کیا امام حسین(ع) کے بارے میں قرآن کی آیات نازل ہوئی ہیں؟
کیا امام حسین(ع) کے بارے میں قرآن کی آیات نازل ہوئی ہیں؟
جواب:
اہل بیت(ع) کی شان میں اور ان میں سے امام حسین(ع) کی شان میں قرآن کی بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں۔ حتی اس بارے میں مستقل طور پر کئی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ ہم یہاں پر ان آیات میں سے چند آیات کو کہ جو سند صحیح سے نقل ہوئی ہیں کو ذکر کرتے ہیں:
1- آيہ مباہلہ:
فَمَنْ حَاجَّكَ فيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَي الْكاذِبينَ. (آل عمران/61)
جب بھی وہ حضرت عیسی(ع) کے بارے میں علم و یقین آنے کے بعد تم سے مجادلہ و بحث کریں تو تم ان سے کہو کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں، تم بھی اپنے پیٹوں کو لاؤ ہم اپنی عورتوں کو لاتے ہیں تم بھی اپنی عورتوں کو لاؤ اور ہم اپنے نفسوں کو لاتے ہیں تم بھی اپنے نفسوں کو لاؤ۔ پھر آپس میں مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔
یہ آیت امام حسین(ع) کے خداوند اور رسول خدا کے نزدیک بلند مقام کو بیان کر رہی ہے۔
اسی آیت کی تفسیر میں اہل سنت کی روایات ہیں کہ جو اس آیت کے شان نزول کو سند صحیح کے ساتھ امام حسین(ع) کے بارے میں بیان کر رہی ہیں۔
مسلم نيشابوری سعد بن ابی وقاص صحابی سے روایت نقل کر رہا ہے کہ:
حدثنا قُتَيْبَةُ بن سَعِيدٍ وَمُحَمَّدُ بن عَبَّادٍ وَتَقَارَبَا في اللَّفْظِ قالا حدثنا حَاتِمٌ وهو بن إسماعيل عن بُكَيْرِ بن مِسْمَارٍ عن عَامِرِ بن سَعْدِ بن أبي وَقَّاصٍ عن أبيه قال أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بن أبي سُفْيَانَ سَعْدًا فقال ما مَنَعَكَ ان تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فقال أَمَّا ما ذَكَرْتُ ثَلَاثًا قَالَهُنَّ له رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم فَلَنْ اسبه لان تَكُونَ لي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ الي من حُمْرِ النَّعَمِ... وَلَمَّا نَزَلَتْ هذه الْآيَةُ (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ) دَعَا رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فقال اللهم هَؤُلَاءِ أَهْلِي.
عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ: معاویہ نے جب سعد کو حکم دیا کہ تم علی(ع) کو سبّ کرو تو اس نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ معاویہ نے اس سے پوچھا کہ کیا سبب ہے کہ تم علی(ع) کو سبّ نہیں کر رہے؟ کہا کہ جس کے بارے میں آیت مباھلہ نازل ہوئی ہے اس کو میں ہر گز لعن و سبّ نہیں کروں گا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ علی، فاطمہ زھرا، امام حسن و امام حسین(علیھم السلام) کو اپنے پاس بلایا اور دعا کی: خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں۔
مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري الوفاة: 261، صحيح مسلم ج 4 ص 1871 دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي
ترمذی نے بھی اس روایت کو اسی سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور روایت کے حسن ہونے کو بھی بیان کیا ہے:
حدثنا قُتَيْبَةُ حدثنا حَاتِمُ بن إسماعيل عن بُكَيْرِ بن مِسْمَارٍ هو مدني ثقة عن عَامِرِ بن سَعْدِ بن أبي وَقَّاصٍ عن أبيه قال لَمَّا أَنْزَلَ الله هذه الْآيَةَ (تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ) دَعَا رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فقال اللهم هَؤُلَاءِ أَهْلِي قال أبو عِيسَي هذا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
محمد بن عيسى أبو عيسى الترمذي الوفاة: 279، سنن الترمذي ج 5 ص 638 دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت - تحقيق: أحمد محمد شاكر
حاکم نیشاپوری نے بھی روایت کو نقل کرنے کے بعد اس کی سند کو صحیح کہا ہے:
أخبرني جعفر بن محمد بن نصير الخلدي ببغداد ثنا موسي بن هارون ثنا قتيبة بن سعيد ثنا حاتم بن إسماعيل عن بكير بن مسمار عن عامر بن سعد عن أبيه قاللما نزلت هذه الآية ندع أبناءنا وأبناؤكم ونساءنا ونساءكم وأنفسنا وأنفسكم دعا رسول الله صلي الله عليه وسلم عليا وفاطمة وحسنا وحسينا رضي الله عنهم فقال اللهم هؤلاء أهلي هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه.
محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم النيسابوري الوفاة: 405 هـ، المستدرك على الصحيحين ج 3 ص 117 دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - الطبعة: الأولى تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا
2- آيہ تطهير
إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً۔ (احزاب/33)
خداوند بس یہ چاہتا ہے کہ نجاست و پلیدی کو آپ اہل بیت سے مکمل طور پر دور اور آپ کاملا پاک کرے۔
آیت تطھیر بھی اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے کہ ان میں سے ایک امام حسین(ع) بھی ہیں۔ اس مطلب کو اہل سنت کی معتبر روایات نے بیان کیا ہے۔ یہاں پر ہم چند روایات کو ذکر کرتے ہیں:
روايت اول از عايشہ
اہل سنت کی صحیح ترین کتاب صحیح مسلم کہ جس کو وھابی بھی قبول کرتے ہیں، میں آیا ہے کہ آیت تطھیر اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے کہ ان میں سے ایک امام حسین(ع) بھی ہیں:
حدثنا أبو بَكْرِ بن أبي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بن عبد اللَّهِ بن نُمَيْرٍ واللفظ لِأَبِي بَكْرٍ قالا حدثنا محمد بن بِشْرٍ عن زكريا عن مُصْعَبِ بن شَيْبَةَ عن صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ قالت قالت عَائِشَةُ خَرَجَ النبي صلي الله عليه وسلم غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ من شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بن عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ جاء الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ معه ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جاء عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قال (إنما يُرِيدُ الله لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا)۔
صفیہ بنت شیبہ عایشہ سے نقل کرتی ہے کہ: رسول خدا(ص) ایک دن صبح گھر سے باہر گئے اور ان کے کندھے پر کالے بالوں سے بنی ہوئی چادر تھی۔ جب حسن ابن علی آئے تو وہ چادر کے نیچے چلے گئے پھر حسین ابن علی آئے تو وہ بھی چادر کے نیچے چلے گئے پھر بی بی فاطمہ زھرا آئیں تو وہ بھی چادر کے نیچے چلی گئیں پھر آخر علی آئے وہ بھی چادر کے نیچے چلے گئے۔ اس موقع پر رسول خدا نے فرمایا: خداوند چاہتا ہے کہ آپ اھل بیت سے نجاست کو دور کر کے آپ کو مکمل طور پر پاک کرے۔
مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري الوفاة: 261، صحيح مسلم ج 4 ص 1883 دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي
روايت دوم از ام سلمہ:
ام المومنين ام سلمہ نے بھی کہا ہے کہ یہ آیت اہل بیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے:
حدثنا مَحْمُودُ بن غَيْلَانَ حدثنا أبو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حدثنا سُفْيَانُ عن زُبَيْدٍ عن شَهْرِ بن حَوْشَبٍ عن أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النبي صلي الله عليه وسلم جَلَّلَ علي الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَعَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ كِسَاءً ثُمَّ قال اللهم هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي وَخَاصَّتِي أَذْهِبْ عَنْهُمْ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا فقالت أُمُّ سَلَمَةَ وأنا مَعَهُمْ يا رَسُولَ اللَّهِ قال إِنَّكِ إلي خَيْرٍ.
قال هذا حَدِيثٌ حَسَنٌ وهو أَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ في هذا۔
ام سلمہ ہمسر رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ: رسول خدا نے حسن، حسين، علی اور فاطمہ(ع) پر چادر ڈالی پھر فرمایا خدایا یہ میرے اہل بیت اور میرے نزدیکی ہیں۔ ان سے نجاست اور پلیدی کو دور کر کے ان کو پاک فرما۔ ام سلمہ کہتی ہے کہ میں نے رسول خدا سے پوچھا کہ کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟ فرمایا تم اچھی اور نیک ہو اپنی ہی جگہ پر(یعنی اہل بیت سے نہیں ہو سکتی)۔
ترمذی کہتا ہے کہ:
یہ روایت حسن ہے اور بہترین روایت ہے کہ جو اس بارے میں نازل ہوئی ہے۔
محمد بن عيسى أبو عيسى الترمذي الوفاة: 279، سنن الترمذي ج 5 ص 699 دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، تحقيق: أحمد محمد شاكر
حاكم نيشاپوری نے بھی اس آیت کو اھل بیت کے بارے ہونے کو بیان کیا ہے کہ ام سلمہ نے واضح کہا ہے کہ یہ آیت میرے گھر میں نازل ہوئی ہے:
حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب حدثنا العباس بن محمد الدوري حدثنا عثمان بن عمر حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار حدثنا شريك بن أبي نمر عن عطاء بن يسار عن أم سلمة رضي الله عنها أنها قالت في بيتي نزلت هذه الآية) إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت (قالت فأرسل رسول الله صلي الله عليه وسلم إلي علي وفاطمة والحسن والحسين رضوان الله عليهم أجمعين فقال اللهم هؤلاء أهل بيتي قالت أم سلمة يا رسول الله ما أنا من أهل البيت قال إنك أهلي خير وهؤلاء أهل بيتي اللهم أهلي أحق.
هذا حديث صحيح علي شرط البخاري ولم يخرجاه۔
عطاء بن یسار نے ام سلمہ سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت میرے گھر میں نازل ہوئی ہے.........
محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم النيسابوري الوفاة: 405 هـ، المستدرك على الصحيحين ج 2 ص 451 دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - الطبعة: الأولى، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا
روايت سوم از عمر بن ابی سلمہ:
ترمذی نے عمر بن ابی سلمہ سے نقل کیا ہے کہ آیت تطھیر اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے:
حدثنا قُتَيْبَةُ حدثنا محمد بن سُلَيْمَانَ الْأَصْبَهَانِيِّ عن يحيي بن عُبَيْدٍ عن عَطَاءِ بن أبي رَبَاحٍ عن عُمَرَ بن أبي سَلَمَةَ رَبِيبِ النبي صلي الله عليه وسلم قال لَمَّا نَزَلَتْ هذه الْآيَةُ علي النبي صلي الله عليه وسلم (إنما يُرِيدُ الله لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا) في بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَدَعَا فَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فجللهم بِكِسَاءٍ ثُمَّ قال اللهم هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمْ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا قالت أُمُّ سَلَمَةَ وأنا مَعَهُمْ يا نَبِيَّ اللَّهِ قال أَنْتِ علي مَكَانِكِ وَأَنْتِ علي خَيْرٍ. قال هذا حَدِيثٌ غَرِيبٌ من حديث عَطَاءٍ عن عُمَرَ بن أبي سَلَمَةَ.
اس روایت کا ترجمہ پہلے گزر چکا ہے..........
محمد بن عيسى أبو عيسى الترمذي الوفاة: 279، سنن الترمذي ج 5 ص 351 دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت - تحقيق: أحمد محمد شاكر
البانی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے:
عن عمر بن أبي سلمة ربيب النبي صلي الله عليه و سلم قال لما نزلت هذه الآية علي النبي صلي الله عليه و سلم إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا في بيت أم سلمة فدعا فاطمة وحسنا وحسينا فجللهم بكساء وعلي خلف ظهره فجلله بكساء ثم قال اللهم هؤلاء أهل بيتي فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا قالت أم سلمة وأنا معهم يا نبي الله قال أنت علي مكانك وأنت علي خير.
2562 (صحيح)
صحيح الترمذي - (ج 3 / ص 91) ناصر الدین البانی۔
جالب یہ ہے کہ ابن تیمیہ بھی ان روایات کو جو آیت تطھیر کے شان نزول کے بارے میں ہیں، کو صحیح کہتا ہے:
والحسن والحسين من أعظم أهل بيته اختصاصا به كما ثبت في الصحيح أنه دار كساءه علي علي وفاطمة وحسن وحسين ثم قال اللهم هؤلاء أهل بيتي فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا۔
حسن و حسین(ع) رسول خدا(ص) کے اہم ترین اور بزرگترین اہل بیت میں سے ہیں جیسا کہ روایت صحیح میں ثابت ہوا ہے کہ رسول خدا نے علی، فاطمہ زھرا، حسن، حسین(ع) پر چادر ڈالی پھر فرمایا خدایا یہ میرےاہل بیت اور میرے نزدیکی ہیں۔ ان سے نجاست اور پلیدی کو دور کر کے ان کو پاک فرما۔
أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني الوفاة: 728، منهاج السنة النبوية ج 4 ص 561 دار النشر: مؤسسة قرطبة - الطبعة: الأولى، تحقيق: د. محمد رشاد سالم
البتہ روایات اور بھی ہیں لیکن ہم فقط انہی کے ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں اس کے علاوہ دوسری روایات ہیں کہ خود اہل بیت(ع) نے اس آیت سے اپنی امامت پر استدلال کیا ہے۔
3- آيہ مؤدت
قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيهِ أَجْرَاً إِلاّ المَوَدَّةَ فِي القُرْبَي. (شوري 23)
کہو میں تم سے کوئی اجر اپنی رسالت پر نہیں مانگتا فقط یہ کہتا ہوں کہ میرے نزدیکی اہل بیت سے محبت کرو۔
یہ آیت مفسرین کے درمیان آیت مودت کے نام سے معروف ہے۔ کتب اہل سنت میں بہت سی روایات ہیں کہ اس آیت کا شان نزول اھل بیت(ع) کے بارے میں ہے۔
احمد بن حنبل نے کتاب فضائل الصحابہ میں نقل کیا ہے کہ:
وفيما كتب إلينا محمد بن عبد الله بن سليمان الحضرمي يذكر ان حرب بن الحسن الطحان حدثهم قال نا حسين الأشقر عن قيس عن الأعمش عن سعيد بن جبير عن بن عباس قال لما نزلت قل لا اسألكم عليه اجرا الا المودة في القربي قالوا يا رسول الله من قرابتنا هؤلاء الذين وجبت علينا مودتهم قال علي وفاطمة وابناها عليهم السلام.
ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا سے سوال کیا گیا کہ کن افراد کی ہم پر مودت واجب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ علی، فاطمہ زھرا اور ان کے دو بیٹے(ع)۔
أحمد بن حنبل الوفاة: 241، فضائل الصحابة لابن حنبل ج 2 ص 669 دار النشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، تحقيق: د. وصي الله محمد عباس
طبرانی نے معجم الكبير میں بھی اس روایت کو اسی سند کے ساتھ نقل کیا ہے:
سليمان بن أحمد بن أيوب أبو القاسم الطبراني الوفاة: 360 المعجم الكبير ج 3 ص 47، دار النشر: مكتبة الزهراء - الموصل - الطبعة: الثانية، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي
اس روایت کی سند علماء اہل سنت کے نزدیک بھی معتبر ہے۔ جیسا کہ ابن حجر نے اپنی کتاب الصواعق المحرقۃ میں لکھا ہے کہ:
أخرج أحمد والطبراني وابن أبي حاتم والحاكم عن ابن عباس رضي الله عنهما أن هذه الآية لما نزلت قالوا يا رسول الله من قرابتك هؤلاء الذين وجبت علينا مودتهم قال (علي وفاطمة وابناهما) وفي سنده شيعي غال لكنه صدوق.
احمد، طبرانی، ابن ابی حاتم اور حاکم نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا سے سوال کیا گیا کہ کن افراد کی ہم پر مودت واجب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ علی، فاطمہ زھرا اور ان کے دو بیٹے(ع) اس روایت کی سند میں ایک شیعہ غالی بندہ ہے لیکن وہ سچّا انسان ہے۔
اس روایت کے بعد ابن حجر نے ایک دوسری روایت کہ جو امام حسن(ع) سے نقل ہوئی ہے اور امام نے اس آیت سے استدلال بھی کیا ہے، کو نقل کیا ہے اور اس روایت کے بعض طریق اور سند کو حسن کہا ہے:
وأخرج البزار والطبراني عن الحسن رضي الله عنه من طرق بعضها حسان أنه خطب خطبة من جملتها من عرفني فقد عرفني ومن لم يعرفني فأنا الحسن بن محمد صلي الله عليه وسلم... ثم قال وأنا من أهل البيت الذين افترض الله عز وجل مودتهم وموالاتهم فقال فيما أنزل علي محمد صلي الله عليه وسلم قل لا أسألكم عليه أجرا إلا المودة في القربي.
بزار اور طبرانی نے امام حسن(ع) سے کئی اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے بعض اسناد ان میں سے حسن ہیں۔ امام حسن(ع) نے خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ: میں بھی اس اھل بیت میں سے ہوں کہ جن کی محبت اور مودت خداوند نے واجب قرار دی ہے۔ اس کے بعد امام نے اس آیت کو پڑھا...
ابن حجر الهيثمي الوفاة: 973هـ، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة ج 2 ص 487 دار النشر: مؤسسة الرسالة - لبنان -،الطبعة: الأولى، تحقيق: عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط
ابو بكر ہيثمی بھی ابن عباس کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ:
وعن ابن عباس قال لما نزلت (قل لا أسألكم عليه أجرا إلا المودة في القربي) قالوا يا رسول الله ومن قرابتك هؤلاء الذين وجبت علينا مودتهم قال علي وفاطمة وابناهما رواه الطبراني وفيه جماعة ضعفاء وقد وثقوا.
اس روایت کو طبرانی نے نقل کیا ہے اور اس کی سند میں چند ضعیف بندے ہیں لیکن ان کے ثقہ ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔
علي بن أبي بكر الهيثمي الوفاة: 807، مجمع الزوائد ج 9 ص 168 دار النشر: دار الريان للتراث/دار الكتاب العربي - القاهرة , بيروت -
إِنَّ الأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْس كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا * عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا *يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا *وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَي حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيًما وَأَسِيرًا * إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاء ولا شُكُورًا. (سورة الإنسان/ 5 - 9)
نیک لوگ ایسے جام سے پیتے ہیں کہ جس میں اچھی خوشبو سے ملی ہوئی ہو، ایسے چشمے سے کہ جس سے خدا کے خاص بندے پیتے ہیں اور جگہ پر بھی چاہیں ان کو وہ اپنے لیے جاری کر لیتے ہیں۔ وہ اپنی نذر پر عمل کرتے ہیں اور عذاب والے دن سے ڈرتے ہیں اور غذا کو نیاز اور ضرورت ہونے کے با وجود مسکین، یتیم اور اسیر کو دیتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم تم کو خدا کے لیے غذا دے رہے ہیں اور تم سے کسی قسم کی جزا اور شکریہ کو نہیں چاہتے۔
یہ آیات بھی امام علی، فاطمہ زھرا، امام حسن اور امام حسین(علیھم السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔
زمخشری ان آیات کے شان نزول کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ:
عن ابن عباس قال: إن الحسن والحسين مرضا، فعادهما رسول الله صلي الله عليه وسلّم في ناس معه، فقالوا: يا أبا الحسن، لو نذرت علي ولدك، فنذر عليٌ وفاطمة وفضة جارية لهما إن برآ مما بهما أنْ يصوموا ثلاثة أيّام، فشفيا وما معهم شيء فاستقرض عليّ من شمعون الخيبري اليهودي ثلاثة أصوع من شعير، فطحنت فاطمة صاعاً واختبزت خمسة أقراص علي عددهم فوضعوها بين أيديهم ليفطروا فوقف عليهم سائل فقال: السلام عليكم أهل بيت محمّد، مسكين من مساكين المسلمين، أطعموني أطعمكم الله من موائد الجنّة، فآثروه، وباتوا لم يذوقوا إلاّ الماء، وأصبحوا صياماً، فلمّا أمسوا ووضعوا الطعام بين أيديهم وقف عليهم يتيم، فآثروه، ووقف عليهم أسير في الثالثة ففعلوا مثل ذلك، فلمّا أصبحوا أخذ علي رضي الله عنه بيد الحسن والحسين، وأقبلوا إلي رسول الله صلّي الله عليه وسلم، فلما أبصرهم، وهم يرتعشون كالفراخ من شدة الجوع، قال: ما أشدّ ما يسوؤني ما أري بكم، وقام فانطلق معهم فرأي فاطمة في محرابها قد التصق ظهرها ببطنها وغارت عيناها، فساءه ذلك، فنزل جبرائيل وقال: خذها يا محمّد، هنّأك الله في أهل بيتك فأقرأه السورة.
ابن عباس کہتا ہے کہ: حسن و حسین(ع) بیمار ہو گئے۔ رسول خدا(ص) چند اصحاب کے ساتھ گھر ان کی عیادت کے لیے آئے اور علی(ع) سے کہا کہ اے ابو الحسن بہتر تھا کہ آپ بچوں کی شفاء کے لیے نذر کرتے۔ علی و فاطمہ(ع) اور گھر کی خادمہ فضّہ تینوں نے نذر کی کہ اگر بچوں کو شفاء مل گئی تو ہم تین دن روزہ رکھیں گے۔
جب امام حسن و امام حسین(ع) کو شفاء مل گئی تو گھر میں کچھ کھانے کو نہیں تھا۔ علی(ع) ایک یھودی شمعون سے تین من جو قرض لے کر آئے۔ بی بی فاطمہ(س) نے ایک سوم کو آٹا بنا اس سے روٹی بنائی۔ افطار کے وقت دروازے پر فقیر اور کہا سلام ہو آپ پر اے اھل بیت محمد(ص) میں ایک مسکین مسلمان ہوں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ اگر مجھے کھانے کو دیں تو اللہ آپ کو جنت کے کھانے عطا کرے گا۔ ان سب نے اپنے اپنے حصے کو مسکین کو دے دیا اور سب نے اس شام کو پانی سے روزہ افطار کیا۔
دوسرے دن بھی روزہ رکھا۔ دوبارہ افطار کے وقت کہ غذا کو تیار کیا ہوا تھا۔ ایک یتیم دروازے پر آیا۔ پہلے دن کی طرح ساری غذا کو یتیم کو دے دیا اور پھر سب نے پانی سے روزہ افطار کیا۔
تیسرے دن پھر افطار کے وقت ایک اسیر دروازے پر آیا پھر سب نے اپنے اپنے حصے کو اس اسیر کو دے دیا اور پانی سے روزہ افطار کیا۔ جب صبح ہوئی تو علی(ع) حسن و حسین(ع) کو لے کر رسول خدا(ص) کے پاس گئے۔ رسول خدا نے دیکھا کہ بچے بھوک کی شدت سے کانپ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ان کی یہ حالت میرے لیے بہت درد آور ہے۔ پھر بچوں کو لے کر واپس اپنی بیٹی فاطمہ کے گھر آئے۔ جب آئے تو دیکھا کہ وہ محراب عبادت میں ہیں اس حالت میں کہ بھوک سے ان کا شکم کمر سے لگا ہوا تھا اور بہت ہی کمزور ہو گئی ہیں۔ رسول خدا کو یہ سب دیکھ کر ہبت ان پر رحم آیا۔
اسی وقت جبرائیل نازل ہوئے اور کہا اے محمد(ص) ہس سورہ کو لے لیں۔ خداوند آپ کو ایسے اہل بیت ہونے پر آفرین کہہ رہا ہے۔ پھر سورہ ھل اتی کو ان کے لیے پڑھا۔
أبو القاسم محمود بن عمر الزمخشري الوفاة: 538، الكشاف ج 4 ص 671 دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، تحقيق: عبد الرزاق المهدي
اس روایت کا زیادہ راویوں کے ذریعے سے نقل ہونا:
یہ روایت کہ ان آیات کا شان نزول بیان کر رہی ہے، زیادہ راویوں نے اس روایت کو نقل کیا ہے(تین صحابی و امام صادق)۔ البتہ بعض جزئیات میں ان کا آپس میں تھوڑا بہت اختلاف ہے لیکن یہ کم اختلاف اس اصل شان نزول کو اھل بیت کے بارے میں ہونے کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا:
الف: علی بن ابی طالب (عليه السلام)
حاكم حسكانی نے كتاب «شواهد التنزيل» میں اس روايت کو اميرمؤمنان علی بن ابی طالب عليہ السلام سے نقل كیا ہے:
قال: حدثني علي بن موسي الرضا حدثني أبي موسي، عن أبيه جعفر بن محمد، عن أبيه محمد، عن أبيه علي، عن أبيه الحسين، عن أبيه علي بن أبي طالب قال: لما مرض الحسن والحسين عادهما رسول الله صلي الله عليه وآله فقال لي: يا با الحسن لو نذرت علي ولديك لله نذرا أرجو أن ينفعهما الله به....
شواهد التنزيل، الحاكم الحسكانی، ج 2، ص394
ب: امام صادق عليہ السلام:
اس نے باقی اسناد کہ جو امام صادق(ع) تک پہنچتی ہیں ان کو بھی ذکر کیا ہے اور اس طریق کی بھی چند اسناد ہیں:
1043 - و (الخبر) رواه (أيضا) الحسن بن مهران عن مسلمة بن جابر، عن (الامام) جعفر الصادق، وله طرق عن مسلمة
1044 - ورواه (أيضا) روح بن عبد الله عن (الامام جعفر الصادق)
1045 - ورواه (أيضا) معاوية بن عمار، عن (الامام) جعفر الصادق.
شواهد التنزيل، الحاكم الحسكانی، ج 2، ص 397
ج: ابن عباس:
اس روایت کی ایک سند میں ابن عباس ہے کہ مندرجہ ذیل افراد نے اس روایت کو اس سے نقل کیا ہے:
1- مجاہد عن ابن عباس:
عن ليث عن مجاهد عن ابن عباس في قول الله سبحانه وتعالي (يوفون بالنذر ويخافون يوماً كان شره مستطيراً) قال: مرض الحسن والحسين فعادهما جدّهما محمد رسول الله
أبو إسحاق أحمد بن محمد بن إبراهيم الثعلبي النيسابوري الوفاة: 427 هـ ، تفسير الثعلبي ج 10 ص 99 دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت - لبنان، الطبعة: الأولى، تحقيق: الإمام أبي محمد بن عاشور، مراجعة وتدقيق الأستاذ نظير الساعدي
عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد الجزري الوفاة: 630هـ، اسد الغابة ج 7 ص 256 دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، تحقيق: عادل أحمد الرفاعي
2- ضحاك عن ابن عباس:
خوارزمی نے اس روایت کو ضحاک کے ذریعے سے ابن عباس سے نقل کیا ہے:
المناقب - الموفق الخوارزمی، ص272
3- عطاء عن ابن عباس:
واحدی نيشاپوری اور آلوسی نے اس سند کی طرف اشارہ کیا ہے:
أسباب نزول الآيات، الواحدی النيساپوری، ص296
آلوسی نے لکھا ہے کہ:
ومن رواية عطاء عن ابن عباس أن الحسن والحسين مرضا فعادهما جدهما محمد صلي الله تعالي عليه وسلم...
روح المعانی، ج 29، ص157
فخر رازی نے بھی لکھا ہے کہ:
والواحدي من أصحابنا ذكر في كتاب (البسيط) أنها نزلت في حق علي عليه السلام، وصاحب (الكشاف) من المعتزلة ذكر هذه القصة۔
واحدی نے اس روایت کو ہمارے اصحاب سے کتاب البسیطن میں ذکر کیا ہے کہ یہ آیات علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور صاحب کشّاف کہ معتزلہ سے ہے نے بھی اس داستان کو ذکر کیا ہے:
التفسير الكبير، ج30، ص 215
4- ابی صالح عن ابن عباس:
اس روایت کی ایک اور سند ابو صالح نے ابن عباس سے نقل کیا ہے:
ورواه حبان بن علي أبو علي العنزي عن الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس.
شواهد التنزيل، الحاكم الحسكاني، ج 2، ص403
5- سعيد بن جبير از ابن عباس:
105 - أخبرنا عقيل قال: أخبرنا علي بن الحسين حدثنا محمد بن عبيد الله حدثنا أبو عمرو عثمان بن أحمد بن السماك ببغداد حدثنا عبد الله بن ثابت المقرئ قال: حدثني أبي، عن الهذيل، عن مقاتل، عن الأصبغ بن نباتة (و) عن سعيد بن جبير: عن ابن عباس في قول الله تعالي: (إن الأبرار يشربون) قال: ...
شواهد التنزيل، الحاكم الحسكاني، ج2، ص405
د: زيد بن ارقم:
اس روایت کے چوتھے واسطے میں زید بن ارقم ہے اور کہتا ہے کہ یہ آیات رسول خدا کے اھل بیت کے بارے میں ہیں۔
1061 - أخبرناه أبو القاسم القرشي والحاكم، قالا: أخبرنا أبو القاسم الماسرجسي حدثنا أبو العباس محمد بن يونس الكديمي حدثنا حماد بن عيسي الجهني حدثنا النهاس بن قهم. عن القاسم بن عوف الشيباني عن زيد بن أرقم قال: كان رسول الله صلي الله عليه وآله يشد علي بطنه الحجر من الغرث، فظل يوما صائما ليس عنده شئ فأتي بيت فاطمة والحسن والحسين يبكيان فقال رسول الله صلي الله عليه وآله: يا فاطمة أطعمي ابني، فقالت: ما في البيت إلا بركة رسول الله فالتقاهما رسول الله بريقه حتي شبعا وناما واقترضا لرسول الله صلي الله عليه وآله وسلم ثلاثة أقراص من شعير، فلما أفطر وضعاها بين يديه، فجاء سائل فقال: أطعموني مما رزقكم الله. فقال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم: يا علي قم فأعطه. قال: فأخذت قرصا فأعطيته، ثم جاء ثان فقال رسول الله قم يا علي فأعطه. فقمت فأعطيته، فجاء ثالث فقال: قم يا علي فأعطه. (قال:) فأعطيته، وبات رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم طاويا وبتنا طاوين فلما أصبحنا أصبحنا مجهودين ونزلت هذه الآية: (ويطعمون الطعام علي حبه مسكينا ويتيما وأسيرا). (ثم إن) الحديث بطوله.
شواهد التنزيل، الحاكم الحسكاني، ج 2، ص408
نتيجہ:
کیونکہ یہ روایت بہت سے راویوں نے نقل کی ہے اس لیے سند کے بارے میں بحث کی ضرورت نہیں ہے اور یہ اھل بیت کے نذر کرنے والی روایت علماء شیعہ و سنی کے نزدیک مشھور ہے اور اکثر مفسرین و محدثین نے اس روایت کو اپنی کتب میں ذکر کیا ہے۔
و بقول ابن تیمیہ:
تعدد الطرق وكثرتها يقوي بعضها بعضا حتي قد يحصل العلم بها ولو كان الناقلون فجارا فساقا فكيف إذا كانوا علماء عدولا ولكن كثر في حديثهم الغلط.
تعدد طرق ایک دوسرے کی تقویت کرتے ہیں اور یقین حاصل ہو جاتا ہے اگرچہ اس روایت کے نقل کرنے والے راوی فاسق و فاجر انسان ہوں۔
أحمد عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس الوفاة: 728، مجموع الفتاوى ج 18 ص 26 دار النشر: مكتبة ابن تيمية، الطبعة: الثانية، تحقيق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي
حالانکہ اس روایت کے راوی تو صحابہ عادل ہیں اور ابن تیمیہ کی نظر کے مطابق سند قوی ہو کر صحیح ہو جائے گی۔
پس قرآن کی بہت سی آیات اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ جن میں سے ہم نے چند مھم آیات کو ذکر کیا ہے۔ روایات صحیح کے مطابق ان آیات کا شان نزول اہل بیت کے بارے میں ہے۔ امام حسین(ع) بھی اھل بیت میں سے ہیں لھذا یہ آیات ان کی شان کے بارے میں ہوں گی۔ ان روایات کو علماء شیعہ و اہل سنت نے اپنی معتبر کتب میں معتبر اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔
التماس دعا