2024 March 19
اہل بیت کی عظمت قرآن کی روشنی میں
مندرجات: ٣٤١ تاریخ اشاعت: ١٤ October ٢٠١٦ - ٠٩:٢٢ مشاہدات: 26092
یاداشتیں » پبلک
اہل بیت کی عظمت قرآن کی روشنی میں

بہت ہی اختصار کے ساتھ اہل بیت کی شان میں کچھ آیات کریمہ کو اہل سنت کی معتبر تفاسیر سے نقل کرتاہوں                                اہل بیت کے بارے میں اہل سنت کے مفسرین نے اپنی تفاسیر میں دو قسم کی آیات بیان کی ہیں:

١)بعض آیات میں تمام اہل بیت کے فضائل و مناقب بیان ہوئے ہیں۔

٢)بعض آیات میں اہل بیت میں سے ہر ایک کی فضیلت کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔

لہٰذا ہم سب سے پہلے ان آیات کی طرف اشارہ کریں گے جن میں تمام اہل بیت و عترت کی فضیلت بیان ہوئی ہے:

١)       اہل بیت کی دوستی میں نیکیوں کا دس گنا ثواب

خدا نے فرمایا:من جاء بالحسنۃ فلہ عشرامثالہا ومن جاء بالسیئۃ فلا یجزی الّا مثلہا وہم لا یظلمون۔

جو شخص خدا کے پاس ایک نیکی لے کر آیااسے اس کا دس گنا ثواب عطا ہوگا اور جو شخص بدی لے کر آئے گا تو اس کی سزا اس کو بس اتنی دی جائے گی اوران پرظلم نہیں کیا جائے گا۔

انعام/١٦٠

تفسیر آیہ:

اگرچہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کے متعلق شیعہ و سنی کی کتابوں میں کئی روایات کو ذکر کیا گیا ہے لیکن ان کے بارے میں مرحوم علامہ سیّدمحمّدحسین طبا طبائی (رح) مفسر قرآن اور عارف زمان نے فرمایا:

' 'ھناک روایات کثیرۃ فی معنی قولہ:من جاء بالحسنۃ.....رواھا الفریقان واوردوھا فی تفسیر الآیۃ غیر انھا واردۃ فی تشخیص المصادیق من صلوۃ......... ' '

 یعنی اس آیت کریمہ کی تفسیر کے بارے میں فریقین نے کئی روایات نقل کی ہیں لیکن ساری روایات آیت کے مصادیق کی تشخیص جو صوم و صلوۃ وغیرہ                                                              ہیں کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

المیزان ج ٧ ص٣٩٢

لیکن جناب فرمان علی نے اپنے ترجمہ قرآن میں ایک روایت نقل کی ہے جس کایہاں ذکر کرنا زیادہ مناسب ہے: ' 'حضرت علی -نے فرمایا:

الحسنۃ حبّنا اہل البیت و السیئۃ بغضنا من جاء بھااکبّ اللہ علی وجھہ فی النار۔

ترجمہ فرمان علی [رح] حاشیہ ٣ ص٦٠٥

نیکی سے مراد ہم اہل بیت کی دوستی اور بدی سے ہم سے کی جانے والی دشمنی ہے،لہٰذا جو شخص ہم سے دشمنی رکھے گا خدا اسے منہ کے بل جہنم میں جھونک دے گا۔

مذکورہ روایت کی بنا پرآیت سے اہل بیت کی عظمت اور فضیلت واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی محبت اور دوستی میں انجام دی ہوئی نیکیوں کا اجر و ثواب ان کی دوستی اور محبت کے بغیر انجام دی ہوئی نیکیوں کے اجر و ثواب سے کافی فرق رکھتا        ہے،اگرچہ نیکیوں کی نوعیت کمیت و کیفیت کے حوالے سے ایک ہی کیوں نہ ہواسی لئے کچھ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل بیت کی محبت و دوستی کے بغیر کوئی بھی نیکی خدا کے یہاں قابل قبول نہیں ہے لیکن اگر کسی کا عقیدہ یہ ہو کہ اہل بیت کی محبت و دوستی کے بغیر بھی خدا ہر نیکی کو قبول فرماتا ہے تواس کا ثواب یقیناکم ہے۔

٢)اہل بیت کے واسطے خدا،عذاب نازل نہیں کرتا

وما کان اللّٰہ لیعذّبھم وانت فیھم وما کان اللّٰہ معذّبھم وھم یستغفرون۔

انفال/٣٣

خدا ان پر اس وقت تک عذاب [نازل]نہ کرے گا جب تک پیغمبر (ص)ان کے درمیان ہیں اورخدا ایسا بھی نہیں ہے کہ لوگ اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہوں اور وہ ان پر عذاب نازل کرے۔

تفسیر آیہ:

علامہ ابن حجر مکّی نے صواعق محرقہ نامی کتاب کواہل تشیع اور امامیہ مذہب کے عقائد کوباطل قرار دینے اور ان کی رد میں لکھی ہے۔لیکن اس کے باوجود علامہ فرمان علی [رح] نے اس آیت کی تفسیر میں صواعق محرقہ سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

ابن حجر مکّی نے اس آیت کو فضائل اہل بیت بیان کرنے والی آیات میں شمارہ کیا ہے،چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت رسول خدا ؐنے اس مطلب کی طرف اس طرح اشارہ فرمایا ہے کہ جس طرح میں اہل زمین کی پناہ کا باعث ہوں اسی طرح میرے اہل بیت بھی ان کے امان اور عذاب الہٰی سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہیں۔

صواعق محرقہ نقل از ترجمہ قرآن،فرمان علی [رح] حاشیہ٣،ص٢٤٥

ایسے متعصب دانشوروں کے ہاتھوں اہل بیت کی حقانیت بیان کرنے والی روایت کا درج ہونا ایک معجزہ ہے۔ معجزہ اس کو کہا جاتا ہے جو ہمارے مذہب کی ردّ میں لکھی ہوئی کتاب میں ہی ہماری حقانیت ثابت کرنے والی روایات منقول ہوں۔

٣)اہل بیت درخت طوبیٰ کے مصداق ہیں

الذین آمنوا وعملوالصٰلحٰت طوبی لھم و حسن مآب۔

' 'جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے کام انجام دیئے ان کے واسطے  [بہشت میں]طوبی، خوشحالی اور اچھا انجام ہے۔ ' '

الرعد /٢٩۔

تفسیر آیہ:

ثعالبی نے جو اہل سنت کے معروف ومشہور علماء میں شمار کئے جاتے ہیں اپنی سند کے ساتھ کلبی سے، کلبی نے ابی صالح سے وہ ابن عباس -سے روایت کرتے ہیں:

طوبیٰ شجرۃ اصلہا فی دار علی فی الجنۃ و فی دار کل مومن فیھا غصن۔

طوبی جنت میں ایک درخت کا نام ہے جس کی جڑیں جنت میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر میں ہیں اور اس کی شاخیں جنت میں ہر مومن کے گھروں میں پھیلی ہوئی ہیں۔

المیزان ج ١١ ص٣٦٩،در منثورج ٤ص٣١٣

ابن خاتم نے ابن سیرین سے روایت کی ہے کہ طوبی ایک جنت کے درخت کا نام ہے جس کی جڑیں علی ابن ابی طالب -کے گھر میں ہیں اور جنت میں کوئی ایسا گھر نہیں ہے جس میں اس درخت کی شاخوں میں سے ایک شاخ نہ ہو۔

در منثور ج ٤ص٣٢١

٤) اہل بیت حقانیت ثابت کرنے کےلئے بہترین وسیلہ ہیں

چاہے نبی(ص) اور امام(ع) کی حقانیت کا اثبات ہو یا کسی اور مسئلہ کی حقانیت کا ثبوت اس کے لئے بہترین دلیل اہل بیت ہیں چنانچہ خدا نے حضر ت رسول اکرم (ص) کی حقانیت ثابت کرتے ہوئے فرمایا:

فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ۔

آل عمران 61

پھرجب تمھارے پاس علم(قرآن)آیااس کے بعدبھی اگر تم سے کوئی نصرانی عیسی(ع)کے بارے میں لجاجت کرے تو کہو کہ ہم اپنے بیٹوں کو بلائں گے تم اپنے بیٹوۂبلاو ہم اپنی عورتوں کو بلائں گے تم اپنی عورتوں کو بلاو ہم اپنی جانوں کو بلائںگے تم اپنی جانوں کو بلاو پھر ہم سب مل کر(خدا کی بارگاہ میں )ھم دعا کرتے ہیں پھر جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہو۔

تفسیر آیہ

آیہ کی شان نزول کے بارے میں فریقین کا اجماع ہے

کہ یہ آیہ پنجتن پاک(ع)کی شان میں نازل ہوئی ہے -جیسا کی علامہ سیوطی نے اس آیہ کی شان نزول اس طرح بیان کیا ہے:جب عاقب اور سید اوردیگر نجران کے بزرگو ں پر مشتمل ایک وفد کو پیغمبر اکرم(ص)نے کئی دفعہ حضرت عیسی (ت) کے بارے میں سمجھایا لیکن ایک بھی نہیں سنا آخر کار رسول اکرم(ص) نے ان سے مباہلہ کرنے کاوعدہ فرمایاجس کے     دوران آنحضرت (ص)انفسنا کی جگہ حضرت علی -ابنائنا کی جگہ حسنین +اور نسائنا کی جگہ حضرت فاطمہ زہرا =کو لے کر میدان میں نکلے،اس وقت یہ آیت   شریفہ نازل ہوئی۔چنانچہ جابر سے یوں روایت کی گئی ہے:

فیہم نزلت، انفسنا و انفسکم رسول اللہ وعلی وابنائنا الحسن والحسین ونسائنا فاطمۃ۔

آیت شریفہ اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے،انفسنا سے پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی -،ابنائنا سے امام حسن و حسین (ع) جبکہ نسائنا سے حضرت فاطمہ زہرا = مراد ہے۔

نیز آیت کی شان نزول کے متعلق تفسیر بیضاوی اور شواہد التنزیل میں کئی روایات نقل ہوئی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے :
آیت شریفہ اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے جس میں کسی قسم کی تردید اور شک کی گنجائش نہیں ہے۔لہٰذا اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف چند                                   ا یک روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

تفسیر بیضاوی اور شواہد التنزیل[ مجلد ١ص١٢٠۔١٢٩ ]

٥)اہل بیت تمام عالم سے افضل ہیں

ان اللہ اصطفیٰ آدم و نوحاً وآل ابراہیم و آل عمران علیٰ العٰلمین۔

آل عمران/٣١

' 'بے شک خدا نے آد م -ونوح -اور خاندان ابراہیم -و خاندان عمران -کو سارے جہاں سے منتخب کیا ہے۔ ' '

تفسیر آیہ:

ابن عباس سے جلال الدین سیوطی نے درمنثور میں روایت کی ہے:

فی قولہ و آل ابراہیم.....قال ھم المومنون من آل ابراہیم و آل عمران و آل یٰس و آل محمد۔

در منثور،ج٢،ص١٨٠

آیت سے ابراہیم(ع)، عمران ،یاسین اور حضرت محمد(ص) کے خاندان کے مومن مراد ہیں۔

نیز روایت کی گئی ہے کہ مامون نے امام رضا -سے پوچھا:

ھل فضل اللہ العترۃ علیٰ سائر الناس فقال ابوالحسن انّ اللہ ابان فضل العترۃ علیٰ سائر الناس فی محکم کتابہ فقال المأمون این ذالک فی کتاب اللہ؟فقال لہ الرضا علیہ السلام :فی قولہ انّ اللہ اصطفیٰ آدم و نوحاً و آل ابراہیم و آل عمران علیٰ العالمین۔

المیزان ج ٣ ص١٦٨۔در منثور ج٢ص ١٨١۔

کیاخدا نے تمام انسانوں پراہل بیت کو فضیلت دی ہے؟

امام -نے فرمایا:ہاں خدا نے اپنی کتاب میں واضح طور پر اہل بیت کوتمام انسانوں سے افضل قرار دیا ہے۔

مامون نے عرض کیا:یا ابالحسن-!یہ بات خدا کی کتاب میں کہاں ہے؟

اس وقت امام علیہ السلام نے آیت انّ اللہ اصطفیٰ...کی تلاوت فرمائی۔

نیز امام محمد باقر -سے روایت کی گئی ہے کہ:

انّہ تلا ہٰذہ الآیۃ.......فقال نحن منھم و نحن بقیّۃ تلک العترۃ۔

المیزان ج٣،ص١٦٨۔در منثور ج٢ص١٨٢۔

آپ- نے اس آیت کی تلاوت کے بعدفرمایا: ہم انہیں میں سے ہیں اور اہل بیت میں سے جو زندہ ہیں وہ ہم ہیں۔

تفسیر ثعالبی اور دیگر کتب تفاسیر میں اہل سنت کے بڑے مفسرین نے آل ابراہیم کی تفسیر کے بارے میں کئی روایات بیان کی ہیں جن سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ آل ابراہیم سے[جو تمام عالم سے افضل ہیں]اہل بیت رسول مراد ہیں۔لہٰذا مذکورہ تفسیر اور روایات کی رو سے کہہ سکتے ہیں کہ پورے عالم سے خدا نے اہل بیت رسول کو افضل قرار دیا ہے۔

در منثور اور شواہد التنزیل کا ضرور مطالعہ کریں ۔

٦)اہل بیت پریشانیوںسے نجات کا ذریعہ ہیں

ابن مردویہ نے حضرت علی -سے روایت کی ہے:

انّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لمّا نزلت ہٰذہ الآیۃ:الا بذکر اللہ.....قال ذالک من احبّ اللہ ورسولہ واحب اہل بیتی صادقاً غیر کاذباً و احبّ المومنین شاہداً و غائباً الا بذکر اللہ یتحابون۔

المیزان ج١١ ص٢٦٧۔در منثور ج٤،ص ٢١٢۔

جب یہ آیت شریفہ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: اس سے مراد خدا اوراس کے رسول (ص)اور ان کے اہل بیت سے سچی دوستی رکھنے والے لوگ ہیں اور وہ لوگ، مومنین سے بھی ان کی موجودگی و عدم موجودگی میں محبت رکھتے ہیں،وہی لوگ ہیں جو خدا کی یاد میں ایک دوسرے سے دوستی کے خواہاں ہیں۔

تفسیر عیاشی میں ابن عباس -سے روایت کی ہے:

انّہ قال رسول اللہ الذین آمنوا و تطمئن قلوبھم یذکر اللہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ثم قال اتدری یابن ام سلمۃ من ھم؟قلت من ھم یا رسول اللہ؟قال نحن اہل البیت و شیعتنا[١]

المیزان ج١١ ص٣٦٧کشاف ج٢ ص ٣١١۔

پیغمبر اکرم (ص)نے اس آیت کی تلاوت فرمائی پھر مجھ سے فرمایا :اے ام سلمہ کے فرزند کیا تم جانتے ہو کہ وہ کون ہیں،میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ(ص)!وہ کون لوگ ہیں؟فرمایا:ہم اہل بیت اور ہمارے چاہنے والے ہیں۔

اس روایت اور تفسیر سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ دلوں کے اضطراب اور پریشانی سے نجات ملنے کا ذریعہ اہل بیت ہیں،کیونکہ اہل بیت کی سیرت اور حقیقت کو صحیح معنوں میں درک کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ حضرات روحانی و نفسیاتی امراض اور اضطراب و پریشانی کو ختم کرنے والے طبیب ہیں یعنی روحانی امراض کے طبیب اہل بیت ہیں۔

٧)اہل بیت دنیا و آخرت میں سعادت کا ذریعہ ہیں

وقولوا حطّۃ نغفرلکم خطٰیاکم و سنزید المحسنین۔

بقرۃ٥٨

' 'اور زبان سے حطہ[بخشش] کہتے رہو ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور ہم نیکی کرنے والوں کی نیکیاں بڑھا دیں گے۔ ' '

تفسیر آیہ:

ابن ابی شیبہ نے علی ابن ابی طالب -سے روایت کی ہے:

قال انّما مثلنا فی ہٰذہ الامۃ کسفینۃ نوح وکباب حطۃ فی بنی اسرائیل۔

در منثور ج ١ ص١٧٤

حضرت علی -نے فرمایا:اس امت میں ہماری مثال نوح -کی کشتی اور بنی اسرائیل میں باب حطہ کی ہے۔

یعنی امت مسلمہ کےلئے نجات اور سعادت کا ذریعہ دنیا و آخرت میں اہل بیت ہیں اور ان سے تمسک رکھنے سے دنیا میں وقار اور آخرت میں سعادت حاصل ہوگی ،کیونکہ خدا نے ان کوبشر کی سعادت اور نجات کےلئے خلق فرمایا ہے،لہٰذا  اگردنیا و آخرت میں سعادت ،اور ذلت و خواری سے نجات، نیکنام اور با بصیرت ہونے کے خواہاں ہیں تو ان کی سیرت پر چلنا چاہئے۔

٨)اہل بیت سے رجوع کرنے کا حکم

فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔

نحل/٤٣

' 'اگر تم خود نہیں جانتے ہو تو اہل الذکر [یعنی جاننے والوں]سے پوچھو۔ ' '

تفسیر آیہ:

اخرج الثعلبی عن جابر بن عبدا للہ قال:قال علی ابن ابی طالب علیہ السلام: نحن اہل الذکر۔

علامہ ثعالبی نے جابر بن عبد اللہ - سے روایت کی ہے کہ جابر نے کہا :حضرت علی - نے فرمایا :اہل الذکر سے ہم اہل بیت مراد ہیں۔

ینابیع المودۃ،ج ١ص١١٩ط:الطبعۃٰ الثانیۃمکتبۃ العرفان بیروت صیدا

نیز جابر جعفی - سے روایت کی ہے کہ آپ نے کہا:جب آیت ذکر نازل ہوئی تو حضرت علی -نے فرمایا: اس سے ہم اہل بیت مراد ہیں۔

ینابیع المودۃص ١٢٠

عن الحرث قال سألت علیاً عن ہٰذہ الآیۃ فاسئلوا اہل الذکر قال واللہ انا نحن اہل الذکر نحن اہل العلم و نحن معدن التاویل والتنزیل و قد سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول انا مدینۃ العلم و علی بابھا فمن اراد العلم فلیاتہ من بابہ۔

حرث -سے روایت کی ہے:اس نے کہا: میں نے حضرت علی - سے آیت ذکر کے بارے میں پوچھا تو آپ- نے فرمایا:خدا کی قسم اہل الذکر اور اہل العلم سے ہم اہل بیت مراد ہیں ہم ہی تنزیل اور تاویل کا سر چشمہ ہیں اور بے شک میں نے پیغمبر اسلام (ص)سے سنا ہے کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا:میں علم کا شہر اور علی -اس کا دروازہ ہے،پس جو علم کاخواہاں ہے اسے چاہئے کہ وہ علم کے دروازے سے داخل ہو۔

شواہد التنزیل ج١ ص ٣٣٤حدیث٤٥٩

نیز معاویہ بن عمار ذہبی نے امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے اس آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا:اہل الذکر سے ہم اہل بیت مراد ہیں۔

فصول المہمہ ص٣٧٤

سعید بن جبیر نے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)ؐنے فرمایا:

انّ الرجل یصلی ویصوم و یحج و یعتمر و انّہ لمنافق قیل یا رسول اللہ ! لماذا دخل علیہ النفاق؟قال:یطعن علیٰ امامہ وامامۃ من قال اللہ فی کتابہ فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔

بے شک وہ شخص جو نماز پڑھتا ہے،روزہ رکھتاہے،حج و عمرہ بھی بجالاتا ہے لیکن وہ منافق ہے۔پوچھا گیا :یا رسول اللہ(ص)! ایسے شخص پر نفاق کیسے داخل ہوا؟ آپنے فرمایا:وہ اپنے امام کو طعنہ دیتا ہے اس وجہ سے اس میں نفاق داخل ہے جبکہ اس کا امام وہ ہستی ہے جس کا تذکرہ خدا نے اپنی کتاب میں فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون سے کیا ہے۔

در منثور ج٥ ص١٢٣در منثور ج٥،ص١٢٤۔

لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی آخرت سنوارنے کی کوشش کرے اور اہل بیت سے متمسک ہو کر دنیا و آخرت دونوں کی سعادتوں سے فیض حاصل کرے۔

٩)اہل بیت ، ہدایت کا چراغ

وانّی لغفّار لمن تاب و آمن و عمل صالحاً ثمّ اہتدیٰ۔

طہ/٨٢

' 'اور میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس شخص کےلئے جو توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے اور پھر راہ ہدایت پر ثابت قدم رہے۔ ' '

تفسیر آیہ:

جمال الدین محمد بن یوسف الزرندی الحنفی نے آیت شریفہ کی تفسیر میں ایک روایت نقل کی ہے:

ثم اہتدیٰ ای ولایۃ اہل بیتہ۔ یا دوسری روایت:ثم اہتدیٰ ولایتنا اہل البیتیا تیسری روایت:ثم اہتدیٰ حب آل محمد۔

یعنی ثم اہتدیٰ سے ہم اہل بیت کی ولایت سے بہرہ مند ہونا مقصود ہے،یعنی ہدایت پانے والے وہی ہونگے جو ہماری ولایت اور سرپرستی کو مانے گا اور اہل سنت کے کئی مفسرین اور علماء نے ثم اہتدیٰ کی تفسیر میں بہت ساری روایات نقل کی ہیں۔

المیزان ج ١٦ص ٢١١ودرمنثور ج٦،ص ٣٢١

جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ولایت اہل بیت اور ان کی سرپرستی کے بغیر ہدایت پانے کا دعویٰ سراسر غلط ہے،کیونکہ خدا کی جانب سے جوحضرات ہدایت ہی کےلئے منصوب ہوئے ہیں ان کی رہنمائی اور نمائندگی کے بغیر ہدایت پانے کا تصور ہی صحیح نہیں ہے،چاہے ہدایت تشریعی ہو یا ہدایت تکوینی۔اگرچہ ہدایت تکوینی کو ہر بشر کی فطرت میں خدا نے ودیعت فرمایا ہے لیکن صرف ہدایت تکوینی بشر کےلئے کافی نہیں ہے اور آیت کریمہ میں ہدایت سے مراد یقیناً ہدایت تشریعی ہے،کیونکہ خدا نے توبہ کرنے والے اور ایمان لے آنے والے اور عمل صالح بجا لانے والے لوگوں کا تذکرہ کرنے کے بعد ' 'ثم اھتدی ' 'فرمایاہے۔اس سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ ہدایت تشریعی کی آبیاری کےلئے ولایت اہل بیت ضروری ہے وہ اہل بیت جن کو خدا نے ہی ہر قسم کی ناپاکی اور برائی سے پاک وپاکیزہ کرکے خلق فرمایا ہے۔

لہٰذا ولایت اہل بیت کے بغیر نماز، منافق کی نماز کہلائے گی،روزہ منافق کا روزہ شمار ہوگا اور حج و عمرہ بھی منافق کا حج و عمرہ شمار ہوگا جس کا اثر وضعی شائد ہو لیکن اجر و ثواب یقیناً نہیں۔ مذکورہ آیت سے واضح ہوا کہ اعمال صالحہ کی قبولیت اور ثواب ملنے کی شرط ولایت اہل بیت ہے، اور ان کی سر پرستی کے بغیرروحانی تکامل و ترقی کا تصور کرناغلط ہے ،کیونکہ روحانی اور معنوی تکامل و ترقی اس وقت ہوسکتی ہے جب مسلمان خدا کی طرف سے منصوب شدہ ہستیوں کی سیرت پر چلے۔

١٠)اہل بیت ،پاکیزہ ترین ہستیاں ہیں

انّما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیراً ۔

الاحزاب /٣٣

' 'خدا یہ چاہتا ہے کہ اے اہل بیت رسول !تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ ' '

تفسیر آیہ:

ابن ابی شیبہ، احمد، ابن جریر، ابن المنذر ،ابن ابی حاتم طبرانی ،حاکم اور بیہقی وغیرہ نے اپنی کتابوں میں واثلہ ابن الاسقع سے روایت کی ہے،انہوں نے کہا:

جاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الیٰ فاطمۃ (ع) ومعہ حسن (ع)و حسین (ع) و علی (ع) حتیٰ دخل فادنیٰ علیاً و فاطمۃ فاجلسھما بین یدیہ و اجلس حسناً وحسیناً کل واحد منھما علیٰ فخذہ ثم لفّ علیہم ثوبہ وانا مستندیرہم ثم تلا ہٰذہ الآیۃ :انما یرید اللہ....

پیغمبراسلام (ص) حسنین(ع)اور حضرت علی -کے ہمراہ حضرت فاطمہ زہرا          کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آنحضرت (ص)نے گھر میں داخل ہونے کے بعد حضرت زہرا           اور حضرت علی - کو بلا کراپنے قریب بٹھایا اور حسن - و حسین- میں سے ہر ایک کو اپنے زانوئے مبارک پر بٹھایا پھر سب پر ایک چادر اوڑھائی اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

در منثورج٦،ص٦٠٥

دور حاضرعلم و معرفت کے حوالے سے ترقی و پیشرفت کا دور ہے،لہٰذا پڑھے لکھے لوگوں کو چاہئے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے مفسرین کی کتابوں کا بغور مطالعہ کریں ، کیونکہ اہل بیت کی معرفت،ان سے دوستی رکھنا ہر بشر کی ذمہ داری ہے۔لہٰذا اہل سنت کی تفسیروں میں اس آیت کریمہ کی شان نزول کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :

پیغمبر اسلام (ص) ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے کہ اتنے میں پیغمبر اکرم (ص) نے پنجتن پاک پر ایک بڑی چادر اوڑھا دی،پھر آ پ ؐنے اس آیت کی تلاوت فرمائی، ام سلمہ اؑم المومنین کی حیثیت سے ان کے ساتھ چادر میں جانے کی درخوا ست کرنے لگیں توپیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا تو نیکی پر ہو لیکن ان کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔       پھر آنحضرت (ص)نے فرمایا:اے خدا ! یہ میرے اہل بیت ہیں ۔

آنحضرت (ص) اس آیت کے نازل ہونے کے بعد چالیس دن تک نماز کے اوقات میں اہل بیت سے سفارش کرتے رہے کہ اے اہل بیت نماز کا وقت ہے،نماز کی حفاظت کرو۔

شواہد التنزیل ج٢ص٢٠حدیث٦٥٥

نیز ابن جریر ،حاکم اور ابن مردویہ نے سعد -سے روایت کی ہے:

قال نزل علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الوحی فادخل علیاً و فاطمۃ و ابنیھما تحت ثوبہ قال اللہم ہٰؤلآء اہلی و اہل بیتی۔

سعد -نے کہا:جب حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر وحی[یعنی آیت کریمہ]نازل ہوئی تو آپنے حضرت علی -، فاطمہ = اور ان کے بیٹوں [حسن- و حسین-] کو کسائ[چادر]کے اندر داخل کیا،پھر خدا سے دعا کی :پروردگارا!یہ میرے گھر والے ہیں،یہ میرے اہل بیت ہیں،ان کو ہر برائی سے دور رکھ۔

در منثور ج٦،ص٦٠٥

نیز ابن جریر،ابن ابی حاتم اور طبرانی، ابوسعید الخدری -سے روایت کرتے ہیں:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:نزلت ہٰذہ الآیۃ فی خمسۃ فیّ،وفی علی و فی فاطمۃ و حسن وحسین انما یرید اللہ لیذہب۔

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا کہ یہ آیت شریفہ پانچ ہستیوں کی شان میں نازل ہوئی ہے،ان میں،میں علی -،فاطمہ =، حسن -اور حسین - شامل ہیں۔

در منثور ج٦،ص٦٠٤۔

اسی طرح ابن مردویہ اور قطبیب نے ابی سعید الخدری -سے روایت کی ہے:

قال :کان یوم ام سلمۃ ام المومنین لقی اللہ علیہا فنزل جبرئیل علیہ السلام علیٰ رسول اللہ ہٰذہ الآیۃ:انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطھرکم تطھیراً،قال فدعا رسول اللہ بحسن وحسین و فاطمۃ و علی فضّمھم الیہ و نشر علیہم الثوب و الحجاب علیٰ ام سلمۃ مضروب ثم قال اللہم ہٰؤلآء اہل بیتی اللہم اذہب عنھم الرجس و طھرھم تطھیراً قالت ام سلمۃ فانا معھم یا نبی اللہ؟ قال: انت علیٰ مکانک و انک علیٰ خیرٍ۔

ابی سعید الخدری -نے کہا کہ ایک دن حضرت رسول اسلام (ص)     حضرت ام ّالمومنین ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے اتنے میں ' 'انما یرید اللہ ' ' کی آیت لے کر جبرئیل امین -نازل ہوئے،پیغمبر اکرم (ص)نے حسن- وحسین - اور فاطمہ = و علی - کو اپنے پاس بلالیا اور ان کے اوپر ایک چادر اوڑھادی اور حضرت ام سلمہ اور ان کے درمیان ایک محکم پردہ نصب کیا پھر آنحضرت (ص)نے فرمایا:اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں،ان سے ہر برائی کو دور رکھ اور انہیں اس طرح پاک و پاکیزہ قرار دے جو پاک و پاکیزہ قرار دینے کا حق ہے۔یہ سن کر جناب ام سلمہ نے درخواست کی : اے خدا کے نبی! کیا میں ان کے ساتھ ہوجاؤں؟آنحضرت (ص)نے فرمایا :تم بہترین خاتون ہو لیکن ان کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔

در منثور ج٦،ص٦٠٤۔در منثور ج٦،ص ٦٠٤وسنن ترمذی،ج٢ص١١٣۔

تحلیل

اگرچہ محققین و مفسرین نے آیت تطہیر کے بارے میں مفصل کتابیں لکھی ہیں جن میں آیت تطہیر سے متعلق مفصل گفتگو اور اس آیت پر ہونے والے اعتراضات کا جواب بھی بہتر طریقے سے دیا گیا ہے۔لیکن اہل سنت کے مفسرین نے آیت تطہیر کی شان نزول اور اس کے مصداق کو اہل بیت قرار دیا ہے۔اور اہل سنت کی کتابوں میں اس طرح کی روایات بہت زیادہ نظر آتی ہیں کہ زوجات پیغمبر (ص)میںسے ام سلمہ نے پیغمبر (ص)سے اہل بیت کے ساتھ ہونے کی کوشش کی لیکن پیغمبر (ص)نے اہل بیت کے مصداق معین کرتے ہوئے ان سے فرمایا کہ تم نیک خاتون ہو لیکن ان کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔جس سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اہل بیت اور اہل بیت رسول میں بڑا فرق ہے۔اہل بیت (ع)خدا کی طرف سے لوگوں پر حجت ہیں جبکہ اہل بیت رسول میں سے جو اہل بیت (ع)کے مصداق نہیں ہے وہ حجت خدا نہیں ہے۔لہٰذا امت مسلمہ کے درمیان یکجہتی، قرآن و سنت کی بالا دستی اور اسلام کی حفاظت کی خاطر فریقین کی کتابوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

اہم نکات:

زآیت تطہیر سے اہل بیت کی عصمت کے ساتھ ہر قسم کی پلیدی اور ناپاکی سے دور ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

ز نیز اہل بیت کائنات میں خدا کی طرف سے امین ترین ہستیاں ہونے کا علم ہوتا ہے۔

ز اگر ہم اہل سنت کی قدیم ترین تفاسیر اورکتب احادیث کا مطالعہ کریں اور ان میں منقول روایات کے بارے میں غور کریں تو بہت سارے نکات اہل بیت کے بارے میں واضح ہوجاتے ہیں۔

اہل بیت کا معنی،ٰ لغت کے حوالے سے وسیع اور عام ہے،جس میں ہر وہ فرد داخل ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ان کے عیال کی حیثیت سے زندگی گذارتا تھا۔لیکن قرآن مجیدجو آیات اہل بیت کی فضیلت اور عظمت بیان کرتی ہیں ان میں یقیناً سارے اہل بیت داخل نہیں ہیں بلکہ قرآن مجیدکی ان آیات کے مصداق صرف اہل بیت اطہار ہیں کیونکہ پیغمبر اسلام (ص)نے کئی مقامات پران آیات کے مصادیق کو بیان فرمایا ہے۔یعنی آیت مباہلہ[١]،آیت تطہیر[٢]،آیت مودّت[٣]،آیت اہل الذکر[٤]، وغیرہ کے نزول کے وقت ان کے مصادیق اہل بیت کو معین فرما کر کہا:اے اللہ!ہر نبی کے اہل بیت ہوا کرتے ہیں،لیکن میرے اہل بیت یہی ہستیاں ہیں ان کو ہر قسم کی پلیدی اور شر سے بچائے رکھ۔کبھی اہل بیت کو معین کرکے ان پر چادر ڈال دیتے تھے جس کا فلسفہ یہ تھا کہ دنیا والے اہل بیت (ع)میں ازواج رسول (ص) اور دیگر ذرّیت کو شامل کرکے آیت تطہیر اور آیت مباہلہ جیسی آیات ان پر تطبیق نہ کرسکیں۔

[١]آل عمران آیت٦١

[٢]الأحزاب آیت٣٣

[٣]الشوری آیت٢٣

[٤]النحل آیت٤

اگر سنن ترمذی، در منثور ، شواہد التنزیل و صواعق محرقہ جیسی کتابوں کا مطالعہ کریں تو بہت سارے شبہات کا جواب بآسانی مل سکتا ہے۔اور اہل بیت ؑ[کہ جن کی عظمت کو خدا نے

' 'من جاء بالحسنۃ ' '،آیت مباہلہ،یا ' 'فتلقیٰ آدم من ربّہ کلمات ' ' یا ' 'کونوا مع الصادقین ' ' یا ' 'مع الشہدائ ' ' یا ' 'اطیعوا ' 'کی شکل میں ذکر کیا ہے]کی کمیت اور تعدادبخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ حضرت عائشہ اورحضرت ام سلمہ ام المومنین ،ابی سعید الخدری -سے،وہ انس ابن مالک اور برابن عاذب اور جابر بن عبد اللہ - وغیرہ سے روایت نقل کرتے ہیں:

' 'انس بن مالک نے کہا:جس وقت آیت تطہیر نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (ص) چھ ماہ تک نماز صبح کے وقت حضرت زہرا =کے گھر تشریف لاتے رہے اور آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے رہے،اورساتھ ہی فرماتے تھے:اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔اے میرے اہل بیت ! نماز کا وقت ہوچکا ہے نماز کی حفاظت کرو۔

۔در منثورج٧ص٢١٤،شواہد التنزیل ج ٢ ص١٢حدیث٦٣٨

ان روایات سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ حقیقی اسلام کے محافظ اہل بیت ہی ہیں،چونکہ پیغمبر اکرم (ص)کا چھ ماہ تک مسلسل حضرت زہراء کے گھر پر تشریف لے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ حقیقی محافظ وہی ہستیاں ہیں۔

نیز جابر -سے یہ روایت کی گئی ہے:پیغمبر اکرم (ص)نے حضرت علی –ئ حضرت فاطمہ زہرا =اور امام حسن -و حسین- کو اپنے قریب بلا کر ان پر ایک بڑی چادر ڈال دی،پھر فرمایا:                                                 اللہم ہٰؤلآء اہل بیتی۔

خدایا !یہ میرے اہل بیت ہیں ان کو ہر برائی سے دور رکھ اور ان کو اچھی طرح پاک و پاکیزہ قرار دے۔

پنجتن پاک کو الگ کرکے ایک چادر میں داخل کرنے کا فلسفہ اور حقیقت یہ ہے کہ آنے والے لوگ یہ توہم نہ کریں کہ اہل بیت میں دوسرے لوگ بھی شامل ہیں۔

نیز حضرت عائشہ سے روایت ہے:                 حضرت عائشہ نے کہا:ایک دن پیغمبر اکرم (ص) اپنے دوش پر ایک اون سے بنی ہوئی کالی چادررکھ کرگھرسے نکلے اور حسن- اور حسین- اور حضرت فاطمہ= اور حضرت علی - کو اپنے پاس بلایا جب وہ حضرات آپکے قریب آگئے تو انہیں ایک چادر کے اندر داخل کردیا اور پھر فرمایا:انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس....                          شواہد التنزیل ج ٢ ص١٦حدیث٦٤٧

اس روایت میں بھی اہل بیت کو ایک چادر میں داخل کرنے کی بات ہوئی ہے۔

پس بخوبی نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ اہل بیت کو الگ کرکے رسول اسلام (ص) یہ بتلا گئے کہ دنیا والو ان کی طہارت اور پاکیزگی پر شک نہ کرنا،کیونکہ یہ اہل بیت رسول ہیں اور ان سے ہر پلیدی کو دور رکھا گیا ہے،اور ان کی تعداد میں بھی کسی کو شک کرنے یا کسی غیر کو داخل کرکے تعدادبڑھانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

شیعہئ امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل بیت میں پورے چودہ معصومین شامل ہیں،اس کی دلیل وہ روایات ہیں جن کو خود اہل سنت کے علماء نے رسول اسلام (ص)سے نقل کیا ہے ۔

شواہد التنزیل ج٢ ص ٣٣حدیث ٦٧٦
التما س                                            دعا




Share
1 | حسین | | ٠٧:٣٨ - ٣١ July ٢٠١٩ |
بہت عالی
خدا وند عالم آپ کے ہر جائز حاجت کو اپنے بارگاہ میں قبول فرمائے اور عمل خیر میں اضافہ فرمائے۔۔

جواب:
 سلام علیکم۔۔۔۔۔۔۔بہت شکریہ  اللہ آپ کو کامیاب فرما۔۔۔۔اور آپ کو بھی محمد و آل محمد  صلوات اللہ علیہم کی سیرت اور تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرما۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
2 | حسین | | ٠٧:٣٨ - ٣١ July ٢٠١٩ |
بہت عالی
خدا وند عالم آپ کے ہر جائز حاجت کو اپنے بارگاہ میں قبول فرمائے اور عمل خیر میں اضافہ فرمائے۔۔

جواب:
 سلام علیکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت شکریہ۔۔ 
اللہ اپ کو سلام رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
   
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی