2024 March 19
حضرت امام حسن عسكری (ع) کے حالات زندگی
مندرجات: ٤٤٣ تاریخ اشاعت: ٠٧ December ٢٠١٦ - ١٥:٥٣ مشاہدات: 4615
یاداشتیں » پبلک
حضرت امام حسن عسكری (ع) کے حالات زندگی

امام حسن عسكری (ع) سال 232ہجری مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپکی والدہ محترمہ سوسن یا سلیل تھیں کہ جو ایک صاحب فضیلت عورت تھیں اور جہنوں نے بہت احتیاط اور توجہ سے اپنے بیٹے کی پرورش کی تھی، تا کہ حجت خدا کی اچھے طریقے سے خدمت ہو سکے۔

یہ پرہیزگار اور نیک سیرت خاتون سامرا کے سفر میں امام عسکری (ع) کے ساتھ تھیں۔ امام عسکری (ع) سامرا میں شہید ہوئے اور انکی کنیت ابو محمد تھی۔

امام حسن عسكری (ع) کی صورت اور سیرت:

امام عسکری (ع) کا مبارک چہرہ گندم گوں اور بدن مبارک متوسط تھا۔ آپ کے ابرو کالے اور کمان کی طرح تھے، آنکھیں بڑی اور پیشانی چوڑی تھی، دانت مبارک موٹے اور بہت سفید اور دائیں رخسار پر کالا تل تھا۔

امام حسن عسكری (ع) کا بیان اور کلام شیرین اور بہت جذاب تھا۔ آپکی شخصیت خدائی اور با رعب تھی۔ آپ قرآن کے بہت اچھے مفسر تھے کہ جہنوں نے اہل بیت کے صحیح راستے اور قرآن کی  تفسیر کا صحیح طریقہ عام لوگوں اور خاص طور پر اپنے شاگردوں اور اصحاب کے لیے اپنی کم عمر زندگی میں بیان کیا۔

مدت امامت :

كلی طور پر امام حسن عسكری (ع) کی 29 سالہ زندگی تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے:

پہلا حصہ: 13 سال پر مشتمل ہے کہ جو مدینہ میں گزرا۔

دوسرا حصہ: 10 سال پر مشتمل ہے کہ جو امامت سے پہلے سامرا میں گزرا۔

تیسرا حصہ: 6 سال پر مشتمل ہے کہ جو آپکی مدت امامت بھی ہے۔

امام عسکری (ع) کا دور امامت بنی عباس کی ظاہری حکومت کے ساتھ گزرا۔ وہ ایسے خلفاء تھے کہ جو ہارون کی طرح اپنے آپ اور اپنی حکومت کو محکم کرنے میں ہی لگے رہتے تھے۔

امام حسن عسكری (ع) نے سامرا میں اپنے 6 سالہ دور میں سے تین سال زندان میں گزارے۔ زندان میں آپکی نگرانی کرنے والے بندے نے اپنے دو ظالم غلاموں کو آپ پر پابند کیا ہوا تھا، تا کہ یہ غلام امام کو زیادہ سے زیادہ اذیت و آزار پہنچا سکیں، لیکن وہ دونوں غلام نزدیک سے امام کی شخصیت کو مشاہدہ کرنے کی وجہ سے امام بزرگوار کے دلدادہ ہو گئے تھے۔

جب ان دو غلاموں سے امام کی حالت کے بارے میں سوال کیا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ یہ شخص دن کو روزہ رکھتا ہے اور ساری رات خدا کی عبادت اور خدا سے راز و نیاز کرتا رہتا ہے اور کسی سے بھی کوئی بات نہیں کرتا۔

عبید الله خاقان وزیر معتمد عباسی اپنے تمام غرور کے باوجود جب بھی امام عسکری (ع) سے ملاقات کرتا تھا تو اپنی مسند سے کھڑا ہو جاتا تھا اور اپنی جگہ پر امام کو بٹھاتا تھا، اور وہ ہمیشہ امام سے کہتا تھا کہ میں نے سامرا میں کسی کو آپکی طرح نہیں دیکھا اور آپ اس زمانے میں سب سے زاہد ترین اور دانا ترین انسان ہیں۔

 عبید الله خاقان کا بیٹا کہتا تھا کہ: میں ہمیشہ لوگوں سے امام عسکری کے حال کو پوچھتا رہتا تھا، سب لوگ امام سے محبت کرتے تھے اور انکی نسبت بہت تواضع کیا کرتے تھے اور سب ہی امام کی بزرگواری کا ذکر کیا کرتے تھے۔ 

حالانکہ امام عسکری کی آمد و رفت فقط اپنے خاص شیعوں کے ساتھ تھی، لیکن اس کے باوجود بھی بنی عباس کے حکماء اپنی خلافت کی حفاظت کی خاطر امام کو زیادہ تر زندان اور عام لوگوں سے دور ہی رکھتے تھے۔

امام عسکری (ع) کے دور میں سب سے مہم مسئلہ یہ تھا کہ بنی عباس کی حکومت کی طرف سے شیعہ کے اموال اور امور حکومت ان لوگوں کے ہاتھوں میں تھے کہ جو آل محمد اور شیعوں کے سخت دشمن تھے۔ اسی وجہ سے امام عسکری کے دور میں شیعوں کی مالی بنیاد زیادہ مضبوط نہ ہو سکی۔

جس طرح کہ تاریخ میں ہے کہ احمد بن عبید الله بن خاقان بنی عباس کے خلفاء کی طرف سے شہر قم میں صدقات پر والی تھا اور وہ اھل بیت سے بہت ہی زیادہ عداوت رکھتا تھا۔

 اسکے علاوہ امام حسن عسکری (ع) کے اصحاب متفرق اور پراکندہ تھے کہ ان سب کو ایک جگہ پر جمع اور اکٹھا کرنا ممکن نہیں تھا۔ جیسے ابو علی احمد بن اسحاق اشعری قم میں اور ابو سہل اسماعیل نو بختی بغداد میں رہتے تھے۔  حکومت بنی عباس نے امام رضا کی شہادت کے  بعد  نگرانی اور سختی اس قدر زیادہ ہو گئی تھی کہ حکومت کے مخالفین کو بہت ہی زیادہ مشکلات کا سامنا تھا، لیکن یہ لوگ بھی خداوند ، حق اور عدالت پر ایمان کی وجہ سے ہر سختی کا ڈٹ کر سامنا کیا کرتے تھے۔

امام مہدی کی غیبت کے وقت کے نزدیک ہونے کی وجہ سے امام ہادی (ع) اور امام عسکری (ع) پر حکومت کی طرف سے بہت ہی سخت نگرانی اور پہرہ تھا، حتی لوگوں سے ملاقات کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اس صورتحال میں آئمہ کے خاص اصحاب آئمہ کی طرف سے لوگوں کی مادی اور دینی مشکلات حل کیا کرتے تھے۔ اس دور سے ہی آرام آرام سے لوگوں اور شیعوں کو عادت ہو گئی تھی کہ آئمہ سے دور رہ کر آئمہ کے خاص اصحاب سے اپنی مشکلات حل کرانے کی، کیونکہ اس طرح جب امام مکمل طور پر غائب ہو جائيں گے تو لوگوں کو زیادہ عجیب نہیں لگے گا۔

امام حسن عسكری (ع) کی عمر 29 سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن پھر بھی اپنی 6 سالہ امامت کے دوران تفسیر قرآن اور شرعی اور فقہی احکام کی مہم کتب یاد گار کے طور پر چھوڑی ہیں۔

امام عسکری (ع) کے زمانے میں قرآنی تعلیمات، احکام الہی اور کلامی مناظرات نے ایک عظیم علمی انقلاب کو وجود میں لایا۔ جسکی وجہ سے شیعہ فرہنگ اور ثقافت دوسرے علوم میں بھی ظاہر ہونے لگی، جیسے فلسفہ اور کلام کہ ان علوم کی وجہ سے بزرگ علماء جیسے یعقوب ابن اسحاق پہچانے جانے لگے۔

امام عسکری (ع) کی علمی شخصیت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہی یعقوب ابن اسحاق کندی کہ جو عرب کا بہت بڑا فلسفی تھا اور ابو نصر فارابی ایرانی، اس کا شاگرد تھا، یہ امام عسکری سے مناظرے میں ہار گیا تھا اور جو اس نے قرآن کی ردّ میں ایک کتاب لکھی تھی، اسکو جلا دیا اور امام کے دوستوں اور چاہنے والوں میں سے ہو گیا تھا۔

شہادت امام حسن عسكری (ع):

امام کی شہادت کو 8 ربیع الاول، جمعے کے دن، 260 ہج میں لکھا گیا ہے۔

امام عسکری (ع) کی وفات کی کیفیت کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ:

عبید اللہ ابن خاقان کا بیٹا کہتا ہے کہ: ایک دن میرے والد کو ایک خبر دی گئی کہ ابن الرضا یعنی امام عسکری مریض ہو گئے ہیں۔ میرے والد جلدی سے خلیفہ کے پاس گئے اور اس کو بھی اس بارے میں بتایا۔ خلیفہ نے اپنے قابل اعتماد پانچ بندوں کو اس کے ساتھ بھیجا۔

ان میں سے ایک نحریر خادم تھا کہ جو خلیفہ کا خاص بندہ تھا، ان سب کو خلیفہ نے کہا کہ ہمیشہ امام عسکری کے گھر کی نگرانی کرنی ہے اور امام کے سارے حالات پر کڑی نظر رکھنی ہے، اور ایک طبیب کو مقرر کیا کہ تم نے دن رات امام کے پاس آنا جانا ہے اور امام کی حالت سے با خبر رہنا ہے۔

پھر دو دن کے بعد میرے والد لیے خبر لائے کہ امام کا مرض بڑھ گیا ہے اور وہ بہت ہی کمزور ہو گئے ہیں۔ وہ امام عسکری کے پاس گیا اور تمام طبیبوں کو کہ جو زیادہ تر یہودی اور مسیحی تھے، انکو حکم دیا کہ بالکل امام سے دور نہ ہوں، پھر سب سے بڑے قاضی سے کہا کہ دس مشہور علماء کو لے کر امام کے پاس جاؤ کہ جو ہمیشہ امام کے پاس رئیں۔

اور وہ لوگ یہ سارے کام اس لیے کر رہے تھے کہ وہ چاہتے تھے کہ جو زہر امام کو دیا گیا ہے، لوگوں کو اس کے بارے میں پتا نہ چلے اور وہ یہی خیال کریں کہ امام عادی اور طبیعی موت سے دنیا سے گئے ہیں۔ اور وہ اسی بہانے سے امام کے بیٹے کی تلاش میں بھی رہنا چاہتے تھے کہ شاید کسی نہ کسی طریقے سے  وہ امام کے گھر میں نظر آ ہی جائے۔ وہ سب پابندی کے ساتھ امام عسکری کے گھر موجود تھے کہ جب ماہ ربیع الاول سے چند دن گزر گئے تو امام مظلوم 260 ہج کو 29 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔

امام کے مرنے کے بعد خلیفہ عباسی نے امام عسکری (ع) کے بیٹے کی دوبارہ تلاش شروع کر دی کیونکہ اس نے سن رکھا تھا کہ امام عسکری کا بیٹا ساری دنیا پر غالب آ جائے گا اور تمام باطل حکومتیں نابود ہو جائیں گی۔ حکومت کے بندے پورے دو سال امام مہدی کی تلاش میں لگے رہے لیکن اللہ کے ارادے کے مطابق بالکل امام کو تلاش نہ کر سکے۔

اس ڈر اور خوف کی وجہ وہ صحیح روایات تھیں کہ جو رسول خدا سے امام عسکری کے بارے میں انھوں نے بار بار سنیں تھیں کہ نرجس خاتون اور امام عسکری سے ایک بچہ مہدی نام کا دنیا میں آئے گا کہ جو رسول خدا کا ہم نام ہو گا اور وہ تمام ظالموں اور ستم گروں کی حکومتوں کا خاتمہ کر دے گا۔ 

اسی وجہ سے بار بار امام عسکری کے گھر مختلف بہانوں سے بہت زیادہ آیا جایا کرتے تھے، تا کہ آخر کار اس کو ڈھونڈ کر قتل کر دیں۔

یہ وہی نمرود اور فرعون کی داستان اور تاریخ تکرار ہو رہی تھی کہ جو حضرت ابراہیم اور حضرت موسی کے دنیا میں آنے اور ظاہر ہونے کی راہ میں رکاوٹ بننا چاہتے تھے، حتی اس کام کے لیے انھوں نے دودھ پلانے والی عورتوں کو بھی لگایا ہوا تھا کہ وہ اس بہانے سے خداوند کے نبی کا پتا چلانے کے بارے میں انکی مدد کریں، لیکن خداوند کا ارادہ اپنی حجت کو محفوظ کرنا تھا تا کہ وہ خداوند کی طرف سے اپنے ذمے لی ہوئی رسالت کو بخوبی انجام دے سکیں۔

امام عسکری (ع) کی شہادت کی علت اور سبب وہ زہر تھا کہ جو معتمد عباسی نے کھانے میں امام کو دیا تھا اور بعد میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اس کام سے پشمان ہو گیا تھا۔ البتہ اس ظاہری پشمانی سے اس کا ہدف لوگوں کو حقیقت سے غافل رکھنا اور امام کے بیٹے کو تلاش کرنا تھا۔

شیعہ جب امام عسکری (ع) کی شہادت کی خبر سے آگاہ ہوئے تو انھوں نے شہر سامرا کو غم و حزن سے پر کر دیا، ہر طرف سے گرئیے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ اس کے بعد لوگوں نے امام عسکری کی نماز جنازہ کی تیاری شروع کر دی۔

امام عسکری (ع) کے جانشین بر حق کا ماجرا:

ابو الادیان کہتا ہے کہ: میں امام عسکری کی خدمت کیا کرتا تھا۔ میں امام کے خطوط کو دوسرے شہروں میں لے کر جاتا تھا۔ ایک دن امام نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ ان چند خطوط کو شہر مدائن لے جاؤ۔ پھر امام نے فرمایا کہ تم ٹھیک پندرہ دن بعد شہر سامرا میں واپس آؤ گے تو تم کو میرے گھر اور ہر طرف سے رونے کی آوازیں سنائی دیں گی اور اس وقت مجھے غسل دیا جا رہا ہو گا۔

ابو الادیان نے امام سے عرض کیا کہ: اے میرے مولا، جب یہ غمناک واقعہ رونما ہو گا تو آپ کا جانشین کون ہو گا ؟

امام نے فرمایا: جو بھی تم سے میرے خطوط کا جواب مانگے گا۔

ابو الادیان کہتا ہے کہ: میں نے دوبارہ امام سے کہا کہ اپنے جانشین کی کوئی اور علامت بتائیں۔

امام نے فرمایا: وہ جو میری نماز جنازہ پڑھے گا۔

ابو الادیان نے کہا کہ مولا کوئی اور علامت بتائیں۔

امام نے فرمایا کہ جو بھی تم سے  کہے کہ اس تھیلے میں کیا کیا ہے۔ سمجھ لینا کہ وہی تمارے زمانے کا امام ہے۔

ابو الادیان کہتا ہے کہ امام کی بیماری کی حالت دیکھ کر میں نے اس سے زیادہ امام کے پاس بیٹھنا مناسب نہ سمجھا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔

میں امام کے خطوط کو مدائن لے گیا، جب پندرہ دنوں کے بعد واپس سامرا آیا تو، مجھے امام عسکری کے گھر سے رونے کی آواز آ رہی تھی۔ میں امام کے گھر کے اندر گیا۔ میں نے دیکھا کہ گھر میں امام عسکری کا بھائی جعفر کذاب بیٹھا ہوا تھا اور شیعہ اس کو بھائی کی وفات پر تعزیت دے رہے ہیں اور ساتھ ہی اسکو امام کا جانشین بننے کی مبارک باد بھی دے رہے ہیں۔ میں نے بہت تعجب کیا اور آگے بڑھ کر اسکو تعزیت اور مبارکباد دی، لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا اور مجھ سے کسی قسم کا کوئی سوال نہیں کیا۔

جب امام کے مبارک بدن کو کفن دے دیا گیا تو سارے نماز کے لیے تیار ہونے لگے تو اتنے میں ایک خادم آیا اور جعفر کذاب سے کہا کہ آئيں اور اپنے بھائی پر نماز پڑھیں۔ جب جعفر نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہوا اور وہ ابھی تکبیر کہنا ہی چاہتا تھا کہ اتنے میں ایک چھوٹا، گندمگوں، پیارے بالوں اور پیارے دانتوں والا، چاند کی صورت سا بچہ آیا اور جعفر کی عبا کو پکڑ کر کہا اے چچا پیچھے ہٹ جائیں، میں آپکی نسبت زیادہ حقدار ہوں کہ ان پر نماز پڑھوں۔

یہ سن اور دیکھ کر جعفر کا رنگ اڑ گیا اور وہ پیچھے ہٹ گیا اور اس بچے نے امام عسکری (ع) پر نماز پڑھی اور امام کو امام نقی (ع) کے پہلو میں دفن کر دیا۔ پھر میری طرف رخ کر کے کہا جن خطوط کے جواب تمہارے پاس ہیں،وہ مجھے دو۔ میں نے کچھ کہے بغیر ان خطوط کو اس بچے کو دے دیا۔ پھر حاجزوشا نے جعفر سے پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے ؟ جعفر نے کہا خدا کی قسم میں اسکو نہیں جانتا اور میں نے ہرگز اسکو نہیں دیکھا۔

اس موقعے پر کچھ شیعہ شہر قم سے امام عسکری (ع) کی وفات کی خبر سن کر سامرا آئے تھے۔ لوگوں نے ان کو جعفر کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔ ان شیعوں میں سے کچھ لوگ جعفر کے پاس گئے اور اس سے پوچھا کہ تم ہمیں بتاؤ کہ جو خطوط ہمارے پاس ہیں، وہ کس کس نے لکھے ہیں اور ہمارے پاس لوگوں کے دئیے ہوئے کتنے پیسے ہیں ؟

جعفر نے کہا دیکھو یہ لوگ مجھ سے علم غیب کے بارے میں سوال کر رہے ہیں۔ اسی وقت امام مہدی کی طرف سے ایک خادم آیا اور امام کی طرف سے ان کو کہا کہ تمہارے پاس فلاں فلاں کے خط ہیں اور اس تھیلے میں ایک ہزار اشرفیاں ہیں اور ان میں سے دس اشرفیوں پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے۔

سب شیعوں نے کہا کہ جس نے تمہیں ہمارے پاس بھیجا ہے، وہی اس زمانے کا امام ہے اور جاؤ جا کر یہ خطوط اور تھیلہ ان کو دے دو۔

جعفر كذاب خلیفہ کے پاس گیا اور سارا ماجرا اس کو بتایا۔ معتمد نے حکم دیا کہ امام عسکری کے گھر جاؤ اور اس بچے کو ڈھونڈو۔ انھوں نے امام عسکری کے گھر جا کر بچے کو بہت تلاش کیا لیکن اس کا کوئی نشان نظر نہ آیا۔ آخر کار امام عسکری کی کنیز صیقل کو پکڑ کر لے گئے اور اسکو کافی عرصے تک اپنی زیر نگرانی رکھا، اس خیال سے کہ وہ حاملہ ہے لیکن کوئی حمل کا اثر نظر نہ آیا۔

خداوند نے اس مبارک بچے کی خود حفاظت کی اور اب اس زمانے میں بھی وہ خداوند کی حمایت میں ہیں۔ وہ اس دنیا میں موجود ہیں لیکن ظاہری طور پر نظروں سے مخفی ہیں۔ خداوند کا خاص درود و سلام ان کی پاک ذات پر ہو۔

التماس دعا

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی