2024 November 15
کیا رسول خدا (ص) کی روایت « من فارق عليا فقد فارقنی » یعنی کہ جو علی (ع) سے جدا ہو گیا تو وہ مجھ سے بھی جدا ہو گیا، صحیح سند کے ساتھ اہل سنت کی کتب میں نقل ہوئی ہے ؟
مندرجات: ٦٥٤ تاریخ اشاعت: ١٣ March ٢٠١٧ - ١٢:٣٨ مشاہدات: 5358
سوال و جواب » امام علی (ع)
جدید
کیا رسول خدا (ص) کی روایت « من فارق عليا فقد فارقنی » یعنی کہ جو علی (ع) سے جدا ہو گیا تو وہ مجھ سے بھی جدا ہو گیا، صحیح سند کے ساتھ اہل سنت کی کتب میں نقل ہوئی ہے ؟

جواب:

بہت سی روایات میں سے ایک روایت کہ جو اہل بیت (ع) کے مذہب کے حق و صحیح ہونے اور دوسرے تمام مذاہب کے باطل و غلط ہونے کو ثابت کرتی ہے، وہ یہی روایت:

« من فارق عليا فقد فارقنی » کہ جو علی (ع) سے جدا ہو گیا تو وہ مجھ سے بھی جدا ہو گیا،

اس روایت کے مطابق جو بھی شخص علی ابن ابیطالب (ع) کے ساتھ نہ ہو اور ان سے دور اور جدا ہو جائے، انکی ولایت و امامت کو قبول نہ کرے اور انکی اطاعت نہ کرے تو، در حقیقت ایسا انسان رسول خدا (ص) اور نتیجے میں خداوند سے دور اور جدا ہو گیا ہے۔

اس روایت کی روشنی میں، وہ لوگ جو رسول خدا (ص) کی شہادت کے بعد انکے جانشین بر حق امیر المؤمنین علی (ع) کے سامنے کھڑے ہوئے اور جہنوں نے اپنے راستے اور عقیدے کو نہ فقط یہ کہ ان سے ان سے جدا کر لیا، بلکہ ان سے جنگ کی، واضح ہو جاتا ہے کہ ان کا یہ کام، در حقیقت رسول خدا (ص) اور خداوند سے جنگ کرنا تھی۔

جیسے کہ شیعہ اور اہل سنت کے معتبر علماء نے اپنی اپنی معتبر کتب میں ذکر کیا ہے کہ:

قال الشيخ الصدوق (ره):

 و اعتقادنا فيمن قاتل عليا (ع) قول النبی (ص): (من قاتل عليّا فقد قاتلنی، و من حارب عليّاً فقد حاربنی، و من حاربنی فقد حارب الله)،

 و قوله (ص) لعلی و فاطمة و الحسن و الحسين (عليهم السلام): (أنا حرب لمن حاربكم و سلم لمن سالمكم۔

شیخ صدوق نے کہا ہے کہ: علی (ع) سے جنگ کرنے کے بارے میں رسول خدا (ص) کا فرمان ہے کہ: جو بھی علی (ع) سے جنگ کرے گا، تو اس نے مجھ سے جنگ کی ہے، اور جو مجھ سے جنگ کرے گا، تو اس نے خداوند سے جنگ کی ہے۔

اور رسول خدا (ص) نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین (عليهم السلام) سے کہا ہے کہ: جو بھی آپ سب سے صلح کرے گا، تو میں بھی اس سے صلح کروں گا، اور جو بھی آپ سب سے جنگ کرے گا، تو میں بھی اس سے جنگ کروں گا۔

الاعتقادات فی دين الإمامية ص105

و هذه الأحاديث التی أشار اليها العَلمان - الصدوق و الطوسی - فی أنّ حرب علی (عليه السلام) هی حرب رسول الله (ص)،

اسی حدیث کو شیخ طوسی نے بھی نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ: اے علی .........،

 ذكرها علماء أهل السنة في كتبهم المعتبرة بالاسانيد الصحيحة و الحسنة. بسند حسن عن أبی هريرة قال نظر النبی (صلى الله عليه و آله) الى علی و الحسن و الحسين و فاطمة فقال: (أنا حرب لمن حاربكم و سلم لمن سالمكم).

اسی روایت کو اہل سنت کے علماء نے بھی صحیح اسناد کے ساتھ اپنی معتبر کتب میں نقل کیا ہے کہ: رسول خدا (ص) نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین (عليهم السلام) سے کہا ہے کہ: جو بھی آپ سب سے صلح کرے گا، تو میں بھی اس سے صلح کروں گا، اور جو بھی آپ سب سے جنگ کرے گا، تو میں بھی اس سے جنگ کروں گا۔

أحمد بن حنبل فی مسنده ج2 ص442

 و رواه الحاكم و قال: هذا حديث حسن من حديث أبی عبد الله أحمد بن حنبل عن تليدبن سليمان.. ثم ذكر له شاهداً بلفظ: (أنا حرب لمن حرابتم و سلم لمن سالمتم..) و كلا الحديثين لم يتعقبهما الذهبي بشئ.

اور حاکم نیشاپوری نے کہا ہے کہ: یہ حدیث، حسن ہے، اور کہا ہے کہ: ذہبی نے بھی ان دونوں احادیث کو نقل کرنے کے بعد اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہا۔

یعنی ذہبی نے ان دونوں حدیث کے صحیح و معتبر ہونے کو قبول کیا ہے۔

المستدرك على الصحيحين ج3 ص161

یہی حدیث اہل سنت کی مندرجہ ذیل معتبر کتب میں بھی ذکر ہوئی ہے:

إبن الأثير، كتاب أسد الغابة ج 1 ص 513

عمر بن شاهين : فضائل سيدة النساء ص 29

أحمد بن حنبل : مسند أحمد بن حنبل ج 2 ص 442

الترمذی : سنن الترمذی ج 5 ص 699

إبن عساكر : تاريخ دمشق ج 14 ص 143-144 :

إبن عساكر - ترجمة الإمام الحسن (ع) - ص : 97

الرياض النضر ، للحافظ محب الدين الطبری 2 ص 189

روایت من فارق عليا فقد فارقنی ، کئی اسناد کے ساتھ ابوذر غفاری، عبد الله بن عمر، بريده اور ابوہريره سے نقل ہوئی ہے کہ اب ہم ابوذر کی روایت کو سند معتبر کے ساتھ ذکر کرتے ہیں:

احمد بن حنبل نے اپنی کتاب فضائل الصحابہ میں اس روایت کو مندرجہ ذیل سند کے ساتھ نقل کیا ہے:

     حدثنا ابْنُ نُمَيْرٍ، قثنا عَامِرُ بْنُ السَّمْطِ، قَالَ: حَدَّثَنِی أَبُو الْجَحَّافِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص): «يَا عَلِيُّ، إِنَّهُ مَنْ فَارَقَنِی فَقَدْ فَارَقَ اللَّهَ، وَ مَنْ فَارَقَكَ فَقَدْ فَارَقَنِی».

ابوذر نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا تھا کہ: اے علی (ع): بے شک جو شخص خداوند سے جدا ہو گیا تو وہ مجھ سے بھی دور ہو گیا، اور جو شخص تم سے دور ہو گیا، تو ایسا شخص مجھ سے بھی دور ہو جائے گا۔

یعنی علی (ع) سے دور ہونے والا شخص خودبخود خداوند اور رسول خدا (ص) سے بھی دور ہو جاتا ہے!!!

      الشيباني، ابو عبد الله أحمد بن حنبل (متوفي241هـ)، فضائل الصحابة، ج2، ص570 ، تحقيق د. وصي الله محمد عباس، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1403هـ - 1983م.

ابوبکر بزار نے اسی روایت کو اپنی کتاب مسند میں مندرجہ ذیل سند کے ساتھ نقل کیا ہے:

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، وَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ زِيَادٍ، قَالا: نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ السَّبْطِ، عَنْ أَبِی الْجَحَّافِ دَاوُدَ بْنِ أَبِی عَوْفٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِی اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) لِعَلِيٍّ:

«يَا عَلِيُّ، مَنْ فَارَقَنِی فَارَقَهُ اللَّهُ، وَ مَنْ فَارَقَكَ يَا عَلِيُّ فَارَقَنِی».

البزار، ابوبكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق (متوفي292 هـ)، البحر الزخار (مسند البزار) ج9، ص455، ح4066، تحقيق: د. محفوظ الرحمن زين الله، ناشر: مؤسسة علوم القرآن، مكتبة العلوم والحكم - بيروت، المدينة الطبعة: الأولي، 1409 هـ.

اور حاكم نيشاپوری نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب المستدرک علی الصحيحين ذکر کیا ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَعْقُوبَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَيْرٍ، ثنا عَامِرُ بْنُ السِّمْطِ، عَنْ أَبِي الْجَحَّافِ دَاوُدَ بْنِ أَبِي عَوْفٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَلِيُّ، مَنْ فَارَقَنِی فَقَدْ فَارَقَ اللَّهَ، وَ مَنْ فَارَقَكَ يَا عَلِيُّ، فَقَدْ فَارَقَنِی ".

اور نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:

صَحِيحُ الإِسْنَادِ، وَ لَمْ يُخَرِّجَاهُ.

الحاكم النيسابوري، ابو عبد الله محمد بن عبدالله (متوفي 405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج3، ص133، ح4624 ، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت الطبعة: الأولي، 1411هـ - 1990م.

ہیثمی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:

رواه البزار و رجاله ثقات.

الهيثمي، ابوالحسن نور الدين علي بن أبي بكر (متوفي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج9، ص135، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ.

روایت کی سند کے بارے میں بحث:

اگرچے اہل سنت کے علم رجال میں ماہر دو بزرگ علماء حاکم نیشاپوری اور ہیثمی نے واضح طور پر اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، لیکن پھر بھی ہم اطمینان قلب اور حق کو بہتر طور پر واضح کرنے کے لیے اس روایت کے ایک ایک راوی کے بارے میں علم رجال کی نگاہ سے بحث کرتے ہیں:

عبد الله بن نمير:

ابن حجر نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

عبد الله بن نمير بنون مصغر الهمدانی أبو هشام الكوفی ثقة صاحب حديث من أهل السنة من كبار التاسعة مات سنة تسع و تسعين و له أربع و ثمانون سنۃ .

عبد الله بن نمير، ثقہ، صاحب حديث اور سنی مذہب تھا۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1، ص327، رقم: 3668 ، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986.

عامر بن السمط :

عامر بن السمط بكسر المهملة و سكون الميم و قد تبدل موحدة التميمی أبو كنانة الكوفی ثقة من السابعة،

تقريب التهذيب ج1، ص287، رقم: 3091

داود بن ابی عوف:

بخاری نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ:

داود بن أبی عوف أبو الجحاف التميمی الكوفی عن عكرمة روی عنه شريك قال عبد الله العبسي حدثنا بن نمير عن سفيان قال حدثنا أبو الجحاف و كان مرضيا۔

....... اس کی حدیث نقل کرنے پر تمام علماء راضی تھے۔

البخاري الجعفي، ابوعبدالله محمد بن إسماعيل (متوفي256هـ)، التاريخ الكبير، ج3، ص233، رقم: 790، تحقيق: السيد هاشم الندوي، ناشر: دار الفكر.

شمس الدين ذہبی نے اپنی کتاب ميزان الإعتدال میں لکھا ہے کہ:

داود بن أبي عوف [ دس ق ] أبو الجحاف عن أبي حازم الأشجعی و عكرمة و طائفة و عنه السفيانان و علی بن عابس و عدة . وثقه أحمد و يحيی . و قال النسائی ليس به بأس . و قال أبو حاتم صالح الحديث . و أما ابن عدی فقال ليس هو عندی ممن يحتج به شيعی عامة ما يرويه فی فضائل أهل البيت .

احمد اور يحيی بن معين نے اسکی توثیق کی ہے، نسائی نے کہا ہے کہ: اس راوی میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ ابو حاتم نے بھی اسکو صالح الحدیث کہا ہے، لیکن ابن عدی نے کہا ہے کہ: میرے نزدیک داود ان راویوں میں سے ہے کہ جسکی روایات سے استدلال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ شیعہ ہے اور اس نے تمام روایات اہل بیت کے فضائل کے بارے میں نقل کی ہیں۔

       الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج3، ص30 ، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1995م.

اہل سنت کے بزرگ علماء کی داود کے بارے میں توثیقات ذکر کرنے کے بعد، ابن عدی کے علمی انصاف سے دور قول کی کوئی علمی اہمیت باقی نہیں بچ جاتی، کیونکہ ایسا قول فقط اہل بیت سے تعصب کا نتیجہ ہے کہ جسکی کوئی علمی قدر و قیمت نہیں ہے۔

معاويہ بن ثعلبہ:

ابن حبان نے اپنی كتاب ثقات میں اسکے نام کو ثقہ راویوں کے دائرے میں ذکر کیا ہے:

معاوية بن ثعلبة يروی عن أبی ذر روی عنه أبو الجحاف داود بن أبی عوف

التميمي البستي، ابوحاتم محمد بن حبان بن أحمد (متوفي354 هـ)، الثقات، ج5، ص416، رقم: 5480 ، تحقيق السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولي، 1395هـ - 1975م.

ابھی اوپر ہم نے ابوبکر ہیثمی سے نقل کیا ہے کہ اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں، اسی طرح حاکم نیشاپوری نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، کیونکہ اہل سنت کے علم رجال کے تین بزرگ علماء نے داود کی توثیق کی ہے اور اسکے علاوہ علم رجال کی کتب میں اسکے بارے میں کوئی تضعیف بھی ذکر نہیں ہوئی، لھذا یہ روایت صحیح اور معتبر ہو گی۔

ابوذر غفاری:

یہ تو صحابی ہے اور اہل سنت کے نزدیک اسکا قول حجت ہو گا۔

طبرانی نے اپنی کتاب المعجم الکبیر میں لکھا ہے کہ:

      حدثنا محمد بن عبد اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ ثنا أَحْمَدُ بن صُبَيْحٍ الأَسَدِيُّ ثنا يحيی بن يَعْلَي عن عِمْرَانَ بن عَمَّارٍ عن أبی إِدْرِيسَ حدثنی مُجَاهِدٌ عَنِ بن عُمَرَ رضی اللَّهُ عنه أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللَّهُ عليه و سلم قال: من فَارَقَ عَلِيًّا فَارَقَنِي وَمَنْ فَارَقَنِي فَارَقَ اللَّهَ.

عبد اللہ ابن عمر نے رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا تھا کہ: جو بھی شخص علی (ع) سے جدا ہو گا، تو وہ مجھ سے بھی جدا ہو جائے گا، اور جو مجھ سے جدا ہو گا تو، وہ خداوند سے بھی جدا ہو جائے گا۔

الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفي360هـ)، المعجم الكبير، ج12، ص423، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ - 1983م.

ابوبكر اسماعيلی نے اسی روایت کو معجم میں اپنے اساتذہ سے نقل کیا ہے:

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عَاصِمٍ الرَّازِيُّ سَنَةَ سِتٍّ وَتِسْعِينَ بِالرِّيِّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَبِيحٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَعْلَی الأَسْلَمِيّ ُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ أَبِی إِدْرِيسَ مُؤَذِّنِ بَنِی أَفْصَی وَ إِمَامِهِمْ ثَلاثِينَ سَنَةً أَخْبَرَنِی مُجَاهِدٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص): " مَنْ فَارَقَ عَلِيًّا فَارَقَنِی، وَ مَنْ فَارَقَنِی فَارَقَ اللَّهَ.

الإسماعيلي ، أبو بكر أحمد بن إبراهيم بن إسماعيل (متوفي371هـ) ، المعجم في أسامي شيوخ أبي بكر الإسماعيلي ، ج3، ص800 ، تحقيق : د. زياد محمد منصور ، ناشر : مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة ، الطبعة : الأولي ، 1410هـ .

ایک دوسری روایت میں طبرانی نے بریدہ سے اس روایت کو ایک طولانی روایت کی صورت میں نقل کیا ہے:

 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَنْصُورٍ الْحَارِثِيُّ، قال: نا أَبِي، قال: نا حُسَيْنٌ الأَشْقَرُ، قال: نا زَيْدُ بْنُ أَبِي الْحَسَنِ، قال: ثنا أَبُو عَامِرٍ الْمُرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) عَلِيًّا أَمِيرًا عَلَي الْيَمَنِ، وَبَعَثَ خَالِدَ بْنِ الْوَلِيدِ عَلَي الْجَبَلِ، فَقَالَ: " إِنِ اجْتَمَعْتُمَا فَعَلِيٌّ عَلَي النَّاسِ " فَالْتَقَوْا، وَأَصَابُوا مِنَ الْغَنَائِمِ مَا لَمْ يُصِيبُوا مِثْلَهُ، وَأَخَذَ عَلِيٌّ جَارِيَةً مِنَ الْخُمُسِ، فَدَعَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ بُرَيْدَةَ، فَقَالَ: اغْتَنِمْهَا، فَأَخْبِرِ النَّبِيَّ (ص) بِمَا صَنَعَ، فَقَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، وَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، وَرَسُولُ اللَّهِ (ص) فِي مَنْزِلِهِ، وَنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ عَلَي بَابِهِ. فَقَالُوا: مَا الْخَبَرُ يَا بُرَيْدَةُ؟ فَقُلْتُ: خَيْرٌ، فَتَحَ اللَّهُ عَلَي الْمُسْلِمِينَ، فَقَالُوا: مَا أَقْدَمَكَ؟، قَالَ: جَارِيَةٌ أَخَذَهَا عَلِيٌّ مِنَ الْخُمُسِ، فَجِئْتُ لأُخْبِرَ النَّبِيَّ (ص) قَالُوا: فَأَخْبِرْهُ، فَإِنَّهُ يُسْقِطُهُ مِنْ عَيْنِ رَسُولِ اللَّهِ (ص) وَرَسُولُ اللَّهِ (ص) يَسْمَعُ الْكَلامَ، فَخَرَجَ مُغْضَبًا، وَقَالَ:

«مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَنْتَقِصُونَ عَلِيًّا، مَنْ يَنْتَقِصُ عَلِيًّا فَقَدِ انْتَقَصَنِي، وَمَنْ فَارَقَ عَلِيًّا فَقَدْ فَارَقَنِي، إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، خُلِقَ مِنْ طِينَتِي، وَخُلِقْتُ مِنْ طِينَةِ إِبْرَاهِيمَ، وَأَنَا أَفْضَلُ مِنْ إِبْرَاهِيمَ: ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌق».

وَقَالَ: «يَا بُرَيْدَةُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ لِعَلِيٍّ أَكْثَرَ مِنَ الْجَارِيَةِ الَّتِي أَخَذَ، وَأَنَّهُ وَلِيُّكُمْ مِنْ بَعْدِي؟» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِالصُّحْبَةِ إِلا بَسَطْتَ يَدَكَ حَتَّي أُبَايِعَكَ عَلَی الإِسْلامِ جَدِيدًا، قَالَ: فَمَا فَارَقْتُهُ حَتَّي بَايَعْتُهُ عَلَی الإِسْلامِ .

رسول خدا (ص) نے ایک عربوں کے گروہ کو حضرت علی (ع) کی قیادت میں یمن کی طرف روانہ کیا اور ایک گروہ کو خالد بن ولید کی سالاری میں جبل کی طرف روانہ کیا اور اسکو خاص طور پر کہا کہ جب تم دونوں گروہ ایک ہی ہو جاؤ تو تمام جنگی امور اور مال غنیمت پر نگرانی کرنا، حضرت علی (ع) کے ذمہ پر ہو گی۔ لشکر نے یمن کیطرف حرکت کی اور ایک بہت ہی سخت و خطرناک جنگ ہوئی کہ جس کے نتیجے میں یمنیوں سے مسلمانوں کو بہت ہی زیادہ مقدار میں مال غنیمت حاصل ہوا اور اس جنگ میں بہت سے یمنی اسیر بھی ہوئے۔

حضرت علی (ع) نے اس خمس کے مال سے اپنے لیے ایک کنیز کو انتخاب کیا۔ خالد ابن ولید کو علی (ع) کا یہ کام پسند نہ آیا۔ اس پر خالد ابن ولید نے بریدہ کو اپنے پاس بلایا اور اس سے کہا کہ: تم نے خود دیکھا ہے کہ کیسے علی (ع) نے اپنے لیے ایک کنیز کو چن لیا ہے ؟ لہذا تم اسی وقت مدینہ جاؤ اور علی (ع) کے اس غلط کام کی اطلاع رسول خدا (ص) تک پہنچاؤ۔

بریدہ کہتا ہے کہ: میں خالد ابن ولید کے حکم کے مطابق مدینے گیا اور مسجد نبوی میں داخل ہوا۔ اس وقت رسول خدا اپنے گھر تھے۔ اصحاب کا ایک گروہ جو رسول خدا کے گھر کے نزدیک رہتا تھا، وہ سب کھڑے ہو کر رسول خدا کے آنے کا انتظار کر رہے تھے، جونہی رسول خدا نے مجھے دیکھا، مجھ سے پوچھا کہ اے بریدہ مسلمانوں کی جنگ کی تمہارے پاس کیا خبر ہے ؟ بریدہ کہتا ہے کہ: میں نے جواب دیا کہ: خوشخبری کی یہ خبر ہے کہ خداوند نے یمن کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے فتح کر دیا ہے۔

پھر انھوں نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے کہ تم دوسروں سے جلدی مدینے واپس آ گئے ہو ؟ بریدہ نے جواب دیا کہ: علی نے ایک کنیز کو خمس کے طور پر اپنے لیے انتخاب کر لیا ہے اور میں اسی لیے علی کی شکایت آپ سے لگانے کے لیے سب سے جلدی مدینے واپس آیا ہوں۔ مسلمانوں نے مجھ سے کہا ہے کہ جلدی جاؤ اور علی کی شکایت رسول خدا سے لگاؤ، تا کہ رسول خدا کی نظر میں علی کا احترام کم ہو جائے!!!

رسول خدا بریدہ کی بات سن کر غضبناک ہو گئے اور فرمایا کہ: یہ لوگ کتنے عجیب ہیں کہ علی کی شکایت مجھ سے کرتے ہیں ! ان سب کو جان لینا چاہیے کہ: جو علی کی مذمت کرے گا، اس نے میری مذمت کی ہے اور جو بھی علی سے جدا ہو گا، وہ حقیقت میں مجھ سے جدا ہوا ہے، بے شک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، علی میری مٹی سے خلق ہوا ہے اور میں  حضرت ابراہیم کی مٹی سے خلق ہوا ہوں اور میں ابراہیم سے افضل ہوں، پھر اس آیت کی تلاوت کی کہ: وہ نسل اور اولاد تھی کہ انکو ایک دوسرے سے خلق کیا گیا تھا، اور خداوند سننے والا اور علم رکھنے والا ہے،

 (سوره آل عمران/ آيه 34).

پھر بریدہ سے فرمایا کہ: اے بریدہ: کیا تم نہیں جانتے کہ علی کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے لیے ایک سے زیادہ بھی کنیزیں انتخاب کر سکتے ہیں، وہ میرے بعد تم پر میرے ولی ہیں۔

بریدہ کہتا ہے کہ جب اس فرمان کو میں نے رسول خدا سنا تو، میں نے عرض کیا کہ: آپ کے ساتھ مجھے رہنے کی قسم ہے کہ، اپنے مبارک ہاتھ کو بڑھائیں، تا کہ دوبارہ سے نئے سرے سے اسلام پر بیعت کروں۔ بریدہ نے اپنی بات پر اصرار کیا اور رسول خدا کے ہاتھ پر بیعت کر کے ہی وہاں سے روانہ ہوا۔

الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفي360هـ)، المعجم الأوسط، ج6، ص162، تحقيق: طارق بن عوض الله بن محمد، عبد المحسن بن إبراهيم الحسيني، ناشر: دار الحرمين - القاهرة - 1415هـ.

شمس الدين ذہبی نے اسی روایت کو ابوہریرہ سے نقل کیا ہے اور اپنے باطنی تعصّب کی وجہ سے بغیر کسی دلیل و استدلال کے روایت کو ضعیف اور باطل قرار دیا ہے:

رزين الكوفي الأعمي . عن أبی هريرة قاله الأزدی روی عنه حبيب بن ثابت ثم ساق له الأزدی حديثا باطلا عن أبی هريرة - مرفوعا من فارقنی فارق الله و من فارق عليا فقد فارقنی و من تولاه فقد تولانی.

زرين كوفي نے ابوہريره سے روايت کو نقل کیا ہے، اسی مطلب کو ازدی نے بھی کہا ہے۔ حبیب بن ثابت نے بھی اسی سے اسی روایت کو نقل کیا ہے، پھر ازدی نے اس باطل روایت کو ابوہریرہ سے اور اس نے رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ: جو بھی مجھ سے جدا ہو گا، تو وہ خداوند سے جدا ہو جائے گا، اور جو بھی علی سے جدا ہو گا، تو وہ مجھ سے بھی جدا ہو جائے گا، اور جو بھی علی سے محبت کرے گا، تو اس نے مجھ سے محبت کی ہے۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج3، ص75 ، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1995م.

نتيجہ :

 یہ ہو گا کہ اس روایت کی سند میں کوئی اشکال ہے اور اسکے تمام راوی ثقہ ہیں۔

اس کے علاوہ یہی روایت اہل سنت کی بعض کتب میں عبد اللہ ابن عمر سے نقل ہوئی ہے۔، لھذا اس  صحیح حدیث اور مشہور و صحیح حدیث ثقلین کے مطابق جو بھی انسان  علی (ع) اور اہل بیت سے دور ہو گا، تو ایسا شخص جانتے ہوئے یا نہ جانتے ہوئے بھی  خداوند، رسول خدا (ص) اور قرآن کریم سے بھی خودبخود دور ہو جائے گا، اور اس دوری کا  نتیجہ گمراہی اور  صراط مستقیم سے گمراہی کا نتیجہ و اثر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں جلنا ہو گا۔

 التماس دعا.....





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی