مقدمہ
اس تحریر میں ہم امام رضا (ع) کی سیاسی زندگی اور انکے دور میں رونما ہونے والے مہم واقعات اور انکی ان حوادث کے سامنے عملی سیرت کو بیان کریں گے۔ اس اصلی ہدف و موضوع کو بیان کرنے سے بہلے مقدمے کے طور پربعض مطالب کو ذکر کیا جا رہا ہے:
سياست کیا ہے ؟
سیاست کے چند پہلو ہیں ؟
سیاست کی اقسام کتنی ہیں ؟
علم سیاست کا موضوع کیا ہے ؟
علم سیاست کے اصول کیا ہیں ؟
سیاست کس مرکز و محور کے گرد گھومتی ہے ؟
پہلے مرتبے پر یہ جاننا چاہیے کہ علم سیاست کیسے وجود میں آیا ہے ؟ اور اسی طرح اسکے بارے میں بھی بحث کرنا ہو گی کہ کیا آئمہ اطہار (ع) سیاست مدار تھے اور کیا وہ سیاست میں بھی اپنا کردار ادا کرتے تھے کہ ہم انکی سیاسی زندگی کے بارے میں بحث کریں ؟
معنی و مفہوم سياست:
سیاست کلی طور پر ملک اور عوام کے انتظام اور بندوبست کرنے کو کہتے ہیں، یہ سیاست کی کلی تعریف ہے، البتہ بعض کتب میں ممکن ہے سیاست کی اس سے مختلف تعریف کی گئی ہو، جیسے اپنے ذاتی و روز مرہ کے امور جیسے غذا، لباس، رہائش، شادی وغیرہ جیسے امور کو بھی سیاست امور ذاتی میں داخل کریں، جیسے ایک دانشور نے سیاست کی تعریف ایسے کی ہے کہ:
سیاست یعنی اپنے روز مرہ کے امور کا انتظام اور بندوبست کرنا۔
اقسام سياست:
سیاست داخلی،
سیاست خارجی
ان دونوں اقسام کی اپنی الگ الگ قسمیں ہیں:
سياست داخلی:
الف: معاشرے کے امور میں نظم و ضبط برقرار کرنا،
ب: اپنے معاشرے میں غیروں کی سیاست کو داخل نہ ہونے دینا،
سياست خارجی:
الف: دوسری ملتوں پر اپنا اثر چھوڑنا تا کہ وہاں نظم و ضبط برقرار ہو سکے اور ان پر کوئی ظلم بھی نہ کر سکے، کیونکہ تمام انسان اس لحاظ سے کہ انسان ہیں، آپس میں متحد ہیں، اس لیے ایک انسان پر دوسرے کی خدمت کرنا واجب ہے۔
امام علی عليہ السلام نے فرمایا ہے کہ:
فَإِنَّهُمْ صِنْفَانِ: إِمَّا أَخٌ لَکَ فِي الدِّينِ، وَ إِمَّا نَظِيرٌ لَکَ فِي الْخَلْقِ،
ہر انسان یا تیرا دینی بھائی ہے، یا اپنی خلقت میں تیری طرح کا ہونے میں، تیرا بھائی ہے۔
نہج البلاغہ، عھد نامہ مالک اشتر
پس تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ہر انسان پر فرض ہے کہ اپنے دوسرے بھائی کی نظم و ضبط کو ایجاد کرنے اور ظلم و ستم کو دور کرنے میں، اسکی مدد کرے، اور اسی کا سیاست خارجی ہے۔
ب: کوشش کرنا کہ ایک اسلامی ملک پر دوسری ملتیں اور حکومتیں اثر انداز نہ ہو سکیں، کیونکہ اگر ایک ملک کی حکومت اپنے ملک اور عوام کو دوسروں کے اثر انداز ہونے سے نہ بچائیں تو غیر ملک پر اور عوام پر طرح طرح کے اثرات پڑنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
اصول سیاست:
سیاست کے چار اساسی اصول ہیں کہ جنکو مزید بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے:
1. الف: نظریات سياسی
ب: افكار سياسی
2. ارکان سیاست کہ جس میں سیاسی ادارے، قانونی ادارے اور حکومتی ادارے شامل ہیں۔
3. وہ امور کہ جو سیاست میں پہلے درجے پر ہیں، اس وجہ سے کہ سیاست کا آغاز انہی امور سے ہوتا ہے، جیسے
الف: آزادی عمومی
ب: آبادی اور عوامی جماعتیں
ج: سیاسی جماعتیں
د: حکومتی اداروں میں عوام کا شرکت کرنا،
4. بین الاقوامی تعلقات کہ ان میں
الف، سياست بين الاقوامی
ب، بین الاقوامی ادارے
ج، بين الاقوامی قوانین
ان مطالب سے واضح ہوتا ہے کہ سیاست کی تعریف کرنا کہ: یہ ایک ایسا علم ہے جو حکومت کرنا سیکھاتا ہے، صحیح نہیں ہے، اگرچہ حکومت کرنا بھی سیاست کے اہم ترین آثار میں سے ہے۔
سیاست کس مرکز و محور کے گرد گھومتی ہے ؟
سیاست کی تعریف میں آیا ہے کہ سیاست یعنی قدرت کو عملی طور پر ظاہر کرنا، اس صورت میں علم سیاست کے محور کو تین مطالب قرار دیا جا سکتا ہے:
الف: کونسی سیاست ضروری ہے کہ جس کے ذریعے سے معاشرے کے لوگوں کی تمام ضروریات زندگی پوری ہو سکیں۔
ب: حکومت اپنی سیاست کو عملی طور پر ظاہر کرنے کے لیے کن وسائل کا سہارا لیتی ہے۔
ج: اس سیاست اور ان وسائل سے کون سے آثار اثر انداز ہوتے ہیں۔
علم سياست کے وجود میں آنے کا سبب:
سياست کا منشاء اصل اسلام ہے، کیونکہ اسلام ایسا کامل دین ہے کہ جو تمام انسانوں کے تمام احکام کو بیان کرتا ہے، خواہ یہ احکام اعضاء و جوارح کے افعال میں سے ہو یا نفسی و باطنی خواہشات میں سے ہو۔ لہذا ہر انسان سے جو بھی فعل انجام پاتا ہے، وہ احکام خمسہ وجوب، استحباب، حرمت، مكروه اور مباح، سے خارج نہیں ہوتا اور حتی امام صادق (ع) سے روایت نقل ہوئی ہے کہ:
کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جو قرآن و سنت ذکر نہ ہوئی ہو۔
اسکے علاوہ سیاست کے بارے میں آیات و روایات بھی موجود ہیں کہ ان میں سے ایک روایت امام رضا عليہ السلام سے نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ:
«عالم باسياسه» يعنی امام کو سیاست سے بھی آگاہ ہونا چاہیے۔
ایک دوسری جگہ پر نقل ہوا ہے کہ:
«و ساسة العباد» يعنی آئمہ لوگوں میں سیاست مدار لوگ ہیں۔
کیا آئم (ع)ہ سیاست مدار تھے ؟
اس سوال کے جواب میں کہنا چاہیے کہ جی ہاں آئمہ سیاست مدار ترین انسان تھے اور امام رضا (ع) کہ خود معصوم امام تھے، نے سیاست کو امام اور امامت کی شرائط میں سے ایک شرط قرار دیا ہے۔
آئمہ (ع) نے کبھی بھی سیاست سے دوری اختیار نہیں کی اور ہمیشہ دین کو سیاست کے ساتھ ساتھ رکھا ہے اور اپنے بیانات میں بھی فرمایا ہے کہ ہر وہ کوشش جو دین کو سیاست سے جدا کرے، وہ ایسے ہی ہے کہ جیسے عبادت کو اصل اسلام سے جدا کرنا ہے۔
اس مقدمہ کے بعد ہم اپنے اصلی موضوع یعنی امام رضا (ع) کی سیاسی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ امام رضا کے سیاسی نظریات کیا تھے اور انکا اپنے زمانے کی سیاست میں کس قدر کردار تھا، نیز یہ بھی دیکھنا ہے کہ امام رضا کے زمانے میں وہ مہم مسائل کہ، جو سیاسی اہداف کے لیے انجام دئیے گئے اور امام کا بھی ان سیاسی مسائل میں کردار تھا، وہ کون کون سے ہیں۔
امام رضا (ع) اور حالات خلافت:
امام رضا (ع) اپنی امامت کے زمانے میں چند عباسی خلفاء کے ہمعصر تھے اور ان خلفاء میں فقط مامون کی خلافت کے دور میں ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ امام رضا بھی سیاسی مسائل سے لا تعلق نہ رہے سکے۔
امام رضا (ع) کی امامت کے دس سال مامون کے باپ ہارون کی خلافت کے ساتھ گزرے۔ ہارون نے سن 175 ہجری میں اپنے بیٹے امین کو کہ جو اسوقت 5 سال کا تھا، اپنے جانشین کے طور پر اعلان کیا اور 7 سال بعد مامون کو امین کا جانشین قرار دے کر حکومت بنی عباس کو محکم و استوار کرنے کی کوشش کی۔ اس واقعے کے بعد سن 193 ہجری میں ہارون شہر طوس میں دنیا سے چلا گیا اور اسکے ہلاک ہونے کے بعد امین اور مامون کے درمیان خلافت کو حاصل کرنے کے لیے اختلاف شروع ہو گیا اور یہ اختلاف اس قدر زیادہ ہوا کہ امین نے سن 195 ہجری کی ابتداء میں اپنے بھائی مامون کو ولیعہدی سے بر کنار کر دیا۔
آخر کار دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے لشکر کے ساتھ ایک دوسرے پر حملہ کر دیا اور شہر رے میں دونوں لشکر آمنے سامنے آ گئے۔ خونین جنگ کے بعد امین کو شکست ہو گئی اور چند مسلح افراد نے امین پر حملہ کر کے اسکو قتل کر دیا اور نتیجے کے طور پر مامون بنی عباس کا نئا خلیفہ و حاکم بن گیا۔
مسئلہ ولايت عہدی:
امام رضا (ع) کے ساتھ سب سے مہم جو واقعہ پیش آیا، وہ مسئلہ انکی ولایت عہدی کا مسئلہ تھا۔ اس مسئلے میں خود کئی مسائل ہیں کہ انکے بارے میں بھی بحث و تحقیق ہونی چاہیے، جیسے
کیوں مامون نے امام رضا کو دعوت دی ؟
امام رضا (ع) کا مامون کی دعوت دینے پر کیا رد عمل تھا ؟
امام رضا (ع) کا رسول خدا (ص) کی قبر کو الوداع کہنا،
امام رضا کن کن راستوں سے گزر کر شہر طوس پہنچے ؟
امام رضا کا شہر نیشاپور میں خطاب کرنا، امام رضا کا شہر مرو میں داخل ہونا،
مامون کی طرف سے امام رضا کی ولی عہدی کے مسئلے کا پیش ہونا،
مامون کے مسئلہ ولیعہدی کو پیش کرنے سے اہداف
اور امام رضا کی طرف سے ولیعہدی کو قبول کرنے کی شرائط ،
کیوں مامون نے امام رضا (ع)کو مدینہ سے طوس آنے کی دعوت دی ؟
امام رضا کی خلافت کے دور میں پیش آنے والے سیاسی واقعات کے سامنے امام ہاتھ پر ہاتھ رکھے خاموشی سے بیٹھے نہیں رہے ، بلکہ اپنی قدرت و امکان کے پیش نظر اپنے زمانے کے لوگوں ان واقعات کی حقیقت کے بارے میں آگاہی و بصیرت دیتے رہتے تھے۔ لہذا اس زمانے کے لوگوں کو بیدار کرنے میں امام رضا کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ جو انھوں نے ان جیسے حالات میں انجام دیا تھا، یہی وجہ تھی کہ مامون امام کی مخالفت کرتا رہتا تھا، لیکن کیونکہ:
اولاً مامون جانتا تھا کہ حکومت ایک علمی و معنوی رکن سے، کہ جو بہت سی مشکلات کو حل کر سکتا ہو، خالی ہے اور یہ مشکل خلافت عباسی کے دربار میں موجود درباری علماء کے وجود سے حل نہیں ہو سکتی تھی۔
ثانياً مامون اس سے بھی واقف تھا کہ اس وقت کا اسلامی معاشرہ خاص طور پر بہت سے لوگ آل علی کے چاہنے والے ہیں اور خصوصا امام علی ابن الرضا کے چاہنے والے ہیں اور معنوی طور بھی پر لوگوں کے دل علویوں کے لیے نرم ہیں، لہذا مامون نے ارادہ کیا کہ معاشرے کے لوگوں کی اس حالت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کو محکم و استوار کرے۔
اسی طرح مامون چاہتا تھا کہ امام رضا کی علمی و معنوی شخصیت سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ، امام کے کاموں کو اپنے زیر نگرانی رکھنا چاہتا تھا اور اسکے ذریعے شیعوں کے درمیان محبوبیت اور مقبولیت حاصل کرنا چاہتا تھا، خاص طور پر کہ شیعہ عباسیوں کو غاصب جانتے تھے اور مامون اپنے اس کام سے شیعوں کی نگاہوں میں احترام کو حاصل کرنا چاہتا تھا، کیونکہ شیعہ فقط امام رضا کو امامت و خلافت کے لیے اہل جانتے تھے۔
بہرحال سیاسی اور اجتماعی حالات اس دور میں ایسے تھے کہ جو کلی طور پر حکومت میں ایک تغییر و تبدیل کا تقاضا کر رہے تھے۔
امام رضا (ع) کا مامون کی دعوت دینے پر رد عمل:
مامون نے اپنی مملکت کے حالات کو دیکھتے ہوئے اور اپنے وزیر خاص فضل ابن سہل سے مشورہ کرنے کے بعد، امام رضا کو مدینہ سے شہر طوس آنے کی رسمی طور پر دعوت دی۔ ابتداء میں اگرچہ امام نے اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا، لیکن مامون نے بھی اپنی اس دعوت پر بار بار اصرار کیا اور امام کو طوس آنے کے لیے بار بار دعوت نامے بھیجتا رہا۔
امام کی طرف سے بھی بار بار انکار کرنے پر آخر کار مامون نے امام کے لیے لکھا کہ:
آپکے جد علی ابن ابیطالب نے عمر کی بنائی ہوئی شورا میں شرکت کی اور عمر کہ جو اسوقت خلیفہ تھا، نے کہا کہ تین دنوں کے اندر اندر اہل شورا مل کر اپنا لیے نئا خلیوہ انتخاب کر لیں اور اگر بعض نے خلیفہ انتخاب نہ کیا یا اگر اکثریت شورا انتخاب کرنے سے انکار کرے، تو ابو طلحہ انصاری کو حکم دیا گیا کہ وہ شورا میں موجود تمام ارکان کے سر بدن سے جدا کر دے۔
مامون اپنے اس پیغام سے امام رضا کو کہنا چاہتا تھا کہ ابھی آپ بھی اپنے جدّ والی حالت سے دوچار ہیں اور اس حالت میں میری حالت بھی عمر کی طرح ہے۔ پس آپ انکار نہ کریں، بلکہ اپنے جدّ کی پیروی کرتے ہوئے، میری دعوت کو قبول کر لیں۔ آخر جب کار امام رضا نے مامون کے اتنے اصرار کو دیکھا اور اسکی باطنی حالت سے آگاہ ہوئے تو مرو کی طرف سفر کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اس سفر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ سفر ایک زبردستی جلا وطنی تھی۔ اسی وجہ سے بہت سے محققین نے بھی مامون کے حکم پر امام رضا کے مرو کی طرف سفر کو جلا وطنی سے تشبیہ دی ہے۔
امام رضا (ع) کا رسول خدا (ص) کی قبر کو الوداع کہنا:
محول سيستانی کہ جو اس ماجرا کا چشم دید گواہ ہے، اس نے لکھا ہے کہ:
جب مامون کا بھیجا ہوا بندہ مدینے میں آیا تو اسوقت میں بھی مدینے میں تھا۔ امام رضا رسول خدا کو الوداع کرنے کے لیے مسجد نبوی میں داخل ہوئے۔ امام اس حالت میں کہ بلند بلند گریہ کر رہے تھے، نے کئی مرتبہ رسول خدا کی قبر مبارک کو الوداع کیا۔ امام کی یہ حالت دیکھ کر میں امام کے پاس گیا اور سلام عرض کیا۔ امام نے میرے سلام کا جواب دیا۔ میں نے امام کو مرو کے سفر پر جانے پر مبارک دی تو امام رضا نے مجھ سے فرمایا:
مجھے میرے حال پر چھوڑ دو کہ مجھے اپنے جدّ کے حرم سے دور کیا جا رہا ہے اور میں عالم غربت میں دنیا سے رخصت ہوں گا۔
اسی وجہ سے امام رضا نے مدینہ کو چھوڑنے سے پہلے اپنے تمام رشتے داروں کو اپنے پاس بلایا اور ان سے فرمایا کہ:
مجھ پر اشک بہاؤ کیونکہ اب میں کبھی بھی مدینہ واپس لوٹ کر نہیں آؤں گا۔
امام سفر کرتے ہوئے، مدینہ سے بصرہ گئے، بصرہ پہنچنے تک راستے میں جتنے بھی شہر آتے، امام فرصت پاتے ہی ان لوگوں سے خطاب کرتے۔ امام اس سفر میں ایران کے شہر خرمشہر، اہواز، اراک، رے، نيشاپور اور مرو سے گزرے۔
نیشاپور میں امام رضا (ع) کا خطاب کرنا:
امام رضا نے اس سفر کے راستے میں ہر جگہ پر لوگوں سے خطاب فرمایا کہ ان میں سب سے مہم خطاب شہر نیشاپور میں تھا۔ تاریخ میں کہا گیا ہے کہ اس دور میں نیشاپور کو ایک خاص علمی مرکزیت حاصل تھی اور اسی وجہ سے وہاں کے علماء و عقلاء کی طرف سے امام رضا سے شدید تقاضا کیا گیا کہ ہمارے لیے کوئی یادگار قسم کی حدیث نقل فرمائیں۔ امام نے وہاں پر حديث سلسلۃ الذهب کو بیان فرمایا کہ یہ حدیث، حديث اخلاص و توحيد بھی مشہور ہے۔
مشہور ہے کہ جب آپ شہر نیشاپور پہنچے تو طلاب علم و محدثین نے آپ کے اطراف حلقہ کر لیا جبکہ آپ اونٹ پر سوار تھے اور آپ سے درخواست کی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حدیث بیان فرمائیں ۔
امام (ع) نے اپنے آباء و اجداد کے حوالے سے رسول خدا (ص) سے جنہوں نے جبرائیل کے ذریعے خداوند عالم کا یہ قول نقل فرمایا:
کلمۃ لا الٰہ الا اللہ حصنی و من دخل حصنی امن من عذابی،
یعنی کلمہ لا الٰہ الا اللہ میرا ایک قلعہ ہے، جو میرے اس قلعے میں داخل ہو جائے گا، وہ میرے عذاب سے نجات پا جائے گا ۔
چونکہ اس حدیث کے سارے سلسلے معصوم ہیں اس لیے یہ حدیث سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور ہوئی اور اس حدیث کو اس شہر میں نقل کرنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ مسلمانوں کو توحید اور وحدت کی جانب دعوت دیں تا کہ اس کلمے کے ذریعے تمام مسلمان اختلاف سے بچیں اور ہر طرح کے عذاب سے محفوظ رہیں۔
اس حدیث قدسی میں حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کا مقصد تین نکات بیان کرنا تھا:
1۔ آپ (ع) نے یہ حدیث قدسی اپنے آباء و اجداد سے نقل کی جنہوں نے یہ حدیث ایک دوسرے سے نقل کی تھی حتی کہ یہ سلسلہ رسول اللہ (ص) تک پہنچا اور رسول اللہ (ص) نے یہ حدیث جبرائیل (ع) سے اور جبرائیل نے اللہ عز و جل سے نقل کی ہے۔
آپ (ع) نے اس طرح اپنے آباء و اجداد کا ذکر کیا جو سب امام اور اوصیائے رسول اللہ (ص) تھے، آپ (ع) نے اس مقام پر اکٹھے ہونے والے تمام راویوں اور کاتبین کو اس حقیقت کی یاد آوری فرمائی کہ آپ اور آپ (ع) کے آباء و اجداد اوصیاء اور آئمہ ہیں۔
2۔ آپ (ع) نے لوگوں کو یگانہ پرستی اور خدا پرستی کی ضرورت یاد دلائی جو کہ تمام اعتقادات کی بنیاد ہے، آپ (ع) نے توحید کی یاد آوری کراتے ہوئے یہ بات بھی یاد دلائی کہ زمانے کے طاغوتوں اور طاغوت صفت حکمرانوں کے دھوکے میں نہ آئیں۔
3۔ حقیقی اور شرک اور ریا سے خالی، یکتا پرستی کا لازمہ ولایت اہل بیت (ع) ہے اور جب تک مسلمانوں کے معاشروں میں عادلانہ قیادت و رہبری قائم نہ ہو گی بت اور بتوں کی صفات کے حامل انسان اور طاغوت توحید اور یکتا پرستی کو اپنے صحیح راستے پر گامزن نہ ہونے دیں گے۔
تاریخ میں ہے کہ اس حدیث کو لکھنے کے لیے 20 سے 24 ہزار افراد نے قلمدان اٹھا رکھے تھے اور فرزند رسول اللہ (ص) امام رضا علیہ السلام کے گوہر بار کلمات لکھنے کے لیے آئے تھے۔
حاج شيخ عباس قمى ، منتهى الامال ص 40 بخش حالات حضرت رضا (ع)
حدیث سلسلۃ الذهب ایک مشہور و معروف حدیث ہے جو ایک ساتھ بیس ہزار افراد نے امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے نقل کی ہے اور امام علیہ السلام نے اپنے آبائے طاہرین علیہم السلام اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اور جبرائیل علیہ السلام سے روایت کی ہے اور جبرائیل نے خدائے بزرگ و برتر سے نقل کی ہے نہايت نامی گرامی سند سے نقل ہوئی ہے اور اسی وجہ سے سلسلۃ الذہب (سونے کی زنجیر) کے نام سے مشہور ہوئی۔
حنبلی مذہب کے امام احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی نے کہا ہے کہ اگر یہ روایت ان افراد کی جلالت کی بنا پر جن کا نام اس کی سند میں مذکور ہے ـ کسی جن زدہ فرد پر پڑھ لی جائے تو تو وہ ہوش میں آ جائے گا۔
ابن حنبل کی روایت کچھ یوں ہے:
حدثنا أبو اسحاق ابراهیم بن عبد الله بن اسحاق المعدل ثنا أبو علی احمد بن علی الأنصاری بنیسابور ثنا أبو الصلت عبد السلام بن صالح الهروی ثنا علی بن موسى الرضا حدثنی أبی موسى بن جعفر حدثنی أبی جعفر بن محمد حدثنی أبی محمد بن علی حدثنی أبی علی بن الحسین بن علی حدثنی أبی علی ابن أبی طالب رضی الله تعالى عنهم حدثنا رسول الله صلى الله علیه وسلم عن جبریل علیه السلام قال قال الله عز و جل إنی أنا الله لا إله إلا أنا فاعبدونی من جاءنی منكم بشهادة أن لا إله الا الله بالاخلاص دخل فی حصنی ومن دخل فی حصنی أمن من عذابی هذا حدیث ثابت مشهور بهذا الإسناد من روایة الطاهرین عن آبائهم الطیبین و كان بعض سلفنا من المحدثین اذا روى هذا الاسناد قال لو قرىء هذا الاسناد على مجنون لأفاق۔
حضرت علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ امام صادق نے فرمایا: میرے والد امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ان کے والد امام علی زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ ان کے والد امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا کہ:
میں اللہ ہوں اور میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے پس میری عبادت اور بندگی کرو۔ تم میں سے جو بھی میرے پاس آئے گا اور اخلاص کے ساتھ گواہی دے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے وہ میرے قلعے میں داخل ہو جاتا ہے اور جو بھی میرے قلعے میں داخل ہو جائے میرے عذااب سے محفوظ ہو گا۔ یہ حدیث مشہور اور ثابت ہے اسی اسناد سے جو امام رضا علیہ السلام نے اپنے طیب و طاہر آباء و اجداد سے روایت کی ہے اور محدثین میں سے ہمارے بعض اسلاف میں سے بعض نے کہا ہے کہ:
اس سند کو اگر کسی جن زدہ اور آسیب زدہ انسان پر پڑھ لیا جائے تو وہ ہوش میں آ جائے گا۔
حلیة الأولیاء ج3 ص191
وقال أبو علی قال لی أحمد بن حنبل إن قرأت هذا الإسناد على مجنون برئ من جنونه وما عیب هذا الحدیث إلا جودة إسناده۔
ابو علی نے کہا کہ احمد بن حنبل نے مجھ سے کہا کہ اگر یہ سند ہم کسی آسیب زدہ شخص پر پڑھ لیں تو وہ صحتیاب ہو جائے گا اور اس سند میں ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ یہ بہت اچھی ہے مگر نایاب ہے۔
تاریخ أصبهان فاضل مالکی ج1 ص174
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی مدینہ سے مرو ہجرت پر ایک تاریخی نگاہ:
مامون کی تہدید آمیز دعوت اس چیز کا باعث بنی کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام اس دعوت کو قبول کر کے ایسے سفر پر روانہ ہوئے جو سفر بقول حضرت امام علی رضا علیہ السلام ایسا سفر تھا جس میں واپسی ممکن نہیں تھی۔
جب مامون کا نمائندہ مدینہ میں امام کے حضور میں حاضر ہوا، تو امام علیہ السلام نے ناچار ہو کر دعوت کو قبول کر لیا اور سفر کی تیاری شروع کر دی۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام آخری الوداع کے لیے رحمت اللعالمین کے مرقد مطہر پر حاضر ہوئے اور اس کے بعد اپنے تمام چاہنے والوں اور اصحاب کو اپنے پاس اکٹھا کیا اور اس بات کا اعلان کیا کہ میرے بعد امامت کے منصب کے عہدہ دار میرے بیٹے امام محمد تقی علیہ السلام ہیں ۔ اس کے بعد اپنے اہلبیت سے الوداع فرمایا اور اس دور کی رسومات کے برعکس جس میں مسافر کے سامنے رونے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، آپ علیہ السلام نے الوداعی کے موقع پر فرمایا کہ میرے لیے اونچی آواز میں گریہ کرو۔
امام علیہ السلام کے سفر کی ابتداء مدینہ اور اختتام مرو تھا ۔ وہ راستہ جس پر حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو لانے پر مامون نے تاکید کی تھی وہ راستہ مدینہ سے بصرہ اور اہواز سے فارس اور پھر بیابانوں اور صحراؤں سے گزر کر خراسان سے گزرتا ہوا مرو تک اختتام پذیر ہوتا تھا۔ یہ ایسا راستہ تھا جس میں اس وقت کے بڑے شہروں اور شیعوں کی کوئی خبر نہ تھی اور امام علیہ السلام اپنے اس سفر میں لوگوں سے کم سے کم ارتباط میں تھے۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا سفر جغرافیائی لحاظ سے پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۔ مدینہ سے بصرہ
۔ بصرہ سے فارس
۔ فارس سے یزد
۔ یزد سے خراسان
۔اور خراسان سے مرو تک کا راستہ
کچھ تاریخی اقوال کی بناء پر ، حضرت امام علی رضا علیہ السلام ابتدائے سفر میں مکہ تشریف لے گئے تھے اور سفر کے اس حصہ میں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ امام علیہ السلام نے خدا کے گھر کو الوداع کر کے ، مکہ سے بصرہ کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھا، ایسا شہر جس میں عثمان کے طرفدار رہتے تھے اور عصمت و طہارت کے خاندان سے کوئی اچھا رابطہ نہیں رکھتے تھے۔
لیکن امام کا جو بصرہ سے فارس تک کا راستہ تھا اس میں سب سے پہلے امام علیہ السلام اہواز تشریف لے گئے اور جب امام علیہ السلام اہواز پہنچے تو بہت زیادہ بیمار ہو گئے ، تاریخی منابع ، امام علیہ السلام کی بیماری کو اہواز کی گرم اور مرطوب ہوا جانتے ہیں ۔ امام علیہ السلام نے بہتر ہونے کے بعد اپنے سفر کو فارس کی جانب حرکت کرتے ہوئے جاری رکھا۔ امام علیہ السلام کا اہواز سے نکلنے کی موثق خبر موجود ہے کہ امام علیہ السلام نے پل اربق یا اربک سے عبور کیا اور پل اربک کے راستے سے ارجان قدیم (بہبہان) شھر میں ایک قدم گاہ بھی امام کے نام سے ہے اور یہ قدمگاہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے راستے کو مزید واضح کر دیتی ہے۔ اس کے بعد والی قدمگاہ جس کو تاریخی منابع میں تناوب کے مقام پر یاد کیا گیا ہے، شہر ابرقو یا ابرکو میں ہے جو کہ شیراز کا شمالی راستہ ہے اور شہر یزد کی طرف جاتا ہے اس کے آخر میں واقع ہے۔
موجودہ تاریخی منابع کی بنیاد پر ، حضرت امام علی رضا علیہ السلام اہواز سے فارس کے راستے سے نہ کہ شیراز کے راستے سے خراسان پہنچے ہیں ۔ امام علیہ السلام کا شہر شیراز میں جانا کسی بھی موثق منبع میں درج نہیں ہوا اور اس شہر کے اپنے تاریخی منابع میں بھی کبھی کوئی قدمگاہ یا امام کی یادگار نہیں بنائی گئی، کوئی عمارت جو حضرت سے منسوب ہو نہیں ملتی اور یہی چیز حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا اہواز سے پاسارگاد کے راستے سے گزرنے کے احتمال کو قوت بخشتی ہے جو کہ ارجان کے بعد پہاڑی راستوں سے ہوتے ہوا کھکیلویہ سے جلگہ مرودشت اصطخر سے جا ملتا ہے ۔
لیکن امام علیہ السلام کے سفر کا وہ راستہ جو کہ فارس سے یزد کی جانب تھا اس میں جو اہم نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ ان دنوں میں یزد کوئی اہم شہر نہیں تھا بلکہ شہر اصطخر کے تابع تھا ۔ اس علاقہ میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی یاد میں بنائی گئی چند ایک عمارتیں اور قدمگاہیں موجود ہیں۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا یزد سے خراسان کی جانب جو راستہ تھا اس کے بارے میں بہت سی متضاد گزارشات کی وجہ سے دقیقاً حضرت کے راستے کا معین اور مشخص کرنا مشکل اور دشوار ہے۔ مختلف گزارشات اس سفر کے بارے میں موجود ہیں جو نھایتاً نیشاپور پر ختم ہوتا ہے۔
لیکن حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا نیشاپور میں داخل ہونے پر متعدد گزارشات اور اسناد موجود ہیں، بالخصوص حدیث سلسلۃ الذھب جو کہ امام علیہ السلام نے اس شہر میں بیان فرمائی۔ امام کا نیشاپور میں داخل ہونے والی گزارشات پر تائید ہے ۔
اور اسی طرح نیشاپور شہر کے نزدیک واقع ایک مستند قدمگاہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا اس شہر میں آنے کی ایک یادگار ہے۔ نیشاپور سے نکلنے کے بعد امام علیہ السلام پانی کے ایک ایسے چشمہ پر پہنچے جس کے نزدیک ایک پتھر کا ایک تختہ تھا جس پر امام علیہ السلام نے کھڑے ہو کر نماز پڑی اور کچھ مدت کے بعد اس کے اوپر ایک عمارت کو تعمیر کیا گیا جو عمارت آج بھی موجود ہے۔
نیشاپور سے نکلنے کے بعد امام علیہ السلام دہ سرخ نامی جگہ پر پہنچے ، امام علیہ السلام نے وضو کی خاطر زمین کو اپنے دست مبارک سے تھوڑا سا کھودا ، جس سے امام کی برکت سے ایک چشمہ پھوٹا جو آج بھی موجود ہے۔
کوہ سنگی کے مقام پر امام علیہ السلام نے اس جگہ کے پتھروں کے لیے جن کو تراش کر پتھر کی دیگیں اور برتن بنائے جاتے تھے خیر و برکت کو طلب کیا ۔ اس جگہ پر آج بھی یہ کاروبار جاری و ساری ہے۔
امام علیہ السلام کا کوہ سنگی سے بعد والا مقصد طوس تھا۔ امام علیہ السلام جب طوس میں داخل ہوئے اور سناباد گاؤں جو کہ نوقان کا ایریا تھا اور حمید بن قحطبۃ طایی کی ملکیت میں شمار ہوتا تھا اور وہاں پر اس کا گھر اور باغ بھی تھا اس میں امام علیہ السلام نے ٹھہراؤ کیا۔ اس باغ میں ہارون الرشید کا مقبرہ بھی تھا یہ وہی جگہ تھی جس کے بارے میں امام علیہ السلام نے پہلے سے فرمایا تھا کہ مجھے اس جگہ پر دفن کیا جائے گا۔ اس شہر میں بھی امام علیہ السلام کا لوگوں، بزرگوں اور شہر کے علماء نے بہت ہی جوش و خروش سے استقبال کیا ۔
بعد والا سفر جو کہ طوس سے سرخس پر اختتام پذیر ہوتا تھا ۔ تاریخی منابع کی بنیاد پر جب امام علیہ السلام سرخس میں داخل ہوئے تو مامون کے حکم سے آپ کو زندان میں ڈال دیا گیا۔ مامون نے دو دلیلوں کی وجہ سے امام علیہ السلام کو سرخس شہر میں زندانی کیا:
پہلی وجہ یہ تھی کہ امام علیہ السلام نے حدیث سلسلۃ الذھب کو بیان کر کے جس میں عباسیوں کا لوگوں پر اقتدار اور سلطہ کے برابر خود امام اور امام کے خاندان پاک کی حقانیت کو لوگوں پر آشکار کیا ۔ اور خداوند کے امنیت والے قلعے میں داخل ہونے کے لیے اپنی اور اپنے خاندان پاک کی ولایت اور امامت کی قبولیت کو شرط قرار دیا اور عباسیوں کی خلافت کو زیر سوال قرار دیا ۔
اور دوسری دلیل نیشاپور کے لوگوں کا پرجوش استقبال تھا، کیونکہ مامون نے اپنے ہدف کے تحت امام علیہ السلام کے لیے ایسے راستے کو مشخص کیا تھا جس میں امام شیعوں سے رابطہ نہ کر سکیں اور بغیر کسی شور شرابے کے مرو پہنچیں جو کہ در حقیقت عمل میں ایسا نہ ہوا۔ اس لیے مامون نے امام علیہ السلام کو سرخس میں زندانی کرنے کا حکم دیا اور یہ مشہور کر دیا کہ امام رضا علیہ السلام نے الوہیت اور خدائی کا دعوی کیا ہے۔
مرو آنے سے پہلے آخری شہر سرخس ہے شہر مرو میں مامون کے اقتدار کے باوجود امام علیہ السلام کا وہاں کے رہنے والے لوگوں نے بہت پرجوش استقبال کیا ، اور اسی شہر میں مجبور ہو کر مامون کی ولی عھدی کو قبول کیا اور آخرکار مامون کے ہاتھوں دئیے گئے زہر سے شہادت پا کر امام کا سفر اختتام پذیر ہوا۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور ولی عہدی کا مسئلہ:
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی امامت کے بیس سال کا وہ آخری حصہ جو مدینہ سے مرو کی جانب ہجرت سے شروع ہوا اور آپ کی شہادت تک جاری رہا۔ ایسے واقعات پر مشتمل ہے جو کہ امام کی سیاسی ترین زندگی کا زمانہ تھا، ایسا زمانہ کہ جس کے دوران امام کی ولی عہدی کا مسئلہ پیش آیا۔
ان مطالب کو مدّنظر رکھتے ہوئے ، امام کی ولی عہدی کے مسئلے کی مختلف زاویوں سے تحقیق کی جا سکتی ہے جن میں سے چند ایک کو یہاں پر بیان کیا جاتا ہے:
الف: مامون، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو ولی عہدی اور جانشینی دینے میں اچھی نظر رکھتا تھا یا نہیں، مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔
اہل سنت کے مؤرخین اور محققین کا ایک گروہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ مامون، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو جانشینی اور ولی عہدی دینے میں حسن نیت رکھتا تھا ، ان کے عقیدہ کے مطابق مامون کا ایران کی سرزمین پر ہونا ، یہیں پر تربیت حاصل کرنا اور شیعہ مذہب پر اعتقاد رکھنے کی وجہ سے وہ خلافت اور ولایت کے منصب کو علویوں کو لوٹانا چاہتا تھا اور اس مطلب پر اس عہد نامہ میں جو مامون کی جانب سے موجود ہے چندین دلائل موجود ہیں۔
اس عہد نامہ میں مامون خلافت کو سلسلہ انبیاء کی ہی کڑی سمجھتا ہے اور دین کی بقاء اور شریعت کے نفاذ کو خلیفہ کے وظایف میں سے شمار کرتا ہے، مامون آگے چل کر یہ بیان کرتا ہے کہ خلافت کی جانشینی رفیع اور بلند و بالا مقام ہے اور وہ شخص خلیفہ کا جانشین بن سکتا ہے جو لوگوں کی محبت کو حاصل کر سکے اور ان کو متحد کر سکے اور ان کو فساد و تباہی سے بچا سکے۔
اسی عہد نامہ کے آخر میں ان خصوصیات کو کہ جو خلیفہ کے جانشین کے لیے ضروری ہیں ان کو مدّنظر رکھتے ہوئے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو ولی عہدی کے لیے انتخاب کرتا ہے اور آپ کو ایک فاضل ، پاکدامن اور لوگوں کا محبوب شخص جانتا ہے۔
لیکن اس کے مقابلے میں زیادہ تر شیعہ محققین، امام کی ولی عہدی اور جانشینی کے موضوع کو مامون کی طرف سے امام کی نسبت سوء نیت جانتے ہیں البتہ اس سوء نیت کا منشاء اور سر چشمہ مامون کا تفصیلاً لوگوں کی رو حیات سے آشنا ہونا ہے جو کہ خلافت کے استمرار اور خود مامون کی بقاء کا سبب تھا البتہ مامون کا امام کے ساتھ سلوک ، رویہ اور رفتار، شیعہ محققین کے نظریہ کو تاریخ اور منطق کے اعتبار سے زیادہ تقویت دیتا ہے ۔
ب: حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی جانب سے ولی عہدی کو قبول فرمانا:
یہاں پر ایک اور سوال پیش کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اس منصب کو کیوں قبول کیا ؟
اس مسئلے میں بھی کچھ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام کا اس منصب کو قبول کرنا ، امام کے اپنے اختیار سے تھا۔ اس نظرئیے کو قبول کرنے والے اس چیز کے معتقد ہیں کہ امام اسلامی معاشرے کی دیکھ بھال کو امامت کے حقوق میں سے جانتے تھے اسی لیے اپنی خواہش اور رغبت کے ساتھ مامون کی ولی عہدی کو قبول کیا ہے۔
لیکن اس کے مقابلے میں ایک محکم نظریہ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ ظالم حکمرانوں کی مدد اور ان کے ساتھ تعاون نہ کرنا اہل بیت علیہم السلام کے اصولوں میں سے ایک اہم اصل تھی۔
لہذا امام علیہ السلام ہرگز مامون کے ساتھ مدد اور تعاون کرنے پر راضی نہیں تھے اور اس منصب کو قبول کرنے میں امام کو کوئی اختیار حاصل نہیں تھا۔ اس مسئلے کو واضح طور پر ہم مامون کے اس حکم کو جو اس نے امام کو مجبور کر کے ہجرت کرنے پر دیا تھا اس میں دیکھ سکتے ہیں ۔
امام علیہ السلام نے مختلف طریقوں سے اس سفر پر راضی نہ ہونے کا اعلان کیا اور اس عہد نامہ میں جو امام اور مامون کے درمیان لکھا گیا تھا، امام علیہ السلام نے اس میں مختلف طریقوں اور کنایات سے اس منصب کو قبول کرنے میں راضی نہ ہونے پر اعلان فرمایا ہے۔
ج: حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولی عہدی سے مامون کے اہداف:
تاریخ میں امام کی سیاسی زندگی کے اہم سوالات میں سے ایک یہ ہے کہ مامون کس لیے ولی عہدی کو حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو دینا چاہتا تھا۔
تاریخ کے مختلف منابع کا مطالعہ کرنے سے جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ مامون ایک چالاک اور باہوش انسان تھا جو اسلامی ممالک کے سیاسی مسائل کے بارے میں اچھی خاصی معلومات رکھتا تھا اور مامون اسی شناخت کی وجہ سے اس نتیجہ پر پہنچا کہ خلافت کی بقاء اور استحکام کے لیے ظاہری طور پر خاندان عصمت و طہارت اور شیعوں سے محبت ضروری ہے۔
لہذا اس نے اپنے سامنے اس کام کے لیے بہترین انتخاب حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو پایا اور اسی لیے امام کو مجبور کر کے مرو بلوایا۔ اس کام کی وجہ سے مامون نے اپنے کچھ سیاسی اہداف حاصل کر لیے تھے جو یہ ہیں:
شیعوں کے حکومت اور خلافت کے خلاف قیاموں کو مہار کر لیا گیا، شیعوں کی ظاہری طور پر مظلومیت ختم ہو گئی (کیونکہ امام حکومتی منصب پر فائز ہیں اور اس وجہ سے شیعوں کی مظلومیت کم ہو گئی) ، عباسی خلافت کی حکومت کو مقبولیت اور قانونی حثیت حاصل ہو گئی، شیعوں پر تسلط میں توسیع پیدا ہو گئی اور ان کو عباسی حکومت کے ساتھ ملا دیا گیا، جانشین خلیفہ کے عنوان سے امام کی روحانی اور معنوی شخصیت کو خراب کیا گیا، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو لوگوں پر جو قدرت حاصل تھی اس کو مہار اور ختم کر دیا گیا اور امام پر سخت پابندی لگا دی گئی۔
د: حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور ولی عہدی کے مسئلے کا سامنا:
مامون کی جانب سے جب ولی عہدی کو امام کو زبردستی دیا گیا تو اس وقت حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے بھی گوشہ نشینی اور سکوت نہ فرمایا۔ اگرچہ ولی عہدی کو امام پر تحمیل کیا گیا تھا لیکن اس کے با وجود امام نے ولی عہدی کو قبول کرنے کے لیے یہ شرط رکھ دی تھی کہ امام مامون کے سیاسی امور اور کسی کو عزل و نصب کرنے میں کوئی دخالت نہیں کریں گے ۔
مدینہ سے مرو کے راستے میں بیان کیے گئے امام کے فرامین اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ قلباً امام اس منصب کو قبول کرنے کے لیے راضی نہیں تھے۔ اس کے علاوہ امام نے اپنے اس سفر کے دوران، معاشرے میں امام کے مقام اور منزلت کو بھی بہت سے اشاروں سے بیان فرمایا اور ان میں سے واضح ترین یہ تھا کہ شیعوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ امامت کے راستے پر حرکت کریں اور وہ ایسا راستہ ہے جو ظالم عباسی خلیفہ کی جانشینی سے کوسوں دور ہے۔
امام رضا (ع) کا شہر مرو میں داخل ہونا اور مسئلہ ولیعہدی کا بیان کرنا:
10 شوال سن 201 ہجری میں امام رضا شہر مرو میں داخل ہوئے اور وہاں پر مامون، اسکے وزیر فضل ابن سہل اور آل عباس اور بہت سے علویوں نے آپ کا استقبال کیا۔ ایام اسی طرح تیزی سے گزرتے رہے اور مامون ہمیشہ خود کو امام رضا کا ایک مخلص میزبان ظاہر کیا کرتا تھا۔ امام رضا کا اس شہر مرو ( خراسان) میں آنا ، خود مامون کا امام کا شاندار قسم کا استقبال کرنا اور عام لوگوں کو ہر وقت امام رضا سے ملاقات کرنے کی اجازت دینا، یہ سب کچھ خود امام رضا کے لیے بہت حیرت انگیز تھا۔ اسی حیرت اور تعجب کے عالم میں مامون نے اپنے اصلی ہدف کی طرف پہلا قدم اٹھایا۔
مامون امام رضا کے پاس آیا اور بہت ہی مخلصانہ اور حق بجانب لہجے میں ان سے چند علمی سوال کیے اور پھر امام کے ساتھ بحث کرنا شروع کر دی، اسی بحث کے دوران مامون نے امام رضا سے کہا کہ:
میں نے بنی عباس اور آل علی میں کے بارے میں بہت غور کیا ہے، میں تحقیق کیے بغیر یہ بات نہیں کر رہا، اے رسول خدا آپکی فضیلت، علمی برتری اور تقوی ان میں سب سے زیادہ ہے اور آج میری نظر میں آپ سے بڑھ کر کوئی بھی شخص اس امت اسلامی میں خلافت اور حکومت کرنے کا حقدار نہیں ہے۔ میرے لیے اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں ہے کہ آپ سب سے اس خلافت کے لیے مناسب تر اور لائق تر ہیں۔
مامون نے اپنے اصرار اور تقاضے کو دوبارہ تکرار کیا اور کہا کہ: اے میرے چچا زاد ! میں اب خلافت سے کنارہ کشی کرنا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اسکو اسکے اہل تک پہنچا دوں۔ میں سب سے پہلے آپکی بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوں، امام رضا مامون کے اس تقاضے کا بار بار انکار کرتے رہے اور فرمایا کہ: اگر اس خلافت کو خداوند نے تمہیں عطا کیا ہے تو تمہارے لیے اسکو کسی دوسرے کے حوالے کرنا جائز نہیں ہے۔
مامون بھی مسلسل اصرار کرتا جا رہا تھا، لیکن وہ جتنا زیادہ اصرار کر رہا تھا، اسکو اسکا کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ آخر کار جب مامون نے دیکھا کہ امام بالکل اسکی بات کو نہیں مان رہے، اس نے بالآخر اپنے دل کی بات زبان پر لا ہی دی اور امام سے کہا: یا ابن رسول اللہ جب آپ خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں تو ولیعہدی کو تو آپکو قبول کرنا پڑے گا تا کہ میرے بعد خلافت آپکو مل سکے۔
امام رضا نے فرمایا: خدا کی قسم جب سے خداوند نے مجھے خلق کیا ہے، میں نے جھوٹ نہیں بولا اور میں نے دنیا سے بالکل دل نہیں لگایا۔ مجھے تمہاری نیت کی پہلے سے خبر تھی۔
مامون نے کہا: بتائیں میری کیا نیت ہے ؟
امام نے مامون سے امان لینے کے بعد فرمایا: تو لوگوں کو میرے بارے میں بد ظنّ کرنا چاہتا ہے، تم چاہتے ہو کہ لوگ کہیں کہ علی ابن موسی الرضا بھی دنیا پرست نکلا اور دنیا کے پیچھے بھاگنے والا نکلا ہے، اور لوگ کہیں گے کہ علی ابن موسی الرضا نے ولیعہدی کو بھی خلافت تک پہنچنے کے لیے قبول کیا ہے۔
مامون بہت غصے میں آ گیا اور کہا: آپ کی باتیں مجھے غصہ دلا رہیں ہیں۔ ایسے لگتا ہے گویا آپ میری قدرت اور جلالت سے محفوظ ہو۔ خدا کی قسم اگر ولیعہدی کو قبول نہ کیا تو میں آپکو اسکو قبول کرنے پر مجبور کروں گا، اور اگر پھر بھی آپ نے قبول نہ کیا تو میں آپکے سر کو بدن سے جدا کر دوں گا۔ «و الا ضربت عنقك.»
امام نے جب دیکھا کہ مامون اپنے اصرار سے پیچھے نہیں ہٹ رہا تو انھوں نے چند شرائط کے ساتھ مجبوری کی حالت میں مامون کی ولیعہدی کو قبول کر لیا۔
امام رضا (ع)کی منصب ولیعہدی کو قبول کرنے کی شرائط:
1- امام کسی کو بھی کسی مقام و منصب پر نصب یا عزل نہیں کرے گا۔
2- مامون کسی بھی رسم و سنت کو توڑے یا تبدیل نہیں کرے گا ۔
3- امام دور سے حکومت کی راہنمائی کریں اور مشورے دیا کریں گے۔
مامون نے ان تمام شرائط کو قبول کر لیا، اس طرح امام رضا نے اپنی حکمت اور دور اندیشی سے مامون کے بعض اہداف کو پورا ہونے سے پہلے ہی ناکام بنا دیا۔ پس امام کبھی بھی مامون کے ساتھ کے حکومتی کاموں میں شریک نہیں ہوتے تھے، اس طرح امام نے اپنی اور اپنے شیعوں کی جان کو حفظ کرنے کے لیے نہ یہ کہ ولیعہدی کو قبول بلکہ اپنے جدّ امیر المؤمنین علی (ع) کی طرح حکومت میں رہنے کے باوجود بھی حکومت کے ساتھ نہیں تھے۔
مسئلہ ولیعہدی سے مامون کے اہداف و مقاصد:
مامون کے مسئلہ ولیعہدی کے قبول کرنے کے لیے امام رضا پر بار بار اصرار سے واضح ہو جاتا ہے کہ مامون کے دل میں اس مسئلے کے بارے میں کتنے اہم اہداف تھے۔ ان میں سے بعض اہداف مندرجہ ذیل ہیں:
الف. علویوں اور عباسیوں کو آپس میں مساوی ظاہر کرنا،
ب. حکومت کے خلاف تحریکوں کو کم کرنا،
ج. امام کو ایک جگہ پر محدود کرنا اور انکو اپنی زیر نگرانی رکھنا،
د. امام کی معنوی و الہی شخصیت کو داغدار کرنا،
ه. اپنی خلافت و حکومت کو شرعی اور قانونی ظاہر کرنا،
ر. عام عوام کے دلوں میں اپنا مقام بنانا،
امام رضا نے بھی ولیعہدی کو بغیر شرط و شروط کے قبول نہیں کیا تھا کہ ان میں سے ایک شرط یہ تھی کہ امام نے فرمایا کہ: میں تہمارے سرکاری اور حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کروں گا۔ اسی شرط کی وجہ سے امام خود کو مامون کے ساتھ حکومتی کاموں میں شریک کرنے کے پابند نہیں جانتے تھے۔
امامت نماز عید سعید فطر:
نماز عید فطر کا مسئلہ امام رضا کی مبارک زندگی میں ولیعہدی کو قبول کرنے کے بعد سب سے اہم مسئلہ تھا۔ اس مسئلے کی اہمیت اس قدر زیادہ تھی کہ خود مامون نے واضح طور پر اس کے مقابلے پر اپنا رد عمل ظاہر کیا تھا، اور وہ راز جو اس نے ہمیشہ سے اپنے دل میں مخفی کیا ہوا تھا، اس راز کو اس نے لا علمی کے عالم میں آخر کار ظاہر کر دیا۔ تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ:
جب عید سعید فطر آئی تو مامون نے بیماری یا کسی اور وجہ سے امام علی ابن موسی الرضا کو پیغام بھیجا کہ اس دفعہ آپ عید کی نماز پڑہائیں۔ امام نے مامون کے بھیجے ہوئے بندے سے فرمایا کہ جا کر مامون سے کہو کہ میری اور تمہاری شرائط کے مطابق عید کی نماز پڑہانا میرے ذمے پر نہیں ہے۔
آخر کار خلیفہ مامون کے دوبارہ اصرار کی وجہ سے امام رضا نے مامون کی بات کو چند شرائط کے ساتھ مان لیا۔ امام کی اس بارے میں یہ شرط تھی کہ میں عید کی نماز کو رسول خدا (ص) اور امیر المؤمنین علی (ع) کے طریقے پر پڑہاؤں گا۔ مامون نے بھی اس شرط کو قبول کر لیا اور کہا کہ جیسے آپکا دل ہے، آپ عید کی نماز پڑہائیں۔
بالآخر خدا خدا کر کے عید کا دن آن پہنچا۔ عید کے دن صبح صبح طلوع آفتاب سے پہلے لوگ جوق در جوق امام کے گھر کے سامنے جمع ہونا شروع ہو گئے۔ حکومت کی تمام کوشش یہ تھی کہ عید کی نماز بہت شان و شوکت کے ساتھ پڑہائی جائے اور تاریخ میں ایک یادگار نماز کے طور پر باقی رہے۔
امام رضا اپنے گھر سے باہر تشریف لائے، تمام لوگوں کی نگائیں امام کے گھر کی طرف لگیں ہوئی تھیں، سب نے اچانک ایک عجیب و غریب منظر دیکھا۔ امام رضا خود کو خوشبو لگائے اور عبا کو کندہوں پر گرائے عید کی نماز پڑہانے کے لیے گھر سے باہر نکلے۔ انھوں نے سفید عمامے کو سر پر رکھا ہوا تھا اور اسکے دونوں سروں کو سر اور گردن کے پیچھے گرایا ہوا تھا۔ انکے ہاتھ میں ایک عصا تھی اور وہ ننگے پاؤں وقار ، جلالت اور ہیبت کے ساتھ قدم بڑھا رہے تھے۔ جب امام کے اصحاب نے امام کو اس حالت میں دیکھا تو انھوں نے خود کو بھی اسی حالت میں ڈھال لیا اور امام کے ساتھ مل کر تکبیر کہنے لگے۔ اس روحانی اور ملکوتی منظر کو دیکھ کر گھوڑوں پر سوار سپاہی اور حکومتی عہدے دار لوگ بھی اپنے اپنے گھوڑوں سے نیچے اتر آئے اور اپنے جوتے اتار کر بلند بلند آواز سے تکبیر کہنے لگے۔ ایک طرف سے ان روحانی مناظر نے اور دوسری طرف سے لوگوں کے گریہ شوق نے شہر مرو ( خراسان، طوس) کی فضاء کو روح پرور حالت سے معطر کر دیا تھا۔ امام نے اپنے گھر کے صحن کے سامنے دوسری تکبیر کہی تو تمام لوگوں نے مل کر بلند آواز سے اللہ اکبر، کہا۔ حکومت کے سپاہیوں اور سرکاری شخصیات کہ جو اسلحہ سے لیس تھیں، نے دیکھا کہ ان کا ظاہری حلیہ کسی بھی طرح سے مسلمین کے ولیعہد کے مشابہ نہیں ہے اور ہمارا اس طرح سے اس عظیم روحانی اجتماع میں آنا، ذلت اور رسوائی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے !
فضل ابن سہل نے دیکھا کہ اگر اس حالت میں امام رضا عید کی نماز پڑھانے کے لیے عید گاہ پہنچ گئے اور پھر لوگوں کے لیے عید کے خطبے بیان کیے تو شہر مرو کے لوگ خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں گے کہ یہ سب کچھ مامون کی خلافت اور حکومت کے نقصان میں ہو گا، لہذا جتنا جلدی ہو سکتا تھا، اس نے خود کو مامون کے پاس پہنچایا اور اس سے کہا کہ:
اگر امام رضا اسی حالت میں نماز پڑھانے میں کامیاب ہو گیا تو تیری خلافت کے لیے ایک ایسا سیلاب آئے گا جو ہم سب کو بہا کر لے جائے گا اور ہم سب کو اپنی جانوں کی فکر پڑی ہوئی ہے۔
مامون نے فوری حکم دیا کہ امام کو فورا واپس پلٹنے کا حکم دو، اسی وجہ سے امام سے کہا گیا کہ ہم نے آپکو زحمت دی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ آپکو کوئی تکلیف ہو۔ لہذا آپ واپس گھر لوٹ جائیں اور وہی بندہ جو پہلے عید کی نماز پڑھاتا تھا، اب بھی وہی پڑھا لے گا۔
امام رضا نے اپنے جوتے پہنے اور اپنی سواری پر سوار ہو کر اپنے گھر واپس لوٹ آئے۔ اس آدھے راستے سے واپس پلٹنے کا امام کو اس قدر افسوس ہوا کہ امام نے فرمایا: خدایا اگر اس حالت سے موت ہی میرے لیے بہتر ہے تو مجھے جلدی موت نصیب فرما۔
اس واقعے کے بعد مامون بہت ڈر گیا تھا اور امام کے وجود کو بنی عباس اور اپنی خلافت و حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا تھا۔ اسکے بعد اس نے اپنی نئی حکمت عملی کو اپنایا۔ وزیر فضل ابن سہل اور تمام افواج کے سربراہ مامون کی اس نئی حکمت عملی کی قربانی بنے ، اس سب کچھ کے باوجود مامون آرام سے راضی ہونے والا نہیں تھا، وہ سرے سے مسئلہ ولیعہدی کو ختم کرنا چاہتا تھا، نہ فقط فضل ابن سہل کو، اور مسئلہ ولیعہدی کو امام رضا کے زندہ رہنے تک ختم کرنا ممکن نہیں تھا، اس وجہ سے اب وہ فقط اور فقط اپنے راستے سے امام کو ہٹانا چاہتا تھا۔
لہذا اب واضح طور اور سب کے سامنے تو امام کو قتل نہیں کیا جا سکتا تھا، یا امام پر حکومت کے ساتھ خیانت کرنے کی تہمت بھی نہیں لگائی جا سکتی تھی اور امام کو اس طریقے پر کہ جس کے ساتھ فضل ابن سہل کو قتل کیا گیا تھا، قتل بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لہذا مامون کے امام کو قتل کرنے کے لیے یہ تمام طریقے خود مامون کو مناسب نہیں لگ رہے تھے۔ کسی کو کچھ پتا نہیں تھا کہ مامون امام کو کس طریقے سے اپنے راستے سے ہٹائے گا، لیکن سیاسی واقعات کی تحلیل کرنے والوں نے بیان کیا ہے کہ مامون مندرجہ ذیل کام کرنا چاہتا تھا:
الف. وہ مسئلہ ولیعہدی کو ختم کرنے کے لیے امام کے وجود کو ختم کرنا چاہتا تھا،
ب. امام کو قتل کرنے کے داغ سے اپنے دامن کو بھی بچانا چاہتا تھا،
ج. وہ امام کے قتل سے بھی سیاسی فوائد حاصل کرنا چاتا تھا،
اور آخر کار اسی طرح ہی ہوا اور مامون نے اپنا کام کر دکھایا اور امام کو زہر دے کر شہید کر دیا اور بہت سے شیعوں کو امام سے دوری کے غم میں مبتلا کر دیا۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے باوفا اصحاب:
امام علی رضا علیہ السلام کے بہت سے اصحاب تھے جو باوفا تھے ، ان میں سے بعض حضرات کو آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں:
1- ابوجعفر احمدبن ابی نصر بزنطی کوفی:
امام علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے اور امام محمد تقی علیہ السلام کے مخصوص شاگردوں میں شمار ہوتے تھے ۔ ان کی وثاقت کا یہ عالم تھا کہ جو روایت ان سے نقل کر دی جاتی تھی اس کا سلسلئہ سند نہیں دیکھا جاتا تھا، بلکہ اسے صحیح تسلیم کر لیا جاتا تھا ، کیونکہ انہوں نے کبھی کسی غیر معتبر راوی سے کوئی روایت ہی نقل نہیں کی ہے ۔ انہوں نے 221 ہجری میں وفات پائی۔
2- دعبل بن علی الخزاعی:
یہ اپنے وقت کے عظیم ترین شاعر اور ادیب تھے ۔ ان کا قصیدہ تاریخ ادب میں شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے ۔ امام علی رضا علیہ السلام کی شان میں قصیدہ لکھنے کے بعد خراسان کا رخ کیا کہ سب سے پہلے حضرت کو سنائیں گے، حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے سن کر بے حد تعریف کی اور فرمایا کہ اسے ہر ایک کو مت سنانا لیکن جب قصیدہ کی شہرت زیادہ ہوئی تو مامون نے دربار میں طلب کر کے قصیدہ کی فرمائش کی ، دعبل نے اسے ٹال دیا تو اس نے امام رضا علیہ السلام کو طلب کر کے آپ سے سفارش کرائی اور دعبل نے امام علی رضا علیہ السلام کے حکم پر قصیدہ سنایا تو مامون نے 50 ہزار درہم انعام دئیے اور حضرت رضا علیہ السلام نے بھی اس قدر دعبل پر عنایت فرمائی ( دعبل نے عرض کیا کہ مولا مجھے مال دنیا در کار نہیں ہے، مجھے اپنا جبہ عنایت فرما دیجئے جو آخرت میں میرے کام آئے گا آپ نے اسے بھی عنایت فرما دیا اور فرمایا کہ اسے محفوظ رکھنا یہ کبھی کام آئے گا چنانچہ راستہ میں ڈاکووں کے حملہ کے وقت وہی جبہ سارے قافلہ والوں کو کام آیا اور اسی کی برکت سے ڈاکووں نے سارے قافلہ کا مال واپس کر دیا ۔ بعض روایت میں وارد ہوا ہے کہ دعبل نے اپنے قصیدہ کے اندر بغداد میں ایک قبر کا ذکر کیا تو امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ اس میں دو اشعار کا اور اضافہ کر دو تا کہ قصیدہ مکمل ہو جائے اور یہ کہہ کر آپ نے طوس کی قبر کے بارے میں دو شعر ارشاد فرمائے ۔ دعبل نے عرض کیا: مولا یہ کس کی قبر ہے ؟ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : یہ میری قبر کا ذکر ہے اور جو شخص بھی عالم غربت میں میری زیارت کرے گا وہ روز قیامت میرے ساتھ محشور ہو گا اور یہ کہہ کر سو دینار رضوی بھی عنایت فرمائے جن پر حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا اسم گرامی کندہ تھا اور دعبل نے اسے بطور تبرک محفوظ کرلیا ۔
3- حسن بن علی بن زیاد الوثا الجبلی الکوفی:
امام علی رضا علیہ السلام کے مخصوص اصحاب میں سے یہ بھی ایک صحابی تھے اور ان کے نانا الیاس صیرفی امام صادق علیہ السلام کے نمایاں اصحاب میں شمار ہوتے تھے اور انہوں نے وقت آخر امام صادق علیہ السلام کی اس روایت کا ذکر کیا تھا کہ حضرت نے فرمایا : جس کے دل میں ہم اہل بیت علیہم السلام کی واقعی محبت ہو گی اسے آتش جہنم میں نہیں ڈالا جائے۔
شیخ طوسی نے احمد بن محمد بن عیسی قمی سے نقل کیا ہے کہ: میں احادیث کی طلب میں قم سے کوفہ گیا تھا تو وہاں حسن بن علی بن الوثاٗ سے ملاقات ہوئی اور میں نے ان سے مطالبہ کیا کہ علی بن زین اور ابان بن عثمان کی کتابوں کو روایت کرنے کا اجازہ مرحمت فرمائیں تو انہوں نے کہا کہ پہلے آپ کتابیں نقل کریں اور میں سن لوں تو میں نے کہا کہ آپ ابھی سن لیں اس لیے کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے تو حسن بن علی بن الوثاٗ نے کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ لوگوں میں حدیث کا اس قدر شوق ہے کہ تو میں احادیث کا ذخیرہ اکھٹا کر لیتا اس لیے کہ میں نے اس مسجد کوفہ میں 900 ایسے شیوخ کو دیکھا ہے کہ جو امام جعفر صادق علیہ السلام کی احادیث بیان کرتے تھے ۔
4- حسن بن علی بن فضال تیمی کوفی:
امام علی رضا علیہ السلام کے مخصوص صحابیوں میں سے تھے اور راویان احادیث میں سے تھے، فضل بن شاذان کا بیان ہے کہ میں مسجد میں درس قرائت حاصل کر رہا تھا کہ میں نے دیکھا: کچھ لوگ کسی ایسے شخص کا تذکرہ کر رہے ہیں جو دامن کوہ میں رہتا ہے اور مسلسل عبادت کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ حیوانات صحرا بھی اسے اس قدر مانوس ہو گئے ہیں کہ اس کے پہلو میں چرتے ہیں اور وہ سجدہ کو اس قدر طول دیتا ہے جیسے کوئی انسان دنیا سے گزر چکا ہو، میں حیرت میں تھا کہ ایسا انسان کون ہو سکتا ہے کہ اتنے میں ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور میرے والد نے بڑھ کر استقبال کیا اور نہایت درجہ احترام کا برتاؤ کیا تو ان کے جانے کے بعد میں نے پوچھا کہ یہ حسن بن علی بن فضال تھے؟ انھوں نے کہا : یہ وہی عابد معروف ہیں ؟ میں نے کہا کہ وہ تو پہاڑ پر رہتے ہیں ؟ فرمایا کہ آج اتر کر آئے ہیں اور میرے پاس اکثر آتے رہتے ہیں، میرے دل میں ان کا اتنا احترام پیدا ہو گیا کہ میں اکثر ان کے پاس جا کر ابن بکیر وغیرہ کی کتابیں سنا کرتا تھا اور یہ صرف ان کا جذبہ دیداری تھا ورنہ ایک سال مامون کا سپہ سالار طاہر بن الحسین الخزاعی حج کر کے کوفہ واپس آیا تو اس نے بار بار حسن بن فضال سے ملاقات کرنے کی خواہش کی لیکن انہوں نے ان کے پاس جانے سے انکار کر دیا ۔ ان کی وفات 224 ہجری میں ہوئی ۔
5- حسن بن محبوب السراد الجبلی کوفی:
یہ اپنے دور کے ارکان اربعہ اور اصحاب اجماع میں شمار ہوتے تھے عام طور سے لوگ انہیں زرّار کہتے تھے لیکن امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ سراد کہا کرو کہ لفظ سرد، زرہ سازی کے بارے میں قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے اور امت اسلامیہ کو الفاظ قرآن مجید کو اہمیت دینا چاہیے۔ ان کے والد نے ان کی تربیت کا اس قدر اہتمام کیا تھا کہ علی بن رئاب کی ایک ایک حدیث حفظ کرنے پر ایک ایک درہم انعام دیا کرتے تھے۔ حسن بن محبوب کا انتقال 224 ہجری کے آواخر میں تقریبا 65 سال کی عمر میں ہوا۔
6- زکریا بن آدم بن عبد اللہ بن سعد اشعری قمی :
امام رضا علیہ السلام کے مخصوص اصحاب اور مقربین بارگاہ میں سے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میں اپنے گھر والوں سے الگ ہونا چاہتا ہوں، ان میں احمق بہت پیدا ہوئے ہیں ۔فرمایا کہ ہرگز ایسا نہیں کرنا کہ رب العالمین تمہارے ذریعہ ان سے اسی طرح بلاؤں کو دفع کرتا ہے جس طرح امام موسی کاظم علیہ السلام کی قبر کے طفیل میں اہل بغداد کی بلاؤں کو دفع کرتا ہے ۔ علی بن المسیب الہمدانی نے امام علی رضا علیہ السلام سے عرض کیا کہ میرا گھر بہت دور ہے اور میں ہمیشہ آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکتا ہوں تو احکام دین کس سے حاصل کروں ؟
آپ نے فرمایا : زکریا بن آدم قمی جو میری نظروں میں دین و دنیا دونوں میں مامون و محفوظ ہیں ، بعض مؤرخین کا بیان ہے کہ انہیں یہ سعادت بھی حاصل تھی کہ ایک سال امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ حج پہ گئے تو مدینہ سے مکہ تک حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ ایک ہی محمل پر سوار رہے ۔
علامہ مجلسی نے تاریخ قم کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسعدی خاندان کے بارے میں دعا فرمائی تھی کہ خدایا ! ان کے صغیر و کبیر کی مغفرت فرما ۔ زکریا بن آدم کی قبر قم کے قبرستان شیخان میں مشہور ہے اور انہیں کی پہلو میں ان کے چچا زاد بھائی زکریا بن ادریس بن عبد اللہ بن سعد اشعری کی بھی قبر ہے ۔
7- صفوان بن یحی ابو محمد جبلی کوفی:
اپنے دور کے معتبر ترین راویوں میں شمار ہوتے تھے ، امام علی رضا علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے بلکہ حضرت کے وکیل بھی تھے ۔ علامہ کشّی نے انہیں اصحاب اجماع میں شمار کیا ہے اور بعض مؤرخیں نے نقل کیا ہے کہ صفوان عبد اللہ بن جندب اور علی ابن نعمان کے ساتھ شریک تجارت تھے اور تینوں حضرات پابندی کے ساتھ روزانہ 51 رکعت نماز ادا کیا کرتے تھے۔ انھوں نے آپس میں یہ معاہدہ کیا تھا کہ جو بعد میں رہ جائے گا وہ دوسروں کی طرف سے بھی عمل کرائے گا چناچہ صفوان اپنے دونوں ساتھیوں کے انتقال کے بعد روزانہ تیں مرتبہ 51 رکعت نماز پڑھتے تھے اور سال میں تین ماہ کے روزے رکھتے تھے اور اپنے مال کی زکات تین مرتبہ ادا کرتے تھے اور احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کرایہ پر اونٹ لے کر کوفہ جا رہے تھے تو کسی شخص نے دو دینار کوفہ پہنچانے کے لیے دیا تو اس وقت تک اونٹ پر سوار نہیں ہوئے جب تک کہ مالک سے اس قدر بار کے اضافہ ہونے کی اجازت نہیں لے لی۔ اگرچہ یہ مومنین کرام کی حاجت برآوری کا جذبہ تھا کہ صاحب دینار سے انکار نہیں کیا کہ میں نہیں لے جا سکتا ہوں ۔ صفوان نے امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے چالیس افراد سے روایت بیان کی ہے اور 210 ہجری میں مدینہ منورہ میں آپکا انتقال ہوا ہے ۔ امام جواد علیہ السلام نے کفن اور حنوط وغیرہ کا انتظام کیا اور اسماعیل بن موسی کو حکم دیا کہ ان کی نماز جناہ ادا کریں۔
8- نصر بن قابوس:
انھوں نے امام صادق علیہ السلام ، امام کاظم علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام ، تینوں حضرات سے روایت نقل کی ہے اور 20 سال تک امام صادق علیہ السلام کے وکیل رہے ہیں ۔ امام کاظم کے مخصوص اصحاب میں سے تھے اور ان سے امام رضا کی امامت کی نص کی روایت کی ہے ۔ شیخ کشی نے ان کی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ امام موسی کاظم ان کا ہاتھ پکڑ کر ایک حجرہ تک لے گئے جہاں امام علی رضا مشغول مطالعہ تھے اور فرمایا کہ نصراس فرزند کو پہچانتے ہو ؟ اور اس کتاب کو جانتے ہو ؟ عرض کیا : آپ بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا : یہ کتاب جفر ہے جسے فقط انبیا اور اوصیا پڑھ سکتے ہیں۔ جس کے بعد حضرت کی امامت کا انہیں اور بھی یقین کامل ہو گیا ۔
دوسرے موقع پر نصر نے امام موسی کاظم سے کہا کہ میں نے آپ کے والد سے ان کے وصی کے بارے میں دریافت کیا تھا تو انھوں نے آپ کا نام بتایا تھا۔ اب آپ کا وصی کون ہو گا ؟ آپ نے فرمایا کہ میرا فرزند علی بن موسی ۔
9- محمد بن اسماعیل بن بزیع:
مرد ثقہ اور امام رضا کے اخص اصحاب میں سے تھے ۔ امام جواد کا زمانہ بھی درک کیا ہے، ان کا شمار وزرا میں بھی ہوتا تھا اور علی ابن نعمان نے ان کے بارے میں وصیت کی تھی کہ میری ساری کتابیں محمد بن بزیع کو دے دی جائیں ۔
انھوں نے امام جواد سے کفن کے واسطے پیراہن بھی طلب کیا تھا اور آپ نے اسے ارسال فرمایا اور کہا کہ اس کے بٹن نکال دئیے جائیں۔ آپ نے راہ مکہ میں مقام مید میں انتقال فرمایا ۔ جب محمد بن علی بن بلال کے ساتھ ان کی قبر کی زیارت کی تو انھوں نے ان کے حوالے سے امام رضا علیہ السلام کی یہ حدیث نقل کی کہ اگر کوئی شخص کسی قبر پر ہاتھ رکھ کر ساتھ مرتبہ سورہ انا انزلناہ پڑھیگا تو پڑھنے والا اور مردہ دونوں بوئے قیامت سے محفوظ رہیں گے۔
التماس دعا.....