2024 March 29
امام حسین )ع( کے غم میں پیغمبر اکرم (ص) کا گریہ
مندرجات: ٣٣٠ تاریخ اشاعت: ١٥ August ٢٠١٦ - ١١:٠٢ مشاہدات: 6466
مضامین و مقالات » پبلک
امام حسین )ع( کے غم میں پیغمبر اکرم (ص) کا گریہ

قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم :

يَا فَاطِمَةُ كُلُّ عَيْنٍ بَاكِيَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا عَيْنٌ بَكَتْ عَلَي مُصَابِ الْحُسَيْنِ فَإِنَّهَا ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ بِنَعِيمِ الْجَنَّة .

بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 44، ص: 293 .

عزاداری اور گریہ فطری سنتوں میں سے:

پیغمبر اکرم ص نے فرمایا: اے فاطمہ (س) ہر آنکھ روز قیامت گریہ کرےگی سوائے اس آنکھ کے جس نے امام حسین ع پر گریہ کیا؛ پس مصائب حسین ع پر گریہ کرنے والا شخص اس دن ہشاش و بشاش ہوگا اور اس کو نعمات جنت کی بشارت دی جائے گی۔

اللہ کی ایک سنت جو انسان کے اندر ایک فطری اور ذاتی پہلو رکھتی ہے، وہ ہے کسی اچھے یا برے حادثے کے رونما ہونے کے بعد انسان کا روحی اور روانی رد عمل۔ کہ جب انسان کسی خبر کو سنتا ہے یا کوئی غیر متوقع صورتحال وجود میں آتی ہےتو  اس کے اندر ایک احساساتی تحریک اور متناسب رد عمل دیکھنے میں آتاہے۔

یہ کیفیت انسان کے اندر مصائب و آلام سے ملنے والے تلخ حادثات کے سبب وجود میں آتی ہے جس کا رد عمل انسان گریہ و اشک بارانی اور افسوس کے ذریعہ ظاہر کرتاہے۔

نالکل اسی طریقہ سے کہ جب انسان کسی خوشگوار حادثہ سے یا کسی خوش حال کرنے والی خبر سے روبرو ہوتا ہے تو اپنی باطنی کیفیت کو خوش ہوکر اظہار کرتا ہے۔

وہ ماں جو اپنے فرزند یا کسی ایک عزیز کو کھو دیتی ہے تو اس کی آنکھ سے گرنے والے اشکوں کے قطرات اس کے اندرونی اور روحی حالات کی حکایت کرتے ہیں۔ اور اپنے عزیز کے مرنے پر بیتاب ہوجانا ماں کے اندر پائے جانے والے فطری احساسات کا وہ واضح نمونہ ہے کہ جس کی نہ یہ کہ سرزنش اور مذمت نہیں ہوتی بلکہ یہ کام لائق تحسین اور قابل ستائش بھی ہوتاہے۔

اس بنا پر نوحہ خوانی، عزاداری اور مرثیہ خوانی کا اصلی منبع انسان کی فطرت اور مزاج ہے، اور اس کی نفی کرنا گویا فطرت کی نفی کرنا ہوگا۔

ہر معصوم  اپنی ایک الگ خصوصیت رکھتا ہے جو دوسرے میں نہیں پائی جاتی۔ سید الشہدا امام حسین ع کی بھی کچھ خصوصیات ہیں کہ جو کسی بھی معصوم کے اندر نہیں پائی جاتی؛ ان میں سے ایک یہ کہ تمامی انبیا اور اوصیا نے امام حسین ع کے مصائب ہر گریہ کیا ہے اور ان پر اشک بہائے ہیں؛ آپ کی ولادت سے پہلے بھی اور آپ کی ولادت کے بعد بھی،اور اس اشک بہانے کو اپنے لئے باعث فخر و مباھات جانا ہے۔

ہم یہاں پر پیغمبر اکرم ص کے گریہ کے چند نمونوں کی طرف اشارہ کریں گے۔ اس سلسلہ میں روایات اتنی زیادہ ہیں کہ جن کو اس مختصر سے مقالہ میں جمع نہیں کیا جاسکتا، لہذا ہم بطور نمونہ صرف چند روایات کو اہل تشیع کے طریقہ سے اور کچھ روایات کو اہل سنت کی معتبر کتابوں سے نقل کریں گے۔

پیغمبر اکرم ص کا گریہ شیعہ روایات میں:

اس سلسلہ میں بہت زیادہ روایات شیعہ طریقہ سے نقل ہوئی ہیں جن میں سے ہم صرف چند کی طرف اشارہ کریں گے۔ مرحوم شیخ صدوق رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب عیون اخبار الرضا علیہ السلام میں تحریر فرماتے ہیں:

... فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ حَوْلٍ وُلِدَ الْحُسَيْنُ (عليه السلام) وَ جَاءَ النَّبِيُّ (صلي الله عليه و آله و سلم) فَقَالَ يَا أَسْمَاءُ هَلُمِّي ابْنِي فَدَفَعْتُهُ إِلَيْهِ فِي خِرْقَةٍ بَيْضَاءَ فَأَذَّنَ فِي أُذُنِهِ الْيُمْنَي وَ أَقَامَ فِي الْيُسْرَي وَ وَضَعَهُ فِي حَجْرِهِ فَبَكَي فَقَالَتْ أَسْمَاءُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي مِمَّ بُكَاؤُكَ قَالَ عَلَي ابْنِي هَذَا قُلْتُ إِنَّهُ وُلِدَ السَّاعَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ مِنْ بَعْدِي لَا أَنَالَهُمُ اللَّهُ شَفَاعَتِي ثُمَّ قَالَ يَا أَسْمَاءُ لَا تُخْبِرِي فَاطِمَةَ بِهَذَا فَإِنَّهَا قَرِيبَةُ عَهْدٍ بِوِلَادَتِه ...

عيون أخبار الرضا عليه السلام ، ج 2 ، ص 26 .

امام حسین ع کی ولادت کے ایک سال بعد پیغمبر اکرم ص جناب اسما کے پاس آکر فرماتے ہیں: اے اسما میرے بیٹے کو لے آئو، اسما امام حسین ع کو، جو سفید کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے، پیغمبر ص کے ہاتھوں میں دیدیتی ہیں اور پیغمبر اکرم ص ان کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہتے ہیں، اس کے بعد امام حسین کو اپنی آغوش میں لے کر گریہ کرنے لگتے ہیں، اسما کہتی ہیں: میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں ، یہ رونے کا سبب کیا ہے اور کس لئے رورہے ہیں؟ تو پیغمبر ص نے فرمایا: میں اپنے اس بیٹے کی حالت پر گریہ کررہا ہوں؛ اسما نے کہا یا رسول اللہ ص! یہ تو ابھی نومولود ہے! تو پیغمبر ص نے فرمایا: میری شہادت کے بعد ظالمین اس کو شہید کردیں گے، خدا میری شفاعت کو ان کے حق میں نہ رکھے، پھر فرمایا: اے اسما اس خبر کو ( کہ اس کو قتل کریں گے ) فاطمہ سے نہ بتانا، کیونکہ وہ ابھی تازہ بحال (صحتیاب)ہوئی ہیں۔

مرحوم شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کتاب الارشاد لکھتے ہیں:

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ خَرَجَ مِنْ عِنْدِنَا ذَاتَ لَيْلَةٍ فَغَابَ عَنَّا طَوِيلًا ثُمَّ جَاءَنَا وَ هُوَ أَشْعَثُ أَغْبَرُ وَيَدُهُ مَضْمُومَةٌ فَقُلْتُ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لِي أَرَاكَ أَشْعَثَ مُغْبَرّاً فَقَالَ أُسْرِيَ بِي فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ إِلَي مَوْضِعٍ مِنَ الْعِرَاقِ يُقَالُ لَهُ كَرْبَلَاءُ فَرَأَيْتُ فِيهِ مَصْرَعَ الْحُسَيْنِ وَ جَمَاعَةٍ مِنْ وُلْدِي وَ أَهْلِ بَيْتِي فَلَمْ أَزَلْ أَلْتَقِطُ دِمَاءَهُمْ فِيهَا هِيَ فِي يَدِي وَ بَسَطَهَا فَقَالَ خُذِيهِ وَ احْتَفِظِي بِهِ فَأَخَذْتُهُ فَإِذَا هِيَ شِبْهُ تُرَابٍ أَحْمَرَ فَوَضَعْتُهُ فِي قَارُورَةٍ وَ شَدَدْتُ رَأْسَهَا وَ احْتَفَظْتُ بِهَا فَلَمَّا خَرَجَ الْحُسَيْنُ (عليه السلام) مُتَوَجِّهاً نَحْوَ أَهْلِ الْعِرَاقِ كُنْتُ أُخْرِجُ تِلْكَ الْقَارُورَةَ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ فَأَشَمُّهَا وَ أَنْظُرُ إِلَيْهَا ثُمَّ أَبْكِي لِمُصَابِهَا فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْعَاشِرِ مِنَ الْمُحَرَّمِ وَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي قُتِلَ فِيهِ أَخْرَجْتُهَا فِي أَوَّلِ النَّهَارِ وَ هِيَ بِحَالِهَا ثُمَّ عُدْتُ إِلَيْهَا آخِرَ النَّهَارِ فَإِذَا هِيَ دَمٌ عَبِيطٌ فَضَجِجْتُ فِي بَيْتِي وَ كَظَمْتُ غَيْظِي مَخَافَةَ أَنْ يَسْمَعَ أَعْدَاؤُهُمْ بِالْمَدِينَةِ فَيُسْرِعُوا بِالشَّمَاتَةِ فَلَمْ أَزَلْ حَافِظَةً لِلْوَقْتِ وَ الْيَوْمِ حَتَّي جَاءَ النَّاعِي يَنْعَاهُ فَحُقِّقَ مَا رَأَيْتُ .

الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد ، ج 2 ، ص130 ، فصل في فضائل الإمام الحسين و مناقبه . و إعلام الوري بأعلام الهدي ، ص 219 ، الفصل الثالث في ذكر بعض خصائصه و مناقبه و فضائله .

ام سلمہ سے روایت ہے کہ ایک رات پیغمبر اکرم ص مجھ سے دور ہوگئے اور کافی دیر تک غائب رہے، پھر کچھ دیر بعد جب وہ واپس ہوئے تو غبار آلود تھے اور اپنے ہاتھ پہ ہاتھ رکھے ہوئے تھے، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ میں آپ کو غبار میں آلودہ دیکھ رہی ہوں، تو پیغمبر اکرم ص نے فرمایا: مجھے آج رات عراق لے جایا گیا اور کربلا نامی جگہ پر اتارا گیا، وہاں پر میں نے امام حسین ع کی جائے شہادت کو دیکھا کہ جہاں پر میرے اہل بیت کی کچھ فرد اور اولادیں شہید ہوں گی، میں مستقل ان کے خون کو جمع کررہا تھا اور یہ میرے ہاتھ میں ان لوگوں کا کچھ خون ہے۔

اس کے بعد پیغمبر ص نے وہ خون مجھ کو دیا اور فرمایا: اس خون کی حفاظت کرو میں نے اس خون کو خود ان سے لیا ہے؛ در حالیکہ وہ ایک سرخ مٹی کی شکل میں تھی، میں نے اس خون کو ایک شیشی میں محفوظ کرلیا، اور جب سے امام حسین ع عراق کی طرف چل دئے تب سے میں ہر روز اس شیشی کو دیکھتی تھی اور اس کو سونگھتی تھی، اور ا ن کی مصیبت کو پر گریہ کرتی تھی۔

جب دسویں محرم کی صبح میں نے اس شیشی کو دیکھا تو وہ اسی حال میں تھی لیکن جب میں نے دن ڈھلتے وقت  اس کو دیکھا تو وہ ایک گاڑھے خون میں تبدیل ہوچکی تھی، میں نا گہاں فریاد کرنے لگی، لیکن دشمنوں کے ڈر سے میں نے اس بات کو مخفی رکھا، میں ہمیشہ اس وقت کی منتظر تھی کہ اچانک امام حسین بن علی ع کے قتل کی خبر مدینہ میں سنائی گئی اور وہ چیز ثابت ہوگئی جو میں نے دیکھی تھی۔

اور اس کے بعد یہ بھی لکھتے ہیں:

وَ رَوَي السَّمَّاكُ عَنِ ابْنِ الْمُخَارِقِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ (صلي الله عليه و آله و سلم) ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسٌ وَ الْحُسَيْنُ (عليه السلام) فِي حَجْرِهِ إِذْ هَمَلَتْ عَيْنَاهُ بِالدُّمُوعِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَاكَ تَبْكِي جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ جَاءَنِي جَبْرَئِيلُ (عليه السلام) فَعَزَّانِي بِابْنِيَ الْحُسَيْنِ وَ أَخْبَرَنِي أَنَّ طَائِفَةً مِنْ أُمَّتِي سَتَقْتُلُهُ لَا أَنَالَهُمُ اللَّهُ شَفَاعَتِي .

الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد ، ج 2 ، ص130 ، فصل في فضائل الإمام الحسين و مناقبه . و إعلام الوري بأعلام الهدي ، ص 219 .

سماک نے ابن المخارق اور اس نے ام سلمہ سے روایت نقل کی ہے کہ آپ فرماتی ہیں: ایک روز پیغمبر اکرم ص تشریف فرما تھے اور امام حسین ع آپ کی آغوش میں تھے، کہ اچانک پیغمبر ص کی آنکھیں اشکوں سے پھر آئیں، تو میں نے پیغمبر سے پوچھا: یا رسول اللہ میں آپ کو روتا ہوا دیکھ رہی ہوں، آپ ص نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل آئے اور مجھے حسین کے بارے میں تسلیت عرض کی اور مجھ کو اطلاع دی کہ میری امت کا ایک گروہ اس کو قتل کرے گا، خداوند عالم ان کو ہماری شفاعت سے محروم کرے۔

الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد ، ج 2 ، ص129 ، فصل في فضائل الإمام الحسين و مناقبه .

پیغمبر اکرم ص کا گریہ اہل سنت کی روایات میں:

شمس الدین ذھبی، جو اہل سنت کے علمی ستونوں میں شمار ہوتے ہیں، کتاب تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں:

وقال الإمام أحمد في مسنده ثنا محمد بن عبيد ثنا شرحبيل بن مدرك عن عبد الله بن نجي عن أبيه أنه سار مع علي وكان صاحب مطهرته فلما حاذي نينوي وهو سائر إلي صفين فنادي اصبر أبا عبد الله بشط الفرات قلت وما ذاك قال دخلت علي النبي صلي الله عليه وسلم وعيناه تفيضان فقال قام من عندي جبريل فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات وقال هل لك أن أشمك من تربته قلت نعم فقبض قبضة من تراب فأعطانيها فلم أملك عيني أن فاضتا وروي نحوه ابن سعد عن المدائني عن يحيي بن زكريا عن رجل عن الشعبي أن علياً قال وهو بشط الفرات صبراً أبا عبد الله وذكر الحديث

وقال عمارة بن زاذان ثنا ثابت عن أنس قال استأذن ملك القطر علي النبي صلي الله عليه وسلم في يوم أم سلمة فقال يا أم سلمة احفظي علينا الباب لا يدخل علينا أحد فبينا هي علي الباب إذ جاء الحسين فاقتحم الباب ودخل فجعل يتوثب علي ظهر النبي صلي الله عليه وسلم فجعل النبي صلي الله عليه وسلم يلثمه فقال الملك أتحبه قال نعم قال فإن أمتك ستقتله إن شئت أريتك المكان الذي يقتل فيه قال نعم فجاءه بسهلة أو تراب أحمرقال ثابت فكنا نقول إنها كربلاء

عمارة صالح الحديث رواه الناس عن شيبان عنه

وقال علي بن الحسين بن واقد حدثني أبي ثنا أبو غالب عن أبي أمامة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لنسائه لا تبكوا هذا الصبي يعني حسيناً فكان يوم أم سلمة فنزل جبريل فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم لأم سلمة لا تدعي أحداً يدخل فجاء حسين فبكي فخلته أم سلمة يدخل فدخل حتي جلس في حجر رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال جبريل إن أمتك ستقتله قال يقتلونه وهم مؤمنون قال نعم وأراه تربته رواه الطبراني

وقال إبراهيم بن طهمان عن عباد بن إسحاق وقال خالد بن مخلد واللفظ له ثنا موسي بن يعقوب الزمعي كلاهما عن هاشم بن هاشم الزهري عن عبد الله بن زمعة قال أخبرتني أم سلمة أن رسول الله صلي الله عليه وسلم اضطجع ذات يوم فاستيقظ وهو خاثر ثم اضطجع ثم استيقظ وهو خاثر دون المرة الأولي ثم رقد ثم استيقظ وفي يده تربة حمراء وهو يقبلها فقلت ما هذه التربة قال أخبرني جبريل أن الحسين يقتل بأرض العراق وهذه تربتها

وقال وكيع ثنا عبد الله بن سعيد عن أبيه عن عائشة أو أم سلمة شك عبد الله أن النبي صلي الله عليه وسلم قال لها دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها فقال لي إن ابنك هذا حسيناً مقتول وإن شئت أريتك من تربة الأرض التي يقتل بها

رواه عبد الرزاق عن عبد الله بن سعيد بن أبي هند مثله إلا أنه قال أم سلمة ولم يشك

وإسناده صحيح رواه أحمد والناس

وروي عن شهر بن حوشب وأبي وائل كلاهما عن أم سلمة نحوه

تاريخ الإسلام ذهبي ج5/ص102

احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں کہا ہے کہ محمد بن عبید نے شرجیل بن مدرک سے اور اس نے عبد اللہ بن نجبی سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ وہ علی ع کے ساتھ جارہے تھے اور مولا کے پانی کا ظرف ان کے ہاتھ میں تھا۔ جب وہ نینوا پر پہنچے، در حالیکہ صفین کی طرف جارہے تھے، تو مجھے آواز دی کہ اے ابو عبد اللہ ذرا فرات کے کنارے ٹھہرو، میں نے پوچھا اس کا کیا مطلب؟ تو امام ع نے فرمایا: میں رسول اللہ ص کے پاس گیا، درحالیکہ آپ کی دونوں آنکھیں چشمہ کے مانند اشک بہا رہی  تھیں، تو پیغمبر ص نے مجھ سے فرمایا: جبرئیل نے میرے پاس آکر بتایا ہے کہ حسین شط فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا اور پھر کہا کہ کیا آپ اس کی تربت کی خوشبو سونگھنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، تب جبرئیل نے ایک مشت خاک اٹھا کر مجھے دی، اس کے بعد سے میں اپنے آنسووں کو نہیں روک پارہا ہوں۔۔۔۔

اور اسی مطلب کی ایک اور روایت ابن سعد نے المدائنی سے اور اس نے یحیی بن زکریا سے اور اس نے ایک شخص سے اور اس نے شعبی سے نقل کی ہے کہ جب علی ع شط فرات پر تھے تو فرمایا اے ابو عبد اللہ صبر کرو یعنی ٹھہر جائو اور اس کے بعد وہ پوری حدیث، جو اوپر پیغمبر ص سے نقل ہوئی ہے، بیان فرمائی۔

عمارہ بن زاذان کہتے ہیں کہ ثابت نے انس سے نقل کیا ہے کہ بارش کے فرشتہ نے ایک دن ( جس دن آپ ص ام سلمہ کے گھر میں تھے) پیغمبر ص سے ملنے کی اجازت چاہی۔ تو پیغمبر ص نے فرمایا: اے ام سلمہ، خیال رکھنا کوئی میرے پاس نہ آنے پائے۔ اسی وقت امام حسین ع آئے اور اصرار کرکے حجرہ میں داخل ہوگئے اور پشت رسول ص پر چڑھ گئے، پیغمبر ص نے حسین ع کو پیار کیا؛ اس کے بعد بارش کے فرشتے نے کہا: کیا آپ اس کو چاہتے ہیں؟ پیغمبر ص نے فرمایا: ہاں، تو اس نے کہا: یقینا آپ کے بعد آپ کی امت اس کو قتل کردے گی۔ اگر آپ کہیں تو میں آپ کو ان کی جائے شہادت دکھا سکتا ہوں۔ پیغمبر ص نے اس کو قبول کرلیا پس وہ فرشتہ پیغمبر ص کو ایک ٹیلہ یا سرخ خاک کے پاس لے آیا۔

ثابت نے کہا: ہم اس جگہ کو کربلا کہتے ہیں۔ عمارہ کی یہ روایت بہت عمدہ روایت ہے۔ اور لوگوں نے اس روایت کو شیبان سے نقل کیا ہے۔

علی بن الحسین واقد کہتے ہیں مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور ابو غالب نے ابو امامۃ سے بیان کیا ہے کہ پیغمبر اکرم ص نے اپنی بیویوں سے فرمایا: کہ اس بچہ (حسین) کو رونے نہیں دینا۔ پس جس دن ام سلمہ کی نوبت تھی، جناب جبرئیل نازل ہوئے تو پیغمبر ص نے ام سلمہ سے فرمایا کہ کسی کو میرے کمرے میں نہ آنے دینا، لیکن جیسے ہی امام حسین ع داخل ہوئے پیغمبر ص کی آغوش میں جاکے بیٹھ گے ۔ تب جبرئیل نے کہا کہ آپ کی امت اس کو قتل کردے گی۔ پیغمبر ص نے پوچھا کہ اس کو قتل کردیں گے جب کہ وہ سب ( مومن) ہیں اور ایمان کا دعوا بھی کرتے ہیں؟ جبرئیل نے جواب دیا: ہاں اور پھر پیغمبر ص کو اس خاک کی نشاندہی کرائی ۔

اور ابراہیم بن طہمان نے عباد بن اسحاق سے اور خالد بن مخلد و موسی بن یعقوب الزمعی دونوں نے ملکر ہاشم بن ہاشم الزہری سے اور اس نے عبد اللہ بن زمعۃ سے اور وہ کہتا ہے ام سلمہ نے مجھ سے بتایا کہ ایک روز پیغمبر اکرم ص محو خواب تھے، کہ رنج و غم کے عالم میں بیدار ہوئے اور دوبارہ سو گئے پھر کچھ دیر بعد بیدار ہوئے اور اس وقت ان کی پیجانی کچھ کم تھی۔ پیغمبر ص دوبارہ سو گئے اور پھر جب بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں ایک سرخ رنگ کی خاک تھی جسے وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا یہ خاک کیسی ہے؟ آپ ص نے جواب دیا: جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین عراق میں قتل کردیا جائے گا اور یہ اسی مقتل کی مٹی ہے ۔۔۔۔

وکیع نے کہا ہے کہ عبد اللہ بن سعید نے اپنے باپ سے اور اس نے عائشہ سے یا ام سلمہ سے روایت کی ہے ( یعنی وہ مشکوک ہوگیا عائشہ اور ام سلمہ کے درمیان) کہ رسول خدا ص نے ان سے فرمایا کہ ایک فرشتہ میرے پاس آیا، جو اس سے پہلے کبھی میرے پاس نہیں آیا تھا، اور اس نے کہا کہ آپ کا بیٹا حسین قتل کیا جائے گا اور اگر آپ چاہیں تو  جس خاک پر یہ قتل کیا جائے گا اس کی مٹی آپ کو دکھادوں۔۔۔۔

اسی روایت کو عبد الرزاق نے عبد اللہ بن سعید بن ابی ھند سے نقل کیا ہے اور اس کو ام سلمہ سے منسوب کیا ہے بغیر کسی شک کے۔

اس روایت کی سند صحیح ہے احمد اور بعض دوسرے افراد نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔

شہر بن حوشب اور ابی وائل نے بھی اس طرح کے مضمون کی روایت ام سلمہ سے نقل کی ہے۔

عالم اہل سنت حاکم نیشاپوری اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین میں تحریر کرتے ہیں:

 ( أخبرنا ) أبو عبد الله محمد بن علي الجوهري ببغداد ثنا أبو الأحوص محمد بن الهيثم القاضي ثنا محمد بن مصعب ثنا الأوزاعي عن أبي عمار شداد بن عبد الله عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَي رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حُلْماً مُنْكَراً قَالَ وَ مَا هُوَ قَالَتْ إِنَّهُ شَدِيدٌ قَالَ مَا هُوَ قَالَتْ رَأَيْتُ كَأَنَّ قِطْعَةً مِنْ جَسَدِكَ قُطِعَتْ وَ وُضِعَتْ فِي حَجْرِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلي الله عليه وآله وسلم) خَيْراً رَأَيْتِ تَلِدُ فَاطِمَةُ غُلَاماً فَيَكُونُ فِي حَجْرِكِ فَوَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَيْنَ (عليه السلام) فَقَالَتْ وَ كَانَ فِي حَجْرِي كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلي الله عليه وآله وسلم) فَدَخَلْتُ بِهِ يَوْماً عَلَي النَّبِيِّ ص فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ ثُمَّ حَانَتْ مِنِّي الْتِفَاتَةٌ فَإِذَا عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ (صلي الله عليه وآله وسلم) تُهْرَاقَانِ بِالدُّمُوعِ فَقُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ قَالَ أَتَانِي جَبْرَئِيلُ (عليه السلام) فَأَخْبَرَنِي أَنَّ أُمَّتِي سَتَقْتُلُ ابْنِي هَذَا وَ أَتَانِي بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِهِ حَمْرَاء .

المستدرك ، الحاكم النيسابوري ، ج 3 ، ص 176 - 177 و تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج 14 ، ص 196 - 197 و البداية والنهاية ، ابن كثير ، ج 6 ، ص 258 و .

مجھ سے بیان کیا ابو عبد اللہ محمد بن علی الجوہری نے بغداد میں اس نے ابو الاحوص محمد بن الھیثم القاضی سے اس نے محمد بن مصعب سے اور اس نے اوزعی سے اور اس نے اپنے باپ عمار شداد بن عبد اللہ سے اور اس نے ام الفضل بن حارث سے کہ حارث کی بیٹی ام الفضل ایک روز پیغمبر اکرم ص کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگیں کہ میں نے گزشتہ شب بہت ڈرائونا خواب دیکھا ہے۔ پیغمبر ص نے فرمایا: اپنا خواب بیان کرو، اس نے کہا کہ خواب بہت عجیب ہے میں اس کو بیان نہیں کرسکتی؛ میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے جسم کا ایک ٹکڑا آپ سے جدا ہوکر میرے دامن میں گرگیا، رسول خدا ص نے فرمایا: تم نے نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے۔ بہت جلد میری بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر ایک بچہ پیدا ہوگا جو تمہاری زیر تربیت رہے گا اور جب امام حسین ع پیدا ہوئے تو پیغمبر ص نے اس بچہ کو میرے حوالہ کردیا۔

ایک دن جب کہ امام حسین ع میری آغوش میں تھے میں پیغمبر اکرم ص کی خدمت میں وارد ہوئی۔ جیسے ہی پیغمبر ص کی نگاہ بچہ پر پڑی آنکھیں بھر آئیں۔ میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کیوں گریہ فرمارہے ہیں؟ تو آپ ص نے جواب دیا: ابھی ابھی جبرئیل میرے پاس آئے تھے اور مجھے خبر دی کہ میری امت بہت جلد میرے اس فرزند کو شہید کردے گی اور اس کے خون سے رنگین خاک میرے پاس لیکر آئے۔

حاکم نیشاپوری حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:

هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه .

یہ حدیث صحیح ہے شیخین کی شرط کے اعتبار سے اور اس کو ان دونوں کتابوں ( بخاری اور مسلم ) سے نکالا بھی نہیں گیا ہے۔

اس کے علاوہ دوسری جگہ تحریر کرتے ہیں:

أخبرناه أبو الحسين علي بن عبد الرحمن الشيباني بالكوفة ثنا أحمد بن حازم الغفاري ثنا خالد بن مخلد القطواني قال حدثني موسي بن يعقوب الزمعي أخبرني هاشم بن هاشم بن عتبة بن أبي وقاص عن عبد الله بن وهب بن زمعة قال أخبرتني أم سلمة رضي الله عنها ان رسول الله صلي الله عليه وآله اضطجع ذات ليلة للنوم فاستيقظ وهو حائر ثم اضطجع فرقد ثم استيقظ وهو حائر دون ما رأيت به المرة الأولي ثم اضطجع فاستيقظ وفي يده تربة حمراء يقبلها فقلت ما هذه التربة يا رسول الله قال أخبرني جبريل (عليه الصلاة والسلام) ان هذا يقتل بأرض العراق للحسين فقلت لجبريل أرني تربة الأرض التي يقتل بها فهذه تربتها هذ حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه .

المستدرك ، الحاكم النيسابوري ، ج 4 ، ص 398 .

مجھ سے بیان کیا ابو الحسین علی بن عبد الرحمان الشیبانیی نے کوفہ میں احمد بن حازم الغفاری نے خالد بن مخلد القطوانی سے اس نے کہا مجھ سے بیان کیا موسی بن یعقوب الزمعی نے اس نے کہا مجھ سے بیان کیا ہاشم بن ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص نے اس نے عبد اللہ بن وہب بن زمعۃ سے وہ کہتا ہے کہ مجھ سے ام سلمہ نے بیان کیا: کہ ایک رات پیغمبر اکرم ص سو رہے تھے کہ اچانک اضطراب و بے چینی کے عالم میں بیدار ہوئے۔ اس کے بعد دوبارہ لیٹے اور سو گئے ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ پھر جاگ گئے؛ حالانکہ اس بار ان کا اضطراب پہلے سے کچھ کم تھا۔ اس کے بعد پھر لیٹے اور سو گئے اب جو اٹھے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی اور وہ اسے سونگھ رہے تھے اور چوم رہے تھے! میں نے پوچھا: یا رسول اللہ ص! یہ کیسی مٹی ہے؟ آپ ص نے جواب دیا: جبرئیل نے مجھے بتایا ہے کہ حسین ع کو عراق کی سرزمین ہر شہید کردیا جائے گا، میں نے جبرئیل سے درخواست کی کہ مجھے اس سرزمین کی خاک لادیں جہاں حسین ع شہید کئے جائیں گے۔ یہ وہی تربت اور خاک ہے۔

حاکم نیشاپوری کہتے ہیں: یہ حدیث بخاری اور مسلم کے معیار کے اعتبار سے احادیث صحیح میں سے ہے گرچہ انہوں نے اس حدیث کو نقل نہیں کیا ہے۔

اس کے علاوہ طبرانی معجم کبیر میں اور ہیثمی مجمع الزوائد میں اور متقی ہندی کنز العمال میں لکھتے ہیں:

وعن أم سلمة قالت كان رسول الله صلي الله عليه وسلم جالسا ذات يوم في بيتي قال لا يدخل علي أحد فانتظرت فدخل الحسين فسمعت نشيج رسول الله صلي الله عليه وسلم يبكي فأطلت فإذا حسين في حجره والنبي صلي الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي فقلت والله ما علمت حين دخل فقال إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت قال أفتحبه قلت أما في الدنيا فنعم قال إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها كربلاء فتناول جبريل من تربتها فأراها النبي صلي الله عليه وسلم فلما أحيط بحسين حين قتل قال ما اسم هذه الأرض قالوا كربلاء فقال صدق الله ورسوله كرب وبلاء ، وفي رواية صدق رسول الله صلي الله عليه وسلم أرض كرب وبلاء .

المعجم الكبير ، الطبراني ، ج 23 ، ص 289 - 290 و مجمع الزوائد ، الهيثمي ، ج 9 ، ص 188 - 189 و كنز العمال ، المتقي الهندي ، ج 13 ، ص 656 - 657 و ... .

ام سلمہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ایک روز رسول خدا ص نے، جبکہ وہ ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے، مجھ سے فرمایا: خیال رکھنا کہ کوئی میرے پاس نہ آنے پائے، میں اس حکم پر عمل پیرا تھی کہ اچانک امام حسین ع حجرے میں داخل ہوگئے اور پیغمبر اکرم ص کے رونے کی آواز میرے کانوں تک آپہنچی، میں نے دیکھا کہ امام حسین ع پیغمبر ص کی آغوش میں یا ان کے برابر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور پیغمبر ص روتے ہوئے حسین ع کے سر پر ہاتھ پھیر رہے ہیں، میں نے پیغمبر ص سے معذرت کی اور کہا: خدا کی قسم! میں ان کے داخل ہونے کے بارے میں اصلا متوجہ نہیں ہوسکی۔ رسول خدا ص نے فرمایا: ( یہ بات جو میں نے تم سے کہی تھی کہ خیال رہے کوئی میرے پاس آنے نہ نائے وہ اس لئے تھ کہ ) جنرئیل میرے پاس یہاں موجود تھے اور جیسے ہی حسین ع کو دیکھا تو پوچھا: کیا آپ اس کو چاہتے ہیں؟ میں نے جواب دیا: ہاں! جبرئیل نے کہا: کہ آپ کی امت ان کو کربلا نامی زمین پر قتل کردے گی۔

ام سلمہ فرماتی ہیں: اس وقت ایک مشت خاک کربلا اٹھائی اور رسول خدا ص کو دکھائی۔ جب دشمنوں کے لشکر نے امام حسین ع کا محاصرہ کیا اور چاہا کہ ان کو قتل کردیں، تو امام حسین ع نے پوچھا: اس زمین کا کیا نام ہے؟ جواب ملا: کربلا۔ حسین ع نے فرمایا: پیغمبر اکرم ص نے سچ فرمایا تھا کہ یہ زمین کرب وبلا ہے۔

ہیثمی حدیث نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات .

اسی حدیث کو طبرانی نے کچھ اسناد اور رجال کے ساتھ نقل کیا ہے جس میں سے ایک ثقہ ہے۔

اسی طرح ہیثمی مجمع الزوائد میں، ابن عساکر تاریخ مدینہ دمشق میں، مری تہذیب الکمال میں اور ابن حجر عسقلانی تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں:

عن أم سلمة قالت كان الحسن والحسين يلعبان بين يدي رسول الله صلي الله عليه وسلم في بيتي فنزل جبريل فقال يا محمد إن أمتك تقتل ابنك هذا من بعدك وأومأ بيده إلي الحسين فبكي رسول الله صلي الله عليه وسلم وضمه إلي صدره ثم قال رسول الله صلي الله عليه وسلم يا أم سلمة وديعة عندك هذه التربة فشمها رسول الله صلي الله عليه وسلم وقال ويح وكرب وبلاء قالت وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم يا أم سلمة إذا تحولت هذه التربة دما فاعلمي أن ابني قد قتل قال فجعلتها أم سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر إليها كل يوم وتقول إن يوما تحولين دما ليوم عظيم .

تهذيب التهذيب ، ابن حجر ، ج 2 ، ص 300 - 301 و تهذيب الكمال ، المزي ، ج 6 ، ص 408 - 409 و تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج 14 ، ص 192 - 193 و ترجمة الإمام الحسين (ع) ، ابن عساكر ، ص 252 - 253 و مجمع الزوائد ، الهيثمي ، ج 9 ، ص 189 و ...

ام سلمہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: امام حسن اور امام حسین علیہما السلام میرے گھر میں رسول خدا ص کے پاس کھیل رہے تھے، اسی وقت جناب جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اے محمد! آپ کی رحلت کے بعد، آپ کی امت اس فرزند کو ( امام حسین ع کی طرف اشارہ کیا ) شہید کردے گی۔ رسول اسلام رونے لگے اور امام حسین ع کو سینے سے لگالیا۔ اس کے بعد پیغمبر ص نے اس مٹی کو جو جبرئیل امام حسین ع کی مرقد سے لائے تھے، اپنے ہاتھوں میں لیا، اس کو سونگھا اور فرمایا: اس خاک سے کرب و بلا کی خوشبو آرہی ہے۔ اس کے بعد آپ نے وہ مٹی جناب ام سلمہ کے حوالہ کی اور فرمایا: اے ام سلمہ! خیال رکھنا اور جان لو کہ جب بھی یہ خاک خون میں تبدیل ہوجائے تو سمجھ لینا  حسین ع شہید کردیا گیا ہے۔

ام سلمہ نے اس خاک کو ایک شیشی میں رکھ لیا اور ہر روز اس کو دیکھتی رہتی تھیں اور فرماتی تھیں: اے خاک! جس دن تو خون میں تبدیل ہوگی وہ بہت عظیم دن ہوگا۔

ابن حجر عسقلانی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

و في الباب عن عائشة و زينب بنت جحش و أم الفضل بنت الحارث و أبي أمامة و أنس بن الحارث و غيرهم .

اس سلسلہ میں بعض روایتیں عائشہ، زینب بنت جحش، ام فضل دختر حارث، ابو امامہ انس بن حارث اور دوسرے لوگوں سے بھی نقل ہوئی ہیں۔

اسی طرح ہیثمی بھی ایک اور روایت میں لکھتاہے:

عن أبي أمامة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لنسائه لا تبكوا هذا الصبي يعني حسينا قال وكان يوم أم سلمة فنزل جبريل فدخل رسول الله صلي الله عليه وسلم الداخل وقال لام سلمة لا تدعي أحدا أن يدخل علي فجاء الحسين فلما نظر إلي النبي صلي الله عليه وسلم في البيت أراد أن يدخل فأخذته أم سلمة فاحتضنته وجعلت تناغيه وتسكنه فلما اشتد في البكاء خلت عنه فدخل حتي جلس في حجر النبي صلي الله عليه وسلم فقال جبريل للنبي صلي الله عليه وسلم إن أمتك ستقتل ابنك هذا فقال النبي صلي الله عليه وسلم يقتلونه وهم مؤمنون بي قال نعم يقتلونه فتناول جبريل تربة فقال بمكان كذا وكذا فخرج رسول الله صلي الله عليه وسلم قد احتضن حسينا كاسف البال مغموما فظنت أم سلمة أنه غضب من دخول الصبي عليه فقالت يا نبي الله جعلت لك الفداء انك قلت لنا لا تبكوا هذا الصبي وأمرتني ان لا أدع أحدا يدخل عليك فجاء فخليت عنه فلم يرد عليها فخرج إلي أصحابه وهم جلوس فقال إن أمتي يقتلون هذا .

مجمع الزوائد ، الهيثمي ، ج 9 ، ص 189 و المعجم الكبير ، الطبراني ، ج 8 ، ص 285 - 286 و تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج 14 ، ص 190 - 191 و ترجمة الإمام الحسين (ع) ، ابن عساكر ، ص 245 - 246 و ... .

ابو امامہ سے مروی ہے کہ رسول خدا ص نے اپنی بیویوں سے فرمایا: محتاط رہنا اور کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے میرے حسین ع کو رونا آجائے! اس دن ام سلمہ کی نوبت تھی اور پیغمبر ص ان کے گھر میں تشریف فرما تھے۔ جبرئیل نازل ہوئے، پیغمبر ص ایک کمرے میں چلے گئے اور ام سلمہ کہا کہ: خیال رکھنا کوئی بھی ہمارے کمرے میں داخل نہ ہو۔ امام حسین ع داخل ہوئے اور جیسے ہی آپ کی نگاہ پیغمبر ص پر پڑی، آپ کمرے میں داخل ہی ہونا چاہتے تھے کہ ام سلمہ نے آپ کو پکڑ لیا اور اپنے سینے سے لگا لیا۔ امام حسین ع گریہ کرنے لگے اور ام سلمہ مستقل اس بات کی کوشش میں لگی تھی کہ امام کو گریہ کرنے سے روک لیں؛ لیکن امام ع کا گریہ اور شدید ہوگیا لہذا ام سلمہ نے ان کو چھوڑ دیا اور وہ رسول اسلام ص کے کمرے میں داخل ہوگئے اور پیغمبر ص کی آغوش میں جاکر بیٹھ گئے۔

جناب جبرئیل نے رسول خدا ص کو خبر دی کہ مستقبل قریب میں، آپ کی امت آپ کے اس بیٹے کو شہید کردے گی۔ رسول اسلام کو جبرئیل کی بات سن کر تعجب ہوا اور فرمایا: وہ لوگ جو مجھ پر ایمان رکھتے ہیں، میرے بیٹے کو شہید کریں گے؟ ! جبرئیل نے کہا: ہاں! وہی لوگ ان کو شہید کریں گے۔

جس وقت جبرئیل ایک مشت خاک رسول خدا ص کو دے رہے تھے، فرمایا: یہ خاک اسی سرزمین کی ہے جہاں امام حسین ع شہید کئے جائیں گے۔

رسول اسلام ص نے، جبکہ آپ بہت غمگین تھے، امام حسین ع کو اپنے بغل میں دبا لیا اور گھر سے باہر چلے گئے۔ ام سلمہ کہتی ہیں: مجھے لگتاہے چونکہ میں نے امام حسین ع کو کمرے میں جانے کی اجازت دیدی اسی لئے پیغمبر اکرم ص ناراض ہوگئے ہیں، یہی سوچ کر میں نے پیغمبر اکرم ص سے عرض کیا: یا نبی اللہ! ہماری جان آپ پر قربان، خود آپ ہی نے ہم تمام بیویوں کو نصیحت کی تھی کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس نے حسین ع کو رونا آجائے اور دوسری طرف سے آپ نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ ہم کسی کو کمرے میں داخل نہ ہونے دیں ۔ آخر کار میرے پاس کوئی چارہ کار نہیں بچا تھا مگر یہ کہ حسین ع کو داخل ہونے کی اجازت دوں۔ پیغمبر اکرم ص نے کچھ بھی نہیں کہا یہاں تک کہ اپنے اصحاب کے درمیان پہنچے، جو کہ ایک جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے، ان لوگوں سے پیغمبر ص نے فرمایا: کہ میری امت میرے اس فرزند کو شہید کرے گی ۔۔۔۔

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی