سوال:
کیا شھداء کربلاء میں غیر شیعہ افراد بھی موجود تھے ؟
توضیح سوال:
کسی نے کہا ہے کہ تمام شھداء کربلاء شیعہ نہیں تھے بلکہ عثمانی بھی تھے، مانند مثل زهير بن قين، حر بن يزيد، يزيد بن زياد بن مُهاصر کِندی، سعد بن حارث، ابوالحَتوف بن حارث اور عبدالله بن عمير کلبی۔
اگر ممکن ہے تو ان افراد کے شیعہ ہونے کو دلائل کے ساتھ ثابت کریں ؟
اجمالی جواب:
بے شک اہل بیت(ع) کی محبت پاک فطرت انسانوں اور با ضمیر لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف جذب کرتی ہے لیکن فقط یہ محبت ہی نہیں کہ جو باعث بنے کہ انسان اپنی جان کو محبوب کی راہ میں قربان کرے بلکہ یہ چیز محبت سے بھی بالا تر ہے جو انسان کو محبوب کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کی حد تک لے جاتی ہے، اور وہ اپنے محبوب کی ولایت و اطاعت کو قبول کرنا ، معرفت و بصیرت اور وہ ایمان ہے جو محبّ کو محبوب کی نسبت ہوتا ہے۔ یہی محبت جب ولایت سے ملتی ہے تو اس کا نتیجہ اھل بیت(ع) کی اطاعت، انکے فرامین کی فرمانبرداری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایسا محبّ محبوب کی خوشی میں خوشحال اور غم کی حالت میں غمناک ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب امام حسین(ع) مکہ سے کربلاء کی طرف اپنے مبارک سفر کا آغاز کرتے ہیں تو ہر جگہ اور ہر منزل پر لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں اور ان سب کو اس عظیم جھاد میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان لوگوں میں سے اکثر اگرچہ امام حسین(ع) کو جانتے تھے اور رسول خدا(ص) کے اھل بیت ہونے کی وجہ سے ان سے محبت بھی کرتے تھے لیکن فقط یہ شناخت اور محبت باعث نہیں بنی کہ وہ اپنی جانوں کو خدا اور امام کی راہ میں قربان کر دیں بلکہ شناخت اور محبت سے بھی بالا تر کوئی چیز ہے جو اس قربانی اور جان نثاری کا باعث بنی ہے اور وہ چیز ولایت، اطاعت، معرفت اور بصیرت ہے جو اس غیرت مند انسان کو اسلام اور امام کی نسبت ہوتی ہے۔
لفظ شیعہ اس بندے پر بولا جاتا ہے جو کسی شخص کی اتباع و پیروی کرے لھذا جو کسی سے فقط محبت کرتا ہو تو ایسے بندے کو اس کا شیعہ نہیں کہہ سکتے۔
ان دو نکتوں کی روشنی میں وہ افراد جو واقعہ کربلاء سے پہلے عثمانی یا کسی دوسرے مذھب سے تعلق رکھتے تھے، جیسے وھب نصرانی، لیکن جب کربلاء میں آ کر امام حسین(ع) سے مل گئے ، امام کے لشکر میں شریک ہو گئے، امام کی ولایت کو عمل میں دل و جان سے قبول کر کے امام کی اطاعت و پیروی کی اور راہ و فکر طرف مقابل اور دوسرے ادیان ، مذاھب ، تمام تعلقات اور رنگ و نسل کو چھوڑ کر امام حسین(ع) کے لشکر میں آ کر اہل بیت(ع) کے حریم کا دفاع کر کے اپنے شیعہ ہونے کو ثابت کیا ہے۔
لھذا تمام شھداء کربلاء اس معنی میں شیعہ تھے کیونکہ انھوں نے امام کی پیروی، اتباع اور اپنی جان کو نثار کر کے اپنے شیعہ ہونے کو عملی طور پر ثابت کیا ہے۔
تفصيلی جواب:
1. زهير بن قين:
کتب شیعہ اور اہل سنت میں شھداء کربلاء میں سے فقط زھیر ابن قین عثمانی تھا۔ اس نے جب امام حسین(ع) سے راہ مکہ اور کربلاء کے درمیان ملاقات کی تو اپنی تمام زندگی کو چھوڑ کر امام سے مل گیا۔
بلاذری نے اپنی كتاب انساب الاشراف میں زهير کے بارے میں لکھا ہے کہ:
«قالوا: وكان زهير بن القين البجلی بمكة، وكان عثمانياً»
کہا گیا ہے کہ زهير بن قين بجلی مكہ میں تھا اور وہ عثمانی تھا۔
البلاذری، أحمد بن يحيی بن جابر _متوفاى279 ق_، أنساب الأشراف، ج 1، ص 413، الجامع الكبير کی سی ڈی کے مطابق،
لیکن دلائل تاریخی کی بنیاد پر زھیر نے امام حسین(ع) سے ملنے کے بعد عثمانی مذھب کو چھوڑ کر امام کا شیعہ بن گیا اور اسی عقیدے کے ساتھ جنگ کی اور اسی عقیدے پر شھید ہوا۔
بلاذری نے زھیر کی گفتگو کو عزرہ بن قیس کہ یہ عمر سعد کے لشکر میں تھا،نقل کیا ہے اور زھیر نے واضح کہا ہے کہ میں اب حسینی مذھب پر ہوں اور امام حسین(ع) کی نصرت کروں گا۔
«وقال عزرة لزهير بن القين: كنت عندنا عثمانياً فما بالك ؟ فقال: والله ما كتبت إلى الحسين ولا أرسلت إليه رسولاً ولكن الطريق جمعني وإياه فلما رأيته ذكرت به رسول الله صلى الله عليه وسلم وعرفت ما تقدم عليه من غدركم ونكثكم وميلكم إلى الدنيا، فرأيت أن أنصره وأكون في حزبه حفظاً لما ضيعتم من حق رسول الله.»
عزرہ نے زھیر بن قین سے کہا کہ: تم تو عثمانی تھے اب کیا ہوا ہے کہ تم حسین(ع) کے لشکر میں ہو ؟ زھیر نے کہا: خدا کی قسم میں نے حسین کو خط نہیں لکھا اور نہ ہی کسی کو حسین کے پاس بیجھا ہے بلکہ میری امام حسین سے راستے میں ملاقات ہوئی ہے۔ جب میں نے امام کو دیکھا تو مجھے رسول خدا یاد آ گئے تو میں سمجھ گیا کہ تم نے امام کو دھوکہ دیا ہے اور دنیا کی خاطر امام حسین کے ساتھ اپنے وعدوں کو توڑا ہے۔ اس لیے میں نے امام کی نصرت کرنے اور انکے لشکر میں آنے کا ارادہ کیا ہے تا کہ تم نے جو رسول خدا کے حق کو ضائع کیا ہے میں اس کی حفاظت کروں۔
البلاذری، أحمد بن يحيی بن جابر _متوفاى279 ق_، أنساب الأشراف، ج 1، ص 418، الجامع الكبير کی سی ڈی کے مطابق،
طبری نے عزرة بن قيس اور زهير کی گفتگو کو ایسے نقل کیا ہے:
يا زهير ما كنت عندنا من شيعة أهل هذا البيت إنما كنت عثمانيا.
اے زھیر تم تو اہل بیت کے شیعہ نہیں تھے بلکہ تم تو عثمانی تھے لیکن اب حسین کے لشکر میں کیسے شریک ہو گئے ہو ؟
الطبری، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد _متوفاى310 ق_، تاريخ الطبری، ج 3، ص 314، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.
عزرہ بن قیس کی اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ حتی امام حسین(ع) کے دشمن بھی جانتے تھے کہ امام کے لشکر میں سارے سپاہی شیعہ تھے۔ اسی لیے تو عزرہ نے زھیر کو دیکھتے ہی کہا کہ تم تو شیعہ نہیں تھے تو پھر حسین کے لشکر میں کیسے نظر آ رہے ہو ؟ !
طبری نے زھیر کے جواب میں آگے چل کر ایسے لکھا ہے:
«فرأيت أن أنصره وأن أكون في حزبه وأن أجعل نفسي دون نفسه حفظا لما ضيعتم من حق الله وحق رسوله عليه السلام. ...»
اس لیے میں نے امام کی نصرت کرنے اور انکے لشکر میں آنے کا ارادہ کیا ہے تا کہ تم نے جو رسول خدا کے حق کو ضائع کیا ہے میں اس حق کی حفاظت کروں۔
الطبری، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد _متوفاى310 ق_، تاريخ الطبری، ج 3، ص 314، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.
زھیر نے اپنے جواب میں تین مطالب کو ذکر کیا ہے:
اولا: اس نے امام حسین(ع) کے دشمنوں کی مذمت کی ہے اور ان کو دھوکے باز اور عھد شکن کہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی امیہ میں بھی بعض ایسے افراد تھے کہ جہنوں نے امام کو دعوت دے کر بلایا اور خود ہی امام سے جنگ بھی کی۔
ثانيا: ایسے الفاظ کہ «واكون فی حزبه» ، «وان اجعل نفسی دون نفسه» واضح بتاتے ہیں کہ زھیر حسینی اور امام کا شیعہ ہو گیا تھا اور عثمانی مذھب کو چھوڑ دیا تھا ورنہ ہر گز امام حسین(ع) کی خاطر اپنی جان کو قربان نہ کرتا۔
ثالثا: جو جنگی اشعار اور رجز زھیر نے دشمنوں کے سامنے میدان جنگ میں پڑھے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ وہ امام حسین(ع) کو اپنا امام و ہادی مانتا تھا اور جو وہ امام کی وجہ سے راہ ہدایت پر آیا تھا وہ اس پر فخر بھی کرتا تھا۔ نویری نے اس رجز کو ایسے نقل کیا ہے:
وقاتل زهير بن القين قتالاً شديداً وجعل يقول :
أنا زهير وأنا ابن القين ***** أذودهم بالسيف عن حسين
و جعل يضرب على منكب الحسين ويقول:
أقدم هديت هادياً مهدياً ***** فاليوم تلقى جدك النبيا
و حسناً والمرتضى عليا ***** و ذا الجناحين الفتى الكميا
و أسد الله الشهيد الحيا
زھیر بن قین نے دشمنوں سے شدید اور سخت جنگ کی تھی اور وہ کہتا تھا کہ میں زھیر ہوں اور میں قین کا بیٹا ہوں، دشمنوں کے مقابلے میں حسین کا شمشیر کے ساتھ دفاع کروں گا اور وہ اپنے بازو کو حسین کے بازو سے لگا کر کہتا تھا: آپ میرے آگے ہوں اس حال میں کہ میں ہدایت کرنے والے کے ذریعے سے ہدایت پا گیا ہوں۔ میں آج ہی آپ کے جدّ رسول خدا ، امام حسن ، امام علی مرتضی ، جعفر بن ابي طالب اور حضرت حمزه شير خدا سے ملاقات کروں گا۔
النويری، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب _متوفاى733 ق_، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 20، ص 283، تحقيق: مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت،
2. حر بن يزيد رياحی:
اس کے بارے میں کوئی ایسا مطلب نہیں ملا کہ جو یہ بتائے کہ یہ عثمانی مذھب تھا۔ لھذا اس کو عثمانی کہنے پر کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ کتب تاریخی میں ایسے مطالب بیان ہوئے ہیں کہ جو بتاتے ہیں کہ یہ عثمانی نہیں تھا۔
مطلب اول: امام حسين (ع) کی نماز میں اقتداء کرنا:
لشکر کوفہ کا پہلا گروہ ایک ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا جو حرّ ابن یزید ریاحی کی سالاری میں امام حسین(ع) کے کوفے پہنچنے سے پہلے کربلاء پہنچا تھا ۔ اس نے امام کو راستے میں روکا۔ حر نے امام سے کہا: جب تک آپ یزید کی بیعت نہیں کریں گے میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا۔ اسی وقت نماز ظہر و عصر میں حر نے امام حسین(ع) کی اقتداء کی اور امام کے پیچھے نماز پڑھی۔
طبری نے لکھا ہے کہ:
«فقال الحسين عليه السلام للحر أتريد أن تصلي بأصحابك قال لا بل تصلي أنت ونصلي بصلاتك قال فصلى بهم الحسين ثم إنه دخل واجتمع إليه أصحابه وانصرف الحر إلى مكانه الذي كان به.»
امام حسین(ع) نے حر سے کہا: کیا تم اپنے لشکر کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتے ہو ؟ حر نے کہا: نہیں بلکہ میں آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ راوی کہتا ہے کہ سب نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی پھر امام اپنے خیمے میں چلے گئے اور ان کے اصحاب بھی امام کے پاس بیٹھ گئے اور حر بھی اپنے جگہ پر واپس چلا گیا۔
الطبری، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد _متوفاى310 ق_، تاريخ الطبری، ج 3، ص 306، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.
ابن كثير دمشقی نے نقل كیا ہے کہ حر بن يزيد رياحی نے نماز عصر بھی امام حسين (ع) کی اقتداء میں ادا کی۔
«... فلما كان وقت العصر صلى بهم الحسين ثم انصرف فخطبهم وحثهم على السمع والطاعة له وخلع من عاداهم من الادعياء السائرين فيكم بالجور.»
جب نماز عصر کا وقت ہوا تو امام حسین(ع) کی اقتداء میں نماز ادا کی گئی پھر امام نے ان کے لیے خطبہ پڑھا اور انکو اطاعت کرنے اور دشمنوں کو چھوڑنے کا کہا وہ دشمن کہ جس نے ظلم اور ستم کرنے کو اپنی عادت اور شیوہ بنا لیا ہے۔
ابن كثير الدمشقی، إسماعيل بن عمر القرشی _متوفاى774 ق_، البداية والنهاية، ج 8، ص 172، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.
مرحوم شیخ صدوق کی روایت کے مطابق حر ابن یزید نے نماز کے بعد اپنا امام سے تعارف کرایا اور ایسی باتیں کیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ امام حسین(ع) سے ایک خاص قسم کی محبت کرتا تھا:
«فَلَمَّا سَلَّمَ وَثَبَ الْحُرُّ بْنُ يَزِيدَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ فَقَالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام وَ عَلَيْكَ السَّلَامُ مَنْ أَنْتَ يَا عَبْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَنَا الْحُرُّ بْنُ يَزِيدَ فَقَالَ يَا حُرُّ أَ عَلَيْنَا أَمْ لَنَا فَقَالَ الْحُرُّ وَ اللَّهِ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ لَقَدْ بُعِثْتُ لِقِتَالِكَ وَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أُحْشَرَ مِنْ قَبْرِي وَ نَاصِيَتِي مَشْدُودَةٌ إِلَى رِجْلِي وَ يَدَيَّ مَغْلُولَةٌ إِلَى عُنُقِي وَ أُكَبَّ عَلَى حُرِّ وَجْهِي فِي النَّارِ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَيْنَ تَذْهَبُ ارْجِعْ إِلَى حَرَمِ جَدِّكَ فَإِنَّكَ مَقْتُولٌ.»
امام حسین(ع) جب نماز سے فارغ ہوئے تو حر ابن یزید اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور کہا: آپ پر سلام ہو اے فرزند رسول خدا(ص) اور خدا کی رحمت و برکت ہو آپ پر۔ امام نے فرمایا: تم پر بھی سلام ہو اے خدا کے بندے، تم کون ہو ؟ اس نے کہا: میں حر ابن یزید ہوں۔ امام نے فرمایا: اے حر کیا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو ؟ حر نے کہا: خدا کی قسم اے فرزند رسول خدا مجھے یہاں آپ سے جنگ کرنے کے لیے بیجھا گیا ہے لیکن میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ مجھے قبر سے اس حالت میں اٹھایا جائے کہ میرے پیروں کو میرے سر کے بالوں سے باندھا گیا ہو اور میرے ہاتھوں کو میری گردن کے پیچھے باندھا گیا ہو اور مجھے منہ کے بل جھنم میں ڈالا جائے۔ پھر کہا اے فرزند رسول خدا آپ کہاں جا رہے ہیں واپس اپنے نانا کے حرم چلے جائیں یہ لوگ آپ کو قتل کر دیں گے۔
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسين _متوفاى381 ق_، الأمالی، ص 219، تحقيق و نشر: قسم الدراسات الاسلامية - مؤسسة البعثة - قم،
مطلب دوم: حر بن يزيد توبہ کرتا ہے:
فرض بھی کریں کہ حر ابن یزید عثمانی تھا، لیکن اس نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں یہ جان لیا تھا کہ عمر ابن سعد امام حسین(ع) سے ضرور جنگ کرے گا۔ اس پر حر نے خود کو عمر سعد کے لشکر سے جدا کر لیا اور امام کے لشکر میں داخل ہو گیا اور اپنے کیے پر شرمندہ تھا اور عملی طور پر توبہ کر لی تھی:
دينوری نے كتاب الاخبار الطوال میں لکھا ہے کہ:
«وانحاز الحر بن يزيد الذي كان جعجع بالحسين إلى الحسين، فقال له: قد كان مني الذي كان، وقد أتيتك مواسيا لك بنفسي، أفترى ذلك لي توبة مما كان مني؟. قال الحسين: نعم، إنها لك توبة، فأبشر، فأنت الحر في الدنيا، وأنت الحر في الآخرة، إن شاء الله.»
حر ابن یزید کہ اس نے امام حسین(ع) کو کربلاء کی سر زمین پر روکا تھا، وہ امام سے مل گیا اور کہا کہ جو مجھ سے ہونا تھا وہ ہو گیا لیکن اب میں اپنی جان کو آپ پر قربان کرنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ میری توبہ کو قبول کرتے ہیں؟ امام نے فرمایا: ہاں تمہاری یہ توبہ قبول ہے اور میں تم کو خوش خبری دیتا ہوں کہ تم دنیا میں آزاد ہو اور آخرت میں بھی آزاد ہو۔
الدينوری، أحمد بن داود _متوفای 282ق_، الأخبار الطوال، ج 1، ص 378، تحقيق : د.عصام محمد الحاج علي، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت/لبنان،
شيخ صدوق (رح) نے نقل كیا ہے کہ حر نے اپنے ہاتھ کو سر پر رکھا اور چیخ کر کہا خدایا میں تیری بار گاہ میں توبہ کرتا ہوں، میری توبہ کو قبول فرما:
«قال: فضرب الحر بن يزيد فرسه، وجاز عسكر عمر بن سعد (لعنه الله) إلى عسكر الحسين (عليه السلام)، واضعا يده على رأسه، وهو يقول: اللهم إليك أنيب فتب علي، فقد أرعبت قلوب أوليائك وأولاد نبيك. يا بن رسول الله، هل لي من توبة؟ قال: نعم تاب الله عليك. قال: يا بن رسول الله، أتأذن لي فأقاتل عنك؟ فأذن له، فبرز وهو يقول :
أضرب في أعناقكم بالسيف ***** عن خير من حل بلاد الخيف
فقتل منهم ثمانية عشر رجلا، ثم قتل، فأتاه الحسين (عليه السلام) ودمه يشخب، فقال: بخ بخ يا حر، أنت حر كما سميت في الدنيا والآخرة.»
راوی کہتا ہے کہ: حر ابن یزید اپنے گھوڑے کو دوڑا کر عمر سعد کے لشکر سے جدا ہو کر امام حسین(ع) کے لشکر کی طرف آ گیا اس حالت میں اس نے اپنے ہاتھوں کو سر پر رکھا ہوا تھا اور کہہ رہا تھا کہ خدایا میں تیری بار گاہ میں توبہ کرتا ہوں، میری توبہ کو قبول فرما۔ میں نے رسول خدا کے اھل بیت اور دوستوں کے دل کو پریشان کیا ہے۔ اے رسول خدا کے بیٹے کیا میرے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے ؟ امام نے فرمایا ہاں خدا تیری توبہ کو قبول کرے گا۔ اس پر حر نے کہا: اے فرزند رسول خدا کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ آپ کی راہ میں آپ کے دشمنوں سے جنگ کروں ؟ امام نے اجازت دی اور وہ میدان میں رجز پڑھتا ہوا گیا:
میں اپنی شمشیر کو تمہاری گردنوں پر ماروں گا اور بہترین انسان کا کہ جو منی کی سر زمین میں داخل ہوا ہے اس کا دفاع کروں گا، پھر ان میں سے 18 بندوں کو قتل کیا اور بعد میں خود بھی شھید ہو گیا۔
امام حسین(ع) اس کے سرھانے آئے دیکھا کہ حر کے بدن سے خون بہہ رہ رہا ہے۔ امام نے فرمایا: تم کو یہ شھادت مبارک ہو اے حرّ، تمہارا جیسا نام ہے ویسے ہی تم دنیا اور آخرت میں آزاد ہو۔
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسين _متوفاى381 ق_، الأمالی، ص 224، تحقيق و نشر: قسم الدراسات الاسلامية - مؤسسة البعثة - قم، الطبعة: الأولى، 1417هـ.
3. يزيد بن زياد كندی:
اس بندے کا نام تاریخ میں کئی طرح سے ذکر ہوا ہے: يزيد بن زياد بن مهاجر، مصاهر، اور يزيد بن مهاجر۔ یہ بھی امام حسین(ع) کے انصار میں سے تھا کہ جو روز عاشورا شھادت کے بلند مرتبے پر فائز ہوا۔ یہ بندہ بھی بعض دوسروں کی طرح عمر ابن سعد کے لشکر سے جدا ہو کر امام حسین(ع) سے آ کر ملا تھا یا کوفہ سے سیدھا امام کے لشکر میں ہی آیا تھا، یہ تاریخ میں واضح بیان نہیں ہوا۔ طبری نے اس کے بارے میں دو باتوں کو ذکر کیا ہے:
طبری نے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
«قال لهم الحر هذا كتاب الأمير عبيدالله بن زياد يأمرني فيه أن أجعجع بكم في المكان الذي يأتيني فيه كتابه وهذا رسوله وقد أمره ألا يفارقني حتى أنفذ رأيه وأمره فنظر إلى رسول عبيدالله يزيد بن زياد بن المهاصر أبو الشعثاء الكندي ثم البهدلي فعن له فقال أمالك بن النسير البدي قال نعم وكان أحد كندة فقال له يزيد بن زياد ثكلتك أمك ماذا جئت فيه قال وما جئت فيه أطعت إمامي ووفيت ببيعتي فقال له أبو الشعثاء عصيت ربك وأطعت إمامك في هلاك نفسك كسبت العار والنار قال الله عز وجل (وجعلناهم أئمة يدعون إلى النار ويوم القيامة لا ينصرون) فهو إمامك.»
حر نے امام حسین(ع) کے لشکر سے کہا: یہ امیر عبید اللہ ابن زیاد کا خط ہے کہ اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ جس جگہ پر مجھے یہ خط ملے اسی جگہ پر آپ کو روک لوں اور یہ بندہ بھی اس نے مجھ پر نگران کے طور پر بیجھا ہے اور اسے بھی حکم دیا ہے کہ جب تک میں اس خط کے مطابق عمل نہ کر لوں مجھ سے دور اور جدا نہ ہو۔
يزيد بن زياد بن مهاصر (ابو الشعثاء كندی) نے عبید اللہ ابن زیاد کے بیجھے ہوئے بندے سے کہا کہ: کیا تم مالك بن نسير بدی ہو ؟ اس نے کہا: ہاں، ابو الشعثاء قبیلہ کندہ میں سے ہے۔ یزید بن زیاد نے اس سے کہا: تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے، تم یہ کیا لے کر آئے ہو ؟ اس نے کہا: میں نے اپنے امام کی اطاعت کی ہے اور اپنی بیعت پر وفا کی ہے۔ ابو الشعثاء نے اس سے کہا: تم نے اپنے خدا کی معصیت و نافرمانی کی ہے، اور تم نے اپنے پیشوا کی اطاعت کر کے اپنے آپ کو ھلاک کر لیا ہے اور جھنم میں جانے کی ذلّت کو اپنے لیا خریدا ہے ! اس کے بعد اس آیت کو پڑھا: ہم نے ان کے لیے ایسے پیشوا کو قرار دیا ہے کہ جو ان کو جھنم کی آگ کی طرف لے جانے والے ہیں اور وہ ان کی قیامت والے دن کوئی مدد نہیں کریں گے۔ آخر میں اس سے کہا کہ: یہ تیرا امام ہے۔
الطبری، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب _متوفاى310 ق_، تاريخ الطبری، ج 3، ص 309، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یزید بن زیاد، اس سے پہلے کہ حر بن يزید ریاحی امام کو راستے میں روکے،امام کے لشکر میں شامل ہو گیا تھا۔
طبری نے دوسری جگہ، اس کے روز عاشورا امام حسین(ع) کے لشکر میں تیر چلانے کے واقعے کو نقل کرنے کے بعد، کہا ہے کہ:
«وكان يزيد بن زياد بن المهاصر ممن خرج مع عمر بن سعد إلى الحسين فلما ردوا الشروط على الحسين مال إليه فقاتل معه حتى قتل.»
يزيد بن زياد بن مهاصر ان میں سے تھا کہ جو عمر ابن سعد کے ساتھ مل کر امام حسین(ع) سے جنگ کرنے کے لیے آیا تھا۔ جب عمر سعد نے امام حسین کی شرائط کو قبول نہ کیا تو یہ امام حسین سے مل گیا پھر امام کے لشکر میں جنگ کی اور شھید ہوا۔
الطبری، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب _متوفاى310 ق_، تاريخ الطبری، ج 3، ص 330، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.
ابو مخنف کی نقل کے مطابق ابو الشعشاء نے روز عاشورا امام حسین(ع) کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے دونوں زانو پر بیٹھ کر دشمن کی طرف ایک سو تیروں کو چلایا اور امام نے اس کے لیے اس طرح دعا فرمائی:
«اللهم سدد رميته، واجعل ثوابه الجنة، فلما رمى بها قام فقال: ما سقط منها الا خمسة أسهم. ولقد تبين لي اني قد قتلت خمسة نفر وكان في أول من قتل وكان رجزه يومئذ:
انَا يزيدُ وابِي مُهاصر ***** اشْجَعُ مِنْ ليثٍ بِغَيلٍ خادِرْ
يا رَبِّ انّي لِلْحُسين ناصر ***** وَلِابْنِ سَعْدٍ تارِكٌ و هاجر.»
خدایا اس کے تیر کو نشانے پر لگا اور اس کی جزاء کو جنت قرار دے۔ وہ تیر چلانے کے بعد کھڑا ہوا اور کہا:پانچ تیروں کے علاوہ میرے سارے تیر نشانے پر لگے ہیں اور مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ میں نے کم از کم پانچ دشمنوں کو قتل کیا ہے۔ وہ ان افراد میں سے تھا کہ جو جلدی شھید ہوئے تھے۔ روز عاشورا اس کا رجز یہ تھا:
میں یزید مھاصر کا بیٹا ہوں، میں بہادر شیر سے بھی زیادہ بہادر ہوں، اے خدا میں حسین(ع) کی مدد کرنے والا ہوں اور میں نے عمر سعد سے دوری کو اختیار کیا ہے۔
الأزدی، أبو مخنف _متوفاي15 ق_، مقتل الحسين (ع)، ص 158، چاپخانه : مطبعة العلمية – قم، مكتبه اهل البيت کی سی ڈی کے مطابق۔
4 و 5 . سعد بن الحارث وابو الحتوف:
ان دونوں کا نام بھی شھداء کربلاء میں ذکر کیا گیا ہے۔ مرحوم نمازی نے ان کے ماضی کو خوارج میں سے کہا ہے لیکن کربلاء میں یہ امام حسین(ع) کے لشکر میں شامل ہو گئے تھے اور اپنے زمانے کے امام کی نصرت بھی کی تھی:
سعد بن الحارث بن سلمة الأنصاري:
هو وأخوه أبو الحتوف العجلاني خرجا من الكوفة مع عمرو بن سعد وكانا من الخوارج فلما كان يوم عاشوراء سمعا استنصار مولانا الحسين عليه السلام و بكاء اهل بيته ، أدركتهما السعادة ولحقا بالحسين عليه السلام وقاتلا مع أعدائه و فازا بسعادة الشهادة۔
سعد بن حارث بن سلمہ انصاري اور اس کا بھائی ابو الحتوف عجلانی كوفہ سے عمر بن سعد کے ساتھ نکلے تھے اور یہ دونوں خوارج میں سے تھے۔ انھوں نے جب امام حسین(ع) کی روز عاشورا فریاد اور اہل بیت کے گرئيے کو سنا تو یہ سعادت ان کو نصیب ہوئی کہ امام کے لشکر میں شامل ہو گئے اور امام کے دشمنوں سے جنگ کی اور دونوں شھید ہو گئے۔
الشاهرودی، الشيخ علي النمازی _متوفاي1405ق_، مستدركات علم رجال الحديث، ج 4 ص 27، ناشر: ابن المؤلف، چاپخانه: شفق – طهران، الأولى1412هـ
6 . عبد الله بن عمير كلبی:
ابو مخنف نے كتاب مقتل الحسين میں اور بعض دوسرے مصنّفین نے ذکر کیا ہے کہ یہ کوفہ سے ہی اپنی بیوی کے ساتھ امام حسین(ع) کی نصرت کرنے کے ارادے سے کربلاء آیا تھا:
«قال أبو مخنف - حدثني أبو جناب قال : كان منا رجل يدعى عبد الله بن عمير من بني عليم كان قد نزل الكوفة واتخذ عنه بئر الجعد من همدان دارا ، وكانت معه امرأة له من النمر بن قاسط يقال لها أم وهب بنت عبد ، فرأى القوم بالنخيلة يعرضون ليسرحوا إلى الحسين ، قال فسأل عنهم فقيل له : يسرحون إلى حسين بن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وآله فقال : والله لو قد كنت على جهاد أهل الشرك حريصا واني لأرجو الا يكون جهاد هؤلاء الذين يغزون ابن بنت نبيهم أيسر ثوابا عند الله من ثوابه إياي في جهاد المشركين . فدخل إلى امرأته فأخبرها بما سمع وأعلمها بما يريد فقالت : أصبت أصاب الله بك ، أرشد أمورك ، افعل وأخرجني معك ، قال : فخرج بها ليلا حتى أتى حسينا فأقام معه.»
ابو جناب نے کہا ہے کہ: ایک شخص عبد اللہ بن عمیر کہ جو قبیلہ بنی علیم سے تھا، کوفہ میں آیا اور جعد نامی کنویں کے نزدیک اپنا گھر تعمیر کیا۔ اس کی بیوی ام وھب بھی اس کے ساتھ تھی۔ اس نے نخیلہ کے مقام پر دیکھا کہ لوگ امام حسین(ع) سے جنگ کرنے کے لیے جا رہے ہیں اس نے پوچھا کہ لوگ کہاں جا رہے ہیں ؟ اسے کہا گیا کہ یہ لوگ امام حسین سے جنگ کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔ اس نے کہا میں اہل شرک سے جنگ کرنا چاہتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ ان سے جنگ کرنے کا ثواب، کہ جو رسول خدا کی بیٹی کے بیٹے سے جنگ کرنا چاہتے ہیں، اہل شرک کے ساتھ حنگ کرنے سے کم نہیں ہو گا۔ اپنی بیوی کے پاس آیا اور جو سنا تھا اور جو اس نے ارادہ کیا تھا، اس کو بتایا۔ اس کی بیوی نے کہا: تمہارا ارادہ اور نیت بہت اچھی ہے۔ خداوند تیرے ذریعے سے لوگوں کی اصلاح کرے اور تیرے کاموں کو ٹھیک و آسان کرے۔ اس کام کو انجام دو اور مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاؤ۔ اس کے بعد رات کو کوفے سے نکلے تا کہ امام حسین(ع) سے مل سکیں اور پھر امام کے لشکر میں ہی رہے۔
الأزدی، أبو مخنف _متوفاي157 ق_، مقتل الحسين (ع)، ص 123، چاپخانه : مطبعة العلمية – قم، مكتبه اهل البيت کی سی ڈی کے مطابق۔
اس روایت کے مطابق واضح ہے کہ وہ امام حسین(ع) کے شیعوں میں سے تھا اور اسی عقیدے کے ساتھ اپنے زمانے کے امام کے لشکر میں حاضر ہوا تھا۔
نتيجہ:
ان افراد میں سے کہ جن کے نام سوال میں ذکر ہوئے ہیں، ان میں سے فقط زھیر بن قین عثمانی تھا کہ وہ بھی امام حسین(ع) کے لشکر میں شامل ہونے کے بعد، مذھب عثمانی کو چھوڑ کر شیعہ اور حسینی ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ سعد ابن الحارث اور اس کا بھائی ابو العطوف خوارج میں سے تھے لیکن وہ بھی امام حسین کے لشکر میں آنے کے بعد، امام کے شیعہ ہو گئے تھے اور اپنے دل و جان کو عطر حسینی سے معطّر کر لیا تھا۔
لھذا وہ افراد کہ جن کے نام سوال میں ذکر ہوئے ہیں، سارے امام حسین(ع) کے شیعہ تھے کیونکہ شیعہ کا معنی کسی کی اتباع اور پیروی کرنا ہے، شیعہ یعنی امام کے ساتھ قدم بہ قدم چلنے والا، یعنی امام کا مطیع اور فرمانبردار، اور سب شھداء کربلاء میں یہ صفات پائی جاتی تھیں، لھذا اس معنی کے مطابق سب شھداء کربلاء شیعہ تھے۔
التماس دعا