2024 November 15
کیا امیر المؤمنین علی (ع) انبیاء سے افضل ہیں؟
مندرجات: ٤٨٦ تاریخ اشاعت: ٢٩ December ٢٠١٦ - ١٤:٠٨ مشاہدات: 15900
سوال و جواب » امام علی (ع)
جدید
کیا امیر المؤمنین علی (ع) انبیاء سے افضل ہیں؟

 

سوال:

 

کیا امیر المؤمنین علی (ع) انبیاء سے افضل ہیں ؟

جواب:

 

شاید آپ اس عنوان کو پڑھ کر کہ علی (ع) رسول خدا (ص) کے علاوہ باقی تمام انبیاء سے افضل ہیں، کچھ تعجب کریں لیکن اس سے پہلے کہ آپ ہر قسم کی تحقیق اور مطالعہ کریں اور ہم کو غالی ہونے اور دین و شریعت سے خارج ہونے کے بارے میں متہم کریں، ہم آپ سے مؤدبانہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے بارے میں ہر طرح کی قضاوت کرنے سے پہلے، ہمارے استدلال اور برہان کو ملاحظہ فرما لیں، پھر آپ خود قاضی بن کے حکم کریں کہ اس سوال کا عنوان قرآن اور احادیث کی روشنی میں ویسے ہی ہے کہ جس طرح ہم نے ذکر کیا ہے، اور اسطرح آپ کو بھی فیصلہ کرنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں ہو گا، کیونکہ یہ وہ مہم موضوع ہے کہ جسکی وجہ سے وہابی شیعہ اہل بیت (ع) کو کافر اور مشرک وغیرہ قرار دیتے ہیں اور اس بارے میں اپنی کتب اور ٹی وی چینلز پر بھی ہر روز کفر و شرک کے فتوئے دیتے رہتے ہیں۔

کیونکہ علی (ع) کی برتری اور فضیلت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو ناقابل انکار ہے، کیونکہ قرآن اور سنت نے اس اعتقاد کی تائید اور اسکو ثابت بھی کیا ہے۔ اگرچے ناپاک اور خائن ہاتھ 14 سو سال سے آج تک ہمیشہ علی (ع) کے فضائل کو انکار، تحریف، نابود اور پنہان کرتے آئے ہیں، تا کہ انسانوں اور انسانیت کے اذہان کو حق سے باطل اور نور سے ظلمت کی طرف گمراہ کر سکیں، لیکن:

يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ۔

نور خدا کبھی بھی خاموش نہیں ہوتا۔

سورہ صف آیہ 8

وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ۔

سورہ توبہ آیہ 40

اسی وجہ سے ہم علی (ع) کی برتری کو تین منابع قرآن، سنت اور عقل سے ثابت کرنے کے لیے بحث کریں گے:

امیر المؤمنین علی (ع) قرآن کی روشنی میں:

 

الف. آيت تطہير:

 

پہلی آیت کہ جو محدثین اور مفسرین کے اعتراف کے مطابق علی کی شان میں نازل ہوئی ہے، وہ آیت تطہیر ہے کہ جو علی (ع) کے معنوی مقامات کو بیان کرتی ہے:

انما يريد الله ليذهب عنكم الرجس اهل البيت و يطهركم تطهيرا۔

بیشک خداوند یہ چاہتا ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو آپ اہل بیت سے دور کرے اور آپ کو ایسا پاک کرے کہ جیسا پاک کرنے کا حق ہے۔

سوره احزاب: 33.

اس معروف و مشہور آیت تطہیر میں علی اور انکی معصوم اولاد کے مقام کو تمام انبیاء غیر از رسول خدا (ص) سے برتر اور بالا تر بیان کیا گیا ہے، کیونکہ خداوند نے واضح طور پر رسول خدا کے اہل بیت کی عصمت اور طہارت کو بیان کیا ہے۔

الفاظ کلام کرتے ہیں:

 

اس آیت میں مذکور مہم کلمات جیسے، انّما، يريد، ليذهب، الرجس، اہل البيت، یہ آیت کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کے لیے کلیدی کلمات ہیں کہ ان کو سمجھے بغیر آیت کے دقیق و عمیق معنی کو نہیں سمجھا جا سکتا، اس لیے تفسیر سے پہلے ان کلمات اور لغات کے بارے میں بات کرتے ہیں:

1- لفظ انّما معنی حصر پر دلالت کرتا ہے:

 

لفظ انّما کا آیت کی ابتدا میں ہونا یہ اس آیت کے معنی و مفہوم کے مہم ہونے پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ یہ کلمہ آیت کے معنی کو محدود و حصر کر کے، اس مطلب کی اہمیت و عظمت پر دلالت کرتا ہے۔

ابن منظور کہتا ہے کہ:

و معنی إنما إثبات لما يذكر بعدها و نفی لما سواه كقوله : و إنما يدافع عن أحسابهم أنا أو مثلی المعنی : ما يدافع عن أحسابهم إلا أنا أو من هو مثلی ،

لفظ انّما معنی کو اس کے لیے کہ جو اس لفظ کے بعد آیا ہے، ثابت کرتا ہے، جیسے کہ کوئی کہے کہ: میں اور میری طرح کے دوسرے بھی اپنی عزت اور مقام کا دفاع کرتے ہیں، یعنی اصل میں یہ کہہ رہا ہے کہ فقط میں اور میری طرح کا ہر کوئی ایسا ہی ہے، نہ کوئی اور فرد۔

لسان العرب ، ج 13 ص 31، اسم المؤلف: محمد بن مكرم بن منظور الأفريقی المصری الوفاة: 711 ، دار النشر : دار صادر، بيروت، الطبعة : الأولی.

اس نکتے کی طرف توجہ لازم ہے کہ اس آیت میں حصر، حصر حکم در موضوع کی طرح ہے، جیسے آیت ولایت:

انّما وليّكم اللّه و رسوله و الذين آمنوا...

کہ اس آیت میں ولایت فقط خداوند، رسول خدا اور اس مؤمن کہ جسکی صفات آیت میں بیان ہوئی ہیں، کے لیے خاص ہے۔

یقینی طور پر مورد بحث آیت میں تطہیر، نوع اول یعنی حصر حکم ہے نہ حصر موضوع، یعنی پاکی اور طہارت اور ناپاکی سے دوری، یہ ان افراد کے ساتھ خاص ہے کہ جو اہل بیت کے عنوان کے تحت آتے ہیں اور یہ انہی کی خاص صفت ہے اور کسی دوسرے کو شامل نہیں ہو گی۔

2- ضمیر کا بھی معنی حصر پر تاکید کرنا ہے:

 

لفظ انّما کی معنی حصر پر دلالت کرنے کے علاوہ، لفظ "عنکم" بھی اس معنی کی زیادہ تاکید بیان کر رہا ہے، کیونکہ لیذھب فعل کا مفعول، الرجس ہے، لہذا اسکو فعل کے بعد آنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اور لفظ " عنکم " فعل اور مفعول کے درمیان فاصلہ آ گیا ہے کہ یہ کسی حکمت اور سبب کے بغیر نہیں ہوا، کیونکہ اہل علم کے بقول:

تقديم ما هو حقه التاخير يفيد الحصر،

یعنی جب ایک لفظ کی جگہ ایک جملے کے آخر میں ہو اور اپنی جگہ سے آگے آ کر ذکر ہو اور مقدم ہو جائے تو یہ اس معنی و حکم کو اس جملے میں حصر و محدود کرنا ہوتا ہے۔

ابن حجر اہل بیت کے فضائل کے بارے میں نازل شدہ آیات کی فصل میں لکھتا ہے کہ:

الآية الأولی: قال الله تعالی: إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت و يطهركم تطهيرا.

الأحزاب 33

اكثر المفسرين علی أنها نزلت فی علی و فاطمة و الحسن و الحسين لتذكير ضمير عنكم و ما بعده۔

اکثر مفسرین نے ضمیر مذکر عنکم کی وجہ سے کہا ہے کہ یہ آیت علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

الصواعق المحرقة ، ج 2 ص 421، اسم المؤلف: أبو العباس أحمد بن محمد بن علی ابن حجر الهيثمی الوفاة: 973هـ ، دار النشر : مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة : الأولی ، تحقيق : عبد الرحمن بن عبد الله التركی - كامل محمد الخراط.

پھر ابن حجر لفظ " قیل " کے ساتھ کہ اسکے کہنے والے کو معیّن کیے بغیر، بعض احتمالات اور اقوال کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ یہ آيت رسول خدا کے نسبی اور سببی خاندان یعنی تمام زوجات اور تمام بنی ہاشم کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

اب یہاں پر مناسب ہے کہ ہم ابن حجر اور اسکے ہم فکروں سے کہ جو ہر طرح سے اوپر نیچے، دائیں بائیں کر کے ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ عام اور نالائق افراد کو اس آيت کے فضائل میں شریک اور داخل کریں، سوال کریں کہ کیوں اکثر مفسرین کے اعتراف کے باوجود کہ یہ آیت رسول خدا کے نسبی خاندان کے خاص افراد کی شان میں نازل ہوئی ہے، پھر بھی بعض غیر ثقہ افراد کے اقوال کو سند کے طور پر لاتے ہیں اور ان کے ضعیف اقوال کو صحیح و قوی کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں ؟

کیا ابن حجر کا یہ کام علی (ع)، فاطمہ (س) اور انکی اولاد سے عناد اور دشمنی نہیں ہے ؟

آخر میں ابن حجر اس آیت کو اہل بیت کے لیے فضائل کا مجموعہ کہتا ہے اور لفظ انّما سے حصر کے ذریعے اس آیت کو اہل بیت کی شان میں نازل ہونے کو واضح طور پر بیان کرتا ہے:

ثم هذه الآية منبع فضائل أهل البيت النبوی لاشتمالها علی غرر من مآثرهم و الاعتناء بشأنهم حيث ابتدئت بإنما المفيدة لحصر إرادته تعالی فی أمرهم علی إذهاب الرجس الذی هو الإثم أو الشك فيما يجب الإيمان به عنه و تطهيرهم من سائر الأخلاق و الأحوال المذمومة.

یہ آیت رسول خدا کے اہل بیت کے فضائل اور برتری کا منبع و مرکز ہے اور اس آیت میں ایک خاص توجہ اہل بیت پر ہوئی ہے، کیونکہ لفظ انّما کے ذریعے سے ان سے ہر طرح کی ناپاکی، شک، گناہ، اخلاق بد اور مذموم حالات کو دور اور نفی کیا گیا ہے۔

الصواعق المحرقة ، ج 2 ص 425 - 426 ، اسم المؤلف: أبو العباس أحمد بن محمد بن علی ابن حجر الهيثمی الوفاة: 973هـ ، دار النشر : مؤسسة الرسالة - لبنان ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : عبد الرحمن بن عبد الله التركی - كامل محمد الخراط،

3- خداوند کا ارادہ:

 

جملہ "یرید اللہ" میں خداوند کے ارادے سے مراد، ارادہ تکوینی ہے، نہ تشریعی، کیونکہ ارادہ تشریعی میں خداوند کا خطاب تمام انسانوں سے ہوتا ہے اور اس ارادے سے ایک بندہ بھی استثناء نہیں ہوتا، لیکن ارادہ تکوینی لازم نہیں ہے کہ تمام انسانوں کو شامل ہو۔ خداوند قادر یہ قدرت رکھتا ہے کہ بعض خاص افراد کو ایک خاص حکم یا ایک خاص فضیلت کے ساتھ خاص کرے کہ وہ فضیلت دوسروں میں موجود نہ ہو۔

لہذا اس آيت میں فقط ارادہ تکوینی کے بارے میں بحث ہو رہی ہے، کیونکہ ناپاکی کو ختم کر کے پاک کرنا یہ عمومی اور کلی طور پر نہیں ہے، کہ تمام انسانوں یا ایک مذہب کے پیروکاروں کو شامل ہو۔ اسلیے کہ رجس کا معنی ہر طرح کی وہ ناپاکی اور نجاست ہے کہ جس سے لوگ نفرت کرتے ہوں اور خداوند کی خالصانہ بندگی سے دور ہونا ہے اور یہ حقیقت فقط خداوند کے ارادہ تکوینی سے میسر اور حاصل ہوتی ہے اور ارادہ تکوینی کبھی بھی تخلف پذیر نہیں ہے، یعنی ہمیشہ واقع ہو کر رہتا ہے۔

4- رجس سے پاک کرنا:

 

لفظ اذھاب کا یہاں پر معنی دور کرنا، پاک کرنا ایک چیز کے نجس ہونے سے پہلے ہے، کیونکہ روز مرہ میں باتوں باتوں میں اسی ہی معنی میں استعمال ہوتا ہے، مثلا جو کہتا ہے کہ: أذهب اللّه عنكم الداء و السوء، خداوند بیماری اور غم کو آپ سے دور فرمائے،

اسکا یہ معنی نہیں ہے کہ پہلے وہ بیماری اور غم میں وہ مبتلا ہو، اور پھر ہم اسکے لیے دعا کریں کہ خداوند آپ سے ہر دو کو دور کرے، بلکہ یہ دعا ہر کسی کے لیے بیماری اور غم میں مبتلا ہونے سے پہلے بھی کی جا سکتی ہے۔

پس اذہاب کا معنی یہاں پر دفع ہے کہ یہ اس بیماری اور غم کے آنے سے پہلے، اسکو بر طرف کرنا ہے، پس بمعنی رفع نہیں ہے کہ اس چیز کے آنے کے بعد اس کو دور اور زائل کرنا مراد ہو، اسی وجہ سے اس آیت میں لفظ "ليذهب" آیا ہے نہ کہ لفظ "ليزيل"

5- رجس اور ناپاکی:

 

اس آیت میں مہم لفظ، رجس ہے۔

معروف لغت دان، فیومی نے کہا ہے کہ:

الرجس: النتن. و الرجس: القذر.

قال الفارابی: كلّ شئی يستقذر فهو رجس۔

رجس یعنی ہر بدبو والی چیز، فارابی نے کہا ہے کہ: ہر وہ چیز کہ جس سے انسان کی طبیعت نفرت کرے، وہ رجس و پلید شی ہوتی ہے۔

احمد بن محمد الفيومی، المصباح المنير، ج 1، ص 219، مؤسسة دار الهجرة، قم، چاپ اول، 405 هـ.

کتاب العین کے مصنف نے بھی اسطرح لکھا ہے کہ:

رجس: كل شئی يستقذر فهو رجس كالخنزير، و قد رجس الرجل رجاسة من القذر، و إنه لرجس مرجوس. و الرجس فی القرآن العذاب كالرجز، و كل قذر رجس. و رجس الشيطان وسوسته و همزه....

ہر پلید چیز کو رجس کہتے ہیں، جیسے خنزیر، اور قرآن میں رجس کا معنی عذاب ذکر ہوا ہے، جیسے رجز اور ہر پلیدی کو رجس کہتے ہیں۔

كتاب العين 8 مجلدات ، ج 6 ص 52، اسم المؤلف: الخليل بن أحمد الفراهيدی الوفاة: 175هـ ، دار النشر : دار و مكتبة الهلال ، تحقيق: د: مهدی المخزومی / د إبراهيم السامرائی.

راغب اصفہانی نے بھی رجس کی تین اقسام کو بیان کیا ہے، رجس طبيعی، عقلی اور شرعی، اور رجس کی تعریف کی ہے کہ:

الرجس الشيء القذر۔

ہر ناپاک اور پلید شیء کو رجس کہتے ہیں۔

المفردات فی غريب القرآن ، ج 1 ص 188، اسم المؤلف: أبو القاسم الحسين بن محمد الوفاة: 502هـ ، دار النشر : دار المعرفة، لبنان ، تحقيق : محمد سيد كيلانی،

لغت دانان کے اقوال و معانی کی بنا پر ہر وہ چیز رجس ہے کہ جسکا موجود ہونا انسان کے لیے نقص اور عیب کا سبب بنتا ہے اور جس سے انسان کی روح کو بھی اذیت ہوتی ہے اور یہی چیز دوسرے انسانوں کی اس انسان سے نفرت اور دوری کا بھی باعث بنتا ہے۔ رجس اپنے عام معنی میں گناہ، بد اخلاقی اور شیطان کے وسوسے کو بھی کہا جاتا ہے۔

اگرچے بعض نے آیت کے معنی و مصداق کو محدود اور تنگ کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ رجس سے مراد فقط شرک ہے اور انکا ہدف اس کام سے یہ ہے کہ کہیں کہ اس آیت تطہیر میں خداوند نے فقط شرک کو اہل بیت سے دور کیا ہے اور رجس سے مراد گناہ نہیں ہے تا کہ اس معنی سے رسول خدا کے بعض دوسرے رشتے دار بھی اس آیت میں داخل کر سکیں، لیکن لفظ رجس کے الف و لام کی وجہ سے مطلق و عام و استغراق کے لیے ہونے کی وجہ سے بغیر کسی شک کے یہ ذہاب رجس ہر طرح کے مادی، معنوی، ظاہری، باطنی، سہوی، عمدی، صغیرہ، کبیرہ نقص اور عیب کے دور ہونے اور اس سے پاک ہونے پر دلالت کرتا ہے کہ اس کے  نتیجے میں تمام گناہوں سے عصمت تامہ خود بخود ثابت ہو جائے گی۔

6- بزرگ مفسرین کے اقوال:

 

اتفاق سے اہل سنت کے علماء نے بھی شیعہ علماء کی طرح، اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رجس سے مراد فقط شرک نہیں ہے بلکہ شرک کے علاوہ ہر طرح کی ناپاکی اور گناہوں پر بھی رجس بولا جاتا ہے۔

اب ہم چند علماء کے اقوال کو ذکر کرتے ہیں:

فخر رازی نے اس آیت کی تفسير میں کہا ہے کہ:

فقوله تعالی : { لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرجس } أی يزيل عنكم الذنوب و يطهركم أی يلبسكم خلع الكرامة.....

خداوند نے آپ سے گناہوں کو دور کیا ہے اور کرامت و عزت کا لباس آپ پر پہنایا ہے۔

الرازی الشافعی فخر الدين محمد بن عمر التميمی (متوفی604هـ)، التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب ، ج22 ص201، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولی، 1421هـ، 2000م

جصّاص اہل سنت کے مفسر نے کتاب احكام القرآن ميں کہا ہے کہ:

قال تعالی ( إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت و يطهركم تطهيرا) يحتمل التطهير من الذنوب.

احتمال یہ ہے کہ  طہارت سے مراد گناہوں کی پلیدی سے پاک ہونا مراد ہو۔

أحكام القرآن، ج 4 ص 33، اسم المؤلف: أحمد بن علی الرازی الجصاص أبو بكر، الوفاة: 370، دار النشر: دار إحياء التراث العربی - بيروت - 1405 ، تحقيق : محمد الصادق قمحاوی.

شوكانی نے کتاب فتح القدير میں ذکر کیا ہے کہ:

و المراد بالرجس الإثم و الذنب المدنسان للأعراض الحاصلان بسبب ترك ما أمر الله به و فعل ما نهی عنه فيدخل تحت ذلك كل ما ليس فيه لله رضا۔

رجس سے مراد وہ گناہ ہیں کہ جو خداوند کی نافرمانی کر کے انجام دئیے جاتے ہیں، پس رجس سے مراد ہر وہ کام اور چیز ہو گی، جسمیں خداوند کی رضا شامل نہ ہو۔

فتح القدير الجامع بين فنی الرواية و الدراية من علم التفسير، فتح القدير ج 4 ص 278، اسم المؤلف: محمد بن علی بن محمد الشوكانی الوفاة: 1250، دار النشر: دار الفكر - بيروت.

ان کے علاوہ دوسرے مفسرین جیسے، ابن عطيہ اندلسی اور ثعالبی نے ایک ہی طرح کی بات کی ہے، اور کہا ہے کہ:

و الرِّجْسَ اسم يقع علی الإثم و علی العذاب و علی النجاسات و النقائص، فأذهب اللّه جميع ذلك عن أَهْلَ الْبَيْتِ

رجس، ایک اسم ہے جو عذاب، نجاسات اور ہر طرح کے نقص کو شامل ہوتا ہے، خداوند نے ان سب کو اہل بیت سے دور کیا ہے۔

المحرر الوجيز فی تفسير الكتاب العزيز، اسم المؤلف: أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عطية الأندلسی الوفاة: 546هـ، دار النشر: دار الكتب العلمية - لبنان - 1413هـ- 1993م ، الطبعة: الاولی تحقيق: عبد السلام عبد الشافی محمد.

عبد الرحمن بن محمد ثعالبی، جواهر الحسان فی تفسير القرآن، ج 4، ص 346.

آلوسی نے بھی اپنی تفسیر میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

و الرجس فی الأصل الشيء القذر...، و قيل : إن الرجس يقع علی الإثم و علی العذاب و علی النجاسة و علی النقائص، و المراد به هنا ما يعم كل ذلك ... و أل فيه للجنس أو للاستغراق، و المراد بالتطهير قيل: التحلية بالتقوی، و المعنی علی ما قيل: إنما يريد الله ليذهب عنكم الذنوب و المعاصی فيما نهاكم و يحليكم بالتقوی تحلية بليغة فيما أمركم، و جوّز أن يراد به الصون، و المعنی إنما يريد سبحانه ليذهب عنكم الرجس و يصونكم من المعاصی صوناً بليغاً فيما أمر و نهی جل شأنہ۔

رجس لغت میں پلیدی و ناپاکی ہے، اور کہا گیا ہے کہ رجس گناہ، عذاب، نجاست اور ہر طرح کے نقص و عیب کو شامل ہوتا ہے، اور آیت تطہیر میں رجس سے مراد یہ تمام معانی اور مصداق ہیں، اور الف و لام لفظ التطہیر، یہ جنس و استغراق کے لیے ہے، یعنی خداوند نے ارادہ کیا ہے کہ آپ اہل بیت سے گناہوں کو دور کر کے تقوا سے زینت دے کر پلیدی اور ناپاکی سے بچائے۔

روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم و السبع المثانی، ج 22 ص 12، اسم المؤلف: العلامة أبی الفضل شهاب الدين السيد محمود الألوسی البغدادی الوفاة: 1270هـ، دار النشر: دار إحياء التراث العربی، بيروت.

طنطاوی اہل سنت کا صاحب نظر و رائے بندہ ہے، اس نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ:

و الرجس فی الأصل: يطلق علی كل شئ مستقذر. و أريد به هنا: الذنوب و الآثام و ما يشبه ذلك من النقائص و الأدناس۔

رِجس لغوی معنی کے لحاظ سے ہر پلید چیز پر بولا جاتا ہے، لیکن اس آیت تطہیر میں پاکی سے مراد، گناہ اور ہر طرح کے نقص و عیب سے پاک ہونا ہے۔

طنطاوی، سيد محمد، التفسير الوسيط للقرآن الكريم، ج 11، ص 20،

7- اہل بیت:

 

لفظ اہل کا لغت میں معنی، ان لوگوں پر بولا جاتا ہے کہ جن سے ایک طرح کا جسمی، روحی، فکری، دینی، اعتقادی اور خاندانی تعلق ہوتا ہے۔لہذا خاندان کے لوگ جیسے، بیوی، بچے، نواسے وغیرہ کیونکہ انسان کا ان سے تعلق و رابطہ ہوتا ہے، تو یہ اس انسان کے اہل شمار ہوتے ہیں،لہذا کہا جا سکتا ہے کہ لفظ اہل میں بنیادی نکتہ وہی تعلق و رابطہ کہ جو موجود ہوتا ہے، اگرچے کبھی رشتے داروں اور نزدیکی لوگوں کے علاوہ بھی بعض افراد انسان کے اہل شمار ہوتے ہیں، جیسے سلمان فارسی کہ رسول خدا نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ: منّا اہل البیت۔

لیکن طرف مقابل میں ممکن ہے کہ بعض افراد خاندانی رابطہ ہونے کے باوجود، خداوند کے فرمان کی خلاف ورزی کرنے اور اپنے والد کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے اس انسان کے اہل شمار نہ ہوں، جیسے حضرت نوح (ع) کا بیٹا کہ خداوند نے اسکے بارے میں فرمایا ہے کہ: انّه ليس من أهلک۔

یہ لفظ خاندانی اور رشتے داری کی نسبت کو بتانے کے علاوہ بعض دیگر معانی پر بھی دلالت کرتا ہے کہ اس صورت میں یہ لفظ اپنے بعد والے لفظ کی مضاف ہو کر اپنا معنی واضح کرتا ہے۔

مثلا: ہر کتاب اور ہر دین و مذہب کو اسی کتاب اور دین کے اہل شمار کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ: اہل اسلام، اہل کتاب، اہل انجیل، اہل القری، اہل مدینہ، اہل جنت، اہل جہنم...... کہ ان میں بعض یہی معانی قرآن میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔

ابھی ہم پہلے لفظ اہل کا لغوی معنی بیان کرتے ہیں پھر قرآن کے محققین، مؤرخین اور محدثین کے اقوال کو بیان کریں گے:

ابن منظور اور دوسرے لغت شناسان نے لکھا ہے کہ:

أَهْل الرجل عَشِيرتُه و ذَوُو قُرْباه.

ایک انسان کے اہل، اسکا خاندان اور نزدیکی رشتے دار ہوتے ہیں۔

لسان العرب، ج 11 ص 28، اسم المؤلف: محمد بن مكرم بن منظور الأفريقی المصری الوفاة: 711، دار النشر: دار صادر، بيروت، الطبعة، الأولی،

تاج العروس من جواهر القاموس، ج 28 ص 40، اسم المؤلف: محمد مرتضی الحسينی الزبيدی الوفاة: 1205، دار النشر: دار الهداية، تحقيق: مجموعة من المحققين.

القاموس المحيط ، ج 1 ص 1245، اسم المؤلف: محمد بن يعقوب الفيروز آبادی الوفاة: 817، دار النشر: مؤسسة الرسالة - بيروت

صاحب فروق اللغہ نے اہل اور آل کے درمیان فرق کو ذکر کیا ہے کہ:

أن الاهل يكون من جهة النسب و الاختصاص.

اہل افراد کے درمیان نسب اور اختصاص کی وجہ سے ہوتا ہے۔

الفروق اللغويه: ج 1 ص 309، اسم المؤلف: العسكری، دار النشر.:

 مرحوم طريحی نے لکھا ہے کہ:

(أهل) أهل الرجل: آله. و هم أشياعه و أتباعه و أهل ملته...و قد مر فی (امر): أنهم أهل بيته خاصة.

ایک انسان کے اہل وہی اسکی آل و خاندان اور اسکے پیروکار ہیں۔

مجمع البحرين - الطريحی - ج 5  ص 203

آيت کے الفاظ کے بارے میں بحث کرنے اور لغت دانان کے اقوال کو بیان کرنے کے بعد، ابھی ہم مختصر طور پر آيت تطہیر کے شان نزول کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا علی کا نام بھی رسول خدا، حضرت فاطمہ اور انکے بیٹوں کے ساتھ نظر آتا ہے تا کہ یہ فضیلت ان کے لیے لیے بھی ثابت ہوتی ہے یا نہیں ؟

علامہ جلال الدين سيوطی نے تفسير الدر المنثور میں بيس روايات مخلتف طرق سے نقل کیا ہے کہ اہل بیت سے مراد رسول خدا، علی، فاطمہ اور حسنين ہیں۔ ان میں سے ایک روایت کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:

أخرج ابن جرير و ابن أبی حاتم و الطبرانی و ابن مردويه عن أم سلمة رضی الله عنها زوج النبی صلی الله عليه و سلم : « أن رسول الله صلی الله عليه و سلم كان ببيتها علی منامة له عليه كساء خيبری ، فجاءت فاطمة رضی الله عنها ببرمة فيها خزيرة فقال رسول الله صلی الله عليه و سلم » ادعی زوجك ، و ابنيك ، حسناً ، و حسيناً ، فدعتهم فبينما هم يأكلون إذ نزلت علی رسول الله صلی الله عليه و سلم { إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت و يطهركم تطهيراً } فأخذ النبی صلی الله عليه و سلم بفضلة ازاره ، فغشاهم إياها ، ثم أخرج يده من الكساء و أومأ بها إلی السماء ، ثم قال : اللهم هؤلاء أهل بيتی و خاصتی ، فاذهب عنهم الرجس ، و طهرهم تطهيراً ، قالها ثلاث مرات . قالت أم سلمة رضی الله عنها : فادخلت رأسی فی الستر فقلت : يا رسول الله و أنا معكم فقال : إنك إلی خير مرتين۔

ام سلمہ سے نقل ہوا ہے کہ انھوں نے کہا کہ: رسول خدا میرے گھر میں تھے اور انھوں نے ایک خیبری چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ فاطمہ داخل ہوئیں، رسول خدا نے فرمایا کہ اپنے شوہر اور دونوں بچوں حسن اور حسین کو بھی بلاؤ۔ بی بی فاطمہ نے ان سب کو بلایا اور سب مل کر غذا کھانے لگے کہ اچانک آيت تطہیر نازل ہوئی۔ رسول خدا نے عبا کو اپنے سر پر لیا اور سب کو عبا کے نیچے لے گئے اور پھر اپنے ہاتھ کو آسمان کی طرف بلند کر کے عرض کیا: خداوندا یہ میرے اہل بیت ہیں، خداوندا ہر طرح کی ناپاکی کو ان سے دور کر کے ان کو اچھی طرح سے پاک فرما دے۔ رسول خدا نے اس بات کو تین مرتبہ تکرار کیا۔ ام سلمہ نے رسول خدا سے کہا کہ: کیا میں بھی ان میں سے ہوں ؟ رسول خدا نے فرمایا: تم راہ خیر پر ہو، انھوں نے اس بات کو دو مرتبہ تکرار کیا۔

الدر المنثور، ج 6 ص 603، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطی الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

حسکانی نے بھی چند روایات کو اس آیت کے بارے میں نقل کیا ہے کہ ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ:

روايت جابر بن عبدالله انصاری کہ وہ کہتا ہے کہ:

نزلت هذه الآية علی النبی ص و ليس فی البيت إلا فاطمة و الحسن و الحسين و عليّ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً فقال النبی ص: اللهم هؤلاء أهلی۔

جب یہ آیت نازل ہوئی تو گھر میں فاطمہ، حسن، حسين اور علی کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ رسول خدا نے عرض كیا: خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں۔

حسكانی، حاكم، شواهد التنزيل لقواعد التفضيل، ج 2، ص 29، ح 64،

یہاں تک آیت تطہیر کے بارے میں بحث کرنے سے نتیجہ نکلتا ہے کہ علی (ع) کا رسول خدا (ص)، حضرت زہرا (س) ، امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے ساتھ حاضر ہونا، یہ بزرگترین فضیلت و عظمت ہے کہ وہ خداوند کی طرف سے ان سے ہر طرح کی ناپاکی سے پاک و صاف ہونے کا اعلان ہے کہ یہ خود علی (ع) کی بہت سے انبیاء پر برتری کی دلیل ہے، اگرچے وہ خود پیغمبر نہیں ہیں لیکن رسول خدا (ص) کے خلیفہ اور جانشین ہیں۔

ب. آيہ مباہلہ:

 

یہ آیت ان آیات میں سے ہے کہ جو علی (ع) کی رسول خدا (ص) کے علاوہ، تمام انبیاء پر برتری کو ثابت کرتی ہے:

فمن حاجك فيه من بعد ماجاءك من العلم فقل تعالوا ندع ابناءنا و ابناءكم و نساءنا و نساءكم و انفسنا و انفسكم ثم نبتهل فنجعل لعنة الله علی الكاذبين .

پس جو بھی آپ سے قرآن اور عیسی کے بارے میں بحث و مجادلہ کرنا چاہیں، پس اس کے بعد کہ اسکا علم آپ کو مل جائے، تو کہو کہ آؤ تم اور ہم اپنے بیٹوں، عورتوں اور نفسوں کو لاتے ہیں پھر خداوند کی بارگاہ میں مباہلہ کرتے ہیں اور حق کی راہ میں ایک دوسرے پر نفرین کرتے ہیں اور خدا کی لعنت ہو، اس گروہ پر کہ جو جھوٹا ہے۔

آل عمران: 61.

 شأن نزول:

بغیر کسی شک کے آیت مباہلہ پنج تن آل عبا کے حق میں نازل ہوئی ہے، کیونکہ اس مطلب کو بہت سے محدثین، مفسرین، مؤرخین اور متکلمین نے اپنی اپنی کتب میں ذکر کیا ہے اور انھوں نے اس مطلب کو قطعی اور غیر قابل انکار کہا ہے۔ اس کے علاوہ کتب تفسیر اور تاریخ میں دلائل ذکر ہوئے ہیں کہ جو ثابت کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے نصاری نجران کے ساتھ مباہلے میں عورتوں میں سے فقط حضرت فاطمہ اور بیٹوں میں سے فقط اپنے دو نواسوں، حسن و حسین کو اور نفس کی جگہ فقط علی کو اپنے ساتھ لے کر گئے۔

مسلم نے اپنی كتاب صحيح مسلم ميں لکھا ہے کہ:

و لمّا نزلت هذه الآية : (فقل تعالوا ندع أبنائنا و أبنائكم) دعا رسول اللّه ص عليّاً و فاطمة و حسناً و حسيناً فقال : اللهمّ هؤلاء أهل.

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول خدا نے علی، فاطمہ، حسن اور حسين کو آواز دی اور پھر دعا کی کہ خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں۔

صحيح مسلم:ج 7ص120 ح 6373، ج5ص23 ح32، كتاب فضائل الصحابة، باب فضائل علی رضی اللّه عنه،

مسند أحمد:ج 1ص185،

صحيح الترمذي:ج 5ص596،

المستدرک علی الصحيحين:ج 3ص150،

فتح الباری:ج 7ص60،

تفسير الطبری:ج 3ص212،

الدر المنثور:ج 2ص38،

 الكامل فی التاريخ:ج 2ص293.

أخرج الحاكم و صححه و ابن مردويه و أبو نعيم فی الدلائل عن جابر قال » قدم علی النبی صلی الله عليه و سلم العاقب ، و السيد ، فدعاهما إلی الإِسلام فقالا : أسلمنا يا محمد قال : كذبتما إن شئتما أخبرتكما بما يمنعكما من الإِسلام . قالا : فهات . قال : حب الصليب ، و شرب الخمر ، و أكل لحم الخنزير ، قال جابر : فدعاهما إلی الملاعنة ، فوعداه إلی الغد ، فغدا رسول الله صلی الله عليه و سلم ، و أخذ بيد علی ، و فاطمة ، و الحسن ، و الحسين ، ثم أرسل إليهما فأبيا أن يجيباه ، و أقرا له ، فقال : و الذی بعثنی بالحق لو فعلا لأمطر الوادی عليهما ناراً . قال جابر : فيهم نزلت { تعالوا ندع أبناءنا و أبناءكم . . . } الآية . قال جابر : أنفسنا و أنفسكم رسول الله صلی الله عليه و سلم و علی ، و أبناءنا الحسن و الحسين ، و نساءنا فاطمة.

دو معروف مسیحی بندے عاقب اور سید رسول خدا کے پاس آئے، تو رسول خدا نے ان سے فرمایا کہ: اسلام لے آؤ اور مسلمان ہو جاؤ، انھوں نے کہا: ہم مسلمان ہیں، آپ نے فرمایا کہ: تم جھوٹ بول رہے ہو اور اگر تم چاہتے ہو تو میں ثابت کر دیتا ہوں کہ تم مسلمان نہیں ہو، انھوں نے کہا: ثابت کریں، آپ نے فرمایا: کیونکہ تم صلیب، شراب پینے اور خنزیر کے گوشت کھانے کو پسند کرتے ہو، پھر ان کو مباہلہ کرنے کی دعوت دی اور طے پایا کہ کل صبح تیار ہو کر آئیں۔ صبح کے وقت رسول خدا اس حالت میں کہ علی کے ہاتھ کو پکڑا ہوا تھا، فاطمہ اور حسن اور حسین بھی ان کے ساتھ تھے، وہ مدینہ سے باہر گئے اور سید اور عاقب کو مباہلہ کرنے کی دعوت دی لیکن انھوں نے قبول نہیں کیا اور شکست قبول کر لی۔ رسول خدا نے فرمایا کہ: اس ذات کی قسم کہ جس نے مجھے مبعوث کر کے بھیجا ہے، اگر وہ لوگ مباہلے کی دعوت کو قبول کر لیتے تو ان پر آسمان سے آگ نازل ہوتی،

جابر کہتا ہے کہ: یہ آیت رسول خدا کے اہل بیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے: تعالوا ندع أبناءنا و أبناءكم . . . } پھر کہا کہ: انفسنا سے مراد، رسول خدا اور علی ہیں اور ابنائنا سے مراد، حسن و حسین اور نسائنا سے مراد، فاطمہ ہیں۔

الدر المنثور، ج 2 ص 230، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطی الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

أخرج الحاكم و صححه عن جابر » أن وفد نجران أتوا النبی فقالوا : ما تقول فی عيسی؟ فقال : هو روح الله ، و كلمته ، و عبد الله ، و رسوله ، قالوا له : هل لك أن نلاعنك أنه ليس كذلك؟ قال : و ذاك أحب إليكم؟ قالوا : نعم . قال : فإذا شئتم . فجاء و جمع ولده الحسن و الحسين ، فقال رئيسهم : لا تلاعنوا هذا الرجل فو الله لئن لاعنتموه ليخسفن بأحد الفريقين فجاؤوا فقالوا : يا أبا القاسم إنما أراد أن يلاعنك سفهاؤنا ، و إنا نحب أن تعفينا . قال قد أعفيتكم ثم قال : إن العذاب قد أظل نجران.

نجران کے لوگوں کا ایک وفد رسول خدا کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ: آپ کا عیسی کے بارے میں کیا عقیدہ ہے ؟ رسول خدا نے فرمایا کہ: وہ روح خدا، اسکا کلمہ، خدا کا بندہ اور اسکا بھیجا ہوا رسول ہے۔ انھوں نے کہا: ہم آپ سے مباہلہ کرنا چاہتے ہیں کہ عیسی اسطرح نہیں تھا کہ جیسے آپ کہہ رہے ہیں، رسول خدا نے فرمایا کہ: تم جیسے کہتے ہو، میں حاضر ہوں، پھر اپنے دو بیٹوں حسن و حسین کو مباہلہ کرنے کے لیے تیار کیا، لیکن انھوں نے قبول نہ کیا اور ویسے ہی شکست تسلیم کر لی۔

الدر المنثور ، ج 2 ص 231، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطی الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر – بيروت،1993.

علامہ حسكانی نے مذکورہ روایات کے علاوہ کچھ اور بھی روایات کو اسی مضمون کے ساتھ نقل کیا ہے اور کیونکہ ان سب کا معنی و مفہوم مذکورہ روایات والا ہی ہے، اسلیے ہم ان کا ترجمہ ذکر نہیں کریں گے، اسلیے کہ ان کا ترجمہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے:

و أخرج أبو النعيم فی الدلائل من طريق الكلبی عن أبی صالح عن ابن عباس أن وفد نجران من النصاری قدموا علی رسول الله صلی الله عليه و سلم و هم أربعة عشر رجلا من أشرافهم منهم السيد و هو الكبير و العاقب و هو الذی يكون بعده و صاحب رأيهم فقال رسول الله صلی الله عليه و سلم لهما : أسلما قالا : أسلمنا قال : ما أسلمتما قالا : بلی قد أسلمنا قبلك قال : كذبتما يمنعكم من الإسلام ثلاث فيكما : عبادتكما الصليب و أكلكما الخنزير و زعمكما أن لله ولدا و نزل ) إن مثل عيسی عند الله كمثل آدم خلقه من تراب ( الآية) فلما قرأها عليهم قالوا : ما نعرف ما تقول و نزل ) فمن حاجك فيه من بعد ما جاءك من العلم ( يقول : من جادلك فی أمر عيسی من بعد ما جاءك من العلم من القرآن ) فقل تعالوا ( إلی قوله ) ثم نبتهل ( يقول : نجتهد فی الدعاء أن الذی جاء به محمد هو الحق و أن الذی يقولون هو الباطل فقال لهم : إن الله قد أمرنی إن لم تقبلوا هذا أن أباهلكم فقالوا : يا أبا القاسم بل نرجع فننظر فی أمرنا ثم نأتيك فخلا بعضهم ببعض و تصادقوا فيما بينهم قال السيد للعاقب : قد و الله علمتم أن الرجل نبی مرسل و لئن لاعنتموه إنه ليستأصلكم و ما لاعن قوم قط نبيا فبقی كبيرهم و لا نبت صغيرهم فإن أنتم لم تتبعوه و أبيتم إلا إلف دينكم فوادعوه و ارجعوا إلی بلادكم و قد كان رسول الله صلی الله عليه و سلم خرج و معه علی و الحسن و الحسين و فاطمة فقال رسول الله صلی الله عليه و سلم : إن أنا دعوت فأمنوا أنتم فأبوا أن يلاعنوه و صالحوه علی الجزية۔

الدر المنثور ، ج 2 ص231 - 232، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطی الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

و أخرج أبو نعيم فی الدلائل من طريق عطاء و الضحاك عن ابن عباس أن ثمانية من أساقف العرب من أهل نجران قدموا علی رسول الله صلی الله عليه و سلم منهم العاقب و السيد فأنزل الله ) فقل تعالوا ندع أبناءنا ( إلی قوله ) ثم نبتهل ( يريد ندع الله باللعنة علی الكاذب فقالوا : أخرنا ثلاثة أيام فذهبوا إلی بنی قريظة و النضير و بنی قينقاع فاستشاروهم فأشاروا عليهم أن يصالحوه و لا يلاعنوه و هو النبی الذی نجده فی التوراة فصالحوا النبی صلی الله عليه و سلم علی ألف حلة فی صفر و ألف فی رجب و دراهم.

الدر المنثور ، ج 2 ص 232، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطی الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

أخرج مسلم و الترمذی و ابن المنذر و الحاكم و البيهقی فی سننه عن سعد بن أبی وقاص قال : « لما نزلت هذه الآية { فقل تعالوا ندع أبناءنا و أبناءكم } دعا رسول الله صلی الله عليه و سلم علياً ، و فاطمة ، و حسناً ، و حسيناً ، فقال » اللهم هؤلاء أهلی .

الدر المنثور ، ج 2 ص 232، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطی الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

و أخرج ابن جرير عن غلباء بن أحمر اليشكری قال « لما نزلت هذه الآية { فقل تعالوا ندع أبناءنا و أبناءكم . . . } الآية . أرسل رسول الله صلی الله عليه و سلم إلی علی ، و فاطمة ، و ابنيهما الحسن، و الحسين ، و دعا اليهود ليلاعنهم فقال شاب من اليهود : ويحكم أليس عهدكم بالأمس إخوانكم الذين مسخوا قردة و خنازير؟ لا تلاعنوا، فانتهوا،

الدر المنثور ، ج 2 ص 233، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطی الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

علی (ع) نَفسِ رسول خدا (ص):

 

یہ آیت ان آیات میں سے ہے کہ جو علی کی رسول خدا کے علاوہ، تمام انبیاء پر برتری کو ثابت کرتی ہے، کیونکہ خداوند نے اس آیت میں علی (ع) کو رسول خدا (ص) کا نفس یعنی جان کہا ہے۔ اسکے علاوہ مؤرخین اور محدثین کی روایات اور اقوال سے استفادہ ہوتا ہے کہ آیت مباہلہ میں انفسنا سے مراد، علی (ع) ہیں۔

ابن كثير نے لکھا ہے کہ:

قال جابر: (أنفسنا و أنفسكم) رسول اللّه و علی بن أبی طالب (و أبنائنا) الحسن و الحسين (و نسائنا) فاطمة. و هكذا رواه الحاكم فی مستدركه... ثمّ قال: صحيح علی شرط مسلم و لم يخرجاه.

جابر نے کہا ہے کہ (أنفسنا و أنفسكم) سے مراد، رسول خدا اور علی ہیں، اور (أبنائنا) سے مراد حسن اور حسين ہیں اور (نسائنا) سے مراد فاطمہ ہیں۔

اس روایت کو حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ: یہ روایت مسلم کی روایت کے صحیح ہونے کی شرائط کے مطابق صحیح ہے، اگرچے اس نے اور بخاری نے اپنی اپنی کتاب میں اس روایت کو نقل نہیں کیا۔

تفسير ابن كثير:ج1ص379 ط. دار المعرفة ـ بيروت، اور ج1ص370 ط مصطفی محمد بمصر، و رواه السيوطی قائلا: و صحّحه الحاكم.

الدر المنثور:ج 2/ص39.

الشوكان فی فتح القدير:ج 1ص348.

زمخشری نے کہا ہے کہ:

و فيه دليل لا شئ أقوی منه علی فضل أصحاب الكساء عليهم السلام.

یہ آیت اصحاب کساء کی برتری پر قوی ترین اور محکم ترین دلیل ہے۔

الكشاف:ج 1ص370.

محمد ابن طلحہ شافعی نے اس آیت میں حضرت زہرا کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

یہ کہ رسول خدا نے فاطمہ کو اپنے اور علی کہ جو رسول خدا کی جان شمار ہوتے تھے، کے درمیان قرار دیا تو یہ دلیل ہے کہ وہ فاطمہ کر ہر طرف سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے اور اس سبب سے انکی شان بھی واضح ہو جاتی ہے، کیونکہ نفس و جان سے حفاظت کرنا یہ ابناء سے حفاظت کرنے سے زیادہ قوی ہوتی ہے۔

مطالب السئول:ص 7

ابن حجر ہيتمی نے کہا ہے کہ:

و أخرج الدار قطنی أن عليا قال للستة الذين جعل عمر الأمر شوری بينهم كلاما طويلا من جملته أنشدكم بالله هل فيكم أحد قال له رسول الله صلی الله عليه و سلم ( يا علی أنت قسيم الجنة و النار يوم القيامة غيری قالوا اللهم لا ) .

دار قطنی نے روایت کی ہے کہ: علی نے شورا والے دن وہاں حاضر بندوں سے احتجاج کیا اور کہا: میں آپ سب کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ کیا تم میں سے کسی کی رسول خدا سے رشتے داری مجھ سے زیادہ نزدیک تر تھی ؟ اور کیا میرے علاوہ کوئی دوسرا ہے کہ جسکو رسول خدا نے اپنا نفس قرار دیا ہو، اور اسکے بیٹوں کو اپنے بیٹے کہا ہو، اور اسکی بیوی کو اپنی بیوی سے بھی برتر و بالا تر کہا ہو ؟ سب نے مل کر کہا: نہ، خدا کی قسم۔

الصواعق المحرقة علی أهل الرفض و الضلال و الزندقة، ج 2 ص 369، اسم المؤلف: أبو العباس أحمد بن محمد بن علی ابن حجر الهيثمی الوفاة: 973هـ، دار النشر: مؤسسة الرسالة – لبنان، تحقيق: عبد الرحمن بن عبد الله التركی، كامل محمد الخراط.

فخر رازی نے کہا ہے کہ:

فخر رازی نے گویا مطلب کو قبول کیا ہے اور ہمیشہ کی عادت کے بر خلاف کہ اگر ایک مطلب شیعوں کے عقائد کے مطابق ہو، تو ہر طرح سے کوشش کر کے اس مطلب کو ردّ کر دیتا ہے، لیکن مورد بحث موضوع میں شیعوں کی نظر کے مقابلے پر اس نے کوئی قابل قبول نظر نہیں دی اور فقط اجماع کو نقل کر کے گزر جاتا ہے، اس نے لکھا ہے کہ:

المسألة الخامسة : كان فی الری رجل يقال له : محمود بن الحسن الحمصی ، و كان معلم الاثنی عشرية ، و كان يزعم أن علياً رضی الله عنه أفضل من جميع الأنبياء سوی محمد عليه السلام ، قال : و الذی يدل عليه قوله تعالی : { وَ أَنفُسَنَا و أَنفُسَكُمْ } و ليس المراد بقوله { وَ أَنفُسَنَا } نفس محمد صلی الله عليه و سلم لأن الإنسان لا يدعو نفسه بل المراد به غيره ،  و أجمعوا علی أن ذلك الغير كان علی بن أبی طالب رضی الله عنه ، فدلت الآية علی أن نفس علی هی نفس محمد ، و لا يمكن أن يكون المراد منه ، أن هذه النفس هی عين تلك النفس ، فالمراد أن هذه النفس مثل تلك النفس ، و ذلك يقتضی الاستواء فی جميع الوجوه، ترك العمل بهذا العموم فی حق النبوة ، و فی حق الفضل لقيام الدلائل علی أن محمداً عليه السلام كان نبياً و ما كان علی كذلك، و لانعقاد الإجماع علی أن محمداً عليه السلام كان أفضل من علی رضی الله عنه ، فيبقی فيما و راءه معمولاً به، ثم الإجماع دل علی أن محمداً عليه السلام كان أفضل من سائر الأنبياء عليهم السلام فيلزم أن يكون علی أفضل من سائر الأنبياء.

شہر ری میں ایک بندہ رہتا تھا کہ جسکا نام محمود بن حسن حمصی تھا اور وہ شیعہ امامیہ کا استاد تھا۔ اس کا گمان تھا کہ علی رسول خدا کے علاوہ باقی تمام انبیاء سے افضل ہیں اور اسکی دلیل آیت انفسنا تھی۔ وہ کہتا تھا کہ: انفسنا سے مراد خود رسول خدا نہیں ہو سکتے، کیونکہ انسان کبھی بھی خود کو دعوت نہیں دیتا، پس اس انفسنا سے مراد کوئی اور انسان ہے، اور تمام مفسرین اور محدثین کا اجماع ہے کہ انفسنا سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں۔ پس آیت دلالت کرتی ہے کہ نفس علی، وہی نفس محمد (ص) ہے، اور ان کا نفس عین نفس محمد نہیں ہو سکتا، پس مراد یہ ہے کہ علی کا نفس، محمد (ص) کے نفس کی طرح ہے، اور یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ دونوں ہر جہت سے آپس میں مساوی ہوں۔

لیکن مسئلہ نبوت اور رسالت اس انفسنا کی فضیلت و عموم سے خارج ہے، کیونکہ محمد (ص) پیغمبر تھے اور علی (ع) پیغمبر نہیں تھے اور اسکے علاوہ اجماع موجود ہے کہ محمد (ص) علی سے افضل ہیں۔ اسکے علاوہ باقی فضائل میں وہ دونوں آپس میں مساوی ہیں اور اجماع ہے کہ محمد (ص) تمام انبیاء سے افضل ہیں، پس علی بھی تمام انبیاء سے افضل ہوں گے۔

التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب: ج 4 ص 241، اسم المؤلف: فخر الدين محمد بن عمر التميمی الرازی الشافعی الوفاة: 604 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1421هـ - 2000م ، الطبعة : الأولی،

پھر جواب میں کہتا ہے کہ:

و الجواب : أنه كما انعقد الإجماع بين المسلمين علی أن محمداً عليه السلام أفضل من علی ، فكذلك انعقد الإجماع بينهم قبل ظهور هذا الإنسان ، علی أن النبی أفضل ممن ليس بنبی، و أجمعوا علی أن علياً رضی الله عنه ما كان نبياً ، فلزم القطع بأن ظاهر الآية كما أنه مخصوص فی حق محمد صلی الله عليه و سلم، فكذلك مخصوص فی حق سائر الأنبياء عليهم السلام .

اس استدلال کا جواب یہ ہے کہ: جسطرح کہ مسلمانوں کے درمیان اجماع موجود ہے کہ محمد (ص) علی سے افضل ہیں، اسی طرح اس شخص حمصی کے ظاہر ہونے سے پہلے، اجماع موجود ہے کہ ہر پیغمبر اس شخص سے کہ جو پیغمبر نہیں، افضل ہے، اور سب کا اجماع ہے کہ علی پیغمبر نہیں تھے، پس قطعی طور پر اس آیت کا ظاہری معنی یہ ہے کہ جس طرح محمد (ص) علی سے افضل ہیں، اسی طرح دوسرے انبیاء بھی علی سے افضل ہوں گے۔

التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب: ج 4 ص 242 ، اسم المؤلف: فخر الدين محمد بن عمر التميمی الرازی الشافعی الوفاة: 604 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1421هـ - 2000م ، الطبعة : الأولی،

فخر رازی کے کلام پر اشکال:

 

علامہ مجاہد شیخ محمد حسن مظفر نے فخر رازی کے کلام کے بارے میں کہا ہے کہ: اس آیت کی تفسیر میں فخر رازی کے کلام سے استفادہ ہوتا ہے کہ اس نے علی کی افضیلت کو دوسرے صحابہ پر قبول کیا ہے، کیونکہ اس نے شیخ محمود حمصی کے استدلال کو نقل کیا ہے کہ کیونکہ علی نفس رسول خدا ہیں، اور کیونکہ رسول خدا دوسرے انبیاء سے افضل ہیں، پس علی بھی انبیاء سے  افضل ہوں گے۔ اور اس نے شیعوں سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے علی کی دوسرے صحابہ پر برتری کے لیے، اس آیت سے استدلال کیا ہے، اور فخر رازی نے فقط پہلے مطلب یعنی علی کی دوسرے انبیاء پر برتری کو ردّ کیا ہے اور دوسرے مطلب کے بارے میں اس نے کوئی نظر نہیں دی۔

اور اسکا یہ دعوی کہ حمصی کے ظاہر ہونے سے پہلے انبیاء کے دوسروں پر افضل ہونے کے بارے میں اجماع موجود تھا، یہ دعوی صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس بات پر اجماع ہے کہ انبیاء کی صنف اور انکا پیشہ دوسروں کی صنف سے برتر و بالا تر ہے اور ہر پیغمبر اپنی امت کے افراد سے افضل ہوتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہر پیغمبر، ہر غیر پیغمبر سے افضل و برتر ہو، اگرچے وہ غیر دوسری امتوں میں سے ہی کیوں نہ ہو۔ اور دوسرے انبیاء پر علی کی برتری، غیر از رسول خدا، یہ بات شیخ محمود حمصی کے ساتھ خاص نہیں ہے کہ یہ بات فخر رازی کے اجماع کے دعوے کے ساتھ منافات رکھتی ہو، بلکہ شیعیان اس شیخ کے وجود میں آنے سے پہلے اور وجود میں آنے کے بعد، اس عقیدے پر ایمان رکھتے تھے اور اپنے اس عقیدے پر آیت مباہلہ اور دیگر آیات سے استدلال بھی کرتے آئے ہیں۔

دلائل الصدق:ج 2ص86.

علامہ سيد شرف الدين نے بھی فخر رازی کے کلام کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:

توجہ کرو کہ اس نے واضح طور پر آیت مباہلہ کی دلالت کو علی کی برتری کے بارے میں بیان کیا ہے اور لا علمی کی حالت میں، اس دلالت کے صحیح ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ اس نے شیعوں کے ماضی اور حال کے عقیدے کی حلاف ورزی نہیں کی اور اسی لیے اسکو ردّ بھی نہیں کیا، گویا اس نے شیعوں کے اعتقاد کو قبول کیا ہے اور آیت کی دلالت سے ان کے عقیدے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ اس نے فقط محمود بن حسن پر اشکال کیا ہے، حالانکہ جس اجماع کو فخر رازی نے بہانے کے طور پر ذکر کیا ہے اور اسی وجہ سے حمصی پر حملہ بھی کیا ہے، یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جسکو محمود حمصی اور اس کے ہم عقیدہ لوگوں نے بھی قبول نہیں کیا۔

الكلمۃ الغراء: 5.

ج. آيہ خير البريّہ:

 

ایک اور آیت کہ جو علی (ع) کی برتری کو تمام گذشتہ اور آئندہ انسانوں اور حتی تمام اولو العزم پیغمبروں پر غیر از رسول خدا (ص)، ثابت کرتی ہے، وہ آیت ہے کہ:

ان الذين آمنوا و عملوا الصالحات اولئك هم خير البرية۔

وہ جو ایمان والے ہیں اور نیک کام انجام دیتے ہیں، وہ بہترین مخلوقات میں سے ہیں۔

سوره البينه: 7.

شان نزول:

آیات قرآن کا شان نزول بہت سی جگہوں پر آیت کے مفہوم و مقصود کو صحیح طور پر سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ حقیقت میں آیت کا شان نزول ایک پل ہوتا ہے جو ہمیں گذشتہ زمانے سے، آج کے زمانے تک لے آتا ہے، کیونکہ ہر آیت میں کوئی نکتہ، پیغام اور حکم، یہ فقط نزول وحی کے زمانے تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ آیات کا پیغام قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔ مورد بحث آیت، ان آیات میں سے ہے کہ جو خیر البریہ کے مصداق کو واضح طور پر بیان کر رہی ہے۔

و أخرج ابن مردويه عن عائشة قالت : قلت يا رسول الله : من أكرم الخلق علی الله قال : يا عائشة أما تقرئين ( إن الذين آمنوا و عملوا الصالحات أولئك هم خير البرية (

و أخرج ابن عساكر عن جابر بن عبد الله قال كنا عند النبی صلی الله عليه و سلم فأقبل علی فقال النبی صلی الله عليه و سلم : و الذی نفسی بيده إن هذا و شيعته لهم الفائزون يوم القيامة و نزلت ( إن الذين آمنوا و عملوا الصالحات أولئك هم خير البرية )  فكان أصحاب النبی صلی الله عليه و سلم إذا أقبل علی قالوا : جاء خير البرية۔

و أخرج ابن عدی و ابن عساكر عن أبی سعيد مرفوعا : علی خير البرية۔

و أخرج ابن عدی عن ابن عباس قال : لما نزلت ( إن الذين آمنوا و عملوا الصالحات أولئك هم خير البرية ) قال رسول الله صلی الله عليه و سلم لعلی : هو أنت و شيعتك يوم القيامة راضين مرضيين۔

و أخرج ابن مردويه عن علی قال : قال لی رسول الله صلی الله عليه و سلم : ألم تسمع قول الله : ( إن الذين آمنوا و عملوا الصالحات أولئك هم خير البرية ) أنت و شيعتك و موعدی و موعدكم الحوض إذا جئت الأمم للحساب تدعون غرا محجلين۔

أخرج ابن مردويه عن عائشة قالت :  قلت يا رسول الله : من أكرم الخلق علی الله؟ قال :  يا عائشة أما تقرئين { إن الذين آمنوا و عملوا الصالحات أولئك هم خير البرية } .

و أخرج ابن عساكر عن جابر بن عبد الله قال : كنا عند النبی صلی الله عليه و سلم فأقبل عليّ فقال النبی صلی الله عليه و سلم :  و الذی نفسی بيده إن هذا و شيعته لهم الفائزون يوم القيامة ، و نزلت { إن الذين آمنوا و عملوا الصالحات أولئك هم خير البرية } فكان أصحاب النبی صلی الله عليه و سلم إذا أقبل عليّ قالوا : جاء خير البرية .

عایشہ کہتی ہے کہ: میں نے رسول خدا سے پوچھا کہ: خداوند کے نزدیک سب سے زیادہ با عزت ترین بندہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا: کیا تم نے قرآن کی اس آیت کو نہیں پڑھا کہ:

{ إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك هم خير البرية }.

ابن عساكر نے جابر ابن عبد الله سے روايت کی ہے کہ: ہم رسول خدا کے پاس بیٹھے تھے کہ علی بھی وہاں آ گئے، اس پر رسول خدا نے فرمایا کہ: اس خدا کی قسم کہ جس کے قبصہ قدرت میری جان ہے، یہ اور اسکے شیعہ قیامت والے دن کامیاب ہوں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ان الذين آمنوا . . .

اس کے بعد جب بھی رسول خدا کے اصحاب علی کو دیکھتے تھے، تو کہتے تھے کہ: خداوند کی بہترین مخلوق آ گئی ہے۔

الدر المنثور ، ج 8، ص 589، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطی الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

و أخرج ابن عدی و ابن عساكر عن أبی سعيد مرفوعاً : عليّ خير البرية .

و أخرج ابن عدی عن ابن عباس قال :  لما نزلت { إن الذين آمنوا و عملوا الصالحات أولئك هم خير البرية } قال رسول الله صلی الله عليه و سلم لعلی :  هو أنت و شيعتك يوم القيامة راضين مرضيين۔

و أخرج ابن مردويه عن عليّ قال : قال لی رسول الله صلی الله عليه و سلم : أ لم تسمع قول الله : { إن الذين آمنوا و عملوا الصالحات أولئك هم خير البرية } أنت و شيعتك و موعدی و موعدكم الحوض إذا جئت الأمم للحساب تدعون غرّاً محجلين۔

ابن عدی اور ابن عساکر نے بھی ابو سعید سے مرفوع سند  کے ساتھ نقل کیا ہے کہ: علی خداوند کی بہترین مخلوق ہیں۔

ابن عدی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ: جب آیت خیر البریہ نازل ہوئی تو رسول خدا نے علی سے فرمایا کہ: یہ تم اور تمہارے شیعہ ہیں کہ جو قیامت کے دن راضی اور خوشحال ہوں گے۔

ابن مردويہ نے علی سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ: کیا تم نے اس آیت کو نہیں سنا کہ: ان الذين آمنوا . . . کہ اس سے مراد آپ اور آپکے شیعہ ہیں کہ قیامت والے دن میرے اور تمہارے اور تمہارے شیعوں کے ملنے کی جگہ حوض کوثر کے کنارے ہو گی۔

الدر المنثور ، ج 8، ص 589، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطی الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

طبری نے اس آیت کی تفسير میں کہا ہے کہ:

قوله: ( إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ)

يقول تعالی ذكره: إن الذين آمنوا بالله و رسوله محمد، و عبدوا الله مخلصين له الدين حنفاء، و أقاموا الصلاة، و آتوا الزكاة، و أطاعوا الله فيما أمر و نهی ( أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ) يقول: من فعل ذلك من الناس فهم خير البرية. و قد: حدثنا ابن حميد، قال: ثنا عيسی بن فرقد، عن أبی الجارود، عن محمد بن عليّ ( أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ) فقال النبی صلی الله عليه و سلم: "أنْتَ يا عَلی وَ شِيعَتُكَ".

خداوند نے فرمایا ہے کہ: وہ کہ جہنوں نے خداوند اور اسکے رسول پر ایمان لایا اور خالصانہ طور پر خداوند کی عبادت کی، اور نماز پڑھی اور زکات دی اور تمام واجبات و محرمات میں خدا کی اطاعت کی ہے، وہ بہترین مخلوقات میں سے ہیں۔

ابن حميد نے عيسی ابن فرقد سے اور اس نے ابو الجارود سے اور اس نے محمد ابن علی امام باقر (ع) سے میرے لیے حديث نقل کی ہے کہ: رسول خدا نے فرمایا کہ: اے علی خیر البریہ آپ اور آپکے شیعہ ہیں۔

جامع البيان عن تأويل آی القرآن ، ج 30 ص264، اسم المؤلف: محمد بن جرير بن يزيد بن خالد الطبری أبو جعفر الوفاة: 310 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1405.

علامہ گنجی نے نقل کیا ہے کہ:

أخبرنا إبراهيم بن بركات القرشی ، أخبرنا الحافظ علی بن الحسن الشافعی ، أخبرنا أبو القاسم بن السمرقندی ، أخبرنا عاصم بن الحسن ، أخبرنا الحافظ أبو العباس ، حدثنا محمد بن أحمد القطوانی ، حدثنا إبراهيم بن الأنصاری ، حدثنا إبراهيم بن جعفر بن عبد الله بن محمد بن مسلمة عن أبی الزبير عن جابر بن عبد الله قال : كنا عند النبی صلی الله عليه و آله فأقبل علی بن أبی طالب فقال صلوات الله عليه : قد أتاكم أخی ثم التفت إلی الكعبة فضربها بيده ثم قال : و الذی نفسی بيده ان هذا و شيعته هم الفائزون يوم القيامة ثم إنه أولكم ايمانا و أوفاكم بعهد الله و أقومكم بأمر الله و أعدلكم فی الرعية و أقسمكم بالسوية و أعظمكم عند الله مزية قال : و نزلت : ( ان الذين آمنوا و عملوا الصالحات أولئك هم خير البرية ).

جابر ابن عبد الله نے کہا ہے کہ: ہم رسول خدا کے پاس بیٹھے تھے کہ علی بھی وہاں آ گئے، اس پر رسول خدا نے فرمایا کہ: میرا بھائی تمہارے پاس آیا ہے، پھر کعبہ کی طرف رخ کیا اور اس پر ہاتھ لگا کر فرمایا:  اس خدا کی قسم کہ جس کے قبصہ قدرت میری جان ہے، یہ اور اسکے شیعہ قیامت والے دن کامیاب ہوں گے، وہ تم میں سے سب سے پہلے ایمان لانے والا ہے، خداوند کے عہد کی نسبت تم میں سے باوفا تر ہے، خداوند کے امر کے لیے تم میں سے قوی تر ہے، رعیت میں سے تم سب سے عادل ترین ہے، تم میں سب سے زیادہ برابر تقسیم کرنے والا ہے، خداوند کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ با عظمت ترین انسان ہے، پھر یہ آیت نازل ہوئی:

ان الذين آمنوا ...

كفايه الطالب، طبع الغری: 118.

خیر البریہ کون ہے اور کیا ہے ؟

 

آپ نے آیت خیر البریہ کے بارے میں بہت سی روایات میں سے چند روایات کو ملاحظہ فرمایا کہ ان میں واضح طور پر خیر البریہ کا مصداق اور فرد کہ جسکا خداوند نے ارادہ کیا ہے، بیان و ذکر کیا ہے کہ اتنی روایات اہل فکر اور تحقیق کے لیے کافی ہیں۔ یہ روایات اگر ایک طرف سے دشمنان علی (ع) اور اولاد علی کو رسوا کرتی ہیں تو دوسری طرف سے علی (ع) کی رسول خدا (ص) کے علاوہ تمام انبیاء پر برتری کو بھی ثابت کرتی ہیں، کیونکہ خیر البریہ کی عبارت کا معنی تمام مخلوقات سے افضل و برتر ہونا ہے، اور یہ ایک ایسی صفت ہے کہ جو مخلوقات کی ابتدا سے لے کر انتہا سب کو شامل ہوتی ہے اور ایسا افتخار ہے کہ جو رسول خدا کی ذات مقدس کے بعد فقط علی ابن ابی طالب کو نصیب ہوا ہے۔

امیر المؤمنین علی احادیث کی روشنی میں:

 

 امیر المؤمنین علی (ع) کے ملکوتی و مبارک معنوی و مادی چہرے کی عملی، باطنی اور اخلاقی نورانی زیبائی کی رسول خدا (ص) کی احادیث کی روشنی میں منظر کشی کرنے کے لیے صدہا اور ہزارہا کتابوں کی ضرورت ہے۔ اگرچے اس بارے میں زمانہ گذشتہ و حال میں بزرگان اور علماء نے کتب تحریر کی ہیں۔ امیر المؤمنین علی (ع) کے مربّی اور معلم رسول خدا (ص) نے انکی شخصیت اور فضائل کے بیان میں جو کچھ فرمایا ہے وہ حد و حساب سے بہت زیادہ ہے۔ ان ہزاروں احادیث کا بنی امیہ و بنی عباس اور خاص طور پر معاویہ کی سختیوں کے باوجود ہم تک پہنچ جانا، یہ ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔ ان احادیث میں سے ایک حدیث کہ جسکو موافق اور مخالف ہر دو نے نقل کیا ہے۔  یہ حدیث در حقیقت آیات مذکورہ کہ جو علی (ع) کی فضیلت و برتری کو رسول خدا (ص) کے علاوہ تمام انبیاء پر ثابت کرتیں تھیں کہ معنی کو مزید واضح اور مکمل کرتی ہے۔ وہ حدیث یہ ہے کہ:

من أراد أن يری آدم فی علمه ، و نوحا فی طاعته ، و إبراهيم فی خلته ، و موسی فی هيبته ، و عيسی فی صفوته ، فلينظر إلی علی بن أبی طالب رضی الله عنہ۔

قوله صلی الله عليه و آله و سلم : من أراد أن ينظر إلی نوح فی عزمه ، و الی آدم فی علمه ، و الی إبراهيم فی حلمه، و الی موسی فی فطنته ، و الی عيسی فی زهده ، فلينظر إلی علی بن أبی طالب  . أخرجه البيهقی فی صحيحه ، و الإمام أحمد بن حنبل فی مسنده.

رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ: جو بھی حضرت آدم کے علم کو، حضرت نوح کی اطاعت کو، حضرت ابراہیم کی محبوبیت کو، حضرت موسی کی ہیبت کو اور حضرت عیسی کی برگزیدگی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کی شخصیت کو دیکھے۔

اس حدیث کو جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے کہ اہل سنت کے دو بزرگ علماء اور محدثین یعنی احمد ابن حنبل اور بیہقی نے نقل کیا ہے، لیکن بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ خیانت کاروں کے خائن ہاتھوں کی خیانت کی وجہ سے اب یہی حدیث انہی دو کتابوں میں موجود نہیں ہے اور یہ تحریف اور خیانت فقط اس حدیث کے ساتھ نہیں کی گئی بلکہ اہل بیت کے فضائل کے بارے میں ہزاروں روایات کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا ہے اور اس بارے میں روائی اور تاریخی کتب میں ہزاروں شواہد اور دلائل موجود ہیں۔

ابن ابی الحدید معتزلی نے امیر المؤمنین کے فضائل کا اعتراف کیا اور بغیر کسی اشکال اور شبہے کے اس حدیث کو ان دو اہل سنت کے علماء کی طرف نسبت دیتے ہوئے نقل کیا ہے۔

الخبر الرابع : من أراد أن ينظر إلی نوح فی عزمه ، و إلی آدم فی علمه ، و إلی إبراهيم فی حلمه ، و إلی موسی فی فطنته ، و إلی عيسی فی زهده ، فلينظر إلی علی بن أبی طالب .

رواه أحمد بن حنبل فی المسند، و رواه أحمد البيهقی فی صحيحه .

اس عبارت کا ترجمہ پہلے کیا جا چکا ہے۔

شرح نهج البلاغة ، اسم المؤلف: أبو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد بن أبی الحديد المدائنی الوفاة: 655 هـ ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت، لبنان - 1418هـ - 1998م، الطبعة : الأولی ، ج 9 ص 100، تحقيق : محمد عبد الكريم النمری.

فخر رازی نے آگے چل کر محمود حمصی کی داستان میں کہ ہم نے آیت مباہلہ میں اس کے استدلال کو نقل کیا تھا، کہتا ہے کہ:

و يؤيد الاستدلال بهذه الآية، الحديث المقبول عند الموافق و المخالف، و هو قوله عليه السلام : ( من أراد أن يری آدم فی علمه، و نوحا فی طاعته ، و إبراهيم فی خلته ، و موسی فی هيبته، و عيسی فی صفوته، فلينظر إلی علی بن أبی طالب رضی الله عنه ) فالحديث دل علی أنه اجتمع فيه ما كان متفرقاً فيهم، و ذلك يدل علی أن علياً رضی الله عنه أفضل من جميع الأنبياء سوی محمد صلی الله عليه و سلم...

اس آیت پر کیے گئے استدلال کی تائید میں، ایک حدیث ہے کہ جسکو خاصہ و عامہ ہر دو نے قبول کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ: جو بھی حضرت آدم کے علم کو، حضرت نوح کی اطاعت کو، حضرت ابراہیم کی محبوبیت کو، حضرت موسی کی ہیبت کو اور حضرت عیسی کی برگزیدگی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کی شخصیت کو دیکھے۔

کیونکہ اس حدیث کا یہ معنی ہے کہ وہ تمام صفات کہ جو تمام انبیاء میں منتشر طور پر پائی جاتی ہیں، وہ ایک جگہ مرتب اور منظم طور پر علی کی مقدس ذات میں پائی جاتی ہیں، اور اسی دلیل کی بنا پر علی، رسول خدا کے علاوہ باقی تمام انبیاء سے افضل و بالا تر ہیں۔

التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب ، ج 8 ص 72. اسم المؤلف: فخر الدين محمد بن عمر التميمی الرازی الشافعی الوفاة: 604 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1421هـ - 2000م ، الطبعة : الأولی،

ابو حيان آندلسی صاحب تفسير البحر المحيط نے علی سے عداوت اور بغض کی وجہ سے اس حدیث کا اصل سے ہی انکار کر دیا ہے اور اس حدیث کو جعلی قرار دیا ہے۔ البتہ اس طرح کے افراد کی نظر و رائے واضح ہے کیونکہ موضوع رسول خدا کی مبارک زبان سے علی جیسی مقدس ذات کے فضائل کا بیان ہونا ہے اور اس طرح کے ناصی افراد کی طرف سے اس طرح کی احادیث کا انکار ہونا، یہ ایک عادی و معمولی بات ہے کہ جو 14 سو سال سے ہوتی آ رہی ہے۔ وہ کہتا ہے یہ:

و أما الحديث الذی استدل به فموضوع لا أصل له . و هذه النزغة التی ذهب إليها هذا الحمصی من كون علی أفضل من الأنبياء عليهم السلام سوی محمد صلی الله عليه و سلم ) ، و تلقفها بعض من ينتحل كلام الصوفية ، و وسع المجال فيها ، فزعم أن الولی أفضل من النبی...هذه المقالة مخالفة لمقالات أهل الإسلام، نعوذ بالله من ذلك...

علی کی تمام انبیاء پر برتری والی جعلی اور جھوٹی ہے کہ جسکو صوفیانہ عقائد رکھنے والوں نے اپنی طرف سے گھڑا ہے...... ایک ولی کا خود نبی پر برتر و بالا تر ہو جانا، یہ بات اسلامی عقائد کے خلاف ہے۔ ہم ایسے عقائد سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔

تفسير البحر المحيط: ج 2 ص 504 ، اسم المؤلف: محمد بن يوسف الشهير بأبی حيان الأندلسی الوفاة: 745هـ ، دار النشر : دار الكتب العلمية – لبنان، بيروت - 1422هـ -2001م، الطبعة: الأولی، تحقيق: الشيخ عادل أحمد عبد الموجود - الشيخ علی محمد معوض، شارک فی التحقيق 1) د.زكريا عبد المجيد النوقی 2) د.أحمد النجولی الجمل،

کتاب شرح احقاق الحق کے شارح اور مصنف، مرحوم مرعشی نجفی نے اسی حدیث کے بارے میں دقیق اور عمیق اور مفصل تحقیق کرتے ہوئے، اس حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ اہل سنت کی کتب سے ذکر کیا ہے۔ ہم ان میں سے فقط دو احادیث کو ذکر شدہ منابع کے ساتھ ذکر کرتے ہیں:

الحديث الرابع و العشرون ( من أراد أن ينظر إلی آدم ، إلی نوح ، إلی إبراهيم ، إلی موسی ، إلی عيسی ، فلينظر إلی علی بن أبی طالب عليه السلام ) رواه جماعة من أعلام العامة فی كتبهم : منهم العلامة المولوی ولی الله اللكنهوئی فی ( مرآة المؤمنين فی مناقب أهل بيت سيد المرسلين ) ( ص 35 ) قال : ( فی حديث ) قال صلی الله عليه و سلم : من أراد أن ينظر إلی آدم فی علمه و إلي نوح فی تقواه و إلی إبراهيم فی حلمه و إلی موسی فی هيبته و إلی عيسی فی عبادته فلينظر إلی علی بن أبی طالب .

رسول خدا نے فرمایا ہے کہ: جو بھی حضرت آدم کے علم کو، حضرت نوح کی اطاعت کو، حضرت ابراہیم کی محبوبیت کو، حضرت موسی کی ہیبت کو اور حضرت عیسی کی برگزیدگی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کی شخصیت کو دیکھے۔

پھر مرحوم مرعشی اہل سنت کے بزرگان کے متعدد و فراوان منابع کو اس حدیث کے بارے میں مختلف الفاظ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں کہ ذیل میں انکی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:

علامة شهاب الدين أحمد حسينی شافعی شيرازی فی توضيح الدلائل ص 232 نسخة مكتبة الملی بفارس،

و علامة أبو حفص عمر بن محمد بن خضر ملا موصلی فی الوسيلة ص 168 ط حيدر آباد الدكن،

 علامة شريف سيد حسين علی شاه بن سيد روشن علی شاه حسينی نقوی بخاری حنفی هندی، متوفی سنة 1322 فی تحقيق الحقايق ، گلزار مرتضوی ، محبوب القلوب ص 9 ط لاهور،

 علامة سيد أحمد بن محمد بن أحمد حسينی شافعی در التبر المذاب ص 33 نسخة مكتبتنا العامة بقم.

علامة جمال الدين محمد بن مكرم أنصاری جزرجی فی مختصر تاريخ دمشق ج 17 ص 148 نسخة طوب قبوسرای بإسلامبول،

علامة يحيی بن موفق بالله شجری متوفی سنة 499 فی الأمالی ج 1 ص 133،

علامة شيخ حسام الدين مردی حنفی فی آل محمد ص 424 نسخة مكتبة السيد الأشكوری

علامة شريف أبو المعالی مرتضی محمد بن علی حسينی بغدادی فی عيون الأخبار فی مناقب الأخيار ص 26 نسخة مكتبة الفاتيكان،

شرح احقاق الحق للمرعشی:ج 22ص 296 و 300،

علامہ امينی کہ جو ارزش مند کتاب الغدیر کے مصنف ہیں، نے بھی اس مبارک حدیث کو اہل سنت کے مختلف منابع، جیسے مسند احمد، فضائل الصحابہ بيہقی اور مناقب خوارزمی وغیرہ سے نقل کیا ہے اور علی کی برتری کو صحیح ثابت کیا ہے اور تائید کی مہر بھی ثبت کی ہے۔

أخرج إمام الحنابلة أحمد عن عبد الرزاق بإسناده المذكور بلفظ: من أراد أن ينظر إلی آدم فی علمه ، و إلی نوح فی فهمه ، و إلی إبراهيم في خلقه ، و إلی موسی فی مناجاته ، و إلی عيسی فی سنته ، و إلی محمد فی تمامه و كماله ، فلينظر إلی هذا الرجل المقبل . فتطاول الناس فإذا هم بعلی بن أبی طالب كأنما ينقلع من صبب ، و ينحط من جبل.

اور اہل سنت کے بعض مشہور علماء نے اپنی کتب میں انہی الفاظ کے مشابہے اور کبھی دوسرے الفاظ کے ساتھ اسی حدیث کو نقل کیا ہے کہ ان میں سے بعض یہ علماء ہیں:

أبو بكر أحمد بن حسين بيهقی متوفی 458 در  فضائل الصحابہ.

حافظ أحمد بن محمد عاصمی در كتاب زين الفتی فی شرح سورة هل أتی۔

خوارزمی مالكی متوفی 568 در المناقب ص 49 و 83ح 70 و ص 39 و88 ح 79۔

أبو سالم كمال الدين محمد بن طلحة شافعی متوفی 652 در مطالب السئول نقل از كتاب  فضائل الصحابہ بيهقی۔

عز الدين ابن أبی الحديد متوفی 655 در شرح نهج البلاغة ج 2 ص 236 اور ج 2 ص 449 نقل از أحمد و بيهقی۔

حافظ أبو عبد الله گنجی شافعی متوفی 658 ، در كفاية الطالب ص 45 .

حافظ أبو عباس محب الدين طبری متوفی 694 در الرياض النضرة 2 ص 218 .

شيخ الاسلام حموئی متوفی 722 ، در فرايد السمطين۔

قاضی عضد أيجی شافعی متوفی 756 ، در المواقف ج 3 ص 276۔

تفتازانی شافعی متوفی 792 در شرح المقاصد 2 ص 299.

ابن صباغ مالكی متوفی 855 در الفصول المهمة ص 21 نقل از فضائل الصحابة بيهقی۔

سد محمود آلوسی متوفی 1270 در شرح عينية عبد الباقی عمری ص 27.

صفوری در نزهة المجالس 2 ص 240۔

سيد أحمد قادين خانی در هداية المرتاب ص 146 .

العلامه الامينی، الغدير: ج 30، ص 355- 360.

آخر میں ہم اسی موضوع کے بارے میں دو احادیث کو شیعہ اور سنی کتاب سے نقل کر کے اس بحث کے نتیجے کو ذکر کرتے ہیں:

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:

 يا رسول اللّه أ انت أفضل أو جبرئيل (ع) ؟

اے رسول خدا (ص) آپ افضل ہیں یا جبرئیل (ع) ؟

رسول خدا (ص) نے فرمایا:

يا عليّ انّ اللّه تعالى فضّل أنبيائہ المرسلين على ملائكته المقرّبين و فضّلنی على جميع النبيّين و المرسلين و الفضل بعدی لك يا عليّ و للأئمّة من ولدك و انّ الملائكة لخدّامنا و خدّام محبّينا۔

یا علی! بیشک اللہ تعالی نے اپنے مرسل نبیوں کو اپنے مقرب ملائکہ پر فضیلت دی ہے اور مجھے سب نبیوں اور رسولوں پر فضیلت دی ہے اور فضیلت میرے بعد آپ کے لئے ہے یا علی، اور آپ کی اولاد سے ائمہ کے لئے اور یقینا ملائکہ ضرور ہمارے خادم ہیں اور ہمارے محبوں کے خادم ہیں۔

سفینة البحار، شیخ عباس قمی، ج7، ص92۔

حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ:

حدثنا أبو الحسن محمد بن المظفر الحافظ قال حدثنا عبد الله بن محمد بن غزوان قال ثنا علي بن جابر قال ثنا محمد بن خالد بن عبد الله قال ثنا محمد بن فضيل قال ثنا محمد بن سوقة عن إبراهيم عن الأسود عن عبد الله قال قال النبی صلى الله عليه و سلم يا عبد الله أتانی ملك فقال يا محمد وسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا على ما بعثوا قال قلت على ما بعثوا قال على ولايتك و ولاية علی بن أبی طالب قال  الحاكم تفرد به علی بن جابر عن محمد بن خالد عن محمد بن فضی و لم نكتبه الا عن بن مظفر و هو عندنا حافظ ثقة مأمون۔

عبد اللہ نے رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ: انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ اے عبد اللہ، ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا کہ: اے محمد (ص) آپ سے پہلے جو انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، ان سے سوال کریں کہ وہ سب کس چیز پر مبعوث کیے گئے تھے ؟ رسول خدا نے کہا کہ میں نے فرشتے سے پوچھا کہ کس چیز پر مبعوث کیے گئے تھے ؟ فرشتے نے کہا کہ: اے رسول خدا آپ اور علی ابن ابی طالب کی ولایت پر تمام انبیاء مبعوث کیے گئے تھے۔

أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحاكم النيسابوری، معرفة علوم الحديث  ج 1   ص 95 الوفاة: 405 ، دار النشر : دار الكتب العلمية، بيروت - 1397هـ - 1977م ، الطبعة : الثانية ، تحقيق : السيد معظم حسين

نتيجہ اور خلاصہ:

 

خداوند کا قرآن کریم میں رسول خدا (ص) کے اہل بیت (ع) کی عصمت و طہارت کی گواہی دینا اور علی ابن ابی طالب (ع) کو رسول خدا (ص) کا نفس قرار دینا کہ ان کے لیے مقامات معنوی میں سے سب سے بالا ترین مقام ہے اور مشہور و معروف حدیث اشباہ کہ جس میں تمام انبیاء جیسے آدم، نوح، موسی، عیسی اور ابراہیم..... کی صفات کو علی (ع) کے لیے بیان اور ثابت کرنا، یہ واضح ترین اور عالی ترین گواہی ہے اس مطلب پر کہ وہ امیر المؤمنین علی (ع) کہ جنکی جنگ خندق کے دن ایک ضربت ثقلین کی عبادت سے افضل ہے، جن کی ایک ضربت کا یہ مقام ہو تو انکا مقام رسول خدا (ص) کے علاوہ باقی تمام انبیاء سے قطعی اور یقینی طور پر افضل و بالا تر ہو گا۔

التماس دعا





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی