2024 April 27
کیا ابوبکرنے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کےمیت پر نماز پڑھی تھی؟
مندرجات: ٢٢٩٢ تاریخ اشاعت: ٠٧ August ٢٠٢٣ - ١٥:٥٤ مشاہدات: 792
مضامین و مقالات » پبلک
جدید
کیا ابوبکرنے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کےمیت پر نماز پڑھی تھی؟

 کیا  ابوبکرنے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کےمیت پر نماز پڑھی تھی؟

سوال  کرنے والے: حسین سیدی

سوال کی وضاحت:

اہلسنت منابع میں روایت ہے کہ حضرت ابوبکر نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے میت پر نماز پڑھی تھی ۔ کیا یہ احادیث صحیح ہیں؟ براہ کرم ان روایات کی دستاویز کو  دیکھیں۔

مختصر جواب

اہلسنت منابع میں تلاش کرنے سے تقریباً پانچ روایات ان فقروں کے ساتھ ملتی ہیں:

  «فتقدم أبو بكر فصلى عليها فكبر عليها أربعا،‌ صلى عليها أبو بكر، صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ، وكبر أبو بكر على فاطمة أربعا»

  وہ اس نکتے کا اظہار کرتے ہیں کہ ابوبکر نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے جسد اطھار پر نماز پڑھی تھی۔

لیکن یہ روایتیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں اور نتیجتاً صحیح نہیں ہیں۔

دوسری طرف ان روایات کے سامنے صحیح بخاری اور مسلم کی روایات موجود ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) اپنی زندگی کے آخری ایام تک ابوبکر سے ناراض رہیں اور ان سے بات نہیں کی: )فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رسول اللَّهِ فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ فلم تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حتى تُوُفِّيَتْ (  اور جب ان کا انتقال ہو گیا تو حضرت علی   نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کی تدفین کی  اور ان لوگوں کو اس کی خبر نہ دی اور خود نماز پڑھی۔:  فلما تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا ولم يُؤْذِنْ بها أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عليها...

یہ صحیح روایت دیگر ضعیف روایات پر مقدم ہے اور ثابت ہے کہ ابوبکر نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے جسد اطہار پر نماز نہیں پڑھی اور آخری عمر تک وہ ان سے ناراض اور ناخوش رہے۔

اور تیسری طرف، بہت سے بڑے سنی علماء نے بیان کیا ہے کہ ابوبکر نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے جسد اطہار پر نماز نہیں پڑھی تھی۔

تفصیلی جواب:

اس حصے میں ہم زیر بحث موضوع پر پہلے اہل سنت کی روایات اور پھر ان کے علماء کے کلام کا جائزہ لیں گے۔

الف: سنی روایات کا جائزہ لینا

اس معاملے میں سنی روایات کی دو قسمیں ہیں:

1. وہ روایتیں جو کہتی ہیں کہ ابوبکر نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے جسد اطہار پر نماز پڑھی۔ (ان سب کی شہادتیں ضعیف ہیں اور ان کی شہادت کی ضعیف ثابت ہو گی)

2. وہ روایتیں جو بیان کرتی ہیں کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی وصیت کے مطابق حضرت علی   نے رات کو ان کی پاکیزہ جسد کو  تیار کی اور اسے دفن کیا۔ (ان کی سند صحیح ہے)

تحقیق کے طریقہ کار کے مطابق، آئیے منصفانہ اور درست نتیجہ حاصل کرنے کے لیے دونوں زمروں کا جائزہ لیں۔

پہلی قسم، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے جسد اطہار پر ابوبکر کی نماز۔

پہلی روایت:   مالک بن انس، امام صادق علیہ السلام سے

زیر بحث روایات میں سے ایک روایت ابن عدی نے کتاب " الكامل في الضعفاء "   میں مالک ابن انس سے درج ذیل متن اور دلائل کے ساتھ نقل کی ہے:

ثنا محمد بن هارون بن حسان البرقي بمصر ثنا محمد بن الوليد بن أبان ثنا محمد بن عبد الله القدامي كذا قال وإنما هو عبد الله بن محمد القدامي قال مالك بن أنس أخبرنا عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده قال توفيت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلا فجاء أبو بكر وعمر وعثمان وطلحة والزبير وسعيد وجماعة كثير سماهم مالك فقال أبو بكر لعلي تقدم فصل عليها قال لا والله لا تقدمت وأنت خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فتقدم أبو بكر فصلى عليها فكبر عليها أربعا ودفنها ليلا.

قال الشيخ وهذه الأحاديث التي أمليتها عن مالك بن أنس في الموطأ ولا أعلم رواها عن مالك غير عبد الله بن محمد بن ربيعة هذا

مالک نے امام صادق (علیہ السلام) سے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے والد علی بن الحسین (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا انتقال رات کو ہوا، ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ، زبیر سعید اور بہت سے لوگ، مالک نے ان کا نام لیا اور وہ  حا حاضر تھے۔ ابوبکر نے علی علیہ السلام سے کہا: سامنے کھڑے ہو جاؤ اور فاطمہ کے لیے نماز پڑھو۔ علی علیہ السلام نے فرمایا: نہیں خدا کی قسم! میں تم پر غالب نہیں آؤں گا جب تک کہ تم رسول خدا کے جانشین ہو۔ راوی کہتے ہیں: ابوبکر نے حضرت زہرا کی میت پر نماز پڑھی اور چار تکبیریں کہی اور رات کو فاطمہ کو دفن کیا۔

کتاب کے مصنف نے کہا: میں نے یہ روایات مالک بن انس سے موطا میں لکھی ہیں اور میں جانتا ہوں کہ انہیں عبداللہ بن محمد بن ربیعہ کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا۔

 

الجرجانی، عبداللہ بن عدی بن عبداللہ بن محمد ابو احمد (متوفی 365ھ)، الكامل في ضعفاء الرجال ، ج4، ص258، تحقیق: یحییٰ مختار غزاوی، دار النشر: شرح الفکر - بیروت، ایڈیشن3: 1988-1409

پہلا جواب؛ روایت ضعیف ہے۔

پہلا جواب یہ ہے کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ کیونکہ اس کی دستاویز میں "عبداللہ بن محمد بن قدامی" کو سنی علماء کی رائے میں کمزور کیا گیا ہے۔

  اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ہم ان کے بارے میں علماء رجال کے یہ الفاظ نقل کرتے ہیں:

1. شمس الدین ذہبی

ذہبی، جو ایک عظیم سنی علماء میں سے ہیں، نے ان کا تذکرہ ضعیفوں میں کیا ہے:

4549 ( 4788 ) عبد الله بن محمد بن ربيعة بن القدامي المصيصي أحد الضعفاء أتى عن مالك بمصائب ( منها ) عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده قال توفيت فاطمة ليلا فجاء أبو بكر وعمر وجماعة كثيرة فقال أبو بكر لعلي تقدم فصل قال والله لا تقدمت وأنت خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم فتقدم أبو بكر وكبر أربعا.

عبداللہ بن محمد بن ربیعہ قدامی مصيصي ان ضعیفوں میں سے ہیں جنہوں نے مالک کے مصائب بیان کیے ہیں۔ ان میں سے ایک امام صادق علیہ السلام کی اپنے والد اور دادا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:  فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال رات کو ہوا۔

الذہبی الشافعی، شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان (متوفی 748ھ)، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، ج4، ص180، تحقیق: شیخ علی محمد معوض اور شیخ عادل احمد عبد الموجود، ناشر: دار الکتب العلمیہ - بیروت، ایڈیشن: اول، 1995م۔

2. ابن حجر عسقلانی:

ابن حجر اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کتاب "الاصابہ" میں بھی فرماتے ہیں کہ بعض متروک راویوں نے اس روایت کو مالک اور دارقطنی سے روایت کیا ہے اور ابن عدی نے اس کی روایت کو ضعیف سمجھا ہے۔

وقد رَوَى بعض المتروكين عن مالك عن جعفر بن محمد عن أبيه نحوه ووهاه الدارقطني وابن عدي.

بعض متروک راویوں نے اس روایت کو مالک سے جعفر بن محمد سے ان کے والد سے اسی طرح روایت کیا ہے اور دارقطنی اور ابن عدی نے اسے برا جانا ہے۔

العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابوالفضل (متوفی 852ھ)، الإصابة في تمييز الصحابة ، ج8، ص58، تحقیق: علی محمد البجاوی، ناشر: دار الجيل - بيروت ، پہلا ایڈیشن: 1412ھ - 1992ء۔

3. ابن عدی کی کمزوری:

اس روایت اور دیگر متعدد روایات کو نقل کرنے کے بعد کتاب " الكامل في الضعفاء " کے مصنف ابن عدی عبداللہ بن محمد قدامی کی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:

وعامة حديثه غير محفوظة وهو ضعيف على ما تبين لي من رواياته واضطرابه فيها ولم أر للمتقدمين فيه كلاما فأذكره.

اس شخص کی روایتوں اور اس کی روایتوں کے اضطراب سے جو کچھ مجھ پر واضح ہوا ہے اس کے مطابق اس کی روایتوں کی عمومیت (عبداللہ بن محمد قدامی) محفوظ اور مستحکم نہیں ہے (اور ضعیف ہے)۔ مجھے ماضی کی باتوں میں ان کا ذکر کرنے کے لیے کچھ نہیں ملا۔

الجرجانی، عبداللہ بن عدی بن عبداللہ بن محمد ابو احمد (متوفی 365ھ)، الكامل في ضعفاء الرجال ، ج4، ص258، تحقیق: یحییٰ مختار غزاوی، دار النشر: دار الفکر - بیروت، ایڈیشن3: 1988-1409

4. ابن طاہر مغدسی:

روایت نقل کرنے کے بعد مقدسي کتاب " ذخيرة الحفاظ " میں عبداللہ بن محمد قدامی ضعیف کہتے ہیں:

2493 - حديث : توفيت فاطمة بنت رسول الله ليلاً ، وجاء أبو بكر ، وعمر ، وعثمان ، وطلحة ، ... رواه عبد الله بن محمد القدامي : عن مالك بن أنس ، عن جفعر بن محمد عن أبيه ، عن جده قال : توفيت . ولم يروه عن مالك غير القدامي وهو ضعيف .

اس روایت کو عبداللہ بن محمد قدامی نے مالک بن انس کی سند سے روایت کیا ہے اور وہ ضعیف ہے۔

المقدسی، مطہر بن طاہر (متوفی 507ھ)، ذخيرة الحفاظ ، ج2، ص1172، تحقیق: ڈاکٹر عبدالرحمٰن الفریوائی، ناشر: دار السلف - ریاض، ایڈیشن اول: العلویٰ ، 1416ھ-1996ء۔

۵ حاكم نيشابوري:

وہ بھی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن محمد،  مالک سے جعلی حدیثیں نقل کرتے ہیں:

92 عبد الله بن محمد بن ربيعة القدامى روى عن مالك أنس وإبراهيم بن سعد أحاديث موضوعة.

عبداللہ بن محمد بن ربیعہ القدامی نے مالک بن انس اور ابراہیم بن سعید سے من گھڑت روایتیں نقل کی ہیں۔

حکیم نیسابوری، محمد بن عبداللہ بن حمدویہ ابو عبداللہ (متوفی 405ھ)، المدخل الصحیح، ج1، ص152، تحقیق: د۔ ربیع ہادی عمیر المدخلی، دارالنشر: مؤسسة الرسالة – بیروت ، ایڈیشن اول: 1404،

ابو یعلی قزوینی بھی کہتے ہیں:

( 134 ) عبد الله بن محمد بن ربيعة القدامي المصيصي يروي عن مالك وهو ضعيف يأتي بالمناكير وما لا يتابع عليه.

عبداللہ بن محمد قدامی نے مالک سے روایت کی ہے، وہ ضعیف ہیں اور منافی روایتیں بیان کرتے ہیں جن پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔

الخلیل القزوینی، الخلیل بن عبداللہ بن احمد ابو یعلی (متوفی 446ھ)، الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث، ج1، ص280، تحقیق: د. محمد سعید عمر ادریس، دار النشر: الارشاد کتب خانہ ریاض، ایڈیشن: اول 1409

ابن جزری نے کہا کہ اس نے خبر کو الٹا کر دیاہے:

عبد الله بن محمد بن ربيعة القدامي المصيصي روى عن مالك وإبراهيم بن سعد ... وكان يقلب الأخبار لا يحتج به.

عبداللہ بن محمد قدامی... روایتوں کو الٹا  بیان کرتے تھے اور ان کی روایتوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

الشیبانی الجزاری، ابو الحسن علی بن ابی الکرم محمد بن محمد (متوفی 630ھ)،  اللباب في تہذيب الأنساب ، ج3، ص19، دار النشر: دار الصدر۔ - بیروت - 1400ھ - 1980ء

دوسرا جواب: یہ روایت صحیح روایت کے خلاف ہے۔

محیب الدین طبری نے روایت بیان کرنے کے بعد کتاب "الریاض الندرۃ فی مناقب العشرہ" میں لکھا ہے۔ وہ اس طرح جواب دیتے ہیں کہ یہ روایت ایک اور صحیح روایت کے موافق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امیر المومنین صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ ماہ تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔ تضاد ہیں؛ کیونکہ اس صورت میں امیر المومنین علیہ السلام کس طرح کسی ایسے شخص کو اجازت دے سکتے ہیں جو اس کا حق غصب کرے اپنی بیوی کی لاش پر نماز پڑھے:

وهذا مغاير لما جاء في الصحيح فإنه ورد في الصحيح أن عليا لم يبايع أبا بكر حتى ماتت فاطمة وطريان هذا مع عدم البيعة يبعد في الظاهر والغالب وإن جاز أن يكونوا لما سمعوا بموتها حضروها فاتفق ذلك ثم بايع بعده.

یہ روایت صحیح بخاری میں مذکور کے خلاف ہے کیونکہ صحیح روایت میں ہے کہ (حضرت) علی (علیہ السلام) نے ابوبکر کی بیعت اس وقت تک نہیں کی جب تک کہ (حضرت) فاطمہ (س) کا انتقال نہ ہوا۔ اور اس موضوع کو پیش کرنا اس حقیقت کے باوجود کہ علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی، سطحی طور پر اور اکثر بعید معلوم ہوتا ہے۔ البتہ یہ کہنا جائز ہے کہ جب ابوبکر اور عمر نے فاطمہ کی وفات کی خبر سنی تو وہ آئے اور اس کے بعد علی علیہ السلام نے  بیعت کی۔

الطبری، ابو جعفر محب الدین احمد بن عبداللہ بن محمد (متوفی 694ھ)، الرياض النضرة في مناقب العشرة ، ج 2، ص 96، تحقیق: عيسي عبد الله محمد مانع الحميري ، ناشر: دار الغرب الاسلامی - بیروت، ایڈیشن: اول، 1996۔

بخاری و مسلم کی صحیح روایت سے طبری کا مطلب یہ ہے  كه امیر المومنین نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ابوبکر سے ناراض ہوئیں اور اپنی زندگی کے حدثنا يحيى بن بُكَيْرٍ حدثنا اللَّيْثُ عن عُقَيْلٍ عن بن شِهَابٍ عن عُرْوَةَ عن عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ عليها السَّلَام بِنْتَ النبي صلى الله عليه وسلم أَرْسَلَتْ إلى أبي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا. ...

فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ على أبي بَكْرٍ في ذلك فَهَجَرَتْهُ فلم تُكَلِّمْهُ حتى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ النبي صلى الله عليه وسلم سِتَّةَ أَشْهُرٍ فلما تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا ولم يُؤْذِنْ بها أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عليها وكان لِعَلِيٍّ من الناس وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ فلما تُوُفِّيَتْ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ الناس فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أبي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ ولم يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الْأَشْهُرَ.

آخر تک ان سے بات نہ کی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہے۔ جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا انتقال ہوا تو ان کے شوہر نے انہیں رات کو دفن کیا اور ابوبکر کو اطلاع نہ دی اور ان پر نماز پڑھی۔  جب تک حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا زندہ تھیں، علی علیہ السلام لوگوں میں محترم تھے۔ لیکن جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا انتقال ہوا تو لوگوں نے ان سے منہ موڑ لیا اور یہیں وہ چاہتے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام صلح کر لیں اور ابوبکر سے بیعت کر لیں۔    علی علیہ السلام نے ان چھ مہینوں میں جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا زندہ تھیں ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔

البخاری الجعفی، ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل (متوفی 256ھ)، صحیح البخاری، ج4، ص1549، ھ 3998، تحقیق: د۔ مصطفیٰ دیب الباغہ، ناشر: دار ابن کثیر، اليمامة - بیروت، تیسرا ایڈیشن، 1987-1407۔

یہ روایت صحیح مسلم، جلد 3، ص 1380، ح  1759 میں بھی مذکور ہے۔

ابن حجر عسقلانی اس روایت کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام نے چھ ماہ سے زیادہ بیعت نہیں کی: فلما ماتت واستمر على عدم الحضور عند أبي بكر.

فتح الباری، ج7، ص 494، احمد بن علی بن حجر ابو الفضل العسقلانی الشافعی، وفات: 852، دار النشر: دار المعرفة- بیروت، تحقیق: محب الدین الخطیب

جب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا انتقال ہوا تو امیر المومنین علیہ السلام  ابوبکر کے پاس بیعت کرنے نہیں گئے۔

یہ بتانا ضروری ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام  کا غصہ صرف فدک پر قبضے کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ خلافت کے قبضے، فدک کے غاصبانہ قبضے، خیبر کے خمس کے قبضے اور مدینہ کے وسائل پر قبضے کی وجہ سے بھی تھا۔

دوسری روایت: شعبی سے

ابن سعد نے اپنی کتاب "الطبقات الکبرہ" میں اس موضوع پر دو اور روایتیں نقل کی ہیں اور پہلی روایت جو شعبی سے نقل ہوئی ہے وہ یہ ہے:

أخبرنا محمد بن عمر حدثنا قيس بن الربيع عن مجالد عن الشعبي قال صلى عليها أبو بكر رضي الله عنه .

شعبی کہتے ہیں: ابوبکر نے [فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا] کے جسد پر نماز پڑھی تھی.

البصری الزہری، محمد بن سعد بن منيع ابو عبداللہ (متوفی 230ھ)، طبقات الکبری، ج8، ص29، دارالنشر: دار الصادر - بیروت، بمطابق جامع الکبیر برنامه۔

جواب: اس روایت کی سند ضعیف ہے۔

ابن حجر در كتاب «الاصابه» بعد از نقل روايت، اين طريق را ضعيف مي‌داند و تصريح مي‌كند كه شعبي ضعيف است و علاوه بر آن، سند روايت نيز منقطع مي‌باشد:

وروى الواقدي عن طريق الشعبي قال صلى أبو بكر على فاطمة وهذا فيه ضعف وانقطاع.

واقدی نے شعبی سے روایت کی ہے کہ ابوبکر نے فاطمہ پر نماز پڑھی۔ اس روایت میں ضعف ہے اور اس کی سند بھی منقطع ہے۔

العسقلانی الشافعی، احمد بن علی بن حجر ابوالفضل (متوفی 852ھ)، الإصابة في تمييز الصحابة ، ج8، ص58، تحقیق: علی محمد بجاوی، ناشر: دار الجيل - بیروت، ایڈیشن: اول، 1412ھ - 1992ء۔

بیہقی نے شعبی سے ایک اور روایت نقل کی ہے کہ امیر المومنین نے ابوبکر کا بازو پکڑا اور انہیں نماز کے لیے آگے بڑھایا۔

لیکن بیہقی نے خود اس روایت کو آخر میں رد کر دیا اور کہا: یہ صحیح ہے کہ عائشہ کے مطابق وراثت کے معاملے میں جب فاطمہ کا انتقال ہوا تو علی بن ابی طالب علیہ السلام نے ابوبکر کو اطلاع نہیں دی اور خود ان کے جسد پر نماز پڑھی۔ .

دونوں روایتوں کا متن یہ ہے:

6687 فَأَخْبَرَنَا فَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ ، ثنا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ كَامِلِ بْنِ خَلَفِ بْنِ شَجَرَةَ الْقَاضِي ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ ، ثنا عَوْنُ بْنُ سَلامٍ ، ثنا سَوَّارُ بْنُ مُصْعَبٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، أَنَّ فَاطِمَةَ رضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، لَمَّا مَاتَتْ دَفَنَهَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلا ، وَأَخَذَ بِضَبْعَيْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَدَّمَهُ يَعْنِي فِي الصَّلاةِ عَلَيْهَا ، كَذَا رُوِيَ بِهَذَا الإِسْنَادِ وَالصَّحِيحُ.

6688 عن بن شهاب الزهري عن عروة عن عائشة رضي الله عنها في قصة الميراث أن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم عاشت بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة أشهر فلما توفيت دفنها علي بن أبي طالب رضي الله عنهما ليلا ولم يؤذن بها أبا بكر رضي الله عنه وصلى عليها علي رضي الله عنه .

شعبی کہتے ہیں: جب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا انتقال ہوا تو علی علیہ السلام نے انہیں رات کے وقت دفن کیا اور ابوبکر کا بازو پکڑااور نماز کے لیے کے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  جسد کے سامنے کیا۔ اس سند کے ساتھ یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ وراثت کے دعویدار کے معاملے میں ابن شہاب سے عروہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں اور جب ان کا انتقال ہو گیا علی بن ابی طالب (علیہ السلام) نے اسے رات کو دفن کیا اور ابوبکر کو خبر نہ دی اور علی (علیہ السلام) نے ان پر نماز پڑھی۔

البیہقی احمد بن الحسین بن علی بن موسیٰ ابوبکر (متوفی 458ھ)، سنن البیہقی الکبریٰ، ج4، ص29، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا، دار النشر: مكتبدار الباز - 1414 - 1994، الجامع الکبیر کے برنامه کے مطابق

اس کتاب کے بعض نسخوں میں لفظ " والصحيح " کو اگلی روایت کے فقرے کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔

... كذا روي بهذا الاسناد والصحيح عن ابن شهاب الزهري عن عروة عن عائشة رضي الله عنها في قصة الميراث. ...

السنن الکبری البیہقی - (جلد 4/ص 29)، ناشر: دار الفکر، مکتب اہل بیت کے مطابق۔

اس مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ بیہقی شعبی کی روایت کو قبول نہیں کرتا ہے ، اس لیے ان کے نزدیک صحیح قول یہ ہے کہ ابوبکر نے نماز نہیں پڑھی:

تیسری روایت: حماد عن ابراہیم

ابن سعد نے ایک اور روایت ابراہیم بن محمد بن حاطب کے ذریعے نقل کی ہے:

أَخْبَرَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ أَبِي الْمُسَاوِرِ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم فَكَبَّرَ عَلَيْهَا أَرْبَعًا.

ابراہیم کہتے ہیں: ابوبکر صدیق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے  جسد اطہار پر نماز پڑھی اور ان پر چار تکبیریں کہیں۔

البصری الزہری، محمد بن سعد بن منيع ابو عبداللہ (متوفی 230ھ)، طبقات الکبری، ج8، ص29، دارالنشر: دار الصادر - بیروت، جامع الکبیر برنامہ کے مطابق۔

جواب: روایت کا سلسلہ ضعیف ہے

اس روایت کی سند میں "عبدالعلی ابن ابی السور" ہے جسے اہل سنت کے علماء نے بہت ہی زیادہ   ضعیف قرار دیاہے اور اس کے نتیجے میں ان کی روایت سے کوئی استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ رجال کے علماء نے ان کے سوانح عمری میں لکھتے ہیں:

عبد العلی بن ابی المساور الزہری، ملاہم، ابو مسعود الجرار - بالراء المهملة المكررة - الکوفی، نزیل المدائن۔

رَوَى عَن : إبراهيم بن محمد بن حاطب ، وثابت بن أَبي صفية الثمالي ، وحماد بن أَبي سُلَيْمان ،... قال الحافظ أبو بكر الخطيب : وقد روى غير واحد ، عن يحيى ابن مَعِين الطعن عليه ، وسوء القول فيه.

وَقَال عَباس الدُّورِيُّ ، وإبراهيم بن عَبد الله بن الجنيد ، عن يحيى بن مَعِين : ليس بشيءٍ. زاد إبراهيم : كذاب.

وَقَال المفضل بن غسان الغلابي ، عن يحيى بن مَعِين : ليس بثقة. وَقَال محمد بن عثمان بن أَبي شَيْبَة ، عن علي بن المديني : ضعيف ، ليس بشيءٍ. وَقَال محمد بن عَبد الله بن عمار الموصلي : ضعيف ، ليس بحجة. وَقَال أبو زُرْعَة : ضعيف جدا. وَقَال أبو حاتم : ضعيف الحديث ، شبه المتروك. قَال البُخارِيُّ : منكر الحديث. وَقَال أبو داود : ليس بشيءٍ. وَقَال النَّسَائي : متروك الحديث.

خطیب بغدادی نے کہتے ہیں: بہت سے لوگوں نے ابن معین سے روایت کی ہے کہ اس نے ان کی توہین کی اور ان کے بارے میں برا کہا۔

  عباس دوری، ابراہیم بن عبداللہ نے یحییٰ بن معین سے روایت کیا کہ اس کی روایت کچھ نہیں ہے، ابراہیم نے مزید کہا کہ وہ جھوٹا ہے۔

  مفضل بن غسان نے یحییٰ بن معین سے روایت کیا کہ وہ معتبر نہیں ہے۔ محمد بن عثمان علی بن مدینی کے مطابق وہ اسے ضعیف سمجھتے ہیں اور ان کی روایتیں بے ارزش ہیں۔ محمد بن عبداللہ موصلی نے کہا: وہ ضعیف ہے، اس کی روایت حجت نہیں ہے۔

  ابو زرح نے کہا: وہ بہت ہی ضعیف ہے۔ ابو حاتم بھی اسے حدیث میں ضعیف اور متروک حدیث کی طرح سمجھتے ہیں۔ بخاری نے کہا: وہ حدیث کا انکار کرتا ہے۔ نسائی اسے مردود الحدیث سمجھتے ہیں۔

المذی، ابو الحجاج یوسف بن الزکی عبدالرحمٰن (متوفی 742ھ)، تہدیب الکمال، ج16، ص 366-368، تحقیق: د۔ بشر عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، ایڈیشن:اول، 1400ھ - 1980ء۔

ابن جوزی نے ان کے بارے میں بعض دوسرے لوگوں کی قول کو نقل کیا ہے:

1809 عبد الأعلى بن أبي المساور أبو مسعود الجرار الكوفي ... وقال ابن نمير والنسائي وعلي بن الجنيد متروك الحديث وقال البخاري منكر الحديث وقال أبو زرعة ضعيف جدا وقال الدارقطنيضعيف وقال ابن عدي حديثه لا يتابعه عليه الثقات.

ابن نمیر، نسائی اور علی ابن جنید نے کہا ہے: وہ حدیث کا منکر ہے۔ بخاری نے کہا: وہ حدیث کا انکار کرتا ہے۔ ... دارقطنی نے کہا : ضعیف ہے ۔ ابن عدی نے کہا: اہل ثقہ نے اس کی روایت کی پیروی نہیں کی۔

ابن الجوزی، عبدالرحمٰن بن علی بن محمد، ابو الفرج (متوفی 579ھ)، الضعفاء والمتروكين ، ج2، ص81، تحقیق: عبداللہ القاضی، دار النشر۔ : دار الکتب العلمیہ - بیروت، ایڈیشن: اول 1406

چوتھی روایت: ابن عباس سے

ابو نعیم اصفہانی نے کتاب " حلية الأولياء وطبقات الأصفياء " میں ابن عباس سے ایک اور روایت نقل کی ہے، جو کہتے ہیں: ابوبکر نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے نماز میں چار تکبیریں کہیں۔ چنانچہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے جسد اطہار پر نماز پڑھی۔ روایت کا متن اس دستاویز کے ساتھ نقل کیا گیا ہے:

حدثنا عبدالله بن محمد بن جعفر ثنا محمد بن عبدالله رشتة ثنا شيبان ابن فروخ ثنا محمد بن زياد عن ميمون بن مهران عن ابن عباس ... كبر أبو بكر على فاطمة أربعا وكبر عمر على أبي بكر أربعا وكبر صهيب على عمر أربعا.

ابن عباس کہتے ہیں: ابوبکر نے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے جسد اطہار پر چار تکبیریں کہیں۔ عمر نے ابوبکر کو چار تکبیریں اور صہیب نے عمر کو کہا۔

الأصبهاني، ابونعيم أحمد بن عبد الله (متوفاى430هـ)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج4، ص96، ناشر: دار الكتاب العربي - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ.

 جواب: روایت کا سلسلہ ضعیف ہے۔

اس روایت کی سند میں محمد بن زیاديشكري وہ شخص ہے جسے اہل سنت علماي رجال نے ضعيف  قرار دیاہے۔ ابن ابی حاتم نے سب سے پہلے اس شخص کا تعارف کرایا اور کہا کہ اس نے یہ روایتیں جعل کی ہیں:

محمد بن زياد الجزري اليشكري الحنفي يروي عن ميمون بن مهران روى عنه العراقيون كان ممن يضع الحديث على الثقات ويأتي عن الأثبات بالأشياء المعضلات لا يحل ذكره في الكتب إلا على جهة القدح ولا الرواية عنه إلا على سبيل الاعتبار عند أهل الصناعة خصوصا دون غيرهم و...

محمد بن زیاد جزری یشکری حنفی، میمون بن مہران سے روایت کرتے ہیں۔ اور عراقیوں نے اس کے بارے میں نقل کیا ہے۔

  وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے جعلی روایتیں ثقہ لوگوں کی طرف منسوب کیں اور معتبر لوگوں سے ایسے مسائل بیان کیے جن کا کتابوں میں ذکر کرنے کی اجازت نہیں ہے، الا یہ کہ اعتراض کرنے کے لیے ہو۔ ان سے روایت کرنا جائز نہیں سوائے اس کے کہ اہل فن اس سے عبرت حاصل کرے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

اور اس روایت کے آخر میں اس کا ذکر بھی فرمایا۔

التميمي البستي، الإمام محمد بن حيان بن أحمد بن أبي حاتم (متوفاي354هـ)، المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين، ج 2، ص250، تحقيق: محمود إبراهيم زايد، دار النشر: دار الوعي- حلب ، الطبعة: الأولى 1396هـ

شمس الدین ذہبی نے اس کے بارے میں اہل سنت علماء رجال کی کمزوریوں کو بھی ذکر کیا ہے:

محمد بن زياد ( ت ) اليشكري الميموني الطحان يروي عن ميمون بن مهران وغيره وعنه شيبان بن فروخ وعقبة بن مكرم وجماعة قال أحمد كذاب أعور يضع الحديث وروى إبراهيم بن الجنيد وغيره عن ابن معين كذاب وقال ابن المديني رميت بما كتبت عنه وضعفه جدا وقال أبو زرعة كان يكذب وقال الدارقطني كذاب.

محمد بن زیاد یشکری نے میمون بن مہران وغیرہ سے روایت کی ہے اور ان سے شیبان بن فرخ، عقبہ بن مکرم اور ایک جماعت نے روایت کی ہے۔  احمد حنبل کہتے ہیں: وہ بہت جھوٹا اور چشم پوشی کرنے والا شخص تھا جس نے روایتیں جعل کیں۔ ابراہیم بن جنید وغیرہ نے ابن معین سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: محمد بن زیاد جھوٹا تھا۔  ابن مدینی بھی اس کی سختی سے تذلیل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے ان کے بارے میں لکھی ہوئی ہر کہانی کو پھینک دیا۔ ابو زرح نے کہا: وہ ہمیشہ جھوٹ بولتا تھا۔ دار قطنی نے بھی کہا کہ وہ جھوٹا ہے۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى748 هـ)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج 6، ص154، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1995م.

لہٰذا اس روایت میں محمد بن زیاد کو سخت ضعیف قرار دیا گیا ہے اور اس وجہ سے یہ روایت بدنام ہے اور اس کی دلیل صحیح نہیں ہے۔

پانچویں روایت: عبداللہ بن عمر سے

نورالدین ہیتمی نے اپنی کتاب "بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث" میں عبداللہ بن عمر سے یہ روایت نقل کی ہے:

272ـ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا فُرَاتُ بْنُ السَّائِبِ حَدَّثَنَا مَيْمُونُ بْنُ مِهْرَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ قَالَ ... كَبَّرَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى فَاطِمَةَ أَرْبَعًا ...

عبداللہ بن عمر کہتے ہیں: ابوبکر نے (حضرت) فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر چار مرتبہ تکبیر کہی۔۔۔۔۔

الهيثمي،‌ الحارث بن أبي أسامة / الحافظ نور الدين (متوفاي282هـ)، بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث، ج 1، ص371 ، تحقيق: د. حسين أحمد صالح الباكري، دار النشر: مركز خدمة السنة والسيرة النبوية - المدينة المنورة ، الطبعة: الأولى 1413 - 1992

جواب: روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔

اس کی سند میں "فرات بن سائب" ہے اور وہ اہل سنت کے نزدیک ضعیف ہے۔ ابن حجر عسقلانی نے فرات بن سائب کو میمون بن مہران کا طالب علم بتانے کے بعد ان کے بارے میں اہل سنت کے اقوال نقل کیے ہیں:

فرات بن السائب أبو سليمان وقيل أبو المعلى الجزري عن ميمون بن مهران ..

قال البخاري منكر الحديث وقال يحيى بن معين ليس بشيء وقال الدارقطني وغيره متروك. ...

وقال أبو حاتم الرازي ضعيف الحديث منكر الحديث وقال الساجي تركوه وقال النسائي متروك الحديث وقال عباس عن يحيى بن معين منكر الحديث وقال أبو أحمد الحاكم ذاهب الحديث وقال بن عدى له أحاديث غير محفوظة وعن ميمون مناكير.

فرات بن سائب کا نام ابو سلیمان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ ابو المعلی جزری ہے جو میمون بن مہران سے روایت کرتے ہیں۔ بخاری نے کہا: وہ حدیث کا انکار کرتا ہے۔ یحییٰ بن معین نے کہا: اس کی کوئی قدر نہیں۔ دارقطنی وغیرہ نے کہا ہے کہ حدیث میں فرات ابن سائب متروك الحديث ہے۔

ابو حاتم رازی نے کہا: وہ ضعیف ہے اور حدیث کا انکار کرتا ہے۔  ساجی نے کہا: علماء نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ نسائی نے کہا: وہ حدیث کا منکر ہے۔  یحییٰ بن معین نے کہا: حدیث  کا منکر ہے۔ حکیم نیشابوری نے کہا: اس کی روایت معتبر نہیں ہے۔  ابن عدی نے کہا: وہ ایسی روایتیں بیان کرتا ہے جو ثابت نہیں ہیں، اور وہ  ميمون  سے منفی روایتیں بیان کرتا تھا۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852 هـ)، لسان الميزان، ج 4، ص430، تحقيق: دائرة المعرف النظامية - الهند، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1406هـ – 1986م.

نتیجہ:

مندرجہ بالا روایات کی دستاویزات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایتیں سند کے اعتبار سے ضعیف اور تحریف شدہ ہیں۔

دوسری قسم؛ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی میت پر ابوبکر کی نماز کی نفی اور خفیہ تدفین کا ثبوت (سند صحیح)

روایتوں کا ایک اور گروہ (جن میں صحیح روایت بھی ان  کے درمیان ہے) پہلے گروہ کے برعکس بیان کرتی ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی وصیت کے مطابق امیر المومنین علیہ السلام نے انہیں رات  میں دفن کیا۔

پہلی روایت؛ صحیح بخاری و مسلم سے

بخاری نے ایک صحیح روایت میں ذکر کیا ہے کہ جب حضرت زہرا  سلام اللہ علیہا  کا انتقال ہوا تو امیر المومنین علیہ السلام نے ان کے جسد خاکی کو رات کو کفن پہنایا اور دفن کیا اور ابوبکر  کوغسل اور نماز کی رسم ادا کی(تکفین اور تدفین) حضرت نے اطلاع نہیں دی:

3998 حدثنا يحيى بن بُكَيْرٍ حدثنا اللَّيْثُ عن عُقَيْلٍ عن بن شِهَابٍ عن عُرْوَةَ عن عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ عليها السَّلَام بِنْتَ النبي صلى الله عليه وسلم أَرْسَلَتْ إلى أبي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا من رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِمَّا أَفَاءَ الله عليه بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكٍ وما بَقِيَ من خُمُسِ خَيْبَرَ فقال أبو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قال لَا نُورَثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ إنما يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم في هذا الْمَالِ وَإِنِّي والله لَا أُغَيِّرُ شيئا من صَدَقَةِ رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عن حَالِهَا التي كانت عليها في عَهْدِ رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلَأَعْمَلَنَّ فيها بِمَا عَمِلَ بِهِ رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَبَى أبو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إلى فَاطِمَةَ منها شيئا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ على أبي بَكْرٍ في ذلك فَهَجَرَتْهُ فلم تُكَلِّمْهُ حتى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ النبي صلى الله عليه وسلم سِتَّةَ أَشْهُرٍفلما تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا ولم يُؤْذِنْ بها أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عليها. ...

البخاري الجعفي، ابوعبدالله محمد بن إسماعيل (متوفاى256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص1549، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

صحیح بخاری میں بدرالدین عینی نے اس جملے (وصلي عليها )کی تشریح اس طرح کی ہے:

یعنی: سلام ہو علی پر، خدا ان سے راضی ہو، علی فاطمہ۔

یعنی علی علیہ السلام نے فاطمہ پر نماز ادا کی۔

العيني الغيتابي الحنفي، بدر الدين ابومحمد محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 17، ص 259، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.

یہی جملہ صحیح مسلم میں بھی مذکور ہے:

فلما تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيُّ بن أبي طَالِبٍ لَيْلًا ولم يُؤْذِنْ بها أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عليها عَلِيٌّ.

النيسابوري القشيري، ابوالحسين مسلم بن الحجاج (متوفاى261هـ)، صحيح مسلم، ج 3، ص1380، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

دوسری روایت: حضرت ابوبکر کے نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے رات کو دفن کیا گیا۔

کتاب "المصنف" کے مصنف عبدالرزاق نے ایک اور صحیح روایت نقل کی ہے کہ امیر المومنین علیہ  السلام نے حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کو رات کے وقت دفن کیا تاکہ ابوبکر نماز نہ پڑھ سکیں۔

6554 عبد الرزاق عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، أَنَّ حَسَنَ بْنَ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم دُفِنَتْ بِاللَّيْلِ، قَالَ: فَرَّ بِهَا عَلِيٌّ مِنْ أَبِي بَكْرٍ، أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهَا، كَانَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ.

حسن بن محمد نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو رات کو دفن کیا گیا، راوی کہتے ہیں: علی علیہ السلام نے ایسا اس لیے کیا کہ ابوبکر نماز نہ پڑھ پاءے۔ کیونکہ ابوبکر اور فاطمہ کے درمیان کچھ (تکلیف) تھی۔

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 3، ص521، تحقيق : حبيب الرحمن الأعظمي، دار النشر: المكتب الإسلامي – بيروت، الطبعة : الثانية 1403

سند روایت کی جانچ

یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح ہے اور اس کے راویوں کو نامورعلماء رجال اہل سنت نے ثقہ کہا ہے:

1. عبدالرزاق:

ذہبی نے سب سے پہلے ان کا تعارف کرایا اور پھر ان کی توثیق کے بارے میں علماء رجال کے الفاظ نقل کیے:

عبد الرزاق بن همام بن نافع الحافظ الكبير أبو بكر الحميري مولاهم الصنعاني صاحب التصانيف روى عن عبيد الله بن عمر قليلا وعن بن جريج ... قلت وثقه غير واحد وحديثه مخرج في الصحاح وله ما ينفرد به ونقموا عليه التشيع وماكان يغلو فيه بل كان يحب عليا رضي الله عنه ويبغض من قاتله.

عبد الرزاق بن ہمام بن نافع، عظیم حافظ (ایک حافظ اسے کہا جاتا ہے جس کو سو ہزار روایتیں یاد ہوں) ابوبکر حمیری نے عبید اللہ بن عمر (تھوڑی مقدار میں) اور ابن جریج سے روایت کی ہے۔ میں کہتا ہوں: اس کے بہت سے علماء نے اس کی تصحیح کی ہے اور اس کی حدیثیں سنیوں کی چھ کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔ بعض اوقات اس کے پاس ایسی روایتیں ہیں جو اس نے اکیلے بیان کی ہیں۔ علماء نے ان کے شیعہ ہونے پر سوال اٹھایا ہے، جب کہ اس نے اپنے شیعہ ہونے میں مبالغہ آرائی نہیں کی، لیکن وہ علی سے محبت کرتے تھے اور ان سے جنگ کرنے والوں سے نفرت کرتے تھے۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، تذكرة الحفاظ، ج 1، ص364، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولى.

میزی کتاب تہدیب الکمال میں ان کا تعارف کرانے کے بعد لکھتے ہیں:

وَقَال أبو زُرْعَة الدمشقي ، عَن أبي الحسن بن سميع ، عن أحمد بن صالح المِصْرِي : قلت لأحمد بن حنبل : رأيت أحدا أحسن حديثًا من عبد الرزاق ؟ قال : لا. قال أبو زُرْعَة : عبد الرزاق أحد من ثبت حديثه. ...

وَقَال أبو أحمد بن عدي : ولعبد الرزاق أصناف وحديث كثير ، و قد رحل إليه ثقات المسلمين وأئمتهم وكتبوا عنه ولم يروا بحديثه بأسًا...

ابو زرح دمشقی، ابو الحسن بن سمیع، احمد بن صالح سے نقل کرتے ہیں، کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل سے کہا: کیا آپ نے روایت کے لحاظ سے عبد الرزاق سے بہتر کسی کو دیکھا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ ابو زرح نے کہا: عبد الرزاق ان لوگوں میں سے ہیں جن کی روایتیں مستحکم اور صحیح ہیں۔ ...

ابو احمد بن عدی کہتے ہیں: عبد الرزاق کے بارے میں بہت سی روایتیں ہیں، اور مسلمانوں کے ثقہ لوگ اور ان کے رہنما عبد الرزاق کے پاس گئے اور ان سے روایتیں لکھیں، اور انہیں ان سے نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔

المزي، ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفاى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 18، ص56 – 60، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

ذہبی نے اپنی دوسری کتاب میں ان کا تعارف بزرگوں میں سے ایک کے طور پر کیا ہے:

عبد الرزاق بن همام بن نافع الحافظ أبو بكر الصنعاني أحد الأعلام ..

عبد الرزاق بن ہمام بن نافع، عظیم حافظ، ابوبکر صنانی بزرگوں میں سے ہیں۔ ...

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج 1، ص651، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولى، 1413هـ - 1992م.

ابن حجر عسقلانی بھی لکھتے ہیں:

عبد الرزاق بن همام بن نافع الحميري مولاهم أبو بكر الصنعاني ثقة حافظ مصنف شهير ...

عبد الرزاق بن ہمام بن نافع حمیری ثقہ، حافظ اور مشہور مصنف ہیں۔ ...

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تقريب التهذيب، ج1، ص354، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406 - 1986.

ابن حبان نے کتاب الثقات میں بھی ان کا ذکر کیا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ ثقہ ہیں:

14146 عبد الرزاق بن همام بن نافع الحميري الصنعاني كنيته أبو ...

التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد ابوحاتم (متوفاى354 هـ)، الثقات، ج 8، ص412، تحقيق: السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ – 1975م.

ابن عساکر دمشقی بھی لکھتے ہیں:

4039 عبد الرزاق بن همام بن نافع أبو بكر الحميري مولاهم الصنعاني أحد الثقات المشهورين.

عبد الرزاق بن ہمام بن نافع ابوبکر حمیری ثنانی مشہور معتبر لوگوں میں سے ہیں۔

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 36، ص 160، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995

البتہ ان کے بارے میں بہت سی سند موجود ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر ہم نے اس رقم کو محدود کر دیا ہے۔

2 ابن جریج:

اس کا نام عبدالملک بن عبدالعزیز ہے۔ اسے سنی علماء  رجال نے بھی مستند کیا ہے:

ذہبی نے ان کا تعارف اس طرح کیا:

ابن جريج ع عبد الملك بن عبد العزيز بن جريج الإمام العلامة الحافظ ...

ابن جریج سنیوں کی چھ اہم کتابوں کے راویوں میں سے ایک ہے، عبدالملک بن عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج، پیشوا، علامہ اور حافظ...

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 6، ص325، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

ابن حجر نے اپنی کتاب میں اس کےبارے میں اہل سنت  علماءکی تصریحات کو بھی ذکر کیا ہے:

الستة عبد الملك بن عبد العزيز بن جريج الأموي ...

وقال بن أبي مريم عن بن معين ثقة في كل ما روى عنه من الكتاب وقال جعفر بن عبد الواحد عن يحيى بن سعيد كان بن جريج صدوقا... وقال سليمان بن النضر بن مخلد بن يزيد ما رأيت أصدق لهجة من بن جريج ... وذكره بن حبان في الثقات ...

وقال بن خراش كان صدوقا وقال العجلي مكي ثقة..

ابن ابی مریم نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ ابن جریج کسی بھی کتاب کو روایت کرنے میں ثقہ اور قابل اعتماد ہے۔ یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ابن جریج سچے ہیں۔ سلیمان بن نضر بن مخلد بن یزید کہتے ہیں: میں نے ابن جریج سے زیادہ سچا کوئی نہیں دیکھا۔ ابن حبان نے اپنی کتاب "الثقات" میں ان کا نام ذکر کیا ہے۔ ابن خراش نے کہا: وہ سچا ہے۔ عجلی نے کہا: وہ اہل مکہ اور ثقہ میں سے ہے۔

  العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تهذيب التهذيب، ج6، ص357، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 - 1984 م.

3. عمرو بن دینار الجمعی:

ذہبی نے ان کا تعارف اس طرح کیا ہے:

عمرو بن دينار: الإمام الكبير الحافظ أبو محمد الجمحي ... أحد الأعلام وشيخ الحرم في زمانه.

عمرو بن دینار، عظیم پیشوا، حافظ ابو محمد جہمی، اپنے زمانے میں مکہ کے بزرگ اور بڑے عالم میں سے ہیں۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 5، ص300، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

ذہبی نے اپنی دوسری کتاب میں اس کے سندمیں سنی علماء  رجال کے الفاظ نقل کیے ہیں:

قال شعبة ما رأيت أحدا اثبت في الحديث من عمرو ... وقال بن مهدي قال لي شعبة لم أر مثل عمرو بن دينار ... قال عبد الله بن أبي نجيح ما رأيت أحدا قط أفقه من عمرو لا عطاء ولا مجاهدا ولا طاوسا وذكره بن عيينة فقال ثقة ثقة ثقة ... وروى نعيم بن حماد عن بن عيينة قال ما كان عندنا أحد أفقه ولا أعلم ولا أحفظ من عمرو بن دينار

شعبہ نے کہا: ہم نے روایت میں عمر بن دینار سے زیادہ ثابت قدم کسی کو نہیں دیکھا۔ ابن مہدی کے مطابق شعبہ نے کہا: میں نے عمرو بن دینار جیسا نہیں دیکھا۔ عبداللہ بن ابی نجیح نے کہا: میں نے عمرو (نہ عطا، نہ مجاہد، نہ طاؤس) سے زیادہ علم والا کسی کو نہیں دیکھا۔

ابن عیینہ نے اس کا تذکرہ کیا اور اس کے بعد تین مرتبہ فرمایا: وہ ثقہ ہے۔ نعیم ابن حماد بن عیینہ کے مطابق انہوں نے کہا: ہماری نظر میں عمر بن دینار سے زیادہ علم والا اور داناکوئی نہیں ہے۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، تذكرة الحفاظ، ج1، ص113، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولى.

تحدیب کے خلاصہ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مسعر نے اس روایت کے بارے میں تین مرتبہ لفظ "ثقہ" استعمال کیا ہے:

( ع ) عمرو بن دينار الجمحي مولاهم أبو محمد المكي الأثرم أحد الأعلام ... قال مسعر كان ثقة ثقة ثقة ..

عمرو بن دینار جمحی... بزرگوں میں سے ایک... مسعر نے کہا: وہ ثقہ ہے (تین مرتبہ)۔

الخزرجي الأنصاري اليمني، الحافظ الفقيه صفي الدين أحمد بن عبد الله (متوفاي329هـ )، خلاصة تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال، ج 1، ص 288، تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة دار النشر: مكتب المطبوعات الإسلامية/دار البشائر - حلب / بيروت،‌ الطبعة: الخامسة 1416 هـ

4 .حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب:

یہ راوی سنی کی چھ اہم کتابوں کے راویوں میں سے ایک ہے اور سنی علماء  رجال نے اس کی توثیق کی ہے۔ تعارف میں ابن حجر نے اپنی سند کو یوں نقل کیا ہے:

ع الستة الحسن بن محمد بن علي بن أبي طالب الهاشمي أبو محمد المدني وأبوه يعرف بابن الحنفية ... وعنه عمرو بن دينار وعاصم بن عمر بن قتادة ...

وقال بن سعد كان من ظرفاء بني هاشم وأهل الفضل منهم ... وقال الزهري ثنا الحسن وعبد الله ابنا محمد وكان الحسن ارضاهما في أنفسنا وفي رواية وكان الحسن أوثقهما وقال محمد بن إسماعيل الجعفري حدثنا عبد الله بن سلمة بن أسلم عن أبيه عن حسن بن محمد قال وكان من أوثق الناس عند الناس. ...

صحاح سته کے راویوں میں سے حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب ہاشمی، ان کی کنیت ابو محمد مدنی ہے اور ان کے والد ابن حنفیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ عمر بن دینار سے روایت ہے اور...

ابن سعد نے کہا: وہ بنی ہاشم کے بزرگوں میں سے تھے اور ان کے فضل کے مالک تھے۔ زہری نے کہا: حسن بن محمد ہماری نظر میں محمد حنفیہ کے سب سے پسندیدہ فرزند تھے، اور ایک اور روایت میں زہری نے کہا: وہ ان میں سب سے زیادہ امانت دار تھے۔ محمد بن اسماعیل جعفری نے کہا: وہ لوگوں کی نظر میں معتبر ترین لوگوں میں سے تھے۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تهذيب التهذيب، ج 2، ص 276، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 - 1984 م.

عجلی کوفی بھی انہیں اہل مدینہ میں سے ایک قابل اعتماد اور موثق سمجھتے ہیں:

الحسن بن محمد بن على بن أبي طالب مدني ثقة تابعي ... وهو بن الحنفية

العجلي، أبي الحسن أحمد بن عبد الله بن صالح (متوفاى261هـ)، معرفة الثقات من رجال أهل العلم والحديث ومن الضعفاء وذكر مذاهبهم وأخبارهم، ج 1، ص300، تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي، ناشر: مكتبة الدار - المدينة المنورة - السعودية، الطبعة: الأولى، 1405 – 1985م.

نووی نے یہ بھی کہا ہے کہ ہر کوئی اس کی موثق  ہونے پر متفق ہے:

الحسن بن محمد بن الحنفية ... واتفقوا على توثيقه.

النووي الشافعي، محيي الدين أبو زكريا يحيى بن شرف بن مر بن جمعة بن حزام (متوفاى676 هـ)، تهذيب الأسماء واللغات، ج 1، ص 164، تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1996م.

لہٰذا مذکورہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابوبکر نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے جسد مبارک پر نماز نہیں پڑھی۔

مندرجہ بالا روایت کو نقل کرنے کے بعد عبدالرزاق صنعاني کہتے ہیں کہ یہ روایت ایک اور (معتبر) سند کے ساتھ بھی مروی ہے:

6555 عبد الرزاق عن بن عيينة عن عمرو بن دينار عن حسن بن محمد مثله الا أنه قال اوصته بذلك.

عبد الرزاق نے ابن عیینہ کی سند سے عمرو بن دینار کی سند سے حسن بن محمد کی سند سے یہی روایت نقل کی ہے لیکن اس روایت میں یہ ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے حضرت علی سے فرمایا  مجھے رات کو دفن کر ےتاکہ ابوبکر نماز نہ پڑھ سکیں۔

مصنف عبد الرزاق ج 3، ص 521.

تیسری روایت: ابن عباس: امیر المومنین (علیہ السلام) نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے جسد مبارک پر نماز پڑھی۔

ابن سعد نے علی بن الحسین علیہ السلام سے ایک اور روایت نقل کی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے پاکیزہ جسد مبارک پر نماز پڑھی:

اخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ مَتَى دَفَنْتُمْ فَاطِمَةَ؟ فَقَالَ: دَفَنَّاهَا بِلَيْلٍ بَعْدَ هَدْأَةٍ، قَالَ: قُلْتُ: فَمَنْ صَلَّى عَلَيْهَا ؟ قَالَ: عَلِيُّ .

علی بن الحسین  علیہ السلام سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ آپ نے فاطمہ سلام اللہ علیہاکو کب دفن کیا؟ اس نے کہا: ہم نے اسے رات کو گلیوں اور شہر میں لوگوں کی آمدورفت کم ہونے کے بعد دفن کر دیا۔ میں نے کہا: ان کے لیے نمازکس نے پڑھی؟ فرمایا: علی علیہ السلام

الطبقات الكبرى ج 8 ، ص 29

چوتھی روایت: ابن شہاب زہری کہا: حضرت علی علیہ السلام نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے پاک جسد پر نماز پڑھی۔

ایک اور روایت میں ابن شہاب سے مروی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے پاک جسد پر نماز پڑھی:

7338 - حدثنا إبراهيم بن عبد الله ثنا [ محمد بن إسحاق ] [ السراج ] ثنا قتيبة ثنا الليث بن سعد عن عقيل عن [ ابن شهاب ] الزهري قال : دفنت [ فاطمة ] بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلا وصلى عليها علي رضي الله عنهما .

ابن شہاب زہری نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ کو رات کو دفن کیا گیا اور علی نے ان پر نماز پڑھی۔

الأصبهاني، أبي‌نعيم (متوفاي430هـ)، معرفة الصحابة، ج 6 ، ص 3192، دار النشر: طبق برنامه الجامع الكبير.

 ب: حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شب تدفین کے سلسلے میں سنی علماء کے اقوال۔

اس حصے میں ہم اہل سنت علماء کے اقوال کو ترتیب  کے ساتھ نقل کریں گے ، جنہوں نے بیان کیا کہ صدیق طاہرہ (سلام اللہ علیہا) کے پاکیزہ جسد پر امیر المومنین علیہ السلام نے نماز پڑھی:

1. اجلی کوفی (متوفی 261ھ)

وہ کتاب " معرفة الثقات " میں لکھتے ہیں:

2348 فاطمة بنت سيدنا محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم ... ودفنها على بن أبي طالب رضي الله عنه ليلا وغسلها وصلى عليها.

ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ  کو علی علیہ السلام رات میں غسل دیا اورنماز پڑھی اور دفن کیا۔

العجلي، أبي الحسن أحمد بن عبد الله بن صالح (متوفاى261هـ)، معرفة الثقات من رجال أهل العلم والحديث ومن الضعفاء وذكر مذاهبهم وأخبارهم، ج 2، ص 458، تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي، ناشر: مكتبة الدار - المدينة المنورة - السعودية، الطبعة: الأولى، 1405 – 1985م.

 2. سلیمان الجمال: 318ھ میں وفات پائی

وہ کتاب " حاشية الشيخ سليمان الجمل على شرح المنهج (لزكريا الأنصاري) " میں بھی لکھتے ہیں:

وغسلها علي وأسماء بنت عميس وصلى عليها وقيل عمه العباس وأوصت أن تدفن ليلا ففعل بها ذلك.

فاطمہ سلام اللہ علیہا کو علی اور اسماء بنت عمیس نے غسل دیا اور ان پر نماز پڑھی۔ اور کہا جاتا ہے کہ ان کے چچا عباس نے ان پر نماز پڑھی ۔ دفاطمہ نے رات کو دفن کرنے کی وصیت کی تھی اور علی علیہ السلام نے ان کی وصیت پر عمل کیا۔

حاشية الجمل على شرح المنهج، ج2، ص197، أبي بكر محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري (متوفاي 318ةـ) ، دار النشر : دار طيبة - الرياض - 1985م ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : د . أبو حماد صغير أحمد بن محمد حنيف

 ۳۔مسعودی (متوفی 346ھ)

مسعودی لکھتے ہیں:

وتولى غسلها أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه ودفنها ليلاً بالبقيع وقيل غيره، ولم يؤذن بها أبو بكر .

امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو غسل دینے کی ذمہ داری لی اور انہیں رات کو بقیع میں دفن کیا۔ اس نے ایک کمزور لفظ کہا اور دوسری جگہ دفن ہو گیا۔ لیکن اس نے ابوبکر کو اطلاع نہیں دی۔

المسعودي، أبو الحسن على بن الحسين بن على (متوفاى346هـ)، التنبيه والإشراف، ج 1، ص106، دار النشر : طبق برنامه الجامع الكبير.

4. ابن حبان: (متوفاي 354هـ)

 

ابن حبان لکھتے ہیں:

فدفنها على ليلا ولم يؤذن به أبا بكر ولا عمر.

علی (علیہ السلام) نے رات کو فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو دفن کیا اور عمر اور ابوبکر کو اطلاع نہیں دی۔

التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد ابوحاتم (متوفاى354 هـ)، الثقات، ج 2، ص170، تحقيق: السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ – 1975م.

اور دوسری جگہ فرماتے ہیں:

1092 فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ... وصلى عليها على ولم يؤذن بها أحدا ودفنها ليلا.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ کے  جسد مباک پر علی علیہ السلام نے نماز پڑھی اور اس تقریب کے بارے میں کسی کو اطلاع نہیں دی اور رات کو انہیں دفن کر دیا۔

الثقات ج 3، ص334

)5. ابن عبد البر (متوفاي463هـ

ابن عبد البر لکھتے ہیں:

وماتت فاطمة رضي الله عنها بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وكانت أول أهله لحوقا به وصلى عليها علي بن أبي طالب ...

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ اہل بیت میں سے پہلی شخص تھیں جواپنے بابا سے ملحق ہوءے اور  علی بن ابی طالب نے ان کے جسد خاکی پر نماز ادا کی۔

ابن عبد البر النمري القرطبي المالكي، ابوعمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفاى463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1898، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.

6 . ابن جوزي (متوفاي 597هـ)

ابن جوزي لکھتے ہیں:

توفيت فاطمة الزهراء عليها السلام بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم بستة أشهر ... وغسلها علي عليها السلام وصلى عليها وقالت عمرة صلى عليها العباس بن عبد المطلب ودفنت ليلا.

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چھ ماہ بعد ہوئی اور علی علیہ السلام نے انہیں غسل دیا اور ان پر نماز پڑھی۔ عمرہ نے کہا: عباس بن عبدالمطلب نے ان پر نماز پڑھی اور انہیں رات کو دفن کیا گیا۔

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاى 597 هـ)، صفة الصفوة، ج 2، ص 14، تحقيق: محمود فاخوري - د.محمد رواس قلعه جي، ناشر: دار المعرفة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1399هـ – 1979م.

ابن جوزی اپنی دوسری کتاب میں مسلم کے طریقے سے کہتے ہیں: حضرت علی علیہ السلام نے ان پر نماز پڑھی اور ایک ضعیف قول کے مطابق عباس یا ابوبکر نے نماز پڑھی:

وماتت فاطمة بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم بستة أشهر ... وغسلها علي وصلى عليها وقيل صلى عليها العباس وقيل صلى عليها أبو بكر

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاى 597 هـ)، تلقيح فهوم أهل الأثر في عيون التاريخ والسير، ج 1، ص 31، ناشر: شركة دار الأرقم بن أبي الأرقم - بيروت، الطبعة: الأولى 1997م.

7 . ابن اثير جزري (متوفاي630هـ)

ابن اثیر اپنی کتاب "أسد الغابة في معرفة الصحابة" میں لکھتے ہیں:

وهي أوّل من غُطِّي نعشها في الإسلام ، ثم بعده زينب بنت جحش . وصلى عليها علي بن أبي طالب . وقيل : صلى عليها العباس . وأوصت أن تدفن ليلاً ، ففعل ذلك بها .

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا جسد پہلی لاش تھی جو اسلام میں پوشیدہ تھی [یعنی اسے تابوت کے بیچ میں رکھا گیا تھا] ان کے بعد جحش کی بیٹی زینب ہیں۔ حضرت زہرا کے جسد پرعلی بن ابی طالب نے نماز پڑھی۔  اور ایک ضعیف قول کے مطابق عباس نے نمازپڑھی ۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا وصیت کی تھی اور علی نے اس وصیت کو پورا کیا۔

ابن أثير الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاى630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 244، تحقيق: عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م.

8 . مزي (متوفاي 742هـ)

میزی کتاب "تہذیب الکمال" میں لکھتے ہیں:

وماتت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وكانت أول أهله لحوقا به ، وصلى عليها علي بن أَبي طالب ...

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ کا انتقال ہو گیا اور وہ اہل بیت میں سے پہلی شخص تھیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملی اور علی بن ابی طالب علیہ السلام نے اپ پر نماز پڑھی۔

المزي، ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفاى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 35، ص252، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

9 . نووي (متوفاي 676هـ)

نووي لکھتے ہیں:

فاطمة الزهراء بنت رسول الله .... وقال الكلبي ... وغسلها علي وأسماء بنت عميس وصلى عليها علي وقيل العباس وأوصت أن تدفن ليلا ففعل ذلك بها

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا... کلبی نے کہا: ... علی علیہ السلام اور عميس کی بیٹی اسماء نے انہیں غسل دیا اور علی علیہ السلام آپ نے ان پر نماز پڑھی، اور ایک ضعیف قول کے مطابق عباس نے ان پر نماز پڑھی، وصیت کے مطابق رات کو دفن کیا۔

النووي الشافعي، محيي الدين أبو زكريا يحيى بن شرف بن مر بن جمعة بن حزام (متوفاى676 هـ)، تهذيب الأسماء واللغات، ج 2، ص 617، تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1996م.

10 . ابن كثير (متوفاي774هـ)

ابن کثیر کے بیان کے بعد کہ امیر المومنین علیہ السلام نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پرنماز پڑھی اور ایک قول یہ بھی فرمایا کہ  ابوبکر نےرنماز پڑھی لیکن وہ اس قول کو عجیب و غریب سمجھتے ہیں:

وصلى عليها علي وقيل أبو بكر وهو قول غريب .

ابن كثير الدمشقي، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفاى774هـ)، فصول من السيرة، ج1، ص 216، دار النشر: طبق برنامه الجامع الكبير.

11. ابن حجر عسقلاني (متوفاي852هـ)

اسماء بنت عمیس نے فاطمہ کو غسل نہیں دی تھی اس کی تردید کرتے ہوئے ان کا ایک تجزیہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے جسد پر نماز نہیں پڑھی:

وقد ثَبَتَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ لم يَعْلَمْ بِوَفَاةِ فَاطِمَةَ لِمَا في الصَّحِيحِ من حديث عَائِشَةَ أَنَّ عَلِيًّا دَفَنَهَا لَيْلًا ولم يُعْلِمْ أَبَا بَكْرٍ فَكَيْفَ يُمْكِنُ أَنْ تُغَسِّلَهَا زَوْجَتُهُ وَلَا يَعْلَمُ هو وَيُمْكِنُ أَنْ يُجَابَ بِأَنَّهُ عَلِمَ بِذَلِكَ وَظَنَّ أَنَّ عَلِيًّا سَيَدْعُوهُ لِحُضُورِ دَفْنِهَا وَظَنَّ عَلِيٌّ أَنَّهُ يَحْضُرُ من غَيْرِ اسْتِدْعَاءٍ منه فَهَذَا لَا بَأْسَ بِهِ وَأَجَابَ في الْخِلَافِيَّاتِ بأنه (أنه) يَحْتَمِلُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ عَلِمَ بِذَلِكَ وَأَحَبَّ أَنْ لَا يَرُدَّ غَرَضَ عَلِيٍّ في كِتْمَانِهِ منه

یہ بات یقینی ہے کہ عائشہ کی صحیح روایت کے مطابق ابوبکر کو فاطمہ کی وفات کا علم نہیں تھا، اور وہ روایت یہ ہے کہ علی نے رات کو فاطمہ کو دفن کیا اور ابوبکر کو اطلاع نہیں دی۔   تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ابوبکر کی بیوی نے ان کو غسل دیا جبکہ ابوبکر کو معلوم نہ تھا۔ یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ ابوبکر کو ان کی موت کا علم تھا، لیکن انہیں شبہ تھا کہ علی انہیں جنازہ کی تقریب میں مدعو کریں گے۔  دوسری طرف علی علیہ السلام کا خیال تھا کہ ابوبکر بغیر دعوت کے آئیں گے۔  تو اس صورت میں اسماء کی موجودگی میں کوئی حرج نہیں۔ کتاب "خلافيات" میں اس کا جواب دیا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ ابوبکر کو فاطمہ کی موت کا علم ہو، لیکن وہ اس بات کو چھپانے میں علی کے مقصد سے انکار نہیں کرنا چاہتے تھے۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تلخيص الحبير في أحاديث الرافعي الكبير، ج2، ص143، تحقيق : السيد عبدالله هاشم اليماني المدني، ناشر: - المدينة المنورة – 1384هـ – 1964م.

12. بدر الدين عيني (متوفاي 855هـ)

عینی اپنےکتاب "عمدة القاري شرح صحيح البخاري" میں لکھتے ہیں:

وغسلها علي ، رضي الله تعالى عنه ، وصلى عليها ودفنت ليلاً، وفضائلها لا تحصى ، وكفى لها شرفاً كونها بضعة من رسول الله صلى الله عليه وسلم.

علی علیہ السلام نے اسے غسل دیا اور اس پر نماز پڑھی اور رات کو دفن کیا۔ ان حضرت کے فضائل بہت زیادہ ہیں اور اس کی تعظیم کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کا حصہ تھی۔

العيني الغيتابي الحنفي، بدر الدين ابومحمد محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 3، ص174، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.

13. ملا علي قاري (متوفاي1014هـ)

ملا علی ہروی لکھتے ہیں:

تزوجها علي بن أبي طالب في السنة الثانية من الهجرة في شهر رمضان ... وغسلها علي وصلى عليها ودفنت ليلا .

ہجری کے دوسرے سال فاطمہ سلام اللہ علیہا نے علی بن ابی طالب علیہ السلام سے شادی کی اور علی علیہ السلام نے ان پر نماز پڑھی اور انہیں رات کو دفن کیا۔

ملا علي القاري، نور الدين أبو الحسن علي بن سلطان محمد الهروي (متوفاى1014هـ)، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج 1، ص 174، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2001م .

 14. حلبی (متوفی 1044ھ)

وہ لکھتا ہے:

وقال الواقدي وثبت عندنا أن عليا كرم الله وجهه دفنها رضي الله تعالى عنها ليلا وصلى عليها ومعه العباس والفضل رضي الله تعالى عنهم ولم يعلموا بها أحدا.

 واقدی نے کہا۔ ہماری رائے میں یہ ثابت ہے کہ علی (علیہ السلام) نے انہیں رات کو دفن کیا اور ان پر نماز پڑھی، عباس اور فضل ان کے ساتھ تھے اور انہوں نے کسی کو خبر نہیں دی۔

الحلبي، علي بن برهان الدين (متوفاى1044هـ)، السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون، ج 3، ص487،‌ ناشر: دار المعرفة - بيروت – 1400.

آخری بات: حضرت کے چچا عباس نے نماز پڑھی ۔

بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے جسد پر نماز پڑھی۔ اور یہ قول مدنی، واقدی، ضحاک، بلاذری، ابو نعیم اور ابن جوزی سے منقول ہے:

ذہبی واقدی کے الفاظ لکھتے ہیں:

وقال الواقدي : هذا أثبت الأقاويل عندنا . وقال : وصلى عليها العباس ، ...

واقدی نے کہا ہے: یہ ہماری رائے میں سب سے صحیح قول ہے اور اس نے کہا: عباس نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پر نماز پڑھی ۔

تاريخ الإسلام، ج 3، ص47

بیلزاری لکھتے ہیں:

وتوفيت فاطمة رضي الله تعالى عنها بعد النبي صلى الله عليه وسلم ... وصلى عليها العباس بن عبد المطلب.

فاطمہ کا انتقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوا اور عباس بن عبدالمطلب نے ان پر نماز پڑھی۔

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاى279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1، ص 178، طبق برنامه الجامع الكبير.

ضحاک بھی لکھتے ہیں:

فاطمة ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم ... وغسلها علي رضي الله عنه ودفنها ليلا وصلى عليها العباس بن عبد المطلب ...

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ  کو  علی نے غسل دیا اور رات کو دفن کیا اور عباس بن عبدالمطلب نے آپ پر نماز پڑھی۔

الشيباني، أحمد بن عمرو بن الضحاك ابوبكر (متوفاى 287هـ)، الآحاد والمثاني، ج 5، ص 354، تحقيق: د. باسم فيصل أحمد الجوابرة، ناشر:دار الراية - الرياض، الطبعة: الأولى، 1411 – 1991م.

ابن جوزی اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

فاطمة  بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم .. وصلى عليها العباس ...

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاى 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 95، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.

شیبانی کتاب الكامل في التاريخ  میں لکھتے ہیں:

وفي هذه السنة ماتت فاطمة بنت النبي ... وصلى عليها العباس بن عبد المطلب ...

ابن أثير الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاى630هـ) الكامل في التاريخ، ج 2، ص 204، تحقيق: عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.

جواب:

اول: یہ قول صرف بعض اہل سنت کا قول ہے، اور اس کا موازنہ صحیح روایات سے نہیں کیا جا سکتا، وہی روایتیں جو ثابت کرتی ہیں کہ امیر المومنین نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پر نماز پڑھی تھی۔

دوم: اس قول کے برخلاف سنی علماء کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو کہتے ہیں کہ امیر المومنین نےفاطمہ پر نماز پڑھی۔ پس چونکہ یہ قول دیگر اہل سنت علماء کی روایات اور اقوال کے خلاف ہے، اس لیے یہ شاذ ہے اور اس کی کوئی صداقت نہیں۔

سوم: عباس کا ان پر نماز پڑھنا امیر المومنین علیہ السلام کی نمازکے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ عام طور پر جو لوگ میت کی تدفین میں شریک ہوتے ہیں وہ میت کیلیے نماز پڑھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ جناب عباس نے کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر انفرادی طور پر یا فرداً فرداً جسدِ مبارک پر نماز ادا کی ہو۔

لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ ابوبکر نماز کے لیے تقریب میں بالکل موجود نہیں تھے۔ تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس فاطمہ کے جسد پر نماز پڑھی؟

نتیجہ:

مستند روایات اور اہل سنت علماء کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر المومنین (علیہ السلام) نے حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے جسد مبارک پر نماز پڑھی، اور آخر میں وہ جماعت جو  جنازہ میں شركت کے عنوان سے ایے تھے تدفین کی نماز بھی پڑھے تھے۔

سلامت رہیں

اشکالات کا جواب دینے والا گروپ

حضرت ولی عصر (عجل الله تعالي فرجه الشريف) ریسرچ انسٹی ٹیوٹ

 

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی