سوال:
وہابی و بعض اہل سنت اپنی کتابوں اور چینلز میں عرصہ قدیم سے کہہ رہے ہیں حتی یہ بات ان کی عوام میں بھی عام ہو گئی ہے کہ خود شیعوں نے امام حسین(ع) کو شھید کیا ہے اور پھر خود ہی ان پر گریہ و عزاداری کرتے ہیں۔
ان الشيعة هم الذين قتلوا الحسين، ذكر محسن الامين: «ثم بايع الحسين من أهل العراق عشرون ألفا غدروا به وخرجوا عليه وبيعته في أعناقهم وقتلوه».
شیعہ ہی وہ ہیں جہنوں نے حسین کو قتل کیا ہے۔ محسن امین نے ذکر کیا ہے کہ اہل عراق میں سے 20 ہزار بندوں نے امام حسین کی بیعت کی اور پھر امام کو دھوکہ دیا اور امام پر خروج کر کے امام حسین کو قتل کر دیا۔
احسان الهي ظهير ـ الشيعة وأهل البيت: 282، والنص في اعيان الشيعة: 34.
فهؤلاء هم الشيعة وهذه معاملاتهم وأحوالهم مع أهل البيت الذين يدعون انهم يحبونهم وموالون لهم.
یہ شیعوں کی حالت ہے اور ان کا سلوک ہے اہل بیت کے ساتھ حالانکہ یہ اہل بیت سے محبت کے دعوے کرتے ہیں۔
اس عبارت میں یہ وھابی کہنا چاہتا ہے کہ ایک طرف سے شیعہ اہل بیت سے محبت کا دعوی کرتے ہیں تو دوسری طرف سے اہل بیت کو قتل بھی کرتے ہیں جیسے کہ انھوں نے امام حسین کو قتل کیا ہے۔
احسان الهي ظهير ـ الشيعة واهل البيت : 280 ـ 282.
تاریخ و روایات کی روشنی میں کیا ان لوگوں کی شیعوں پر تہمت صحیح ہے یا نہیں ؟
سؤال کی وضاحت:
تمام تاریخ، روایات اور عبارات واضح ہیں کہ قاتل امام حسین(ع) کون ہے ؟ لیکن اس کے باوجود بعض منافق و وہابی لوگ فقط و فقط عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے دن رات کہتے رہتے ہیں کہ امام حسين (ع) سے كتاب ارشاد شيخ مفيد (رح) میں شیعوں سے خطاب ذکر ہوا ہے جس میں انھوں نے واقعی قاتلوں کو بیان کیا ہے کیا یہ سوال و اشکال صحیح ہے ؟
يزيد کے ساتھ مخالفت:
محمد الخضری کہتا ہے کہ:
الحسين أخطأ خطأ عظيماً في خروجه هذا الذي جر علي الأمة وبال الفرقة، وزعزع ألفتها إلي يومنا هذا۔
امام حسين(ع) نے قیام کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے کیونکہ اس سے امت اسلام میں سے تفرقہ ایجاد ہوا ہے جو آج تک باقی ہے۔
محاضرات في تاريخ الأمم الإسلامية، ج 2، ص 129.
محمد أبو اليسر عابدين، شام کا مفتی کہتا ہے کہ:
بيعة يزيد شرعية، ومن خرج عليه كان باغياً.
یزید کی شرعی تھی اور خلیفہ برحق تھا اور جو بھی اس کے خلاف قیام کرہے گا وہ باغی و سر کش ہو گا۔
اغاليط المؤرخين، ص 120.
مفتي اعظم عربستان عبدالعزيز آل الشيخ کہتا ہے کہ:
خلافة يزيد شرعية و خروج الحسين باطل.
یزید کی شرعی تھی اور خلیفہ برحق تھا اور حسین(ع) کا قیام باطل تھا۔
يزيد مجتهد و امام !!!
ابو الخير شافعي قزويني، يزيد کی اس طرح تعریف کرتا ہے:
«إماماً مجتهداً» یزید امام و مجتھد تھا۔
تراجم رجال القرنين السادس والسابع، ص 6.
بعض نے دعوی کیا ہے کہ یزید صحابہ، خلفاء راشدین یا انبیاء سے بھی بالا تر تھا۔
منهاج السنة، ابن تيمية، ج 4، ص 549 به بعد.
اس بارے میں غلط اور جعلی روایات بھی لاتے اور بتاتے ہیں کہ :رسول خدا (ص) نے ہر اس بندے کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو حاکم کے خلاف قیام کرے اور امت میں فتنہ و تفرقہ ایجاد کرے۔ نقل کرتے ہیں کہ:
«ان يزيد قتل الحسين بسيف جده» کہ حسین کو اس کے جد کی تلوار سے ہی قتل کیا گیا ہے۔
ابن العربی کتاب العواصم من القواصم۔
المناوي، محمد بن عبد اللَّه، فيض القدير شرح الجامع الصغير، تحقيق احمد عبد السلام، ج: 1 ص: 265، دارالكتب العلمية، چاپ اول 1415ق، بيروت.همچنين ر. ك. خلاصة عبقات الانوار، مير سيد حامد حسين النقوي، تلخيص الميلاني، ج: 4 ص 237 و 238، مؤسسة البعثة قم 1406.
یعنی رسول خدا نے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا اور ہم نے بھی اس حکم پر عمل کیا ہے۔ یہ بنی امیہ سے وفا داری اور اہل بیت سے بغض و دشمنی کرنے میں مشھور تھا۔ اس نے یہ بات یزید کو امام کے قتل سے بری کرنے کے لیے یہ بات کی ہے۔
ابن العربی کے علاوہ ابن حجر هيثمي و محمد كرد علي و تقي الدين ابن الصلاح و غزالي، و ابن تيميه و غيره کہ علماء اہل سنت ہیں انھوں نے مختلف عبارات کے ساتھ ان شبھات کو بیان کیا ہے۔ ان کتب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے:
الفتاوي الحديثية، ص193. و نيز مراجعه شود به: رساله ابن تيمية: سؤال در رابطه با يزيد بن معاويه ص 14 و 15 و 17، و كتاب العواصم من القواصم از ابن العربي ص 232 و233 و إحياء علوم الدين از غزالي، ج 3، ص 125 و الاتحاف بحب الأشراف، ص67 و 68 و الصواعق المحرقة، ابن حجر، ص 221 و خطط الشام، ج 1، ص 145 و قيد الشريد، ص 57 و 59.
یا بعض شیعہ علماء کی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں اور ناقص عقل سے غلط سمجھتے ہیں اور کوفہ کے لوگوں کو شیعہ علی(ع) و امام حسن(ع) کہتے ہیں پھر خود ہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ کوفہ کے شیعوں نے امام حسین(ع) کو شھید کیا ہے۔
چند نمونے ملاحظہ فرمایئں:
امام حسين (ع) نے کس کو بد دعا دی تھی ؟
احمد الكاتب اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ: امام حسين عليه السّلام نے شیعوں کو لعنت و بددعا کی ہے:
اللهم إن مَتَّعْتَهم إلي حين فَفَرِّقْهم فِرَقاً، واجعلهم طرائق قِدَداً، ولا تُرْضِ الوُلاةَ عنهم أبداً، فإنهم دَعَوْنا لِينصرونا، ثم عَدَوا علينا فقتلونا.
خدایا اس گروہ کو کم وقت کے لیے دنیا میں رکھنا، ان کا آپس میں اختلاف کرا کہ ان کو گروہ گروہ میں تقسیم کر دے اور کبھی بھی حاکموں کو ان سے راضی قرار نہ دے کیونکہ انھوں نے ہمیں دعوت دی ہے کہ ہماری مدد کریں گئے لیکن انھوں نے ہم سے دشمنی کی اور قتل کیا ہے۔
الإرشاد، شيخ مفيد، ج 2، ص 110.
جواب:
اگرچہ اس سوال کا جواب واضح ہے لیکن موضوع کے مہم ہونے کی وجہ سے اس بارے میں تفصیل سے جواب بیان کیا جا رہا ہے۔ پیروان بنی امیہ نے واقعہ کربلاء کے فوری بعد اور حتی عصر حاضر میں کوشش کی ہے کہ امام حسین(ع) کے قیام کو ایک بغاوت، فتنہ حکومت کے خلاف اور امت اسلامی میں تفرقہ کے عنوان سے لوگوں میں تعارف کروایا جائے۔ اس بنیاد پر وہ یزید کو امام کے قتل سے بری قرار دیتے ہیں۔
الف: زیادہ صحابہ کی گواہی کے مطابق یزید کی خلافت غیر شرعی تھی:
جب امام حسین(ع) اور کافی سارے صحابہ کہ سارے اہل حل و عقد امت تھے نے یزید کی خلافت کو قبول نہ کیا اور کہا کہ یزید ایک فاسق، فاجر ، شراب خوار اور زنا کار ہے ۔ صحابہ کی اس گواہی کے بعد اس کی خلافت کو شرعی و جائز کہنے کا کوئی شرعی جواز باقی نہیں رہ جاتا کہ امام حسین(ع) کے قیام کو حاکم کے خلاف بغاوت و امت میں تفرقہ کہا جائے۔ اس سے ان سب کے فتوے خود بخود باطل ہو جائیں گے کہ جو امام کے قیام کو خروج بر حاکم اور فتنہ و فساد کہتے ہیں۔
وہ صحابہ جو لشکر عمر سعد میں تھے اور امام حسین(ع) کے قتل میں شریک ہوئے:
چند صحابہ کربلاء میں لشکر یزید میں حاضر ہوئے اور فرزند رسول کے قتل میں شریک ہوئے۔
ان میں سے چند کے نام ذکر ہو رہے ہیں:
1 . كثير بن شهاب الحارثي:
اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:
قال أبو نعيم الأصبهاني المتوفی : 430:
كثير بن شهاب البجلي رأى النبي(ص).
کثیر بن شھاب نے نبیّ (ص) کو دیکھا تھا۔
تاريخ أصبهان ج 2 ص 136 ، ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت - 1410 هـ-1990م ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : سيد كسروي حسن
قال ابن حجر:
يقال ان له صحبة ... قلت ومما يقوي ان له صحبة ما تقدم انهم ما كانوا يؤمرون الا الصحابة وكتاب عمر اليه بهذا يدل على انه كان أميرا.
اس کے صحابی ہونا کا قوی احتمال ہے اس لیے کہ وہ فقط صحابہ ہی کو جنگ کی سپہ سالاری دیتے تھے۔
الإصابة في تمييز الصحابة ج 5 ص 571 نشر : دار الجيل – بيروت.
2 . حجار بن أبجر العجلي:
ابن حجر عسقلانی نے اسے صحابی کہا ہے اور بلاذری نے اس کے خط کو جو اس نے امام حسین(ع) کو لکھا ہے، کو نقل کیا ہے:
حجار بن أبجر بن جابر العجلي له إدراك.
اس نے نبی(ع) کے زمانے کو درک کیا ہے۔
الإصابة في تمييز الصحابة ج 2 ص 167 رقم 1957 ، دار النشر : دار الجيل – بيروت
قالوا: وكتب إليه أشراف أهل الكوفة ... وحجار بن أبجر العجلي... .
امام حسین(ع) کو بزرگان کوفہ نے خط لکھے ہیں ان میں سے ایک حجار ابن ابجر ہے۔
أنساب الأشراف ج 1 ص 411
وہ ایک ہزار کے لشکر کی سالاری کرتا ہوا کربلاء پہنچا:
قال أحمد بن يحيى بن جابر البلاذری:
وسرح ابن زياد أيضاً حصين بن تميم في الأربعة الآلاف الذين كانوا معه إلى الحسين بعد شخوص عمر بن سعد بيوم أو يومين، ووجه أيضاً إلى الحسين حجار بن أبجر العجلي في ألف.
وہ کربلاء میں ہزار سپاہیوں کے ہمراہ شریک ہوا۔
أنساب الأشراف ج 1 ص 416
3. عبد الله بن حصن الأزدی:
اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:
قال ابن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي المتوفي: 852: عبد الله بن حصن بن سهل ذكره الطبراني في الصحابة۔
طبرانی نے اسے صحابہ میں ذکر کیا ہے۔
الإصابة في تمييز الصحابة ج 4 ص 61 رقم 4630، ، دار النشر : دار الجيل – بيروت
کربلاء میں اس کا امام حسین(ع) کی توھین کرنا:
وناداه عبد الله بن حصن الأزدي: يا حسين ألا تنظر إلى الماء كأنه كبد السماء، والله لا تذوق منه قطرة حتى تموت عطشاً.
عبد اللہ ازدی نے کہا: اے حسین کیا تم پانی کی طرف نہیں دیکھ رہے لیکن خدا کی قسم اس میں سے ایک قطرہ بھی تم کو نہیں ملے گا حتی تم پیاسے ہی مرو گے۔
أنساب الأشراف ج 1 ص 417
4. عبدالرحمن بن أبي سبرة الجعفی:
اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:
قال ابن عبد البر المتوفي 463: عبد الرحمن بن أبى سبرة الجعفى واسم أبى سبرة زيد بن مالك معدود فى الكوفيين وكان اسمه عزيرا فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الرحمن ...
اس کا نام عزیز تھا پھر رسول خدا(ص) نے اس کا نام عبد الرحمن رکھا۔
الاستيعاب ج 2 ص 834 رقم 1419، نشر : دار الجيل – بيروت.
اس کا قبیلہ اسد کی سربراہی کرنا اور امام حسین(ع) کے قتل میں شریک ہونا:
قال ابن الأثير المتوفي: 630هـ : وجعل عمر بن سعد علي ربع أهل المدينة عبد الله بن زهير الأزدي وعلي ربع ربيعة وكندة قيس بن الأشعث بن قيس وعلي ربع مذحج وأسد عبد الرحمن بن أبي سبرة الجعفي وعلي ربع تميم وهمدان الحر بن يزيد الرياحي فشهد هؤلاء كلهم مقتل الحسين.
وہ قبیلہ مذحج اور اسد کا سالار تھا اور کربلاء میں حاضر ہوا۔
الكامل في التاريخ ج 3 ص 417 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت
5. عزرة بن قيس الأحمسی:
اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:
قال ابن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي المتوفي: 852: عزرة بن قيس بن غزية الأحمسي البجلي ... وذكره بن سعد في الطبقة الأولى۔
اس کو ابن سعد نے پہلے طبقے میں ذکر کیا ہے۔( یعنی صحابی تھا)
الإصابة في تمييز الصحابة ج 5 ص 125 رقم 6431، نشر : دار الجيل – بيروت.
اس نے امام حسين (ع) کو خط لکھا تھا:
قالوا: وكتب إليه أشراف أهل الكوفة ... وعزرة بن قيس الأحمسی۔
اس نے امام حسین(ع) کو خط لکھا تھا۔
أنساب الأشراف ج 1 ص 411
گھوڑے سواروں کا سالار:
وجعل عمر بن سعد ... وعلى الخيل عزرة بن قيس الأحمسی۔
أنساب الأشراف ج 1 ص 419
وہ گھوڑے سوار لشکر کا سالار تھا۔
شھداء کے سر لے کر ابن زیاد کے پاس گیا:
واحتزت رؤوس القتلى فحمل إلى ابن زياد اثنان وسبعون رأساً مع شمر... وعزرة بن قيس الأحمسي من بجيلة، فقدموا بالرؤوس على ابن زياد۔
أنساب الأشراف ج 1 ص 424
6 - عبـد الرحمن بن أَبْـزى:
له صحبة وقال أبو حاتم أدرك النبي صلى الله عليه وسلم وصلى خلفه۔
وہ صحابی ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے کہ اس نے نبی(ص) کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔
الإصابة - ابن حجر - ج 4 ص 239
زیاد ایک ہوشیار و ذہین انسان تھا اور سیاست کو بھی خوب جانتا تھا وہ پہلے شیعیان علی(ع) میں سے تھا لیکن جب وہ معاویہ سے مل گیا تو اس نے سخت ترین اور بد ترین مظالم خاندان اور شیعیان علی(ع) پر ڈھائے۔ زیاد وہی بندہ تھا جس نے حجر ابن عدی اور کے ساتھیوں کے قتل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
لسان الميزان، ابن حجر، ج 2، ص 495.
مذکورہ مطالب کی روشنی میں واضح ہو گیا کہ واقعہ کربلاء کے وقت کوفہ میں کوئی قابل ذکر شیعہ بچا ہی نہیں تھا کہ جو امام حسین(ع) سے جنگ کرنے کے لیے کربلاء آیا ہو۔ پس کیسے یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ کوفہ کے شیعوں نے امام حسین(ع) کو شھید کیا ہے ؟
کوئی بھی با انصاف انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ شیعوں نے امام حسین(ع) کو خط لکھے ہیں اور آنےکی دعوت دی ہے کیونکہ معروف ترین بندے جہنوں نے خط لکھے ہیں وہ شبث بن ربعي و حجار بن أبجر و عمرو بن حجاج و غيره ہیں کہ کسی نے بھی نہیں کہا کہ یہ شیعہ تھے۔
تین خلفاء کے دور میں اہل کوفہ کی حالت:
بہت سی روایات اور کتب تاریخی دلالت کرتی ہیں کہ اس دور میں اہل کوفہ علی(ع) سے پہلے تین خلفاء کے حامی اور طرف دار تھے۔ بہترین دلیل اس مطلب پر یہ واقعہ ہے کہ بہت سے مصنّفین نے اپنی کتابوں اس کو ذکر کیا ہے۔
وہ یہ کہ ہو جب علی(ع) خلیفہ بنے تو انھوں نے جب چاھا کہ عمر کی ایجاد کی ہوئی بدعت(نماز تراویح) کو ختم کریں تو انھوں نے امام حسن(ع) کو حکم دیا کہ مسجد جائے اور لوگوں کو اس کام سے منع کرے۔ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو بس نے کہا «وا عمراه، وا عمراه» عمر کی سنت کو کیا کر رہے ہو عمر کی سنت کو کیا کر رہے ؟ اس پر علی(ع) نے فرمایا کہ «قل لهم صلوا» ان سے کہو کہ جیسے تمہارا دل ہے نماز پڑھو۔
وقد روي : أن عمر خرج في شهر رمضان ليلا فرأي المصابيح في المسجد ، فقال : ما هذا ؟ فقيل له: إن الناس قد اجتمعوا لصلاة التطوع ، فقال : بدعة فنعمت البدعة ! فاعترف كما تري بأنها بدعة، وقد شهد الرسول صلي الله عليه وآله أن كل بدعة ضلالة . وقد روي أن أمير المؤمنين عليه السلام لما اجتمعوا إليه بالكوفة فسألوه أن ينصب لهم إماما يصلي بهم نافلة شهر رمضان ، زجرهم وعرفهم أن ذلك خلاف السنة فتركوه واجتمعوا لأنفسهم وقدموا بعضهم فبعث إليهم ابنه الحسن عليه السلام فدخل عليهم المسجد ومعه الدرة فلما رأوه تبادروا الأبواب وصاحوا وا عمراه !
روایت ہوئی ہے کہ عمر ماہ رمضان میں رات کو گھر سے باہر آیا دیکھا کہ مسجد میں روشنی ہے۔ عمر نے پوچھا کہ اس وقت مسجد میں کیا ہو رہا ہے ؟ کہا گیا کہ لوگ مستحبی نماز پڑھ رہے ہیں( نماز مستحب با جماعت) عمر نے کہا یہ کام بدعت ہے لیکن اچھی بدعت ہے۔ خود عمر اعتراف ار رہا ہے کہ یہ کام بدعت ہے۔
رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ جب علی(ع) خلیفہ بنے تو انھوں نے جب چاھا کہ عمر کی ایجاد کی ہوئی بدعت(نماز تراویح) کو ختم کریں تو انھوں نے امام حسن(ع) کو حکم دیا کہ مسجد جائے اور لوگوں کو اس کام سے منع کرے۔ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو بس نے کہا «وا عمراه، وا عمراه» عمر کی سنت کو کیا کر رہے کیا تم عمر کی سنت کو ختم کرنا چاہتے ہو ؟
شرح نهج البلاغة ابن أبي الحديد از علماي اهل سنت، ج 12، ص 283 ـ وسائل الشيعة (الإسلامية) مرحوم حر عاملي از علماي شيعه، ج 5، ص 192، ح 2.
یہ واقعہ اس قدر بڑا ہو گیا تھا کہ مولا علی(ع) نے مسجد میں خطبہ پڑھا اور فرمایا:
میں نے اس تراویح کے مسئلے میں فقط کوفے میں حکومت اسلامی اور وحدت امت کے لیے زیادہ سختی سے کام نہیں لیا۔
مولا علی(ع) کا یہ قول واضح کرتا ہے کہ کوفے کے اکثر لوگ تابع و پیرو کار عمر تھے لھذا یہ کہنا کہ کوفے میں فقط شیعہ رہتے تھے غلط بات ہو گی۔
علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد بن عيسي، عن إبراهيم بن عثمان، عن سليم بن قيس الهلالي قال: خطب أمير المؤمنين عليه السلام فحمد الله وأثني عليه ثم صلي علي النبي صلي الله عليه وآله، ثم قال... قد عملت الولاة قبلي أعمالا خالفوا فيها رسول الله صلي الله عليه وآله متعمدين لخلافه، ناقضين لعهده مغيرين لسنته ولو حملت الناس علي تركها وحولتها إلي مواضعها وإلي ما كانت في عهد رسول الله صلي الله عليه وآله لتفرق عني جندي حتي أبقي وحدي أو قليل من شيعتي الذين عرفوا فضلي وفرض إمامتي من كتاب الله عز وجل وسنة رسول الله صلي الله عليه وآله ... والله لقد أمرت الناس أن لا يجتمعوا في شهر رمضان إلا في فريضة وأعلمتهم أن اجتماعهم في النوافل بدعة فتنادي بعض أهل عسكري ممن يقاتل معي: يا أهل الاسلام غيرت سنة عمر ينهانا عن الصلاة في شهر رمضان تطوعا ولقد خفت أن يثوروا في ناحية جانب عسكري ما لقيت من هذه الأمة من الفرقة وطاعة أئمة الضلالة والدعاة إلي النار.
امیر المؤمنین علی (ع) نے خطبہ پڑھا اور کہا:
مجھ سے پہلے خلفاء نے ایسے کام انجام دئیے ہیں کہ انھوں نے ان کاموں میں سنت رسول خدا(ص) کی مخالفت کی ہے اور انھوں نے یہ مخالفت جان بوجھ کر کی ہے۔ اب اگر میں لوگوں کو کہوں کہ یہ سنت نہیں ہے اور ان کو سیدھا سنت کا راستہ دکھاؤں تو خود میرا لشکر مجھ سے دور ہو جائے گا اور اس کام میں کوئی بھی میری مدد کرنے کو تیار نہیں ہو گا۔
خدا کی قسم میں نے لوگوں کو کہا ہے کہ ماہ رمضان میں مستحب نماز کو جماعت کے ساتھ نہ پڑھو کیونکہ یہ کام بدعت ہے۔ میری اس بات پر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اے اہل اسلام عمر کی سنت تبدیل کر دی گئی ہے۔ میں نے فقط امت اسلامی میں تفرقے کے ڈر سے کسی کو کچھ نہیں کہا بس اتنا کہا ہے کہ بدعت کو انجام دینے والا جھنم میں داخل ہو گا۔
الكافي، شيخ كليني، ج 8، ص 58، ح 21
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ علی(ع) اپنے زمانے میں بھی کوفے میں شیعہ کو اقلیت میں مانتے تھے۔
شیعوں سے خالی کوفہ:
مہم ترین افراد کہ جہنوں نے امام حسین(ع) سے جنگ کی اور امام کو شھید کیا ان میں عمر بن سعد بن أبي وقاص و شمر بن ذی الجوشن و شبث بن ربعی و حجار بن أبجر و حرملة بن كاهل و سنان وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔
جتنے بھی افراد کے نام ذکر ہوئے ہیں ان میں سے ایک فرد بھی شیعہ معروف و مشھور نہیں ہے۔
کوفہ مرکز حنفيان:( پیروان ابو حنیفہ)
کتب اسلامی اور فقھی میں یہ عبارت ذکر ہے کہ « هذا راي كوفي» یعنی یہ نظر و رائے ابو حنیفہ کے پیروکاروں میں سے ایک کی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ شهادت امام حسين (ع) سے چند سال بعد کوفہ حنفیوں کا مرکز بن گیا تھا اور یہ بات کوفے میں شیعوں کی کثرت سے ہونے کی نفی کرتی ہے۔
امام حسین(ع) کے قاتل شیعہ آل ابی سفیان:
امام حسین(ع) نے روز عاشورا لشکر یزید میں کافی سارے خطبے پڑھے ہیں ۔ان میں سے ایک خطبہ ہے جو امام نے اپنی شھادت سے بالکل تھوڑی دیر پہلے پڑھا ہے اور اس قوم ظالم کو اس طرح خطاب کیا ہے:
ويحكم يا شيعة آل أبي سفيان! إن لم يكن لكم دين، وكنتم لا تخافون المعاد، فكونوا أحراراً في دنياكم هذه، وارجعوا إلي أحسابكم إن كنتم عُرُباً كما تزعمون.
افسوس ہے تم پر اے پیروان آل ابی سفیان، اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور تمہارا قیامت کے دن پر بھی ایمان نہیں ہے تو کم از کم دنیا میں غیرت سے کام لو اور اپنے حسب نسب کی طرف توجہ کرو کہ تم اپنے آپ کو عرب کہتے ہو۔
مقتل الحسين، خوارزمي، ج 2، ص 38 ـ بحار الأنوار، ج 45، ص 51 ـ اللهوف في قتلي الطفوف، ص 45.
|
جواب: