2024 March 19
شب اول ماہ ربيع الاول، شب نزول آیت 207 سورہ بقرہ
مندرجات: ٤٤١ تاریخ اشاعت: ٢٠ November ٢٠١٧ - ١٣:٠٠ مشاہدات: 4112
یاداشتیں » پبلک
شب اول ماہ ربيع الاول، شب نزول آیت 207 سورہ بقرہ

ليلۃ المبيت علی (ع) کہ اس مبارک رات مولا علی (ع) نے اپنی جان کو خداوند کے ہاتھوں فروخت کیا۔جب علی (ع) رسول خدا (ص) کے بستر پر سوئے ہوئے تھے تو جبرائیل ان کے سر کی طرف اور میکائیل ان کے پیروں کی طرف کھڑے تھے اور جبرائیل نے کہا کہ آپ کتنے خوش قسمت ہو اے ابو طالب کے بیٹے کہ خداوند فرشتوں پر آپ کی وجہ سے فخر و مباہات کر رہا ہے۔

لیلۃ المبیت وہ رات ہے کہ جس میں رسول خدا (ص) نے اللہ کے حکم کے مطابق مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی، اور جب رسول خدا (ص) کو پتا چلا کہ کفار قریش آپ کو قتل کرنا چاہتے ہیں، تو آپ نے علی (ع) سے کہا کہ آج رات میرے بستر پر سو جاؤ تا کہ کفار قریش کو پتا نہ چلے کہ میں آج اپنے گھر میں نہیں ہوں۔

خداوند نے علی کی اس قربانی اور جاں نثاری پر اس آیہ مبارکہ کو نازل کیا:

وَ مِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ ۗ وَ اللَّـهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ۔

ترجمہ: اور لوگوں میں سے بعض ایسے لوگ ہیں کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر اپنے جان کو بیچ دیتے ہیں اور خداوند ایسے بندوں پر بہت مہربان ہے۔

بقرہ 207

رسول خدا کے قتل کی سازش:

تاریخی روایات کے مطابق کفار قریش نے رسول خدا (ص)، ان کے پیغام، دین اسلام کی حد سے زیادہ ترقی و عزت اور حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد، مسلمانوں پر اپنے ظلم اور ستم کو اور بھی زیادہ کر دیا اور کفار قریش مسلمانوں سے کہتے تھے کہ اسلام کا نام لینا اور اپنے دین اسلام کو چھوڑ دو۔ رسول خدا (ص) نے جب مسلمانوں کی یہ حالت دیکھی تو اہل مدینہ کے ساتھ ایک معاہدہ کر کے، مٹھی بھر مسلمانوں سے کہا کہ مدینہ کی طرف ہجرت کر کے چلے جائیں۔ اس فرمان کے بعد مسلمان تھوڑے تھوڑے ہو کر چھپ چھپا کر اس طرح کہ کفار قریش کو پتا نہ چلے، مدینہ کی ہجرت کر کے چلے گئے۔ کفار قریش نے جب یہ حالت دیکھی اور جب ہر حربے رسول خدا کے خلاف آزما چکے تو آخر میں انھوں نے رسول خدا کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

کفار قریش کا دارالندوه میں مشورہ کرنے کے لیے اجلاس بلانا:

کفار قریش دار الندوہ میں جمع ہوئے تا کہ آپس میں مشورہ کر کے رسول خدا کے قتل کے منصوبے کو حتمی شکل دے سکیں۔

تاریخ کی بعض کتب کے مطابق شیطان بھی ایک بوڑھے شخص کی شکل اختیار کر کے اس اجلاس میں حاضر ہوا اور اس بارے میں کفار قریش کو مشورہ دینے لگا۔ مشورے وغیرہ کے بعد ابوجہل کے مشورے کو مان لیا گیا کہ ہر قبیلے سے ایک طاقتور اور دلیر بندے کو لے کر اکٹھے رات کو رسول خدا کے گھر پر حملہ کر کے ان کو قتل کر دیں گے کیونکہ اس صورت میں بنی ہاشم کے لیے رسول خدا کے خون کا بدلہ لینا تمام قبائل سے مشکل ہو جائے گا اور وہ تمام قبائل سے دشمنی لینے کی طاقت اور قدرت نہیں رکھتے اور آخر کار وہ رسول خدا کے خون کے بدلے دیہ لینے پر راضی ہو جائیں گے۔

آیت کا نازل ہونا اور رسول خدا کا کفار قریش کی سازش سے با خبر ہونا:

 

کفار قریش کے رسول خدا کے قتل کے منصوبے کے بعد جبرائیل رسول خدا (ص) پر نازل ہوا اور کفار کی اس سازش کے بارے میں ان کو آگاہ کیا اور خداوند کا حکم رسول خدا تک پہنچایا۔

جیسا کہ سورہ انفال کی آیت نمبر 30 میں آیا ہے کہ: 

وَ إِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَ يَمْكُرُونَ وَ يَمْكُرُ اللَّهُ وَ اللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ۔ 

 ترجمہ :اور اس وقت کو یاد کرو کہ کفار نے مکر و فریب سے ارادہ کیا کہ آپ کو زندان میں ڈالیں یا آپ کو قتل کر دیں یا مکہ سے جلا وطن کر دیں، تو وہ مکر کرتے ہیں تو خداوند بھی ان کے مکر کو نا کام بناتا ہے اور خداوند سب سے زیادہ چارہ چوئی کرنے والا ہے۔

اس پر رسول خدا نے کفار کے حملہ کرنے کے لیے آنے سے پہلے ارادہ کیا کہ مدینہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔

رسول خدا نے اس لیے کہ ہجرت کے لیے نکلتے وقت مشرکین کی نظروں میں نہ آئیں، اس آیت :

وَ جَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ۔ 

ترجمہ: اور ہم نے ان کے سامنے اور ان کے پیچھے ان کی آنکھوں پر ایک پردہ ڈال دیا کہ جس کی وجہ سے وہ نہیں دیکھ سکتے ہیں۔

سورہ یسیں آیت 9

کی تلاوت کی۔

ليلۃ المبيت کا ماجرا:

 

رسول خدا (ص) نے ماہ ربیع الاول کی پہلی رات علی (ع) سے فرمایا کہ: مشرکین آج رات مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں، کیا تم آج رات میرے بستر پر میری جگہ پر سو جاؤ گے تا کہ میں غار ثور کی طرف چلا جاؤں ؟ علی (ع) نے کہا کہ: کیا اس صورت میں آپ کی جان بچ جائے گی ؟ رسول خدا نے فرمایا کہ: ہاں، علی خوشی سے مسکرائے اور سجدہ شکر ادا کیا، جب سجدے سے سر اٹھایا تو عرض کیا: یا رسول اللہ جو کچھ اللہ کی طرف سے آپ کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے، آپ اس کو انجام دیں کہ میری آنکھیں، میرے کان اور میری جان آپ پر قربان ہوں، آپ جو بھی چاہتے ہیں مجھے حکم دیں کہ میں ایک مدد گار کے طور پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، آپ جو کہیں گے میں انجام دوں گا کہ مجھے سرخرو کرنا یہ خداوند کا کام ہے، پھر رسول خدا نے علی کو گلے سے لگا لیا اور دونوں نے گریہ کیا اور پھر رسول خدا مدینہ کی طرف چلے گئے۔

جب علی رسول خدا کے بستر پر سوئے ہوئے تھے، تو جبرائیل ان کے سر کی طرف اور میکائیل ان کے پیروں کی طرف کھڑے تھے اور جبرائیل نے کہا کہ آپ کتنے خوش قسمت ہو اے ابو طالب کے بیٹے کہ خداوند فرشتوں پر آپ کی وجہ سے فخر کر رہا ہے۔

 مشرکین نے شام کی ابتدا سے ہی رسول خدا کے گھر کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا کیونکہ پروگرام کے مطابق آدھی رات کو حملہ کرنا تھا، لیکن ابو لھب نے کہا تھا کہ رات کے وقت گھر میں عورتیں اور بچے ہوتے ہیں اور اگر ہم نے اس وقت حملہ کیا تو عرب ہمارے بارے میں کہیں گے کہ ہم نے اپنے چچا کے بچوں کی حرمت کو پامال کیا ہے۔

علی نے گھر کے دروازوں کو بند کیا اور آرام سے سو گئے، کفار نے علی کو بستر پر پتھر مارے تا کہ مطمئن ہو جائیں کہ بستر پر کوئی ہے اور وہ سویا ہوا ہے، اور ان کو سو فیصد یقین تھا کہ رسول خدا اپنے بستر پر سوئے ہوئے ہیں۔ صبح کے جب کفار نے ننگی تلواروں کے ساتھ رسول خدا کے گھر پر حملہ کیا تو دیکھا کہ علی رسول خدا کے بستر پر سوئے ہوئے ہیں، تعجب سے پوچھا کہ محمد کدہر ہے ؟ علی نے فرمایا کہ کیا ان کو میرے حوالے کر کے گئے تھے کہ اب مجھ سے پوچھ رہے ہو ؟ تم نے خود ہی ایسے کام کیا ہیں کہ وہ گھر چھوڑ کر جانے کے لیے مجبور ہو گئے تھے۔

یہ سن کر کفار نے علی پر حملہ کیا اور ان کو اذیت اور آزار دیا پھر گھر سے باہر لا کر مارا پھر تھوڑی دیر کے لیے مسجد الحرام میں بند کر کے رکھا اور پھر چھوڑ دیا۔ کفار پھر رسول خدا کے پیچھے مدینہ کی طرف چلے گئے، حالانکہ غار ثور کسی دوسری جگہ پر تھا۔

اسی طرح بعض دوسرے مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ جب کفار علی کی طرف گئے تو ان کو بالکل یقین تھا کہ وہ رسول خدا ہیں، تو وہ بار بار ان کے سر اور صورت پر پتھر مارتے تھے کہ یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور انھوں نے اس ڈر سے کہ کہیں دوسروں کو پتا نہ چل جائے، جلدی سے رسول خدا کے بستر پر حملہ کیا۔ اس زمانے میں مکے میں گھروں کے دروازے نہیں ہوتے تھے اور صرف ایک کپڑا پردے کے طور پر دیوار پر ڈال دیتے تھے۔ علی (ع) نے جب ان کو دیکھا کہ ہاتھ میں تلواریں لے آ رہے ہیں اور ان کے آگے خالد بن وليد بن مغيره آ رہا ہے، تو علی نے بڑی بہادری اور تیزی سے خالد پر حملہ کر کے اس کی تلوار کو اس سے چھین لیا در حالیکہ خالد درد سے زور زور سے آوازیں نکال رہا تھا، باقی کفار ابھی گھر کی سیڑھیوں پر ہی پہنچے تھے کہ علی نے خالد کی تلوار سے ان پر حملہ کر دیا اور بھیڑ بکریوں کی ادھر ادھر بھاگ کر فرار کر گئے، جب پیچھے مڑ کر غور سے دیکھا تو سمجھے کہ علی ہے۔

تو انھوں نے کہا تم علی ہو ؟ علی نے فرمایا کہ ہاں میں علی ہوں، انھوں نے کہا ہمیں تم سے کوئی کام نہیں ہے بس یہ بتا دو کہ محمد کہاں ہے ؟ علی نے فرمایا کہ مجھے ان تو پتا نہیں کہ ابھی کدھر ہیں۔ اس پر کفار قریش غصے کی حالت میں اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر رسول خدا کے پیچھے چلےگئے۔

حضرت علی(ع) کی شان میں آیت کا نازل ہونا:

جیسا کہ علمائے شیعہ اور سنی مفسرین نے کہا ہے کہ، آیت: 

وَ مِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ ۗ وَ اللَّـهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ۔

ترجمہ: اور لوگوں میں سے بعض ایسے لوگ ہیں کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر اپنے جان کو بیچ دیتے ہیں اور خداوند ایسے بندوں پر بہت مہربان ہے۔

سورہ بقرہ آیت 207

علی کی شان میں لیلۃ المبیت کے ماجرے کے بعد نازل ہوئی ہے۔

منابع:

ــ الارشاد، شيخ مفيد

ــ فروغ ابديت، آيت الله جعفر سبحانی

ــ سايٹ ويكی پیڈیا شيعه

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی