2024 November 15
وارث علم انبیاء، باقر العلوم، امام محمد باقر (ع)کی ولادت با سعادت
مندرجات: ٦٧٣ تاریخ اشاعت: ٢٤ January ٢٠٢٣ - ١٠:٠٠ مشاہدات: 11665
یاداشتیں » پبلک
وارث علم انبیاء، باقر العلوم، امام محمد باقر (ع)کی ولادت با سعادت

حضرت امام محمدباقر (ع) یکم رجب المرجب 57 ھ یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔

 اعلام الوری ص 155

جلاء العیون ص 260

جنات الخلود ص 25
علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ:

جب آپ بطن مادر میں تشریف لائے تو آباؤ اجداد کی طرح آپ کے گھر میں آواز غیب آنے لگی اور جب نو ماہ کے ہوئے تو فرشتوں کی بے انتہا آوازیں آنے لگیں اور شب ولادت ایک نور ساطع ہوا، ولادت کے بعد قبلہ رو ہو کر آسمان کی طرف رخ فرمایا، اور (آدم کی مانند) تین بار چھینکنے کے بعد حمد خدا بجا لائے، ایک پورا دن دست مبارک سے نور ساطع رہا، آپ ختنہ کردہ  ،ناف بریدہ، تمام آلائشوں سے پاک اور صاف متولد ہوئے۔

جلاء العیون ص 259

اسم گرامی ،کنیت اور القاب:

آپ کا اسم گرامی "لوح محفوظ" کے مطابق اور سرور کائنات کی تعیین کے مطابق "محمد"تھا۔ آپ کی کنیت "ابو جعفر" تھی، اور آپ کے القاب بہت زیادہ تھے، جن میں باقر، شاکر، ہادی زیادہ مشہور ہیں۔

 مطالب السؤل ص 369

شواہد النبوت ص 181

اسم باقر کی وجہ تسمیہ:

باقر، بقر سے مشتق ہے اور اسی کا اسم فاعل ہے اس کے معنی شق کرنے اور وسعت دینے کے ہیں،

 المنجد ص 41

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو اس لقب سے اس لیے ملقب کیا گیا تھا کہ آپ نے علوم و معارف کو نمایاں فرمایا اور حقائق احکام و حکمت و لطائف کے وہ سر بستہ خزانے ظاہر فرما دئیے جو لوگوں پر ظاہر و ہویدا نہ تھے۔

صواعق محرقہ،ص 120

مطالب السؤل ص 669

شواہد النبوت ص 181

جوہری نے اپنی صحاح میں لکھا ہے کہ "توسع فی العلم" کو بقرہ کہتے ہیں، اسی لیے امام محمد بن علی کو باقر سے ملقب کیا جاتا ہے ،

علامہ سبط ابن جوزی کا کہنا ہے کہ کثرت سجود کی وجہ سے چونکہ آپ کی پیشانی وسیع تھی اس لیے آپ کو باقر کہا جاتا ہے اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جامعیت علمیہ کی وجہ سے آپ کو یہ لقب دیا گیا ہے ،

شہید ثالث علامہ نور اللہ شوشتری کا کہنا ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا ہے کہ امام محمد باقر علوم و معارف کو اس طرح شگافتہ کر دیں گے جس طرح زراعت کے لیے زمین شگافتہ کی جاتی ہے۔

مجالس المؤمنین ص 117

حاکمان وقت:

آپ 57 ھ میں معاویہ بن ابی سفیان کے دور میں پیدا ہوئے 60 ھ میں یزید بن معاویہ بادشاہ وقت رہا، 64 ھ میں معاویہ بن یزید اور مروان بن حکم بادشاہ رہے، 65 ھ تک عبد الملک بن مروان خلیفہ وقت رہا پھر 86 ھ سے 96 ھ تک ولید بن عبد الملک نے حکمرانی کی، اسی نے 95 ھ میں آپ کے والد ماجد کو درجہ شہادت پر فائزکر دیا، اسی 95 ھ سے آپ کی امامت کا آغاز ہوا، اور 114 ھ تک آپ فرائض امامت ادا فرماتے رہے،  اسی دروان میں ولید بن عبد الملک کے بعد سلیمان بن عبد الملک ،عمر بن عبد العزیز، یزید بن عبد الملک اور ہشام بن عبد الملک بادشاہ وقت رہے۔

 اعلام الوری ص 156

واقعہ کربلا میں امام محمد باقر علیہ السلام کا حصہ:

آپ کی عمر ابھی ڈھائی سال کی تھی، کہ آپ کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ وطن عزیز مدینہ منورہ چھوڑنا پڑا،پھر مدینہ سے مکہ اور وہاں سے کربلا تک کی صعوبتیں سفر برداشت کرنا پڑی اس کے بعد واقعہ کربلا کے مصائب دیکھے، کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں کا حال دیکھا ایک سال شام میں قید رہے، پھر وہاں سے چھوٹ کر 8 ربیع الاول 62 ھ کو مدینہ منورہ واپس ہوئے۔
جب آپ کی عمر چار سال کی ہوئی ،تو آپ ایک دن کنویں میں گر گئے ، لیکن خداوند نے آپ کو ڈوبنے سے بچا لیا۔(اور جب آپ پانی سے برآمد ہوئے تو آپ کے کپڑے اور آپ کا بدن تک بھیگا ہوا نہ ہوا تھا۔

مناقب ج4 ص 109

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور جابر بن عبد اللہ انصاری کی باہمی ملاقات:
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت محمد مصطفی ص نے اپنی ظاہری زندگی کے اختتام پر امام محمد باقر کی ولادت سے تقریبا 46 سال قبل جابر بن عبد اللہ انصاری کے ذریعہ سے امام محمد باقر علیہ السلام کو سلام کہلایا تھا، امام علیہ السلام کا یہ شرف اس درجہ ممتاز ہے کہ آل محمد میں سے کوئی بھی اس کی ہمسری نہیں کر سکتا۔

مطالب السؤل ص 272

مورخین کا بیان ہے کہ سرور کائنات ایک دن اپنی آغوش مبارک میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو پیار کر رہے تھے کہ ناگاہ آپ کے صحابی خاص جابر بن عبد اللہ انصاری حاضر ہوئے حضرت نے جابرکو دیکھ کر فرمایا، اے جابر! میرے اس فرزند کی نسل سے ایک بچہ پیدا ہو گا جو علم و حکمت سے بھرپور ہو گا،اے جابر تم اس کا زمانہ پاؤ گے،اور  اس وقت تک زندہ رہو گے جب تک وہ سطح ارض پر آ نہ جائے۔

اے جابر! دیکھو، جب تم اس سے ملنا تو اسے میرا سلام کہہ دینا، جابر نے اس خبر اور اس پیشین گوئی کو کمال مسرت کے ساتھ سنا، اور اسی وقت سے اس بہجت آفرین ساعت کا انتظار کرنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ چشم انتظار پتھرا گیں اور آنکھوں کا نور جاتا رہا۔ جب تک آپ بینا تھے ہر مجلس و محفل میں تلاش کرتے رہے اور جب نور نظر جاتا رہا تو زبان سے پکارنا شروع کر دیا، آپ کی زبان پر جب ہر وقت امام محمد باقر کا نام رہنے لگا تو لوگ یہ کہنے لگے کہ جابرکا دماغ ضعف پیری کی وجہ سے از کار رفتہ ہو گیا ہے لیکن بہرحال وہ وقت آ ہی گیا کہ آپ پیغام احمدی اور سلام محمدی پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔

راوی کا بیان ہے کہ: ہم جناب جابر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں امام زین العابدین علیہ السلام تشریف لائے، آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند امام محمد باقر علیہ السلام بھی تھے امام علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند سے فرمایا کہ چچا جابر بن عبد اللہ انصاری کے سر کا بوسہ دو، انہوں نے فورا تعمیل ارشاد کیا، جابر نے ان کو اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا کہ ابن رسول اللہ آپ کو آپ کے جدنامدار حضرت محمد مصطفی ص نے سلام فرمایا ہے۔
حضرت نے کہا اے جابر ان پر اور تم پر میری طرف سے بھی سلام ہو، اس کے بعد جابر بن عبد اللہ انصاری نے آپ سے شفاعت کے لیے ضمانت کی درخواست کی، آپ نے اسے منظور فرمایا اور کہا کہ میں تمہارے جنت میں جانے کا ضامن ہوں۔

صواعق محرقہ ص 120

وسیلہ النجات ص 338

مطالب السؤل 373

شواہدالنبوت ص 181

 نور الابصار ص 143

رجال کشی ص 27

تاریخ طبری ج3 ،ص 96

مجالس المومنین ص 117

علامہ محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ آنحضرت نے یہ بھی فرمایا تھا کہ:

"ان بقائک بعد رویتہ یسیر"

کہ اے جابر میرا پیغام پہنچانے کے بعد بہت تھوڑا زندہ رہو گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

مطالب السؤل ص 273

سات سال کی عمر میں امام محمد باقر (ع) کا حج خانہ کعبہ:
علامہ جامی نے لکھا ہے کہ:

راوی بیان کرتا ہے کہ میں حج کے لیے جا رہا تھا، راستہ پرخطر اور انتہائی تاریک تھا، جب میں لق و دق صحرا میں پہنچا تو ایک طرف سے کچھ روشنی کی کرن نظر آئی میں اس کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ ناگاہ ایک سات سال کا لڑکا میرے قریب آ پہنچا، میں نے سلام کا جواب دینے کے بعد اس سے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ کہاں سے آ رہے ہیں اور کہاں کا ارادہ ہے، اور آپ کے پاس زاد راہ کیا ہے اس نے جواب دیا، سنو میں خدا کی طرف سے آ رہاہوں اور خدا کے طرف سے آ رہا ہوں اور خدا کی طرف جا رہا ہوں، میرا زاد راہ "تقوی" ہے میں عربی النسل، قریشی خاندان کا علوی نزاد ہوں، میرا نام محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہے، یہ  کہہ کر وہ دونوں سے غائب ہو گئے اور مجھے پتہ نہ چل سکا کہ آسمان کی طرف پرواز کر گئے یا زمین میں سما گئے۔

شواہد النبوت ص 183

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور اسلام میں سکے کی ابتدا:
مؤرخ ذاکر حسین تاریخ اسلام ج1 ص42 میں لکھتے ہیں کہ:

عبد الملک بن مروان نے 75 ھ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی صلاح سے اسلامی سکہ جاری کیا، اس سے پہلے روم و ایران کا سکہ اسلامی ممالک میں بھی جاری تھا۔
اس واقعہ کی تفصیل علامہ دمیری کے حوالہ سے یہ ہے کہ:

ایک دن علامہ کسائی سے خلیفہ ہارون رشید عباسی نے پوچھا کہ اسلام میں درہم و دینار کے سکے، کب اور کیونکر رائج ہوئے انہوں نے کہا کہ سکوں کا اجرا خلیفہ عبد الملک بن مروان نے کیا ہے لیکن اس کی تفصیل سے ناواقف ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ ان کے اجراء اور ایجادکی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، ہارون الرشید نے کہا کہ بات یہ ہے کہ زمانہ سابق میں جو کاغذ وغیرہ ممالک اسلامیہ میں مستعمل ہوتے تھے وہ مصر میں تیار ہوا کرتے تھے، جہاں اس وقت نصرانیوں کی حکومت تھی، اور وہ تمام کے تمام بادشاہ روم کے مذہب پر تھے وہاں کے کاغذ پر جو ضرب یعنی (ٹریڈمارک) ہوتا تھا، اس میں بزبان روم (اب،ابن،روح القدس لکھا ہوا تھا ،

 فلم یزل ذلک کذالک فی صدر الاسلام کلہ بمعنی علوما کان علیہ،
اور یہی چیز اسلام میں جتنے دور گذرے تھے سب میں رائج تھی یہاں تک کہ جب عبد الملک بن مروان کا زمانہ آیا، تو چونکہ وہ بڑا ذہین اور ہوشیار تھا، لہذا اس نے ترجمہ کرا کے گورنر مصر کو لکھا کہ تم رومی ٹریڈ مارک کو موقوف و متروک کر دو، یعنی کاغذ کپڑے وغیرہ جو اب تیار ہوں ان میں یہ نشانات نہ لگنے دو بلکہ ان پر یہ لکھوا دو

"شہد اللہ انہ لا الہ الا ہو"

چنانچہ اس حکم پر عمل درآمد کیا گیا جب اس نئے مارک کے کاغذوں کا جن پر کلمہ توحید ثبت تھا، رواج پایا تو قیصر روم کو بے انتہا ناگوار گزرا اس نے تحفہ تحائف بھیج کر عبد الملک بن مروان خلیفہ وقت کو لکھا کہ کاغذ وغیرہ پر جو"مارک" پہلے تھا، وہی بدستور جاری کرو، عبد الملک نے ہدایا لینے سے انکار کر دیا اور سفیر کو تحائف و ہدایا سمیت واپس بھیج دیا اور اس کے خط کا جواب تک نہ دیا قیصر روم نے تحائف کو دوگنا کر کے پھر بھیجا اور لکھا کہ تم نے میرے تحائف کو کم سمجھ کر واپس کر دیا، اس لیے اب اضافہ کر کے بھیج رہا ہوں اسے قبول کر لو اور کاغذ سے نیا"مارک" ہٹا دو، عبد الملک نے پھر ہدایا واپس کر دیا اور مثل سابق کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد قیصر روم نے تیسری مرتبہ خط لکھا اور تحائف و ہدایا بھیجے اور خط میں لکھا کہ تم نے میرے خطوط کے جوابات نہیں دئیے ،اور نہ میری بات قبول کی اب میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم نے اب بھی رومی ٹریڈ مارک کو از سرنو رواج نہ دیا اور توحید کے جملے کاغذ سے نہ ہٹائے تو میں تمہارے رسول کو گالیاں، سکہ درہم و دینار پر نقش کرا کے تمام ممالک اسلامیہ میں رائج کر دوں گا اور تم کچھ نہ کر سکو گے دیکھو اب جو میں نے تم کو لکھا ہے، اسے پڑھ کر ارفص جبینک عرقا،

اپنی پیشانی کا پسینہ صاف کرو اور جو میں کہتا ہوں اس پر عمل کرو تا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان جو رشتہ محبت قائم ہے بدستور باقی رہے۔

عبد الملک ابن مروان نے جس وقت اس خط کو پڑھا تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ، ہاتھ کے طوطے اڑ گئے اور نظروں میں دنیا تاریک ہو گئی اس نے کمال اضطراب میں علماء فضلاء اہل الرائے اور سیاست دانوں کو فورا جمع کر کے ان سے مشورہ طلب کیا اور کہا کہ کوئی ایسی بات سوچو کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے یا سراسر اسلام کامیاب ہو جائے، سب نے سر جوڑ کر بہت دیر تک غور کیا لیکن کوئی ایسی رائے نہ دے سکے جس پر عمل کیا جا سکتا:

"فلم یجد عند احد منہم رایا یعمل بہ"

جب بادشاہ ان کی کسی رائے سے مطمئن نہ ہو سکا تو اور زیادہ پریشان ہوا اور دل میں کہنے لگا میرے پالنے والے اب کیا کروں ابھی وہ اسی تردد میں بیٹھا تھا کہ اس کا وزیر اعظم"ابن زنباع" بول اٹھا، بادشاہ تو یقینا جانتا ہے کہ اس اہم موقع پر اسلام کی مشکل کشائی کون کر سکتا ہے ، لیکن عمدا اس کی طرف رخ نہیں کرتا، بادشاہ نے کہا"ویحک من" خدا تجھے سمجھے، تو بتا تو سہی وہ کون ہے ؟ وزیر اعظم نے عرض کی:

 "علیک بالباقر من اہل بیت النبی"

میں فرزند رسول امام محمد باقر علیہ السلام کی طرف اشارہ کر رہا ہوں اور وہی اس آڑے وقت میں تیرے کام آ سکتے ہیں ،

عبد الملک بن مروان نے جونہی آپ کا نام سنا قال صدقت کہے لگا خدا کی قسم تم نے سچ کہا اور صحیح رہبری کی ہے۔

اس کے بعد اسی وقت فورا اپنے عامل مدینہ کو لکھا کہ اس وقت اسلام پر ایک سخت مصیبت آ گئی ہے اور اس کا دفع ہونا امام محمد باقر کے بغیر ناممکن ہے، لہذا جس طرح ہو سکے انھیں راضی کر کے میرے پاس بھیجدو، دیکھو اس سلسلہ میں جو مصارف ہوں گے، وہ بذمہ حکومت ہوں گے۔

عبد الملک نے درخواست طلبی، مدینہ ارسال کرنے کے بعد شاہ روم کے سفیر کو نظر بند کر دیا، اور حکم دیا کہ جب تک میں اس مسئلہ کو حل نہ کر سکوں اسے پایہ تخت سے جانے نہ دیا جائے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عبد الملک بن مروان کا پیغام پہنچا اور آپ فورا عازم سفر ہو گئے اور اہل مدینہ سے فرمایا کہ چونکہ اسلام کا کام ہے لہذا میں تمام اپنے کاموں پر اس سفر کو ترجیح دیتا ہوں،  الغرض آپ وہاں سے روانہ ہو کرعبد الملک کے پاس جا پہنچے، بادشاہ چونکہ سخت پریشان تھا،اس لیے اسے نے آپ کے استقبال کے فورا بعد عرض مدعا کر دیا، امام علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا:

"لایعظم ہذا علیک فانہ لیس بشئی"

اے بادشاہ سن، مجھے بعلم امامت معلوم ہے کہ خدائے قادر و توانا قیصر روم کو اس فعل قبیح پر قدرت ہی نہ دے گا اور پھر ایسی صورت میں جب کہ اس نے تیرے ہاتھوں میں اس سے عہدہ برآ ہونے کی طاقت دے رکھی ہے بادشاہ نے عرض کی یابن رسول اللہ وہ کونسی طاقت ہے جو مجھے نصیب ہے اور جس کے ذریعہ سے میں کامیابی حاصل کر سکتا ہوں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ تم اسی وقت حکاک اور کاریگروں کو بلاؤ اور ان سے درہم و دینار کے سکے ڈھلواؤ اور ممالک اسلامیہ میں رائج کر دو، اس نے پوچھا کہ ان کی کیا شکل و صورت ہو گی اور وہ کس طرح ڈھلیں گے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ سکہ کے ایک طرف کلمہ توحید دوسری طرف پیغمر اسلام کا نام نامی اور ضرب سکہ کا سن لکھا جائے اس کے بعد اس کے اوزان بتائے آپ نے کہا کہ درہم کے تین سکے اس وقت جاری ہیں ایک بغلی جو دس مثقال کے دس ہوتے ہیں دوسرے سمری خفاف جو چھ مثقال کے دس ہوتے ہیں تیسرے پانچ مثقال کے دس ،یہ کل 21 مثقال ہوئے اس کو تین پر تقسیم کرنے پر حاصل تقسیم 7 مثقال ہوئے، اسی سات مثقال کے دس درہم بنوا، اور اسی سات مثقال کی قیمت سونے کے دینارتیارکر جس کا خوردہ دس درہم ہو، سکہ کا نقش چونکہ فارسی میں ہے اس لیے اسی فارسی میں رہنے دیا جائے ، اور دینار کا سکہ رومی حرفوں میں ہے لہذا اسے رومی ہی حرفوں میں کندہ کرایا جائے اور ڈھالنے کی مشین (سانچہ) شیشے کا بنوایا جائے تا کہ سب ہم وزن تیار ہو سکیں۔
عبد الملک نے آپ کے حکم کے مطابق تمام سکے ڈھلوا لیے اور سب کام درست کر لیا اس کے بعد حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ اب کیا کروں ؟ "امرہ محمد بن علی" آپ نے حکم دیا کہ ان سکوں کو تمام ممالک اسلامیہ میں رائج کر دے، اور ساتھ ہی ایک سخت حکم نافذ کر دے جس میں یہ ہو کہ اسی سکہ کو استعمال کیا جائے اور رومی سکے خلاف قانون قرار دیئے گئے اب جو خلاف ورزی کرے گا اسے سخت سزا دی جائے گی ، اور بوقت ضرورت اسے قتل بھی کیا جا سکے گا۔

عبد الملک بن مروان نے تعمیل ارشاد کے بعد سفیر روم کو رہا کر کے کہا کہ اپنے بادشاہ سے کہنا کہ ہم نے اپنے سکے ڈھلوا کر رائج کر دیے اور تمہارے سکہ کو غیر قانونی قرار دے دیا اب تم سے جو ہو سکے کر لو۔

سفیر روم یہاں سے رہا ہو کر جب اپنے قیصر کے پاس پہنچا اور اس سے ساری داستان بتائی تو وہ حیران رہ گیا، اور سر ڈال کر دیر تک خاموش بیٹھا سوچتا رہا، لوگوں نے کہا بادشاہ تو نے جو یہ کہا تھا کہ میں مسلمانوں کے پیغمبرکو سکوں پر گالیاں کندا کرا دوں گا اب اس پر عمل کیوں نہیں کرتے اس نے کہا کہ اب گالیاں کندا کر کے کیا کروں گا اب تو ان کے ممالک میں میرا سکہ ہی نہیں چل رہا اور لین دین ہی نہیں ہو رہا۔

حیواة الحیوان دمیری

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی حیثیت:
کسی معصوم کی علمی حیثیت پر روشنی ڈالنی بہت دشوار ہے ، کیونکہ معصوم اور امام زمانہ کو علم لدنی ہوتا ہے، وہ خدا کی بارگاہ سے علمی صلاحیتوں سے بھرپور متولد ہوتا ہے،حضرت امام محمد باقر علیہ السلام چونکہ امام زمانہ اور معصوم ازلی تھے اس لیے آپ کے علمی کمالات، علمی کارنامے اور آپ کی علمی حیثیت کی وضاحت ناممکن ہے تا ہم میں ان واقعات میں سے مستثنی لکھتا ہوں کہ جن پر علماء عبور حاصل کر سکے ہیں۔

 علامہ ابن شہر آشوب لکھتے ہیں کہ:

حضرت کا خود ارشاد ہے کہ" علمنا منطق الطیر و اوتینا من کل شئی "

 ہمیں طائروں تک کی زبان سکھا گئی ہے اور ہمیں ہر چیز کا علم عطا کیا گیا ہے۔

 مناقب شہر آشوب ج5 ص11

روضة الصفاء میں ہے کہ:

خدا کی قسم ہم زمین اور آسمان میں خداوند عالم کے خازن علم ہیں اور ہم یہ شجرہ نبوت اور معدن حکمت ہیں ، وحی ہمارے یہاں آتی رہی اور فرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ظاہری ارباب اقتدار ہم سے جلتے اور حسد کرتے ہیں،

لسان الواعظین میں ہے کہ ابو مریم عبد الغفار کا کہنا ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض پرداز ہوا کہ:

1 ۔ مولا کونسا اسلام بہتر ہے ؟ فرمایا کہ: جس سے اپنے برادر مومن کو تکلیف نہ پہنچے۔

2 ۔ کونسا خلق بہتر ہے ؟  فرمایا صبر اور معاف کر دینا۔

3 ۔ کون سا مومن کامل ہے ؟  فرمایا جس کااخلاق بہتر ہو۔

4 ۔ کون سا جہاد بہتر ہے ؟ ، فرمایا جس میں اپنا خون بہہ جائے۔

5 ۔ کونسی نماز بہتر ہے  ؟، فرمایا جس کا قنوت طویل ہو،

6 ۔ کون سا صدقہ بہتر ہے ؟، فرمایا جس سے نافرمانی سے نجات ملے،

7۔ بادشاہان دنیا کے پاس جانے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟، فرمایا میں اچھا نہیں سمجھتا، پوچھا کیوں ؟ فرمایا کہ اس لیے کہ بادشاہوں کے پاس کی آمد و رفت سے تین باتیں پیدا ہوتی ہیں :

 1 ۔ محبت دنیا،
2 ۔فراموشی مرگ،
3 ۔ قلت رضائے خدا۔
پوچھا پھر میں نہ جاؤں ، فرمایا میں طلب دنیا سے منع نہیں کرتا، البتہ طلب معاصی سے روکتا ہوں ۔
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ:

 یہ مسلمہ حقیقت ہے اور اس کی شہرت عامہ ہے کہ آپ علم و زہد اور شرف میں ساری دنیا سے فوقیت لے گئے ہیں۔ آپ سے علم القرآن، علم الآثار، علم السنن اور ہر قسم کے علوم ، حکم، آداب وغیرہ کے مظاہرہ میں کوئی نہیں ہوا، بڑے بڑے صحابہ اور نمایاں تابعین، اور عظیم القدر فقہاء آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے رہے آپ کو آنحضرت (ص) نے جابر بن عبد اللہ انصاری کے ذریعہ سے سلام کہلایا تھا، اور اس کی پیشین گوئی فرمائی تھی کہ یہ میرا فرزند"باقر العلوم" ہو گا، علم کی گتھیوں کو سلجھائے گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی۔

اعلام الوری ص157،

علامہ شبلنجی نے لکھا ہے کہ:

 علم دین، علم احادیث، علم سنن اور تفسیر قرآن و علم السیرت و علوم و فنون ،ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدر امام محمد باقر علیہ السلام سے ظاہر ہوئے، اتنے امام حسین اور امام حسین کی اولاد میں سے کسی سے ظاہر نہیں ہوئے ۔

 کتاب الارشاد ص 286

نورالابصار ص 131

ارجح المطالب ص447

ابن حجر مکی نے لکھا ہے کہ:

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے علمی فیوض و برکات اور کمالات و احسانات سے اس شخص کے علاوہ جس کی بصیرت زائل ہو گئی ہو، جس کا دماغ خراب ہو گیا ہو اور جس کی طینت و طبیعت فاسد ہو گئی ہو، کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا، اسی وجہ سے آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ "باقر العلوم" علم کے پھیلانے والے اور جامع العلوم ہیں، آپ کا دل صاف، علم و عمل روشن و تابندہ نفس پاک اور خلقت شریف تھی، آپ کے کل اوقات اطاعت خداوندی میں بسر ہوتے تھے۔

عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثار راسخ اور گہرے نشانات نمایاں ہو گئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اور عاجز و ماندہ ہیں، آپ کے ہدایات و کلمات اس کثرت سے ہیں کہ ان کا احصاء اس کتاب میں ناممکن ہے۔

صواعق محرقہ ص120

ابن خلکان لکھتے ہیں کہ:

 امام محمد باقر علامہ زمان اور سردار کبیر الشان تھے۔ آپ علوم میں بڑے تبحر اور وسیع الاطلاق تھے۔

 وفیات الاعیان ج1 ص450

 ذہبی لکھتے ہیں کہ:

 آپ بنی ہاشم کے سردار اور متبحر علمی کی وجہ سے باقر مشہور تھے، آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اور آپ نے اس کے وقائق کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔

 تذکرة الحفاظ ج1 ص111

علامہ شبراوی نے لکھا ہے کہ:

 امام محمد باقر کے علمی تذکرے دنیا میں مشہور ہوئے اور آپ کی مدح و ثناء میں بکثرت شعر لکھے گئے، مالک جہنی نے یہ تین شعر لکھے ہیں:

ترجمہ : جب لوگ قرآن مجید کا علم حاصل کرنا چاہیں تو پورا قبیلہ قریش اس کے بتانے سے عاجز رہے گا، کیونکہ وہ خود محتاج ہے اور اگر فرزند رسول امام محمد باقر کے منہ سے کوئی بات نکل جائے تو بے حد و حساب مسائل و تحقیقات کے ذخیرے مہیا کر دیں گے یہ حضرات وہ ستارے ہیں جو ہر قسم کی تاریکیوں میں چلنے والوں کے لیے چمکتے ہیں اور ان کے انوار سے لوگ راستے پاتے ہیں۔

 الاتحاف ص 52

تاریخ الآئمہ ص413

علامہ ابن شہر آشوب کا بیان ہے کہ صرف ایک راوی محمدبن مسلم نے آپ سے تیس ہزارحدیثیں روایت کی ہیں (مناقب جلد ۵ ص ۱۱) ۔

آپ کے بعض علمی ہدایات وارشادات:

 علامہ محمدبن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ: جابرجعفی کابیان ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ملا تو آپ نے فرمایا اے جابر میں دنیا سے بالکل بے فکر ہوں کیونکہ جس کے دل میں دین خالص ہو وہ دنیا کو کچھ نہیں سمجھتا، اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا چھوڑی ہوئی سواری اتارا ہوا کپڑا اور استعمال کی ہوئی عورت ہے مومن دنیا کی بقا سے مطمئن نہیں ہوتا اور اس کی دیکھی ہوئی چیزوں کی وجہ سے نور خدا اس سے پوشیدہ نہیں ہوتا مومن کو تقوی اختیار کرنا چاہئے کہ وہ ہر وقت اسے متنبہ اور بیدار رکھتا ہے سنو دنیا ایک سرائے فانی ہے، نزلت بہ وارتحلت منہ " اس میں آنا جانا لگا رہتا ہے آج آئے اور کل گئے  اور دنیا ایک خواب ہے جو کمال کے مانند دیکھی جاتی ہے اور جب جاگ اٹھے تو کچھ نہیں ...
آپ نے فرمایا تکبر بہت بری چیز ہے ، یہ جس قدر انسان میں پیدا ہو گا اسی قدر اس کی عقل گھٹے گی ، کمینے شخص کا حربہ گالیاں بکنا ہے۔

 ایک عالم کی موت کو ابلیس نوے عابدوں کے مرنے سے بہتر سمجھتا ہے ایک ہزار عابد سے وہ ایک عالم بہتر ہے جو اپنے علم سے فائدہ پہنچا رہا ہو۔

میرے ماننے والے وہ ہیں جو اللہ کی اطاعت کریں آنسوؤں کی بڑی قیمت ہے رونے والا بخشا جاتا ہے اور جس رخسار پر آنسو جاری ہوں وہ ذلیل نہیں ہوتا۔

سستی اور زیادہ تیزی برائیوں کی کنجی ہے۔

خدا کے نزدیک بہترین عبادت پاک دامنی ہے انسان کو چاہئے کہ اپنے پیٹ اور اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھیں۔

دعا سے قضا بھی ٹل جاتی ہے ۔ نیکی بہترین خیرات ہے۔

بدترین عیب یہ ہے کہ انسان کو اپنی آنکھ کی شہتیر دکھائی نہ دے، اور دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آئے ، یعنی اپنے بڑے گناہ کی پرواہ نہ ہو، اور دوسروں کے چھوٹے عیب اسے بڑے نظر آئیں اور خود عمل نہ کرے ، صرف دوسروں کو تعلیم دے۔

جو خوشحالی میں ساتھ دے اور تنگ دستی میں دور رہے ، وہ تمہارا بھائی اور دوست نہیں ہے۔

 مطالب السؤل ص272

علامہ شبلنجی نے لکھا ہے کہ:

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام  نے فرمایا کہ:

جب کوئی نعمت ملے تو کہو الحمد للہ اور جب کوئی تکلیف پہنچے تو کہو"لاحول و لا قوة الا باللہ" اور جب روزی تنگ ہو تو کہو استغفر اللہ ۔
دل کو دل سے راہ ہوتی ہے، جتنی محبت تمہارے دل میں ہو گی ، اتنی ہی تمہارے بھائی اور دوست کے دل میں بھی ہو گی
تین چیزیں خدا نے تین چیزوں میں پوشیدہ رکھی ہیں :
1 ۔ اپنی رضا اپنی اطاعت میں ،کسی فرمانبرداری کو حقیر نہ سمجھو شاید اسی میں خدا کی رضا ہو۔
2 ۔ اپنی ناراضی اپنی معصیت میں کسی گناہ کو معمولی نہ جانو تو شاید خدا اسی سے ناراض ہو جائے۔
3 ۔ اپنی دوستی یا اپنے ولی ، مخلوقات میں کسی شخص کو حقیر نہ سمجھو، شاید وہی ولی اللہ ہو۔

نور الابصار ص 131

اتحاف ص93

 احادیث آئمہ میں ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں انسان کو جتنی عقل دی گئی ہے اسی کے مطابق اس سے قیامت میں حساب و کتاب ہو گا۔

ایک نفع پہنچانے والا عالم ستر ہزار عابدوں سے بہتر ہے ، عالم کی صحبت میں تھوڑی دیر بیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے خدا ان علماء پر رحم و کرم فرمائے جو احیاء علم کرتے اور تقوی کو فروغ دیتے ہیں۔

علم کی زکوة یہ ہے کہ مخلوق خدا کو تعلیم دے جائے ۔ قرآن مجید کے بارے میں تم جتنا جانتے ہو اتنا ہی بیان کرو۔

بندوں پر خدا کا حق یہ ہے کہ جو جانتا ہوا سے بتائے اور جو نہ جانتا ہو اس کے جواب میں خاموش ہو جائے ۔ علم حاصل کرنے کے بعد اسے پھیلاو، اس لیے کہ علم کو بند رکھنے سے شیطان کا غلبہ ہوتا ہے۔

 معلم اور متعلم کا ثواب برابر ہے ۔ جس کی تعلیم کی غرض یہ ہو کہ وہ علماء سے بحث کرے ، جہلا پر رعب جمائے اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے وہ جہنمی ہے ، دینی راستہ دکھلانے والا اور راستہ پانے والا دونوں ثواب کی میزان کے لحاظ سے برابر ہیں۔ جو دینی راستہ دکھلانے والا اور راستہ پانے والا دونوں ثواب کی  میزان کے لحاظ سے برابر ہیں۔

جو دینیات میں غلط کہتا ہو اسے صحیح بنا دو، ذات الہی وہ ہے، جو عقل انسانی میں نہ سما سکے اور حدود میں محدود نہ ہو سکے ۔

اس کی ذات فہم و ادراک سے بالاتر ہے خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، خدا کی ذات کے بارے میں بحث نہ کرو، ورنہ حیران ہو جاؤ گے ۔ اجل کی دو قسمیں ہیں ایک اجل محتوم، دوسری اجل موقوف، دوسری سے خدا کے سوا کوئی واقف نہیں، زمین حجت خدا کے سوا کوئی واقف نہیں ، زمین حجت خدا کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی۔
امت بے امام کی مثال بھیڑ کے اس گلے کی ہے، جس کا کوئی بھی نگران نہ ہو۔

امام محمد باقر علیہ السلام سے روح کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ روح ہوا کی مانند متحرک ہے اور یہ ریح سے مشتق ہے ، ہم جنس ہونے کی وجہ سے اسے روح کہا جاتا ہے یہ روح جو جانداروں کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ، وہ تمام ریحوں سے پاکیزہ تر ہے۔

روح مخلوق اور مصنوع ہے اور حادث اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والی ہے۔

وہ ایسی لطیف شئی ہے جس میں نہ کسی قسم کی گرانی اور سنگینی ہے نہ سبکی، وہ ایک باریک اور رقیق شئی ہے جو قالب کثیف میں پوشیدہ ہے، اس کی مثال اس مشک جیسی ہے جس میں ہوا بھر دو، ہوا بھرنے سے وہ پھول جائے گی لیکن اس کے وزن میں ا ضافہ نہ ہو گا۔ روح باقی ہے اور بدن سے نکلنے کے بعد فنا نہیں ہوتی، یہ نفخ صور کے وقت ہی فنا ہو گی۔
آپ سے خداوند عالم کے صفات بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا، کہ وہ سمیع و بصیر ہے اور آلہ سمع و بصر کے بغیر سنتا اور دیکھتا ہے، رئیس معتزلہ عمر بن عبید نے آپ سے دریافت کیا کہ:

"من یحال علیہ غضبی"

ابو خالد کابلی نے آپ سے پوچھا کہ قول خداوند کہ:

 "فامنوا باللہ و رسولہ و النور الذی انزلنا"

 میں، نور سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ:

 "و اللہ النور الآئمة من آل محمد":

 خدا کی قسم نور سے ہم آل محمد مراد ہیں۔

آپ سے دریافت کیا گیا کہ:

 یوم ندعوا کل اناس بامامہم،

سے کون لوگ مراد ہیں آپ نے فرمایا وہ رسول اللہ ہیں اور ان کے بعد ان کی اولاد سے آئمہ ہوں گے،

 انہیں کی طرف آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے جو انہیں دوست رکھے گا اور ان کی تصدیق کرے گا وہی نجات پائے گا اور جو ان کی مخالفت کرے گا جہنم میں جائے گا، ایک مرتبہ طاؤس یمانی نے حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کیا کہ وہ کونسی چیز ہے جس کا تھوڑا استعمال حلال تھا اور زیادہ استعمال حرام، آپ نے فرمایا کہ وہ نہر طالوت کا پانی تھا، جس کا صرف ایک چلو پینا حلال تھا اور اس سے زیادہ حرام پوچھا وہ کون سا روزہ تھا جس میں کھانا پینا جائز تھا، فرمایا وہ جناب مریم کا روزہ صمت تھا جس میں صرف نہ بولنے کا روزہ تھا ، کھانا پینا حلال تھا، پوچھا وہ کون سی شئی ہے جو صرف کرنے سے کم ہوتی ہے بڑھتی نہیں، فرمایا کہ وہ عمر ہے ۔ پوچھا  وہ کون سی شئی ہے جو بڑھتی ہے گھٹتی نہیں ، فرمایا وہ سمندر کا پانی ہے ، پوچھا وہ کونسی چیز ہے جو صرف ایک بار اڑی پھر نہ اڑی، فرمایا وہ کوہ طور ہے جو ایک بار حکم خدا سے اڑ کر بنی اسرائیل کے سروں پر آ گیا تھا۔ پوچھا وہ کون لوگ ہیں جن کی سچی گواہی خدا نے جھوٹی قرار دی، فرمایا وہ منافقوں کی تصدیق رسالت ہے جو دل سے نہ تھی۔

پوچھا بنی آدم کا 3/1 حصہ کب ہلاک ہوا، فرمایا ایسا کبھی نہیں ہوا، تم یہ پوچھو کہ انسان کا 4/1 حصہ کب ہلاک ہوا تو میں بتاؤں کہ یہ اس وقت ہوا جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا، کیونکہ اس وقت چار آدمی تھے آدم، حوا، ہابیل اور قابیل ، پوچھا پھر نسل انسانی کس طرح بڑھی فرمایا جناب شیش سے جو قتل ہابیل کے بعد بطن حوا سے پیدا ہوئے۔

آپ کی عبادت گذاری اور آپ کے عام حالات
آپ آباؤ اجداد کی طرح بے پناہ عبادت کرتے تھے ساری رات نماز پڑھنی اور سارا دن روزہ سے گزارنا آپ کی عادت تھی آپ کی زندگی زاہدانہ تھی، بورئیے پر بیٹھتے تھے ہدایا جو آتے تھے اسے فقراء و مساکین پر تقسیم کر دیتے تھے غریبوں پر بے حد شفقت فرماتے تھے تواضع اور فروتنی ،صبر و شکر غلام نوازی صلہ رحم وغیرہ میں اپنی آپ نظیر تھے آپ کی تمام آمدنی فقراء پر صرف ہوتی تھی آپ فقیروں کی بڑی عزت کرتے تھے اور انہیں اچھے نام سے یاد کرتے تھے۔

 کشف الغمہ ص95

آپ کے ایک غلام افلح کا بیان ہے کہ ایک دن آپ کعبہ کے قریب تشریف لے گئے، آپ کی جیسے ہی کعبہ پر نظر پڑی آپ چیخ مار کر رونے لگے میں نے کہا کہ حضور سب لوگ دیکھ رہے ہیں آپ آہستہ سے گریہ فرمائیں ارشاد کیا، اے افلح شاید خدا بھی انہیں لوگوں کی طرح میری طرف دیکھ لے اور میری بخشش کا سہارا ہو جائے، اس کے بعد آپ سجدہ میں تشریف لے گئے اور جب سر اٹھایا تو ساری زمین آنسوؤں سے تر تھی۔

 مطالب السؤل ص 271

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور ہشام بن عبد الملک

تواریخ میں ہے 96 ھ میں ولیدبن عبد الملک فوت ہوا (ابو الفداء) اور اس کا بھائی سلیمان بن عبد الملک خلیفہ مقرر کیا گیا (ابن الوردی ) 99 ھ میں عمر بن عبد العزیز خلیفہ ہوا ابن الوردی اس نے خلیفہ ہوتے ہی اس بدعت کو جو 41 ھ سے بن امیہ نے حضرت علی پر سب و شتم کی صورت میں جاری کر رکھی تھی حکما روک دیا (ابو الفداء) اور رقوم خمس بنی ہاشم کو دینا شروع کیا ۔

کتاب الخرائج ابو یوسف،

یہ وہ زمانہ تھا جس میں علی کے نام پر اگر کسی بچے کا نام ہوتا تھا تو وہ قتل کر دیا جاتا تھا اور کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑا جاتا تھا۔

تدریب الراوی سیوطی

 اس کے بعد 101 ھ میں یزید بن عبد الملک خلیفہ بنایا گیا(ابن الوردی) 105 ھ میں ہشام بن عبد الملک بن مروان بادشاہ وقت مقرر ہوا (ابن الوردی)۔

ہشام بن عبد الملک، چست، چالاک، کنجوس و متعصب، چال باز، سخت مزاج، کجرو، خودسر، حریص، کانوں کا کچا تھا اور حد درجہ کا شکی تھا کبھی کسی کا اعتبار نہ کرتا تھا۔ اکثر صرف شبہ پر سلطنت کے لائق لائق ملازموں کو قتل کرا دیتا تھا۔ یہ عہدوں پر انہیں کو فائز کرتا تھا جو خوشامدی ہوں، اس نے خالد بن عبد اللہ قسری کو 105 ھ سے 120 ھ تک عراق کا گورنر تھا قسری کا حال یہ تھا کہ ہشام کو رسول اللہ سے افضل بتاتا اور  اسی کا پروپیگنڈہ کیا کرتا تھا۔

 تاریخ کامل ج5 ص103

ہشام آل محمد کا دشمن تھا اسی نے زید شہید کو نہایت بری طرح قتل کیا تھا،

 تاریخ اسلام ج1 ص49

 اسی نے اپنے زمانہ ولیعہدی میں فرزدق شاعر کو امام زین العابدین کی مدح کے جرم میں بمقام عسقلان قید کیا تھا۔

صواعق محرقہ ص 120

ہشام کا سوال اور اس کا جواب:

تخت سلطنت پر بیٹھنے کے بعد ہشام بن عبد الملک حج کے لیے گیا وہاں اس نے امام محمد باقر علیہ السلام کو دیکھا کہ مسجد الحرام میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو پند و نصائح سے بہرہ ور کر رہے ہیں یہ دیکھ کر ہشام کی دشمنی نے کروٹ لی اور اس نے دل میں سوچا کہ انہیں ذلیل کرنا چاہئے اور اسی ارادہ سے اس نے ایک شخص سے کہا کہ جا کر ان سے کہو کہ خلیفہ پوچھ رہے ہیں کہ حشر کے دن آخری فیصلہ سے قبل لوگ کیا کھائیں اور پئیں گے اس نے جا کر امام علیہ السلام کے سامنے خلیفہ کا سوال پیش کیا آپ نے فرمایا جہاں حشر و نشر ہو گا وہاں میوے دار درخت ہوں گے، وہ لوگ انہیں چیزوں کو استعمال کریں گے بادشاہ نے جواب سن کر کہا یہ بالکل غلط ہے کیونکہ حشر میں لوگ مصیبتوں اور اپنی پریشانیوں میں مبتلا ہوں گے ان کو کھانے پینے کا ہوش کہاں ہو گا ؟ قاصد نے بادشاہ کا گفتہ نقل کر دیا، حضرت نے قاصد سے فرمایا کہ جاؤ اور بادشاہ سے کہو کہ تم نے قرآن بھی پڑھا ہے یا نہیں، قرآن میں یہ نہیں ہے کہ "جہنم" کے لوگ جنت والوں سے کہیں گے کہ ہمیں پانی اور کچھ نعمتیں دیدو کہ پی اور کھا لیں اس وقت وہ جواب دیں گے کہ کافروں پر جنت کی نعمتیں حرام ہیں۔

تو جب جہنم میں بھی لوگ کھانا پینا نہیں بھولیں گے تو حشر و نشر میں کیسے بھول جائیں گے جس میں جہنم سے کم سختیاں ہوں گی اور وہ امید و بیم اور جنت و دوزخ کے درمیان ہوں گے یہ سن کر ہشام شرمندہ ہو گیا۔

ارشادمفید ص 408

تاریخ آئمہ ص 414

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی دمشق میں طلبی
علامہ مجلسی اور سید ابن طاؤس رمقطراز ہیں کہ ہشام بن عبد الملک اپنے عہد حکومت کے آخری ایام میں حج بیت اللہ کے لیے مکہ معظمہ میں پہنچا وہاں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام بھی موجود تھے ایک دن حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجمع عام میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ ہمیں روئے زمین پر خدا کے خلیفہ اور اسکی حجت ہیں ، ہمارا دشمن جہنم میں جائے گا، اور ہمارا دوست نعمات جنت سے متنعم ہو گا۔
اس خطبہ کی اطلاع ہشام کو دی گئی ، وہ وہاں تو خاموش رہا، لیکن دمشق پہنچنے کے بعد والی مدینہ کو فرمان بھیجا کہ محمد بن علی اور جعفر بن محمد کو میرے پاس بھیجدے ، چنانچہ آپ حضرات دمشق پہنچے وہاں ہشام نے آپ کو تین روز تک اذن حضور نہیں دیا چوتھے روز جب اچھی طرح دربار کو سجا لیا، تو آپ کو بلوا بھیجا آپ حضرات جب داخل دربار ہوئے تو آپ کو ذلیل کرنے کے لیے آپ سے کہا کہ ہمارے تیر اندازوں کی طرح آپ بھی تیر اندازی کریں حضرت امام محمد باقر نے فرمایا کہ میں ضعیف ہو گیا ہوں مجھے اس سے معاف رکھ، اس نے بہ قسم کہا کہ یہ ناممکن ہے پھر ایک کمان آپ کو دلوایا آپ نے ٹھیک نشانہ پر تیر لگائے ، یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا اس کے بعد امام نے فرمایا، بادشاہ ہم معدن رسالت ہیں، ہمارا مقابلہ کسی امر میں کوئی نہیں کر سکتا، یہ سن کر ہشام کو غصہ آ گیا، وہ بولا کہ آب لوگ بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں آپ کے دادا علی بن ابی طالب نے غیب کا دعوی کیا ہے آپ نے فرمایا بادشاہ قرآن مجید میں سب کچھ موجود ہے اور حضرت علی امام مبین تھے انہیں کیا نہیں معلوم تھا۔

 جلاء العیون،

ثقة الاسلام علامہ کلینی تحریر فرماتے ہیں کہ ہشام نے اہل دربار کو حکم دیا تھا کہ میں محمد بن علی (امام محمد باقر علیہ السلام) کو سر دربار ذلیل کروں گا تم لوگ یہ کرنا کہ جب میں خاموش ہو جاؤں تو انہیں کلمات ناسزا کہنا، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا آخر میں حضرت نے فرمایا، بادشاہ یاد رکھ ہم ذلیل کرنے ذلیل نہیں ہو سکتے ،خداوند عالم نے ہمیں عزت دی ہے، اس میں ہم منفرد ہیں یاد رکھ عاقبت کی شاہی متقین کے لیے ہے یہ سن کر ہشام نے:

 فامر بہ الی الحبس،

 آپ کو قید کرنے کا حکم دیدیا، چنانچہ آپ قید کر دیئے گئے۔

قید خانہ میں داخل ہونے کے بعد آپ نے قیدیوں کے سامنے ایک معجز نما تقریر کی جس کے نتیجہ میں قید خانہ کے اندر کہرام عظیم برپا ہو گیا، بالآخر قید خانہ کے داروغہ نے ہشام سے کہا کہ اگر محمد بن علی زیادہ دنوں قید رہے تو تیری مملکت کا نظام منقلب ہو جائے گا ان کی تقریر قید خانہ سے باہر بھی اثر ڈال رہی ہے اور عوام میں ان کے قید ہونے سے بڑا جوش ہے یہ سن کر ہشام ڈر گیا اور اس نے آپ کی رہائی کا حکم دیا اور ساتھ یہ بھی اعلان کرا دیا کہ نہ آپ کو کوئی مدینہ پہنچانے جائے اور نہ راستے میں آپ کو کوئی کھانا پانی دے، چنانچہ آپ تین روز کے بھوکے پیاسے داخل مدینہ ہوئے۔

وہاں پہنچ کر آپ نے کھانے پینے کی سعی، لیکن کسی نے کچھ نہ دیا، بازار ہشام کے حکم سے بند تھے یہ حال دیکھ کر آپ ایک پہاڑی پر گئے اور آپ نے اس پر کھڑے ہو کر عذاب الہی کا حوالہ دیا یہ سن کر ایک پیر مرد بازار میں کھڑا ہو کر کہنے لگا بھائیو! سنو، یہی وہ جگہ ہے جس جگہ حضرت شعیب نبی نے کھڑے ہو کر عذاب الہی کی خبر دی تھی اور عظیم ترین عذاب نازل ہوا تھا میری بات مانو اور اپنے کو عذاب میں مبتلا نہ کرو یہ سن کر سب لوگ حضرت کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور آپ کے لیے ہوٹلوں کے دروازے کھول دئیے۔

اصول کافی،

علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ہشام نے والی مدینہ ابراہیم بن عبد الملک کو لکھا کہ امام محمد باقر کو زہر سے شہید کر دے۔

جلاء العیون ص262

کتاب الخرائج و البحرائح میں علامہ راوندی لکھتے ہیں کہ:

 اس واقعہ کے بعد ہشام بن عبد الملک نے زید بن حسن کے ساتھ باہمی سازش کے ذریعہ امام علیہ السلام کو دوبارہ دمشق میں طلب کرنا چاہا لیکن والی مدینہ کی ہمنوائی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ارادہ سے باز آیا اس نے تبرکات رسالت جبرا طلب کئے اور امام علیہ السلام نے بروایتے ارسال فرما دئیے۔

دمشق سے روانگی اور ایک راہب کا مسلمان ہونا:

علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام قید خانہ دمشق سے رہا ہو کر مدینہ کو تشریف لئے جا رہے تھے کہ ناگاہ راستے میں ایک مقام پر مجمع کثیر نظر آیا، آپ نے تفحص حال کیا تو معلوم ہوا کہ نصاری کا ایک راہب ہے جو سال میں صرف ایک بار اپنے معبد سے نکلتا ہے آج اس کے نکلنے کا دن ہے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اس مجمع میں عوام کے ساتھ جا کر بیٹھ گئے ،راہب جو انتہائی ضعیف تھا، مقررہ وقت پر برآمد ہوا،اور اس نے چاروں طرف نظر دوڑانے کے بعد امام علیہ السلام کی طرف مخاطب ہو کر بولا:

1۔ کیا آپ ہم میں سے ہیں فرمایا میں امت محمدیہ سے ہوں۔
2۔ آپ علماء سے ہیں یا جہلا سے فرمایا میں جاہل نہیں ہوں۔
3- آپ مجھ سے کچھ دریافت کرنے کے لیے آئے ہیں فرمایا نہیں۔
4- جب کہ آپ عالموں میں سے ہیں کیا ؟ میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں، فرمایا ضرور پوچھیے۔ یہ سن کر راہب نے سوال کیا:

 1 ۔ شب و روز میں وہ کونسا وقت ہے، جس کا شمار نہ دن میں ہے اور نہ رات میں ، فرمایا وہ سورج کے طلوع سے پہلے کا وقت ہے جس کا شمار دن اور رات دونوں میں نہیں ، وہ وقت جنت کے اوقات میں سے ہے اور ایسا مبترک ہے کہ اس میں بیماروں کو ہوش آ جاتا ہے درد کو سکون ہوتا ہے جو رات بھر نہ سو سکے اسے نیند آتی ہے یہ وقت آخرت کی طرف رغبت رکھنے والوں کے لیے خاص الخاص ہے۔

2۔ آپ کا عقیدہ ہے کہ جنت میں پیشاب و پاخانہ کی ضرروت نہ ہو گی ؟ کیا دنیا میں اس کی مثال ہے ؟ فرمایا بطن مادر میں جو بچے پرورش پاتے ہیں ان کا فضلہ خارج نہیں ہوتا۔
3 ۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ کھانے سے بہشت کا میوہ کم نہ ہو گا اس کی یہاں کوئی مثال ہے، فرمایا ہاں ایک چراغ سے لاکھوں چراغ جلائے جاتے ہیں تب بھی پہلے چراغ کی روشنی میں کمی نہ ہو گی۔

4 ۔ وہ کون سے دو بھائی ہیں جو ایک ساتھ پیدا ہوئے اور ایک ساتھ مرے لیکن ایک کی عمر پچاس سال کی ہوئی اور دوسرے کی ڈیڑھ سو سال کی، فرمایا"عزیز اور عزیر پیغمبر ہیں یہ دونوں دنیا میں ایک ہی روز پیدا ہوئے اور ایک ہی روز مرے پیدائش کے بعد تیس برس تک ساتھ رہے پھر خدا نے عزیر نبی کو مار ڈالا (جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے) اور سو برس کے بعد پھر زندہ فرمایا اس کے بعد وہ اپنے بھائی کے ساتھ اور زندہ رہے اور پھر ایک ہی روز دونوں نے انتقال کیا۔

یہ سن کر راہب اپنے ماننے والوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا کہ جب تک یہ شخص شام کی حدود میں موجود ہے میں کسی کے سوال کا جواب نہ دوں گا سب کو چاہئے کہ اسی عالم زمانہ سے سوال کرے اس کے بعدوہ مسلمان ہو گیا۔

جلاء العیون ص 261

آپ اگرچہ اپنے علمی فیوض و برکات کی وجہ سے اسلام کو برابر فروغ دے رہے تھے لیکن اس کے باوجود ہشام بن عبد الملک نے آپ کو زہر کے ذریعہ سے شہید کرا دیا اور آپ بتاریخ 7 ذی الحجہ 114 ھ پیر کے دن، مدینہ منورہ میں جام شہادت نوش فرما گئے۔ اس وقت آپ کی عمر 57 سال کی تھی۔ آپ جنت البقیع میں دفن ہوئے۔

 کشف الغمہ ص93

جلاء العیون ص264

جنات الخلودص26

دمعہ ساکبہ ص449

انوار الحسینہ ص48

شواہد النبوت ص181

روضة الشہداء ص434

شبلنجی اور ابن حجر مکی نے لکھا ہے کہ:

"مات مسموما کابیہ"

آپ اپنے پدر بزرگوار امام زین العابدین علیہ السلام کی طرح زہر سے شہید کر دیئے گئے۔

 نور الابصار ص31

صواعق محرقہ ص120

آپ کی شہادت ہشام کے حکم سے ابراہیم بن ولید والی مدینہ کی زہر خورانی کے ذریعہ واقع ہوئی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ:

خلیفہ وقت ہشام بن عبد الملک کی مرسلہ زہر آلود زین کے ذریعہ سے واقع ہوئی تھی۔

جنات الخلود ص26

دمعہ ساکبہ ج2 ص 478

شہادت سے قبل آپ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بہت سی چیزوں کے متعلق وصیت فرمائی اور کہا کہ بیٹا میرے کانوں میں میرے والد ماجد کی آوازیں آ رہی ہیں وہ مجھے جلد بلا رہے ہیں۔

 نورالابصار ص131

 آپ نے غسل و کفن کے متعلق خاص طور سے ہدایت کی کیونکہ امام کو امام ہی غسل دے سکتا ہے.

شواہد النبوت ص181

علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ:

 آپ نے اپنی وصیتوں میں یہ بھی کہا کہ 800 درہم میری عزاداری اور میرے ماتم پر صرف کرنا اور ایسا انتظام کرنا کہ دس سال تک منی میں بزمانہ حج میری مظلمومیت کا ماتم کیا جائے۔

 جلاء العیون ص264

علماء کا بیان ہے کہ وصیتوں میں یہ بھی تھا کہ میرے بند ہائے کفن قبر میں کھول دینا اور میری قبر چار انگلیوں سے زیادہ اونچی نہ کرنا۔

جنات الخلود ص 27

ازواج و اولاد:

آپ کی چار بیویاں تھیں اور انہیں سے اولاد ہوئیں۔ ام فروہ، ام حکیم، لیلی، اور ایک اور بیوی ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر، جن سے حضرات امام جعفر صادق علیہ السلام اور عبد اللہ افطح پیدا ہوئے اور ام حکیم بنت اسد بن مغیرہ ثقفی سے ابراہیم و عبد اللہ اور لیلی سے علی اور زینب پیدا ہوئے اور چوتھی بیوی سے ام سلمی متولد ہوئے۔

ارشادمفید ص294

مناقب ج5 ص19

نور الابصار ص132

علامہ محمد باقر بہبھانی ، علامہ محمد رضا آل کاشف الغطاء اور علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ:

حضرت امام باقر علیہ السلام کی نسل صرف امام جعفر صادق علیہ السلام سے بڑھی ہے ان کے علاوہ کسی کی اولاد زندہ اور باقی نہیں رہی۔

دمعہ ساکبہ ج2 ص479

انوار الحسینیہج2 ص48

روضة الشہداء ص434

امام باقر (ع) پہلی اسلامی یونیورسٹی کے بانی:

آپ کی والدہ دوسرے امام حضرت حسن بن علی ع کی بیٹی تھیں، اور والد علی بن حسین بن علی ع تھے ، اس اعتبار سے آپ پہلے شخص ہیں جو ماں اور باپ کی طرف سے علوی اور فاطمی ہیں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا دور امویوں اور عباسیوں کے سیاسی اختلافات اور اسلام کا مختلف فرقوں میں تقسیم ہونے کے زمانے سے مصادف تھا جس دور میں مادی اور یونانی فلسفہ اسلامی ملکوں میں داخل ہوا جس سے ایک علمی تحریک وجود میں آئی۔ جس تحریک کی بنیاد مستحکم اصولوں پر استوار تھی ۔ اس تحریک کے لیے ضروری تھا کہ دینی حقایق کو ظاہر کرے اور خرافات اور نقلی و جعلی احادیث کو نکال باہر کرے ۔ ساتھ ہی زندیقوں اور مادیوں کا منطق اور استدلال کے ساتھ مقابلہ کر کے انکے کمزور خیالات کی اصلاح کرنا۔ نامور دہری اور مادہ پرست علماء کے ساتھ علمی مناظرہ و مذاکرہ کرنا تھا یہ کام امام وقت حضرت امام محمد باقر (ع) کے بغیر کسی اور سے ممکن نہ تھا ۔آپ علیہ السلام نے حقیقی عقاید اسلامی کی تشہیر کی راہ میں علم کے دریچوں اور درازوں کو کھول دیا اور اس علمی تحریک کو پہلی اسلای یونورسٹی کے قیام کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ آپ کے بارے میں امام حنبل اور امام  شافعی جیسے  علماء کہتے ہیں کہ:

ابن عباد حنبلی کہتے ہیں : ابو جعفر بن محمد مدینہ کے فقہا میں سے ہیں۔ آپ کو باقر کہا جاتا ہے، اس لیے کہ آپ نے علم کو شگافتہ کیا اور اس کی حقیقت اور جوہر کو پہچانا ہے۔

الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ج۔1۔ص149

محمد بن طلحہ شافعی کہتے ہیں: محمد بن علی، دانش کو شگافتہ کرنے والے اور تمام علوم کے جامع ہیں، آپ کی حکمت آشکار اور علم آپ کے ذریعہ سر بلند ہے۔ آپ کے سر چشمہ و جود سے دانش عطا کرنے والا دریا پر ہے۔ آپ کی حکمت کے لعل و گہر زیبا و دلپذیر ہیں۔ آپ کا دل صاف اور عمل پاکیزہ ہے۔ آپ مطمئن روح اور نیک اخلاق کے مالک ہیں۔ اپنے اوقات کو عبادت خداوند میں بسر کرتے ہیں۔ پرہیز گاری و ورع میں ثابت قدم ہیں۔ بارگاہ پروردگار میں مقرب اور برگذیدہ ہونے کی علامت آپ کی پیشانی سے آشکار ہے۔ آپ کے حضور میں مناقب و فضائل ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نیک خصلتوں اور شرافت نے آپ سے عزت پائی ہے۔

الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149

پانچویں امام نے پانچ خلیفوں ( اسلامی بادشاہوں )کا دور دیکھا:

1 - ولیدبن عبد الملک 86-96ھ۔

2 - سلیمان بن عبدالملک 96-99 ھ۔

3 - عمر بن عبد العزیز 99-101ھ۔

4 - یزید بن عبد الملک 101-105 ھ۔

5 - ہشام بن عبد الملک 105-125 ھ۔

 مذکورہ اسلامی ممالک کے حاکموں ( خلیفوں) میں عمر بن عبد العزیز جو کہ نسبتاً انصاف پسند اور خاندان رسول ﷲ کے ساتھ  نیکی کے ساتھ رفتار کرنے والا منفرد اسلامی بادشاہ (خلیفہ) تھا جس نے معاویہ علیہ ہاویہ کی سنت یعنی" معصوم دوم ، امام اول اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب کے نام 69 سال تک خطبوں میں لعنت کہنے کی شرمسار بدعت اور گناہ کبیرہ کو ممنوع کیا۔
پانچویں امام اور پہلی اسلامی دانشگاہ کے بانی حضرت محمد باقر علیہ السلام سے اصحاب پیغمبر اسلام میں سے جابر بن عبد ﷲ انصاری اور تابعین میں سے جابر بن جعفی، کیسان سجستانی، اور فقہا میں سے ابن مبارک، زہری، اوزاعی، ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور زیاد بن منزر نہدی وغیرہ آپ سے علمی استفادہ کرتے رہے۔ معروف اسلامی مورخوں جیسے طبری، بلاذری، سلامی، خطیب بغدادای، ابو نعیم اصفہانی و مولفات و کتب جیسے موطا مالک، سنن ابی داوود، مسند ابی حنیفہ، مسند مروزی، تفسیر نقاش، تفسیر زمخشری جیسی صد ہا کتابوں میں پانچویں امام کی دریای علم کے دُرّ بے بہا باتیں جگہ جگہ نقل کی گئی ہیں اور جملہ قال محمد بن علی یا قال محمد الباقر دیکھنے کو ملتا ہے۔

ابن شھر آشوب ج 4 ص 195

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا قائم کردہ اسلامی مرکز علم (یونیورسٹی) میں سے مایہ ناز علمی شخصیتیں فقہ، تفسیر اور دیگر علوم میں تربیت حاصل کر گئے، جیسے محمد بن مسلم، زرارہ بن اعین، ابو بصیر ، بُرید بن معاویہ عجلی، جابر بن یزید، حمران بن اعین اور ہشام بن سالم قابل ذکر ہیں۔

پانچویں امام نے دوسرے آئمہ کی مانند اپنی زندگی کو نہ صرف عبادت اور علمی مصروفیت میں بسر کیا بلکہ زندگی کے دوسرے کاموں میں بھی سرگرم تھے، جبکہ کچھ سادہ لوح مسلمان جیسے محمد بن مُنکَدِر ایسے اعمال کو امام کی دنیا پرستی تصور کرتے تھے ، موصوف کہتا ہے کہ:

" امام کا کھیت میں زیادہ کام کرتے ہوئے دیکھنے کی وجہ سے میں نے اپنے آپ سے کہا کرتا تھا کہ حضرت دنیا کے پیچھے پڑے ہیں لہٰذا میں نے سوچا کہ ایک دن انہیں ایسا کرنے سے روکنے کی نصیحت کروں گا، چنانچہ میں نے ایک دن سخت گرمی میں دیکھا کہ محمد بن علی زیادہ کام کرنیکی وجہ سے تھک چکے تھے اور پسینہ جاری تھا میں آگے بڑھا اور سلام کیا اور کہنے لگا اے فرزند رسول آپ مال دنیا کی اتنی کیوں جستجو کرتے ہیں ؟ اگر اس حال میں آپ پر موت آ جائے تو کیا کرینگے ؟ آپ نے فرمایا یہ بہترین وقت ہے کیونکہ میں کام کرتا ہوں تا کہ میں دوسروں کا محتاج نہ رہوں اور دوسروں کی کمائی سے نہ کھاوں، اگر مجھ پر اس حالت میں موت آئے تو میں بہت خوش ہونگا، چونکہ میں خدا کی اطاعت و عبادت کی حالت میں تھا۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دیگر آئمہ ہدی کے مانند تمام علوم و فنون کے استاد تھے۔ ایک دن خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے امام کو اپنی ایک فوجی محفل میں شرکت کی دعوت دی، جب امام وہاں پہنچے وہاں فوجی افسران سے محفل سجی ہوئی تھی، کچھ فوجی افسران تیر کمانوں کو ہاتھوں میں لیے ایک مخصوص نشانے پر اپنا اپنا نشانہ لگا رہے تھے، چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

"جب ہم دربار میں پہنچے تو ہشام نے احترام کیا اور کہا آپ نزدیک تشریف لائیں اور تیر اندازی کریں میرے والد گرامی نے فرمایا میں بوڑھا ہو چکا ہوں لہذا مجھے رہنے دے، ہشام نے قسم کھائی میں آپ سے ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہوں۔ میرے والد بذرگوار نے مجبور ہو کر کمان پکڑی اور نشانہ لیا تیر عین نشانہ کے وسط میں جا کر لگا آپ نے پھر تیر لیا اور نشانہ پر جا کر تیر مارا جو پہلے تیر کو دو ٹکڑے کر دیئے اور اصل نشانہ پر جا لگا آپ تیر چلاتے رہے یہاں تک کہ 9 تیر ہو گئے ہشام کہنے لگا بس کریں اے ابو جعفر آپ تمام لوگوں سے تیر اندازی میں ماہر تر ہیں"۔

آخر میں امام محمد باقر کی جابر بن جعفی کو کی گئی وصیت کا مختصر حصہ آپ کے لیے کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے امید کرتا ہوں امام کے اقوال ہمارے لیے مشعل راہ اور نمونہ عمل ثابت ہوں گے:
میں تمہیں پانچ چیزوں کے متعلق وصیت کرتا ہوں:

 1- اگر تم پر ستم ہو تو تم ستم نہ کرنا۔

2- اگر تمہارے ساتھ خیانت ہو تم خائن نہ بنو ۔

3- اگر تم کو جھٹلایا گیا تو تم غضبناک نہ ہو۔

4- اگر تمہاری تعریف ہوئی تو خوشحال نہ ہو اگر تمہاری مذمت ہوئی تو شکوہ مت کرو۔ تمہارے متعلق لوگ جو کہتے ہیں اس پر غور کرو۔ پس اگر واقعاً ویسے ہی ہو جیسا لوگ خیال کرتے ہیں ۔ تو اس صورت میں اگر تم حق بات سے غضبناک ہوئے تو یاد رکھو خدا کی نظر سے گر گئے۔ اور خدا کی نظر سے گرنا لوگوں کہ نظر میں گرنے سے کہیں بڑی مصیبت ہے۔ لیکن اگر تم نے اپنے کو لوگوں کے کہنے کے بر خلاف پایا تو اس صورت میں تم نے بغیر کسی زحمت کے ثواب حاصل کیا۔

5- یقین جانو! تم میرے دوستوں میں صرف اسی صورت میں ہو سکتے ہو کہ اگر تمام شہر کے لوگ تم کو برا کہیں اور تم غم نہ ہو، اور سب کے سب کہیں تم نیک ہو تو شادمان نہ ہو، اور لوگوں کے برائی کرنے پر خوف زدہ مت ہو، اس لیے کہ وہ جو کچھ کہیں گے اس سے تم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا ، اور اگر لوگ تمہاری تعریف کریں جبکہ تم قرآن کی مخالفت کر رہے ہو بھر کس چیز نے تم کو فریفتہ کر رکھا ہے؟ بندہ مومن ہمیشہ نفس سے جہاد میں مشغول رہتا ہے تا کہ خواہشات پر غالب ہو جائے اور اس امر کیلئے اہتمام کرتا ہے۔

حضرت امام محمد باقر 411ھ میں خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے حکم پر زہر دے کر شہید کر دیئےگئے۔ آپ 57 سال تک وحی الہی کی ترجمانی کرتے رہے۔ آپ کے بعد آٹھویں معصوم اور چھٹے امام حضرت جعفر صادق آپکی جانشینی پر فائز ہوئے اور آپ کے قائم کردہ اسلامی مرکز علم کو وسعت عطا کر کے اسلام ناب محمدی کی توضیع و تفسیر بیان فرمائی اور دینی محفل میں قال الصادق قال الصادق کی گونج سنائی دی اور امام جعفر صادق کی بتائی ہوئی اسلام کی تشریح پر چلنے والوں کو جعفری کہا گیا۔
خداوند ہمیں ان علوم کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین.....

مخزن علم اہلبیت، باقر العلوم علیہ السلام:

ماہ رجب 57ہجری کی پہلی تاریخ تھی، جب آسمانِ ولایت و امامت کا پانچواں آفتاب نمودار ہوا۔ جسکی روشنی سے سارا مدینہ منور ہو گیا۔ اس امر میں بھی شاید خاص امر الہی پوشیدہ ہو، کہ پانچ اور سات جسکو ملانے سے 57 بنتا ہے۔ آپ سلسلہ امامت کے پانچویں امام اور سلسلہ عصمت کے ساتویں معصوم ہیں۔ آپ (ع) کی عمر مبارک 57 برس ہوئی۔ جس سے آپکی سن ولادت اور عمر مبارک کو یاد رکھنا کافی آسان ہے۔ اسم گرامی الہام خداوندی اور پیش نہاد رسول اکرم ص سے محمد قرار پایا۔ یوں سلسلہ عصمت اور بعد رسول آپ (ع) پہلے ہمنام محمد ہیں۔ آپ (ع) اپنے فرزند ارجمند امام جعفر صادق علیہ السلام کی نسبت سے ابو جعفر مشہور ہوئے۔ علم و دانائی اور شائستہ بیانی نے اپنے متاثرین کو باقر العلوم لقب دینے پر مجبور کیا۔ باقر العلوم کا مطلب علم کی دیوار میں شگاف ڈالنے والا۔ کیونکہ آپ (ع) نے اسرار رموزِ علوم و فنون کو اس قدر وسعت دی اور انکی کچھ اسطرح تشریح کی، کہ  تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی۔ حد یہ ہے کہ عالم اسلام کے بڑے بڑے علماء و مفکرین بھی آپ کے خرمن علم کے خوشہ چینوں میں تھے اور آپ (ع) کے علم و دانش سے خوب فائدہ اٹھایا۔ تو گویا آپ (ع) نے درِ علم نبی کی واضح  مثال و مصداق قائم کیا۔ آپ (ع)‌ کے والد ماجد حضرت امام زین العابدین اور والدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت الحسن (ع) تھی۔ لہذا آپ (ع) کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آپ (ع) کے والد، دادا، نانا، بیٹا اور پوتا امام تھے۔ تاریخ میں آپ (ع) سے متعلق جن مشہور واقعات کا ذکر ملتا ہے، ان میں سے چند یہ ہیں:

آپ ابھی کمسن ہی تھے کہ کھیل کود کے دوران گھر کے کنویں میں گر گئے۔ والدہ محترمہ یہ دیکھ کر رونے لگیں اور امام سجاد کو آواز دی۔ امام سجاد اُس وقت نماز میں مشغول تھے آپ نے بیٹے کو کنویں سے نکالنے کی بجائے آرام سے اپنی نماز جاری رکھی اور نماز ختم کرنے کے بعد آ کر اپنے بچے کو کنویں سے نکالا، یہاں تک کہ امام باقر علیہ السلام کا لباس تک تر نہ ہوا اور صحیح و سالم باہر آ گئے۔ امام سجاد نے فرمایا کہ:

خدا اپنے ولی کا خود محافظ ہے۔ یوں فاطمہ بنت الحسن پر یہ بات واضح ہو گئی کہ نماز کو چھوڑ کر بچے کو بچانے کی بجائے امام نے اپنے معمول کی نماز کیوں جاری رکھی۔

ایک مرتبہ آپ سات سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ حج پر جا رہے تھے۔ راستے میں ایک حیرت زدہ شخص نے سوال کیا، فرزند! تم کون ہو ؟ کہاں جا رہے ہو اور زاد راہ کیا ہے ؟ آپ نے اپنے جواب سے اُس شخص کو لا جواب کر دیا، اور فرمایا میرا سفر من اللہ اور الی اللہ (اللہ سے اور اللہ کی طرف) ہے۔ میرا زادِ راہ تقوی ہے۔ میرا نام محمد ابن علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب ہے۔ آپ (ع) کو یہ امتیاز بھی حاصل ہوا کہ رسول اکرم (ص) نے جابر بن عبد اللہ انصاری کو آپ کا نام بتایا اور خبر دی کہ تمھاری انکے ساتھ ملاقات ہو گی تو ان کو میرا سلام پہنچانا۔ قدرت نے جابر کو امام سے اس حال میں ملایا کہ آپ (جابر) ضعیف اور بوڑھے ہو چکے تھے۔ امام اپنے والد سید سجاد کے ہمراہ کہیں جا رہے تھے کہ جابر نے آپ کو دیکھا اور آگے بڑھے۔ اپنے والد کے حکم پر حضرت نے جابر کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ جابر نے گلے لگا کر رسول گرامی اسلام کا سلام پہنچایا۔ کیا کہنے اُس سلام کے، یہ اُس ہستی کا سلام تھا، جس پر خالق اکبر نے صبح و شام تمام مخلوق پر یہ لازم قرار کر دیا کہ ان پر درود و سلام بھیجیں۔ یہ سعادت جابر ابن عبد اللہ انصاری کو نصیب ہوئی کہ آپ اسلام کے امین قرار پائے۔

28رجب 60ء کو جب سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے اسلام کی بقاء کا سفر شروع کیا تو ان میں آپ (ع) بھی شریک تھے۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک 4 سال کے لگ بھگ تھی۔ آپ نے اپنی آنکھوں سے پاکیزہ اوصاف کی رذائل کیساتھ جنگ دیکھی۔ آپ (ع) نے اپنی آنکھوں سے اپنے پیاروں اور 72 جانثاروں کو تہہ تیغ ہوتے دیکھا۔ تین دن کی سخت ترین گرمی اور دھوپ میں پیاس کی شدت کو برداشت کرنے والوں میں آپ بھی شریک تھے۔ شب عاشور خیموں کے لُٹنے، چادروں کے چھننے اور سید سجاد علیہ السلام کی علالت کو آپ نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا۔ کربلا سے کوفہ، کوفہ سے شام اور شام سے مدینہ تک کے تمام مظالم کو سر کرنے والوں میں آپ بھی شامل تھے۔ کربلا کے پیغام رسانوں، مقصد امام حسین کی پہچان کرانے والوں اور روداد غم سنانے والوں میں آپ سید سجاد (ع) اور سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے ساتھ برابر کے شریک تھے۔ وگرنہ یزید نے یہ ٹھان لیا تھا کہ حسین علیہ السلام کے مقصد کو کربلا میں ہی دفن کر دیا جائے، مگر ان حضرات نے قیام حسینی کے مقصد کو اپنے خطبوں اور غم کی روداد میں کوہ بہ کوہ اور قریہ بہ قریہ کچھ اسطرح سنایا اور پہنچایا کہ یزید اور یزیدی قصر کی اینٹ سے اینٹ بجنے لگی اور یزیدیت کو تا دم حشر لائق نفرت بنا دیا۔

اس تھوڑے سے عرصے میں ان خدمات کا ذکر نہیں کر سکتا کہ جو حضرت امام محمد باقر نے انجام دیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ عظیم اسلامی مدرسہ جس میں شاگردوں کی تعداد چار ہزار تک پہنچی اور امام جعفر صادق نے اپنے زمانہ میں چلا یا وہ حضرت امام باقر کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔

اس زمانہ کے خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے حضرت سے واپسی پر مدینہ کے گورنر کو حکم دیا کہ امام باقر اور ان کے فرزند جعفر بن محمد کو شام کی طرف روانہ کر دو۔

حضرت مجبوراً اپنے فرزند ارجمند کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے اور دمشق پہنچے ہشام نے اپنا جاہ و جلال دکھانے کے لیے تین دن تک امام کو ملاقات کی اجازت نہ دی بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تین دن تک امام کی عظمت کو کم کر نے کے حربے سوچتا رہا اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ جب امام دربار میں داخل ہوں تو ان کے سامنے تیز اندازی کا ایک مقابلہ کرایا جائے اور امام کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی جائے اور اس طرح جب امام شکست کھا جائیں گے تو اہل دربار اس بات کا چرچا پورے شام میں کر دینگے ۔ جب امام دربار میں داخل ہوئے تو خلیفہ کے کچھ افراد تیر اندازی میں مشغول ہو گئے امام دربار میں تشریف فرما ہوئے کچھ دیر بعد خلیفہ نے امام کی طرف رخ کر کے کہا کہ کیا تیر اندزی کے مقابلے میں شرکت کرنا پسند کریں گے۔

امام نے جواب میں فرمایا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور میرا تیر اندازی کا وقت گذر چکا ہے، امام کا جواب سن کر تو خلیفہ کا اصرار اور بڑھ گیا اور خلیفہ نے امام کی طرف تیر کمان بڑھانے کا اشارہ کیا امام نے بھی بلاجھجھک تیر کمان لے لیا، پہلا تیر چلایا جو سیدھا نشانہ پر لگا دوسرا چلایا جو پہلے تیر کو چیرتا ہوا ہدف پر لگا تیسرا تیر چوتھا تیر یہاں تک کہ امام نے یکے بعد دیگرے نو تیر چلائے جو سب کے سب ہدف پر لگے یہ منظر دیکھنے کے بعد تمام درباری اور خلیفہ انگشت بدندان رہ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب ہوش و ہواس بر قرار ہوئے تو خلیفہ نے امام کو مخصوص جگہ پر بیٹھنے کی دعوت دی اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد پوچھا کہ جعفر (حضرت امام جعفر صادق) بھی آپ کی طرح تیر اندازی جانتے ہیں؟

 امام نے جواب میں فرمایا:

"ہمارا خاندان اکمال دین اور اتمام نعمت کو جو الیوم اکملت کی آیت میں آیا ہے ایک دوسرے سے ارث میں لیتے ہیں اور زمین ہر گز ایسے افراد سے خالی نہیں رہے گی"۔

حمد بن جدید بن رستم الطبری۔ دلائل امامہ ص105

دوسرا واقعہ عیسائیوں کے پادری کے ساتھ مناظرہ ہے کہ جب آپ دربار سے نکل کر واپس جانے لگے تو دیکھا بہت سے افراد مجمع لگائے کسی کا انتظار کر رہے ہیں، پوچھا تو معلوم ہوا کہ عیسائی ہیں جو کہ مختلف مقامات سے آئے ہیں اور اپنے مسائل کا حل لینے کے لیے پادری کے انتظار میں ہیں حضرت بھی ان افراد کے مجمع میں بیٹھ گئے جب پادری آیا تو اس کی توجہ حضرت کے نورانی چہرہ کی طرف مبذول ہوئی پوچھا مسلمانوں ہو یا عیسائی جواب ملا کہ مسلمان، نادانوں میں سے نہیں ہوں پادری نے پوچھا پہلے میں سوال کروں یا تم امام نے فرمایا اگر چاہتے ہو تو سوال کرو پادری نے پوچھا کس وجہ سے مسلمان کہتے ہیں کہ اہل بہشت کھانا کھائیں گے لیکن ان سے کوئی اضافی چیز جسم سے خارج نہیں ہو گی کیا دنیا میں اس کی کوئی مثال ہے ؟

امام نے جواب میں فرمایا: اس کی روشن مثال ماں کے رحم میں بچہ کی ہے جو غذا کھاتا ہے لیکن کوئی اضافی چیز جسم سے خارج نہیں ہوتی۔

 پادری نے تعجب کا اظہار کیا اور کہا تم نے کہا تھا کہ دانشمندوں میں نہیں ہوں۔

امام نے فرمایا: کہ میں نے یہ نہیں کہا بلکہ کہا تھا کہ نادانوں میں سے نہیں ہوں۔

پادری نے کہا ایک اور سوال ہے امام نے فرمایا پوچھو اس نے کہا کس دلیل کی بنا پر کہتے ہو کی جنت کی نعمتوں میں جتنا خرچ کیا جائے کم نہیں ہو گا دنیا میں اس کی کوئی مثل ہے ؟

امام نے فرمایا ہاں ہے اس زمانہ میں اس کی روشن مثال آگ کی ہے اگر ایک چراغ کی لو سے ایک ہزار چراغ بھی جلا لو تو اس کی روشنی کم نہیں ہو گی۔

پادری نے جتنے سوال تھے کر ڈالے اور سب کے جواب حاصل کر لیے اور جب اپنے آپ کو عاجز دیکھا تو غصہ کر کے چلا گیا۔

 اس واقعہ کے بعد اہل شام میں خوشی کا احساس پھیل گیا اور امام کا معنوی اثر بڑھ گیا۔ ہشام نے امام کو تحفے تحائف بھیجے اور چونکہ امام باقر (ع) کے معنوی اثر سے پریشان تھا اس لیے خط لکھا کہ آپ آج ہی مدینہ کے لیے روانہ ہو جائیں۔

امام محمد باقر عليہ السلام اور سياسی مسائل:

اس ميں شکوک و شبہات پائے جاتے ہيں (اگرچہ يقين کے قريب احتمال يہی ہے کہ زيدی تھے) کے علاوہ کسی تحريک نے کوئی خاص کاميابی حاصل نہيں کی۔ جس کا نتيجہ يہ نکلا کہ:
الف: وہ لوگ خدا کے برگزيدہ بندوں، يعني ائمہ طاہرين کے بجائے ہر اس علوی کے پيچھے چل پڑے جو تلوار اٹھا لے۔

ب: ثقافتی اعتبار سے تفسير، فقہ و کلام ميں امامی شيعوں کے مقابلہ ميں زيدی شيعہ کوئی منظم اور مربوط ثقافت نہيں اپنا سکے۔ يہ لوگ فقہ ميں تقريبا ابوحنيفہ کے اور کلام ميں پورے طور پر معتزلہ کے پيروکار تھے۔ اس کے مقابلہ ميں شيعہ آئمہ خصوصا امام باقر اور امام صادق کے علمی اقدامات کی وجہ سے ايسا مکتب پيدا ہوا جس کی اپنی ايک خاص اور بھرپور ثقافت تھی، جو بعد ميں مکتبِ جعفری کے نام سے مشہور ہوا۔ اگرچہ مکتبِ باقری کے نام سے شہرت بھی غلط نہيں ہے۔ يہ فکری مکتب جو تمام معاملات ميں علومِ اہلبيت کو منظم طور پر پيش کرتا ہے، يہ ان دو اماموں کي نصف صدی (سال 94 سے 148 ہجری تک) کی دن رات کی کوششوں کا نتيجہ ہے۔

اس زمانے کے سياسی حالات ميں جب کہ اموی اور ان کے بعد عباسی حکمران اپنی حکومت کی بقاء کے لیے ہر مخالف طاقت اور ہر مخالفت کو کچل ديا کرتے تھے، ايسے موقف کے انتخاب کے ساتھ طبیعی طور پر اہم سياسی اقدامات نہيں کيے جا سکتے تھے۔ اور ہر جگہ واحد خوبی يہی نہيں ہوتی کہ ہر صورت اور ہر قيمت پر سياسی عمل ميں شرکت کی جائے چاہے اس کے لیے معارف حق کے بيان سے چشم پوشی کرنی پڑے اور ايک پوری امت پر راستہ ہميشہ کے لیے بند کر ديا جائے۔ آئمہ طاہرين نے اس دور ميں اپنا بنيادی موقف يہی قرار دے ديا تھا کہ اسلام کے حقيقی دينی معارف کو بيان کيا جائے اور اپنا اصلی کام يہی چن ليا تھا کہ مذہبی ثقافت کی تدوين کی جائے جس کا نتيجہ آج ہم بخوبی ديکھ رہے ہيں۔
اس کا يہ مطلب بھی نہيں ہے کہ آئمہ نے ظالم حکمرانوں کے خلاف کبھی کوئی موقف نہيں اپنايا۔ تقريبا تمام شيعہ اور حتی کہ بنی اميہ بھی بخوبی جانتے تھے کہ شيعہ رہبر خلافت کے دعويدار ہيں اور ان کا موقف يہ تھا کہ خلافت ان کا اور ان کے آباء کا حق تھا اور قريش نے زبردستی اس پر قبضہ کر ليا ہے۔ اسی لیے آئمہ اپنے شيعوں کو سوائے ضروری و استثنائی اور خاص دلائل کي بنياد پر حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنے سے منع کيا کرتے تھے۔ ليکن يہ عدم تعاون ايک باضابطہ، مسلسل اور مسلحانہ تحريک اور انقلابی قيام کی صورت ميں سامنے نہيں آيا۔ بنا براين مخالفت اور عدم تعاون کی دعوت اور منفی رويہ امام کے واضح موقف ميں شامل تھا۔

عقبہ بن بشير نامی ايک شيعہ امام باقر کے پاس آيا اور اپنے قبيلہ ميں اپنے بلند مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا: ہمارے قبيلہ ميں ايک عريف (حکومت کی طرف سے منظور شدہ کسی قوم کا ترجمان يا سردار) تھا جو مر چکا ہے۔ قبيلہ کے لوگ چاہتے ہيں کہ مجھے اس کي جگہ عريف بنا ديں۔ آپ اس بارے ميں کيا کہتے ہيں؟ امام نے فرمايا:

کيا تم اپنے حسب اور نسب کا ہم پر احسان جتاتے ہو ؟ اللہ تعالی مؤمنوں کو ان کے ايمان کی وجہ سے بلند مقام ديتا ہے حالانکہ لوگ اسے معمولی سمجھتے ہيں اور کافروں کو ذليل کرتا ہے جبکہ لوگ اسے بڑا سمجھتے ہيں۔ اور يہ جو تم کہہ رہے ہو کہ تمہارے قبيلہ ميں ايک سردار تھا جو مر چکا ہے اور قبيلہ والے تجھے اس کی جگہ پر رکھنا چاہ رہے ہيں، تو اگر تجھے جنت بری لگتی ہے اور وہ تجھے ناپسند ہے تو اپنے قبيلہ کی سرداری کو قبول کر لے کيونکہ اگر حاکم نے کسی مسلمان کا خون بہايا تو، تو اس کے خون ميں شريک سمجھا جائے گا اور شايد تجھے ان کی دنيا سے بھی کچھ نہ ملے۔

الاختصاص ص261

يہ روايت بتاتی ہے کہ امام کس طرح سے اپنے شيعوں کو حکومت ميں کسی بھی مقام حتی کہ عريف بننے سے بھی روکتے تھے جس کی کوئی خاص حيثيت بھی نہيں ہوتی تھی۔ اور اس کي دليل يہ تھی کہ لوگوں پر حکمرانوں کے ظلم و ستم اور ان کے گناہوں ميں شيعہ شريک نہ ہوں۔

امام باقر مختلف طريقوں سے لوگوں کو حکمرانوں پر اعتراض اور ان کو نصيحت کرنے کی ترغيب دلايا کرتے تھے۔ آپ سے منقول ايک روايت ميں آيا ہے کہ:

من مشی الی سلطان جائرٍ فامرہ بتقوی اللہ و وعظہ و خوّفہ کان لہ مثل اجر الثقلين من الجن و الانس و مثل اجورھم۔
جو ظالم حاکم کے پاس جاکر اسے خدا سے ڈرائے اور نصيحت کرے اور اسے قيامت کا خوف دلائے، اس کے لئے جن و انس کا اجر ہے۔

 دعائم الاسلام ج١ ص95

تقيہ وہ بنيادی ترين ڈہال ہے جس کی آڑ ميں شيعوں نے بنو اميہ اور بنو عباس کے سياہ دورِ حکومت ميں اپنی حفاظت کی۔ جيسا کہ امام باقر نے اپنے بابا سے نقل کيا کہ آپ نے فرمايا:
ان التقيۃَ من ديني و دين آبائي و لادين لمن لاتقيۃَ لہ۔ 
بے شک تقيہ ميرا اور ميرے اجداد کا دين ہے۔ اور جس کے پاس تقيہ نہيں اس کے پاس دين نہيں۔

الکافی ج1 ص183-184

متعدد تاريخی دلائل اور شواہد واضح طور پر اس بات کا اظہار کرتے ہيں کہ خاندانِ اہلبيت ميں امامت کا دعوی موجود رہا ہے۔ اور يہ بات زيادہ تر لوگوں کے لیے اظہر من الشمس تھی اور سب جانتے تھے کہ آئمہ کرام امامت کو صرف اپنا حق سمجھتے ہيں۔ امام باقر اور دوسرے تمام آئمہ حکمرانوں کے کاموں کو باطل اور شرعی طور پر ناجائز قرار ديتے تھے اور اسلامی معاشرے ميں سچی امامت کو برقرار کرنے کی ضرورت کو لوگوں کے لیے بيان کرتے رہتے تھے:
اسی طرح اے محمد (بن مسلم) اس امت کا جو بھی شخص ظاہر و عادل اور خدا کی طرف سے منصوب امام کے بغير زندگی گزارے وہ گمراہی ميں پڑ گيا اور حيرانی و سرگردانی ميں مبتلا ہوا۔ اور اگر اسی حال ميں مر گيا تو کفر و نفاق کی حالت ميں مرا۔ اے محمد! ظالم حکمران اور ان کے پيروکار خدا کے دين سے منحرف ہو گئے ہيں۔ وہ خود بھی گمراہی ميں ہيں اور دوسروں کو بھی گمراہی کی طرف کھينچ رہے ہيں۔ جو کام وہ انجام ديتے ہيں يہ اس راکھ کی مانند ہے جس پر طوفانی دن ميں تيز ہوا چلی ہو اور جو کچھ انہوں نے انجام ديا ہے اس ميں سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہيں آئے گا۔ اور يہ حق سے دور کرنے والی گمراہی کے علاوہ کچھ اور نہيں ہے۔

الکافی ج1 ص 183

ان جملات کا قدرتی نتيجہ لوگوں کو اہلبيت کی طرف بڑھانا اور عوام پر حاکموں اور واليوں کے ظلم و ستم کو ظاہر کرنا تھا۔ امام کا بار بار اس بات پر اصرار کہ نماز، روزہ، حج اور زکاۃ کے ساتھ ولايت بھی اسلام کے پانچ بنيادی احکام ميں سے ايک ہے، يہ بھی اسی بنياد پر تھا۔ جيسا کہ حديث کے بقيہ حصہ ميں ولايت پر تاکيد کی خاطر فرمايا: ع

و لم يناد بشيئ کما نودي بالولايۃ، فاخذ الناس باربع و ترکوا الولايۃ۔

خدا نے لوگوں کو ولايت سے بڑھ کر کسي چيز کي طرف نہيں بلايا ہے۔ اس کے باوجود لوگوں نے چار کو لے ليا اور ولايت کو چھوڑ ديا۔

الکافی ج1 ص478

 المناقب ج2 ص280

روايت ہوئی ہے کہ ايک دن امام باقر ہشام بن عبد الملک کے پاس گئے اور اسے خليفہ اور امير المؤمنين کی حيثيت سے سلام نہيں کيا۔ ہشام ناراض ہوا اور اپنے ارد گرد موجود افراد کو حکم ديا کہ امام کي سر زنش کريں۔ اس کے بعد ہشام نے امام سے کہا:
لايزال الرجل منکم شقّ عصا المسلمين و دعا الي نفسہ۔

ہر زمانے ميں آپ ميں سے کوئي نہ کوئي مسلمانوں کے درميان اختلاف ڈالتا ہے اور لوگوں کو اپني طرف بلاتا ہے۔

 اس کے بعد امام کو برا بھلا کہنا شروع کيا اور دوسروں کو بھی حکم ديا کہ امام کی سر زنش کريں۔ اس موقع پر امام نے لوگوں کی طرف رخ کر کے فرمايا:

اے لوگو! کہاں جا رہے ہو اور کہاں لے جائے جا رہے ہو ؟ تمہارے پہلے کو اللہ نے ہمارے ذريعہ ہدايت دي اور تمہارا اختتام بھی ہم پر ہی ہو گا۔ اگر تم نے جلدی زمام حکومت کو ہاتھ ميں لے ليا ہے، تو آخر کار امت مسلمہ کے امور ہمارے ہی ہاتھ ميں ہوں گے۔ کيونکہ ہم وہ خاندان ہيں کہ عاقبت ہمارے ساتھ ہی ہے۔ خدا کا فرمان ہے:

 نيک انجام متقين کے لیے ہے۔

ہشام نے امام کی گرفتاری کا حکم دے ديا۔ جو لوگ آپ کے ساتھ قيد خانہ ميں تھے، وہ آپ سے متاثر ہوئے اور آپ سے محبت کرنے لگے۔ جب ہشام کو اس بات کی اطلاع ملی تو اس نے حکم ديا کہ آپ کو مدينہ واپس بھجوا ديا جائے۔

تذکرۃ الحفاظ ج1 ص119

امام باقر کے زمانے ميں اموی حکام اہلبيت کے معاملہ ميں بہت سخت گيری کرتے تھے اور يہ سخت گيری ان کے امامت اور دينی سياسی رہبری کے دعوی کی وجہ سے تھی کہ وہ بنو اميہ کو غاصب سمجھتے تھے۔ تاريخ (کہ جس کے درست يا غلط ہونے کا کچھ صحيح طور پر معلوم نہيں ہے) بتاتی ہے کہ اموی خلفاء ميں صرف عمر بن عبد العزيز تھا جس نے اہلبيت کے ساتھ نسبتا نرم رويہ اپنايا تھا۔ اسی لیے اہلسنت نے امام باقر سے روايت کی ہے آپ نے فرمايا ہے کہ:

عمر بن عبد العزيز نجيب بني اميہ۔

عمر بن عبد العزيز بني اميہ کا نيک آدمي ہے۔

قرب الاسناد ص172

اسی طرح شيعہ کتابوں ميں بھی آيا ہے کہ عمر بن عبد العزيز بيت المال سے اہلبيت کا حصہ ادا کيا کرتا تھا اور اس نے فدک بھی بنی ہاشم کو واپس کر ديا تھا۔

الخصال ج1 ص51

 امالی طوسی ص80

 تاريخ الخلفاء ص232

ايک روايت ميں آيا ہے کہ: ايک مرتبہ امام باقر عمر بن عبد العزيز کے پاس گئے تو اس نے آپ سے نصيحت کرنے کی خواہش کی۔ آپ نے فرمايا: ميری نصيحت يہ ہے کہ چھوٹی عمر کے مسلمانوں کو اپنے بچوں کی طرح، متوسط عمر والوں کو اپنے بھائيوں کي طرح اور بزرگوں کو اپنے باپ کي طرح سمجھو۔ اپنے بچوں پر رحم کرو، اپنے بھائيوں کي مدد کرو اور اپنے باپ سے نيکي کرو۔

بھجۃ المجالس ج3 ص250

 مختصر تاريخ دمشق ج23 ص77

اموی دور ميں اہلبيت پر سب سے زيادہ سختياں ہشام بن عبد الملک کی جانب سے ہوئيں۔ اسی کے سخت اور توہين آميز جملات تھے جنہوں نے زيد بن علی کو (سال 122 ہجري ميں) کوفہ ميں قيام کرنے پر مجبور کر ديا۔ زيد کے ساتھ ہشام کی ملاقات ميں اس نے حتی کہ امام باقر کی بھی توہين کی اور امويوں کے مخصوص اندازِ تمسخر اور طريقہ اذيت کے مطابق امام کہ جن کا لقب باقر تھا، انہيں 'بقرہ‘‘ (گائے) کہا۔ زيد اس کی اس جسارت پر بہت ناراض ہوئے اور فرمايا:
سماہ رسول اللہ، الباقر و انت تسميہ البقرۃ، لشد ما اختلفتما و لتخالفنہ في الآخرۃ کما خالفتہ في الدنيا فيرد الجنۃ و ترد النار۔

رسول اللہ نے انہيں باقر کہا ہے اور تو انہيں بقرہ (گائے) کہہ رہا ہے۔ تيرے اور رسول اللہ کے درميان کس قدر اختلاف ہے! تو آخرت ميں بھی ان کی اسی طرح مخالفت کرے گا جس طرح سے دنيا ميں کر رہے ہو۔ اس وقت وہ جنت ميں اور تو جہنم ميں داخل ہو گا۔

شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحديد ج7 ص132

 عمدۃ الطالب ص194

ہشام کی موجودگی ميں ايک عيسائی نے رسول اللہ کی توہين کی ليکن ہشام نے کسی رد عمل کا اظہار نہيں کيا۔ اس مسئلہ پر بعد ميں زيد نے بہت سخت رد عمل دکھايا تھا۔ جيسا کہ کہا گيا ہے، يہی رويہ اموی حکومت کے خلاف زيد کے قيام کا اصلی اور اہم محرک بنا تھا۔ اور يہ بات سچ ہے کہ وسيع اسلامی مملکت خاص طور پر مشرقی علاقے اور ايران ميں اموی حکومت کے خلاف مسلسل چلنے والی تحريکوں کا آغاز اسی سے ہوا تھا۔ع

جيسا کہ شيعہ کتابوں ميں آيا ہے۔

امام باقر کو ان کے فرزند امام جعفر صادق کے ساتھ شام بلايا گيا تا کہ وہاں ان کی توہين کی جائے اور اس طرح سے حکمران بننے اور مخالفت کرنے کا سودا ان کے سر سے نکال ديا جائے۔ امام صادق نے ايک طويل روايت ميں اس واقعہ کو بيان کيا ہے۔ ہم ذيل ميں اس روايت کا کچھ حصہ آپ کی زبان مبارک سے نقل کرتے ہيں:

ايک سال ہشام حج کرنے کے لیے مکہ آيا ہوا تھا۔ امام باقر اور امام صادق بھی اس سال حج کے لیے وہاں موجود تھے۔ امام صادق نے چند ايسے جملے بيان فرمائے جو بنی اميہ پر بنی ہاشم کی برتری کو بيان کر رہے تھے، امام نے فرمايا:

حمد اس خدا کے لیے جس نے محمد (ص) کو نبی بنايا اور ہميں ان کے وسيلے سے کرامت بخشی۔ پس ہم اس کی مخلوق ميں برگزيدہ، اس کے بندوں ميں انتخاب شدہ اور اس کی جانب سے منصوب خليفہ ہيں۔ تو باسعادت وہ ہے جس نے ہماری پيروی کی اور بدبخت وہ ہے جس نے ہم سے دشمنی اور ہماری مخالفت کی۔
يہ خبر ہشام تک پہنچی تو وہ دمشق تک خاموش رہا اور اس بارے ميں کچھ نہيں بولا۔ دمشق پہنچ کر اس نے مدينہ کے حاکم کے پاس ايک قاصد بھيجا اور اس سے کہا کہ امام باقر اور امام صادق کو شام بھيج دے۔ دونوں امام شام پہنچے۔ ہشام نے ان کی توہين کرنے کے لیے انہيں تين دن تک اجازت نہيں دی اور چوتھے دن اپنے پاس بلايا۔ اس وقت دربار ميں بہت سے بڑے لوگ اور قريش کی بڑی شخصيتيں موجود تھيں۔ اس نے امام باقر (جو سن رسيدہ تھے) سے درخواست کی کہ تير اندازی کے مقابلہ ميں شرکت کريں۔ پہلے تو امام نے بڑھاپے کا بہانہ کر کے اسے ٹالنا چاہا ليکن ہشام نے اصرار کيا۔ مجبورا امام نے کمان ہاتھ ميں لی اور پہلا تير نشانہ پر بٹھايا۔ اس کے بعد يکے بعد ديگرے نو تير ايک دوسرے کے اوپر بٹھائے۔
ہشام جو حيرت زدہ رہ گيا تھا، کہنے لگا:

ما ظننت ان في الارض احدا يرمي مثل ھذا الرامي۔

 ميں نہيں سمجھتا کہ زمين پر کوئي ان جيسا تير انداز ہو گا۔

اس کے بعد بنو اميہ اور بنو ہاشم کی رشتہ داری کا حوالہ دے کر اس نے کوشش کی کہ ان دو خاندانوں کو مساوی قرار دے۔ امام باقر نے تاکيد کی کہ دوسرے خاندان اہلبيت ميں موجود فضائل و کمالات سے محروم ہيں۔

ہشام نے اپنی گفتگو کے دوران امير المؤمنين کے بارے ميں شيعوں کے اعتقاد کا مذاق اڑايا اور بولا: علی (ع) علم غيب کا دعوی کيا کرتے تھے، حالانکہ خدا نے کسی کو بھی اس سے آگاہ نہيں کيا ہے۔ جواب ميں امام نے امير المؤمنين کے وسيلہ سے معارف قرآن اور علوم پيغمبر (ص) کے فروغ کی طرف اشارہ کيا۔ آخر کار ہشام نے ان کی آزادی اور مدينہ روانگی کا حکم صادر کر ديا۔ اسی دوران شام ميں رہنے والے  عيسائيوں اور امام باقر کے درميان ايک ملاقات ہوئی جو حديث کی کتابوں ميں تفصيل سے درج ہے۔ اسی کے بعد ہشام نے حکم ديا تھا کہ جلد از جلد امام دمشق سے روانہ ہو جائيں تا کہ کہيں شام کے رہنے والے آپ کے علم سے متاثر نہ  ہو جائيں۔ اس کے فورا بعد اس نے مدينہ کے گورنر کے نام ايک خط بھيجا جس ميں اس نے امام باقر اور امام صادق کے بارے ميں يہ لکھا:

ابو تراب کے يہ دو بيٹے جو مدينہ کے لیے شام سے روانہ ہو گئے ہيں، جادوگر ہيں اور اسلام کا جھوٹا اظہار کرتے ہيں۔ کيونکہ يہ عيسائي راہبوں سے متاثر ہو گئے ہيں اور نصاری کی طرف مائل ہو گئے ہيں۔ ميں نے رشتہ داری کی وجہ سے ان کو تکليف نہيں پہنچائی ہے۔ جب وہ مدينہ پہنچيں تو لوگوں سے کہو: جو ان سے کوئی معاملہ يا مصافحہ يا سلام کرے گا ميں اس سے بری الذمہ ہوں۔ کيونکہ يہ اسلام سے منحرف ہو گئے ہيں۔

لوگ ان باتوں ميں آ گئے اور آپ کی توہين کی، ليکن امام نے ان کو نصيحت کی اور انہيں عذاب الہی سے ڈرايا يہاں تک کہ وہ آپ کی توہين سے دستبر دار ہو گئے۔

دلائل الامامۃ ص104

امان الاخطار ص52

بحار الانوار ج46 ص306

تفسير علی بن ابراہيم قمی ص88

مناقب آل ابی طالب ج3 ص334 اور 348

مندرجہ بالا روايات اہلبيت کا چہرہ مسخ کرنے کے لیے ہشام کی مکاريوں کی نشاندہی کرتی ہے نيز يہ بھی بتاتی ہیں کہ آئمہ طاہرين اہلبيت (ع) کا عظيم مرتبہ دکھانے کے لیے کس قدر اصرار کيا کرتے تھے۔

التماس دعا.....

 

 






Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی