2024 March 19
پیغام جاویدانی عاشورا
مندرجات: ٣٤٣ تاریخ اشاعت: ٢٠ September ٢٠١٧ - ٠٧:٢٦ مشاہدات: 3906
یاداشتیں » پبلک
پیغام جاویدانی عاشورا

 کربلا کے واقعہ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے اقوال پر نظر ڈالنے سے، عاشورا کے جو پیغام ہمارے سامنے آتے ہیں ان کو ہم اس طرح بیان کر سکتے ہیں:

1-              پیغمبر (ص) کی سنت کو زندہ کرنا:

بنی امیہ یہ کوشش کر رہے تھے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی سنت کو مٹا کر زمانہٴ جاہلیت کے نظام کو جاری کیا جائے۔ یہ بات حضرت کے اس قول سے سمجھ میں آتی ہے کہ ”میں عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے یا فساد پھیلانے کے لئے نہیں جا رہا ہوں۔ بلکہ میرا مقصد امت اسلامی کی اصلاح اور اپنے جد پیغمبر اسلام (ص) و اپنے بابا علی بن ابی طالب کی سنت پر چلنا ہے۔

2-              باطل کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو الٹنا:

بنی امیہ اپنے ظاہری اسلام کے ذریعہ لوگوں کو دھوکہ دے رہے تھے۔ واقعہ کربلا نے ان کے چہرے پر پڑی اسلامی نقاب کو الٹ دیا،  تا کہ لوگ ان کے اصلی چہرے کو پہچان سکے۔ ساتھ ہی ساتھ اس واقعہ نے انسانوں و مسلمانوں کو یہ درس بھی دیا کہ انسان کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے اور دین کا لبادہ پہنے فریبکار لوگوں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔ 

3-              امر بالمعروف کو زندہ رکھنا:

حضرت امام حسین علیہ السلام کے ایک قول سے معلوم ہوتا ہے، کہ  آپ کے اس قیام کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر تھا ۔ آپ نے ایک مقام پر بیان فرمایا کہ میرا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔ ایک دوسرے مقام پر بیان فرمایا کہ : اے الله! میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کو بہت دوست رکھتا ہوں۔

4-              حقیقی اور ظاہری مسلمانوں کے فرق کو نمایاں کرنا:

 آزمائش کے بغیر سچے مسلمانوں، معمولی دینداروں اور ایمان کے جھوٹے دعویداروں کو پہچاننا مشکل ہے اور جب تک ان سب کو نہ پہچان لیا جائے، اس وقت تک اسلامی معاشرہ اپنی حقیقت کا پتہ نہیں لگا سکتا۔ کربلا ایک ایسی آزمائش گاہ تھی جہاں پر مسلمانوں کے ایمان، دینی پابندی  و حق پرستی کے دعووں کو پرکھا جا رہا تھا۔ امام علیہ السلام نے خود فرمایا کہ لوگ دینا پرست ہیں جب آزمائش کی جاتی ہے تودیندار کم نکلتے ہیں۔

5-              عزت کی حفاظت کرنا:

حضرت امام حسین علیہ السلام کا تعلق اس خاندان سے ہے، جو عزت و آزادی کا مظہر ہے۔ امام علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے، ایک ذلت کے ساتھ زندہ رہنا اور  دوسرا  عزت کے ساتھ موت کی آغوش میں سو جانا۔ امام نے ذلت کو پسند نہیں کیا اور عزت کی موت کو قبول کر لیا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ :  ابن زیاد نے مجھے تلوار اور ذلت کی زندگی کے بیچ لا کھڑا کیا ہے، لیکن میں ذلت کو قبول کرنے والا نہیں ہوں۔

6-              طاغوتی طاقتوں سے  جنگ:

 امام حسین علیہ السلام کی تحریک طاغوتی طاقتوں کے خلاف تھی۔ اس زمانے کا طاغوت یزید بن معاویہ تھا۔ کیونکہ امام علیہ السلام نے اس جنگ میں پیغمبر اکرم (ص) کے قول کو سند کے طور پر پیش کیا ہے کہ ” اگر کوئی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے جو الله کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کر رہا ہو،  تو اس پر لازم ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے الله کی طرف سے سزا دی جائے گی۔

7-              دین پر ہر چیز کو قربان کردینا چاہئے:

دین کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اسے بچانے کے لئے ہر چیز کو قربان کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں ،بھائیوں اور اولاد کو بھی قربان کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے امام علیہ السلام نے شہادت کو قبول کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی اہمیت بہت زیادہ اور وقت پڑنے پر  اس کو بچانے کے لئے سب چیزوں کو قربان کردینا چاہئے۔

8-              شہادت کے جذبے کو زندہ رکھنا:

جس چیز پر دین کی بقا، طاقت، قدرت و عظمت کا دارو مدار ہے  وہ جہاد اور شہادت کا جذبہ ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ دین فقط نماز روزے کا ہی نام نہیں ہے یہ خونی قیام کیا ،تا کہ عوام میں جذبہٴ شہادت زندہ ہو اور عیش و آرام کی زندگی کا خاتمہ ہو۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد  فرمایا کہ:  میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں۔ آپ کا یہ جملہ دین کی راہ میں شہادت کے لئے تاکید ہے۔ 

9-              اپنے ہدف پر آخری دم تک  باقی رہنا:

السلام نے امت مسلمہ کو ایک بہترین درس  یہ دیا کہ حریم مسلمین سے تجاوز کرنے والوں کے سامنے ہرگز نہیں جھکنا  چاہئے۔ جو چیز عقیدہ کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، وہ ہے اپنے  ہدف پر آخری دم تک باقی رہنا۔ امام علیہ السلام نے عاشورا کی پوری تحریک میں یہ ہی کیا ،کہ اپنی آخری سانس تک اپنے ہدف پر باقی رہے اور دشمن کے سامنے  تسلیم نہیں ہوئے۔ امام علیہ

10-        جب حق کے لئے لڑو تو ہر طبقہ زندگی سے کمک حاصل کرو:

کربلا سے، ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر معاشرے میں اصلاح یا انقلاب لانا منظور نظر ہو تو معاشرے میں موجود ہر طبقہ وندگی سے مدد حاصل کرنی چاہئے  تا کہ ہدف میں کامیابی حاصل ہو سکے۔ امام علیہ السلام کے ساتھیوں میں جوان، بوڑھے، سیاہ سفید، غلام آزاد سبھی طرح کے لوگ موجود تھے۔

11-        افراد کی قلت سے گھبرانا نہیں چاہئے :

کربلا ،امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کی مکمل طور پر جلوہ گاہ ہے کہ ”حق و ہدایت کی راہ میں افراد کی تعداد کی قلت  سے نہیں گھبرانا چاہئے۔“  جو لوگ اپنے ہدف پر ایمان رکھتے ہیں ان کے پیچھے بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے ساتھیوں کی تعداد کی قلت سے نہیں گھبرانا چاہئے اور نہ ہی ہدف سے پیچھے ہٹنا چاہئے۔ امام حسین علیہ السلام اگر تنہا بھی رہ جاتے تب بھی حق سے دفاع کرتے رہتے اور اس کی دلیل آپ کا وہ قول ہے جو آپ نے شب عاشور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ آپ سب جہاں چاہو چلے جاؤ یہ لوگ فقط میرے دشمن ہیں اور صرف مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں۔

12-        ایثار کے ساتھ معاشرے کی تربیت کو ملا دینا:

کربلا ،تنہا جہاد و شجاعت کا میدان نہیں ہے بلکہ سماجی تربیت و  وعظ و نصیحت کا مرکز بھی ہے۔ تاریخ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کا یہ پیغام  پوشیدہ ہے۔ امام علیہ السلام نے شجاعت، ایثار اور اخلاص کے سائے میں اسلام کو نجات دینے کے ساتھ لوگوں کو بیدار کیا اور ان کی فکری و دینی سطح کو بھی بلند کیا،تا کہ یہ سماجی و جہادی تحریک اپنے نتیجہ کو حاصل کر کے نجات بخش بن سکے۔

13-        تلوار پر خون کو فتح:

مظلومیت سب سے اہم اسلحہ ہے۔ یہ احساسات کو جگاتی ہے اور واقعہ کو جاودانی بنا دیتی ہے۔ کربلا میں ایک طرف ظالموں کی ننگی تلواریں تھی اور دوسری طرف مظلومیت۔ ظاہراً امام علیہ السلام اور آپ کے ساتھی شہید ہو گئے۔ لیکن کامیابی انھیں کو حاصل ہوئی۔ ان کے خون نے جہاں باطل کو رسوا کیا وہیں حق کو مضبوطی بھی عطا کی۔ جب مدینہ میں حضرت امام سجاد علیہ السلام سے ابراہیم بن طلحہ نے سوال کیا کہ کون جیتا اور کون ہارا؟  تو آپ نے جواب دیا کہ اس کا فیصلہ تو نماز کے وقت ہوگا۔

14-        پابندیوں سے نہیں گھبرانا چاہئے:

 کربلا کا ایک درس یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنے عقید و ایمان پر قائم رہنا چاہئے۔ چاہے تم پر فوجی و اقتصادی پابندیاں ہی کیوں نہ لگی ہوں۔ امام علیہ حسین السلام پر تمام پابندیاں لگی ہوئی تھی۔ کوئی آپ کی مدد نہ کر سکے اس لئے آپ کے پاس جانے والوں پر پابندی تھی۔ نہر سے پانی لینے پر پابندی تھی۔ مگر ان سب پابندیوں کے ہوتے ہوئے بھی کربلا والے نہ اپنے ہدف سے پیچھے ہٹے اور نہ ہی دشمن کے سامنے جھکے۔ 

15-        ہدف کے حصول میں حکمت عملی لازم ہے:

حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی پوری تحریک کو ایک نظام و حکمت عملی کے تحت چلایا۔ جیسے ،بیعت سے انکار کرنا، مدینہ کو چھوڑ کر کچھ مہینے مکہ میں رہنا، کوفہ و بصرے کی کچھ شخصیتوں کو خط لکھ کر انہیں اپنی تحریک میں شامل کرنے کے لئے دعوت دینا۔ مکہ، منیٰ اور کربلا کے راستے میں تقریریں کرنا وغیرہ۔ ان سب کاموں کے ذریعہ امام علیہ السلام اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ عاشورا کے قیام کا کوئی بھی جز بغیر تدبیر کے پیش نہیں آیا۔ یہاں تک کہ عاشور کی صبح کو امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کے درمیان جو ذمہ داریاں تقسیم کی تھیں وہ بھی ایک نظام کے تحت تھیں۔

16-        خواتین کے کردار سے استفادہ:

خواتین نے اس دنیا کی بہت سی تحریکوں میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر پیغمبروں کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو حضرت عیسیٰ ، حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم علیہم السلام یہاں تک کہ پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے کے واقعات میں بھی خواتین کا کردار بہت موثر رہا ہے۔ اسی طرح کربلا کے واقعات کو جاوید بنانے میں بھی حضرت زینب سلام الله علیہا، حضرت سکینہ علیہا السلام، اسیران اہل بیت اور کربلا کے دیگر شہداء کی بیویوں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی بھی تحریک کے پیغام کو عوام تک پہونچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک اسیران کربلا نے  ہی پہنچایا ہے۔ 

17-        میدان جنگ میں بھی  یاد  خدا:

جنگ کی حالت میں بھی الله کی عبادت اور اس کے ذکر کو نہیں بھولنا چاہئے۔  میدان جنگ میں بھی عبادت و یاد خدا ضروری ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور دشمن سے جو مہلت لی تھی، اس کا مقصد تلاوت قرآن کریم ، نماز اور الله سے مناجات تھا۔ اسی لئے اپنے فرمایا تھاکہ میں نماز کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں۔ شب عاشور آپ کے خیموں سے پوری رات عبادت و مناجات کی آوازیں آتی رہیں۔ عاشورا کے دن امام علیہ السلام نے نماز ظہر کو اول وقت پڑھا۔ یہی نہیں بلکہ اس پورے سفر میں حضرت زینب سلام الله علیہا کی نماز شب بھی قضا نہ ہو سکی ، چاہے آپ کو بیٹھ کر ہی نماز کیوں نہ پڑھنی پڑی ہو۔

18-        اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا:

سب سے اہم بات انسان کا اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ چاہے اس ذمہ داری کو نبہانے میں انسان کو ظاہری طور پر کامیابی نظر نہ آئے۔ اور یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی سب سے بڑی کامیابی اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا ہے ، چاہے اسکا نتیجہ کچھ بھی ہو۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے بھی، اپنے کربلا کے سفر کے بارے میں یہی فرمایا تھا کہ جو الله چاہے گا بہتر ہو گا، چاہے میں قتل ہو جاؤں یا مجھے (بغیر قتل ہوئے) کامیابی مل جائے۔

19-        مکتب کی بقاء کے لئے قربانی:

دین کے معیار کے مطابق، مکتب کی اہمیت، پیروان مکتب سے زیادہ ہے۔ مکتب کو باقی رکھنے کے لئے حضرت علی علیہ السلام و حضرت امام حسین علیہ السلام جیسی معصوم شخصیتوں نے بھی اپنے خون و جان کو فدا کیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام جانتے تھے کہ یزید کی بیعت  دین کے اہداف کے خلاف ہے لہٰذا بیعت سے انکار کر دیا اور دینی اہداف کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کردی، اور امت مسلمہ کو سمجھا دیا کہ مکتب کی بقا کے لئے کوئی بھی قربانی دینا پڑے تو ہمیشہ تیار رہنا۔

التماس دعا





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی