2024 April 27
فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امام حسین علیہ السلام کا قاتل کون ؟
مندرجات: ٢٢٦٠ تاریخ اشاعت: ٣١ August ٢٠٢٢ - ١١:١٥ مشاہدات: 1078
مضامین و مقالات » پبلک
اہل سنت کے مایہ ناز علماء کا اعتراف ۔
فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امام حسین علیہ السلام کا قاتل کون ؟

 بسمہ تعالیٰ

  اہل سنت کے مایہ ناز علماء کا اعتراف ۔

فرزند رسول  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  امام حسین علیہ السلام کا قاتل کون ؟

یزیدی گورنر کے حکم سے یزیدی کمانڈر اور یزیدی لشکر نے ہی امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا ۔

کچھ بنیادی نکات :

1:        اہل سنت کے علماء کے اعتراف کے مطابق عمر سعد کو یزیدی گورنر ابن زیاد نے ۴۰۰۰ کا لشکر دے کر پہلے الديلم کی طرف روانہ کیا ۔  پھر جب اسے  امام حسین علیہ السلام  کی کوفہ آمد کی خبر ملی تو اس نے اسی لشکر کو واپس بلا کر کربلا کی طرف امام حسین علیہ السلام   اور  ان کے ساتھیوں کو قتل کرنے کے لئے روانہ کیا اور اسی لشکر نے  ہی امام حسین علیہ السلام  کو  شہید کیا ۔ {اس کے بعض اسناد  ذیل میں پیش کی  جاے گی۔}

2  :      بعد ازاں  جب  عمر سعد   ملعون  نے امام حسین علیہ السلام  کا سر ابن زیاد ملعون کے پاس تحفے میں پیش کیا تو   اس ملعون نے  امام حسین علیہ السلام کے سر اقدس  کی شان میں گستاخی کی ۔اسی دوران  ایک  صحابی رسول  نے ابن زیاد کو ٹوکا اور  اس قتل کی نسبت اسی یزیدی گورنر اور اس کے پیروکاروں کی طرف دی۔{اس کی اسناد بھی ذیل میں پیش کریں گے ۔}

جیساکہ خود ابن زیاد بھی نہایت  پستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات پر فخر کرتا تھا کہ اس کے امیر یزید کو  حسین علیہ السلام اور ان کے شیعوں پر فتح ملی[1] ۔

اہل سنت کے علماء ابن زیاد اور عمر سعد  اور یزیدی لشکر کو ہی قاتل سمجھتے تھے

کچھ اسناد :

سند   :  ۱:   

مشہور اور اہل سنت کے قدیمی ترین کتاب کے مصنف محمد ابن سعد  نے اس واقعے کو نقل کیا ہے کہ ابن زیاد نے ۴۰۰۰ ہزار کا لشکر دے کر عمر سعد کو امام حسین علیہ السلام سے جنگ کے لئے روانہ کیا ۔

فكان عمر بن سعد بالكوفة قد استعمله عبيد الله بن زياد على الري وهمذان معه بعثا. فلما قدم الحسين بن علي العراق أمر عبيد الله بن زياد عمر بن سعد أن يسير إليه وبعث معه أربعة آلاف من جنده وقال له: إن هو خرج إليّ ووضع يده في يدي وإلا فقاتله. فأبى عليه فقال: إن لم تفعل عزلتك عن عملك وهدمت دارك. فأطاع بالخروج إلى الحسين فقاتله حتى قتل الحسين. فلما غلب المختار بن أبي عبيد على الكوفة قتل عمر بن سعد وابنه حفصا.

الطبقات الكبرى ط العلمية (5/ 128)۔المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد ، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ) تحقيق: محمد عبد القادر عطا الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت  الطبعة: الأولى، 1410 هـ - 1990 م عدد الأجزاء: 8

 

 

سند : ۲  :   امام ذھبی اس سلسلے میں لکھتا ہے:

 عُمَرُ بنُ سَعْدِ بنِ أَبِي وَقَّاصٍ الزُّهْرِيُّ …. أَمِيْرُ السَّرِيَةِ الَّذِيْنَ قَاتَلُوا الحُسَيْنَ ۔۔ عمر سعد اس لشکر کا کمانڈر تھا جن نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا ۔۔

سير أعلام النبلاء  (7/ 389  المؤلف : شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد الذَهَبي المحقق : مجموعة محققين بإشراف شعيب الأرناؤوط الناشر : مؤسسة الرسالةز

 

سند : ۳  :

مشہور مورخ ابن اثیر نے بھی اسی حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ  ابن زیاد نے  ری کی حکومت کا لالچ دے کر عمر سعد کو اام حسین علیہ السلام سے جنگ کے لئے بھیجا اور اسی لشکر کے ہاتھوں امام شید ہوئیں ۔

 فقال الحسین علیہ السللام : رأيت رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في المنام، وأمرني بأمر فأنا فاعل ما أمر.

فلما أتى العراق، كان يزيد قد استعمل عبيد اللَّه بْن زياد عَلَى الكوفة، فجهز الجيوش إليه، واستعمل عليهم عمر بْن سعد بْن أَبِي وقاص، ووعده إمارة الري.

فسار أميرًا عَلَى الجيش، وقاتلوا حسينًا بعد أن طلبوا منه أن ينزل عَلَى حكم عبيد اللَّه بْن زياد، فامتنع، وقاتل حتى قتل هو وتسعة عشر من أهل بيته،

: أسد الغابة في معرفة الصحابة (2/ 24):،المؤلف: عز الدين ابن الأثير (المتوفى: 630هـ) الناشر: دار الكتب العلمية ،الطبعة: الأولى ، سنة النشر: 1415هـ - 1994 م

 

سند : ۴   :

ابن حجر عسقلانی نے الإصابة في تمييز الصحابة میں نقل کیا ہے :

اس کا مضمون بھی یہی ہے کہ ابن زیاد ملعون نے عمر سعد کو ری کی حکومت کا لالچ دے کر کربلا امام حسین علیہ السلام سے جنگ کے لئے روانہ کیا اور اسی کے لشکر کے ہاتھوں امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب شہید ہوئیں۔

 وكان عبيد اللَّه قد جهّز الجيش لملاقاته، فوافوه بكربلاء، ۔۔۔۔۔، فلقيه الحسين وأميرهم عمر بن سعد بن أبي وقّاص، وكان عبيد اللَّه ولّاه الري، وكتب له بعهده عليها إذا رجع من حرب الحسين، ۔۔۔۔ فقاتلوه فقتل معه أصحابه۔۔۔۔

الإصابة في تمييز الصحابة (2/ 71 : المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ)  الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت الطبعة :الأولى - 1415 هـ عدد الأجزاء: 8

 

سند : ۵   :

  الاستيعاب في معرفة الأصحاب میں بھی یہ چیز نقل ہے کہ ابن زیاد نے عمر سعد کو امام سے جنگ کرنے کے لئے روانہ کیا اور اسی لشکر کے ہاتھوں آپ شہید ہوئیں۔

وقال أبو عمر: إنما نسب قتل الحسين إلى عمر بن سعد لأنه كان الأمير على الخيل التي أخرجها عبيد الله بن زياد إلى قتال الحسين، [وأمر عليهم عمر ابن سعد] [1] ، ووعده أن يوليه الري إن ظفر بالحسين وقتله، وكان في تلك الخيل- والله أعلم- قوم من مضر [2] ومن اليمن.

الاستيعاب في معرفة الأصحاب (1/ 394): المؤلف: أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) المحقق: علي محمد البجاوي الناشر: دار الجيل، بيروت الطبعة: الأولى، 1412 هـ - 1992 م عدد الأجزاء: 4

 

سند :  ۶ :

اہل سنت کا مشہور تاریخ دان ابن اثیر اور طبری   وغیرہ نے بھی  اسی بات کو نقل کیا ہے  کہ کوفہ سے عمر سعد ۴۰۰۰ کے لشکر کے ساتھ کربلا پہنچا  اور یہ وہی  لشکر   تھا جس کو پہلے عمر سعد کی سربراہی میں  دیلم کی طرف روانہ کیا تھا۔

 

قدم عليهم عمر بن سعد بن أبي وقاص من الكوفة في أربعة آلاف، وكان سبب مسيره إليه أن عبيد الله بن زياد كان قد بعثه على أربعة آلاف في دستبى، وكانت الديلم قد خرجوا إليها وغلبوا عليها، وكتب له عهده على الري، فعسكر بالناس في حمام أعين، فلما كان من أمر الحسين ما كان دعا ابن زياد عمر بن سعد وقال له: سر إلى الحسين

الكامل في التاريخ (3/ 412):تأليف: أبو الحسن علي   الشيباني،دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ، الطبعة: ط2،

تاريخ الطبري (3/ 310): المؤلف : محمد بن جرير الطبري أبو جعفر الناشر : دار الكتب العلمية – بيروت  الطبعة الأولى ، 1407

 

سند : ۷:

 اہل سنت کے مشہور مورخ  ابي القاسم علي بن الحسن اس سلسلے میں لکھتا ہے :یزید کو جب امام حسین علیہ السلام کا عراق کی طرف نکلنے کی خبر ملی تو ابن زیاد کو آپ سے جنگ کرنے  کا حکم دیا اور اسی ملعون نے عمر سعد کو امام کی طرف روانہ کیا اور کربلا میں  اسی لشکر کے ہاتھوں آپ شہید ہوئیں۔

وكان مسير الحسين بن علي بن أبي طالب ۔۔۔۔ وبلغ يزيد خروجه فكتب إلى عبيد الله بن زياد وهو عامله على العراق يأمره بمحاربته وحمله إليه إن ظفر به فوجه اللعين عبيد الله بن زياد الجيش إليه مع عمر بن سعد بن أبي وقاص وعدل الحسين إلى كربلاء فلقيه عمر بن سعد هناك فاقتتلوا فقتل الحسين رضوان الله عليه ورحمته وبركاته ولعنة الله على قاتله وكان قتله في اليوم العاشر من المحرم يوم عاشو تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل

تاريخ مدينة دمشق (14/ 213 ۔موئلف ،أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعي ، سنة الوفاة 571، الناشر دار الفكر، سنة النشر 1995۔مكان النشر بيروت،عدد الأجزاء 70

 

سند : ۸ :

الأعلام للزركلي کے مصنف نے بھی اسی حقیقت کو بیان کیا ہے :

عمر سعد ابن ابی وقاص کو عبید اللہ ابن زیاد نے ۴۰۰۰ کے  لشکر کے ساتھ جنگ کے لئے دیلم کی طرف روانہ کیا اور اسے الريّ کی حکومت دینے کا وعدہ دیا۔ لیکن جب ابن زیاد  کو معلوم ہوا کہ امام حسین علیہ السلام مکہ سے کوفہ کی طرف نکلے ہیں تو عمر سعد اور اس کے ہمراہ لشکر کو واپس کر امام حسین علیہ السلام کی طرف روانہ کیا ۔ اسی لشکر کے ہاتھوں امام حسین علیہ السلام شہید ہوئیں۔ اور بعد میں مختار ثقفی نے قاتلین امام حسین علیہ السلام کو چن چن کر جب قتل کرنا شروع کیا تو  اس کو بھی اسی جرم میں قتل کیا ۔۔۔۔

عمر بن سعد بن أبي وقاص الزهري المدني: أمير، من القادة الشجعان. سيره عبيد الله بن زياد على أربعة آلاف لقتال الديلم، وكتب له عهده على الريّ. ثم لما علم ابن زياد بمسير الحسين بن علي (رضي الله عنه) من مكة متجها إلى الكوفة، كتب إلى صاحب الترجمة أن يعود بمن معه، فعاد، فولاه قتال الحسين، فاستعفاه، فهدده، فأطاع. وتوجه إلى لقاء الحسين، فكانت الفاجعة بمقتله.

وعاش عمر إلى أن خرج المختار الثقفي يتتبع قتلة الحسين، فبعث إليه من قتله بالكوفة .

الأعلام للزركلي (5/ 47):المؤلف: خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي  ،الناشر: دار العلم للملايين الطبعة: الخامسة عشر 2002 م

 

سند : ۹  :

بدر الدين العينى اس سلسلے میں لکھتے ہیں : ابن زیاد کا باپ  زیاد بن ابی پہلے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے تھا اور جب معاویہ نے اس کو اپنے باپ کا بیٹا قرار دیا تو  یہ ان کے بدترین دشمنوں میں سے  ہونے لگا ۔اسی کا بیٹا عبید اللہ بن زیاد نے امام حسین علیہ السلام سے جنگ کے لئے لشکر کربلا روانہ کیا  اور اسی کے نتیجے میں امام حسین علیہ السلام شہید ہوئیں ۔

وَكَانَ زِيَاد من أَصْحَاب عَليّ، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، فَلَمَّا اسْتَلْحقهُ مُعَاوِيَة صَار من أَشد النَّاس بغضاً لعَلي بن أبي طَالب وَأَوْلَاده، وَعبيد الله ابْنه هُوَ الَّذِي سير الْجَيْش لقِتَال الْحُسَيْن، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، وَهُوَ يَوْمئِذٍ أَمِير الْكُوفَة ليزِيد بن مُعَاوِيَة ابْن أبي سُفْيَان، وَكَانَ جَيْشه ألف فَارس، ورأسهم الْحر بن يزِيد التَّمِيمِي وعَلى مقدمتهم الْحصين بن نمير الْكُوفِي، ثمَّ جرى مَا جرى فَأخر الْأَمر قتل الْحُسَيْن.

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (16/ 240): أبو محمد محمود بن أحمد الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت

اس کے  علاوہ اہل سنت کے اور بھی بہت سے علماء نے اس بات کو واضح طور پر بیان کیا ہے کہ ابن زیاد کے اسی یزیدی کمانڈر کے ہاتھوں امام حسین علیہ السلام کربلا میں شہید ہوئیں۔۔

چند نمونے :

صحیح بخاری کے مشہور شارح ابن حجر اس سلسلے میں لکھتا ہے :

عمر بن سعد على الجيش الذين قتلوا الحسين بن علي ومن معه۔۔ عمر سعد اس لشکر کا کمانڈر تھا جس کے ہاتھوں امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھی شہید ہوئیں ۔۔

فتح الباري - ابن حجر (5/ 367): : أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الناشر : دار المعرفة - بيروت ، 1379

 

ابن خلكان لکھتے ہیں :

فخرج الحسين إلى الكوفة وأميرها يومئذ عبيد الله بن زياد، فلما قرب منها سير إليه جيشاً مقدمه عمر بن سعد بن أبي وقاص، رضي الله عنه (4) فقتل الحسين رضي الله عنه بالطف، وجرى ما جرى.

وفيات الأعيان (6/ 353):  ،المؤلف : أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر بن خلكان ،المحقق : إحسان عباس،الناشر : دار صادر – بيروت.

 

ابن حجر عسقلانی نے عمر سعد کے بارے میں لکھا ہے :

- عمر بن سعد بن أبي وقاص الزهري المدني نزيل الكوفة عن أبيه وعنه الزهري مقته الناس لكونه أميرا على الجيش الذي قتلوا الحسين بن علي رضي الله عنهما قتله المختار سنة خمس وستين أو بعدها

: لسان الميزان (7/ 318 ، المؤلف : أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني، ناشر : مؤسسة الأعلمي للمطبوعات – بيروت ، الطبعة الثالثة ، 1406 – 1986

صاحب معرفة الثقات  اس سلسلے میں لکھتے ہیں :

عمر بن سعد بن أبي وقاص ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وهو الذي قتل الحسين قلت كان أمير الجيش

معرفة الثقات (2/ 167  ، المؤلف : أحمد بن عبد الله بن صالح أبو الحسن العجلي الكوفي ،عدد الأجزاء : الثقات للعجلي ط الباز (ص: 357):

میزان الاعتدال میں نقل ہوا ہے :

 عمر بن سعد بن أبي وقاص4، كان يروي عن أبيه أحاديث، وروى الناس عنه، وهو الذي قتل الحسين.

ميزان الاعتدال (3/ 199):

ابن زهير: سألت ابن معين أعمر بن سعد ثقة؟ فقال: كيف يكون من قتل الحسين ثقة.

ميزان الاعتدال (3/ 198):

 شمس الدين محمد بن أحمد الذهبي سنة الوفاة 748 تحقيق الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود الناشر دار الكتب العلمية سنة النشر 1995 مكان النشر بيروت

 

لہذا یہ تاریخی مسلمات میں سے ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کو یزید کے گورنر کے حکم سے عمر سعد نے شہید کر دیا ۔

 

 

3:    شیعہ پوچھتے ہیں  :

مندرجہ  حقائق کے باوجود  بعض متعصب اور جاہل لوگ  ان مجرموں کے بجائے شیعوں کو ہی  امام حسین علیہ السلام کا قاتل کہنے پر مصر رہتے ہیں ۔

ہم شیعوں کو امام کا قاتل کہنے والے سے پوچھتے ہیں :

  ابن زیاد اور عمر سعد کیا  شیعہ تھے ؟ کیا یہ دونوں دوسرے خلفاء کو ماننے والوں میں سے نہیں تھے ؟

امام حسین علیہ السلام  کے قاتلوں میں  سے ہونا مسلم ہونے کے باجود ان دونوں کو چھوڑ کر شیعوں کو ہی مورد الزام کیوں ٹھہراتے ہیں اور ان دونوں کا نام لینے سے گریز کیوں کرتے ہیں؟

 4          ہم اپنے مخالفین  کو چلینج کے ساتھ کہتے ہیں کہ  کربلا میں یزیدی لشکر میں موجود جن جن کا نام تاریخ میں ذکر ہوا ہے ان میں سے ایک ایسا نام دکھائے جو شیعہ بھی ہو اور یزیدی لشکر میں بھی ہو ، صرف ایک نام ۔۔۔۔۔

اگر ہم سے کہیں تو ہم ان سب کو ہمارے مخالفین کے ہی اسلاف {یعنی امیر المومنین  علی علیہ السلام کو خلیفہ بلا فصل نہ ماننے والے اور دوسرے خلفاء کو بھی ماننے والے}  ہونے کو ثابت کریں گے ۔۔۔۔

  5 :   یزید نے {بعض  نقلوں کے مطابق اپنے باپ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے[2]}  اپنے زنائی چچا  زاد بھائی عبیدہ اللہ  ابن زیاد   کو امام حسین علیہ السلام کے سفیر جناب مسلم کے انقلابی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے کوفے کا گورنر بنایا ۔ ٹھوس دلائل اور شواہد کی بنیاد پر اس  کو کوفہ کا گورنر بنانے کا بنیادی مقصد امام حسین علیہ السلام کے قیام کو کچلنا  اور امام کو اپنےقیام میں  کامیاب نہ ہونے دینا تھا۔ یزید اپنے اس وفادار  اور سفاک  گورنر کے طریقہ کار اور طرز عمل سے واقف تھا اور   جیساکہ کربلا کے دلخراش واقعے کے بعد بھی اس کو اسی مقام پر باقی رکھا، یزید کے پاس  اس کی عزت   کابڑھنایہاں تک کہ  مکہ اور مدینہ پر حملہ کرنے اور ان دو مقدس مقامات میں موجود  اپنے مخالفین کا قلع قمع کرنے  کے لئے اس کو کمانڈری کی پیش کش  کرنا  اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جو کچھ ہوا وہ سب یزید کی مرضی اور چاہت کے مطابق تھا [3]۔ جیساکہ اس کے گورنری کے حکم نامے میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے[4]   اور  ابن زیاد بھی   اس پوری مدت میں   یزید  کے ساتھ  رابطے میں تھا[5] ۔

 اگر ابن زیاد نے یہ سب کچھ اپنی مرضی سے انجام دیا ہوتا تو فرزند رسول اور اہل پیت پیغمبر  کا مقام  اتنا کم  تو نہیں تھا کہ یزید کم از کم   اس خود سر گورنر کو معزول کر کے امت اسلامی سے معذرت کی خاطر اسکو سزادیتا۔

لہذا  خاص کر کربلا کے واقعے  کی ذمہ داری اور اس واقعے کا اصلی مجرم  وہی ہے جس نے اس سفاک کمانڈر کو کھلی چھوٹ  دے رکھا تھا   ۔

 

 


[1]  ۔ الحمد لله الذى أظهر الحق وأهله ونصر أمير المؤمنين يزيد بن معاوية وحزبه وقتل الكذاب ابن الكذاب الحسين بن على وشيعته – تاريخ الطبري [4 /351]  الكامل في التاريخ [2 /179 - أنساب الأشراف [1 /425]

 

[2]  ۔ البداية والنهاية ط الفكر (8/ 152):

 فَعَزَلَ النُّعْمَانَ عَنِ الْكُوفَةِ وَضَمَّهَا إِلَى عُبَيْدِ الله ابن زِيَادٍ مَعَ الْبَصْرَةِ، وَذَلِكَ بِإِشَارَةِ سَرْجُونَ مَوْلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، وَكَانَ يَزِيدُ يَسْتَشِيرُهُ، فَقَالَ سَرْجُونُ: أَكُنْتَ قَابِلًا مِنْ مُعَاوِيَةَ مَا أَشَارَ بِهِ لَوْ كَانَ حَيًّا؟ قَالَ: نَعَمْ! قَالَ: فَاقْبَلْ مِنِّي فَإِنَّهُ لَيْسَ لِلْكُوفَةِ إِلَّا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ

الكامل في التاريخ (3/ 135):

 يَزِيدَ دَعَا سَرْجُونَ مَوْلَى مُعَاوِيَةَ فَأَقْرَأَهُ الْكُتُبَ وَاسْتَشَارَهُ فِيمَنْ يُوَلِّيهِ الْكُوفَةَ، وَكَانَ يَزِيدُ عَاتِبًا عَلَى عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، فَقَالَ لَهُ سَرْجُونُ: أَرَأَيْتَ لَوْ نُشِرَ لَكَ مُعَاوِيَةُ كَنْتَ تَأْخُذُ بِرَأْيِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ.

قَالَ: فَأَخْرِجْ عَهْدَ عُبَيْدِ اللَّهِ عَلَى الْكُوفَةِ.

فَقَالَ: هَذَا رَأْيُ مُعَاوِيَةَ، وَمَاتَ وَقَدْ أَمَرَ بِهَذَا الْكِتَابِ

تاريخ الطبري = تاريخ الرسل والملوك، وصلة تاريخ الطبري (5/ 356):

 فَقَالَ سرجون: أرأيت مُعَاوِيَة لو نشر لك، أكنت آخذا برأيه؟ قَالَ: نعم، فأخرج عهد عُبَيْد اللَّهِ عَلَى الْكُوفَة فَقَالَ: هَذَا رأي مُعَاوِيَة، ومات وَقَدْ أمر بهذا الكتاب فأخذ برأيه

 

 

[3] ۔جس طرح یزید نے امام سجاد علیہ السلام سے خطاب میں کہا اس سے صاف ظاہر ہے یزید اس کام پر مکمل راضی تھا ،یہاں تک کہ وہ اس کام کو اللہ کا انجام دیا ہوا کام سمجھتا تھا :  فقال لعلي بن الحسين: يا علي أبوك قطع رحمي وجهل حقي ونازعني سلطاني، فصنع الله به ما قد رأيت .....

- البداية والنهاية [8 /194] الكامل في التاريخ [2 /181] المنتظم [2 /200] تاريخ الطبري [3 /339]

[4]  ۔ جیساکہ یزید نے پہلے مدینہ کے گورنر کو خط میں لکھا : أمابعدفخذحسيناًوعبداللهبن عمر وابن الزبير بالبيعة أخذاً ليس فيه رخصة حتى يبايعوا

الكامل في التاريخ [2 /151] المنتظم [2 /190] تاريخ الطبري [3 /269]البداية والنهاية [8 /147]

جیساکہ تاريخ مدينہ دمشق میں بھی یہی نقل کیا ہے کہ یزید نے ابن زیاد کو امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے کا حکم دیا تھا:

 

فكتب إلى عبيد الله بن زياد وهو عامله على العراق يأمره بمحاربته وحمله إليه إن ظفر به فوجه اللعين عبيد الله بن زياد الجيش إليه مع عمر بن سعد بن أبي وقاص وعدل الحسين إلى كربلاء فلقيه عمر بن سعد هناك فاقتتلوا فقتل الحسين رضوان الله عليه ورحمته وبركاته ولعنة الله على قاتله وكان قتله في اليوم العاشر من المحرم يوم عاشوراء من سنة إحدى وستين

تاريخ مدينة دمشق (14/ 213):

 

ابن زیاد خود یہی کہتا تھا کہ یہ سب یزید کے حکم سے ہوا ہے : أما قتلي الحسين فإنه خرج على إمام ۔۔  وكتب إلى الإمام يأمرني بقتله، فإن كان ذلك خطأ كان لازما ليزيد، ۔الأخبار الطوال [ص 284]

ابن کثیر اسی لئے لکھتا ہے  کہ یزید نے عبیداللہ کے ہاتھوں امام حسین علیہ السلام کو قتل کروایا : أنه قتل الحسين وأصحابه على يدي عبيد الله بن زياد. البداية والنهاية [8 /243]

اسی لئے اہل سنت کے مایہ نازل عالم شمس الدین ذھبی اس کو یزید کا ہی فعل سمجھتے تھے ۔

 

یزید نے  جب اہل مدینہ کے ساتھ جو کچھ کیا(اصحاب اور  ان کے اولاد کا قتل عام اور  اصحاب کے ناموس کی بے حرمتی)  اور امام حسینؑ   اور انکے بھائیوں اور اولاد کو قتل کیا،  شراب پیا اور دوسرے برے کام انجام دیا  تو  بہت سے لوگوں نے اس کے خلاف قیام کیا.

قلت: ولما فعل يزيد باهل المدينة ما فعل وقتل الحسين وإخوته وآله ، شرب يزيد الخمر وارتكب أشياء منكرة بغضه الناس ۔۔۔۔تاريخ الاسلام ، وفيات 61 - 80 ، ص 30۔

فسر بقتلهم أولا ۔۔۔۔۔۔ /تاريخ الطبري (3/ 365)البداية والنهاية (8/ 254)

 

[5]  ۔ مثلا جناب مسلم بن عقیل اور جناب  ہانی کو شہید کرنے کے بعد ان کے سروں کو یزید کے لئے روانہ کیا ۔ یزید نے اس کا شکریہ ادا کیا

وبعث ابن زياد برأسيهما إلى يزيد، فكتب إليه يزيد يشكره/  الكاملفيالتاريخ (2/ 160،/ المنتظم (2/ 193،)

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی