امام حسن (ع) نے کیوں صلح کی ؟ |
مطالب کی فہرست پہلا حصہ: صلح کرنے کے اسباب و دلائل: دوسرا حصہ: آثار صلح: معاویہ کے ساتھ امام حسن (ع) کی صلح کے دلائل: لشکر عراق کا فرار ہونا اور امام حسن (ع) کی طرف سے صلح نامہ قبول کرنا: صلح کے مخالفین: اپنی اور شیعیان آل محمد کا جانی تحفظ: امام حسن (ع) اور عوامی حمایت کا فقدان: قتل و غارت کا سدّ باب کرنا: میثاق صلح کا انجام:
امام حسن (ع) نے کیوں صلح کی ؟ پہلا حصہ: صلح کرنے کے اسباب و دلائل: الف: اسباب صلح معاویہ اور اسکے طرفداروں کی طرف سے: معاویہ کا اصل مقصد حکومت حاصل کرنا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ حکومت کے اصلی قابل اور حقدار امام حسن (ع) ہیں، اسی لیے وہ ظاہری طور پر ہی سہی امام حسن کو اس کام کے لیے راضی کرنا چاہتا تھا اور اسکے لیے بہترین راستہ امام سے صلح کرنا تھا۔ اس صلح کی وجہ سے معاویہ جنگ اور اسکے خطرناک نتائج سے محفوظ رہ سکتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ فرزند رسول خدا (ص) کا لوگوں کی نگاہوں کیا معنوی اور اعتقادی مقام و منزلت ہے۔ تاریخ بھی گواہ ہے کہ معاویہ کا اصل ہدف مسلمانوں اور بیت المال کو اپنے اختیار میں لینا تھا کہ جو ہدف صرف نرمی اور صلح کے ذریعے حاصل ہو سکتا تھا، کیونکہ خود معاویہ نے نخیلہ کے مقام پر اپنے خطبے میں واضح طور پر کہا تھا: میں نے تم لوگوں پر مسلط ہونے کے لیے تم سے جنگ کی اور یہ چیز خدا نے مجھے (صلح کے سبب) دے دی ہے اور حالانکہ تم میرے اس کام پر راضی نہیں تھے۔ شرح نهج البلاغه، ابن ابي الحديد، ج 4، ص 16. اس اصلی ہدف کے ساتھ ساتھ معاویہ کا خیال تھا کہ امام حسن (ع) کا حکومت سے کناہ گیری کرنا، یہ عام لوگوں کی نظروں میں امام کا خلافت سے کنارہ گیری کرنا شمار ہو گا کہ جو اسکے فائدے میں ہو گا اور اسطرح سے وہ قانونی طور پر خلیفہ جانا اور مانا جائے گا۔ اس بات کی دلیل وہ بیعت ہے کہ جو معاویہ لوگوں سے اپنے لیے بعنوان خلیفہ لیتا تھا، یعنی وہ لوگوں سے کہتا تھا کہ میری مسلمانوں کے خلیفہ ہونے کے لیے بیعت کرو۔ اس صلح کا ایک دوسرا نتیجہ یہ تھا کہ اگر امام حسن (ع) اس صلح کی پیشکش کو ٹھکرا دیتے اور معاویہ سے جنگ کرنے پر ہی اصرار کرتے تو امام کی شہادت کی صورت میں امام کی حمایت میں اور معاویہ کے خلاف ہونے والے قیام اور تحریکوں کا کوئی اثر اور نتیجہ حاصل نہ ہوتا۔ واضح ہے کہ امام حسن (ع) کی طرف سے حکمت عملی کے طور پر صلح (ترک جنگ) کو قبول کرنے کے بعد، امام حسن (ع) کے قتل کا ذمہ دار معاویہ ہو گا، اس لیے کہ خود امام حسن نے معاویہ کے خلافت تک ہر صورت میں پہنچنے کے لیے اسکے خطرناک ارادوں کو جان لیا تھا اور حتی معاویہ کے سامنے اسکو وقتی طور پر حکومت دینے اور حکومت و خلافت کے درمیان فرق کے موضوع کو بیان کیا کرتے تھا۔ بحار الانوار، علامه مجلسي، ص 44، ج 10، ص 138 امالي، شيخ طوسي، دار الثقافة، قم، ص 561 ب. اسباب صلح امام حسن (ع) اور انکے طرفداروں کی طرف سے: دقیق معرفت کے ساتھ دو مخالف گرہوں (صالحان و گمراہان) کو جاننے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی دنیا سے محبت اور دین سے دوری، سبب بنی کہ امام حسن (ع) نے مجبور ہو کر صلح کی پیشکش کو قبول کر لیا، لہذا خود امام نے بھی ان دو عامل کو صلح کا اصلی سبب قرار دیا ہے اور ان لوگوں « عبيد الدنيا » (دنیا کے بندے و غلام) کے نام سے یاد کیا ہے۔ بحار الانوار، ج 44، ص 21 اسی نظرئیے کی دلیل، کو لوگوں کا معاویہ سے جنگ کرنے کے لیے امام حسن (ع) کے لشکر میں حاضر نہ ہونے کو بھی، قرار دیا جا سکتا ہے۔ خود امام حسن (ع) نے فرمایا: بہت تعجب کی بات ہے کہ لوگوں میں نہ حیا ہے اور نہ ہی دین، اف ہو تم لوگوں پر اے دنیا کے غلامو ۔۔۔ الخرائج و الجرائح، راوندي، موسسه امام مهدي، قم، 1409 ق، ج 2، ص 575 اسی طرح لشکر امام کا دنیا کی زندگی پر باقی اور راضی رہنا، جب امام حسن (ع) نے فرمایا: معاویہ ہمیں اس چیز کی دعوت دے رہا ہے کہ جسکو قبول کرنے میں عزت اور عدالت نہیں ہے، لیکن اگر تم دنیا کی زندگی چاہتے ہو تو ہم اسکی بات کو قبول کر لیتے ہیں اور اس درد ناک کانٹے کو اپنی آنکھوں میں برداشت کر لیتے ہیں اور اگر شہادت چاہتے ہو تو وہ بھی راہ خدا میں ہم حاصل کر سکتے ہیں۔ راوی کہتا ہے: سب نے یک زبان ہو کر کہا: «بل البقية و الحياة.» ہم زندہ رہنا اور زندگی چاہتے ہیں۔ بحار الانوار، ج 44، ص 21 دنیا کی محبت اور دین سے دوری کے آثار: 1- پیمان و بیعت شکنی: جب قیس ابن سعد کا لشکر اپنے تمام قبائل کے ساتھ معاویہ کے ساتھ مل گیا تو امام (ع) نے فرمایا: میرے والد گرامی کی شہادت کے بعد تم نے اپنی مرضی سے میری بیعت کی اور میں نے بھی قبول کر لیا اور اسی لیے میں ابھی اس راستے پر باہر آ گیا ہوں اور خدا جانتا ہے کہ اس بارے میں میرے کیا ارادے تھے، لیکن اب تم نے جو کرنا تھا، کر دیا ہے۔ الفتوح، ج 4، ص 290 2- خيانت با امام: لوگوں کی دنیا سے محبت کو - خاص طور پر لشکر کے سالاروں – امام حسن (ع) کے قیام اور انکی صلح کے موقع پر دیکھا جا سکتا ہے، جیسا کہ معاویہ نے ابتداء ہی میں اس لشکر کے اکثر افراد کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا، ان میں سے قبیلہ کندہ کا سالار تھا، اسکو معاویہ نے 5 لاکھ درہم کے ساتھ خرید لیا اور یہ اپنے 200 افراد کے ساتھ معاویہ سے جا ملا تو امام حسن (ع) نے فرمایا: میں نے تم کئی مرتبہ کہا ہے کہ تم میں وفا نہیں ہے اور تم دنیا کے غلام ہو۔ بحار الانوار، ج 44، ص 20 3- مقابلے کے لیے پختہ عزم کا نہ ہونا: بطور مثال جب جاریہ ابن قدامہ امام حسن (ع) کے پاس آیا اور تقاضا کیا کہ لشکر کو دشمن کی طرف حرکت میں لائیں تو امام نے فرمایا: اگر یہ سارے لشکری تیری طرح کے ہوتے تو انکو دشمن کی طرف حرکت کرنے کا حکم دے دیتا، لیکن آدھا لشکر یا اس سے کمتر لشکر کا عقیدہ و عزم تیری طرح کا نہیں ہے۔ بحار الانوار ج 34، ص 18 سيره پيشوايان، ص 110 حقايق پنهان، ص 216 و 213 لشکر امام حسن (ع) اور دنیا سے محبت کے آثار: امام حسن (ع) کا تنہا رہ جانا: امام کو کئی مرتبہ اس تلخ حقیقت کا سامنا کرنا پڑا، جیسے جنگ کی ابتداء میں جب لشکر پل منیع پر پہنچا تو حجر ابن عدی نے امام کی جانب سے لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور کوشش کی کہ انکو جنگ کے لیے تیار کرے، لیکن سب خاموش رہے، پھر حجر ابن عدی نے کھڑے ہو کر کہا: سبحان اللہ، تم لوگوں کا سکوت کرنا کتنا برا ہے، کیا تم امام اور فرزند رسول خدا کی آواز پر لبیک نہیں کہو گے۔ مقاتل الطالبيين، ص 59 امالي طوسي، ص 559 امام حسن (ع) نے جب دیکھا کہ صلح کرنے پر اعتراضات ہو رہے ہیں تو فرمایا: خدا کی قسم ! میں نے جب دیکھا کہ میرا کوئی ساتھ دینے والا نہیں ہے تو مجبور ہو کر حکومت کو معاویہ کے سپرد کر دیا ہے۔ احتجاج، طبرسي، ج 2، ص 71 بحار الانوار، ج 44، ص 147 بحار الانوار، ج 85 جنگ سے اہداف تک پہنچنے میں نا امیدی: نظام امامت کا اصلی ہدف معاشرے کی کردار سازی اور امت اسلامی کی تعمیر کرنا ہے۔ جنگ اور صلح فرعی امور ہیں کہ جو معاشرے کی تعمیر کے مخالف افراد ہوتے ہیں، ان سے اختلاف کی صورت میں وجود میں آتے ہیں۔ ورنہ تمام آئمہ ان متضاد افراد و امور سے آزاد ہو کر اسلامی معاشرے کی کردار سازی اور امت اسلامی کی ترقی میں مصروف ہو جاتے۔ امام حسن (ع) بھی انہی اہداف کے حصول کے لیے معاویہ جیسے باغی سے جنگ کے لیے مکمل تیار ہو گئے، لیکن راہ حق میں تنہا ہو جانے، اپنی اور اپنے شیعیان کی جان و مال کی حفاظت اور اپنے اہداف تک پہنچنے میں نا امیدی کے بعد، جنگ کے ارادے کو ترک کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اسی لیے صلح نامے پر دستخط کرتے وقت فرمایا: حق کو زندہ کرنے میں اور باطل کو نابود کرنے میں نا امیدی کے بعد اب میری یہ حالت (صلح) ہو گئی ہے۔ علل الشرايع، شيخ صدوق، ص 221 تاريخ طبري، ج 3، ص 165 الفتوح، ج 3 و 4، ص 292 ـ 294 اعلام الوري، ج 1، ص 403 صلح کی پیشکش کو قبول کرنا: یہ صورتحال امام حسن (ع) کے ہر طرف سے نا امید ہونے کے بعد وجود میں آئی تھی، بالخصوص امام نے جب محسوس کیا کہ اب جنگ کرنا، خود کشی کرنے کے مترادف ہے تو مجبور کر صلح کرنی پڑ گئی۔ روایات میں ہے کہ امام حسن (ع) نے بار ہا فرمایا: اگر میری مدد کرنے والے اعوان و انصار ہوتے تو ہرگز معاویہ سے صلح نہ کرتا۔ احتجاج، ج 2، ص 69 دوسرا حصہ: آثار صلح: امام حسن (ع) نے جنگ کیے بغیر جو نتائج حاصل کیے، کیا وہ معاویہ کے حاصل کردہ نتائج کے ساتھ قابل موازنہ ہیں ؟ امام حسن (ع) نے جو فوائد صلح کے ذریعے سے حاصل کیے، کیا وہ فوائد جنگ کرنے سے بھی زیادہ تھے ؟ تاریخ نے متعدد مقامات پر ثابت کیا ہے کہ جنگ کی نسبت امام نے صلح کرنے سے یقینی طور پر زیادہ فوائد حاصل کیے تھے۔ وہ چند آثار مندرجہ ذیل ہیں: 1- بقائے نظام امامت: صلح امام حسن (ع) کا اصلی ترین اثر نظام امامت کی بقاء ہے کہ اسی میں ہی اسلام کی بقاء پوشیدہ تھی۔ امام نے ابوذر غفاری کے جواب میں فرمایا: «اردت ان يكون للدين ناعي»، میں دین اسلام کی حفاظت و بقاء چاہتا تھا۔ حياة الامام الحسن بن علي، باقر شريف قرشي ، ج 2، ص 269 حقايق پنهان، ص 215 2- بقائے جان و مال شیعیان: امام حسن (ع) نے ابو سعيد عقيصا سے فرمایا: اگر میں صلح نہ کرتا تو روئے زمین پر ہمارا کوئی بھی شیعہ باقی نہ رہتا۔ بحار الانوار، ج 44، ص 1 بحار الانوار، ص 106، 57؛ و ج 85، ص 212 حلية الاوليأ، ج 2، ص 36 حياة الامام الحسن بن علي، ج 2، ص 178 3- حفظ دین و مصلحت امت پیغمبر (ص): اس دور میں شہنشاہت روم شرقی اسلام پر حملہ کرنے کے لیے تیار تھی، اس لیے مسلمانوں کی اپنی اندورنی جنگ سے انکو اسلام پر حملہ اور اسے نابود کرنے کا موقع مل سکتا تھا۔ سيره پيشوايان، ص 97 امام (ع) نے فرمایا: مجھے ڈر تھا کہ کہیں مسلمانوں کی نسل ہی ختم نہ ہو جائے، اسی لیے میں دین اسلام اور مسلمانوں کو حفظ کرنا چاہتا تھا۔ حقايق پنهان، ص 197 نقل از حياة الامام الحسن، باقر شريف قرشي، ج 2، ص 280 حياة الامام الحسن، باقر شريف قرشي، ج 2، ص 276 امام حسن (ع) نے کئی مرتبہ اسی بات کا ذکر معاویہ ملعون کے سامنے بھی کیا تھا، جیسے امام نے معاویہ سے فرمایا: میں نے اس کام میں امت اسلامی کا نفع دیکھا ہے اور میں چاہتا تھا کہ مسلمان بھی زندہ و باقی رہیں۔ بحار الانوار، ج 44، ص 54 احتجاج، ج 2، ص 67 4- امن کو اختلافات پر ترجیح دینا: امام حسن (ع) نے ساباط کے مقام سے کوچ کرتے ہوئے فرمایا: پیار، امن اور لوگوں کے درمیان صلح، یہ نا امنی، کینہ ورزی اور جو دشمنی تم چاہتے ہو، اس سے بہتر ہے۔ الفتوح، ج 3، ص 289 و 295 5- عزت حقیقی کا انتظام کرنا: صلح اگرچہ ظاہری طور پر اپنے اصلی اہداف سے پیچھے ہٹنا تھا، لیکن حقیقت میں یہی صلح شیعیان کے لیے باعث عزت اور ابدی کامیابی تھی۔ لہذا جب سلیمان ابن صرد نے امام حسن (ع) کو مذل المؤمنین کہہ کر سلام کیا تو امام نے اس سے فرمایا: خدا کی قسم میری اطاعت میں رہ کر سلامت رہو یہ میرے لیے اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ عزیز رہو اور قتل کر دیئے جاؤ۔ الامامة و السياسة، ص 163 و 166 تاريخ ابن عساكر، ترجمه الامام الحسن، ص 171 ان آثار کی روشنی میں: یہ آثار ثابت کرتے ہیں کہ: 1- جنگ سے قابل توجہ اور مورد نظر اہداف حاصل نہیں ہو سکتے تھے اور حکمت عملی کے طور کی گئی صلح، جنگ پر ترجیح رکھتی تھی۔ اسی طرح دو گروہ کہ جن میں صلح ہوئی تھی، ان میں بھی امام حسن (ع) کے گروہ نے معاویہ کی نسبت زیادہ فوائد حاصل کیے تھے کیونکہ امام کا جنگ نہ کرنے سے اصل مقصد، نظام امامت اور شیعیان کی جان و مال کی حفاظت کرنا تھا اور اگر امام ایسا نہ کرتے تو خود شیعیان اور انکا سب کچھ نابود ہو جاتا۔ اس صلح سے جو کچھ معاویہ نے حاصل کیا وہ حکومت تھی کہ البتہ یہ حکومت بھی زیادہ عرصہ باقی نہ رہی اور بعد والے امام (امام حسین ع) کے قیام سے کلی طور پر معاویہ کی غاصبانہ حکومت متزلزل ہو گئی لیکن شیعیان نے، اگرچہ تعداد میں کم ہی سہی، اپنی بقاء کو حفظ کیا اور مناسب فرصت میں اپنے حالات کو دن بہ دن بہتر کرنے کے لیے اقدامات کیے۔ 2- معاویہ ملعون کی طرف سے صلح کی شرائط پر عمل نہ کرنا اور شیعیان پر مظالم کا سلسلہ جاری رکھنا۔ (حقايق پنهان، ص 198.) یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ صلح سود مند نہیں تھی، کیونکہ آنے والے دور میں اصلی ہدف (حفظ نظام امامت) کا حاصل ہونا اور اس سے حاصل شدہ نتائج کے اثر کو دیکھا جا سکتا ہے اور یہ ہدف صلح سے ہی حاصل ہوا تھا کہ اسی نظام نے اقلیت میں موجود شیعیان کی جان و مال کی حفاظت کی تھی۔ 3- صلح کو شکست اور ذلت کے مساوی شمار کرنا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ امامت اور شیعیان کے محفوظ ہونے سے، ان کا مکمل طور پر نابود ہونے کا خطرہ ٹل گیا تھا اور صلح کی اس بڑھ کر اور کیا کامیابی ہو سکتی تھی۔ 4- صلح کی حکمت عملی ان خطرات کے سامنے کہ جو تشیع، اسلام اور امامت کی اصل بنیاد کو لاحق ہو سکتے تھے، یہ صلح اس بات کی علامت ہے کہ یہ صلح، جہالت اور جلد بازی میں نہیں کی گئی تھی۔ امام حسن (ع) نے بھی اس صلح کی مصلحت کے پنہان ہونے اور اس صلح کو حضرت خضر (ع) کے کشتی کو سوراخ کرنے سے تشبیہ دی ہے اور فرمایا: جب میں خداوند کی طرف سے مسلمانوں کا امام ہوں تو مجھ پر جنگ اور صلح کی حالت میں جاہل ہونے کی تہمت نہ لگاؤ، اگرچہ تم کو اس صلح کی حکمت و علت کا علم نہ بھی ہو۔ 5- آئمہ (ع) کو ایک ثابت اور واضح طریقہ کار کے نہ ہونے پر متہم کرنا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اصلی ہدف امت محمدی کی حفاظت اور نظام امامت کے زیر سایہ اسلامی معاشرے کی تعمیر کرنا ہے۔ صلح یا جنگ ہدف نہیں ہیں کہ آئمہ پر اہداف کے مختلف ہونے کا اعتراض کیا جائے، بلکہ یہ صلح اور جنگ ہر دور اور ہر حالات کے مطابق، اس اصلی ہدف تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ اسی وجہ سے استاد مطہری نے لکھا ہے: اگر واقعا امام حسن (ع)، امام حسین (ع) کی جگہ پر ہوتے تو امام حسین والا کام انجام دیتے اور اگر امام حسین، امام حسن کی جگہ پر ہوتے تو امام حسن والا کام انجام دیتے۔ سيري در سيره ائمه اطهار، 60 6- امام حسن (ع) کا صلح کرنا، یہ کسی ڈر و خوف وغیرہ کی وجہ سے نہیں تھا، جیسے امام نے عبد اللہ ابن زبیر ناصبی سے فرمایا: کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں نے ڈر یا عاجز ہونے کیوجہ سے معاویہ سے صلح کی ہے ؟ ۔۔۔۔۔ افسوس ہے تم پر ! میں ہرگز کسی سے نہیں ڈرتا اور کبھی کسی کے سامنے عاجز نہیں ہوتا۔ میں نے صلح تم جیسے افراد کی وجہ سے کی ہے کہ جو ظاہری طور پر مجھ سے دوستی کا دعوی کرتے تھے اور دل میں میرے مرنے کی دعائیں کرتے تھے۔ حياة الامام الحسن بن علي، ج 2، ص 280 سيره پيشوايان، ص 93 ـ 94 صُلح امام حسن (ع)، اس قرار داد کو کہا جاتا ہے جو شیعوں کے دوسرے امام، امام حسن ابن علی (ع) اور معاویۃ ابن ہندہ کے درمیان سن 41 ہجری کو منعقد ہوئی۔ یہ صلح نامہ ایک ایسی جنگ کے بعد منعقد ہوا جو معاویہ کی زیادہ خواہی اور اس کی طرف سے امام حسن کی بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت سے انکار کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی۔ اس صلح کے مختلف عوامل و اسباب ہیں جن میں سے امام حسن (ع) کے لشکر کے بعض سالاروں کی خیانت، حفظ مصلحت مسلمین، شیعوں کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اور خوارج کی طرف سے اسلام کو نقصان پہچانے کا خطرہ، وہ اہم ترین عوامل میں سے ہیں کہ جنکی وجہ سے امام حسن اس صلح نامے پر راضی ہونے پر مجبور ہوئے۔ اس صلح نامے کے مطابق امام حسن نے کئی شرائط کے ساتھ خلافت کو معاویہ کے سپرد کر دیا۔ ان شرائط میں سے اہم ترین شرط یہ تھی کہ معاویہ اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے گا اور امام اور آپ کے پیروکاروں کی جان مال عزت و آبرو محفوظ رہے گی لیکن معاویہ نے ان میں سے کسی ایک شرط پر بھی عمل نہیں کیا۔ صلح کا پیش خیمہ: امام حسن (ع) کی امامت: امام علی (ع) کی شہادت اور تدفین کے بعد عراق ، مکہ اور مدینہ سمیت اس وقت کے تمام اسلامی ممالک میں موجود مسلمانوں بالاخص پیغمبر اکرم کے بڑے بڑے اصحاب نے آپ کے فرزند امام حسن کے ہاتھ پر بعنوان خلیفۃ المسلمین بیعت کی۔ جبکہ معاویہ جو شام اور مصر پر حکومت کر رہا تھا، نے امام علی کی طرح امام حسن کی بیعت سے بھی انکار کر دیا۔ جب امام حسن کی خلافت کی خبر شام میں پہنچی تو معاویہ نے اپنا جاسوس عراق روانہ کیا اور امام اور آپ کے سپاہیوں کی تمام حرکات کی رپورٹ ہر لحظہ اسے پہنچتی تھی۔ دوسری طرف سے امام حسن نے معاویہ کو اپنی بیعت کرنے کی دعوت دی اور مختلف خطوط کے ذریعے اسے بیعت سے انکار پر جنگ کی دھمکی دی، جس کے مقابلے میں معاویہ بھی اپنے آپ کو خلافت کا سزاوار سمجھتا تھا۔ [1] امام حسن (ع) کا صلح کی طرف مائل ہونا: بعض مؤرخین اس بات کو ثابت کرنے کی بار بار کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ امام حسن شروع سے ہی معاویہ کے ساتھ صلح کرنے کے در پے تھے، یوں وہ امام حسن کو ایک صلح جو انسان ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نظرئیے کے مطابق جیسے ابن شہاب زہری جو بنی امیہ کی طرف تمائل رکھتا تھا، نے تاریخ طبری میں نقل کیا ہے: اس وقت کے عراق میں موجود مسلمان معاویہ کے ساتھ جنگ کرنا چاہتے تھے، اس لیے ابتداء میں امام حسن اپنے سپاہیوں کی مرضی پر عمل کرنے پر مجبور ہوئے در حالیکہ خود امام جنگ کی طرف کبھی تمائل نہیں رکھتے تھے۔[2] اس سلسلے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ امام حسن اپنی بیعت کے ابتدائی دنوں سے ہی اپنے لشکر کے ان سپاہیوں کے مخالف تھے کہ جو معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کے خواہاں تھے۔ طبری کے مطابق پہلا شخص جس نے امام حسن کی بیعت کی وہ قیس ابن سعد ابن عبادہ تھا، اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ قرآن و سنت پر عمل کرنے اور منحرفین کے ساتھ جنگ کرنے کی شرط پر آپ کی بیعت کرتا ہوں۔ امام حسن (ع) نے اس سے کہا: قرآن و سنت کی بنیاد پر بیعت کرو تمام چیزیں انہی دو چیزوں میں مضمر ہیں یعنی امام نے غیر مستقیم طور پر قیس کی دوسری شرط کو رد کر دیا۔ قیس نے بیعت کی اور کچھ نہیں کہا۔[3] ان دو نظریوں کے حامی اپنی بات کی تائید میں کہتے ہیں: امام نے اپنی اسی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر اپنے لشکر کی کمانڈ عبید اللہ ابن عباس کے سپرد کی، نہ کہ قیس ابن سعد ابن عبادہ کے جو سختی سے معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے پر اصرار کر رہا تھا۔[4] ان کے مقابلے میں ایک تیسرا نظریہ بھی ہے جو عموما تمام شیعیان حیدر کرار کا مورد تائید بھی ہے، اس نظرئیے کے مطابق امام حسن نے اپنی بیعت کے ابتدائی دنوں سے ہی معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن بعد میں اپنے سپاہیوں کے جنگ سے بیزار ہونے اور معاویہ کی طرف سے امام کے لشکریوں کو دینے والے طمع اور لالچ کی وجہ سے آپ معاویہ کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق امام حسن (ع) نے عراق کے لوگوں کو معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کی طرف دعوت دی جو عراق کی جانب پیشروی کرنے میں مصروف تھے لیکن کسی نے آپ کی صدا پر لبیک نہیں کہا اور آخر کار اپنے بعض باوفا اصحاب منجملہ عدی ابن حاتم، قبیلہ طی کے بزرگان اور قیس ابن سعد ابن عبادہ کی کوششوں سے 12 ہزار سپاہیوں پر مشتمل لشکر جنگ کیلئے تیار ہو گیا۔[5] مقام مسکن کی طرف لشکر کشی: تاریخی منابع میں امام حسن (ع) کی سپاہیوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ ایک قول کی بناء پر امام کے سپاہیوں کی تعداد 12 ہزار اور انکی کمانڈ عبید اللہ ابن عباس کر رہے تھے اور قیس ابن سعد ابن عبادہ اور سعید ابن قیس اس کے مشاورین میں سے تھے۔ ایک اور قول کی بناء پر امام کے سپاہیوں کی تعداد 40 ہزار تھی اور اس کا ہراول دستہ قیس ابن سعد ابن عبادہ کی سرکردگی میں مقام مسکن کی طرف روانہ ہوا۔ [6] کوفہ سے امام کا لشکر مسکن کی طرف روانہ ہوا جبکہ امام حسن (ع) خود مدائن تشریف لے گئے اور وہاں سے اپنے لشکریوں کی طرف روانہ ہونا تھا۔ امام کا اس دوران مدائن سفر کرنے کی وجہ خاص مشخص نہیں ہے لیکن ظاہرا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فوج جمع کرنے کی خاطر آپ نے مدائن کا سفر کیا تھا۔ [7] جبکہ ایک اور قول کی بناء پر معاویہ نے اپنی فوج کا ایک دستہ مدائن بھیجا تھا اور امام نے ان سے مقابلہ کرنے کیلئے مدائن کا سفر کیا تھا۔[8] مدائن میں امام حسن (ع) پر حملہ: مدائن میں امام حسن (ع) پر حملہ ہوا اور اس حملے میں آپ کا خیمہ جلایا گیا اور آپ بھی زخمی ہوئے۔ یہ حملہ کیوں اور کیسے ہوا، اس بارے میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں۔ ایک قول کی بناء پر امام حسن نے مدائن میں لوگوں سے خطاب کیا، جس میں آپ نے غیر مستقیم طور پر معاویہ کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی ذاتی رائے کی طرف اشارہ کیا تھا۔ [9] امام حسن (ع) کی اس بات سے لوگ ناراض ہوئے اور آپ کی تقریر کے بعد کچھ لوگوں نے خوارج کی طرز پر امام کو کافر کہنا شروع کر دیا، اسی دوران مجمع میں سے کسی نے امام پر حملہ کیا اور اپنے خنجر سے امام کو زخمی کر دیا۔ یہاں یہ بات ذکر نہیں کی گئی کہ امام کا اس بات کی طرف اشارہ کرنے کی وجہ اور علت کیا تھی؟ [10] یہاں پر بعض محققین یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ اگر امام جنگ کرنا نہیں چاہتے تھے تو کوفہ سے اپنے سپاہیوں کو کیوں مسکن کی طرف روانہ کیا ؟ اس قول کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور صلح امام حسن (ع) کی بنیادی وجہ کو ایک طرف سے امام کے سپاہیوں کی سستی اور کاہلی اور دوسری طرف سے معاویہ کے لشکریوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے غلط پروپیگنڈے بیان کرتے ہیں کہ جسکی بناء پر امام صلح کو قبول کرنے پر مجبور ہوئے۔ [11] بعض دیگر اقوال مدائن میں امام پر ہونے والے حملے کو بعض عوامل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ در اصل صلح نامے کی بات امام کی طرف سے نہیں بلکہ یہ بات معاویہ کی سازش کا حصہ تھا کہ جو اس نے مدائن میں بروئے کار لایا تھا۔ معاویہ کے کارندوں نے مدائن میں یہ پروپیگنڈا مہم چلائی کہ امام حسن (ع) نے صلح کی پیشکش کی ہے۔ قضیہ یوں پیش آتا ہے کہ معاویہ نے امام سے مذاکرات کے بہانے مغیرہ ابن شعبہ اور عبد اللہ ابن عامر کو مدائن بھیجا۔ جب یہ دونوں امام کے خیمے سے باہر آئے تو یہ افوہ پھیلاتے ہیں کہ امام نے معاویہ کے ساتھ صلح کرنے کو قبول کر لیا ہے۔ جب لوگوں میں یہ خبر پھیل گئی تو لوگ ناراض ہو جاتے ہیں اس دوران ایک گروہ امام پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔[12] ایک اور قول اس بارے میں یہ ہے کہ مدائن میں امام کے سپاہیوں کے درمیان کسی نے یہ خبر پھیلائی کہ قیس ابن سعد ابن عبادہ نے معاویہ کے ساتھ جنگ میں شکست ہوئی ہے۔ اس خبر نے امام کے سپاہیوں میں افراتفری پھیلا دی، اسی دوران لوگوں کے ایک گروہ نے امام کے خیمے کو آگ لگا دی اور اسے غارت کرنے لگے۔ یہاں پر امام کی طرف سے صلح نامے کی پیشکش وغیرہ کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا۔[13] لشکر عراق کا فرار ہونا اور امام حسن (ع) کی طرف سے صلح نامہ قبول کرنا: بعض اقوال کی بناء پر عبید اللہ ابن عباس 12 ہزار سپاہیوں کو لے کر معاویہ سے جنگ کی خاطر مسکن روانہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ جس دن مدائن میں امام پر حملہ ہوا، ادھر مسکن میں بھی اسی دن عراق اور شام کے لشکر کے درمیان مختصر جھڑپ وجود میں آئی۔ رات کو معاویہ نے عبید اللہ ابن عباس کو یہ پیغام بھیجا کہ مدائن میں امام حسن نے صلح کرنے کو قبول کر لیا ہے اور میری بیعت کرنے کیلئے تیار ہے اور اگر تم بھی ابھی مجھ سے ملحق ہوتے ہو تو میں تمہیں دس لاکھ درہم دوں گا۔ عبید اللہ نے اس معاویہ کی اس تجویز کو قبول کیا اور راتوں رات معاویہ کی طرف چلا گیا۔ قیس ابن سعد ابن عبادہ نے عبید اللہ کے بعد لشکر کی کمانڈ سنبھال لی اور امام کی طرف سے یقینی طور پر صلح کے قبول کرنے کی تائید ہونے پر امام کے سپاہی قیس کی سرکردگی میں کوفہ واپس لوٹ آئے۔ [14] بعض منابع کے مطابق عراق اور شام کے لشکریوں کے درمیان مختصر درگیری وجود میں آتی رہتی تھی لیکن جب مدائن میں امام پر ہونے والے حملے کی خبر پھیلی تو قیس نے وقتی طور پر جنگ کو روک دیا تا کہ صحیح خبریں دریافت کر سکیں لیکن اس دوران امام کے سپاہیوں میں سے کثیر تعداد لشکر شام کے ساتھ ملحق ہو گئی۔ قیس نے اس صورتحال کا مشاہدہ کرنے کے بعد امام کی طرف پیغام بھیجا۔ جب امام کو لشکر عراق کی ناگفتہ بہ حالت کا علم ہوا تو آپ نے لوگوں کو جمع کر کے عراقیوں کی طرف سے آپ اور آپ کے والد گرامی حضرت علی کے ساتھ منافقانہ رویہ اختیار کرنے پر گلہ شکوہ کیا اور آخر میں صلح قبول کرنے پر اپنی رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ [15] صلح نامہ اور اس کے شقوق: تاریخی منابع میں صلح نامہ اور اس کے مفاد کے بارے میں فاش اور واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض منابع کے مطابق امام حسن (ع) نے درج ذیل شرائط کے ساتھ صلح نامہ قبول کیا: کوفہ کے خزانے میں موجود 50 لاکھ درہم خود امام اپنے لیے رکھیں گے۔ دار ابگرد فارس کی سالانہ آمدنی خود امام سے مختص ہو گی۔ امام حسن (ع) کی موجودگی میں امام علی (ع) پر منابر سے سبّ و شتم نہیں ہو گی۔ عراق سمیت دیگر مناطق میں موجود اہل بیت کے پیروکار عفو عمومی کے تحت مورد عفو قرار پائیں گے۔ [16] کتاب الفتوح ابن اعثم کوفی نے صلح نامے کی مزید ایک شق کو نقل کیا ہے جس کے تحت صلح نامے کی شرائط مذکورہ شرائط سے مکمل متفاوت ہیں اور اکثر شیعہ محققین اس قول کو اس حوالے سے صحیح ترین قول قرار دیتے ہیں۔ [17] ابن اعثم کی مطابق امام حسن (ع) نے ابتداء میں عبد اللہ ابن نوفل ابن حارث کو صلح کے مذاکرات کیلئے معاویہ کے پاس بھیجا اور ان کے ذریعے امام نے معاویہ کو پیغام بھیجا کہ اس شرط پر میں تمہارے ساتھ صلح کرونگا کہ ہمارے چاہنے والوں کی جان مال ہر حال میں محفوظ رہے گی اور ان کو کسی قسم کی کوئی آزار و اذیت نہیں پہنچائی جائے گی۔ عبد اللہ جب معاویہ کے پاس گیا تو اس نے امام کی بیان کردہ شرائط کے علاوہ اپنی طرف سے بھی کچھ شرائط اضافہ کر دیں، منجملہ ان میں سے یہ کہ کوفہ کے خزانے میں موجود 50 لاکھ درہم اور دارابگرد فارس کی سالانہ آمدنی امام حسن (ع) سے مختص ہو گی اور یہ کہ خلافت معاویہ کے بعد امام حسن کا حق ہو گا۔ معاویہ نے تمام شرائط کو قبول کر لیا بلکہ اس نے ایک سفید کاغذ پر دستخط کر کے عبد اللہ نوفل کے حوالے کر دیا تا کہ امام جو بھی چاہے شرط رکھ سکیں لیکن امام حسن نے عبد اللہ کی طرف سے ذکر کی گئی کسی بھی شرط کی حمایت نہیں کی بلکہ اپنی طرف سے بعض دیگر شرائط کا اضافہ کیا، ان میں سے کوئی ایک بھی مادی شرط نہیں تھی۔ صلح نامے کیلئے امام کی طرف سے ذکر کی جانے والی شرائط درج ذیل ہیں: معاویہ کتاب خدا، سنت پیغمبرؐ اور خلفائے راشدین کی سیرت پر عمل پیرا ہو گا۔ معاویہ کسی کو اپنا ولیعہد اور جانشین مقرر نہیں کرے گا بلکہ خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کی شورا پر چھوڑے گا۔ تمام لوگ جہاں کہیں بھی ہوں امن و امان میں ہو گے۔ شیعیان علی اور آپ کے پیروکاروں کی جان، مال، اور عزت و ناموس محفوظ ہو گی۔ معاویہ امام حسن (ع)، امام حسین (ع) اور خاندان اہل بیت کے کسی دوسرے فرد کے خلاف کوئی سازش نہیں کرے گا اور انہیں کسی قسم کی کوئی اذیت و آزار نہیں پہنچائے گا۔ یوں امام حسن (ع) نے اس صلح نامے کے ذریعے معاویہ کو خلافت کے موروثی کرنے سے باز رکھا اور شیعیان علی اور عراق کے دوسرے مکینوں کی جان، مال اور عزت و ناموس کی حفاظت کو یقینی بنا دیا۔[18] زمان و مکان صلح نامہ: صلح کی قرار داد پر مقام مَسکِن میں دستخط ہوئے اور اس سرزمین پر شامیوں کی بڑی تعداد کی موجودگی میں صلحنامے سے متعلق قواعد و ضوابط کا اعلان ہوا اور انہیں نافذ کیا گیا۔[19] باقر شریف قرشی اپنی کتاب حیاة الحسن میں لکھتے ہیں: صلح کے وقت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ چنانچہ ربیع الاول کو بھی صلح کے انعقاد اور نفاذ کا مہینہ جانا گیا ہے اور ربیع الاخر اور جمادی الاولی کو بھی۔[20] معاویہ کی بلا فاصلہ عہد شکنی: بہر صورت سن 41 ہجری کے نصف اول میں امام حسن (ع) کی متعینہ شرطوں سے ترتیب یافتہ صلح نامے پر دستخط ہوئے۔[21] لیکن معاویہ نے ان شرطوں کو قبول کرنے کے باوجود، کوفہ میں اپنی پہلی آمد کے دوران ـ جس کا اہتمام دو لشکروں کی ملاقات کے لیے کیا گیا تھا ـ کوفیوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنے تمام وعدوں اور عہد و پیمان کو ناقابل عمل سمجھا۔ اس نے دعوی کیا کہ صلح کی درخواست امام حسن نے کی تھی اور پھر امام علی کے خلاف دشنام طرازی کی۔ امام حسین نے اسی وقت اس کا جواب دینا چاہا لیکن بھائی امام حسن نے امام حسین کو ایسا نہیں کرنے دیا اور خود اٹھے اور ایک خطبہ دے کر لوگوں کے لیے معاہدے کی تصویر کشی کی اور معاویہ کی طرف سے صلح کی پیشکش کی وضاحت کی اور پھر بہت فصیح و بلیغ بیان کے ساتھ اپنے والد گرامی کی بے حرمتی کے جواب میں اپنے اصل و نسب اور معاویہ کے اصل و نسب کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔[22][23][24][25][26] امامؑ کا یہ عمل معاویہ پر بہت گراں گذرا۔[27] صلح کے مخالفین: حجر بن عدی، عدی بن حاتم، مسیب بن نجبہ، مالک بن ضمرہ، سفیان بن ابی لیلی، بشیر ہمدانی، سلیمان بن صرد، عبد اللہ بن زبیر، ابو سعید اور قیس بن سعد اصحاب امام حسن (ع) میں سے ہیں جو صلح کے خلاف تھے اور ان کی گفتگو تاریخی کتب میں محفوظ ہے۔[28] معاویہ کے ساتھ امام حسن (ع) کی صلح کے دلائل: امام حسن (ع) کی صلح نہایت مفید اور پر ثمر تھی اور ہم جانتے ہیں کہ جو مصالحت اہداف کے حصول کا باعث بنے، وہ اس جنگ سے بہتر ہے جس سے مقاصد کا حصول پردہ ابہام میں ہو یا پھر اس سے نقصان کے سوا کچھ بھی نہ مل رہا ہو، چنانچہ صلح امام حسن علیہ السلام آپ کی فتح ہے۔ اپنی اور شیعیان آل محمد کا جانی تحفظ: امیر المؤمنین علی (ع) کے اکثر اصحاب و انصار جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں جام شہادت نوش کر گئے تھے اور ان میں سے قلیل ساتھی باقی تھے اور جنگ چھڑ جاتی تو عراقی عوام کی کمزوری کے پیش نظر امام حسن (ع) اور آپ کے شیعہ و پیروکاروں کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ معاویہ اس صورت حال میں انہیں شدت سے کچل دیتا۔[29] ابو سعید العقیصا کا کہنا ہے: میں امام حسن کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے فرزند رسول خدا ! اس کے باوجود کہ آپ حق پر ہیں، آپ نے معاویہ جیسے گمراہ اور ستمگر سے مصالحت کیوں کی ؟ آپ نے فرمایا: اگر میں یہ کام نہ کرتا تو روئے زمین پر ایک شیعہ بھی زندہ نہ رہتا اور یہ معاویہ اور اس کے حامی سب کو چن چن کر قتل کر دیتے۔[30] کسی نے گستاخانہ لہجہ اختیار کر کے امام حسن مجتبی سے کہا: یا مُذِلَّ المُؤمِنینَ اے مؤمنوں کو ذلیل کرنے والے تو آپ نے فرمایا: میں مذل المؤمنین نہیں ہوں بلکہ مُعِزُّ المؤمنین مؤمنوں کو عزت دینے والا ہوں، کیونکہ جب میں نے دیکھا کہ تم پیروان آل محمد میں سپاہ شام کا مقابلہ کرنے کی قوت نہیں ہے تو میں نے اپنی حکومت انکو دے دی تا کہ میں اور تم باقی رہیں۔ جسطرح کہ ایک دور اندیش انسان ایک کشتی کو سوراخ کر دیتا ہے تا کہ وہ اپنے مالکوں اور مسافروں کے لیے باقی رہے[31]، میری اور تمہاری داستان یہی ہے تا کہ ہم اور تم دشمنوں اور مخالفین کے درمیان زندہ اور باقی رہیں۔[32] یا امام حسن ایک مفصل حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں: والله الذي عملت خير لشيعتي مما طلعت عليه الشمس أو غربت۔۔۔۔ خدا کی قسم جو کچھ میں نے کیا وہ میرے پیروکاروں کے لیے بہتر ہے ہر اس چیز سے جس پر سورج کا طلوع یا غروب ہوتا ہے۔[33] صلح کے بعد حجر ابن عدی امام حسن (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اعتراض کرتے ہوئے کہا: سودت وجوه المؤمنين، آپ نے مؤمنین کو رو سیاہ کر دیا ہے ! تو امام نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: ما كل أحد يحب ما تحب ولا رأيه كرأيك، وإنما فعلت ما فعلت إبقاء عليكم، ایسا نہیں ہے کہ سب وہی چاہتے ہوں جو تم چاہتے ہو یا سب تمہاری طرح سوچتے ہوں اور جو کچھ میں نے کیا وہ تمہاری جانوں کے تحفظ اور تمہاری بقاء کے سوا کسی اور مقصد کے لیے نہ تھا۔[34] امام حسن (ع) اور عوامی حمایت کا فقدان: امام حسن نے معاویہ کے خلاف جنگ کے لیے لوگوں کی آمادگی آزمانے کے لیے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: اگر جنگ کے لیے تیار ہو تو ہم صلح کی پیشکش کو مسترد کريں اور اپنی شمشیر کا سہارا لے کر انجام کار کو خداوند کے سپرد کریں لیکن اگر بقاء چاہتے ہو تو صلح کی پیشکش قبول کریں اور تمہارے لیے امان حاصل کریں ! اس اثناء میں پوری مسجد سے آوازیں آنے لگیں: البقیة، البقیة۔ یعنی بقاء، بقاء)، اور یوں انھوں نے صلح کی تائید کر دی۔[35] شیخ مفید ارشاد میں لکھتے ہیں: امام حسن (ع) کے لیے آشکار ہو گیا کہ لوگوں نے آپ کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور خوارج کے کافر کہنے اور دشنام طرازی کرنے کی وجہ سے بد دل ہو گئے ہیں اور انھوں نے آپ کے خون کو مباح سمجھا ہے اور آپ کے اموال کو لوٹ کر لے گئے ہیں اور ان کے سوا ایسا کوئی باقی نہ تھا جن کے ناپاک عزائم سے امام محفوظ ہوں سوائے ان قلیل اقارب اور شیعیان آل رسول کے، جو آپکے والد اور آنجناب کے شیعہ تھے اور یہ اس قدر قلیل تھے کہ شام کی بڑی سپاہ کے سامنے استقامت نہیں کر سکتے تھے۔ [36] سلیم بن قیس ہلالی سے نقل ہوا ہےکہ: معاویہ کوفہ آیا، تو امام حسن اس کی موجودگی میں منبر پر چلے گئے اور اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: فاقسم بالله لو ان الناس بايعوني واطاعوني ونصروني، لاعطتهم السماء قطرها، والارض بركتها، ولما طمعتم فيها يا معاوية ، پس خدا کی قسم ! اگر لوگ میری بیعت کرتے اور میرے اطاعت گزار و فرمانبردار ہو جاتے اور میری مدد کرتے تو آسمان انہیں اپنی بارش عطا کرتا اور زمین اپنی برکت عطا کرتی اور تم بھی اس میں طمع نہ کرتے اے معاویہ[37] امام حسن نے ایک خطبے کے ضمن ميں اشارہ فرمایا: لوگ آپ کی حمایت نہیں کر رہے تھے اور آپ کو اپنے باوفا اصحاب کی قلت کا سامنا تھا۔ پھر فرمایا: اگر مجھے یار و یاور اور ناصر و مددگار ملتا تو حکومت کو معاویہ کے حوالے نہ کرتا کیونکہ حکومت کرنا بنو امیہ پر حرام ہے۔[38]، جب ایک شخص نے صلح کو مورد تنقید ٹھہرایا تو آپ نے فرمایا: والله ما سلمت الامر إليه الا اني لم أجد أنصارا ولو وجدت أنصارا لقاتلته ليلي ونهاري حتى يحكم الله بيني وبينه، میں نے حکومت اس وجہ سے معاویہ کو دے دی کہ میرا کوئی مددگار نہ تھا اور اگر میرے مددگار ہوتے تو اس کے خلاف شب و روز لڑتا حتی کہ خداوند میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کرتا۔[39] قتل و غارت کا سدّ باب کرنا: امام حسن نے معاویہ کے ساتھ صلح کے اسباب بیان کرتے ہوئے اپنے خطبے میں فرمایا: فرأيت أن أسالم معاوية وأضع الحرب بيني وبينه ورأيت حقن الدماء خير من سفكها ولم أرد بذلك إلا صلاحكم و بقاءكم ، اور میں نے اسی کو مصلحت سمجھا کہ معاویہ کے ساتھ مسالمت آمیز رویہ اپناؤں اور اپنے اور اس کے درمیان جنگ کو بند کر دوں، میں نے دیکھا کہ خون کا تحفظ خون بہانے سے بہتر ہے اور اس کام سے میرا ارادہ تمہاری خیر خواہی اور بقاء کے سوا کچھ نہ تھا۔ [40] یا پھر آپ نے فرمایا: كانت جماجم العرب بيدي يسالمون من سالمت ويحاربون من حاربت فتركتها ابتغاء وجه الله وحقن دماء المسلمين، بے شک عربوں کی کھوپڑیاں میرے ہاتھ میں تھیں اور میں جس کے ساتھ صلح کرتا وہ بھی اس کے ساتھ صلح کرتے تھے اور جس سے لڑتا وہ بھی اس سے لڑتے تھے پس میں نے انہیں اللہ کی خاطر اور مسلمانوں کے خون کے تحفظ کے مقصد سے جانے دیا۔[41] امام نے سلیمان بن صرد خزاعی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: أری غير ما رأيتم، وما أردت بما فعلت إلا حقن الدماء، میں نے جو کچھ دیکھا وہ مختلف تھا اس سے جو تم نے دیکھا، اور جو کچھ میں نے کیا اس سے میرا مقصد سوائے تمہارے خون کی حفاظت کے، کچھ بھی نہ تھا۔[42] نیز آپ نے ایک موقع پر فرمایا: ورأيت حقن الدماء خير من سفكها، میں نے دیکھا کہ خون کا تحفظ خون بہانے سے بہتر ہے۔[43] جب معاویہ نے آپ سے کہا کہ خوارج کے ساتھ جنگ میں شرکت کریں تو آپ نے جواب دیا: لو آثرت أن أقاتل أحداً من أهل القبلة لبدأت بقتالك، فإني تركتك لصلاح الأمة وحقن دمائها، اگر میں اہل قبلہ میں سے کسی کے خلاف جنگ کرنا چاہتا تو اپنی جنگ کا آغاز تم سے کرتا لیکن میں نے تمہیں امت کی مصلحت و خیر خواہی اور اس کے خون کے تحفظ کے لیے اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔[44] دین اسلام کا تحفظ: صلح امام حسن کا ایک اہم سبب، دین کا تحفظ شمار کیا جا سکتا ہے کیونکہ اسلامی معاشرے کی حالت کچھ ایسی تھی کہ معاویہ کے ساتھ جنگ دین ہی کو جڑ سے اکھاڑ سکتی تھی کیونکہ اس زمانے میں جنگ نہ تو کوفیوں کے مفاد میں تھی اور نہ ہی شامیوں کے، بلکہ یہ جنگ رومیوں کی طرف سے عالم اسلام پر بہت بڑے حملے کا سبب فراہم کر رہی تھی۔ یعقوبی کا کہنا ہے کہ معاویہ سن 41 ہجری میں شام واپس چلا گیا اور اسکو خبر ملی کہ رومیوں نے بہت بڑا لشکر تیار کیا ہے اور وہ جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں تو ایک شخص کو رومیوں کی طرف روانہ کیا اور ایک لاکھ دینار دے کر ان سے صلح کر لی!۔[45] دوسری طرف سے لوگ بھی تعلیم و تربیت اور تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے ایسی حالت میں تھے کہ مزید جنگ اور خونریزی ان کے درمیان دین کی نسبت بدگمانیوں کا سبب بن سکتی تھی، چنانچہ شاید ان ہی وجوہات کی بناء پر امام حسن نے مالک ابن ضمرہ کی تلخ باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: إني خشيت أن يجتث المسلمون عن وجه الأرض فأردت أن يكون للدين ناعي، مجھے ڈر تھا کہ مسلمانوں کی جڑیں روئے زمین سے اکھڑ جائیں چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ دین کی محافظت کی جائے اور اسی لیے میں نے صلح کر لی۔[46] لوگوں کا جنگ سے اکتا جانا: مسلمانوں نے رسول خدا (ص) کی ہجرت کے بعد اور اسلامی حکومت کی تشکیل سے 40 برس کے عرصے میں غزوات اور سرایا کے علاوہ خلفاء کے دور میں بھی روم، ایران اور جزیرہ نمائے عرب کے پڑوسی ممالک کے ساتھ طویل المدت لڑنے کے علاوہ امیر المؤمنین علی (ع) کے دور میں بھی تین بڑی اندرونی جنگیں بھی برداشت کی تھیں۔ چنانچہ ان میں جنگ و پیکار کا حوصلہ دکھائی نہيں دے رہا تھا اور چند مخلص شیعیان علی اور جنگجو نوجوانوں کے علاوہ باقی مسلمان عافیت طلبی کے سامنے ہتھیار ڈالے ہوئے تھے اور حالات حاضرہ کو تسلیم کر چکے تھے۔ چنانچہ جب امام حسن (ع) اور آپ کے قریبی اصحاب یعنی حجر بن عدی اور قیس بن سعد انصاری نے عوام کو جنگ کے لیے آپ کے لشکر گاہ میں آنے کی دعوت دی تو بہت کم لوگوں نے مثبت جواب دیا اور باقی لوگوں نے کوئی رغبت نہ دکھلائی۔[47] امام حسن نے اپنے ساتھ بیعت کرنے والوں جو آپ سے تعاون اور نصرت کا وعدہ کیے ہوئے تھے، سے مخاطب ہو کر فرمایا: اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو ہماری وعدہ گاہ مدائن کی چھاؤنی ہے، پس وہاں مجھ سے آ ملو۔ پس آنجناب مدائن کی طرف روانہ ہوئے اور جنگ کا ارادہ کرنے والے بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوئے لیکن ایک بڑی تعداد نے وعدہ خلافی کی اور اپنے دیئے ہوئے وعدے کے پابند نہیں رہ سکے اور وعدہ گاہ میں حاضر نہیں ہوئے اور آپ کو دھوکا دیا، جسطرح کہ انھوں نے قبل ازاں آپ کے والد امیر المؤمنین کو دھوکا دیا تھا۔[48] امام حسن نے اپنے سپاہیوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: يا عجبا من قوم لا حياء لهم ولا دين، ولو سلمت له الأمر فأيم الله لا ترون فرجا أبدا مع بني امية، والله ليسومونكم سوء العذاب، حیرت ہے اس قوم پر جس میں کوئی حیاء ہے نہ ہی کوئی دین، اور اگر میں امر حکومت واگذار کروں تو خدا کی قسم ! تم بنو امیہ کی حکومت میں کبھی بھی سکون نہ دیکھ سکو گے، خدا کی قسم ! بد ترین عذاب، اذیت و آزار کے ساتھ وہ تمہیں نہایت بری طرح تکلیفیں پہنچائیں گے۔[49] یا آپ نے ایک اور موقع پر فرمایا: إني رأيت هوى عظم الناس في الصلح، وكرهوا الحرب، فلم أحب أن أحملهم على ما يكرهون، میں دیکھا کہ زیادہ تر لوگ صلح کی طرف راغب اور جنگ سے روگردان ہیں چنانچہ میں نے نہیں چاہا کہ ان پر ایسی چیز (جنگ) پر مجبور کروں جس کو وہ ناپسند کرتے ہیں۔[50] خوارج کا خطرہ: کتاب احکام القرآن کا مؤلف ابن عربی کہتا ہے: صلح امام حسن کا ایک سبب یہ تھا کہ آپ دیکھ رہے تھے کہ خوارج نے آپ کو گھیر لیا ہے اور جان گئے کہ اگر معاویہ کے خلاف جنگ جاری رکھیں اور اس جنگ میں مصروف ہو جائیں تو خوارج اسلامی ممالک کی طرف دست درازی کریں گے اور ان پر مسلط ہو جائیں گے اور اگر خوارج کے ساتھ میدان جنگ میں اتریں اور انہیں دفع کرنے میں مصروف ہو جائیں تو معاویہ اسلامی ممالک اور آپ کے دائرہ اختیار پر مسلط ہو جائے گا۔[51] غیر متوازن لشکر: شیخ مفید الارشاد میں لکھتے ہیں: امام حسن (ع) کے لشکر میں ہر قسم کے لوگ تھے: آپ اور آپ کے والد گرامی کے بعض شیعہ اور جنگ صفین میں حکمیت کے بعض حامی خوارج جو مختلف حیلوں بہانوں سے معاویہ کے خلاف لڑنے کے درپے تھے، اور افراتفری (انارکی) کے حامی اور جنگی غنائم کے شائقین کا ایک گروہ، اور بعض اہل شک اور قبائلی عصبیتوں سے سرشار لوگ، جو اپنے قبائل کے سرداروں کے پیرو تھے اور ان کا محرک دین نہیں تھا۔[52] جو لشکر اس طرح کے عناصر ترکیبی سے تشکیل پایا تھا، کسی بھی حادثے کے نتیجے میں خطرے میں پڑ سکتا تھا اور ہر قسم کا خطرہ پیش آنے کی صورت میں دو یا دو سے زیادہ دھڑوں میں تقسیم ہو سکتا تھا اور ایسی صورت میں لشکر اور فوج اپنے ہی قائدین کے خلاف قیام کر سکتی ہے، خوارج امام حسن کے ساتھ تھے لیکن ان کا مقصد فتنہ انگیزي کے سوا کچھ نہیں تھا، وہ جہاد کی راہ پر گامزن ضرور تھے مگر ان کا مقصد فساد کے سوا کچھ نہ تھا۔[53] امام مجتبی (ع) نے صلح پر اعتراض کرنے والے شخص کا جواب دیتے ہوئے اپنے اقدام کے عوامل و اسباب کو یوں بیان فرمایا: رأيت أهل الكوفة قوماً لا يثق بهم أحد أبداً إلا غلب، ليس أحد منهم يوافق آخر في رأي ولا هواء، مختلفين لا نية لهم في خير ولا شر، اہل کوفہ ایسے لوگ ہیں کہ ان پر جو بھی اعتماد کرتا ہے وہ مغلوب ہو جاتا ہے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے ساتھ فکر اور آرزوؤں میں اتفاق رائے نہیں رکھتا وہ نہ خیر میں اور نہ ہی شر میں کسی قسم کا ارادہ نہیں رکھتے۔[54] امام حسن (ع) کے پاس صلح قبول کرنے اور جنگ ترک کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کیونکہ آپ کے پیروکار آپ کی نسبت عقیدتی لحاظ سے کمزور اور ضیعف النفس تھے اور جیسا کہ دیکھا گیا کہ انھوں نے آپ کی مخالفت تک کا منصوبہ بنایا تھا اور ان میں سے بہت ایسے بھی تھے جو آپ کو دشمن کے حوالے کرنا چاہتے تھے اور آپ کا خون مباح سمجھنے لگے تھے اور آپ کے چچا زاد بھائی عبید اللہ ابن عباس نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور دشمن سے جا ملا اور عام طور پر وہ لوگ دو دن کی دنیا کی طرف مائل ہو گئے اور آخرت کی نعمتوں سے آنکھیں پھیر لیں۔ [55] امام حسن (ع) کے لشکر میں تھے ایسے کوفی عمائدین جو بظاہر آپ کے تابع و فرمانبردار تھے لیکن انھوں نے خفیہ طور پر معاویہ کو خطوط لکھے اور اپنی اطاعت و فرمانبرداری کی یقین دہانی کرائی اور اس کو اپنی جانب آنے کی رغبت دلائی اور اپنے ذمے لیا کہ جب وہ اپنا لشکر لے کر امام حسن کے لشکر کے قریب پہنچیں تو وہ آپ کو گرفتار کر کے معاویہ کی تحویل میں دیں گے یا پھر آنجناب کو اچانک گھیر کر قتل کریں دیں گے !۔[56] زید ابن وہب جہنی کہتا ہے: جب بعض لوگوں نے امام حسن پر حملہ کیا اور آپ کو خنجر مار کر زخمی کیا اور مدائن میں زخمی اور بیمار ہو کر بستر سے لگے ہوئے تھے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ کے کیا ارادے ہیں کیونکہ لوگ حیران و پریشان ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: أَرىٰ والله معاوية خيراً لي من هؤلاء يزعمون انهم لي شيعة ابتغوا قتلي وانتهبوا ثقلي، واخذوا مالي، خدا کی قسم ! میں معاویہ کو اپنے لیے ان لوگوں سے بہتر سمجھتا ہوں جو گمان کرتے ہیں کہ میرے شیعہ ہیں لیکن میرے قتل کے منصوبے بناتے ہیں اور میرا مال و اسباب لوٹ کر لے جاتے ہیں میرا مال و متاع چھین لیتے ہیں۔۔۔۔[57] شیخ صدوق اپنی کتاب علل الشرائع میں اپنی سند سے ابو سعید العقیصا سے روایت کی ہے کہ انھوں نے امام حسن کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے فرزند رسول خدا ! آپ جانتے تھے کہ حق آپ کی جانب ہے تو پھر گمراہ اور ظالم معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی ؟ امام نے جواباً فرمایا: يا أبا سعيد ألست حجة الله تعالى ذكره على خلقه وإماما عليهم بعد أبي عليه السلام؟ قلت: بلی! قال: ألست الذي قال رسول الله صلى الله عليه وآله لي ولأخي الحسن والحسين إمامان قاما أو قعدا؟ قلت بلى قال: فانا اذن امام لو قمت و انا امام اذا قعدت یا با سعید علة مصالحتی لمعاویة علة مصالحة رسول اللهؐلبنی ضمرة و بنی اشجع، و لاهل مکة حین انصرف من الحدیبیة، اولئک کفار بالتنزیل و معاویة و اصحابه کفار بالتاویل، یا أبا سعید اذا کنت اماما من قبل الله تعالی ذکره لم یجب ان یسفه رایی فیما اتیته من مهادنة او محاربة، و ان کان وجه الحکمة فیما اتیته ملتبسا۔ قال فأنا إذن إمام لو قمت وأنا إمام إذ لو قعدت، يا أبا سعيد علة مصالحتي لمعاوية علة مصالحة رسول الله صلى الله عليه وآله لبني ضمرة وبني اشجع ولاهل مكة حين انصرف من الحديبية أولئك كفار بالتنزيل ومعاوية وأصحابه كفار بالتأويل، يا أبا سعيد إذا كنت إماما من قبل الله تعالى ذكره لم يجب ان يسفه رأيى فيما أتيته من مهادنة أو محاربة وإن كان وجه الحكمة فيما أتيته ملتبساً۔ ألا ترى الخضر عليه السلام لما خرق السفينة وقتل الغلام وأقام الجدار سخط موسى عليه السلام فعله لاشتباه وجه الحكمة عليه حتى أخبره فرضى؛ هكذا أنا، سخطتم علي بجهلكم بوجه الحكمة فيه ولولا ما أتيت لما ترك من شيعتنا على وجه الارض أحد إلا قتل۔ اے ابا سعید ! کیا میں خدائے تعالی کی مخلوق پر اس کی حجت اور تمہارا امام و رہبر نہیں ہوں ؟ اس نے کہا: کیوں نہیں ؟ فرمایا: کیا میں وہی نہیں ہوں کہ رسول اللہؐ نے میرے اور میرے بھائی حسین کے بارے میں فرمایا: حسن اور حسین دونوں امام ہیں چاہے وہ قائم ہوں اور حکومت قائم کیے ہوئے ہوں، چاہے بیٹھے ہوں اور حکومت سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہوں ؟ اس نے کہا: کیوں نہیں ! پس میں امام اور رہبر ہوں خواہ قیام کروں خواہ نہ کروں۔ اے ابا سعید ! معاویہ کے ساتھ میری مصالحت کا سبب وہی حدیبیہ کے بعد مدینہ واپسی کے وقت بنو ضمرہ اور بنو اشجع اور کوفی عوام کے ساتھ رسول اللہ کی مصالحت کا سبب ہی ہے۔ وہ قرآن تنزیل کے کافر و منکر تھے اور قرآن کے نزول کے ہی انکاری تھے اور معاویہ اور اس کے اصحاب قرآن کی تاویل اور باطن قرآن کے منکر ہیں۔ اے ابا سعید ! جب میں خدائے تعالی کی طرف سے امام ہوں چنانچہ جو کچھ میں نے کیا ہے، خواہ وہ صلح ہو خواہ جنگ ہو اس میں مجھے خطا کار نہيں سمجھا جا سکتا، اگرچہ جو کچھ میں نے کیا ہے اس کا راز دوسروں کے لیے آشکار نہ ہو۔ کیا تم نے خضر کو نہیں دیکھا جب انھوں نے کشتی میں سوراخ کر دیا اور اس لڑکے کو قتل کیا اور اس دیوار کو تعمیر کیا ؟ ان کے اس کام کو حضرت موسی علیہ السلام کی تنقید کا نشانہ بننا پڑا کیونکہ انہيں اس کام کا راز معلوم نہ تھا اور جب خضر نے اپنے اعمال کا راز موسی کو بتایا تو وہ راضی ہو گئے۔ یہی ہے میرا معاملہ، چونکہ تم میرے اس اقدام کے اسرار سے ناواقف ہو مجھ پر اعتراض کر رہے ہو۔ میرے اس اقدام کا ایک راز یہ ہے کہ اگر میں یہ کام نہ کرتا تو ہمارے پیروکاروں اور شیعیان آل محمد میں سے حتی ایک فرد بھی روئے زمین پر باقی نہ رہتا۔ اور وہ سب کو قتل کر دیا جاتا۔[58]۔ میثاق صلح کا انجام: معاویہ نے تمام شقوق کو پامال کر کے رکھ دیا: صلح کے بعد معاویہ نے مسجد کوفہ میں تقریر کی اور کہا: ألا إني كنتُ شرطت شروطا أردت بها الأُلفة ووضع الحرب، ألا وإنها تحت قدمي، جان لو کہ میں نے کچھ شرطیں رکھیں اور صلح کی جس سے میرا مقصد الفت اور جنگ بندی تھی، جان لو کہ میں صلح کے معاہدے کو پاؤں تلے روندتا ہوں۔ اس موقع پر اس نے امیر المؤمنین کی توہین کی اور پھر امام حسن کی شان میں گستاخی کی جس پر امام حسن مجتبی نے کھڑے ہو کر نہایت فصیح و بلیغ اور طویل خطبہ دیا۔[59] گو کہ امام حسن مجتبی کو اپنے ساتھیوں کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا تھا لیکن آپ صلحنامے کے پہلے نکتے کے پابند رہے اگرچہ آپ شرطوں میں تبدیلی کرنے کے سلسلے میں صاحب اختیار تھے کیونکہ خلافت کی واگذاری مشروط تھی، تاہم معاویہ نے حتی ایک شرط کا بھی پابند نہ رہا۔ اولاد زنا کو نسب سے ملحق کرنا، نماز جمعہ روز بدھ قائم کرنا، [60]، حدود الہیہ کو معطل کرنا، ربا (سود) کو جائز قرار دینا، نماز عید میں اذان کو رواج دینا، نماز عید سے قبل خطبہ پڑھنے کا حکم وضع کرنا، عطیات پر زکوٰة لاگو کرنا، بے غیرتی اور بے شرمی کو ترویج دینا اور وضع حدیث کو رونق دینا،[61] وغیرہ وغیرہ معاویہ کی بدعتوں میں سے ہیں۔ معاویہ نے اپنے بعد یزید کو ولیعہد مقرر کر کے صلحنامے کے دوسرے نکتے کو بھی پامال کر دیا۔[62] صلح نامے کا تیسرا نکتہ امیر المؤمنین پر سبّ و لعن کا سد باب کرنے سے متعلق تھا جبکہ معاویہ سمجھتا تھا کہ گویا اس کی حکومت کا استحکام ہی امام علی پر سبّ اور دشنام طرازی اور آپ کے خلاف انتقامی کاروائیوں پر منحصر ہے، چنانچہ اس کے کار گزار اور والی اس قدر اس موضوع پر اصرار کرتے تھے کہ امیر المؤمنین پر سبّ و لعن کو نماز جمعہ کا جزء سمجھتے تھے اور ان میں سے جو کوئی ایسا کرنے سے اجتناب کرتا، اس کو سرکاری مناصب سے ہٹا دیا جاتا تھا۔[63] صلحنامے کی چوتھی شق کے مطابق دارابگرد کا خراج امام کے حوالے کیا جانا تھا لیکن اس پر بھی عمل نہيں ہوا اور بصرہ کے عوام نے اس پر قبضہ کیا اور کہا کہ اس مال غنیمت کا تعلق ہم سے ہے،[64] اور وہاں کے عوام نے یہ عمل معاویہ کے حکم پر انجام دیا[65] کیونکہ معاویہ کے حکم کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ واضح رہے کہ قرار داد کے اس حصے پر مندرجہ بالا سطور میں جرح ہوئی ہے اور اور بیان ہوا ہے کہ امام حسن اس قسم کی شرطوں سے برتر و بالاتر ہیں اور یہ اموی اور عباسی تحریفات کے نتیجے میں صلح کی قرار داد میں قرار دیا گیا ہے۔[66] معاویہ نے پانچویں شق کی بھی خلاف ورزی کی اور اپنے کارگزاروں اور والیوں کو ایک ہدایت نامہ لکھا کہ: جان لو کہ اگر ثابت ہو جائے کہ کوئی علی سے محبت کرتا ہے تو اس کا نام تنخواہ اور وظیفہ لینے والوں کی فہرست سے حذف کر دو، اور پھر دوسرا ہدایت نامہ لکھا اور حکم دیا: جو بھی اس گروہ سے محبت کا مجرم ٹہرے اس کو قید خانے میں ڈال دو اور اس کا گھر منہدم کر دو۔[67] امام حسن (ع) بھی محفوظ نہ رہے: امام حسن نے صلح کی مکمل پابندی کی مگر معاویہ نے اس کے تمام نکات کی خلاف ورزی کی اور سبّ علی کا سلسلہ جاری رہا، شیعیان آل محمد محفوظ نہ رہے، حتی کہ امام حسن خود بھی معاویہ کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہ رہے۔ معاویہ نے کئی بار امام حسن کو مسموم کر کے شہید کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہتا تھا[68] اور آخر کار آپ کی بیوی جعدہ بنت اشعث ملعونہ کو فریب دیا اور یوں امام حسن مجتبی علیہ السلام کو زہر دلوا کر شہید کر دیا[69] اور امام حسن، کو قتل کر کے معاویہ نے قرار داد کی آخری شق کو بھی پامال کر دیا۔ حوالہ جات: شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص158۔ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 5، ص 158 طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 5، ص 158 طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 5، ص 158 اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص 70 نک: جعفریان، تاریخ خلفاء، ص 374 طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 5، ص 159 جعفریان، تاریخ خلفاء، ص 379 دینوری، اخبار الطوال، ص 216 اخبار الطوال، ص 216 دینوری، اخبار الطوال،ص 265 جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ص 174 جعفریان، تاریخ خلفاء، ص 378 تاریخ الیعقوبی، ج 2،ص 215 طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 5، ص 159 یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج 2، ص 214 ابن اعثم، الفتوح، ج 4، ص 290 طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج 5، ص 160 دینوری، اخبار الطوال،ص 218 جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ص 180 جعفریان، تاریخ خلفاء، ص 393 ابن اعثم، الفتوح، ص 290 قرشی، حیاة الحسن، ص 471 باقر شریف قرشی، حیاةالحسن ص 471 خلیفہ بن خیاط، تاریخ، باہتمام اکرم ضیاء عمری، دمشق/بیروت، 1397ق، ص 203۔ طبری، ج 4، صص 124-125، 128-129۔ ابو الفرج، 45 اور بعد کے صفحات۔ ابن شعبه 232 اور بعد کے صفحات۔ رسائل الامام حسنؑ، باہتمام زینب حسن عبدالقادر، قاہرہ، ص 29 اور بعد کے صفحات۔ حاج منوچہری، دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج 20، مدخل امام حسنؑ، ص 538۔ حاج منوچہری، وہی ماخذ۔ قرشی، حیاة الحسن، ص 507 تا 499 امام حسن ؑ کیوں؟ صلح کے ثمرات شیخ صدوق، علل الشرائع، ج1، ص: 211 حضرت موسی اور مرد دانا کے قصے کی طرف اشارہ؛ سورہ کہف (18)، آیت 79: جہاں ارشاد ہوتا ہے: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْباً: وہ جو کشتی تھی، وہ کچھ غریبوں کی تھی جو دریا میں کام کرتے تھے تو میں نے چاہا کہ اسے ناقص بنا دوں اور ادھر ایک بادشاہ ہے جو ہر (ثابت) کشتی پر زبردستی قبضہ کر لیتا ہے۔ مجلسی، بحار الانوار، ج75 ص 287 مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص19 شریف مرتضی، تنزیه الأنبیاء، ص: 170؛ مجلسی، بحار الانوار ج44 صص 28-29۔ ابن اثیر،الکامل فی التاریخ، ج 3، ص 406 مفید،الإرشاد ج2، ص: 10 طبرسی،احتجاج، ج2، ص289۔ مجلسی، بحار الانوار ج44 ص22 ايها الناس ان معاوية زعم: اني رأيته للخلافة اهلا ولم ار نفسي لها اهلا وكذب معاوية، انا أولى الناس بالناس في كتاب الله وعلى لسان نبي الله، فاقسم بالله لو ان الناس بايعوني واطاعوني ونصروني، لاعطتهم السماء قطرها، والارض بركتها، ولما طمعتم فيها يا معاوية، لوگو! معاویہ نے گمان کیا ہے کہ میں نے اس کو خلافت کے لیے اہل سمجھا اور خلافت اس کے سپرد کی ہے جبکہ معاویہ نے جھوٹ بولا ہے، میں کتاب اللہ اور رسول اللہؐ کی زبانی مسلمانوں کے معاملہ میں ان سے بھی زيادہ دخل دینے کا حقدار ہوں، پس خدا کی قسم ! اگر لوگ میری بیعت کرتے اور میرے اطاعت گزار و فرمانبردار ہو جاتے اور میری مدد کرتے تو آسمان انہیں اپنی بارش عطا کرتا اور زمین اپنی برکت عطا کرتی اور تم بھی اس میں طمع نہ کرتے، اے معاویہ۔ راوندی، الخرائج و الجرائح، ج2، ص: 576۔ فأيم الله لا ترون فرجا أبدا مع بني أمية، والله ليسومنكم سوء العذاب، حتى تتمنون أن يلي عليكم حبشيا ولو وجدت أعوانا ما سلمت له الامر، لانه محرم علي بني أمية، اور اللہ کی قسم ! تمہیں کبھی بھی بنو امیہ کی حکومت میں فراخی حاصل نہ ہو گی، خدا کی قسم ! وہ تمہیں بد ترین عذاب اور اذیت و آزار پہنچا کر تم پر حکومت کرے گا حتی کہ تم آرزو کرو گے کہ کاش کوئی حبشی تم پر حکومت کرتا۔ اگر مجھے یار و یاور ملتا تو حکومت کبھی بھی بنو امیہ کے سپرد نہ کرتا کیونکہ حکومت کرنا بنو امیہ پر حرام ہے۔ طبرسی،الإحتجاج، ج2، ص: 291۔ والله ما سلمت الامر إليه الا اني لم أجد أنصارا، ولو وجدت أنصارا لقاتلته ليلي ونهاري حتى يحكم الله بيني وبينه، ولكني عرفت أهل الكوفة، وبلوتهم، ولا يصلح لي منهم من كان فاسدا، انهم لا وفاء لهم۔ ولا ذمة في قول ولا فعل، انهم لمختلفون، ويقولون لنا: ان قلوبهم معنا، وان سيوفهم لمشهورة علينا، خدا کی قسم ! میں نے حکومت اس کے سپرد نہیں کی مگر یہ کہ مجھے انصار و اعوان نہیں ملے اور اگر میرے اعوان و انصار ہوتے تو میں دن رات اس کے خلاف لڑتا حتی کہ اللہ میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کرتا لیکن میں نے اہل کوفہ کو پہچان لیا اور انہیں آزما لیا اور جو ان میں برا ہے وہ میرے لیے مناسب نہیں ہے وہ بے وفا ہیں وہ اپنے قول و فعل کی ذمہ داری قبول کرنے والے نہيں ہیں اور ان کے قول و فعل میں اختلاف ہے، وہ ہم سے کہتے ہیں کہ ان کے دل ہمارے ساتھ ہیں حالانکہ ان کی تلواریں ہمارے خلاف نیام سے باہر آ چکی ہیں۔ اربلی، کشف الغمه، ج1، ص: 571 اربلی، کشف الغمة، ج1، ص: 523 راوندی، تنزیه الأنبیاء، ص: 172۔ بحار الانوار، ج 44، صص 28-21۔" أنتم شيعتنا و أهل مودتنا فلو كنت بالحزم في أمر الدنيا أعمل، و لسلطانها أركض و أنصب، ما كان معاوية بأبأس مني بأسا، و لا أشد شكيمة و لا أمضی عزيمة و لكني أری غير ما رأيتم، و ما أردت بما فعلت إلا حقن الدماء، تم ہمارے شیعہ اور پیروکار، ہماری مودت کرنے والے ہو پس اگر میں دنیا کے لیے کام کرنے والا ہوتا اور تسلط جمانے اور اقتدار کے لیے کام کرتا تو معاویہ ہرگز مجھے سے زیادہ طاقتور، نہ تھکنے والا اور صاحب عزم صمیم نہ تھا لیکن میں نے جو کچھ دیکھا وہ مختلف تھا اس سے جو تم نے دیکھا اور جو کچھ میں نے کیا اس سے میرا مقصد سوائے تمہارے خون کی حفاظت کے، کچھ بھی نہ تھا۔ طبرسی، الإحتجاج، ج1، ص: 282 ، الكامل في التاريخ, ج 3، ص 409 ابن اثیر،الکامل فی التاریخ، ج 3 ص 409 یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 144 و 145 قرشی، حياة الإمام الحسن بن علي عليهما السلام دراسة وتحليل، ص 131۔ مفید، الارشادج 2، ص 6 راوندی، الخرائج و الجرائح، ج2، ص 574 راوندی، الخرائج و الجرائح، ج2، ص 576 دینوری،اخبار الطوال، ص 220 ابن عربی،احکام القرآن، ج 3 ص 152 راضی آل یاسین، صلح الحسن، ص 170 راضی آل یاسین، صلح الحسن، ص 177 ابن اثیر،الکامل فی التاریخ، ج 3 دارالکتب العلميةو بيروت - لبنان۔ صص273و274۔ مفید، الإرشاد، ج2، ص10۔ مفید،الإرشاد، ج2، ص: 9 طبرسی، الاحتجاج، ،ج2 ص10۔ ابو جعفر محمد علی بابویہ (شیخ صدوق)، علل الشرائع، ص 200۔ اسی طرح کی روایت طبرسی نےاحتجاج میں بھی نقل کی ہے: رجوع کریں: مجلسی، بحار الانوار، ج 44، ص19۔ اربلی،کشف الغمه، ج 2 ص 341 راضی آل یاسین،صلح الحسن، ص 192 قرشی، حیاة الحسن ترجمه حجازی،ص 410 ـ 402 راضی یاسین، صلح الحسن، ص 409 قرشی، حیاة الحسن، صص 555 ـ 554 ابن جریرطبری، تاریخ طبری، ص 126 ابن اثیر،الکامل فی التاریخ، ج 3 ص 405 اسی مضمون میں ڈاکٹر سید جعفر شہیدی کا تجزیہ دیکھئے۔ قرشی، حیاة الحسن، ص 568 مفید، الارشاد، ص 357 مفید، الارشاد، ج 2 ص 13 التماس دعا۔۔۔۔۔ |