2024 March 19
یکم ذی الحجۃ، امیر المؤمنین حضرت علی (ع) اور سیدۃ نساء العالمین، حضرت فاطمہ زہرا (س) کی مبارک شادی خانہ آبادی کا دن
مندرجات: ٩٥٧ تاریخ اشاعت: ٢٣ August ٢٠١٧ - ١٢:٣٥ مشاہدات: 14648
یاداشتیں » پبلک
جدید
یکم ذی الحجۃ، امیر المؤمنین حضرت علی (ع) اور سیدۃ نساء العالمین، حضرت فاطمہ زہرا (س) کی مبارک شادی خانہ آبادی کا دن

قال النبی (ص): لولا علی لم یکن لفاطمہ کفو،

اگر علی نہ ہوتے تو فاطمہ کا کوئی کفو اور ہمسر نہ ہوتا۔

قال رسول اللہ (ص): ھبط علیّ جبرئیل فقال: یا محمد! ان اللہ یقول: لو لم اخلق علیا لما کان لفاطمہ ابنتک کفو علی وجہ الارض آدم فمن دونہ۔

جب پیغمبر اسلام(ص) نے سنا کہ بعض وہ لوگ جن کے رشتہ کو جناب فاطمہ (س) کے سلسلے میں قبول نہیں کیا بہت ناراض ہیں تو آپ نے فرمایا: جبرئیل میرے پاس آئے اور کہا : اے محمد! خدا فرماتا ہے: اگر علی کو پیدا نہ کرتا تو آپ کی بیٹی کے لیے روی زمین پر آدم اور غیر آدم کے درمیان کوئی ہمسر نہ ہوتا۔

دوسری طرف سے حضرت علی (ع) کی عظمت بھی اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ ان کی ایسی ہمسر ہو جو ایمان، تقویٰ، علم و معرفت، طہارت اور پاکیزگی کے اعتبار سے ان کے مثل ہو۔ تو فاطمہ زہرا (س) کے علاوہ کوئی خاتون ان صفات کی حامل نہیں تھی۔

اور ادھر سے آسمان والے بھی فاطمہ (س) کے علاوہ کسی کو حضرت علی (ع) کی زوجہ کے لیے سزا وار نہیں سمجھتے تھے۔ اس بنا پر پیغمبر اسلام (ص) کو بھی آسمان میں علی و فاطمہ (علیہما السلام) کا عقد منعقد ہونے کے بعد حکم دیا گیا کہ زمین پر بھی اس رسم کو ادا کیا جائے۔

پس پیغمبر اسلام (ص) نے علی (ع) سے فرمایا: مسجد میں چلو میں فاطمہ کا تمہارے ساتھ عقد پڑھتا ہوں اور تمہارے فضائل کو بھی حاضرین مجلس کے لیے بیان کرتا ہوں تا کہ تم اور تمہارے چاہنے والے مسرور ہو جائیں۔

پیغمبر (ص) مسجد میں تشریف لائے اس حال میں کہ آپ کا چہره خوشی سے درخشاں تھا۔ بلال سے کہا: مہاجرین اور انصار کو بلاؤ۔

جب سب مسلمان جمع ہو گئے تو رسول خدا (ص) منبر پر تشریف لے گئے خدا کی حمد و ثنا بجا لائے، اور فرمایا: اے مسلمانو ! جبرائیل مجھ پر نازل ہوئے اور خبر دی کہ خداوند عالم نے بیت المعمور میں تمام ملائکہ کو جمع کر کے علی و فاطمہ کا عقد کروا دیا ہے اور مجھے بھی حکم دیا کہ روے زمین پر میں بھی ان کا عقد پڑھوں۔ اس کے بعد کہا اے علی ! اٹھو، خطبہ پڑھو۔

علی علیہ السلام اٹھے، خطبہ میں خدا کی حمد و ثنا کی پیغمبر سلام کی رسالت کی گواہی دی اور اس کے بعد رسمی طور پر جناب زہراء کی خواستگاری کی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی (ع) کی درخواست کو جناب فاطمہ (س) تک پہچنچایا۔ اور فرمایا: علی  بن ابی طالب ان لوگوں میں سے ہیں جن کی اسلام میں فضیلت اور عظمت ہمارے اوپر واضح ہے۔ میں نے خدا سے دعا کی کہ تمہارا عقد سب سے اچھے آدمی سے کرے اور اب وہ تمہاری خواستگاری کے لیے آئیں ہیں۔ آپ اس سلسلے میں کیا فرماتی ہیں ؟ جناب فاطمہ(س) خاموش ہو گئیں۔ لیکن اپنا چہرا پیغمبر سے نہیں موڑا اور ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ پیغمبر (ص) اپنی جگہ سے اٹھے اور فرمانے لگے:

" اللہ اکبر، سکوتھا اقرارھا "

فاطمہ (س) کی خاموشی ان کی رضایت کی دلیل ہے۔ 

پانچ سو درہم آپ کا مہر طے ہوا۔

اور بہت مختصر سا اثاثہ جہیز کے طور پر آمادہ کیا کہ جن میں سے اکثر چیزیں مٹی کی بنی ہوئی تھیں۔ پیغمبر اسلام آپ کے جہیز پر ہاتھ پھیر کے فرماتے تھے: خدایا: زندگی کو اس خاندان پر جن کی زندگی کے اکثر ظروف مٹی کے ہیں مبارک قرار دے۔

نہایت سادگی کے ساتھ جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی شادی انجام پائی۔ عقد کے ایک سال بعد رخصتی انجام پائی پیغمبر اسلام (ص) کی بیویوں نے حضرت علی (ع) سے کہا: کیوں فاطمہ کو اپنے گھر نہیں لے جا رہے ہو۔حضرت علی (ع) نے اپنی آمادگی کا اظہار کیا۔

ام ایمن پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں گئیں اور کہا: اگر خدیجہ ہوتی تو فاطمہ (س) کی شادی سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتیں۔

جب پیغمبر اکرم (ص) نے جناب خدیجہ کا نام سنا آپ کی آنکھوں میں آنسوں آ گئے۔ اور کہا : جب سب مجھے جھٹلا رہے تھے اس نے میری تصدیق کی اور دین خدا کی پیشرفت میں میری مدد کی اور اپنا سارا مال اسلام کی راہ میں خرچ کیا۔

ام ایمن نے کہا کہ فاطمہ کی شادی رچا کر ہمیں خوشی کا موقع عنایت کیجیے۔ پیغمبر اسلام (ص) نے حکم دیا کہ ایک کمرہ جناب فاطمہ (س) کے لیے سجائیں ۔ اس کے بعد رخصتی کا پروگرام طے ہوا جب رخصتی کا وقت آیا جناب فاطمہ (س) کو اپنے پاس بلایا جناب فاطمہ (س) شرم کی وجہ سے پسینے میں غرق تھیں سر کو جھکائے ہوئے پیغمبر کی خدمت میں پہنچیں پیغمبر اسلام (ص) نے ان کے حق میں دعا کی، اور فرمایا:

اقا لک اللہ العثرۃ فی الدنیا و الاخرۃ۔

خدا تمہیں دنیا اور آخرت میں محفوظ رکھے۔

اس کے بعد جناب زہرا (س) کا ہاتھ علی (ع) کے ہاتھ میں دیا اور مبارک باد پیش کی اور فرمایا:

بارک لک فی ابنۃ رسول اللہ یا علی نعمت الزوجۃ فاطمہ

خدا نے اپنے رسول کی بیٹی میں تمہارے لیے برکت قرار دی اے علی فاطمہ کتنی اچھی زوجہ ہے۔

اس کے بعد فاطمہ کی طرف رخ کیا اور فرمایا:

نعم البعل علی،

علی بھی کتنے اچھے شوہر ہیں۔

اس کے بعد دونوں کو حکم دیا کہ اپنے گھر کی طرف حرکت کریں اور سلمان فارسی کو حکم دیا کہ جناب فاطمہ کی سواری کی لگام پکڑیں اور ان کے گھر تک ساتھ جائیں۔

بحار الانوار ج 43، ص 145، 59

شروع ہی سے سب جانتے تھے کہ علی (ع) کے علاوہ کوئی دختر رسول (ص) کا کفو و ہم رتبہ نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود بھی اپنے آپ کو پیغمبر (ص) کے قریبی سمجھنے والے کئی افراد اپنے دلوں میں دختر رسول (ص) سے شادی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔

رسول اکرم (ص) اپنے چند با وفا مہاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے۔ تکبیر و تہلیل کی صداؤں نے مدینہ کی گلیوں کو ایک روحانی کیفیت بخشی تھی جبکہ دلوں میں سرور و شادمانی کی لہریں موج زن تھیں۔

مؤرخین نے لکھا ہے کہ: جب سب لوگوں نے قسمت آزمائی کر لی تو حضرت علی (ع) سے کہنا شروع کر دیا : اے علی (ع) آپ دختر پیغمبر (ص) سے شادی کے لیے اقدام کیوں نہیں کرتے ؟ تو آپ (ع) فرماتے کہ:

میرے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کی بناء پر میں اس راہ میں قدم بڑھاؤں۔

لوگ کہتے کہ: پیغمبر (ص) تم سے کچھ نہیں مانگیں گے۔

آخر کار حضرت علی (ع) نے اس پیغام کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کیا، اور ایک دن رسول اکرم (ص) کے بیت الشرف میں تشریف لے گئے لیکن شرم و حیا کی وجہ سے آپ اپنا مقصد ظاہر نہیں کر پا رہے تھے۔

مؤرخین لکھتے ہیں کہ : آپ اسی طرح دو تین مرتبہ رسول اکرم (ص) کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کہہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم (ص) نے پوچھ ہی لیا : اے علی کیا کوئی کام ہے ؟

حضرت امیر (ع) نے جواب دیا : جی ، رسول اکرم (ص) نے فرمایا : شاید زہراء سے شادی کی نسبت لے کر آئے ہو ؟ حضرت علی (ع) نے جواب دیا، جی ۔ چونکہ مشیت الٰہی بھی یہی چاہ رہی تھی کہ یہ عظیم رشتہ برقرار ہو لہذا حضرت علی (ع) کے آنے سے پہلے ہی رسول اکرم (ص) کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا۔ بہتر تھا کہ پیغمبر (ص) اس نسبت کا تذکرہ زہراء سے بھی کرتے، لہذا آپ نے اپنی صاحب زادی سے فرمایا : آپ ، علی (ع) کو بہت اچھی طرح جانتیں ہیں ، وہ مجھ سے سب سے زیادہ نزدیک ہیں ، علی (ع) اسلام سابق خدمت گذاروں اور با فضیلت افراد میں سے ہیں، میں نے خدا سے یہ چاہا تھا کہ وہ تمہارے لیے بہترین شوہر کا انتخاب کرے ۔

پیغمبر (ص) نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے ؟ علی (ع) نے فرمایا: یا رسول اللہ (ص) ایک زرہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ حضرت پیغمبر (ص) نے حضرت فاطمہ (ع) کی ساڑھے بارہ اوقیہ سونا حق مہر رکھنے کے بعد حضرت علی (ع) کے ساتھ شادی کر دی اور زرہ بھی حضرت علی (ع) کو واپس لوٹا دی۔

اعلام الوری، ج 1، ص 161

تاریخ تحقیقی اسلام، محمد ہادی یوسفی غروی، ج 2 ، ص 251

کہا گیا ہے کہ بعض مہاجرین نے اس بات پر شکوہ کیا تو حضرت پیغمبر (ص) نے فرمایا: فاطمہ کا ہاتھ علی کے ہاتھ میں، میں نے نہیں دیا بلکہ خدا نے دیا ہے۔

تاريخ يعقوبي، ج 2، ص 41

اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں آپ کی شادی علی (ع) سے کر دوں آپ کی کیا رائے ہے ؟

حضرت زہراء (س) خاموش رہیں ، پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیر کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ پھر حضرت امیر (ع) کو شادی کی بشارت دی۔

حضرت فاطمۃ                              زہرا (س)  کا حق مہر:

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا مہر 40 مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب کے ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا دیا گیا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ شادی کے وقت حضرت علی (ع) کے پاس ایک تلوار ، ایک ذرہ اور پانی بھرنے کے لیے ایک اونٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا ، پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا :

تلوار کو جہاد کے لیے رکھو ، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لیے رکھو لیکن اپنی زرہ کو بیچ ڈالو تا کہ شادی کے وسائل خرید سکو ۔ رسول اکرم (ص) نے جناب سلمان فارسی سے کہا : اس زرہ کو بیچ دو جناب سلمان نے اس زرہ کو پانچ سو درہم میں بیچا ۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئ اور اس شادی کا ولیمہ ہوا۔ جہیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرم (ص) کے گھر لایا گیا تھا ، اس میں چودہ چیزیں تھی۔

شہزادی عالم، زوجہ علی (ع)، فاطمہ زہراء (ع) کا بس یہی مختصر سا جہیز تھا۔ رسول اکرم (ص) اپنے چند با وفا مہاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے۔ تکبیروں اور تہلیلوں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ہو گئی تھی اور دلوں میں سرور و مسرت کی لہریں موج زن تھیں ۔ پیغمبر اسلام (ص) اپنی صاحب زادی کا ہاتھ حضرت علی (ع) کے ہاتھوں میں دے کر اس مبارک جوڑے کے حق میں دعا کی اور انہیں خدا کے حوالے کر دیا ۔ اس طرح کائنات کے سب سے بہتر جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا اخلاق و کردار:

حضرت فاطمہ زہرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا ، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوہر حضرت علی (ع) کے لیے ایک دلسوز، مہربان اور فدا کار زوجہ تھیں۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں۔ آپ نےشادی سے پہلے کی 9 سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور 4 سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کیے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوہر بزرگوار علی مرتضیٰ (ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گذارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گذرتا تھا۔ فاطمہ (س) اس خاتون کا نام ہے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے ذرات میں گھل مل چکا تھا۔

فاطمہ زہرا (س) نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الہٰی کو، سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچھ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا، اسے شادی کے بعد اپنے شوہر کے گھر میں عملی جامہ پہنایا ۔ وہ ایک ایسی سمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ہوں اپنے اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رہتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوہر کے حق کا دفاع کرتی تھیں۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا نظام عمل:

حضرت فاطمہ زہرا نے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لیے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔

ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا (ص) سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسول خدا (ص) نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا کے نام سے مشہورہے .34 مرتبہ الله اکبر، 33 مرتبہ الحمد الله اور 33 مرتبہ سبحان الله۔ حضرت فاطمہ اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئی کہ کنیز کی خواہش ترک کر دی۔ بعد میں رسول خدا نے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔ جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نہیں کرتی تھیں بلکہ اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں۔ وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں۔ بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے۔ اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے حرچ کا سامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھے اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا انجام دیتی تھیں۔

حضرت  فاطمہ زہرا (س) کا  پردہ:

سیدہ عالم نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتی تھیں۔ آپ کا مکان مسجدِ رسولِ سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ کبھی برقع و چارد میں نہاں ہو کر بھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا آپ کا وعظ سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس جاتے تھے اکثر رسول کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے یہ بات سیدہ کو معلوم ہوئی تو آپ نے جواب دیا عورت کے لیے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے۔ رسول خدا (ص) کے سامنے جب یہ جواب پیش ہوا تو حضرت نے فرمایا: کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک ٹکڑا ہے۔

حضرت امیر المؤمنین (ع) اور سیدہ کونین (س) کی مثالی شادی انسانیت کے لیے عظیم رہنما و اصول ہے۔ آج اس ماڈرن دور میں لوگوں نے کلچرل مسائل میں الجھ کر شادی کے مقدس نظام کو درہم برہم کر دیا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو سیرت امیر المؤمنین (ع) اور سیدہ کونین (س) کے آیئنہ میں انتہائی سادہ اور مثالی شادی کر سکتے ہیں۔ 

کائنات کے امیر اور خیر نساء العالمین (س) کی مثالی شادی نے دنیا کو یہ درس دیا کہ اگر انسان نظام ہدایت کی محوریت میں انتہائی سادہ طریقے سے شادی کرنا چاہیے اور بہت ہی نیک اور مثالی زندگی بسر کرنا چاہے تو انکے لیے حضرت علی (ع) اور حضرت زہرا (س) کی مثالی شادی آئیڈیل اور عملی نمونہ ہے۔

ازدواج حضرت علی (ع) و  فاطمہ (س):

حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی دوسری ہجری میں ہوئی اور اہل تشیع اسی مناسبت سے ذوالحجہ کی پہلی تاریخ کو جشن مناتے ہیں۔ حضرت فاطمہ (س) کا رشتہ مانگنے کے لیے کئی لوگ آئے کہ حضرت پیغمبر (ص) نے ان میں سے علی بن ابی طالب (ع) کو انتخاب فرمایا اور اسے آسمانی پیوند کہا اور فرمایا کہ فاطمہ (س) اور علی (ع) کی شادی کا فیصلہ خود خداوند متعال نے فرمایا ہے، اور مشہور قول کے مطابق حضرت زہراء (س) کا حق مہر، پانچ سو درہم تھا۔

حضرت فاطمہ (س) کا رشتہ مانگنا:

شیعہ اور سنی کے منابع میں حضرت فاطمہ (س) کا رشتہ مانگنے کے بارے میں مختلف قول نقل ہوئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ مدینہ میں، کچھ صحابہ جیسے ابو بکر، عمر ابن خطاب اور عبد الرحمن بن عوف فاطمہ (س) کا ہاتھ مانگنے کے لیے آئے، لیکن پیغمبر (ص) نے جواب میں فرمایا کہ آپ (س) کی شادی خداوند کے ہاتھ میں ہے اور فرمایا کہ میں خود اس بارے میں خدا کے حکم کا منتظر ہوں۔

ابن سعد، طبقات، ج 8، ص 11

قزوینی، فاطمة الزهراء از ولادت تا شهادت، ص 191

نکاح کا خطبہ:

ابن شہر آشوب نے مناقب آل ابی طالب میں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ (س) کی شادی کے وقت حضرت پیغمبر (ص) منبر پر گئے اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا:

الحمد لله المحمود بنعمته، المعبود بقدرته، المطاع فی سلطانه، المرغوب الیه فیما عنده، المرهوب من عذابه، النافذ امره فی سمائه وارضه، خلق الخلق بقدرته ومیّزهم باحکامه واعزّهم بدینه واکرمهم بنبیه محمّد. انّ الله جعل المصاهرة نسباً لاحقاً وامراً مفترضاً وَشَج بهاالارحام والزمها الانام. قال تعالی «هو الذی خلق من الماءِ بشراً فجعله نسباً وصهراً۔

پھر آپ (ص) نے فرمایا: خداوند نے مجھے حکم دیا ہے کہ فاطمہ (س) کا نکاح علی (ع) کے ساتھ کروں اور اگر علی راضی ہو تو چار سو مثقال چاندی حق مہر کے طور پر میں فاطمہ (س) کا نکاح علی (ع) کے ساتھ کر دوں۔ علی (ع) نے فرمایا میں اس کام پر راضی ہوں۔

مناقب آل ابی طالب، ج 3 ، ص 350

شادی کی تاریخ:

شیخ کلینی نے کافی میں امام سجاد (ع) سے قول نقل کیا ہے کہ: ہجرت مدینہ کے ایک سال بعد، رسول اللہ (ص) نے حضرت فاطمہ (س) کی شادی حضرت علی (ع) کے ساتھ کر دی۔

روضه کافی، ص 180

یہ قول، دوسرے قول جو طبری نے امام باقر (ع) سے نقل کیا ہے اس کے ساتھ سازگار ہے، جس میں بیان ہوا ہے کہ ہجری کے دوسرے سال صفر کا مہینہ شروع ہونے میں کچھ دن باقی تھے تو اس وقت علی (ع) نے حضرت فاطمہ (س) سے شادی کی۔

تاریخ طبری، ابو جعفر محمد بن جریر طبری،  ج 2، ص 410

ابو الفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبیین میں طبری کا یہی قول لکھا اور اس کے بعد کہا کہ: جنگ بدر سے واپسی پر علی (ع) نے فاطمہ (س) شادی کی۔

مقاتل الطالبین، ابو الفرج علی بن الحسین الاصفهانی، تحقیق سید احمد صقر، بیروت، دارالمعرفه، ص 30

پیغمبر (ص) نے ہجرت کے دوسرے سال، پہلی ذوالحجہ کو حضرت فاطمہ (س) کو امیر المؤمنین (ع) کے گھر بھیجا۔

بحار الانوار، علامه مجلسی، ج 43، ص 92

اس لیے شادی اور نکاح کے درمیان تقریباً دس مہینے کا فاصلہ تھا۔ شاید نکاح کا صیغہ جلدی پڑھنے کی وجہ یہ تھی کہ دوسرے رشتے مانگنے والے لوگوں کے لیے جواب واضح ہو جائے اور شادی کی دیر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ فاطمہ (س) جسمی رشد و نما کے لحاظ سے بہتر ہو جائیں۔

یوسفی غروی، محمد هادی؛ تاریخ تحقیقی اسلام، ج 2 ، ص 250

سید ابن طاؤوس نے اس شادی کی تاریخ شیخ مفید کے حوالے سے اکیس محرم الحرام ذکر کی ہے۔

سید ابن طاوس ،الاقبال،ج2 ص584

جنگ بدر سے واپسی پر ماہ شوال میں یہ شادی ہوئی۔

شیخ طوسی، الأمالی، ص 43، دار الثقافہ، قم، 1414ق.

جنگ بدر سے واپسی پر 6 ذی الحج کو ہوئی۔

شیخ طوسی، الأمالی، ص 43، دار الثقافہ، قم، 1414ق.

امام صادق (ع) کی روایت کے مطابق : ہجرت کے دوسرے سال ماہ رمضان میں حضرت على اور فاطمہ (ع) کا باہمی عقد اور شادی ذى الحجّہ میں ہوئی۔

اربلی،کشف الغمہ، ج1 ص374، دار الأضواء - بيروت - لبنان

حق مہر اور جہیز:

تاریخی منابع کے مطابق حضرت زہراء (س) کا حق مہر 400 سے 500 درہم کے درمیان تھا۔

ابن شهر آشوب، مناقب، ج 3، ص 350

متقی هندی، فاضل، کنز العمال، ج 13، ص 680

امام رضا (ع) کی حدیث کے مطابق حق مہر کی سنت، کہ جو مہر السنہ سے مشہور ہے، وہ 500 درہم معین ہوا تھا۔

علامه مجلسی، بحار الانوار، ج 93 ، ص 170

امام علی (ع) حق مہر کی ادائیگی کے لیے زرہ، بھیڑ کا چمڑا، یمنی کرتا یا اونٹ ان میں سے کوئی ایک چیز فروخت کی تھی۔ جب رقم پیغمبر (ص) کو دی تو آپ (ص) نے اس رقم کو گنے بغیر، کچھ رقم بلال کو دی اور فرمایا: اس رقم سے میری بیٹی کے لیے اچھی خوشبو خرید کر لے آؤ ! اور باقی بچی رقم ابو بکر کو دی اور فرمایا: اس سے کچھ گھر کی اشیاء جن کی ضرورت میری بیٹی کو ہو گی وہ تیار کرو۔ پیغمبر (ص) نے عمار یاسر اور کچھ اور صحابہ کو بھی ابو بکر کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ حضرت زہراء (س) کے جہیز کے لیے کچھ اشیاء تیار کریں۔

جہیز:

شیخ طوسی نے جہیز کی فہرست یوں لکھی ہے:

ایک قمیض جس کی قیمت 7 درہم تھی * برقعہ 4 درہم میں

خیبر کی تیار کردہ عبا

کجھور کے پتوں سے بنی چارپائی

دو بچھونے جن کا بیرونی کپڑا موٹی کتان کا تھا، ایک کجھور کی اون سے اور دوسرا بھیڑ کی اون سے بھرا ہوا تھا۔

طائف کے تیار کردہ چمڑے کے چار تکیے جنہیں اذخر (مکی گھاس، بوریا (چٹائی) کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے، اس کے پتے باریک ہیں جو طبی خصوصیات کی حامل ہے، سے پر کیا گیا تھا۔

اون کا ایک پردہ

ہجر میں بنی ایک چٹائی (گویا ہجر سے مراد بحرین کا مرکز ہے نیز ہجر مدینہ کے قریب ایک گاؤں کا نام بھی تھا)

ایک دستی چکی

تانیے کا طشت

چمڑے کا مشکیزہ

لکڑی کا بنا ڈونگا

دودھ دوہنے کے لیے گہرا برتن

پانی کے لیے ایک مشک

ایک مطہرہ (لوٹا یا صراحی جس کو طہارت وضو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) جس پر گوند چڑھایا گیا تھا،

مٹی کے کئی مٹکے یا جام،

کہا گیا ہے کہ شادی کے بعد ایک حاجت مند عورت نے جب حضرت فاطمہ (س) سے سوال کیا تو آپ (س) نے اپنا شادی کا جوڑا اسے دے دیا۔

یوسفی غروی، محمد هادی؛ موسوعة التاریخ الاسلام، ج 2، ص 215

شادی کا ولیمہ:

پیغمبر اکرم (ص) نے بلال حبشی کو بلایا اور فرمایا: میری بیٹی کی شادی، میرے چچا کے بیٹے سے ہو رہی ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری امت کے لیے یہ سنت ہو کہ شادی کے دن کھانا دیں۔ اس لیے جاؤ اور ایک بھیڑ اور پانچ مد جو مہیا کرو تا کہ مہاجرین اور انصار کو دعوت دوں۔ بلال نے یہ سب تیار کیا اور رسول خدا (ص) کے پاس لے آیا۔ آپ (ص) نے یہ کھانا اپنے آگے رکھا۔ لوگ پیغمبر (ص) کے حکم پر گروہ در گروہ مسجد میں داخل ہوئے اور سب نے کھانا کھایا جب سب نے کھا لیا تو کچھ مقدار میں جو بچ گیا تھا اسے آپ (ص) نے متبرک کیا اور بلال سے فرمایا: اس کھانے کو عورتوں کے پاس لے جاؤ اور کہو: یہ کھانا خود بھی کھائیں اور کوئی بھی اگر ان کے پاس آئے تو اسے بھی اس کھانے سے دیں۔

شهیدی، زندگانی فاطمه زهرا، ص 72

ابن سعد، طبقات، ج 8، ص 22

پیغمبر اسلام (ص) کی دعا:

شادی کے ولیمے کے بعد رسول خدا (ص) علی (ع) کے ہمراہ گھر میں داخل ہوئے اور فاطمہ (س) کو آواز دی۔ جب فاطمہ (س) نزدیک آئیں، تو دیکھا کہ رسول اللہ (ص) کے ساتھ حضرت علی (ع) بھی ہیں۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: نزدیک آ جاؤ۔ فاطمہ (س) اپنے بابا کے نزدیک آئیں۔ رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (س) کے ہاتھ کو پکڑا اور جب فاطمہ (س) کا ہاتھ علی (ع) کے ہاتھ میں دیا تو فرمایا: خدا کی قسم میں نے تمہارے حق میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور تمہاری عزت کی اور اپنے خاندان کے بہترین فرد کو تمہارے لیے انتخاب کیا خدا کی قسم تمہاری شادی ایسے فرد سے کر رہا ہوں جو دنیا اور آخرت میں سید و آقا اور صالحین سے ہے... اپنے گھر کی طرف جائیں۔ خداوند یہ شادی آپکے لیے مبارک فرمائے اور آپکے کاموں کی اصلاح فرمائے۔ رسول خدا (ص) نے اسماء بنت عمیس سے فرمایا: ایک برتن میں میرے لیے پانی لے آؤ اسماء فوراً گئیں اور ایک برتن پانی کا بھر کر لے آئیں۔ آپ (ص) نے پانی کا ایک چلو بھرا اور اسے حضرت فاطمہ (س) کے سر پر ڈالا اور پھر ایک چلو بھرا اور آپ (س) کے ہاتھوں پر ڈالا اور کچھ پانی آپ (س) کی گردن اور بدن پر ڈالا۔ پھر فرمایا: خدایا فاطمہ مجھ سے ہے اور میں فاطمہ سے ہوں۔ پس جس طرح ہر پلیدی کو مجھ سے دور کیا اور مجھے پاک و پاکیزہ کیا ہے، اسی طرح اس کو بھی پاک و طاہر کر دے اس کے بعد فاطمہ (س) سے فرمایا کہ یہ پانی پئیں اور اس سے اپنے منہ کو دھوئیں اور ناک میں ڈالیں اور کلی کریں۔ پھر پانی کا ایک اور برتن طلب کیا اور علی (ع) کو بلایا اور یہی عمل دہرایا اور آپ (ع) کے لیے بھی اسی طرح دعا فرمائی اور پھر فرمایا: خداوند آپ دونوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے لیے نزدیک اور مہربان کرے اور آپکی نسل کو مبارک کرے اور آپکے کاموں کی اصلاح کرے۔

ابن سعد، طبقات، ج 8، ص 22

پیغمبر (ص) کی ہمسایگی میں نقل مکان:

شادی کے کچھ دن گزرنے کے بعد، پیغمبر (ص) کے لیے فاطمہ (س) کی دوری مشکل ہو گئی اس لیے سوچا کہ بیٹی اور داماد کو اپنے گھر میں ہی جگہ دی جائے۔ حارث بن نعمان جو کہ آپ (ص) کا صحابی تھا جب وہ اس خبر سے آگاہ ہوا تو پیغمبر (ص) کے پاس آیا اور کہا: میرے سب گھر آپ کے نزدیک ہیں۔ میرے پاس جو کچھ بھی ہے سب آپ کا ہی ہے۔ خدا کی قسم میں چاہتا ہوں کہ میرا مال آپ لے لیں یہ اس سے بہتر ہے کہ یہ میرے پاس ہو۔ پیغمبر (ص) نے اس کے جواب میں فرمایا: خدا تمہیں اس کا اجر دے۔ اس طرح سے حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (س) رسول خدا (ص) کے ہمسائے بن گئے۔

شهیدی، زندگانی فاطمه زهرا، ص 73

حضرت امام علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی ازدواجی زندگی:

یہ چیز انتہائی ضروری ہے کہ ہماری نوجوان نسل خاندانی، ازدواجی اور مشترکہ زندگی کی تشکیل میں اسلامی تہذیب و تمدن کے اصولوں اور معصوم پیشواؤں (ع) منجملہ حضرت امام علی (ع) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی عملی زندگی اور سیرت کی پیروی کریں، کیونکہ اس خاندان کی مشترکہ زندگی میں ایسے قیمتی نکات پائے جاتے ہیں جو ایک ازدواجی زندگی کی تشکیل میں سب کے لیے سبق آموز ہو سکتے ہیں۔

حضرت امام علی (ع) اور حضرت زہرا (س) کی مشترکہ ازدواجی زندگی سے چند نکات ہمیں درس کے طور پر نظر آتے ہیں:

1۔ بہترین میاں بیوی:

شادی کے بعد جب حضرت زہرا (س) ،حضرت امام علی (س) کے گھر تشریف لے گئیں تو ایک دن رسول خدا (ص) دودھ سے بھرے ایک ظرف کے ساتھ ان سے ملنے کے لیے تشریف لائے۔ اس ملاقات کے دوران آپ (ص) نے اپنے داماد گرامی حضرت امام علی (ع) سے پوچھا کہ یا علی! آپ نے اپنی شریک حیات کو کیسا پایا ہے ؟ آپ نے جواب دیا :

نعم العون علی طاعتہ اللہ،

زہرا (س) خدا کی عبادت و اطاعت کے سلسلے میں بہترین مدد گار ہیں۔

اس کے بعد آپ (ص) نے حضرت فاطمہ زہرا (س) سے سوال فرمایا کہ علی (ع) کیسے شوہر ہیں ؟ تو آپ (س) نے جواب دیا :

خیر بعل علی،

 علی بہترین شوہر ہیں۔

یہ سننے کے بعد پیغمبر (ص) نے ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔

مناقب آل ابی طالب (ع) ، ابن شہر آشوب، ج3،ص 356

2- شادی کی رات راہ خدا میں بخشش و انفاق کرنا:

شادی کی رات پیغمبر خدا (ص) نے اپنی لخت جگر حضرت زہرا (س) کو ایک نئی قمیص دی تا کہ وہ اسے اس رات پہن سکیں، شب زفاف آپ مصلائے عبادت پر بیٹھی خداوند متعال سے راز و نیاز کر رہیں تھیں کہ اچانک ایک سائل نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اونچی آواز سے کہا، نبوت و رسالت کے گھرانے سے میں ایک پرانے لباس کا سوال کرتا ہوں۔

حضرت زہرا (س) نے چاہا کہ سائل کو اس کے سوال کے مطابق پرانا لباس دیں، اچانک آپ کے سامنے قرآن کریم کی یہ آیت آئی جس میں خداوند متعال فرماتے ہیں کہ :

لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون،

تم ہر گز نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ خدا میں انفاق نہ کرو۔

سورۃ آل عمران، آیت 92   

حضرت زہرا (س) جو کہ جانتی تھیں کہ اس نئے لباس سے زیادہ محبت کرتی ہیں، آپ نے اس آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے وہی لباس سائل کو دے دیا۔ دوسرے دن جب رسول خدا (ص) نے حضرت زہرا کے جسم اطہر پر پرانا پیراہن دیکھا تو پوچھا کہ اے میرے جگر کے ٹکڑے ! آپ نے نیا پیراہن کیوں نہیں زیب تن کیا ہوا ؟ آپ (س) نے جواب دیا کہ وہ میں نے سائل کو دے دیا ہے۔ اور عرض کیا : بابا جان ! میں نے یہ روش آپ سے سیکھی ہے ، جب میری مادر گرامی حضرت خدیجتہ الکبری (س) آپ کی شریک حیات بنیں تو انھوں نے آپ کے راستے میں اپنی ساری دولت و ثروت فقراء و غرباء کے درمیان تقسیم کر دی اور صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ جب ایک سائل آپ کے دروازے پر آیا اور اس نے ایک پرانے لباس کا سوال کیا تو گھر میں کوئی پرانا لباس تک موجود نہیں تھا، جو اسے دیا جاتا ! آپ نے اپنا پیراہن اتارا اور سائل کے حوالے کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی:

و لا تبسطھا کل البسط فتقعد ملوما محسورا.

سورۃ اسراء آیت 29

رسول خدا (ص) اپنی دختر گرامی حضرت فاطمہ زہرا (س) کی محبت اور اخلاص سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

نزھتہ المجالس، صفوری، مصر،قاہرہ، بی تا ، ج2، ص 226

علل الشرایع، شیح صدوق، نجف الحیدریہ،1385 ق، ج 1، ص 178

3۔ شوہر کی اطاعت:

حضرت زہرا (س) اپنے شوہر نامدار حضرت امام علی (ع) کی اس حد تک مطیع و فرمانبردار تھیں کہ اپنے آپ کو ان کی کنیز سمجھتی تھیں۔ روایات میں آپ (س) کہے ہوئے یہ الفاظ ملتے ہیں۔

البیت بیتک والحرہ امتک،

یا علی ! یہ آپ کا گھر ہے اور میں آپ کی کنیز ہوں۔ (آپ جو بھی فرمائیں مجھے منظور ہے۔)

4- گھرمیں کام کرنا:

بہت سی روایات میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ حضرت زہرا (س) ہمیشہ گھر کے اندر کے کاموں کو گھر سے باہر کے کاموں پر ترجیح دیتی تھیں اور جہاں تک ممکن ہوتا گھر سے باہر نہیں نکلتی تھیں، بلکہ آپ (س) پسند فرماتی تھیں کہ ممکنہ حد تک گھر سے باہر کے ماحول کو نہ دیکھیں اور نامحرموں کے درمیان نہ جائیں۔

خلاصہ تاریخ اسلام، ہاشم رسول محلاتی، تہران، اسلامیہ، ج 2 ، ص 212    

ایک روایت میں حضرت امام جعفر صادق (ع) سے منقول ہے کہ حضرت امام علی (ع) اور حضرت زہرا (س) گھر کے کاموں کی تقسیم کے سلسلے میں رسول خدا (ص) کی خدمت اقدس میں تشریف لے گئے، پیغمبر خدا نے فرمایا : گھر کے اندر کے کام فاطمہ کے ذمہ ہیں اور گھر سے باہر کے کام علی کے ذمہ ہیں۔

حضرت فاطمہ (س) اس تقسیم سے اتنی خوش ہوئیں کہ فرمایا: خدا کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ میں اس تقسیم سے کس حد تک خوش ہوئی ہوں کہ میرے والد بزرگوار نے اس تقسیم کے ساتھ مردوں سے میل جول کی ذمہ داری میری گردن پر نہیں ڈالی۔

بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ج 43، ص 81    

5- باہمی عزت و احترام:

حضرت علی (ع) اور حضرت زہرا (س) کی مشترکہ زندگی میں جو نکات قابل غور ہیں ان میں سے ایک نکتہ ان کا باہمی احترام ہے۔ امام علی (ع) فرماتے ہیں کہ:

خدا کی قسم جب تک زہرا زندہ رہیں میں نے کبھی بھی انہیں پریشان نہیں کیا، انہیں غصہ نہیں دلایا اور انہیں کسی کام پر مجبور نہیں کیا اور زہرا (س) نے بھی مجھے کبھی بھی پریشان نہیں کیا اور کسی بھی کام میں میری نافرمانی نہیں کی۔

المناقب، خوارزمی، قم، مکتبہ المفید، بی تا، ص 256   

حضرت زہرا (س) شہادت کے وقت اس حقیقت کو اپنی زبان مبارک پر لائیں اور حضرت علی (ع) سے پوچھا: یا علی: ہماری مشترکہ زندگی میں کیا اپ نے کبھی مجھ سے جھوٹ سنا یا کوئی خیانت دیکھی ؟ یا میں نے کبھی آپ کے احکامات کی خلاف ورزی کی ؟

حضرت علی (ع) نے جواب میں فرمایا: خدا کی پناہ ! اے بنت پیغمبر آپ خدا کی نسبت دانا تر ،پرہیز گار تر ،با عظمت تر اور اس سے خدا ترس تر ہیں کہ میں اپنی مخالفت اور نافرمانی کے سلسلے میں آپ کی سر زنش کروں۔

بحار الانوار ، مجلسی،ج 43، ص 191  

حضرت زہرا (س) شروع ہی سے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیتی تھیں اور انھیں حصول علم پر مائل کرتی تھیں۔ اسی سلسلے میں روایات میں آیا ہے کہ ایک دن آپ (س) نے اپنے فرزند ارجمند امام حسن (ع) سے جو کہ تقریبا سات سال کے تھے (اس کے باوجود کہ آپ جانتی تھیں کہ وہ امام ہیں اور علم لدنی کے مالک ہیں) فرمایا: بیٹا مسجد میں جائیں اور اپنے جد بزرگوار سے جو کچھ سنیں اسے یاد کر کے میرے پاس آئیں اور مجھے سنائیں۔

بحار الانوار ، مجلسی،ج 43، ص 238  

7- بچوں کے ساتھ کھیلنا:

بچوں کی فطری اور طبیعی ضروریات میں سے ایک ضرورت کھیلنا ہے کیونکہ ان کے لیے جسمی اور فکری ورزش دونوں ضروری ہیں۔ اس لیے کہ کھیل ان کی روح اور جان کو فرحت بخشتا ہے اور ان میں نشاط پیدا کرتا ہے۔ حضرت زہرا (س) جو کہ اس نکتے سے بخوبی آگاہ تھیں ، اپنے فرزند گرامی امام حسن (ع) کو ہاتھوں پر لے کر اوپر کی طرف اچھالتیں اور فرماتیں : اے میرے بیٹے : اپنے والد بزرگوار کی طرح بننا اور حق سے ظلم کی رسی کو دور پھینک دینا ، خدا جو کہ تمام نعمتوں کا مالک ہے اس کی عبادت کریں اور تاریک دل افراد کے ساتھ تعلق نہ رکھیں۔

اعیان الشیعہ ، سید محسن امین ، ج 1، ص 563

8- بچوں کے درمیان عدالت:

بچوں کی تربیت کے سلسلے میں حضرت زہرا (س) اسوہ و نمونہ تھیں اور ایک ماں کی ذمہ داریوں کو خوب نبھاتی تھیں۔ اولاد کی تربیت کے سلسلے میں قابل توجہ نکات میں سے ایک نکتہ آپ کا اولاد کے درمیان عدالت سے کام لینا ہے۔ یہ واقعہ اسی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے:

امام حسن (ع) و امام حسین (ع) اپنے جد گرامی رسول خدا (ص) کے سامنے کشتی لڑ رہے تھے ، رسول خدا حسن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مسلسل فرما رہے تھے :حسن بیٹا ! اٹھیں اور حسین کو زمین پر گرا دیں۔

حضرت زہرا (س) یہ منظر دیکھ کر حیران ہوئیں اور پوچھا : پدر جان ! حسن بڑا ہے اور حسین چھوٹا ہے اور آپ بڑے کی حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں ؟

رسول خدا (ص) نے فرمایا : یہ جبرائیل حسین کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے اور میں اس کے مقابلے میں حسن کی حوصلہ افزائی کر رہا ہوں۔

بحار الانوار ، مجلسی، ج 43، ص 265 و 268

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور شوہر داری کے اصول:

ایک ایسا دور جس میں انسانیت کا نام و نشان نہیں تھا اور انسان  حیوانی صفت کو اپنانے پر فخر محسوس کرتا تھا، عورت کی ذات کو  اپنے لیے ذلت و رسوائی سمجھتا تھا ہر طرف ظلم و ستم کی تاریکی چھائی ہوئی تھی ایک ایسے دور میں شہزادی دو عالم  نے آ کر اس جاہل معاشرے کو سمجھا دیا کہ ایک لڑکی باپ کے لیے زحمت نہیں بلکہ ہر دور میں رحمت ہوا کرتی ہے جو معاشرہ بیٹی کو اپنے لئے باعث ذلت و رسوائی سمجھتا تھا، وہ معاشرہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا جس کو شہزادی دو عالم نے آ کر روشن کر دیا۔

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ایسی با عظمت خاتون ہیں جن کی فضیلت کے لیے  اتنا کافی ہے کہ رسول گرامی اسلام نے فرمایا  : فاطمہ میرا ٹکڑا ہے،

شیخ طوسی ،امالی ج 1 ص 24

آپ (س) کی فضیلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ امام علی (ع) جیسی شخصیت آپ (س) کے وجود پر افتخار کرتی ہوئی نظر آتی ہیں آپ کی زندگی کے ہر شعبے میں آپ کی فضیلت نمایاں ہیں۔ آپ کی فضیلت میں قران کریم مدح سرائی اور قصیدہ گوئی میں نظر آتی ہے  آپ ہی کی ذات گرامی کو لیلۃ القدر سے تعبیر کیا گیا ہے ، تفسیر فرات کوفی میں امام جعفر صادق (ع) سے روایت ہے کہ:

انا انزلنا ہ فی لیلۃ القدر، میں " لیلۃ " سے مراد فاطمہ سلام اللہ علیھا کی ذات گرامی ہے اور " قدر " سے  پروردگار عالم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے آپ کی حقیقی معرفت تک رسائی ممکن نہیں بنی نوع انسان آپ کی معرفت سے عاجز ہے۔

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی علمی فضیلت کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ آپ فرشتوں سے ہم کلام تھیں۔ آپ کا قلب علی و پیغمبر کے قلوب کی طرح نورانی تھا۔ آپ جب تک زندہ رہی امام وقت کی پشت پناہی میں ایک مضبوط پہاڑ کی مانند کھڑی رہیں اور ایک لمحے کے لیے بھی ولایت کو تنہائی کا احساس ہونے نہیں دیا۔ آپ کی فضیلت بشریت کی زبان سے ممکن نہیں آپ اولین و آخرین میں تمام عورتوں سے اٖفضل ہیں اور آپ کی ذات گرامی عالمین کے لیے نمونہ ہے۔ آپ کی عظمت کا موازنہ کسی سے نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی آپ  کی عظمتوں کو بیان کیا جا سکتا ہے۔

شہزادی کونین حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کا نکاح:

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں کہ: میری بیٹی کا کفو خانہ زاد خدا کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔

نورالانوار ، شرح صحفیہ سجادیہ

لیکن آپ (س) کے سن بلوغ تک پہنچتے ہی آپ کے لیے رشتے کے پیغامات آنے شرع ہو گئے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ بڑے بڑے صحابہ رسول نے پیغامات بھیجے، لیکن آپ ان کے جواب میں غضبناک ہوئے اور ان سے منہ پھیر لیا۔

کنز العمال،ج7،ص113

عبد الرحمن نے بہت زیادہ مہر کا کہا تو آپ نے فرمایا تمہاری بات افسوناک ہے تمہاری درخواست قبول نہیں کی جا سکتی۔

بحار الانوار ،ج10،ص 14

اس کے بعد حضرت علی نے درخواست کی تو آپ نے فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) کی مرضی دریافت فرمائی تو آپ (س) چپ رہی یہ ایک طرح کا اظہار رضا مندی تھا۔

سیرۃ النبی،ج1،ص261

اس کے بعد آپ س کی شادی ہو گئی۔ علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ پیغام محمود نامی ایک فرشتہ لے کر آیا تھا۔ 

بحار الانوار ،ج1 1 ص 35

بعض علماء نے جبرائیل کا حوالہ دیا ہے۔ غرض کہ حضرت علی (ع) نے 500 درہم میں اپنی زرہ عثمان کے ہاتھوں فروخت کی اور اسی کو مہر قرار دے کر بتاریخ یکم ذی الحجہ 2 ہجری حضرت فاطمہ (س) کے ساتھ عقد کیا۔ اس طرح شہزادی دو عالم کی شادی انتہائی سادگی کے ساتھ انجام پائی اگرچہ رسول گرامی اسلام اپنی لخت جگر کو اعلی درجے کا جہیز دے سکتے تھے، مگر امت کی آسانی کی خاطر ایسا نہ کیا۔

ہماری شادیوں اور سیدہ سلام اللہ علیہا کی شادی میں فرق:

ہم سب کو معلوم ہے ہماری شادیوں کی تقریب کس طرح انجام پاتی  ہے اور ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہے کہ ہم اللہ کے رسول اور ان کی اہل بیت کے طور طریقے کو کس طریقہ سے انجام دیتے ہیں۔ بتانا تو صرف یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو محبان اہلبیت ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ کیا ہم اپنی رسومات کو ان کے طریقوں کے مطابق انجام دیتے ہیں ؟ ہم نے کھبی سوچا ہے کہ ہماری بیٹیاں سیدہ کی خاک پا کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ پھر اُس رسول کی بیٹی کی شادی نہایت ہی سادگی سے ہو اور ہمیں اپنے بیٹیوں کی شادی سادگی کے ساتھ منانے میں شرم محسوس کیوں ہوتی ہے ؟، کیا ہم رسول اکرم سے زیادہ عزت دار ہیں کہ سادگی سے ہماری عزت کو خطرہ لاحق ہے ؟ آپ اگر چاہتے تو اپنی بیٹی کے لیے بہت کچھ دے سکتے تھے مگر آپ نے صرف امت کی آسانی کی خاطر آسان ترین راستے کو اپنایا تا کہ ہم جب اپنی بیٹیوں کی شادی کریں تو آپ (ص) کی بیٹی کو یاد کریں جس سے ہمیں اپنے غریبی اور مسکینی ہونے پر رونا نہیں آئے گا۔ اسلام نے اپنی حیثیت سے آگے بڑھنے کا حکم نہیں دیا۔  اسلام نے قرضے لے کر شادی کرنے کا حکم نہیں دیا  جس سے بیٹی کی شادی تو ہو جاتی ہے، مگر افسوس والدین ہمیشہ کے لیے فروخت ہو جاتے ہیں۔ یہ درست ہے ہم اپنی بیٹی سے پیار کرتے ہیں مگر خاتم الانبیا سے بڑھ کر کوئی اپنی بیٹی سے محبت نہیں کر سکتا۔

اُصول شوہر داری:

عورتوں کا جو ذاتی حق ہے، وہ شوہروں کی خدمت اور امور خانہ داری میں کمال حاصل کرنا ہے۔ فاطمہ زہرا (س) نے علی (ع) کی ایسی خدمت کی کہ مشکل سے اس کی مثال ملتی ہے۔ ہر مصیبت اور تکلیف میں فرمانبرداری پر نظر رکھی۔ جس طرح جنابِ خدیجہ (س) نے اسلام اور پیغمبر اسلام کی خدمت کی، اسی طرح بنتِ رسول نے اسلام اور علی کی خدمت کی۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح رسول کریم نے خدیجہ کی موجودگی میں دوسرا عقد نہیں   کیا۔ حضرت علی نے بھی فاطمہ کی موجودگی میں دوسرا عقد نہیں کیا۔

مناقب، ابن شہر آشوب ،ص،8

حضرت علی (ع) سے کسی نے پوچھا کہ فاطمہ (س) آپ کی نظر میں کیسی تھیں ؟ فرمایا: خدا کی قسم وہ جنت کا پھول تھیں۔ دنیا سے اٹھ جانے کے بعد بھی میرا دماغ ان کی خوشبو سے معطر ہے۔ آپ نے شوہر کے ساتھ بہترین زندگی گزار کر ایک عورت کو شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کے اصول بتا دیئے وہ اصول یہ ہیں:

1۔ امور خانہ داری:

عورت چاہے تو اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے۔ جناب سیدہ نے ہر لحاظ سے اپنے گھر کو جنت بنا رکھا تھا، گھر میں اگرچہ کچھ زیادہ سامان نہیں تھا مگر آپ نے گھر کی ہر چیز نہایت سلیقہ سے سجا رکھی تھی۔ آپ اپنا زیادہ وقت عبادت میں بسر کرتی اور کثرت عبادت کے باوجود آپ امور خانہ داری میں بھی خاص توجہ رکھتی تھیں گھر کے تمام کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتی آپ چکی پیستی تھیں ، جس سے آپ کے ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے ، کنویں سے خود پانی بھر کر لاتیں اور خود کھانا تیار کرتی یہ تمام کام ایک خاص سلیقے سے انجام ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مولا علی فرماتے ہیں:

فاطمہ جیسی سلیقہ شعار خاتون میں نے نہیں دیکھی اور جب پیغمبر اسلام سے سوال کیا گیا تھا کہ اگر عورتوں پر میدان جہاد میں جانا ساقط ہے تو پھر ان کا جہاد کیا ہے ؟ آپ (ص) نے فرمایا:

جہاد المراۃ حسن التبعل،

ہر عورت کا جہاد اسکا اچھے طریقے سے شوہر داری کرنا ہے۔

وسائل الشیعہ،ج12 ص116

یعنی شوہر کو خوش رکھنا امور خانہ داری اور بچوں کی صحیح تربیت کرنا ہی عورت کا جہاد ہے۔

بحار الانوار،ج 10، ص 99

آپ سلام للہ علیھا نے اپنے بچوں کی تربیت ایسی کی جو دین اسلام کے لیے سرمایہ بن گئی گھر کے سب کام آپ انجام دیتی اور کبھی جناب امیر بھی مدد کرتے اور ہاتھ بٹاتے یہ تمام کردار ہمارے لیے نصیحت ہے کہ شوہر کو گھر کے کاموں میں زوجہ کا مددگار ہونا چاہیے۔

فاطمہ کی عظمت از مولانا کوثر نیازی ،ص5

2۔ زوجہ شوہر کی مددگار اور سہارا:

رسول اکرم (ص) نے امام علی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

سلام علیکم یا ابا الریحانتین فعن قلیل ذھب رکناک،

یعنی سلام ہو تجھ پر اے حضرت زینب اور ام کلثوم کے باپ بہت جلد تم سے دو دوست یا سہارے جدا ہو جائیں گے،

مولا علی نے رسول اکرم کی شہادت کے بعد فرمایا تھا کہ: یہ ایک سہارا تھا جو مجھ سے جدا ہو گیا ،، اور حضرت زہرا کی شہادت کے بعد فرمایا: یہ دوسرا سہارا تھا جو مجھ سے جدا ہو گیا اس حدیث میں امام علی نے حضرت زہرا کو اپنی زندگی کا مکمل سہارا اور ستون قرار دیا اور زندگی کے کسی موڑ پر آپ کو تنہا نہیں چھوڑا۔ جب حضرت رسول خدا (ص) مولائے کائنات سے اپنی بیٹی اور پارہ جگر کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ : اے علی ! فاطمہ کو کیسا پایا ؟ تو علی عرض کرتے ہیں:

نعم العون علیٰ طاعۃ اللہ،

یعنی خداوند کی اطاعت پر بہترین مددگار پایا۔

یہ ایسا عمل ہے جس کا ہر ایک شادی شدہ جوڑے میاں بیوی کی زندگی کا شیوہ ہونا چاہیے کہ اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں خدا کی اطاعت کا خاص خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے معاون و مددگار بنے اس لیے جب تعاون اور محبت کی بنیاد اللہ کی اطاعت پر ہو گی تو کبھی اس تعاون اور محبت میں کمی نہیں آ سکتی۔

بحار الانوار،ج1،ص117

3۔ مصائب و الام میں صبر:

قران مجید فرماتا ہے :

انّ اللہ مع الصابرین،

یعنی اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ،

سورہ بقرہ،آیت 153

اگر ہم جناب سیدہ کی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ  آپ کی زندگی میں بہت سے مصائب اور مشکلات پیش آئیں لیکن آپ نے ہمیشہ صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے شوہر کا ساتھ دیا اور کھبی خوف زدہ نہیں ہوئی اور دنیا کی تمام آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیا کہ اگر راہ حق میں مصائب پڑے تو گھبرانا نہیں چاہیے، اگر رب ساتھ ہے تو کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کہ اللہ ہمیشہ مظلوموں اور صابروں کا ساتھ دیتا ہے۔

4۔ زوجہ  شوہر کے لیے باعث سکون ہے:

شہزادی کونین (س) شادی کے بعد " انا خلقناکم ازواجا لتسکنوا الیھا، کا حقیقی مصداق بنی یعنی آپ کی ذات گرامی امیر المؤمنین کے لیے باعث آرامش اور سکون تھی شہزادی کی شہادت کے بعد آپ نے شہزادی سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اے بنت محمد! مجھے سکون کیسے ملے گا تم ہی تو میرا سکون اور سبب اطمینان تھی۔

5۔ تربیت اولاد میں زوجہ کا کردار:

زوجہ کی  سب سے بڑی ذمہ داری تربیت ولاد ہے۔  تربیت اولاد ایک چھوٹا جملہ ہے مگر اس میں ایک ماں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے ۔ تربیت صرف اسی کا نام نہیں ہے کہ اولاد کے لیے لوازم زندگی اور عیش و آرام فراہم کر دیئے  جائیں اور بس …… بلکہ یہ لفظ والدین کو ان کے ایک عظیم وظیفہ کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے اولاد کا کسی عہدہ پر فائز ہونا بھی تربیت والدین کی مرہون منت ہے۔ جناب فاطمہ اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ انہیں اماموں کی پرورش کرنی ہے ایسے بچوں کی پرورش کرنی ہے کہ اگر اسلام صلح و آشتی سے محفوظ رہتا ہے تو صلح کریں اگر اسلام کی حفاظت جنگ کے ذریعہ ہو رہی ہے تو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے قیام کریں چاہے ظہر سے عصر تک بھرا گھر اجڑ جائے لیکن اسلام پر آنچ نہ آئے۔ اگر اسلام ان کے گھرانے کے برہنہ سر ہونے سے محفوظ رہتا ہے تو سر کی چادر کو عزیز نہ سمجھیں، فاطمہ (س) ان کوتاہ فکر خواتین میں سے نہیں تھیں کہ جو گھر کے ماحول کو معمولی شمار کرتی ہیں بلکہ آپ گھر کے ماحول کو بہت حساس  لیتی تھیں۔ آپ کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ آغوش مادر تھی اس کے بعد گھر کا ماحول اور صحن خانہ بچوں کے لیے عظیم مدرسہ تھا۔ ہمیں بھی اپنے بچوں کی صحیح تربیت میں حضرت زہرا (س) کی سیرت کو  اپنانے کی اشد ضرورت ہے ایسا نہ ہو ہم خود کو ان کا شیعہ شمار کرتے رہیں لیکن ان کی سیرت سے دور دور تک تعلق نہ ہو اور ان کے احکام و فرامین پس پشت ڈال دیں۔

6۔ ایک دوسرے کے کاموں کو تقسیم کرنا:

ایک کامیاب زندگی کے لیے ضروری ہے کہ شوہر اور زوجہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے کاموں کو ایک دوسرے میں تقسیم کریں البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کے تقسیم کرنے کے بعد ایک دوسرے کی مدد نہ کرے بلکہ یہ تقسیم تو صرف بہتر طور پر اس کام کو انجام دینے کے لیے ہوتی ہے۔ حضرت علی (ع) اور جناب زہرا (س) نے اپنی زندگی کی ابتدا سے ہی اس مہم کام کی طرف توجہ دی اور اس مہم کام کے سلسلے میں پیغمر گرامی اسلام سے بھی مدد لی۔ آپ (ص) نے فرمایا: گھر کے کاموں کو فاطمہ انجام دے اور گھر سے باہر کے کاموں کو علی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کام کی تقسیم توانائی کے لحاظ سے کرنا ضروری ہے چونکہ مرد گھر کے باہر کے کاموں کو  انجام دینے کی توانائی زیادہ رکھتا ہے اور عورت گھر کے اندر کے کاموں کو بہتر انجام دے سکتی ہے۔

مجلسی بحار الانوار،ج33،ص1

7۔ ایک دوسرے کے عیب کو چھپانا:

ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی کمزوری اور ضعف پایا جاتا ہے اور اس کمزوری اور عیب کو آشکار نہ کرنا ایک خاندان کی کامیابی کی علامت ہے۔ قرآن مجید نے بھی اس بارے میں بہت ہی پیارا جملہ بیان فرمایا ہے:

ھن لباس لکم و انتم لباس لھن،

زوجہ تمہارے لیے لباس ہے اور تم ان کے لیے۔

سورہ بقرہ، آیت 187

اور لباس کا کام یہ ہوتا ہے کہ بدن کے اندر موجود عیب کو دوسروں سے چھپائیں۔ حضرت علی اور حضرت زہرا (س) کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ زندگی میں کبھی ایک دوسرے کے عیب اور کمزوری کو دوسروں کے سامنے بیان نہ کریں، بلکہ ہمیشہ یہ کوشش کرے کہ ایک دوسرے کی اچھائی کو دوسروں کے سامنے بیان کرے ، حضرت علی اور جناب فاطمہ کی زندگی میں ہمیں اس بارے میں ایک خاص درس ملتا ہے وہ اس طرح کہ شادی کے بعد  پیغمبر اسلام نے آپ دونوں کی زندگی کے بارے میں سوال کیا۔ پہلے حضرت زہرا (س) سے پوچھا اپنے شوہر کو کیسا پایا ؟ فرماتی ہیں : اے بابا جان بہترین شوہر پایا، اسی طرح مولا علی سے جب آپ پوچھتے ہیں تو مولا فرماتے ہیں: بہتریں مددگار اطاعت خداوند میں۔

مجلسی  بحارالانوار ،ص 134

8۔ شوہر کی استطاعت سے بڑھ کر سوال نہ کرنا:

شہزادی کونین نے اپنی پوری زندگی میں حضرت علی سے کسی ایسی چیز کی فرمائش نہیں کی جس کو مولا علی پورا نہ کر سکیں، حضرت فاطمہ حقوق خاوند سے جس درجہ واقف تھیں کوئی بھی واقف نہ تھا۔ انھوں نے ہر موقع پر اپنے شوہر حضرت علی کا لحاظ و خیال رکھا۔  انھوں نے کبھی ان سے کوئی ایسا سوال نہیں کیا جس کے پورا کرنے سے حضرت علی عاجز رہے ہوں، ایک مرتبہ حضرت فاطمہ بیمار ہوئیں تو حضرت علی نے ان سے فرمایا کچھ کھانے کو دل چاہتا ہو تو بتاؤ، حضرت سیّدہ (س) نے عرض کی کسی چیز کو دل نہیں چاہتا۔ حضرت علی نے اصرار کیا تو عرض کی، میرے پدرِ بزرگوار نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں۔ ممکن ہے آپ اسے پورا نہ کر سکیں تو آپ کو رنج ہو۔ اس لیے میں کچھ نہیں کہتی۔ حضرت علی نے جب قسم دی تو انار کا ذکر کیا۔ حضرت علی اور حضرت فاطمہ میں کبھی کسی بات پر اختلاف نہیں ہوا  اور دونوں نے باہم  خوشگوار زندگی گزاری۔

9۔ نعمت خداوند پر شکر گزار رہنا:

جناب سیدہ  (س) اپنے گھر کی مالی کمزوری دیکھ کر نہ ملال ہوئی اور نہ پریشان بلکہ ہمیشہ شکر الہی بجا لایا کرتی تھی۔ آپ نے ہمیشہ صبر استقامت اور قناعت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی  انتہائی افلاس اور غربت کی حالتوں میں بھی اطمینان اور سکون کی زندگی گزاری  ہمہشہ نہایت خاموشی استقلال خندہ پیشانی سے  تمام مشکلوں کو تحمل فرمایا  اور کھبی ان گھریلو اور ذاتی ضرورتوں کی تنگی کی شکایت کا اظہار نہیں کیا اور ہمیشہ خدا کی دی ہوئی  نعمتوں پر شکر گزار رہی نہ صرف شکر گزار رہی بلکہ ان حالات میں بھی ایثار و قربانی کی اعلیٰ مثالیں دکھائی کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ جناب فاطمہ (س) غریب ہیں۔

نتیجہ:

خاندان کی کامیابی معاشرے کی کامیابی میں  ہے  اور یہ کامیابی اس وقت حاصل ہو سکتی ہے، جب خاندان کے افرادکے پاس وہ اُصول، سوچ اور فکر ہو جس سے معاشرہ کامیابی کی طرف بڑھ سکے اور تلاش کریں کہ وہ اصول کہاں سے مل سکتے ہیں ؟ تو بہترین جواب جو ہم دے سکتے ہے وہ یہ ہے  کہ ہم ایسے خانوادہ کو دیکھیں جو کامیاب بھی ہے اور دوسروں کے لیے نمو نہ بھی، انہی میں سے ایک کامیاب خانوادہ  حضرت علی اور حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کا  ہے۔  آپ دونوں کی زندگی کے ان اصول کو اگر کوئی اپنائیں تو دنیا میں بھی اور آخرت میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بحیثیت زوجہ:

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جب امیر المؤمنین علی مرتضیٰ علیہ السلام کے بیت الشرف تشریف لے گئیں تو دوسرے روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیٹی اور داماد کی خیریت معلوم کرنے گئے۔ آپ نے علی علیہ السلام سے سوال کیا یا علی تم نے فاطمہ کو کیسا پایا ؟ علی علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، یا رسول اللہ میں نے فاطمہ کو عبادت پروردگار میں بہترین معین و مددگار پایا۔

گویا علی علیہ السلام یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ زوجہ قابل تعریف وہی ہے جو اطاعت شوہر کے ساتھ ساتھ مطیع پروردگار بھی ہو شاعر نے اس بات کو ایسے نظم کیا:-

حسن سیرت کے لیے خوبی سیرت ہے ضرور

گل وہی گل ہے جو خوشبو بھی دے رنگت کے سوا

چونکہ حسن، دائمی نہیں ہوتا بلکہ عمل دائمی ہوتا ہے آخرت میں دنیاؤی حسن کام آنے والا نہیں بلکہ نیک اعمال ساتھ دینگے۔ لاکھوں سلام ہوں ہمارا اس شہزادی پر جس کا مہر ایک زرہ اور ایک کتان کا بنا ہوا معمولی ترین لباس اور ایک رنگی ہوئی گوسفند کی کھال تھا فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا یہ معمولی سا مہر خواتین عالم کو درس قناعت دے رہا ہے کہ جتنا بھی ملے اس پر شکر خدا کر کے راضی رہنا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا : میری امت کی بہترین خواتین وہ ہیں جن کا مہر کم ہو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ : کسی خاتون کا مہر زیادہ ہونا باعث فضیلت نہیں قابل مذمت ہے بلکہ مہر کا کم ہونا باعث عزت و شرافت ہے۔

حضرت علی و حضرت فاطمہ علیہما السلام:

کائنات کے مثالی اور مہربان شوہر و زوجہ نے گھر کے کام کو آپس میں تقسیم کر رکھا تھا۔ جناب فاطمہ سلام اللہ گھر کے اندر کے تمام امور کی ذمہ داری قبول کر لی اور علی علیہ السلام نے گھر کے باہر کے تمام کاموں کو اپنے ذمہ لے لیا۔

ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا: اے بنت رسول ! کھانے کو کچھ ہے ؟

جناب زہرا علیہا السلام نے جواب دیا :

نہیں، خدا کی قسم گذشتہ تین دنوں سے میں اور میرے بیٹے حسنین بھوکے ہیں۔ حضرت علی نے پوچھا کہ تم نے مجھ سے کیوں نہیں بتایا ؟

جناب فاطمہ زہرا نے فرمایا : میرے بابا نے مجھ سے کہا تھا کہ کبھی علی سے کوئی فرمائش نہ کروں میرے بابا نے مجھ سے فرمایا تھا : کبھی علی سے کچھ لانے کے لیے مت کہنا جو کچھ وہ خود لا کر دے دیں اسے قبول کر لو اپنی طرف سے کوئی فرمائش مت کرنا۔

حضرت علی علیہ السلام نے گھر سے باہر نکلے اور راستے میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی اس ایک دینار قرض لیا تا کہ گھرکے لیے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لیں۔ شدید گرمی کا زمانہ تھا گرمی سے پریشان حال انھوں نے مقداد ابن اسود کو دیکھا جو بہت پریشان حال نظر آ رہا تھا۔

مولا نے مقداد سے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ اس گرمی میں تم گھر سے باہر کیوں نکلے ہو ؟ مقداد نے کہا کہ : بھوک نے مجھے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے بچوں کے رونے کی آواز برداشت نہیں کر سکا۔

امام علی علیہ السلام نے وہ ایک دینار مقداد کو دے دیا اور خود خالی ہاتھ گھر واپس لوٹ آئے۔ گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ رسول اسلام تشریف فرما ہیں اور جناب فاطمہ نماز میں مشغول ہیں اور ان کے سامنے خان پوش سے ڈھکا ہوا ایک طشت رکھا ہوا ہے۔ نماز ختم کرنے کے بعد جیسے ہی شہزادی کونین نے اس طشت سے خان پوش ہٹایا دیکھا کہ تازہ پکے ہوئے گوشت اور روٹیاں اس میں سجی ہوئی ہیں۔

پیغمبر اسلام نے پوچھا : فاطمہ یہ کھانا کہاں سے آیا ہے ؟ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے جواب دیا : خداوند عالم کی طرف سے آیا ہے اور خدا جسے چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے۔

اس موقع پر رسول اسلام نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا :

کیا ایسا ہی ایک واقعہ تمہارے لئے بیان کروں ؟ حضرت علی نے عرض کیا بیشک یا رسول اللہ۔ رسول خدا نے فرمایا :

تمہاری مثال بالکل زکریا پیغمبر کی ہے، وہ اس محراب میں داخل ہوئے جہاں مریم نماز پڑھ رہی تھیں اور ان کے سامنے کھانا رکھا دیکھ کر پوچھا: مریم یہ کھانا کہاں سے آیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا:

خدا کی طرف سے آیا ہے اور خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے ۔

آج یعنی یکم ذو الحجہ وہ مبارک و مسعود دن ہے جب مولائے کائنات جناب امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا عقد مسنون قرار پایا۔

حدیث قدسی میں مرقوم ہے کہ خدا نے جبرائیل علیہ السلام کو رسول اکرم (ص) کی خدمت میں پیغام دے کر بھیجا کہ میں نے علی و بتول کا نکاح آسمان پر کر دیا ہے ، سو آپ زمین پر بھی یہ فریضہ انجام دے دیجئے۔

علی (ع) اور فاطمہ (س) کا عقدِ ازدواج دو ایسے طالب علموں کا بندھن ہے جو ایک ہی استاد کے محضر درس سے مستفید ہوۓ ہیں۔ اور یہی عامل اس بات کا سبب ہوا ہے کہ وہ عقلی، روحانی، اخلاقی اور کرداری لحاظ سے آپس میں مکمل ہم آہنگ ہیں۔ لہٰذا جب ہم حضرت علی (ع) کی شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں رسول خدا (ص) نظر آتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب فاطمہ زہرا (س) کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں توان کے وجود میں بھی پیغمبر کا نظارہ کرتے ہیں۔

روایات میں ہے کہ بی بی سیدہ (س) بوقت نکاح سفید لباس میں ملبوس تھیں (یہاں اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ دلہن کا سفید لباس ہونا سنت سیدہ ہے) ایک کنیز نے آپ کے لباس کی تعریف کی تو آپ اندر تشریف لے گئیں اور اپنا پرانا لباس زیب تن فرما کر آ گئیں اور وہ نئا لباس اس کنیز کو عطا کر دیا۔

بعد از رخصتی مولا علی (ع) نے آپ کی دلجوئی فرماتے ہوئے دریافت کیا کہ آپ کچھ گھبرائی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ جواب میں آپ نے فرمایا کہ آج رات میں اپنے والد کے یہاں سے رخصت ہو کر آپکے گھر آئی ہوں۔ یہاں بھی میرا قیام عارضی ہے اور کل مجھے اپنے اصلی یعنی خدا کے گھر جانا ہے۔ اس لیے میں چاہوں گی کہ آج کی رات خدا کی عبادت میں بسر کروں۔

روایت ہے کہ حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ زھرا (ع) کی شادی کے موقع پر جبرائیل خداوند متعال کی طرف سے ایک ریشمی تختی لائے جس پر لکھا تھا: خداوند عالم نے امت محمدی کے گنہگار افراد کی شفاعت کو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا مہریہ قرار دیا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام و فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی یکم ذی الحجہ 2ھ کو ہوئی۔ کچھ اور روایات کے مطابق امام محمد باقر و امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ نکاح رمضان میں اور رخصتی اسی سال ذی الحجہ میں ہوئی۔

بحار الانوار از علامہ باقر مجلسی

سیدہ النساء حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی رخصتی:

نکاح کے کچھ ماہ بعد یکم ذی الحجہ کو آپ کی رخصتی ہوئی۔ رخصتی کے جلوس میں حضرت فاطمہ اشہب نامی ناقہ پر سوار ہوئیں، جس کے ساربان حضرت سلمان فارسی تھے۔ ازواج مطہرات جلوس کے آگے آگے تھیں۔ بنی ہاشم ننگی تلواریں لیے جلوس کے ساتھ تھے۔ مسجد کا طواف کرنے کے بعد حضرت فاطمہ کو حضرت علی کے گھر میں اتارا گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی منگوایا اس پر دعائیں دم کیں اور علی و فاطمہ کے سر بازؤوں اور سینے پر چھڑک کر دعا کی کہ اے اللہ انہیں اور ان کی اولاد کو شیطان الرجیم سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔

الصواعق المحرقہ، ابن حجر عسقلانی

ازواج مطہرات نے جلوس کے آگے رجز پڑھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خاندان عبد المطلب اور مہاجرین و انصار کی خواتین کو کہا کہ رجز پڑھیں خدا کی حمد و تکبیر کہیں اور کوئی ایسی بات نہ کہیں اور کریں جس سے خدا ناراض ہوتا ہو۔

ازدواج کی اہمیت اور آداب:

ازدواج کا مسئلہ بلا تفریقِ دین و مسلک ہر دور میں انسانی سماج کے درمیان اہمیّت کا حامل رہا ہے۔ مختلف ادیان و مذاہب اور مسالک کے پیروکاروں کے مابین ازدوج کے آداب و رسوم میں تو فرق ہو سکتا ہے، لیکن ازدواج کی اہمیّت سے کسی باشعور انسان کو انکار نہیں۔

کون نہیں جانتاکہ ازدواج ہی وہ مقدّمہ ہے جو انسانی معاشرے کی تشکیل کے لیے خاندان جیسی بنیادی اکائی فراہم کرتا ہے۔ معاشرے میں خاندان کی اہمیّت ایک ستون کی سی ہے ۔ اگر کہیں پر خاندانی نظام کھوکھلا ہونا شروع ہو جائے تو وہاں کا معاشرہ رو بہ زوال ہو کر نہ صرف یہ کہ اپنی اخلاقی و دینی روایات کھو دیتا ہے، بلکہ اپنی تہذیب و تمدّن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

تاریخِ عالم شاہد ہے کہ جو قومیں اخلاقی و دینی روایات کھو دیں اور اپنی تہذیب و تمدّن سے ہاتھ دھو بیٹھیں، وہ کسی بھی طرح آبرو مندانہ زندگی نہیں گزار سکتیں۔ معاشرتی استحکام اور اقوام کا وقار خاندانوں کی تشکیل پر ہی موقوف ہے۔

صاحبان فکر و دانش بخوبی جانتے ہیں کہ فریضہ ازدواج کے خلاف ، مادّی دانشمندوں کی یہ کارستانیاں، تمام الٰہی ادیان کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ اسلام چونکہ کامل ترین دین ہے چنانچہ دین اسلام نے فریضہ ازدواج کی بجا آوری پر بہت زور دیا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو اور اپنی آئندہ نسلوں کو بدبختی اور بے راہ روی سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق فریضہ ازدوج کو عملی طور پر اہمیّت دینا ہو گی۔

آئیے قرآن و سنّت کی روشنی میں ازدواج کے ثمرات و فوائد پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں:      

1۔ ازدواج ،خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے :

خداوند عالم نے قرآن مجید میں ازدواج کو اپنی آیات اور نشانیوں میں سے قرار دیا ہے۔

وَمِنْ آیَاتِہِ انْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ انفُسِکُمْ ازْوَاجًا لِتَسْکُنُوا الَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً انَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ۔

اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیا ہے تا کہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اور پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبانِ فکر کے لیے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔

سورہ روم آیت 21

اسی طرح سورہ نور میں خداوند عالم نے ازدواج کو اپنے فضل میں سے قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر کوئی فقیر ازدواج کرے تو خدا اسے غنی کر دے گا۔

2- ازدواج ،فضل پروردگار کا باعث ہے:    

وَانکِحُوا الْایَامَی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَامَائِکُمْ انْ یَکُونُوا فُقَرَائَ یُغْنِھمْ ﷲُ مِنْ فَضْلِہِ وَﷲُ وَاسِع عَلِیم،

اور اپنے غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل و کرم سے انہیں مالدار بنا دے گا کہ خدا بڑی وسعت والا اور صاحب علم ہے۔

سورہ نور آیت 32

مندرجہ بالا آیت کی تفسیر کے بارے میں مفسّرین نے کہا ہے کہ انکِحُوا ایک عربی کلمہ ہے اور عربی قواعد کے مطابق امر کا صیغہ ہے جو کہ ازدواج کے وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ اس آیہ مجیدہ سے پتا چلتا ہے کہ جو لوگ ازدواج کی ضرورت رکھتے ہیں ، ان پر ازدواج کرنا واجب ہے اور یہ ذمہ داری والدین اور سرپرستوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ازدواج کے لیے مقدمات فراہم کریں تا کہ ان کے بچّے صحت و سلامتی کے ساتھ قرآن و سنّت کی روشنی میں اپنی زندگیاں گزاریں۔

اس آیہ مجیدہ میں نہ صرف سرپرستوں کو اپنے ما تحتوں اور زیر کفالت افراد کے لیے ازدواج کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رازقِ حقیقی فقط خدا کی ذات ہے، اس لیے ازدواج کے سلسلے میں رزق کی تنگی سے نہ ڈرا جائے ، جو بھی ازدواج کرے گا اگر وہ فقیر ہو گا، تو خدا اسے اپنے فضل و کرم کے ساتھ غنی کر دے گا۔

اسی طرح بحار الانوار میں ہے کہ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ:

تم میں سے شریر ترین لوگ کنوارے (عزب) ہیں اور کنوارے شیطان کے بھائیوں میں سے ہیں۔

بحار الانوار ج 100  ص 220

3-  ازدواج ،آرام و سکون کا سبب ہے:

انسان اپنی ساری زندگی آرام و سکون کی تلاش میں صرف کر دیتا ہے ، وہ مال و دولت سمیٹتا ہے ، ایک  برّ اعظم سے دوسرے برّ اعظم کا سفر کرتا ہے، حتّیٰ کہ منشیات کا سہار لیتا ہے تا کہ کسی طرح اسے سکون میسّر آ جائے جبکہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں سکوں کو اپنی یاد میں اور ازدواج میں قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ روم میں خداوند عالم نے ازدواج کو آرام و سکون کا باعث قرار دیا ہے۔

 وَمِنْ آیَاتِہِ انْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ انفُسِکُمْ ازْوَاجًا لِتَسْکُنُوا الَیْہَا،

اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیا ہے تا کہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو۔

سورہ روم آیت 21

4- ازدواج ، جنسی بے راہروی خصوصاً زنا سے نجات کا ذریعہ ہے:

ازدواج کے بے شمار فوئد میں سے ایک اہم فائدہ جنسی بے راہروی اور زنا سے نجات ہے۔ یعنی ایک باغیرت اور غیّور معاشرے کی تشکیل کے لیے ازدواج کو کلیدی اہمیّت حاصل ہے۔ حضور اکرم (ص) کا ارشادِ مبارک ہے:

زنا سے دور رہو، زنا میں دس نقصانات پوشیدہ ہیں:

عقل ضعیف ہو جاتی ہے۔

دین برباد ہو جاتا ہے۔   

رزق تنگ ہو جاتا ہے۔

عمر کم ہو جاتی ہے۔

تفرقہ و جدائی جنم لیتی ہے۔

خدا کا غضب نازل ہوتا ہے۔

نسیان اور فراموشی زیادہ ہو جاتی ہے۔

صاحبانِ ایمان سے بغض و حسد پیدا ہو جاتا ہے۔

انسان بے آبرو ہو جاتا ہے۔

دعائیں اور عبادات قبول نہیں ہوتیں۔

ازدواج کا ایک فائدہ وسعتِ رزق ہے۔ جس کا آیات و روایات میں خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ آئیے آیات و روایات کی روشنی میں وسعتِ رزق اور ازدواج کے باہمی تعلق پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔

5- ازدواج ،وسعتِ رزق کا باعث ہے:

وسائل الشّیعہ میں نقل ہے کہ اسحاق بن عمّار فرماتے ہیں کہ:

میں نے امام صادق کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا یہ قصّہ صحیح ہے جو لوگ سناتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور کی خدمت میں آ کر اپنی غربت اور فقر و ناداری کی شکایت کی تو حضور نے اسے ازدواج کرنے کا حکم دیا، کچھ عرصے بعد وہی شخص دوبارہ حضور کی خدمت میں آیا اور اس نے وہی شکایت دہرائی، حضور نے پھر اسے ازدواج کا حکم دیا اور اس نے ازدواج کیا، حتّی کہ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ امام صادق نے فرمایا جی ہاں یہ قصّہ درست ہے، اور پھر فرمایا:

الرّزقُ معَ النِّساء وَ العیالِ،

رزق بیویوں اور بچّوں کے ساتھ ہے۔

وسائل الشّیعہ جلد 14 صفحہ 26

ازدواج کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ انسانی جذبات اور بشری تقاضوں کی تکمیل ہوتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس بارے میں کتاب و سنّت میں کیا ارشادات ہیں:

6۔ ازدواج ،تکمیلِ بشریت کی کڑی ہے:

خداوند عالم نے انسانوں کو اس طرح خلق کیا ہے کہ مرد و عورت دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور ایک دوسرے کے جذبات کی تسکین اور بشری تقاضوں کی تکمیل کا باعث ہیں۔ دونوں کی زندگی کا حسن اور سلامتی ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے کہا ہے کہ:

ھنّ لباس لکم و انتم لباس لھن،

خواتین تمہارالباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔

قرآن مجید نے شوہر اور بیوی کے لیے لباس کی اصطلاح اس لیے استعمال کی ہے چونکہ لباس انسان کی گرمی و سردی میں حفاظت بھی کرتا ہے اور اس کے عیوب و نقائص کو بھی چھپاتا ہے۔ پس میاں بیوی کو بھی ایک دوسرے کے لیے ایسے ہی ہونا چاہیے تا کہ وہ مل جل کر رشد و ارتقاء کی منازل طے کریں۔

جس طرح لباس کے بغیر انسان ادھورا رہتا ہے اسی طرح ازدواج کے بغیر بھی اس کی شخصیت نامکمل اور ناقص رہ جاتی ہے ۔ چنانچہ پیغمبرِ اکرم  کا ارشاد مبارک ہے:

خیرُ امّتی اوّلھا متزوجون و آخِرُھا الفرّاب۔

میری امّت کے صفِ اوّل کے بہترین لوگ شادی شدہ ہیں اور غیر شادی شدہ لوگ آخری صف میں ہیں۔

اس کے علاوہ ازدواج حفاظتِ دین کے لیے بھی بہترین  ذریعہ ہے۔

7۔ ازدواج ،حفاظت دین کا باعث ہے۔

رسول خدا (ص) کا ارشادِ مبارک ہے:

من تزوَّجَ فقد احرز نصف دینہ ،فلیتق اللہ من نصفہ الباقی،

جس نے بھی ازدواج کیا یقیناً اس نے اپنا نصف دین محفوظ کرلیا اور باقی نصف دین کے لیے وہ خدا سے مدد مانگے اور الٰہی تقویٰ اختیار کرے۔

اسی طرح بعض روایات میں ازدواج کو باعثِ تکامل ایمان بھی بتایا گیا ہے۔

8- ازدواج ،سیرت انبیاء و معصومین کی بجا آوری ہے:

انبیاء و معصومین کی سیرت یہ ہے کہ انھوں نے شادیاں کیں،خاندان آباد کیے اور عوام النّاس کے درمیان زندگیاں گزاریں۔ جو شخص بھی ازدواج کرتا ہے، وہ انبیاء و معصومین کی سیرت بجا لاتا ہے۔

سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے کہ ایک عورت نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے فضیلت و کمال حاصل کرنے کے لیے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

امام نے فرمایا تو اپنے اس فیصلے سے دستبردار ہو جا، اس لیے کہ اگر شادی نہ کرنے میں کوئی فضیلت اور کمال ہوتا تو دخترِ رسول حضرت فاطمہ کیوں ازدواج کرتیں۔ کیونکہ کوئی بھی فضیلت ایسی نہیں جو حضرت فاطمہ کو حاصل نہ ہو۔              

حضور اکرم (ص) کا ارشادِ مبارک ہے:

النّکاحُ سنّتی فمن رغبتی عن سنتی فلیس مِنّی،

نکاح میری سنّت ہے جو بھی اس سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں(یعنی میری امّت سے نہیں)،

چونکہ ازدواج کرنا حکم خدا اور سنّتِ انبیاء و مرسلین ہے یہی وجہ ہے کہ ایک شادی شدہ آدمی کی عبادت کو بھی غیر شادی شدہ آدمی کی عبادت پر فضیلت عطا کی گئی ہے۔ جیسا کہ حضور کی حدیث ہے۔

المتزوج النّائم افضل عنداللہ من الصّائم القائم العزب،

اللہ کے نزدیک ایک شادی شدہ سویا ہوا شخص ، غیر شادی شدہ عبادت گزار، روزہ دار سے افضل ہے۔          

اسی طرح ایک مقام پر امام صادق کا ارشادِ مبارک ہے کہ:

رکعتان یصلیھما المتزوج افضل من سبعین رکعة یصلیھا اعزب،

شادی شدہ شخص کی دو رکعت نماز ،غیر شادی شدہ شخص کی ستّر رکعت سے افضل ہے۔

دین اسلام میں نہ صرف یہ کہ ازدواج کے فواید گنوائے گئے ہیں بلکہ جلد از جلد ازدواج کرنے بھی پر زور دیا گیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلامی اقدار کے مطابق ازدواج کے لیے مناسب عمر کیا ہے:

ازدواج کے لیے مناسب عمر:

حضرت امام صادق (ع) سے روایت ہے کہ ایک روز پیغمبراسلام (ص) منبر پر تشریف لے گئے اور آپ نے فرمایا:

اے لوگو ! جبرائیل نے خدا کی طرف سے کہا ہے کہ کنواری لڑکیاں درختوں کے پھلوں کی مانند ہیں، جیسے اگر پھلوں کو بر وقت درختوں سے اتار نہ لیا جائے تو سورج کی شعاعیں انھیں خراب کر دیتی ہیں اور ہوائیں انھیں بکھیر دیتی ہیں ۔ اسی طرح بیٹیاں جب بالغ ہو جاتی ہیں تو خواتین کی طرح ان میں جنسی احساس بیدار ہوتا ہے، جس کی تسکین ازدواج میں ہے، اگر ان کا ازدواج نہ کیا جائے تو ان کے فساد و شر میں مبتلا ہونے کا امکان ہے۔ اس لیے کہ یہ انسان ہیں اور انسان لغزش و خطا ء سے محفوظ نہیں ہے۔

ازدواج کے فوائد و اہمیت کے بعد یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کس کے ساتھ شادی کی جائے اور کس کے ساتھ شادی نہ کی جائے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ دین اسلام نے ازدواج کرنے کے لیے کیا معیار مقرر کیا ہے:

دین اسلام میں ازدواج کرنے کا معیار:

حضور کا ارشاد مبارک ہے کہ کسی عورت کو اس کے حسن کی خاطر اپنی بیوی مت بناؤ اس لیے کہ ممکن ہے کہ اس کی خوبصورتی اس کے اخلاقی زوال کا باعث ہو اور اسی طرح کسی سے اس کے مال کی وجہ سے شادی نہ کرو کیونکہ ممکن ہے کہ اس کا مال اس کی سرکشی اور بغاوت کا باعث بن جائے بلکہ اس کے دین کو دیکھو اور با ایمان عورت سے شادی کرو۔

اسی طرح ایک شخص نے حضرت امام حسن (ع) کی خدمت میں عرض کی کہ مولا میرے ہاں ایک بیٹی ہے ،میں اس کا ازدواج کس سے کروں ؟ آپ  نے فرمایا: کسی با ایمان شخص سے اس کی شادی کرو۔ اس لیے کہ وہ اگر خوش رہے گا تو تمہاری بیٹی کو بھی عزّت و احترام دے گا اور اگر نارض ہو گا تو اس پر ظلم نہیں کرے گا۔

حضور اکرم کی حدیث ہے کہ مرد کی خوش بختی اور سعادت یہ ہے کہ اس کی بیوی نیک اور بافضیلت ہو۔

حضور اکرم کا ہی ارشادِ مبارک ہے کہ جو شخص کسی فاسق کے ساتھ اپنی بیٹی کا ازدواج کرے گا وہ قطع رحم کا مرتکب ہوا ہے۔

اسی طرح حضور کا ارشاد مبارک ہے کہ:

لاتنکحوا القرابة القریبة فانّ الولد یخلق ضاویاً،

اپنے قریبی رشتہ داروں کے ہاں ازدواج نہ کرو کہ اس سے اولاد کمزور اور ضعیف پیدا ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ دین اسلام نے نہ صرف یہ کہ ازدواج کرنے کی فضیلت بیان کی ہے بلکہ دوسروں کا ازدواج کرانے کا بھی بہت اجر و ثواب بیان کیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ دوسروں کے لیے مقدمہ ازدواج فراہم کرنے کے بارے میں دین اسلام کیا فرماتا ہے:

دوسروں کی شادی کرانے کا اجر و ثواب:

حضرت امام صادق (ع) کا ارشادِ مبارک ہے کہ قیامت کے دن خدا چار افراد پر نظرِ کرم فرمائے گا:    

1- ایسے شخص پر جس نے فروخت کی ہوئی چیز واپس لی ہو ،

2- ایسے شخص پر جس نے کسی کے دل سے غم ختم کیا ہو ،

3- ایسے شخص پر جس نے غلام کو آزادی دلائی ہو ،

4- ایسے شخص پر جس نے کسی غیر شادی شدہ شخص کی کرائی ہو  ،

حضور اکرم کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص بھی با ایمان لڑکے اور لڑکیوں کے ازدواج کے لیے زحمت اٹھائے گا اس کی جزا ، ہزار حوریں ہیں اور اس سلسلے میں وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے یا جو بات بھی کرتاہے ، اس کا ثواب ایک سال کی عبادت سا ہے۔

دینِ اسلام میں جس طرح مقدماتِ ازدواج فراہم کرنے کا اجر و ثواب بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کی مذمّت بھی کی گئی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ضمن میں اسلامی تعلیمات کیا کہتی ہیں:

میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کی سزا:

حضور کا ارشادِ مبارک ہے کہ جو کوئی بھی معائدہ ازدواج کو توڑے اور میاں بیوی کو ایک دوسرے سے جدا کرے ، دنیا اور آخرت میں غضب و لعنت میں مبتلا ہو گا اور خدا پر لازم ہے کہ خدا اس کے سر پر ہزار شعلہ ور پتھر برسائے اور جو کوئی بھی میاں بیوی کے درمیان جدائی کی کوشش کرے لیکن کامیاب نہ ہو وہ دنیا اور آخرت میں اللہ کے غضب اور لعنت میں گرفتار ہو گا اور اللہ کی رحمت اس پر حرام ہو جائے گی۔

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ازدواج کے راستے میں حائل رکاوٹیں کونسی ہیں اور ان کا حل کیا ہے: 

ازدواج کے راستے میں حائل رکاوٹیں اور ان کا حل:

1- بے جا توقعات:

ازدواج کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ  بے جا توقعات ہیں جو کبھی والدین اپنی اولاد سے وابستہ کر لیتے ہیں اور کبھی خود بچے اپنی متوقع بیوی یا شوہر کے بارے میں فرض کر لیتے ہیں اور پھر انہی مفروضات کی بناء پر اپنے  بچوں کے لیے  یا اپنے لیے شوہر یا بیوی تلاش کرنا چاہتے ہیں۔

ہمیں اپنی طرف سے مفروضات قائم کرنے کے بجائے دینِ اسلام کے مقرّر کردہ معیارات کو ہی ترجیح دینی چاہیے اور خوابوں اور افسانوں کی دنیا میں زندہ رہنے کے بجائے زمینی حقائق اور معاشرتی اقدار کو بھی مدِّ نظر رکھنا چاہیے۔        

2- والدین اور سر پرستوں کی عدمِ توجہ:

ازدواج کے راستے میں ایک اہم رکاوٹ والدین اور سر پرستوں کی بچّوں کے جنسی بلوغ اور روحانی و جسمانی ضروریات سے چشم پوشی اور عدم توجہ بھی ہے۔ اس چشم پوشی اور عدمِ توجہ کے اسباب چاہے کچھ بھی ہوں اس کے خطر ناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس لیے والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیرت معصومین کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں اور اپنے بچوں کے لیے مقدمہ ازدواج فراہم کریں۔

3- غرور و تکبّر:

ازدواج نہ ہونے کی ایک وجہ غرور و تکبّر بھی ہے ممکن ہے پورے کا پورا خاندان ہی اس مرض میں مبتلا ہو یا خود لڑکا یا لڑکی غرور و تکبّر کی شکار ہو ۔ غرور و تکبّر کے  بہت سارے نقصانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس بری عادت کے باعث نیک اور صالح رشتے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں جس کے بعد افسوس کے علاوہ اور کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔ ہمیں شریکِ زندگی کا انتخاب کرتے وقت صرف اور صرف دینداری اور دین کی پاسداری کو ہی مدّنظر رکھنا چاہیے۔

4- معاشی مسائل:

ایک اور مسئلہ جسے ازدواج کے سلسلے میں بہت اچھالا جاتا ہے وہ معاشی مسئلہ ہے۔ حضرت امام صادق (ع) کا ارشادِ مبارک ہے کہ غربت اور معاش کے خوف سے ازدواج نہ کرے، وہ در حقیقت خدا سے نا امید ہو چکا ہے۔

ہمیں یہ یاد رہنا چاہیے کہ قرآن مجید نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ اگر کوئی فقیر ہو اور ازدواج کرے تو خدا اسے اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔

5- دنیاوی زرق و برق:

دنیاوی زرق و برق بھی ازدواج کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، بہت سارے خاندان دوسرے خاندانوں کی دیکھا دیکھی عقد کے لیے سخت ترین شرائط مقرّر کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ حق مہر اور جہیز تجویز کرتے ہیں۔ حالانکہ حضور کا ارشاد مبارک ہے کہ میری امت کی بہترین خواتین وہ ہیں کہ جن کی شکل و صورت زیبا اور مہر کم ہو۔

امام صادق (ع) ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی مہر مقرّر کرے اور مہر ادا نہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ چور کی مانند ہے۔

اسی طرح ولیمے کے موقع پر غیر ضروری اخراجات اور غیر اسلامی رسومات پر بھی بے دریغ پیسہ صرف کیا جاتا ہے۔ یہ ساری خرافات تعلیماتِ انبیاء و مرسلین نیز سیرتِ اہلبیت سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ازدواج کے بارے میں مکمل طور پر علماء دین سے حرام و حلال نیز مستحبات و مکروہات کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور خرافات کے بجائے دینی تعلیمات کی روشنی میں اپنے گھروں کو آباد کریں۔

6- غیر مسلم میڈیا اور مفکرین کی کارستانی:

مغربی افکار کی ترویج کرنے والے رسائل و جرائد نیز فلموں اور ڈراموں کے ذریعے نوجوانوں کو غیر محسوس انداز میں حرام محبت کی لذت سے آشنا کیا جاتا ہے۔ نامحرموں کے ساتھ تعلقات کو جدید معاشرے کے لوازمات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح تاخیر سے ازدواج کرنے کی یا بغیر ازدواج کے زندگی گزارنے کی بھی ترغیب دی جاتی ہے اور اس طرح  نامکمل اور بے ڈھنگی زندگی کو آئیڈیل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ میڈیا کی کارستانیوں سے آگاہ رہیں اور فقط اسلامی ذرائع ابلاغ کو ہی اپنے لیے معلومات و تفریح کا ذریعہ قرار دیں۔

7- ازدواج نہ کرنے کے نتائج سے عدمِ آگاہی:

ازدواج میں تاخیر یا عدمِ ازدواج کی ایک وجہ ازدواج نہ کرنے کے نتائج سے عدمِ آگاہی بھی ہے۔ بہت سارے لوگ اپنے لیے ازدواج کو ضروری خیال نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ جب تک انسان جنسی اضطراب کا شکار نہ ہو اس وقت تک اسے ازدواج کی ضرورت ہی نہیں۔ حالانکہ ازدواج میں جنسی تسکین کے علاوہ انسان کے بہت سارے نفسیاتی، معاشرتی اور اخلاقی مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔ ازدواج سے نہ صرف انسانی زندگی کی مشکلات حل ہوتی ہیں بلکہ انسان کی اجتماعی و مخفی صلاحیتوں کو بھی نکھرنے کا موقع ملتا ہے۔ ازدواج کے بغیر انسان زیرِ زمین چھپے ہوئے ان ذخائر کی مانند ہے ، جنہیں صفحہ ہستی پر ابھر کر اپنے جوہر کے اظہار کا موقع نہیں ملا۔ فلسفہ ازدواج سے حقیقی آگاہی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم زندگی کی راہوں میں ٹھوکریں کھانے والوں کے بجائے علمائے دین سے رہنمائی حاصل کریں۔

ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر قرآن و سنّت کی تعلیمات کی روشنی میں ازدواج کو عام کیا جائے تو منشیات کا استعمال،گھٹیا ڈائجسٹوں کی اشاعت، والدین کی نافرمانی، ہمسائیوں کی ایذاء رسانی، گندی فلموں کی بھرمار اور جرائم کی شرح میں ، ناقابلِ یقین حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ازدواج کرنے کے بعد میاں بیوی کے حقوق کے اور باہمی تعلقات کے بارے میں تعلیماتِ دین کیا ہیں۔

ازدواج کے بعد آدابِ زندگی:

حضورِ اکرم (ص) کا ارشادِ مبارک ہے:

تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے خاندان کے لیے بہترین ہے اور میں اپنے خاندان کے بارے میں تم سب سے بہتر ہوں۔

اسی طرح ایک اور مقام پر حضور کا ارشاد ہے کہ بیوی اور بچے اسیروں کی مانند ہیں اور اللہ کے نزدیک محبوب ترین آدمی وہ ہے جو اپنے اسیروں کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کرے۔

امام صادق (ع) ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور نے فرمایا: خدا سے ڈرو ! خدا سے ڈرو ! دو کمزوروں کے بارے میں خدا سے ڈرو ! ایک یتیم اور دوسرے عورت کے بارے میں چونکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے خاندان کے ساتھ بہتر ہے۔

امام صادق (ع) کا ارشاد مبارک ہے کہ تم میں سے بہترین بیوی وہ ہے کہ جسے اگر کوئی چیز دی جائے تو شکریہ ادا کرے اور اگر کوئی چیز نہ دی جائے تو پھر بھی راضی رہے۔

حضور کا فرمان ہے کہ اگر کوئی بیوی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلے تو تمام فرشتے اور جنّ و انس اس پر اس وقت تک لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ واپس گھر پلٹ نہیں آتی۔

حضرت امیر المؤمنین فرماتے ہیں کہ بیوی کا جہاد شوہر کا اچھی طرح خیال رکھنا ہے، ایک مسلمان عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کے لیے خوشبو لگائے۔

نتیجہ:

ازدواج در اصل انسانی فطرت کی آواز پر لبیک کہنا ہے۔ انسانی شخصیت کے کمال اور رشد کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے فطری تقاضوں کو بطریق احسن پورا کرے۔ بہت سارے لوگوں کی یہ غلط فہمی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ازدواج کے سلسلےکو فطری تقاضا نہیں سمجھتے اور اسے تعلیم اور نوکری کے بہانے سے ٹالتے رہتے ہیں۔ جس کے منفی نتائج کبھی کھل کر فورا سامنے آ جاتے ہیں اور کبھی  صرف بچے اکیلے ہی اس آگ میں جلتے رہتے ہیں اور مخفی گوشوں میں بیٹھ کر اپنے برے اعمال کے ساتھ اپنے والدین کے گناہوں اور بدبختیوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔

بہت سارے لوگ یہ احمقانہ سوچ بھی رکھتے ہیں کہ ہمارے بچے تو بہت شریف ہیں ، ابھی انہیں ازدواج کی ضرورت نہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ازدواج کی شدید اور سب سے زیادہ ضرورت شریف اور نیک بچوں کو ہی ہوتی ہے۔ اگر والدین کی سستی و ہٹ دھرمی اولاد کے لیے گناہ و بدبختی کا باعث بنے تو علمائے دین کے نزدیک ایسے والدین خدا کے ہاں جوابدہ ہیں۔

التماس دعا۔۔۔۔۔

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی