2025 February 8
کیا فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا شیخین سے راضی تھیں؟
مندرجات: ٢٤١٦ تاریخ اشاعت: ١٢ January ٢٠٢٥ - ١٣:٠٦ مشاہدات: 79
سوال و جواب » امام حسین (ع)
کیا فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا شیخین سے راضی تھیں؟

سوال: کیا فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا شیخین سے راضی تھیں؟

شبہ:
فرض کریں کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ایک وقت میں شیخین سے محبت کرتی تھیں؛ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں ہوتا کہ شیخین فاطمہ کی زندگی کے آخری ایام میں ان کے پاس آ کر ان کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ جیسے کہ بیہقی اور دیگر مورخین نے نقل کیا ہے:

عن الشعبي قال: "لما مرضت فاطمة، أتاها أبو بكر الصديق، فأستئذن عليها، فقال علي: يا فاطمة هذا أبو بكر يستئذن عليك، فقالت: أتحب أن أأذن؟ قال: نعم، فأذنت له، فدخل عليها يترضاها، وقال: والله ما تركت الدار والمال والأهل والعشيرة إلا لإبتغاء مرضاة الله ومرضاة رسوله ومرضاتكم أهل البيت، ثم ترضاها حتى رضيت۔"

"جب فاطمہ بیمار ہوئیں تو ابو بکر رضا حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس آئے اور ان سے ملاقات کی اجازت چاہی، علی نے فاطمہ سے کہا: 'یہ ابو بکر ہیں جو ملاقات کی اجازت چاہتے ہیں۔ ' فاطمہ نے پوچھا: 'کیا تم چاہتے ہو کہ میں انہیں اجازت دوں؟ ' علی نے کہا: 'ہاں۔ ' پھر فاطمہ نے اجازت دے دی، ابو بکر اندر آئے اور فاطمہ کی رضا کی کوشش کی۔ ابو بکر نے کہا: 'خدا کی قسم میں نے اپنا گھر، مال، اہل و عیال، اور رشتہ داروں کو صرف اللہ کی رضا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور آپ اہل بیت کی رضا کے لیے چھوڑا ہے۔ ' پھر ابو بکر نے فاطمہ کو راضی کر لیا۔"

بیہقی، احمد بن حسین (متوفی 458ھدلائل النبوة، ج 7، ص 281؛ بیہقی، احمد بن حسین (متوفی 458ھالاعتقاد والهداية إلي سبيل الرشاد علي مذهب السلف وأصحاب الحديث، ج 1، ص 354۔
تنقید اور جائزہ:
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا شیخین کے ساتھ عدم رضا کا سوال ان کی خلافت کے جواز پر اٹھتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واحد یادگار تھیں، ابوبکر و عمر کی خلافت کے مخالف تھیں اور ان سے ناراض تھیں۔ صحیح السند روایات کے مطابق جو اہل سنت کی مستند ترین کتابوں میں موجود ہیں، فاطمہ کی رضا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا ہے اور ان کی ناراضگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی ہے۔
لہذا سنی علماء نے یہ روایت جعل کرنا شروع کر دی کہ شیخین نے فاطمہ سے ان کی زندگی کے آخری ایام میں ملاقات کی اور ان کی رضا طلب کی اور فاطمہ بھی ان سے راضی ہو گئیں۔

جواب:
اولاً: یہ روایت مرسل ہے کیونکہ شعبی، جو تابعین میں سے ہیں، اس واقعے کے گواہ نہیں تھے۔ اس روایت میں وہی مسئلہ ہے جو اہل سنت نے بلاذری اور طبری کی روایات کے ساتھ کیا ہے۔
ثانیاً: فرض کرلیں کہ مرسلات تابعین قابل قبول ہیں، تو بھی شعبی کی روایت قابل قبول نہیں ہے کیونکہ وہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے دشمن اور ناصبی تھے۔ جیسے کہ بلاذری اور ابو حامد غزالی نے خود شعبی کے بارے میں لکھا ہے:

عن مجالد عن الشعبي قال: قدمنا علي الحجاج البصرة، وقدم عليه قراء من المدينة من أبناء المهاجرين والأنصار، فيهم أبو سلمة بن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه... وجعل الحجاج يذاكرهم ويسألهم إذ ذكر علي بن أبي طالب فنال منه ونلنا مقاربة له وفرقاً منه ومن شره....

ہم کچھ حاجیوں کے ساتھ بصرہ پہنچے، وہاں مدینہ کے قراء کی ایک جماعت تھی، جو مہاجرین و انصار کی اولادوں پر مشتمل تھی، جن میں ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف بھی شامل تھے۔ حجاج ان سے محوِ گفتگو تھے، پھر اس نے علی بن ابی طالب کا ذکر کیا اور ان کے بارے میں ناپسندیدہ باتیں کیں۔ ہم نے بھی اس کی رضا کی خاطر اور اس کے شر سے بچنے کی غرض سے علی کو برا بھلا کہا۔۔۔

بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر (متوفی 279ھأنساب الأشراف، ج 4، ص 315؛ غزالی، محمد بن محمد ابو حامد (متوفی 505ھإحياء علوم الدين، ج 2، ص 346۔
کیا ناصبی کی روایت ہمارے لیے دلیل بن سکتی ہے؟

دوم: فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا ابو بکر پر غصہ اور ناراضگی سورج کی طرح روشن ہے اور ناقابل انکار ہے۔ بخاری نے سب سے مستند سنی کتاب میں ابو بکر کے خلاف فاطمہ کی مسلسل ناراضگی اور غصے کا ذکر کیا ہے۔
صحیح بخاری کے خمس کے ابواب میں لکھا ہے:
"فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّیَتْ۔"
"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ سلام اللہ علیہا ابو بکر سے ناراض ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کنارہ کشی اختیار کر لی، اور یہ ناخوشی ان کی وفات تک جاری رہی۔"
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1126، ح2926، باب فَرْضِ الْخُمُسِ، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

کتاب المغازی، باب غزوہ خیبر، حدیث 3998 میں لکھتے ہیں:
فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ علي أبي بَكْرٍ في ذلك فَهَجَرَتْهُ فلم تُكَلِّمْهُ حتي تُوُفِّيَتْ

"فاطمہ ابو بکر سے ناراض رہیں اور ان سے بات نہیں کیں، یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔"
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1549، ح3998، كتاب المغازي، باب غزوة خيبر، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

کتاب الفرائض میں لکھتے ہیں:
فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ فلم تُكَلِّمْهُ حتي مَاتَتْ.

"چنانچہ فاطمہ نے ابو بکر سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور ان سے بات نہیں کی، یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہوگئیں۔"
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 6، ص 2474، ح6346، كتاب الفرائض، بَاب قَوْلِ النبي (ص) لا نُورَثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

اور ابن قتیبہ کی روایت میں ہے کہ جب وہ دونوں ملاقات کے لیے آئے تو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے انہیں اندر آنے کی اجازت نہ دی اور انہیں امیر المومنین علی علیہ السلام سے درخواست کرنی پڑی۔ آپ (علی علیہ السلام) واسطہ بنے تو جواب میں امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: البيت بيتك یعنی: "علی جان! یہ گھر آپ کا ہے، آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ جسے چاہیں داخل ہونے دیں۔"

امیر المومنین علیہ السلام نے اتمام حجت کے لیے اس بات کا اہتمام کیا تاکہ یہ دونوں بعد میں یہ عذر نہ پیش کریں کہ ہم نے فاطمہ سے رضامندی حاصل کرنا چاہی تھی، لیکن علی نے انہیں اندر آنے کی اجازت نہ دی۔

جب دونوں نے معافی مانگی تو صدّیقہ طاہرہ نے قبول نہیں کی، بلکہ ان سے درج ذیل اقرار حاصل کیا۔

نشدتكما الله ألم تسمعا رسول الله يقول «رضا فاطمة من رضاي وسخط فاطمة من سخطي فمن أحب فاطمة ابنتي فقد أحبني ومن أ رضي فاطمة فقد أرضاني ومن أسخط فاطمة فقد أسخطني »

"خدا کی قسم، کیا تم دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا: 'فاطمہ کی خوشی میری خوشی ہے اور ان کا غم میرا غم ہے۔ جس نے میری بیٹی فاطمہ سے محبت اور عزت کی، اس نے مجھ سے محبت اور عزت کی، اور جس نے فاطمہ کو راضی کیا، اس نے مجھے راضی کیا، اور جس نے فاطمہ کو ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔ '"

"دونوں نے اعتراف کیا: ہاں، یہ بات ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔"

نعم سمعناه من رسول الله صلي الله عليه وسلم.

پھر  صديقه طاہرہ نے فرماتی ہیں:

فإني أشهد الله وملائكته أنكما أسخطتماني وما أرضيتماني ولئن لقيت النبي لأشكونكما إليه.

"تو میں خدا اور فرشتوں کو گواہ بناتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے پریشان کیا ہے، اور جب میں اپنے والد سے ملوں گی تو میں تم دونوں کی شکایت کروں گی۔"

فاطمہ زہرا نے اس پر اکتفا نہیں کیا اور فرمایا:

والله لأدعون الله عليك في كل صلاة أصليها.

خدا کی قسم میں ہر نماز کے بعد تم لوگوں پر لعنت بھیجوں گی۔

الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، الإمامة والسياسة، ج 1، ص 17، باب كيف كانت بيعة علي رضي الله عنه، تحقيق: خليل المنصور، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1418هـ - 1997م.

بحر حال یہ کیسے مانا جا سکتا ہے کہ صدیقہ شہیدہ سلام اللہ علیہا ان دونوں سے راضی تھیں؟ کیا بخاری کی روایت مقدم ہے یا بیہقی کی روایت؟ کیا یہ روایت اس شخص کی ہے جسے امیر المومنین علیہ السلام کا دشمن سمجھا جاتا ہے اور جو خود اس ماجرے کا گواہ نہیں تھا؟
سوم: اگر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ان دونوں سے راضی تھیں تو انہوں نے یہ وصیت کیوں کی کہ ان کو رات میں دفن کیا جائے اور تشییع جنازہ اور نماز کے لیے ان لوگوں کو جو ان پر ظلم کر چکے تھے، کسی کو خبر نہ دی جائے؟

محمد بن اسماعیل بخاری لکھتے ہیں:
وَعَاشَتْ بَعْدَ النبي صلي الله عليه وسلم سِتَّةَ أَشْهُرٍ فلما تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا ولم يُؤْذِنْ بها أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّي عليها

فاطمہ سلام اللہ علیہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہیں، اور جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے شوہر علی علیہ السلام نے انہیں رات کو دفن کیا اور ابوبکر کو اطلاع نہ دی اور خود ان پر نماز پڑھی۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1549، ح3998، كتاب المغازي، باب غزوة خيبر، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

ابن قتیبہ دینوری نے کتاب تأویل مختلف الحديث میں ذکر کیا ہے:
وقد طالبت فاطمة رضي الله عنها أبا بكر رضي الله عنه بميراث أبيها رسول الله صلي الله عليه وسلم فلما لم يعطها إياه حلفت لا تكلمه أبدا وأوصت أن تدفن ليلا لئلا يحضرها فدفنت ليلا

فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کے سلسلے میں درخواست کی، اور جب ابو بکر نے انکار کیا تو انہوں نے قسم کھا کر ان سے دوبارہ بات نہ کرنے کی وصیت کی، اور یہ بھی وصیت کی کہ انہیں رات کو دفن کیا جائے تاکہ ابو بکر ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں۔

الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، تأويل مختلف الحديث، ج 1، ص 300، تحقيق: محمد زهري النجار، ناشر: دار الجيل، بيروت، 1393، 1972.

اور عبدالرزاق صنعاني لکھتے ہیں:

عن بن جريج وعمرو بن دينار أن حسن بن محمد أخبره أن فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وسلم دفنت بالليل قال فر بها علي من أبي بكر أن يصلي عليها كان بينهما شيء

حسن بن محمد سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کو رات کو دفن کیا گیا تاکہ ابوبکر  ان کی میت پر نماز نہ پڑھ سکیں؛ کیونکہ دونوں کے درمیان كدورت تھی۔

اور مزید فرماتے ہیں:

عن بن عيينة عن عمرو بن دينار عن حسن بن محمد مثله الا أنه قال اوصته بذلك.

حسن بن محمد سے روایت کی گئی ہے جیسا کہ پچھلی روایت میں ذکر کیا گیا ہے، مگر اس روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ فاطمہ نے رات کو دفن کرنے کی وصیت کی تھی۔

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 3، ص 521، ح 6554 و ح 6555، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.

"البتہ ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ ابو بکر بعد میں پشیمان ہوئے اور توبہ کی۔ اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ توبہ اس وقت مفید اور قابلِ قدر ہے جب انسان ندامت کے ساتھ اپنے دل کی گہرائی سے توبہ کرے، اور ماضی کے حقوق کا بھی ازالہ کرے۔ یعنی جو شخص پامال شدہ حقوق کے لیے توبہ کرتا ہے، خواہ وہ الٰہی حقوق ہوں یا انسانی حقوق، وہ ان کا ازالہ بھی کرے گا۔

اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ابو بکر نے صدقہ طاہرہ کو فدک واپس کیا تھا تاکہ ان کی توبہ توبہ نصوح ہو اور خدا کے ہاں قبول ہو؟"

فاطمہ سلام اللہ علیہا کا اپنی زندگی کے آخری لمحات تک شیخین پر غصہ اور ان سے راضی نہ ہونا ان مسائل میں سے ہے جو قرآن کے بعد سب سے معتبر سنی کتب میں ذکر کیے گئے ہیں۔ اور بیہقی کی وہ روایت جو فاطمہ کی رضا کے بارے میں استعمال کی گئی تھی، اس کی سند میں ناصبی ہونے کی وجہ سے وہ معتبر نہیں سمجھی جا سکتی۔

شک و شبہات کا جواب دینے والا گروہ

حضرت ولی عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ) تحقیقاتی مراکز

 

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی