سوال:
کیا رسول خدا (ص) کی روایت، «من سبّ عليا فقد سبنی» یعنی جس نے علی (ع) کو سبّ و لعن کی تو اس نے مجھ پر سبّ و لعن کی ہے، سند معتبر کے ساتھ اہل سنت کی معتبر کتب میں نقل ہوئی ہے ؟
جواب:
امیر المؤمنین علی (ع) سے صحابہ کی دشمنی، کینہ اور سبّ و لعن تاریخ اسلام میں ایسی چیز ہے کہ جو کسی بھی صورت میں قابل انکار نہیں ہے۔
حتی ابن تیمیہ نے بھی اس مطلب کا بھی اعتراف کیا ہے:
الرابع أن الله قد اخبر انه سيجعل للذين آمنوا و عملوا الصالحات ودا و هذا وعد منه صادق و معلوم أن الله قد جعل للصحابة مودة فی قلب كل مسلم لا سيما الخلفاء رضی الله عنهم لَا سِيَّمَا أَبُو بَكْرٍ وَ عُمَرُ؛ فَإِنَّ عَامَّةَ الصَّحَابَةِ وَ التَّابِعِينَ كَانُوا يَوَدُّونَهُمَا، وَ كَانُوا خَيْرَ الْقُرُونِ. وَ لَمْ يَكُنْ كَذَلِک عَلِيٌّ، فَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ الصَّحَابَةِ وَ التَّابِعِينَ كَانُوا يُبْغِضُونَهُ وَيَسُبُّونَهُ وَيُقَاتِلُونَهُ.
چہارم: خداوند نے خبر دی ہے کہ: "وہ لوگ جو با ایمان ہیں اور نیک اعمال انجام دیتے ہیں، خداوند انکے لیے دلوں میں محبت ڈالتا ہے۔"
اور واضح ہے کہ خداوند نے صحابہ کی محبت ہر مسلمان کے دل میں ڈالی ہے۔ خصوصا خلفاء اور خاص طور پر ابوبکر اور عمر کے لیے محبت دلوں میں ڈالی ہے کیونکہ تمام صحابہ اور تابعین ان دونوں سے محبت کرتے تھے اور وہ زمانہ بہترین زمانہ شمار ہوتا تھا، لیکن علی کے بارے میں اسطرح نہیں تھا، کیونکہ بہت سے صحابہ اور تابعین کے دلوں میں علی کا بغض موجود تھا اور وہ سب علی کو سبّ و لعن اور ان سے جنگ کرتے تھے۔
ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاي 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج7، ص 137ـ138، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولي، 1406هـ.
ابن تیمیہ کے اس کلام سے دو نکتے استفادہ ہوتے ہیں:
1- امیر المؤمنین (ع) مؤمن نہیں تھے اور نیک اعمال بھی انجام نہیں دیتے تھے، اسی وجہ سے خداوند نے انکی محبت صحابہ اور تابعین کے دلوں میں نہیں ڈالی تھی، حالانکہ خداوند نے قرآن میں وعدہ دیا ہے کہ مؤمنین کی محبت کو سب کے دلوں میں ڈالے گا !!!
2- بہت سے صحابہ اور تابعین کے دلوں میں بغض علی (ع) موجود تھا اور وہ سب علی کو سبّ و لعن کیا کرتے اور ان سے جنگ کرتے تھے۔
پہلا نکتہ ہمارا مورد بحث نہیں ہے، اسکے بارے میں کسی دوسری جگہ پر بحث کریں گے۔ وہ بات جو ہمارے لیے مہم ہے، وہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بہت سے صحابہ علی ابن ابی طالب (ع) کو سبّ و لعن کیا کرتے تھے۔
اور ایک دوسری جگہ پر امیر المؤمنین کے مخالفین اور عثمان کے مخالفین میں موازنہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
فَالْمُنَزِّهُونَ لِعُثْمَانَ الْقَادِحُونَ فِی عَلِيٍّ أَعْظَمُ وَ أَدْيَنُ وَ أَفْضَلُ مِنَ الْمُنَزِّهِينَ لِعَلِيٍّ الْقَادِحِينَ فِی عُثْمَانَ، كَالزَّيْدِيَّةِ مَثَلًا.
فَمَعْلُومٌ أَنَّ الَّذِينَ قَاتَلُوهُ وَ لَعَنُوهُ وَ ذَمُّوهُ مِنَ الصَّحَابَةِ وَ التَّابِعِينَ وَ غَيْرِهِمْ هُمْ أَعْلَمُ وَ أَدْيَنُ مِنَ الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَ يَلْعَنُونَ عُثْمَانَ.
وہ جو عثمان کو بے گناہ جانتے تھے اور علی (ع) پر اعتراض کیا کرتے تھے، وہ ان لوگوں کی نسبت دین دار تر اور افضل تر تھے کہ جو علی کو بے گناہ جانتے تھے اور عثمان پر اعتراض کرتے تھے، جیسے زیدیہ۔
پس واضح ہے کہ وہ صحابہ اور تابعین وغیرہ کہ جہنوں نے علی سے جنگ کی، ان پر سبّ و لعن کیا کرتے تھے، وہ عالم تر و دین دار تر تھے، انکی نسبت کہ جو علی سے محبت کرتے تھے اور عثمان سے پر لعنت کیا کرتے تھے !!!
منهاج السنة النبوية ج 5، ص10
ابن تیمیہ ناصبی کی اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ایسے صحابہ بھی تھے کہ جہنوں نے علی (ع)سے جنگ کی اور ان پر سبّ و لعن بھی کیا کرتے تھے۔
اور اسی ابن تیمیہ نے ایک دوسری جگہ پر اس معروف روایت کہ "ہم منافقوں کو علی کے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سے پہچانتے تھے،" کو ردّ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
الثالث أن يقال لو ثبت انه قاله فمجرد قول أبی سعيد قول واحد من الصحابة و قول الصاحب إذا خالفه صاحب آخر ليس بحجة باتفاق أهل العلم و قد علم قدح كثير من الصحابة فی علی.
سوم: حتی اگر قبول بھی کر لیں کہ یہ روایت صحیح و ثابت بھی ہے تو پھر بھی یہ قول ابو سعید خدری ہے کہ جو صحابہ میں سے ایک صحابی ہے، اگر کسی دوسرے صحابی نے اسکی مخالفت کی ہو تو، اہل علم کا اتفاق ہے کہ اس صورت میں ابو سعید خدری کی بات حجت نہیں ہو گی اور واضح ہے کہ بہت سے صحابہ علی سے بغض رکھتے تھے اور انکو برا بھلا بھی کہتے تھے۔
منهاج السنة النبوية ج 7، ص146
ابن تيميہ حرانی نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ معاويہ ابن ابو سفيان، سعد ابن ابی وقاص کو حکم دیتا تھا کہ علی کو گالیاں دے:
و أما حديث سعد لما أمره معاوية بالسب فأبي فقال ما منعك أن تسب علي بن أبي طالب فقال ثلاث قالهن رسول الله صلي الله عليه و سلم فلن أسبه لأن يكون لي واحدة منهن أحب إلي من حمر النعم الحديث فهذا حديث صحيح رواه مسلم في صحيحه۔
روایت سعد: معاویہ نے سعد ابن ابی وقاص کو حکم دیا کہ علی کو گالی دے، لیکن اس نے معاویہ کی بات کو ردّ کر دیا اور اسکے حکم پر عمل نہیں کیا۔ اس پر معاویہ نے اس سے کہا کہ تم کیوں علی کو گالی نہیں دے رہے ؟ سعد نے معاویہ کو جواب دیا کہ: میں نے رسول خدا سے علی کی فضیلت کے بارے میں تین باتوں کو سنا ہے، لہذا میں کبھی بھی علی کو سبّ و شتم نہیں کروں گا، اور اگر ان تین صفات میں سے کوئی ایک بھی میرے لیے بیان فرمائی ہوتی تو، یہ بات میرے لیے سرخ بالوں والے اونٹوں سے بھی بالا تر ہوتی۔
یہ حدیث صحیح ہے اور مسلم نے اسکو اپنی کتاب صحیح مسلم میں ذکر کیا ہے۔
إبن تيمية الحرانی، أحمد بن عبد الحليم أبو العباس ، منهاج السنة النبوية ، ج 5 ، ص 42 ، تحقيق : د. محمد رشاد سالم ، ناشر: مؤسسة قرطبة ، الطبعة : الأولی، 1406،
اب جب ثابت ہو گيا کہ بہت سے صحابہ نے علی (ع) کو سبّ و لعن کی ہے، اب ہم اہل سنت کی معتبر کتب میں سے ان روایات کو ذکر کرتے ہیں کہ جن میں علی (ع) کو سبّ و لعن کرنے کا حکم بیان کیا گیا ہے:
«من سبّ عليا فقد سبّنی» والی روایت متعدد اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے، کہ حد اقل ان میں سے دو سندیں بالکل صحیح ہیں کہ ان میں کسی قسم کا سندی اشکال نہیں ہے۔
روايت اول: عبد الله الجدلی از ام سلمہ:
احمد بن حنبل اور اہل سنت کے دوسرے بزرگان نے نقل کیا ہے کہ :
حدثنا عبد اللَّهِ حدثنی أَبِی ثنا يحيی بن أَبِی بُكَيْرٍ قال ثنا إِسْرَائِيلُ عن أَبِی إِسْحَاقَ عن عبد اللَّهِ الجدلی قال دَخَلْتُ علی أُمِّ سَلَمَةَ فقالت لی أَ يُسَبُّ رسول اللَّهِ (ص) فِيكُمْ قلت مَعَاذَ اللَّهِ أو سُبْحَانَ اللَّهِ أو كَلِمَةً نَحْوَهَا قالت سمعت رَسُولَ اللَّهِ (ص) يقول من سَبَّ عَلِياًّ فَقَدْ سبّنی.
عبد الله جدلی نے کہا ہے کہ: میں بی بی ام سلمہ کے پاس گیا تو انھوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا: کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو رسول خدا (ص) کو سبّ ( گالیاں ) دیتا ہے ؟ عبد اللہ نے کہا: نعوذ باللہ، خدا کی پناہ اس کام سے، اس پر ام سلمہ نے فرمایا کہ: میں نے خود رسول خدا (ص) سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ: جو بھی علی (ع) کو سبّ کرے گا، تو بے شک اس نے مجھ پر سبّ کی ہے۔
الشيبانی، ابو عبد الله أحمد بن حنبل (متوفي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 6، ص323، ح26791، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر؛
الشيبانی، ابو عبد الله أحمد بن حنبل (متوفي241هـ)،: فضائل الصحابة، ج 2، ص594، ح1011، تحقيق د. وصی الله محمد عباس، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولی، 1403هـ - 1983م؛
النسائی، ابو عبد الرحمن أحمد بن شعيب بن علی (متوفي303 هـ)، خصائص اميرمؤمنان علی بن أبی طالب، ج 1، ص111، ح91، تحقيق: أحمد ميرين البلوشی، ناشر: مكتبة المعلا - الكويت الطبعة: الأولی، 1406 هـ؛
الحميری، علی بن محمد (متوفي323هـ)، جزء الحميری، ج2، ص80 ـ 81، تحقيق: عبد العزيز سليمان إبراهيم البعيمی، ناشر: مكتبة الرشد ـ الرياض، الطبعة: الأولی
حاكم نيشاپوری نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:
هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا۔
الحاكم النيسابوری، ابو عبد الله محمد بن عبد الله (متوفی 405 هـ)، المستدرک علی الصحيحين، ج 3، ص130، ح 4615، تحقيق: مصطفی عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت الطبعة: الأولي، 1411هـ - 1990م.
اور ہيثمی نے بھی کہا ہے کہ:
رواه أحمد و رجاله رجال الصحيح غير أبی عبد الله الجدلی و هو ثقة.
احمد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کے سب راوی، کتاب صحیح بخاری والے راوی ہیں، غیر از ابی عبد اللہ الجدلی کہ وہ بھی مورد اعتماد اور اطمینان ہے۔
الهيثمی، ابو الحسن نور الدين علی بن أبی بكر (متوفی 807 هـ)، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج 9، ص130، ناشر: دار الريان للتراث، دار الكتاب العربی - القاهرة، بيروت - 1407هـ.
ابو یعلی موصلی اور دوسرے اہل سنت کے بزرگان نے اسی روایت کو صحیح سند کے ساتھ اور ایک دوسری عبارت کے ساتھ نقل کیا ہے کہ:
حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی، حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبَجَلِيُّ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: أَ يُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ (ص) عَلَی الْمَنَابِرِ؟ قُلْتُ: وَ أَنَّی ذَلِک؟ قَالَتْ: " أَ لَيْسَ يُسَبُّ عَلِيٌّ وَ مَنْ يُحِبُّهُ؟ فَأَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (ص) كَانَ يُحِبُّهُ۔ "
ابو عبد الله جدلی نے کہا ہے کہ: ام سلمہ نے کہا کہ: کیا کوئی رسول خدا (ص) کو منبر پر سبّ کرتا ہے ؟ عبد اللہ نے کس طرح یہ کام ممکن ہے ؟ حضرت ام سلمہ نے کہا کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ لوگ علی (ع) اور ان سے محبت کرنے والوں کو سبّ کرتے ہیں، میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول خدا (ص)، علی (ع) سے محبت کیا کرتے تھے۔
أبو يعلی الموصلی التميمی، أحمد بن علی بن المثنی (متوفي307 هـ)، مسند أبی يعلی، ج 12، ص444، ح7013، تحقيق: حسين سليم أسد، ناشر: دار المأمون للتراث - دمشق، الطبعة: الأولی، 1404 هـ - 1984م.
الطبرانی، ابو القاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفي360هـ)، الروض الدانی (المعجم الصغير)، ج 2، ص83، تحقيق: محمد شكور محمود الحاج أمرير، ناشر: المكتب الإسلامی، دار عمار – بيروت، عمان، الطبعة: الأولی، 1405هـ ـ 1985م
الطبرانی، ابو القاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفي360هـ)، المعجم الكبير، ج 23، ص322، تحقيق: حمدی بن عبد المجيد السلفی، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ - 1983م.
الطبرانی، ابو القاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفي360هـ)، المعجم الأوسط، ج 6، ص74، تحقيق: طارق بن عوض الله بن محمد، عبد المحسن بن إبراهيم الحسينی، ناشر: دار الحرمين - القاهرة - 1415هـ.
البغدادی، ابوبكر أحمد بن علی بن ثابت الخطيب (متوفي463هـ)، تاريخ بغداد، ج 7، ص401، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.
ابن عساكر الدمشقی الشافعی، أبی القاسم علی بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله (متوفي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق و ذكر فضلها و تسمية من حلها من الأماثل، ج 42، ص266، تحقيق: محب الدين أبی سعيد عمر بن غرامة العمری، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
ابن كثير الدمشقی، ابو الفداء إسماعيل بن عمر القرشی (متوفي774هـ)، البداية و النهاية، ج 7، ص355، ناشر: مكتبة المعارف - بيروت.
ہيثمی نے اس روایت کے صحیح ہونے کے بارے میں کہا ہے کہ:
رواه الطبرانی فی الثلاثة و أبو يعلی و رجال الطبرانی رجال الصحيح غير أبی عبد الله و هو ثقة و روی الطبرانی بعده بإسناد رجاله ثقات إلی أم سلمة عن النبی صلی الله عليه و سلم قال مثله.
طبرانی نے اس روایت کو اپنی تینوں کتابوں میں نقل کیا ہے، طبرانی کے سارے راوی، کتاب صحیح بخاری والے راوی ہیں، غیر از ابو عبد اللہ، کہ وہ بھی ثقہ اور قابل اعتماد ہے۔ اسی طرح اسکے بعد طبرانی نے ام سلمہ سے اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جس کے سارے راوی ثقہ و قابل اعتماد ہیں۔
الهيثمی، ابو الحسن نور الدين علی بن أبی بكر (متوفی 807 هـ)، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج 9، ص130، ناشر: دار الريان للتراث، دار الكتاب العربی - القاهرة، بيروت - 1407هـ.
حاکم نیشاپوری نے اسی روایت کو تھوڑی تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحَافِظُ بِهَمْدَانَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُوسَی بْنِ إِسْحَاقَ التَّيْمِيُّ، ثنا جَنْدَلُ بْنُ وَالْقٍ، ثنا بُكَيْرُ بْنُ عُثْمَانَ الْبَجَلِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ التَّمِيمِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيَّ، يَقُولُ: حَجَجْتُ وَ أَنَا غُلامٌ، فَمَرَرْتُ بِالْمَدِينَةِ وَ إِذَا النَّاسُ عُنُقٌ وَاحِدٌ، فَاتَّبَعْتُهُمْ، فَدَخَلُوا عَلَی أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ، فَسَمِعْتُهَا تَقُولُ: يَا شَبِيبَ بْنَ رِبْعِيٍّ، فَأَجَابَهَا رَجُلٌ جِلْفٌ جَافٍ: لَبَّيْک يَا أُمَّتَاهُ، قَالَتْ: يُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ فِی نَادِيكُمْ ؟ قَالَ: وَ أَنَّی ذَلِک ؟ قَالَتْ: فَعَلِيُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، قَالَ: إِنَّا لَنَقُولُ أَشْيَاءَ نُرِيدُ عَرَضَ الدُّنْيَا، قَالَتْ: فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِی، وَ مَنْ سَبَّنِی فَقَدْ سَبَّ اللَّهَ تَعَالی۔"
ابو عبد اللہ جدلی نے کہا کہ: جب میں نوجوان تھا تو اس وقت میں حج کرنے کے لیے مکہ گيا۔ میں مدینہ میں کچھ لوگوں کے ساتھ رسول خدا کی زوجہ محترمہ ام سلمہ کے گھر گیا۔ میں نے ام سلمہ سے سنا کہ انھوں نے کہا کہ: اے شبیب ابن ربعی، اس نے جواب دیا: جی فرمائیں، اے مادر محترم، ام سلمہ نے فرمایا کہ: کیا تم لوگوں کی عادت بن گئی ہے کہ تم لوگ جب بھی اکٹھے مل کر بیٹھتے ہو، رسول خدا (ص) پر سبّ کرتے ہو ؟ اس نے جواب دیا: نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے !
ام سلمہ نے کہا: کیا تم علی ابن ابی طالب (ع) پر سبّ کرتے ہو ؟ اس نے جواب دیا: ہم بعض امور دنیا کے لیے ان پر سبّ کرتے ہیں۔ ام سلمہ نے فرمایا کہ : میں نے یہ سوال اس لیے کیا ہے کہ : میں نے خود رسول خدا (ص) سے سنا ہے کہ: وہ فرمایا کرتے تھے کہ: جو علی (ع) پر سبّ کرے گا، اس نے مجھ پر سبّ کی ہے، اور جو مجھ پر سبّ کرے گا، اس نے خداوند پر سبّ کی ہے۔
الحاكم النيسابوری، ابو عبد الله محمد بن عبد الله (متوفی 405 هـ)، المستدرک علی الصحيحين، ج 3، ص130، ح4616، تحقيق: مصطفی عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت الطبعة: الأولي، 1411هـ - 1990م.
روايت دوم: قيس بن حازم از ام سلمہ:
أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ طَاوُسٍ، أنا أَبُو الْفَتْحِ عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ، أنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ جَعْفَرٍ الْجُرْجَانِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ يُوسُفَ الأَصَمُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ أَبِی الْحُنَيْنِ، نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانٍ الْوَرَّاقُ، حَدَّثَنِی عَمْرٌو، عَنْ إِسْمَاعِيلَ السُّدِّيِّ، قَالَ: وَ قَالَ قَيْسُ بْنُ أَبِی حَازِمٍ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ (ص) تَقُولُ: " مَنْ سَبَّ عَلِيًّا وَ أَحِبَّاءَهُ فَقَدْ سَبَّ رَسُولَ اللَّهِ (ص) وَ أَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (ص) كَانَ يُحِبُّهُ ".
قيس بن حازم نے کہا کہ: میں نے ام سلمہ کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ : جو بھی علی (ع) اور اس سے محبت کرنے والوں پر سبّ کرے گا تو بے شک اس نے رسول خدا (ص) پر سبّ کی ہے، اور میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول خدا (ص) علی (ع) سے محبت کیا کرتے تھے۔
ابن عساكر الدمشقی الشافعی، أبی القاسم علی بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله (متوفي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق و ذكر فضلها و تسمية من حلها من الأماثل، ج 42، ص267، تحقيق: محب الدين أبی سعيد عمر بن غرامة العمری، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
روايت سوم: عبد الله بن عباس:
شجری جرجانی نے اپنی کتاب الامالی میں، محب الدین طبری نے کتاب ذخائر العقبی میں، اور ابو سعید آبی نے کتاب نثر الدر میں اسی مطلب کو عبد اللہ ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ:
أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُؤَدِّبُ الْمَعْرُوفُ بِالْمَكْفُوفِ، بِقِرَاءَتِی عَلَيْهِ، قَالَ: أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ حَيَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ، جُنْدَارُ بْنُ وَاثِقٍ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: بَلَغَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِی اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ قَوْمًا يَقَعُونَ فِی عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَقَالَ لِابْنِهِ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: خُذْ بِيَدِی فَاذْهَبْ بِی إِلَيْهِمْ، فَأَخَذَ بِيَدِهِ حَتَّی انْتَهَی إِلَيْهِمْ فَقَالَ: أَيُّكُمُ السَّابُّ اللَّهَ ؟ قَالُوا: سُبْحَانَ اللَّهِ مَنْ سَبَّ اللَّهَ فَقَدْ أَشْرَک، فَقَالَ: أَيُّكُمُ السَّابُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ ؟ قَالُوا: مَنْ سَبَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ فَقَدْ كَفَرَ، فَقَالَ: أَيُّكُمُ السَّابُّ لِعَلِيٍّ ؟ قَالُوا: قَدْ كَانَ ذَلِک، قَالَ فَأَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِی، وَ مَنْ سَبَّنِی فَقَدْ سَبَّ اللَّهَ، وَ مَنْ سَبَّ اللَّهَ كَبَّهُ اللَّهُ عَلَی وَجْهِهِ فِی النَّارِ ".
سعيد بن جبير سے نقل ہوا ہے کہ ابن عباس کو بتایا گیا کہ بعض لوگ علی (ع) کی توہین کرتے ہیں۔ ابن عباس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ: میرے ہاتھ کو پکڑو اور مجھے ان لوگوں کے پاس لے چلو۔ جب وہ ان کے پاس گئے، ابن عباس نے کہا کہ: تم میں سے کس نے خداوند کو گالی دی ہے ؟ انھوں نے کہا: سبحان اللہ ! جو بھی خداوند کو گالی دیتا ہے، وہ مشرک ہو جاتا ہے۔ پھر ابن عباس نے کہا کہ : تم میں سے کس نے رسول خدا (ص) کو گالی دی ہے ؟ انھوں نے کہا: جو بھی رسول خدا (ص) کو گالی دیتا ہے، وہ کافر ہو جاتا ہے۔ پھر ابن عباس نے کہا کہ : تم میں سے کس نے علی (ع) کو گالی دی ہے ؟ انھوں نے کہا کہ ہاں ہم نے یہ کام انجام دیا ہے۔ ابن عباس نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک میں رسول خدا (ص) سے سنا ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ : جو بھی علی (ع) کو گالی دے گا، اس نے مجھے گالی دی ہے، اور جو بھی مجھے گالی دے گا، اس نے خداوند کو گالی دی ہے اور خداوند ایسا کام کرنے والے کو منہ کے بل جہنم میں ڈالے گا۔
الشجری الجرجانی، المرشد بالله يحيی بن الحسين بن إسماعيل الحسنی (متوفي499 هـ)، كتاب الأمالی و هی المعروفة بالأمالی الخميسية، ج 1، ص178، تحقيق: محمد حسن اسماعيل، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، لبنان، الطبعة: الأولی، 1422 هـ - 2001م.
الطبری، ابو جعفر محب الدين أحمد بن عبد الله بن محمد (متوفي694هـ)، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، ج 1، ص66، ناشر: دار الكتب المصرية - مصر.
الآبی، ابو سعد منصور بن الحسين (متوفي421هـ)، نثر الدر فی المحاضرات، ج 1، ص286، تحقيق: خالد عبد الغنی محفوط، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، لبنان، الطبعة: الأولی، 1424هـ - 2004م.
روايت چہارم: عبد الرحمن بن اخی زيد بن ارقم:
ابن عساكر دمشقی شافعی نے دو روایات کو اسی مضمون کے ساتھ عبد الرحمن، کہ جو زید ابن ارقم کے بھائی کا بیٹا تھا، سے نقل کیں ہیں:
كَتَبَ إِلَيَّ أَبُو سَعْدٍ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَ أَبُو عَلِيٍّ الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ، وَ أَبُو الْقَاسِمِ غَانِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، ثُمَّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْمَعَالِيِّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْحُلْوَانِيُّ، أنا أَبُو عَلِيٍّ، قَالُوا: أنا أَبُو نُعَيْمٍ الْحَافِظُ، نا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، نا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَجَّاجِ بْنِ رَشْدِينٍ، نا يُوسُفُ بْنُ عَدِيٍّ الْكُوفِيُّ، نا عَمْرُو ابْنُ أَبِی الْمِقْدَامِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِی زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ أَخِی زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی أُمِّ سَلَمَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَتْ: " مِنْ أَيْنَ أَنْتُمْ؟ " فَقُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، فَقَالَتْ: " أَنْتُمُ الَّذِينَ تَشْتُمُونَ النَّبِيَّ (ص) فَقُلْتُ: مَا عَلِمْنَا أَحَدًا يَشْتُمُ النَّبِيَّ (ص) قَالَتْ: " بَلَی أَلَيْسَ يَلْعَنُونَ عَلِيًّا، وَ يَلْعَنُونَ مَنْ يُحِبُّهُ؟ وَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) يُحِبُّهُ.
عبد الرحمن، کہ زید ابن ارقم کے بھائی کا بیٹا ہے، اس نے کہا ہے کہ : میں ام المؤمنین، ام سلمہ کے پاس گيا، تو انھوں نے کہا : کہاں کے رہنے والے ہو ؟ اس نے کہا کہ میں کوفے کا رہنے والا ہوں۔ پھر ام سلمہ نے کہا کہ: کیا تم لوگ رسول خدا کو گالیاں دیتے ہو ؟ اس نے کہا کہ: میری نظر میں کوئی بندہ ایسا نہیں ہے کہ جو رسول خدا (ص) کو گالیاں دیتا ہو۔ ام سلمہ نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، لیکن کیا تم علی (ع) اور ان سے محبت کرنے والوں پر سبّ و لعن نہیں کرتے ؟ حالانکہ رسول خدا (ص) علی (ع) سے شدید محبت کرتے تھے۔
ابن عساكر الدمشقی الشافعی، أبی القاسم علی بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله (متوفي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق و ذكر فضلها و تسمية من حلها من الأماثل، ج 42، ص266، تحقيق: محب الدين أبی سعيد عمر بن غرامة العمری، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْفُرَاوِيُّ، أنا أَبُو عُثْمَانَ الْبَحِيرِيُّ، أنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ سُلَيْمٍ النَّجَّادُ الْبَغْدَادِيُّ، نا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْهَمْدَانِيُّ، نا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَی الصُّوفِيُّ، نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانٍ الْوَرَّاقُ، نا عَمْرُو بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِی زِيَادٍ، حَدَّثَنِی ابْنُ أَخِی بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ (ص) فَقَالَتْ: مِمَّنْ أَنْتَ ؟ قُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، قَالَتْ: مِنَ الَّذِينَ يُسَبُّ فِيهِمْ رَسُولُ اللَّه (ص) قُلْتُ: لا وَ اللَّهِ يَا أُمَّهْ، مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَسُبُّ رَسُولَ اللَّهِ (ص) قَالَتْ: بَلَی وَ اللَّهِ إِنَّهُمْ يَقُولُونَ: فَعَلَ اللَّهُ بِعَلِيٍّ، وَ مَنْ يُحِبُّهُ، وَ قَدْ كَانَ وَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ يُحِبُّهُ۔
زید ابن ارقم کے بھائی کے بیٹے نے کہا ہے کہ: اس نے کہا ہے کہ : میں ام المؤمنین، ام سلمہ کے پاس گيا، تو انھوں نے کہا : کہاں کے رہنے والے ہو ؟ اس نے کہا کہ میں کوفے کا رہنے والا ہوں۔ پھر ام سلمہ نے کہا کہ: کیا تم میں سے کون رسول خدا (ص) کو گالیاں دیتا ہے ؟ اس نے کہا اے میری ماں: میں نے کسی کو رسول خدا (ص) کو گالیاں دیتے ہوئے نہیں سنا۔ ام سلمہ نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، لیکن کیا تم علی (ع) اور ان سے محبت کرنے والوں فلاں فلاں نہیں کہتے، حالانکہ رسول خدا (ص) علی (ع) سے شدید محبت کرتے تھے۔
تاريخ مدينة دمشق ج 42، ص265
احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں، نسائی نے اپنی کتاب خصائص امير مؤمنین میں اور ذہبی نے اپنی کتاب تاريخ الإسلام وغیرہ وغیرہ نے سند صحيح کے ساتھ نقل کیا ہے کہ، علی کو سبّ دینا، یہ خود رسول خدا کو سبّ دینا ہے:
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَي أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ لِي أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فِيكُمْ قُلْتُ مَعَاذَ اللَّهِ أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِی۔
عبد اللہ جدلی نے کہا ہے کہ: میں ام سلمہ کے پاس گیا، تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا بندہ ہے کہ جو رسول خدا کو گالیاں دیتا ہے ؟ میں نے کہا کہ نعوذ باللہ، اس پر ام سلمہ نے کہا کہ:
میں نے خود رسول خدا سے سنا ہے کہ: انھوں نے فرمایا ہے کہ : جو بھی علی کو سبّ کرے گا، تو گویا اس نے مجھ پر سبّ کی ہے۔
الشيبانی ، أحمد بن حنبل أبو عبد الله (متوفی241هـ) ، مسند أحمد بن حنبل ، ج 6 ، ص 323 ، ح26791 ، ناشر : مؤسسة قرطبة - مصر .
النسائی ، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن ، خصائص أمير المؤمنين علی بن أبی طالب ، ج 1 ، ص 111 ، ح 91 ، باب ذكر قول النبی صلی الله عليه و سلم من سب عليا فقد سبنی ، تحقيق : أحمد ميرين البلوشی ، ناشر : مكتبة المعلا - الكويت ، الطبعة : الأولی ، 1406 .
الذهبی ، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان أبو عبد الله، تاريخ الإسلام و وفيات المشاهير و الأعلام ، ج 3 ، ص 634 ، تحقيق : د. عمر عبد السلام تدمری ، ناشر : دار الكتاب العربی – لبنان، بيروت ، الطبعة : الأولی ، 1407هـ - 1987م .
حاكم نيشاپوری نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:
هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اس کو اپنی اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا۔
الحاكم النيشاپوری ، محمد بن عبد الله أبو عبد الله ، المستدرك علی الصحيحين ، ج 3 ، ص 130 ، تحقيق : مصطفی عبد القادر عطا، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت ، الطبعة : الأولی ، 1411هـ - 1990م .
نتيجہ:
یہ روایت کم از کم دو سند صحیح کے ساتھ اور دوسری کئی اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے، لھذا اس روایت کے صحیح ہونے میں کسی قسم کا شک باقی نہیں رہ جاتا۔
ان روایات کی روشنی میں جو بھی علی ابن ابی طالب (ع) کو گالیاں دے گا، اس نے حقیقت میں رسول خدا (ص) اور خداوند کو گالیاں دیں ہیں، اور خداوند اور رسول خدا (ص) کو گالیاں دینے کا نتیجہ قطعا کفر و شرک ہو گا۔
اس کے علاوہ ابن تیمیہ حرّانی کے کلام کے مطابق، بہت سے صحابہ اور تابعین علی (ع) سے بغض و کینے کی وجہ سے انکو گالیاں دیا کرتے اور ان پر لعنت کیا کرتے تھے !!!
پس کہاں ہے وہ تمام صحابہ کا عادل ہونا، کہاں ہیں وہ جو صحابہ کو برا بھلا کہنے والوں پر کفر و شرک کے فتوئے لگاتے ہیں، کہاں ہیں وہ جو تمام صحابہ کو ستاروں کی طرح نورانی اور باعث ہدایت و نجات جانتے ہیں، کیا تمام صحابہ کا عادل و جنّتی ہونا، قرآن، صحیح روایات نبوی اور عقل کے خلاف نہیں ہے، فما لکم کیف تحکمون ؟؟
التماس دعا.....