شیعہ کتب کے مطابق، یزید کے حکم سے امام حسین علیہ السلام کی شھادت ایک مسلم اور یقینی بات ہے- لیکن سوال یہ ہے کہ اہل سنت کی کتب میں بھی اس موضوع پر کچھ آیا ہے یا نہیں ؟ ہم اس بحث میں اسی سوال کا جواب دیںگے۔
علمائے اہل سنت کے درمیان چند افراد جیسے عبدالمغيث حنبلي، اور ابن تيميہ نے یہ کوشش کی ہے کہ یزید کی حمایت و طرفداری کرکے اس کو بے گناہ ثابت کردیں۔ یا کم از کم اس بات کو ثابت کردیں کہ اس نے توبہ کرلی تھی۔
لیکن اس کے برخلاف، دیگر علمائے اہل سنت، شیعوں کی طرح اس بات پر متفق ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم، یزید بن معاویہ نے دیا تھا۔
البتہ اس بارے میں اہل سنت کے تاریخی متون چند قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں:
۱۔ امام علیہ السلام کے مکہ جانے سے پہلے قتل کا حکم صادر ہوا۔
۲ـ یزید نے والی کوفہ کو امام علیہ السلام کے قتل کا حکم صادر کیا۔
۳ـ وقت، جگہ اور افراد کو معین کئے بغیر امام علیہ السلام کے قتل کے حکم صادر کرنے کا تذکرہ۔
امام عليه السلام کے مکہ جانے سے پہلے قتل کا حکم
جن کتابوں میں یہ مطلب بیان کیا گیا ہے ان میں منجملہ ابن عثم کوفی [ متوفی ۳۱۴ھجری ] کی کتاب الفتوح ہے وہ نقل کرتے ہیں کہ یزید نے والی مدینہ کو خط لکھ کر امام حسین علیہ السلام کو شھید کرنے کا حکم دیا تھا:
وليكن مع جوابك إليّ رأس الحسين بن عليّ، فإن فعلت ذلك فقد جعلت لك أعنّة الخيل، ولك عندي الجائزةّ والحظّ الأوفرّ والنعمة واحدة والسلام.
اس خط کے جواب کے ساتھ، حسین [ علیہ السلام ] کا سر بھی ہونا چاہئے اگر تم نے ایسا کردیا تو ہماری طرف سے بڑے انعام کے حقدار بنوگے۔
والسلام
الفتوح ، ج 3، جزء 5، ص 18
والی کوفہ کو امام عليه السلام کے شھید کرنے کا حکم
اہل سنت کے ایک دوسرے عالم، ابن اثیر جزری اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ عبیدالله ابن زیاد نے اتنا بڑا ظلم [ قتل امام حسین علیہ السلام ] کیوں کیا، اسی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أما قتلي الحسين فإنه أشار علي يزيد بقتله أو قتلي فاخترت قتله
مجھ کو یزید نے میرے قتل اور حسین [ علیہ السلام ] کے قتل کے درمیان اختیار دیا تھا { یا مجھ عبید اللہ بن زیاد کا قتل ہوگا یا حسین علیہ السلام کا} اور میں نے ان دونوں میں سے حسین [ علیہ السلام ] کے قتل کا انتخاب کیا۔
أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم الشيباني الوفاة: 630هـ ، الكامل في التاريخ ج 3 ، ص 474 ، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ ، الطبعة: ط2 ، تحقيق: عبد الله القاضي
نیز اہل سنت کے ایک دوسرے عالم، قرمانی کا کہنا ہے کہ یزید نے عبیدالله بن زياد کو حکم دیا تھا کہ [امام ] حسین [ علیہ السلام ] کو شھید کردے:
و بلغ الخبر الي يزيد فولي العراق عبيد الله بن زياد و امره بقتال الحسين.
یزید نے والی عراق عبید اللہ بن زیاد کو حکم دیا تھا کہ حسین ابن علی [ علیھما السلام ] کو قتل کردے۔
القرماني، احمد بن يوسف، المتوفي: 1019، اخبار الدول و آثار الاُوَل في التاريخ، ج 1، ص 320، تحقيق: احمد حطيط – فهمي سعد، ناشر: عالم الكتب.
ابن اعثم كوفي بھی اس ماجرا کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فكتب عبيد الله بن زياد إلى الحسين: أما بعد يا حسين ! فقد بلغني نزولك بكربلاء ، وقد كتب إلي أمير المؤمنين يزيد بن معاوية أن لا أتوسد الوثير ولا أشبع من الخبز ، أو ألحقك باللطيف الخبير أو ترجع إلى حكمي وحكم يزيد بن معاوية – والسلام.
عبيد الله بن زياد نے امام حسین علیہ السلام کو خط میں لکھا: اما بعد، اے حسین! مجھے خبر ملی ہے کہ آپ کربلا میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ یزید بن معاویہ نے مجھے لکھا ہے کہ میں آرام سے نہ بیٹھوں اور سیر ہوکے کھانا نہ کھاؤں [ اس بات سے کنایہ ہے کہ آپ کے بارے میں جلد از جلد فیصلہ کروں ] یہاں تک کہ آپ کو خدا سے ملحق کردوں یا پھر میرے اور یزید کے حکم کو تسلیم کرلیں۔ والسلام
الفتوح - أحمد بن أعثم الكوفي - ج 5 ص 84- 85؛ مطالب السؤول في مناقب آل الرسول ( ع ) - محمد بن طلحة الشافعي - ص 400؛ مقتل الحسین، خوارزمی، ج 1 ، ص 340، محقق: محمد السماوی، ناشر: انوار الهدی، قم، چاپ اول، 1418 هـ.ق.
جیسا کہ ہم نے ابتدا میں کہا تھا کہ ابن اعثم نے نقل کیا ہے یزید نے والی مدینہ کو حکم دیا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کو قتل کرد ے یہاں پر ابن اعثم نے نقل کیا ہے کہ والی کوفہ عبیداللہ بن زیاد کو بھی یہی حکم دیا تھا یہ خود اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ یزید نے ایک بار نہیں بلکہ دو بار امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا تھا۔
افراد، اور زمان و مکان کی شرط کے بغیر قتل کے حکم کا تذکرہ
دوسری تاریخی کتابوں میں صرف یہ بات بیان ہوئی ہے کہ یزید نے امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا تھا، لیکن یہ مسئلہ کہ قتل کا حکم کہاں اور کس شخص کو یا کس مقام پر دیا گیا اس کے بار ے میں کچھ ذکر نہیں ہوا ہے۔
اہل سنت کے ایک دوسرے بزرگ عالم شمس الدين ذهبی، یزید سے عوام کی روگردانی اور نفرت کے تعلق سے لکھتے ہیں:
قلت: ولما فعل يزيد بأهل المدينة ما فعل، وقتل الحسين وإخوته وآله، وشرب يزيد الخمر ، وارتكب أشياء منكرة ، بغضه الناس ، وخرج عليه غير واحد ، ولم يبارك الله في عمره
جب یزید نے اہل مدینہ کے ساتھ جو کرنا تھا وہ [ واقعہ حرہ ] کردیا، اور [امام ] حسین [ علیہ السلام ]، ان کے بھائیوں اور اعزاء و اقرباء کو شھید کیا، شراب خواری اور ہر قسم کے حرام اور خلاف [ شرع ] اعمال انجام دئے تو عوام یزید سے متنفر ہوگئے اور بہت سے لوگوں نے یزید کے خلاف خروج کیا اور اللہ نے اس کی عمر کو مبارک قرار نہیں دیا۔
شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي الوفاة: 748هـ ، تاريخ الإسلام ج 5 ، ص 30، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت - 1407هـ - 1987م ، الطبعة: الأولى ، تحقيق: د. عمر عبد السلام تدمرى
نیز ابن جوزی بھی اسی بات کا اعتراف کرتے ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ اپنے بیان میں یزید پرلعنت کرتے ہیں۔ چنانچہ سبط ابن جوزی [ ابن جوزی کا نواسہ ] اپنے اساتذہ سے نقل کرتے ہو ئے لکھتا ہے:
و حکى لی بعض اشیاخنا عن ذلک الیوم: ان جماعة سألوا جدی عن یزید فقال ما تقولون فی رجل ولّی ثلاث سنین فی السنة الأولى قتل الحسین فی الثانیة أخاف المدینة و اباحها و فی الثالثة رمى الکعبة بالمجانیق و هدمها، فقالوا نلعن فقال فالعنوه.
میرے بعض اساتذہ نے اس روز کا قصہ بیان کیا ہے کہ میرے نانا [ ابن جوزی ] سے یزید کے متعلق کچھ لوگوں نے پوچھا تو میرے نانا نے جواب دیا: آپ لوگوں کی رائے اس شخص کے بارے میں کیا ہے کہ جس نے تین سال حکومت کی، پہلے سال حسین [ علیہ السلام ] کو قتل کیا ، دوسرے سال مدینہ پر حملہ کیا اور تین دن تک مدینہ [کے مسلمانوں کی جان، مال ، اور ناموس ] کو [اپنے فوجیوں کے لئے] جائز کردیا، اور تیسر ے سال منجنیق کے ذریعہ خانہ کعبہ کو تاراج کردیا - حاضرین نے کہا ہم ایسے شخص پر لعنت بھیجتے ہیں تو میر ے نانا [ سبط جوزی ] نے کہا اس پر لعنت بھیجو۔
سبط بن الجوزي الحنفي، يوسف بن قزغلي ، تذكرة الخواص الأمة في خصائص ائمة عليهم السلام، صص 291-292، ناشر: مكتبة نينوي الحديثة، تهران.
ہاں یزید کا چار سال کا دور ظلم و ستم اور جرم و جنایت سے اتنا بھرا ہوا ہے کہ مشھور مورخ یعقوبی، سعيد بن مسيب سے نقل کرتے ہوئے یزید کی حکومت کے دور کو منحوس دور قرار دیتا ہے:
وكان سعيد بن المسيب يسمي سني يزيد بن معاوية بالشؤم في السنة الأولى قتل الحسين بن علي وأهل بيت رسول الله والثانية استبيح حرم رسول الله وانتهكت حرمة المدينة والثالثة سفكت الدماء في حرم الله وحرقت الكعبة.
سعید بن مسیب، یزید کے دورحکومت کو منحوس دور کے نام سے یاد کرتا تھا کہ جس کے پہلے سال میں اس نے امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شھید کیا، دوسر ے سال حرم رسول خدا صلی اللہ علیہو آلہ و سلم اور مدینہ کی بےحرمتی کی، اور تیسر ے سال حرم الھی [ مسجد الحرام ] میں بے گناہوں کا خون بہایا اور خانہ کعبہ کو جلادیا۔
أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح اليعقوبي الوفاة: 292 ، تاريخ اليعقوبي ج 2 ، ص 253، ناشر: دار صادر – بيروت.
اہل سنت کے عالم عمر رضا کہالہ، یعقوبی کی شخصیت کے بار ے میں لکھتے ہیں: «وصنف كتبا جيدة منها تاريخ اليعقوبي» یعقوبی نے بہترین کتابیں لکھی ہیں جن میں سے ایک تاریخ یعقوبی ہے۔
نتيجه
گذشتہ بحثوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ علمائے شیعہ، اور اکثر علمائے اہل سنت کے نظریہ کے مطابق، امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم یزید بن معاویہ نے دیا تھا۔ اور علمائے اہل سنت کے نزدیک نہ صرف ایک بار بلکہ دو بار حکم دیا گیا تھا اسی بنا پر یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس افسوسناک اور دلسوز واقعہ [ شھادت امام حسین ] کا اصلی مجرم و مقصر یزید بن معاویہ ہے۔