امام صادق علیہ السلام کی نگاہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقام
طول تاریخ میں ایسی شخصیتیں بہت کم ہیں کہ جن کی تمام صفات اور خصوصیات مکمل اور واضح طور پر بیان ہوئی ہوں۔
اللہ نے قرآن کریم کہ جس کی حافظت کی ذمہ داری خود آپ نے لی ہے(1) اور یہ قیامت تک کے انسانوں کے لئے بغیر کسی تغیر اور تبدیلی کے ہدایت کی کتاب ہے، اس کتاب میں انتہائی خوبصورت اور بہترین انداز میں آنحضرت کی خصوصیات کو بیان کیا ہے ۔
اللہ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے : «انك لعلي خلق عظيم »; (2)
اے پیغمبر ! آپ اخلاق کے اعلی ترین درجے پر فائز ہیں.
اللہ نے ہی فرمایا ہے : «محمد رسول الله و الذين معه اشداو علي الكفاررحماء بينهم. » (3) محمد(ص) اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول ہیں ،جو ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے ساتھ سخت اور آپ میں مہربانی اور رحم دل ہیں۔
اھل تحقیق ، تاریخ اور سیرت نگاروں نے آپ کے بارے میں گفتگو کی ہے اور آپ کی زندگی کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی ہے ۔
لیکن ائمه عليهم السلام نے انتہائی دقت اور باریک بینی سے اس بے نظیر اور کائینات میں یکتا شخصیت کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے اور ان کی مختلف خصوصیات اور صفات کو بیان فرمایا ہے ۔
ہم اس تحریر میں امام صادق(ع) کی نگاہ میں حضرت محمد(ص) کی شخصیت اور آپ کی زندگی کے مختلف پہلوں کو بیان کرنے کہ کوشش کریں گے اور یہ دیکھیں گے کہ امام صادق ع نے کس خوبصورت انداز میں بشری تاریخ کے اس بے نظیر اور بے ہمتا شخصیت کی خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے ۔
نور کی ولادت
امام صادق(ع) نے سلمان فارسي کے واسطے سے پيامبر اكرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : خداوند متعال نے اپنے نور کی چمک سے مجھے پیدا کیا (4) اسی طرح امام امام صادق(ع) فرماتے ہیں : خداوند متعال نےرسول اكرم(ص)سے خطاب میں فرمایا : «اے محمد! میں نے آسمان، زمين، عرش اور دريا کی تخلیق سے پہلے آپ کے نور کو پیدا کیا ...». (5)
ثقه الاسلام كليني(ره) نے امام صادق(ع) کی روایت نقل کی کہ ہے آپ نے فرمایا : « حضرت رسول اكرم(ص) کی ولادت کے وقت جناب فاطمه بنت اسد آپ کی ماں جناب آمنه کے پاس آئی اور ان دونوں میں سے ایک نے کہا : کیا جو میں دیکھ رہی ہوں آپ بھی دیکھ رہی ہیں ؟
دوسرے نے کہا : کیا دیکھ رہی ہو؟ کہا : مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا نور !
اسی وقت جناب ابوطالب(ع) آگئے :
اور کہا : کیوں تعجب کی حالت میں ہو ؟ فاطمه بنت اسد نے واقعہ بیان کیا . ابوطالب نے ان سے کہا : کیا میں آپ کو ایک بشارت دوں ؟ انہوں نے کہا : جی دیں ، ابو طالب نے کہا :
آپ سے ایک بیٹا پیدا ہوگا جو اس بچے کا وصی اور جانسین ہوگا (6)
پیغمبر ص کے مختلف نام
كلبي، کہ جو بزرگ عرب نسب شناس ہے وہ کہتا ہے : امام صادق(ع) نے مجھ سے پوچھا : قرآن میں پیغمبر خاتم(ص) کے کتنے ناموں کا ذکر ہوا ہے ؟
میں نے کہا : دو یا تین نام .
امام صادق(ع) نے فرمایا : آپ کے دس نام قرآن مجید میں ذکر ہوئے ہیں : محمد، احمد، عبدالله، طه، يس، نون، مزمل، مدثر، رسول و ذكر.
پھر آپ نے ان ناموں میں سے ہر ایک کے بارے میں وضاحت فرمائی :
«ذكر» حضرت محمد(ص) کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور ہم (اهل بيت) «اهل ذكر» ہیں. اے كلبي! جو کچھ میں سے پوچھنا ہے پوچھ لو ْ
كلبي کہتا ہے : ( اللہ کی قسم صادق آل محمد(ع » کی عظمت اور جلالت کی وجہ سے قرآن کا ایک لفظ بھی مجھے یاد نہیں آرہا تھا ،یہاں تک کہ میں آپ سے کوئی سوال کروں (7)
بعض نے قرآن میں آپ کے چار سو نام گنے ہیں (8)
حضرت محمد(ص) کے نام کی عظمت
حضرت محمد(ص) کی عظمت اور جلالت کا امام صادق(ع) پر اتنا اثر ہوتا کہ جب بھی حضرت محمد(ص) کے مبارک نام کا تذکرہ ہوتا تو آپ کے چہرے کا رنگ اس حد تک تغییر ہوتا کہ آپ کو اس حالت میں آپ کے دوستوں کی پہچان مشکل ہوجاتی۔ (9)
امام صادق(ع) آپ کے نام سننے کے بعد فرماتے : میری جان آپ پر فدا ہو . ابو ھارون کہتا ہے : ایک دن امام صادق(ع) کے پاس بیٹھا ہوا تھا، امام نے مجھ سے کہا : ابوھارون! کئی دنوں سے تجھے نہیں دیکھا تھا ؟ میں نے عرض کیا : اللہ نے مجھے ایک بیٹا عطا فرمایا ہے ، امام نے فرمایا : تیرے لئے مبارک ہو ،اس کا کیا نام رکھا ہے ؟ میں نے کہا : محمد نام رکھا ہوں ۔
امام صادق(ع) نے جب محمد نام سنا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احترام میں آپ نے اپنے سرمبارک کو زمین کی طرف جکایا ، نذدیک تھا کہ آپ کا سرمبارک زمین پر لگ جائے اور آپ زبان پر محمد، محمد، محمد. کا ورد کرتے ہوئے یہ فرما رہے تھے : میر جان ،میرے فرزندوں کی جان اور میرے والد اور تمام اہل زمین کی جانیں رسول خدا(ص) پر قربان۔
پھر آپ نے فرمایا : اس بچے کو گالی مت دو ،انہیں مت مارو اور اس کے ساتھ برا سلوک مت کرو ۔ زمین پر کوئی گھر ایسا جہاں گھر میں محمد نام کا ایک بندہ ہو تو اللہ اس گھر کو پورا دن بابرکت بنائے گا ۔
سيماي محمد(ص) (10)
امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا : امام حسن(ع) نے اپنے مامو ، «هند بن ابي هاله » (11) کہ جو چہرہ شناسی میں مہارت رکھتا تھا ، سے پيامبر(ص) کے چہرے کے خد و خال کو بیان کرنے کے لئے کہا تو ھند بن ابی ھالہ نے کہا :
«رسول خدا(ص) کو دیکھنے والے آپ کی عظمت کا نظارہ کرتے تھے ،لوگوں کے سینوں میں آُپ کی محبت موجود تھی ، خوش قامت تھے آپ کے بھال گنگریالے ، آپ رنگ سفید اور روشن ،آپ کی پیشانی گشادہ اور پلکیں لمبی تھیں، ناک کے درمیانی حصہ تھوڑی ابری ہوئی تھی ، آپ کی ریش گھنی تھی ، آنکھیں مکمل سیاہ ، آپ کی تھوڑی نرم و نازک ،دانتیں نازک اور آپ معتدل اعضا کے مالک تھے ، راستہ چلتے وقت وقار سے چلتے، جب کسی چیز پر توجہ کرتے تو گہراہی میں جاکر دیکھتے ، لوگوں کو خیرہ ہو کر نہیں دیکھتے تھے ،جو بھی سامنے آتا سلام کرتے، ہمیشہ لوگوں کی ہدایت اور لوگوں کی راہنمائی کرتے ۔دنیوی امور کے ہاتھ سے جاننے پر پریشان اور غصہ نہیں کرتے، اللہ کی خاطر اتنا غصہ کرتے کہ لوگ آپ کو پہچان نہیں پاتے ،زیادہ تر آپ کی ہنسنی تبسم کرنا ہی تھا ،آپ کے نزدیک سب سے بلند مرتبہ انسان وہی ہوتا کہ جو لوگوں کے ساتھ مساوات کے ساتھ پیش آٗئے ،لوگوں کے ساتھ احسان کرئے اور لوگوں کی مدد کرئے ..» (12)
تورات اور انجيل میں آپ کے اوصاف
اللہ تعالی نے آپ کی توصیف میں فرمایا :
«الذين ءاتينهم الكتب يعرفونه كما يعرفون ابناءهم و ان فريقا منهم ليكتمون الحق و هم يعلمون » (14)
جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وه تو اسے ایسا پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنے بچوں کو پہچانے، ان کی ایک جماعت حق کو پہچان کر پھر چھپاتی ہے،
امام صادق(ع) فرماتے ہیں :«يعرفونه كما يعرفون ابناءهم » کیونکہ اللہ نے تورات ، انجيل اور زبور میں حضرت محمد(ص)،کی بعثت ،بعثت کی جگہ ،آپ کی ہجرت اور آپ کے اصحاب کے سب کو واضح طور پر بیان فرمایا تھا اور آپ کے اصحاب کی یوں صفات بیان کی تھی :«محمد رسول الله و الذين معه اشداء علي الكفار رحماء بينهم...»
محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں رحمدل ہیں، انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اﺛر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے۔ (15)
امام صادق(ع) فرماتے ہیں : آپ اور آپ کے اصحاب کی یہ صفات تورات اور انجیل میں موجود ہیں اور جس وقت آپ مبعوث ہوئے اس وقت اهل كتاب (يهود و نصاري) نے آپ کو پہچان لیا لیکن آپ پر ایمان نہیں لایا جیساکہ اللہ نے فرمایا : «فلما جاءهم ما عرجوا كفروا به » (16) جس وقت پیغمبر ان کے پاس آئے کہ آپ کو پہلے سے یہ لوگ پہچانتے تھے، تو ان لوگوں نے آپ کا انکار کیا . (17)
خداوند متعال نے قرآن كريم میں آپ (ص) کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا : «و ماارسلناك الا رحمه للعالمين » (18) ہم نے آپ کو صرف عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ، قرآن کا بھی ارشاد ہے :اشداء علي الكفار رحماءبينهم...»،
کفار کے مقابلے میں سخت لیکن آپس میں مہربان اور رحم دل ۔ اب یہ دو صفت کیسے قابل جمع ہیں ؟
اس آیت پر تسامح اور تساھل کے نظرئے کی طرفداری کرنے والوں کو توجہ کرنے چاہئے.
کیا یہ ممکن ہے کہ کامل ترین انسان کامل ترین آسمانی کتاب کے ساتھ تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہو اور دین کے دشمنوں کے مقابلے میں مہربانی کے سوا کوئی اور رد و عمل نہ دکھائے ؟
معاشرے کو کنٹرول میں رکھنے اور معاشرے کی بقا کے لئے دین کے دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹ جانا اور ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے تاکہ اس طرح ھدایت کی راہ میں موجود موانع کو ہٹایا جائے اور یہ عین رحمت ہے ۔
سب سے برتر اور افضل مخلوق
حسين بن عبدالله کہتا ہے : امام صادق(ع) سے عرض کیا : کیا رسول خدا(ص) بنی آدم کے سردار ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم آپ تمام مخلوقات کے سردار تھے، اللہ نے محمد(ص) سے افضل مخلوق خلق نہیں فرمایا ہے (19)
امام صادق(ع) نے ایک اور حدیث میں فرمایا : جب رسول خدا(ص) کو معراج پر لے گئےتو جناب جبرئيل ایک حد تک آپ کے ساتھ چلے پھر رگ گئے ، پيامبر(ص) نے فرمایا : جبرئيل، کیا اس حالت میں مجھے تنہا چھوڑو گے ؟! جبرئيل نے جواب میں فرمایا : آپ جائیں . اللہ کی قسم آُپ نے ایسے مقام پر قدم رکھے ہیں کہ آپ سے پہلے کسی بشر نے اس مقام پر قدم نہیں رکھا ہے (20)
معمر بن راشد کہتا ہے : امام صادق(ع) سے سنا ہوں کہ آپ نے فرمایا : ایک یہودی رسول خدا(ص) کے پاس آیا اور دقت سے آپ کو دیکھنے لگا .
پيامبر اكرم(ص) نے فرمایا : اے يهودي! کیا کام ہے؟ يهودي نے کہا :
کیا آپ برتر اور افضل ہیں یا موسي بن عمران ؟ وہ پیغمبر کہ اللہ نے جس سے گفتگو کی اور تورات اور انجیل کو اس پر نازل کیا ،انہوں نے اپنی عصا کے ذریعے دریا کے دو حصے کیے اور بادل ان کے لئے سایہ بان بنا ؟
پيامبر(ص) نے فرمایا : اچھی بات نہیں ہے کہ کوئی اپنی تعریف کرئے ، لیکن تیرے جواب میں کہتا ہوں کہ حضرت آدم(ع) نے جب اپنی خطا پر توبہ کرنا چاہا تو کہا : «اللهم اني اسالك بحق محمد و آل محمد لما غفرت لي »،خدايا! محمد و آل محمد کا واسطہ مجھے معاف کر دینا .
اللہ نے بھی انہیں معاف فرمایا ۔
حضرت نوح(ع) کو جب دریا میں غرق ہونے کا خوف لاحق ہو تو آپ نے فرمایا «اللهم اني اسالك بحق محمد و آل محمد لماانجيتني من الغرق » اے اللہ ! محمد و آل محمد کا واسطہ، مجھے دریا میں غرق ہونے سے نجات دئے ۔ اللہ نے بھی انہیں نجات دی۔
حضرت ابراهيم(ع) نے آپ کے درمیان اللہ سے کہا :«اللهم اني اسالك بحق محمد وآل محمد لما انجيتني منها» اے اللہ ! محمد و آل محمد کا وسطہ مجھے آگ سے نجات دئے .اللہ نے بھی آگ کو ان کے گلزار بنائی ۔
حضرت موسي(ع) نے عصا کو زمین پر پھینکی اور خوف زدہ ہوا تو فرمایا: «اللهم اني اسالك بحق محمد و آل محمد لما امنتني » اے اللہ ! محمد و آل محمد کا وسطہ مجھے آمن اور سلامتی کے ساتھ رکھے ،اللہ نے بھی ان سے خطاب میں کہا :«لاتخف انك انت الاعلي » (21) خوف نہ کرو بلاشبہ تم ہی غالب ہو۔
اے يهودي، اگر موسي(ع) زندہ ہوتے اور مجھے پاتے اور مجھ پر اور میری نبوت پر ایمان نہ لاتے تو ان کی اپنی نبوت انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتی۔
اے يهودي! میری ذریت سے ایک ظہور کرئے گا اس کا نام مهدي(ع) ہوگا جب یہ ظہور کرئے تو جناب عیسی(ع) ان کی مدد کرئیں گے اور ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے (22)
سياستمداري پيامبر(ص)
آج کے دور میں سیاست سے مراد لوگوں پر قدرت اور تسلط حاصل کرنے کے لئے چلاکی اور جھوٹ سے کام لینے کا نام ہے ۔
لیکن لغت میں «سياست » سے مراد «مملکت کے امور کو چلانا اور حکومت کرنا ہے ». اللہ تعالی نے پيامبر خاتم(ص) اور ان کے جانشین ائمه معصومين کو بہترین سیاست دان قرار دیا ہے ۔ جیساکہ زيارت جامعه، میں ائمه عليهم السلام کہ جو مکتب نبوت کے پرورش یافتہ تھے انہیں «وساسه العباد» قرار دیا ہے ۔
امام صادق(ع) سے نقل ہوا ہے : اللہ تعالی نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہترین انداز میں تربيت فرمائی اور جب ان کی تربیت مکمل ہوئی تو اس وقت فرمایا :
«انك لعلي خلق عظيم » آپ اخلاق کے بلند درجے پر فائز ہیں ،پھر دین اور امت کے مسائل کو ان کے حوالے کیا تاکہ سیاست اور اپنے بندوں کے امور کو چلائے ۔
اللہ نے آپ کے بارے فرمایا : «ما اتاكم الرسول فخذوه و ما نهاكم عنه فانتهوا» (23) جو اللہ کا رسول دئے اس کو لے لو اور جس چیز سے اللہ کا رسول منع کرئے اس سے رک جاو۔
رسول اللہ (ص) پائیدار ، کامیاب اور روح القدس کی طرف سے تائید شدہ تھے اور سياست اور تدبیر اور لوگوں کی زندگی کے امور چلانے کے اعتبار سے کسی قسم کی غلطی اور خطا کے مرتکب نہیں ہوئے. (24)
زھد اور پرہیز کاری
حضرت محمد(ص) دنیا اور دنیا کی جلدی ختم ہونے والی لذتوں کی طرف راغب نہیں تھے ، ان پر توجہ نہیں دیتے تھے ، لیکن آپ نے لوگوں کی ہدایت اور دنیا اور آخرت میں لوگوں کو کامیابی اور سعادت سے ہمکنار کرنے کے لئے سیاست میں قدم رکھا ۔
امام صادق(ع) فرماتے ہیں : ایک دن رسول اللہ (ص) محزون حالت میں گھر سے باہر نکلے ، ایک فرشتہ نازل ہوا کہ جو خزانوں کی چابیوں کے ساتھ تھا ،فرشتے نے کہا : یا محمد (ص)، یہ زمین کے خزانوں کی چابیاں ہیں، آپ کے پرودگار نے فرمایا ہے : ان چابیوں کو اٹھا لیں اور زمین کے خزانوں سے جتنا چاہئے لے لیں اور ان خزانوں سے کچھ بھی کم نہیں ہوگا ۔
پيامبر(ص) نے فرمایا : دنیا اس کا گھر ہے جس کا (واقعي) کوئی گھر نہ ہو ۔جو عقل نہیں رکھتے وہی دنیا کے ارد گرد جمع ہوجاتے ہیں ۔
فرشتے نے کہا : اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو مبعوث کیا ! جب چوتھے آسمان سے یہ چابیاں اٹھا رہا تھا تو یہی باتیں ایک فرشتے سے بھی سنی تھی (25)
ابن سنان کہتا ہے : امام صادق(ع) نے فرمایا : ایک شخص رسول اللہ (ص) کے پاس آیا اور اس وقت آپ ایک کھردری چٹائی پر تشریف فرماتے، کھردری کے نشان آپ کے جسم پر بھی ظاہر تھا اور خرما کے پتوں سے بنا ایک تکیہ پر تکیہ لگائے ہوئے تھے
اس شخص نے چٹائی اور خرما کے پتے سے تیار شدہ تکیہ کے نشان کو چھو کر کہا:کیسری اور قیصر ایران اور روم کے بادشاہ کبھی بھی اس طرح بیٹھنے ہر راضی نہیں ہوں گے وہ ہمیشہ ریشمی رنگ برنگ فرش پر بیٹھے ہیں اور آپ اس چٹائی پر جبکہ آپ تمام مخلوقات کے سردار ہیں ؟
پیغمبر (ص) نے فرمایا : اللہ کی قسم میں لوگوں سے برتر اور سب سے زیادہ عزت والا ہوں لیکن میں کہاں اور دنیا کہاں ؟ دنیا کا ذود گزر جانا ایسا ہے جیسا ایک شخص کسی درخت کے سائے میں بیٹھا ہوا ہو، مختصر مدت کے لئے وہ درخت کے سائے سے فائدہ اٹھاتا ہے جب سائہ ختم ہو جائے تو درخت کو چھوڑ دیتا ہے ۔ (26)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے پہلوں میں سے کوئی ایسا پہلو نہیں کہ جس کے بارے میں امام صادق علیہ السلام نے روشنی نہ ڈالی ہو۔
ہم اس تحریر کے آخری حصے میں امام صادق علیہ السلام کے ایک خطبے کو بیان کریں گے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں ارشاد فرمایا .
امام صادق(ع) کا حضرت محمد(ص) کے وصف میں ایک خطبہ
اللہ کے وقار ، بردباری اور مہربانی کی وجہ سے اللہ نے اپنے سب سے محبوب ھستی یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے اور لوگوں کے گناہ اور برئے کام ان کو بھیجے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکے۔
محمد بن عبدالله(ص)عزت کے حرم میں پیدا ہوئے اور شرافت والے گھرانے میں رہیں ،آپ کا حسب و نسب آلودگی سے پاک ہے ،ان کی بشارت انبیاء علیہم السلام کو ان کی کتابوں میں دی گئی ، آپ کی صفات کو اھل علم حضرات نے بیان کیا ہے، حکماء نے ان کے وصف میں غور و فکر کیا ، آپ پاکدامن ،بے نظیر ھاشمی نسب ،یکتا اور اہل مکہ تھے ۔
حیا آپ کی صفت اور عادت تھی ، سخاوت آپ کی طبیعت ،وقار ،متانت اور نبوت کے شایان شان اخلاق سے آپ آراستہ تھے ۔
اوصاف رسالت اور ان کی دانشوری پر ان کے نام کی مہر ہے یہاں تک کہ اللہ کی طرف سے معین قضا و قدر سے ان کی زندگی کا اختتام ہوا۔
ہر امت پچھلی امت نے اپنے سے بعد آنے والی امت کو ان کے آنے کی بشارت دی تھی ۔
نسل در نسل حضرت آدم سے لے کر آپ کے والد گرامی جناب عبد اللہ تک ، ایک باپ نے انہیں دوسرے باپ تک منتقل کیا ،آپ کا نسب آلودگی سے پاک و منزرہ رہا، اس سلسلہ نسب میں آپ کی ولادت غیر شرعی شادی سے نہیں ہوئی ، آپ کی ولادت بہترین گھرانے (بني هاشم)، شريف ترين قبيله (فاطمه مخزوميه) اور محفوظ ترین شکم (جناب آمنه دختر وهب) میں ہوئی ۔
اللہ نے انہیں چنا ، ان کو پسند کیا اور انہیں منتخب کیا، پھر علم و دانش کی چابیاں اور حکمت کے سرچشمے انہیں عطا فرمائے ، انہیں مبعوث کیا تاکہ اپنے بندوں کے لئے رحمت اور دنیا والوں کے لئے بہار ہو ۔
اللہ نے ایسی کتاب ان پر نازل کی کہ جس میں ہر چیز کا بیان اور وضاحت موجود ہے ۔ اس کو عربی زبان میں نازل کیا اس میں کسی قسم کی غلط بیانی نہیں ، اس امید سےکہ لوگ پرہیزگاری اختیار کرئے ،آپ نے اس کو لوگوں کے لئے بیان فرمایا اور اس کے علوم اور معارف کو روشن کیا ، اسی کے ذریعے دین کو آشکار کیا، واجبات کو بیان فرمایا ،اور حدود اور قوانین کو لوگوں کے لئے بیان کیا اور لوگوں کو آگاہ فرمایا۔
آپ ان امور میں نجات کی طرف راہ نما اور اللہ کی طرف ہدایت کی نشانی ہیں ۔
رسول اللہ (ص) نے اپنی رسالت کی تبلیغ فرمائی اور اپنی ذمہ داریوں کو واضح طور پر بیان فرمایا اور نبوت کے بھاری بوج کو کندھے پر لیا اور اس کو منزل مقصود تک پہنچایا ، اللہ کی راہ میں صبر کیا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا ۔
پي نوشت ها:
1- حجر، آيه 9. «انا نحن نزلنا الذكر و انا له لحافظون »
2- قلم، آيه 4.
3- فتح، آيه 29.
4- مصباح الشريعه، ترجمه زين العابدين كاظمي، ص 126.«خلقني الله من صفوه نوره...»
5- جلاء العيون. ص 11.
6- همان، ص 36.
7- بحار الانوار، ج 16، ص 101.
8- مناقب، ج 1، ص 150.
9- سفينه البحار، ج 1، ص 433.
10- بحار الانوار، ج 17، ص 30،
11- هند بن ابي هاله، جناب خديجه(س) کے پہلے شوہر سے تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں پروان چڑھا.
12- بحار الانوار، ج 16، ص 147148.
13- كليات سعدي، فصل طيبات، ص 533 532.
14- بقره، آيه 146.
15- فتح، آيه 29.
16- بقره، آيه 89.
17- تفسير نور الثقلين، ج 1، ص 138 و ج 5، ص 77.
18- انبياء، آيه 107.
19- اصول كافي، ترجمه سيد جواد مصطفوي، ج 2، ص 325.
20- همان، ص 321.
21- طه، آيه 68.
22- بحار الانوار، ج 16، ص 366. به نقل از جامع الاخبار،ص 98.
23- حشر، آيه 7.
24-اصول كافي،ج 2 ص 5 و 6.
25-بحارالانوار،ج 16 ص 266.
26-بحارالانوار،ج 16 ص 282 و 283.
27-اصول كافي ج 2 332 و 333.