سب سے پہلے کس نے امام حسین(ع) کے لیے گریہ کیا ہے؟
شیعہ کتب کی روایات کے مطابق سب سے پہلے امام حسین(ع) کے لیے حضرت آدم(ع) نے گریہ و عزاداری کی ہے۔
علماء اہل سنت کی اس بارے میں کیا رائے و نظر ہے؟ کیا وہ بھی اس روایت کو قبول کرتے ہیں؟
کیا ان کی کتب میں بھی روایات ذکر ہوئی ہیں کہ کس نے سب سے پہلے امام حسین(ع) کے لیے گریہ کیا؟
ذكر شهادت امام حسین(ع) رسول خدا کی بعثت سے تین سو سال پہلے:
حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي ثنا محمد بن غورك ثنا أبو سعيد التغلبي عن يحيي بن يمان عن إمام لبني سليم عن أشياخ له غزوا الروم فنزلوا في كنيسة من كنائسهم فقرأوا في حجر مكتوب: أيرجوا معشر قتلوا حسينا شفاعة جده يوم الحساب۔
فسألناهم منذ كم بنيت هذه الكنيسة قالوا قبل أن يبعث نبيكم بثلاث مائة سنة قال أبو جعفر الحضرمي وثنا جندل بن والق عن محمد بن غورك ثم سمعته من محمد بن غورك۔
روم سے جنگ کر رہے تھے کہ ہم ایک کلیسا(عیسائیوں کی عبادت گاہ) میں داخل ہوئے وہاں ایک پتھر تھا اور اس کے اوپر لکھا ہوا تھا:
وہ امت کہ جس نے حسین(ع) کو قتل کیا ہے وہ اسی حسین(ع) کے نانا کی قیامت والے دن کیسے شفاعت کی امید رکھتے ہیں؟
سليمان بن أحمد بن أيوب أبو القاسم الطبراني الوفاة: 360، المعجم الكبير ج 3ص 124 دار النشر: مكتبة الزهراء - الطبعة الثانية، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي
وروينا أن صخرة وجدت قبل مبعث النبي صلي الله عليه وسلم بثلاث مائة سنة وعليها مكتوب باليونانية أيرجو معشر قتلوا حسينا۔
ہمیں خبر دی گئی ہے کہ بیت المقدس میں ایک پتھر ملا ہے جو رسول خدا(ص) کی بعثت سے تین سو سال پہلے کا ہے اور اس پر سریانی زبان میں لکھا ہوا ہے کہ: وہ امت کہ جس نے حسین(ع) کو قتل کیا ہے وہ اسی حسین(ع) کے نانا کی قیامت والے دن کیسے شفاعت کی امید رکھتے ہیں؟
أبي الفرج عبد الرحمن بن الجوزي الوفاة: 597هـ التبصرة ج 2 ص 17، دار النشر: دار الكتاب المصري - دار الكتاب اللبناني - مصر - لبنان، الطبعة الأولى تحقيق: د.مصطفى عبد الواحد
أبو الفضل جلال الدين عبد الرحمن أبي بكر السيوطي الوفاة: 911، الخصائص الكبرى ج 1 ص 63 هـ ، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت –
ان دو روایات کی طرح مندرجہ ذیل کتب اہل سنت میں بھی روایات ذکر ہوئی ہیں:
قال حدثني أحمد بن محمد المصقلي قال حدثني أبي قال لما قتل الحسين بن علي سمع مناد ينادي ليلا يسمع صوته ولا يرى شخصه۔
راوی: جب امام حسین(ع) قتل ہوئے تو ایک منادی دینے والے کی نداء کو رات کے وقت سنا گیا۔ اس منادی کی فقط آواز آ رہی تھی لیکن وہ خود نظر نہیں آ رہا تھا۔
كمال الدين عمر بن أحمد بن أبي جرادة الوفاة: 660 بغية الطلب في تاريخ حلب ج 6 ص 2654، دار النشر: دار الفكر، تحقيق: د. سهيل زكار
محمد بن مكرم بن منظور الأفريقي المصري (المتوفى: 711هـ) الوفاة: 711، دار النشر:مختصر تاريخ دمشق ج 2 ص 447
يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج المزي الوفاة: 742 تهذيب الكمال ج 6 ص 447، دار النشر: مؤسسة الرسالة - بيروت - 1400 - 1980، الطبعة: الأولى، تحقيق: د. بشار عواد معروف
أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي الوفاة: 852، تهذيب التهذيب ج 2 ص 307، دار النشر: دار الفكر - بيروت - 1404 - 1984، الطبعة: الأولى
بعض علماء اہل سنت کے اقرار کے مطابق حاكم نيشابوری نے اسی طرح کی روایت کو تھوڑے اضافے کے ساتھ اپنی کتاب امالی میں ذکر کیا ہے۔
لیکن افسوس یہ ہےکہ اب یہ روایت اس کتاب میں نہیں ہے۔
حديث أنس أن رجلا من أهل نجران احتفر حفيرة فوجد فيها لوحا من ذهب فيه مكتوب:
اترجو أمة قتلت حسينا شفاعة جده يوم الحساب
وكتب ابراهيم خليل الله فجاؤا باللوح إلي رسول الله فقرأه ثم بكي وقال من آذاني وعترتي لم تنله شفاعتي۔ حاکم في أماليه۔
انس سے روایت ہے کہ اہل نجران کا ایک شخص گڑھا گود رہا تھا کہ اس سے ایک سونے کی تختی ملی کہ اس پر لکھا ہوا تھا کہ وہ امت جو حسین(ع)....... اور لکھا تھا کہ ابراھیم خلیل اللہ نے پھر اس تختی کو رسول خدا(ع) کے پاس لایا۔
اس کو پڑھا اور گریہ کیا پھر فرمایا کہ جو مجھے اور میرے اہل بیت کو اذیت کرے گا اس کو میری شفاعت نصیب نہیں ہو گی۔ حاکم نے کتاب امالی میں اسی روایت کو نقل کیا ہے۔
أبي بكر محمد بن الحسين الآجري الوفاة: 360هـ، الشريعة ج 5 ص 2180 دار النشر: دار الوطن - الرياض / السعودية - 1420 هـ - 1999 م، الطبعة: الثانية، تحقيق: الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي
امام حسین(ع) پر اشک بہانے کے بارے میں اہل سنت کی روایات:
جو بھی امام حسین(ع) پر اشک بہانے کے بارے میں اہل سنت کی کتب میں ہے وہ رسول خدا(ص) کے بارے میں بھی ہے:
ہم یہاں پر فقط ذھبی کی عبارت کو ذکر کرتے ہیں اور مھم مھم عبارت کا ترجمہ بھی کرتے ہیں:
وقال الإمام أحمد في مسنده ثنا محمد بن عبيد ثنا شرحبيل بن مدرك عن عبد الله بن نجي عن أبيه أنه سار مع علي وكان صاحب مطهرته فلما حاذي نينوي وهو سائر إلي صفين فنادي اصبر أبا عبد الله بشط الفرات قلت وما ذاك قال دخلت علي النبي صلي الله عليه وسلم وعيناه تفيضان فقال قام من عندي جبريل فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات وقال هل لك أن أشمك من تربته قلت نعم فقبض قبضة من تراب فأعطانيها فلم أملك عيني أن فاضتا وروي نحوه ابن سعد عن المدائني عن يحيي بن زكريا عن رجل عن الشعبي أن علياً قال وهو بشط الفرات صبراً أبا عبد الله وذكر الحديث
وقال عمارة بن زاذان ثنا ثابت عن أنس قال استأذن ملك القطر علي النبي صلي الله عليه وسلم في يوم أم سلمة فقال يا أم سلمة احفظي علينا الباب لا يدخل علينا أحد فبينا هي علي الباب إذ جاء الحسين فاقتحم الباب ودخل فجعل يتوثب علي ظهر النبي صلي الله عليه وسلم فجعل النبي صلي الله عليه وسلم يلثمه فقال الملك أتحبه قال نعم قال فإن أمتك ستقتله إن شئت أريتك المكان الذي يقتل فيه قال نعم فجاءه بسهلة أو تراب أحمرقال ثابت فكنا نقول إنها كربلاء
عمارة صالح الحديث رواه الناس عن شيبان عنه
وقال علي بن الحسين بن واقد حدثني أبي ثنا أبو غالب عن أبي أمامة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لنسائه لا تبكوا هذا الصبي يعني حسيناً فكان يوم أم سلمة فنزل جبريل فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم لأم سلمة لا تدعي أحداً يدخل
فجاء حسين فبكي فخلته أم سلمة يدخل فدخل حتي جلس في حجر رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال جبريل إن أمتك ستقتله قال يقتلونه وهم مؤمنون قال نعم وأراه تربته رواه الطبراني
وقال إبراهيم بن طهمان عن عباد بن إسحاق وقال خالد بن مخلد واللفظ له ثنا موسي بن يعقوب الزمعي كلاهما عن هاشم بن هاشم الزهري عن عبد الله بن زمعة قال أخبرتني أم سلمة أن رسول الله صلي الله عليه وسلم اضطجع ذات يوم فاستيقظ وهو خاثر ثم اضطجع ثم استيقظ وهو خاثر دون المرة الأولي ثم رقد ثم استيقظ وفي يده تربة حمراء وهو يقبلها فقلت ما هذه التربة قال أخبرني جبريل أن الحسين يقتل بأرض العراق وهذه تربتها
وقال وكيع ثنا عبد الله بن سعيد عن أبيه عن عائشة أو أم سلمة شك عبد الله أن النبي صلي الله عليه وسلم قال لها دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها فقال لي إن ابنك هذا حسيناً مقتول وإن شئت أريتك من تربة الأرض التي يقتل بها
رواه عبد الرزاق عن عبد الله بن سعيد بن أبي هند مثله إلا أنه قال أم سلمة ولم يشك
وإسناده صحيح رواه أحمد والناس
وروي عن شهر بن حوشب وأبي وائل كلاهما عن أم سلمة نحوه
احمد بن حنبل اپنی کتاب مسند میں کہتا ہے کہ.... علی(ع) کے ساتھ جا رہا تھا اور پانی کا ایک برتن بھی اس کے پاس تھا۔ صفین جاتے ہوئے راستے میں جب وہ نینوا پہنچے اچانک آواز دی کہ اے حسین(ع) نہر فرات کے کنارے صبر سے کام لو۔ میں نے کہا آپ نے یہ کیا کہا ہے؟ علی(ع) نے فرمایا: میں رسول خدا (ص) کے پاس تھا اور وہ زار و قطار رو رہے تھے پھر مجھے کہا کہ جبرائیل ابھی میرے پاس تھا اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ حسین(ع) نہر فرات کے کنارے
قتل کیا جائے گا پھر کہا کہ کیا آپ اس جگہ کی خاک کی خوشبو سونگھنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں، پھر اس نے اس جگہ کی خاک مجھے دی تو میں وہ دیکھ کر اپنے اشکوں کو روک نہیں سکا۔
اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حیسن (ع) آئے اور اصرار کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور ان کی کمر مبارک پر بیٹھ گئے ۔ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کے بوسے لینا شروع کر دیا۔ اس پر بارش نازل کرنے والے فرشتے نے رسول خدا(ص) سے کہا کہ کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا: ہاں ۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شھید کرے گی اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ ہاں دکھاؤ پھر فرشتے رسول خدا(ص) کو ایک سرخ رنگ کی خاک کی ڈھیری کے پاس لایا ۔
ثابت کہتا ہے کہ ہم اسکو کربلاء کی زمین کہتے ہیں ۔
..... رسول خدا صلي الله عليہ وآلہ وسلم اپنی بیویوں سے فرماتے تھے کہ اس بچے (حسین ع ) کو نہ رلایا کرو ۔ اس دن کے رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے کہ جبرائیل نازل ہوا ۔ رسول خدا(ص) نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے کمرے میں آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حسین (ع) آئے اور اصرار و گریہ کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور رسول خدا(ص) کی گود میں آ کر بیٹھ گئے۔ جبرائیل نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو
...ام سلمہ نے مجھے بتایا کہ ایک دن رسول خدا صلي الله عليہ وآلہ وسلم سو رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں بیدار ہو ئے، پھر دوبارہ سو گئے اور دوبارہ بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کونسی خاک ہے؟ فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین(ع) کو عراق میں شھید کر دیا جائے گا اور یہ اسی سر زمین کی خاک ہے جہاں پر حسین(ع) کو شھید کیا جائے گا۔
رسول خدا نے فرمایا کہ آج میرے پاس ایسا فرشتہ آیا ہے جو پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ اسی فرشتے نے بتایا ہے کہ آپکے بیٹے حسین کو شھید کر دیا جائے گا۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔۔۔۔۔
اس روایت کی سند صحیح ہے احمد بن حنبل اور دوسرے محدثین نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔
شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي الوفاة:748هـ، تاريخ الإسلام ج 5 ص 102،دار النشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت - 1407هـ - 1987م، الطبعة: الأولى، تحقيق: د. عمر عبد السلام تدمرى
یہ روایت چند دوسری اہل سنت کی کتب میں بھی ذکر ہوئی ہے:
محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي أبو عبد الله الوفاة: 748، سير أعلام النبلاء ج 3 ص 288، دار النشر: مؤسسة الرسالة - بيروت - 1413، الطبعة: التاسعة، تحقيق: شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي
أحمد بن علي بن المثنى أبو يعلى الموصلي التميمي الوفاة: 307، مسند أبي يعلى ج 1 ص 298 دار النشر: دار المأمون للتراث - دمشق - 1404 - 1984، الطبعة: الأولى، تحقيق: حسين سليم أسد
أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد بن أحمد الحنبلي المقدسي الوفاة: 643، الأحاديث المختارة ج 2 ص 375 دار النشر: مكتبة النهضة الحديثة - مكة المكرمة - 1410، الطبعة: الأولى، تحقيق: عبد الملك بن عبد الله بن دهيش
إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء الوفاة: 774، البداية والنهاية ج 8 ص 199 دار النشر: مكتبة المعارف - بيروت
علي بن أبي بكر الهيثمي الوفاة: 807، مجمع الزوائد ج 9 ص 187 دار النشر: دار الريان للتراث/دار الكتاب العربي - القاهرة , بيروت – 1407
الحافظ جلال الدين عبد الرحمن السيوطي الوفاة: 19/جمادى الاولى / 911هـ جامع الأحاديث ج 5 ص 338 ، دار النشر:
محمد بن يوسف الصالحي الشامي الوفاة: 942هـ، سبل الهدى والرشاد ج 11 ص 74 دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1414هـ، الطبعة: الأولى، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض
علاء الدين علي المتقي بن حسام الدين الهندي الوفاة: 975هـ، دار النشر: كنز العمال ج 12 ص 58 دار الكتب العلمية - بيروت - 1419هـ-1998م، الطبعة: الأولى، تحقيق: محمود عمر الدمياطي
تفسیر مجمع البیان میں اس آیت:
<فما بکت علیھم السماء وا لارض>
کے ضمن میں مرحوم طبرسی نے فرمایا: دو آدمیوں جناب یحیی اور حضرت امام حسین (ع) کے لیے آسمانوں اور فرشتوں نے چالیس دن تک گریہ کیا ہے۔ اور اسی تفسیر میں آیا ہے: سورج طلوع اور غروب کے وقت چالیس دن تک سرخ حالت میں رہا ہے ۔
ابن شہر آشوب کے مناقب میں یوں آیا ہے:
بکت السماء علی الحسین (ع) اربعین یوماً۔
تفسیر صافی، سورہ دخان
نتیجہ کلی:
پس ثابت ہوا کہ امام حسین(ع) پر گریہ زمین، آسمان،ملائکہ اور انبیاء نے کیا ہے اور سب سے پہلے حضرت آدم(ع) نے امام حسین(ع) پر گریہ و عزاداری کی ہے۔
التماس دعا