطاع. وتوجه إلى لقاء الحسين، فكانت الفاجعة بمقتله.

الأعلام للزركلي (5/ 47):

 

 نتيجه:

اصل روایت

إنّ عمر رفس فاطمة حتّى أسقطت بمحسن.
عمر نے جناب فاطمہ سلام علیہا کو ٹھوکر مارا ،اسی وجہ سے آپ کے رحم میں موجود بچہ جناب محسن سقط ہوا.

ابن أبي دارم، کی روایت پر اعتراض اس پر رافضی اور غلو کا الزام کی وجہ سے ہے لیکن جیساکہ بیان ہوا کہ یہ الزام اس کی روایت کی صحت کے لئے رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ یہی طعن اور الزام صحیح مسلم اور بخاری اور صحاح ستہ کے بعض روای پر بھی ہے لہذا ان کا رافضی ہونا اور غالی ہونا ان کی روایت کی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔

 

شبھات کے جواب دینے والی ٹیم

تحقیقاتی ادارہ حضرت ولی عصر  عجل الله تعالی فرجه الشریف



 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی