کیا امام حسین(ع) کے اہل بیت واقعہ کربلاء کے بعد پہلے چہلم پر کربلاء آئے تھے ؟
مطالب کی فہرست
جواب : ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے کلام میں زیارت اربعین
بیست صفر کو اھل بیت علیہم السلام کا لٹا ہو کاروان کربلا پہنچا
اہل بیت (ع) کے کربلاء سے کربلاء تک کے سفر کی تفصیل:
اربعین کے سفر کی طرح کم ترین وقت میں طولانی ترین سفر:
سوال:
کیا امام حسین(ع) کے اہل بیت واقعہ کربلاء کے بعد پہلے چہلم پر کربلاء آئے تھے ؟
جواب : ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے کلام میں زیارت اربعین:
شیعہ مذہب میں امام حسین(ع) کے 10 محرم کو شھید ہونے کے بعد چالیسویں دن کو کہ 20 صفر کا دن ہے، اس کو امام حسین(ع) کے چہلم کا دن کہتے ہیں۔
کتب احادیث اور روایات میں غور اور دقت کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین(ع) کی زیارت کے بارے میں اہل بیت(ع) نے بہت تاکید کی ہے اور حتی اس زیارت کو مؤمن کی علامات میں سے قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر امام حسن عسکری(ع) سے روایت نقل ہوئی ہے کہ:
و يستحب زيارته عليه السلام فيه و هي زيارة الأربعين، فرُوِيَ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْعَسْكَرِيِّ عليه السلام أَنَّهُ قَالَ عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْإِحْدَى وَ الْخَمْسِينَ وَ زِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَ التَّخَتُّمُ فِي الْيَمِينِ وَ تَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَ الْجَهْرُ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ.
امام حسین(ع) کی زیارت، اہل بیت کے کربلاء میں واپس آنے والے دن یعنی چہلم کے دن، مستحب ہے۔
امام حسن عسکری(ع) نے فرمایا ہے کہ: مؤمن کی پانچ علامات ہیں: 1- 51 رکعت نماز پڑھنا، 2- زیارت اربعین پڑھنا، 3- دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، 4- خاک شفاء پر سجدہ کرنا، 5- نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم اونچی آواز سے پڑھنا۔
الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفی460هـ)، مصباح المتهجد، ص788 ، ناشر : مؤسسة فقه الشيعة - بيروت – لبنان، چاپ : الأولى،
الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفی460هـ)، تهذيب الأحكام، ج6، ص52 ، تحقيق: السيد حسن الموسوي الخرسان، ناشر: دار الكتب الإسلامية ـ طهران، الطبعة الرابعة،
الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري البغدادي (متوفی413 هـ)، كتاب المزار مناسك المزار ، ص53 ، تحقيق آية الله السيد محمد باقر الأبطحي، ناشر : دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع ـ بيروت، الطبعة: الثانية،
المشهدي الحائري، الشيخ أبو عبد الله محمد بن جعفر بن علي (متوفی610هـ)، المزار، ص353 ، تحقيق: جواد القيومي الأصفهاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي، الطبعة : الأولى،
اور امام صادق(ع) نے بھی ایک روایت میں فرمایا ہے کہ:
عن مفضّل بن عمر : كان الإمام جعفر بن محمّد الصادق عليه السلام جالساً ... فقام إليه أبو نصير و صفوان الجمّال، فقالا : جعلنا الله فداك، دلّنا على شيعتكم . فقال عليه السلام : «يعرف شيعتنا بخصال شتّى» . فقلت : جعلت فداك، بماذا يُعرفون ؟ قال : «بالسخاء ... و زيارة الأربعين...».
مفضل بن عمر نے کہا ہے کہ: امام صادق(ع) بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو نصير و صفوان جمال امام کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ پر قربان ہوں آپ ہمیں شیعوں کی علامات کے بارے میں بتائیں، امام صادق(ع) نے جواب دیا کہ ہمارے شیعوں کی مختلف علامات ہیں۔ میں نے کہا: شیعہ کس علامت کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں ؟ امام نے چند علامات کو ذکر کیا اور ان میں سے شیعہ کا سخی ہونا اور زیارت اربعین ہے۔
قمي، محمد بن حسن، (متوفاي قرن 7 هـ)، العقد النضيد والدر الفريد في فضائل أمير المؤمنين وأهل بيت النبي ( عليهم السلام)، ص46، التحقيق : علي أوسط الناطقي، دار النشر: دار الحديث، قم،
امام حسین(ع) کی زیارت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ اس زیارت کے لیے ایک مخصوص زیارت نامہ آئمہ معصومین(ع) کی طرف سے نقل ہوا ہے۔ صفوان بن مھران نے امام صادق(ع) سے نقل کیا ہے کہ:
عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ: قَالَ لِي مَوْلَايَ الصَّادِقُ سلام الله عليه فِي زِيَارَةِ الْأَرْبَعِينَ تَزُورُ عِنْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ وَ تَقُولُ: السَّلَامُ عَلَى وَلِيِّ اللَّهِ وَ حَبِيبِهِ السَّلَامُ عَلَى خَلِيلِ اللَّهِ وَ نَجِيبِهِ. السَّلَامُ عَلَى صَفِيِّ اللَّهِ وَ ابْنِ صَفِيِّه... .
میرے مولا امام صادق(ع) نے زیارت اربعین کے بارے میں فرمایا ہے کہ جب دن کا تھوڑا حصہ گزر جائے اور سورج نکل آئے تو کہو: آپ پر سلام ہو اے خداوند کے ولی اور حبیب، سلام ہو آپ پر اے خداوند کے دوست اور اس کے انتخاب کردہ، سلام ہو آپ پر اے خداوند کے برگزیدہ اور برگزیدہ کے فرزند .......
الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاى460هـ)، مصباح المتهجد، ص788 ، ناشر : مؤسسة فقه الشيعة - بيروت – لبنان، چاپ : الأولى،
بیست صفر کو اھل بیت علیہم السلام کا لٹا ہو کاروان کربلا پہنچا
سيد بن طاووس(رح) کی نقل کے مطابق اہل بیت کے کربلاء میں پہلے چہلم کے موقع پر پہنچنے کو ذکر کرنے کے ساتھ ہی اس واقع کی تفصیل کو اس طرح بیان کیا ہے:
فَوَصَلُوا إِلَى مَوْضِعِ الْمَصْرَعِ فَوَجَدُوا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ رَحِمَهُ اللَّهُ وَ جَمَاعَةً مِنْ بَنِي هَاشِمٍ وَ رِجَالًا مِنْ آلِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه و آله قَدْ وَرَدُوا لِزِيَارَةِ قَبْرِ الْحُسَيْنِ عليه السلام فَوَافَوْا فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ وَ تَلَاقَوْا بِالْبُكَاءِ وَ الْحُزْنِ وَ اللَّطْمِ وَ أَقَامُوا الْمَآتِمَ الْمُقْرِحَةَ لِلْأَكْبَادِ.
اہل بیت جب کربلاء کی سر ومین پر قتلگاہ میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں پر جابر ابن عبد اللہ انصاری ،بنی ہاشم اور کچھ دوسرے لوگ وہاں پر امام حسین(ع) کی قبر کی زیارت کے لیے پہلے سے موجود ہیں۔ سب نے مل کر عزاداری اور نوحہ خوانی کی اور بہت ہی غم و حزن کی حالت میں امام حسین(ع) کا غم مناتے رہے۔ اہل بیت کے ساتھ کربلاء کے اطراف میں میں رہنے والی آبادی کی عورتوں نے بھی مل کر عزاداری کی اور اہل بیت چند روز کربلاء میں ہی موجود رہے۔
الحسيني، علي بن موسى بن جعفر بن محمد بن طاووس، (متوفی: 664 ه)، مقتل الحسين عليه السلام المسمى باللهوف في قتلى الطفوف، ص114 ، دار النشر: أنوار الهدى – قم،
ابو ريحان بيرونی متوفی440هـ نے بھی اہل بیت کی شام سے واپسی کے بارے میں اس طرح سے لکھا ہے کہ:
و في العشرين ردّ رأس الحسين عليه السلام إلى جثته حتّى دفن مع جثّته، و فيه زيارة الأربعين و هم حرمه، بعد انصرافهم من الشام.
بیس صفر کو امام حسین(ع) کا نورانی اور مبارک سر بدن کے پاس واپس پلٹایا گیا اور بدن کے ساتھ دفن کیا گیا اور اس دن زیارت اربعین پڑھی جاتی ہے اور اس دن امام حسین(ع) کے اہل بیت شام سے کربلاء ان کی زیارت کرنے کے لیے آئے تھے۔
ابوريحان بيروني، محمدبن احمد، (متوفی: 440 هـ)، الاثار الباقيه عن القرون الخاليه، ص 422 ، التحقيق والتعليق: پرويز اذكائي، دار النشر: مركز نشر ميراث مكتوب – تهران،
شيخ بہائی نے 20 صفر کو جابر اور اہل بیت کے کربلاء کی سر زمین میں آنے کو اس طرح لکھا ہے کہ:
و فى هذا اليوم و هو يوم الأربعين من شهادته عليه السلام كان قدوم جابر بن عبد الله الأنصاري رضي الله عنه لزيارته عليه السلام و اتفق في ذلك اليوم ورود حرمه عليه السلام من الشام إلى كربلاء قاصدين المدينة على ساكنها السلام و التحية.
اس دن یعنی امام حسین(ع) کی شھادت کے چالیس دن بعد جابر ابن عبد اللہ انصاری امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے کربلاء آیا اور اتفاق سے اسی دن امام حسین(ع) کے اہل بیت بھی شام سے مدینہ جاتے ہوئے راستے میں کربلاء امام حسین کی زیارت کے لیے آئے تھے۔
الشيخ البهائي العاملي، (متوفی: 1031 هـ)، توضيح المقاصد، ص7 دار النشر: مكتب آية الله العظمى المرعشي النجفي – قم،
مرحوم علامہ مجلسی نے امام حسین(ع) کی قبر کی زیارت کے واقعے کو عطیہ عوفی سے اس طرح نقل کیا ہے کہ:
عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ زَائِرَيْنِ قَبْرَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِب ٍعليهم السلام فَلَمَّا وَرَدْنَا كَرْبَلَاءَ دَنَا جَابِرٌ مِنْ شَاطِئِ الْفُرَاتِ فَاغْتَسَلَ ... .
عطیہ عوفی کہتا ہے کہ ہم جابر بن عبدالله انصاری کے ساتھ امام حسین(ع) کی قبر کی زیارت کرنے کے ارادے سے چلے اور جب کربلاء پہنچے تو جابر نے نہر فرات میں غسل کیا۔
المجلسي، محمد باقر (متوفی1111هـ)، بحار الأنوار ، ج65، ص130 تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان،
اہل بیت(ع) کے مخالفین چہلم کے دنیا کے پہلے نمبر پر بزرگترین اجتماع کو کم رنگ کرنے اور شیعیان اور دنیا کے غیرت مند انسانوں کو اس اجتماع میں شرکت کرنے سے روکنے کے لیے کہتے ہیں کہ امام حسین(ع) کے اہل بیت اس طرح کے سفر پر بالکل کربلاء نہیں آئے لھذا اس تحریر میں مختصر طور پر کتب شیعہ اور اہل سنت میں سے امام حسین کے اہل بیت کا پہلے چہلم کے موقع پر سفر کے ممکن ہونے کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔
اہل بیت (ع) کے کربلاء سے کربلاء تک کے سفر کی تفصیل:
مخالفین کی مہم ترین دلیل کہ ایسا سفر واقع نہیں ہوا، یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ کوفہ سے شام اور شام سے کربلاء کا فاصلہ بہت دور ہے لیکن اس سفر کی تفصیل بیان کرنے سے اور اہل بیت کے کوفہ اور شام میں رہنے کے ایام کی مدت پر غور کرنے سے اس طرح کے سفر کا ممکن ہونا بلکہ یقینی ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔
عمر بن سعد نے عصر عاشوراء امام حسین(ع) کے مقدس سر کو خولی کے ذریعے کوفہ روانہ کیا ۔ خولی رات کو کوفہ پہنچا دیکھا کہ کوفہ کے دار الامارہ کے دروازے بند ہیں۔ اسی لیے اس نے وہ رات اپنے گھر میں گزاری اور دوسرے دن صبح وہ امام حسین(ع) کے سر کو ابن زیاد کے پاس لے کر گیا۔
و بعث عمر برأس الحسين من يومه مع خولي بن يزيد الأصبحي من حمير، وحميد بن مسلم الأزدي إلى ابن زياد فأقبلا به ليلاً فوجدا باب القصر مغلقاً، فأتى خولي به منزله.
عمر بن سعد نے امام حسين(ع) کے سر کو روز عاشورا خولی بن يزيد اصبحی کہ جس کا تعلق قبيلہ حمير سے تھا اور حميد بن مسلم ازدی کے ذریعے سے ابن زیاد کے لیے کوفہ روانہ کیا۔ یہ لوگ رات کو کوفہ پہنچے تو اس وقت کوفہ کے محل کے دروازے بند تھے، اس لیے خولی امام حسین(ع) کے سر کو رات کو اپنے گھر لے گیا۔
البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفی279هـ)، أنساب الأشراف، ج1، ص424 ، الجامع الكبير کی سی ڈی کے مطابق،
اور شیخ مفید کے مطابق 13 محرم کو اسیروں کا قافلہ کوفے پہنچا:
و أقام بقية يومه و اليوم الثاني إلى زوال الشمس، ثم نادى في الناس بالرحيل و توجه إلى الكوفة ... و لما وصل رأس الحسين عليه السلام و وصل ابن سعد - لعنه الله - من غد يوم وصوله.
عمر سعد روز عاشوراء اور گیارہ محرم دوپہر تک کربلاء میں رہا، پھر اس وقت اپنے لشکر والوں کو کوفہ کی طرف حرکت کرنے کا حکم دیا....... اور جب امام حسین(ع) کا سر کوفہ پہنچا تو اس کے دوسرے دن ابن سعد بھی امام حسین کے اہل بیت کو اپنے ساتھ لے کر کوفہ پہنچ گیا۔
الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان العكبري البغدادي (متوفی413 هـ)، الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج2، ص114 ، تحقيق: مؤسسة آل البيت (ع) لتحقيق التراث، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت - لبنان،
دو دن کوفہ میں رہنے کے بعد یعنی 15 محرم کو ابن زیاد کے حکم کے مطابق اہل بیت کے قافلے کو شام روانہ کر دیا گیا، جیسا کہ سبط ابن جوزی نے لکھا ہے:
ثم إن إبن زياد حط الرؤس في يوم الثاني و جهزها و السبايا الى الشام الى يزيد بن معاوية.
بے شک ابن زیاد نے سروں کو دوسرے دن نیچے لایا اور ان کو اسیروں کے قافلے کے ساتھ شام کی طرف یزید ابن معاویہ کے لیے روانہ کر دیا۔
سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبوالمظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي (متوفی654هـ)، تذكرة الخواص، ص260 ، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت،
اس خطرے کے پیش نظر کہ ہر وقت اسیروں کے قافلے پر کوئی حملہ کر کے اہل بیت کو عمر سعد کے ہاتھوں نجات دلا سکتا تھا، اس کے علاوہ عمر سعد اور اس کے لشکر والوں کو بھی اپنی جان کا خطرہ تھا، اس لیے وہ یقینی طور پر اسیروں کو تیز رفتار سواریوں پر جلدی جلدی سے لے کر گئے ہوں گے۔ اسی لیے اسیروں کا قافلہ ماہ صفر کی پہلی تاریخ کو دمشق پہنچ گیا تھا۔
و فى أوله ادخل رأس الحسين سلام الله عليه دمشق و هو عيد عند بنى أمية.
روز اول ماہ صفر امام حسین(ع) کا مبارک سر شام میں داخل ہوا اور وہ دن بنی امیہ کی عید کا دن تھا۔
العاملي الكفعمي، الشيخ تقى الدين إبراهيم بن علي الحسن بن محمد بن صالح، جنة الأمان الواقية وجنة الايمان الباقية المشتهر بالمصباح، ص 510 ، دار النشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات – بيروت،
اسیروں کے قافلے کے شام میں داخل ہونے کے بعد شامیوں نے جشن منایا اور سرکاری طور پر بہت ہی زیادہ خوشی منائی گئی، لیکن یہ ساری خوشی اور جشن امام سجاد(ع) کے فقط ایک خطبے سے یزید کے لیے عذاب اور مصیبت میں تبدیل ہو گئے۔
اسی طرح ذھبی عالم اہل سنت نے وضاحت کی ہے کہ امام حسین(ع) کا مبارک سر تین دن تک شام میں لٹکایا گیا تھا:
أنه رأى رأس الحسين مصلوباً بدمشق ثلاثة أيام.
امام حسین(ع) کا سر تین دن تک دمشق میں لٹکتا ہوا دیکھا گیا تھا۔
الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفی748 هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج5، ص107 ، تحقيق: د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت،
يزيد بن معاويہ نے اپنے جرم اور گناہ کو کم اور ابن زیاد کو قصور وار ٹھرانے کے لیے ظاہری طور پر پشمانی کا اظھار کیا اور شام میں اہل بیت کی طرف سے تین دن تک عزاداری کے بعد، اسیروں کے قافلے کو واپس شام بھیجنے کا حکم دیا، جس طرح کہ ذھبی نے لکھا ہے کہ:
فأقمن المأتم على الحسين ثلاثة أيام.
خواتین نے امام حسین پر تین دن تک عزاداری کو پرپا کیا۔
الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفی748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج3، ص304 ، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت،
اور آخر کار 8 صفر کو قافلہ شام سے چل پڑا، جیسا کہ مرحوم علامہ مجلسی نے لکھا ہے کہ:
فلما كان اليوم الثامن دعاهن يزيد، و أعرض عليهن المقام فأبين و أرادوا الرجوع إلى المدينة.
جب 8 صفر کا دن آیا تو یزید نے اسیروں کے قافلے کو اپنے پاس بلایا اور ان سے کہا کہ آپ ادھر ہمارے پاس شام میں میں ہی رہ جائیں لیکن اہل بیت نے اس بات کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ ہم واپس اپنے جدّ کے شھر مدینہ جانا چاہتے ہیں۔
المجلسي، محمد باقر (متوفی1111هـ)، بحار الأنوار ، ج45، ص197 ، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان،
8 صفر سے لے کر 20 صفر تک امام حسین(ع) کے اہل بیت کے پاس کربلاء جانے کا 12 دن کا وقت اور فرصت تھی۔ اس کے علاوہ کربلاء پہنچنے تک 15 دن لگے کیونکہ شام سے کربلاء کا راستہ کم تھا لھذا آسانی سے اہل بیت کربلاء پہنچے ہوں گے۔ اس کے علاوہ روایات کی روشنی میں زیارت اربعین کے مستحب مؤکد ہونے کی وجہ سے اہل بیت نے خود کو زیادہ جلدی اور شوق سے کربلاء پہنچایا ہو گا تا کہ اس عظیم دن امام حسین(ع) کی زیارت کی توفیق اور ثواب سے محروم نہ رہیں۔
شيخ صدوق(رح) نے اپنی کتاب امالی میں لکھا ہے کہ جب تک اہل بیت کی خواتین کربلاء واپس نہیں آگئیں اور تمام شھداء کے سر ان کے بدنوں کے ساتھ مل نہیں گئے، اس وقت تک جس پتھر کو بھی زمین سے اٹھاتے تھے تو اس کے نیچے سے تازہ خون بہنے لگتا تھا:
حَدَّثَنِي بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ مَاجِيلَوَيْهِ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ عَمِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْقَاسِمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْكُوفِيِّ عَنْ نَصْرِ بْنِ مُزَاحِمٍ عَنْ لُوطِ بْنِ يَحْيَى عَنِ الْحَارِثِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ عَلِيٍّ ص ثُمَّ إِنَّ يَزِيدَ لَعَنَهُ اللَّهُ أَمَرَ بِنِسَاءِ الْحُسَيْنِ ع فَحُبِسْنَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع فِي مَحْبِسٍ لَا يُكِنُّهُمْ مِنْ حَرٍّ وَ لَا قَرٍّ حَتَّى تَقَشَّرَتْ وُجُوهُهُمْ وَ لَمْ يُرْفَعْ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ حَجَرٌ عَنْ وَجْهِ الْأَرْضِ إِلَّا وُجِدَ تَحْتَهُ دَمٌ عَبِيطٌ وَ أَبْصَرَ النَّاسُ الشَّمْسَ عَلَى الْحِيطَانِ حَمْرَاءَ كَأَنَّهُ الْمَلَاحِفُ الْمُعَصْفَرَةُ إِلَى أَنْ خَرَجَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ع بِالنِّسْوَةِ وَ رَدَّ رَأْسَ الْحُسَيْنِ إِلَى كَرْبَلَاءَ.
امام حسین(ع) کی بیٹی فاطمہ نے کہا کہ یزید نے حکم دیا کہ امام حسین(ع) کی خواتین کو امام سجاد(ع) کہ جو بیمار تھے، ان کے ساتھ ایک ایسے زندان میں ڈالا کہ جس کی چھت نہیں تھی اور گرمی سردی سے بچانے والا بھی نہیں تھا، اس وجہ سے ان کے چہروں کی جلد خراب اور اس کا رنگ بدل گیا تھا۔ بیت المقدس میں جس پتھر کو بھی اٹھایا جاتا تو اس کے نیچے سے تازہ خون جاری ہو جاتا۔ اور لوگوں نے سورج کی کرنوں کو گھروں کی دیواروں پر سرخ رنگ کا دیکھا تھا کہ جیسے دیواروں پر سرخ رنگ کی چادریں ڈالی گئیں ہوں یہاں تک کہ امام سجاد(ع) خواتین کے ساتھ زندان سے باہر نکلے اور امام حسین(ع) کے سر کو کربلاء واپس نہ پہنچایا۔
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفی381هـ)، الأمالي، ص 168 ، تحقيق و نشر: قسم الدراسات الاسلامية - مؤسسة البعثة - قم،
اس کے علاوہ کتب شیعہ اور اہل سنت میں بہت سی روایات ہیں کہ یہ اتفاقات چالیس دن تک جاری رہے، جیسا کہ ابن قولويہ قمی(رح) نے لکھا ہے کہ:
وَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَمَّادٍ الْبَصْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَصَمِّ عَنْ أَبِي يَعْقُوبَ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع يَا زُرَارَةُ إِنَّ السَّمَاءَ بَكَتْ عَلَى الْحُسَيْنِ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً بِالدَّمِ وَ إِنَّ الْأَرْضَ بَكَتْ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً بِالسَّوَادِ وَ إِنَّ الشَّمْسَ بَكَتْ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً بِالْكُسُوفِ وَ الْحُمْرَةِ وَ إِنَّ الْجِبَالَ تَقَطَّعَتْ وَ انْتَثَرَتْ وَ إِنَّ الْبِحَارَ تَفَجَّرَتْ وَ إِنَّ الْمَلَائِكَةَ بَكَتْ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً عَلَى الْحُسَيْنِ (ع).
امام صادق(ع) نے فرمایا ہے کہ: اے زرارہ آسمان نے امام حسین پر چالیس دن تک خون گریہ کیا اور زمین بھی چالیس دن تک تاریک تھی اور سورج کو چالیس دن تک گرہن لگا رہا اور اس کی روشنی سرخ رنگ کی تھی اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے اور دریاؤں کی روانی تیز ہو گئی تھی اور فرشتوں نے بھی چالیس دن تک امام حسین پر گریہ کیا تھا۔
القمي، أبي القاسم جعفر بن محمد بن قولويه (متوفی367هـ)، كامل الزيارات، ص 81،تحقيق: الشيخ جواد القيومي، لجنة التحقيق، ناشر: مؤسسة نشر الفقاهة،
ان دو طرح کی روایات کو آپس میں موازنہ اور مقائسہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ 20 صفر کو امام حسین(ع) کے چہلم والے دن امام حسین(ع) کے اہل بیت کربلاء واپس پہنچے اور امام حسین(ع) کے سر مبارک کو بدن کے ساتھ ملحق کیا۔
اربعین کے سفر کی طرح کم ترین وقت میں طولانی ترین سفر:
کتب تاریخی میں ذکر ہوا ہے کہ اسی دور میں بہت سے افراد نے کوفہ سے شام یا شام سے کوفہ بہت ہی کم وقت میں ایسے ہی سفر کیے ہیں، چند موارد کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:
1- طبری کی نقل کے مطابق کوفہ کے لوگوں نے جب سعید ابن العاص کے خلاف بغاوت کی تو مالک اشتر نے خود کو حمص (شام) سے کوفہ تک سات دنوں میں اور باقی لوگوں نے خود کو دس دنوں میں کوفہ پہنچایا۔
طبری نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:
فسار الأشتر سبعا و القوم عشرا.
مالک نے اس راستے کو سات دنوں اور دوسرے لوگوں نے اس راستے کو دس دنوں میں طے کیا۔
الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب (متوفی310)، تاريخ الطبري، ج2، ص642 ، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.
2- یعقوبی نے لکھا ہے کہ خالد بن ولید نے اپنے لشکر کے ساتھ عراق سے روم تک کے راستے کو آٹھ دنوں میں طے کیا۔
إن خالدا سار في البرية و المفازة ثمانية أيام.
خالد نے صحرا اور بیابان میں آٹھ دنوں میں راستے کو طے کیا۔
اليعقوبي،أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح (متوفی292هـ)،تاريخ اليعقوبي، ج2، ص134،ناشر: دار صادر – بيروت.
3- طبری کے مطابق إبراهيم بن أحمد ماذرائی کا سفر بغداد سے دمشق تک سات دنوں میں مکمل ہوا تھا۔
إن إبراهبم وافى بغداد من دمشق في سبعة أيام.
ابراهيم نے بغداد سے دمشق تک سات دنوں میں راستے کو طے کیا۔
الطبري،أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب (متوفی310)،تاريخ الطبري، ج5، ص612،ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.
4- ياقوت حموی نے لکھا ہے کہ ایک شخص حماد الراویہ نے خود کو اونٹ کے ذریعے بارہ دنوں میں ہشام ابن عبد الملک کے محل کوفہ سے دمشق تک پہنچایا۔
و سرت اثنتي عشرة ليلة حتى وافيت باب هشام.
میں بارہ راتوں کو سفر کر کے ہشام کے محل کے دروازے پر پہنچا۔
الرومي الحموي، أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله، معجم الأدباء أو إرشاد الأريب إلى معرفة الأديب، ج3، ص247 ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت،
5- رجال کشی میں بھی آیا ہے کہ معاویہ کے مرنے کی خبر لانے والا ایک ہفتے میں شام سے کوفہ تک پہنچا۔
أَخْبَرَنِي أَبُو خَالِدٍ التَّمَّارُ، قَالَ كُنْتُ مَعَ مِيثَمٍ التَّمَّارِ بِالْفُرَاتِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ... قَالَ: ... مَاتَ مُعَاوِيَةُ السَّاعَةَ، قَالَ فَلَمَّا كَانَتِ الْجُمُعَةُ الْمُقْبِلَةُ قَدِمَ بُرَيْدٌ مِنَ الشَّامِ ... قَالَ:... تُوُفِّيَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ بَايَعَ النَّاسُ يَزِيدَ، قَالَ: قُلْتُ: أَيُّ يَوْمٍ تُوُفِّيَ قَالَ: يَوْمَ الْجُمُعَةِ.
ابو خالد تمار کہتا ہے کہ میں جمعے کے دن میثم تمار کے ساتھ نہر فرات کے کنارے پر تھے کہ اس نے کہا کہ معاویہ ابھی مر گیا ہے، اور اس نے کہا کہ پچھلے جمعے ایک بندہ شام سے آیا ہے اور اس نے کہا ہے کہ ماویہ مر گیا ہے اور لوگوں نے یزید کی بیعت کر لی ہے، اس نے کہا کہ وہ کس دن مرا تھا ؟ کہا کہ وہ جمعے کے دن مرا تھا۔
الطوسي، الشيخ الطائفة أبى جعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسين(متوفی460هـ)،اختيار معرفة الرجال المعروف برجال الكشي، ص80 ، تصحيح وتعليق:المعلم الثالث ميرداماد الاستربادي، تحقيق: السيد مهدي الرجائي، ناشر: مؤسسة (ع) ، قم،
6- کافی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خیران اسباطی سامراء سے مدینہ تک دس دنوں میں امام ہادی(ع) کے پاس آیا تھا:
عَنْ خَيْرَانَ الأَسْبَاطِيِّ قَالَ قَدِمْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ عليه السلام الْمَدِينَةَ فَقَالَ لِي: مَا خَبَرُ الْوَاثِقِ عِنْدَكَ ؟ قُلْتُ: جُعِلْتُ فِدَاكَ خَلَّفْتُه فِي عَافِيَةٍ أَنَا مِنْ أَقْرَبِ النَّاسِ عَهْداً بِه عَهْدِي بِه مُنْذُ عَشَرَةِ أَيَّامٍ ... يَا خَيْرَانُ مَاتَ الْوَاثِقُ ... فَقُلْتُك مَتَى جُعِلْتُ فِدَاكَ؟ قَالَك بَعْدَ خُرُوجِكَ بِسِتَّةِ أَيَّامٍ.
خيران اسباطى کہتا ہے کہ میں مدینہ میں امام ہادی(ع) کی خدمت میں پہنچا تو انھوں نے مجھے فرمایا کہ کیا واثق کے بارے میں تمہیں کوئی خبر ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ میں نے کہا اے مولا جب میں نے اسے آخری بار دیکھا تھا تو وہ بالکل ٹھیک تھا اور مجھے اس سے دور ہوئے بھی زیادہ وقت نہیں گزرا کیونکہ میں نے اسے دس دن پہلے دیکھا تھا ..... پھر امام ہادی(ع) نے فرمایا کہ اے خیران واثق دنیا سے چلا گیا ہے ، میں نے کہا وہ کب مرا ہے ؟ امام نے فرمایا تمہارے سامرا سے چلنے کے چھے دن بعد ۔
الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفی328 هـ)، الأصول من الكافي، ، ج1، ص498 ، ناشر: اسلاميه، تهران،
حالانکہ سامرا سے مدینے تک کا فاصلہ قطعی طور پر کوفہ سے شام تک کے فاصلے سے زیادہ ہے
نتيجہ:
امام حسین(ع) کے اہل بیت کے شام سے کربلاء کے سفر کی تفصیل کی روشنی میں اور اس کے مشابھے دوسرے طولانی سفر کا کم ترین وقت میں طے ہونے کی تفصیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ اہل بیت 20 صفر کو اربعین کے دن کربلاء پہنچے تھے اور اس عظیم دن میں امام حسین(ع) کی قبر کی زیارت کا شرف حاصل کیا تھا۔
البتہ ہم نے یہاں پر بہت ہی مختصر طور پر اس بارے میں بیان کیا ہے، جو عزیزان اس بارے زیادہ تفصیل سے مطالعہ اور تحقیق کرنا چاہتے ہیں، وہ علامہ محقق سید محمد علی قاضی طباطبائی کی کتاب :
«تحقیق در باره اولين اربعين حضرت سيد الشهدا(ع)
کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
التماس دعا