حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت
وہابیت اور حضرت زہرا کی شہادت کا انکار
بسم الله الرحمن الرحيم
آقاي ياسيني
ہر روز وہابی حضرات اس شبہ کو ہوا دیتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت ایک افسانے سے زیادہ کچھ نہیں اور یہ کہ وہ شہید نہیں تھیں اور فطری موت مریں۔ سنی ذرائع سے اس شبہ کو رد کرتے ہوئے، ہمارے ناظرین کیلئے وضاحت کریں۔
استاد حسيني قزويني
یہ مسئلہ جو آپ نے اٹھایا ہےیہ اس دن سے شروع ہوا جب ایران کی اسلامی کونسل نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم شہادت کو سرکاری تعطیل کی منظوری دی اور ہر سال انہوں نے دیکھا کہ یوم فاطمیہ دنیا بھر میں گزشتہ سال کے مقابلے بہتر انداز سے منایا جاتا ہے۔ یہ بات وہابیوں یا بعض انتہا پسند اور انتہا پسند سنیوں سے برداشت نہ ہوسکی اور انہوں نے اندر اور باہر، نماز جمعہ اور اپنے مختلف مقامات اور سیٹلائٹ پر یہ شکوک و شبہات پیدا کرنے شروع کر دیے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا معاملہ ایک افسانہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ایران کے مشہور سنی امام جمعہ میں سے ایک باضابطہ طور پر نماز جمعہ میں اس نے خدا اور خدا کے اسماء و صفات کی قسمیں کھانی شروع کیں کہ یہ معاندانہ تعلق جو شیعہ امیر المومنین علیہ السلام اور خلفائے راشدین کے درمیان بیان کرتے ہیں جھوٹ ہے۔
اگر آپ اس میدان میں علمی صلاحیت رکھتے ہیں تو ان شواہد کو رد کریں اور ان پر مناقشہ کریں اور اگر آپ کے پاس کوئی خاص دلائل ہیں تو حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی طبیعی وفات کے حوالے سے پیش کریں۔ آپ قسم کھایں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی موت طبيعي موت ہے اور ایک شیعہ بھی قسم کھایے کہ وہ شہید ہوئیں۔ تو اس کا کیا مطلب ہے؟ دو قسمیں،تعارضا و تساقطا۔ ایک بار پھر مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔
پچھلے سال میں نے ' شبكه المستقله ' میں جو کہ وہابیوں سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا خرچہ سعودی عرب دیتا ہے، ایک مراجع تقلید کے حکم پر میں نے وہاں تین راتیں شرکت کی۔ اور میں نے مضبوط ثبوت اور صحیح دستاویز کے ساتھ قدرت الٰہی سے ثابت کیا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملہ اور ان کی شہادت اور پہلو کا توٹنا، اور محسن کی شہادت صحیح ہے اور مستند سندوں کے ساتھ مستند سنی کتب کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان مآخذ میں طبرانی کی المعجم الکبیر اور ذہبی کی تاریخ اسلام ہیں۔ اہل سنت حضرات جانتے ہیں کہ ذہبی سنی علماء کے اہم اور اساس میں سے ایک ہے۔ عام طور پر وہ روایت جو سنی عقائد، خصوصاً اگر خلفاء راشدين کے کندھوں پر رکھی گئی ہو، جناب ذہبی اس کا حوالہ نہیں دیتے اور اگر نقل کرتے ہیں تو فوراً مناقشہ کرتے ہیں اور رد کر دیتے ہیں۔ اگر چہ اس کے پاس اہل بیت علیہم السلام کے فضائل یا خلفائے راشدین سے متعلق احادیث کو رد کرنے کی کوئی علمی وجہ نہ ہوتو وہ فوراً کہتا ہے:
يشهد القلب أنه باطل.
میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے۔
یعنی جناب ذہبی کی نظر میں جرح و تعديل کی بنیادوں میں سے ایک ان کا دل ہے۔ اگر اس کا دل گواہی دے کہ کوئی روایت جھوٹی ہے تو وہ جھوٹی ہے؛ خواہ وہ معتبر ترین ذرائع سے منقول ہو اور سند مستند کیوں نہ ہو۔ جناب ذہبی کی اس خصوصیت کے مطابق وہ حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) کی شہادت اور ان کے گھر پر حملے سے متعلق یہ روایت تاریخ الاسلام جلد3 صفحہ 117 میں خلیفہ اول کے اقرار کے ساتھ بیان کرتے ہیں بغیر کسی تنازعہ کے۔ جناب طبرانی نے اس روایت کو المعجم الکبیر، جلد 1، صفحہ 62 میں نقل کیا ہے۔ روایت کا متن طویل ہے۔ جناب ابوبکر اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے ساتھیوں کی صحبت میں فرمایا:
میں نے کچھ چیزیں نہیں کیں جو میں کرنا چاہتا تھا اور میں نے کچھ چیزیں کیں اور مجھے ان پر افسوس ہے۔
ابوبکر نے جن باتوں پر افسوس کا اظہار کیا ان میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملہ تھا، جس کے بارے میں وہ فرماتے ہیں:
إني لا آسي علي شئ إلا علي ثلاث فعلتهن، وددت أني لم أفعلهن و ثلاث لم أفعلهن وددت أني فعلتهن و ثلاث وددت أني سألت رسول الله صلي الله عليه و سلم عنهن، فأما الثلاث اللاتي وددت أني لم أفعلهن: فوددت أني لم أكن كشفت بيت فاطمة و تركته و أن أغلق علي الحرب ... .
تین چیزیں ہیں جن کا مجھے افسوس ہے کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا... کاش میں نے فاطمہ کے گھر پر حملہ کرنے کا حکم نہ دیا ہوتا، کاش میں فاطمہ کے خاندان کے خلاف اس جنگ کو چھوڑ دیتا۔
مجمع الزوائد للهيثمي، ج5، ص202 ـ شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد، ج2، ص46 - كنز العمال للمتقي الهندي، ج5، ص631 ـ تاريخ مدينة دمشق لأبن عساكر، ج30، ص418 ـ تاريخ الطبري، ج2، ص619
یعنی معاملہ ایسا تھا کہ خلیفہ اول نے حضرت صدیقہ طاہرہ سلام الله عليهاکے گھر پر حملہ اور گھراناۓ نبوت پر حملہ اور تشدد کے ساتھ گھر میں داخل ہونا جنگ تصور کیا جاتا ہے۔ یہی بات سنی بزرگوں نے بیان کیا ہے۔ جناب ضیاء الدین مقدسي جو کہ عظیم سنی اور حنبلی علماء میں سے ہیں اور ذہبی اپنی سوانح عمری میں کہتے ہیں:
الإمام العالم الحافظ الثقة الحجة عالم بالرجال
امام، پیشوا، حافظ، ثقہ اور ان کی تقریر علم رجال میں مستند ہے۔
تذكرة الحفاظ للذهبي، ج4، ص1405
جب وہ اس روایت پر آتا ہے تو کہتا ہے:
هذا حديث حسن عن أبي بكر.
یہ روایت جس کا ابوبکر نے اعتراف کیا ہے صحیح اور حسن ہے۔
الأحاديث المختارة، ج10، ص90-88
نیز جناب سیوطی کے پاس مسند فاطمہ کے نام سے ایک کتاب ہے اور صفحہ 34 پر انہوں نے اس روایت کی تصحیح کی ہے۔
حسن بن فرحان مالکی، سعودی عرب کے عظیم سنی علماء میں سے ایک نے کہا:
إذن هي ثابتة بأسانيد صحيحة، بل هي ذكري مؤلمة.
فاطمہ کے گھر پر حملے کی یہ کہانی مستند دستاویزات کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور یہ واقعہ ایک دردناک یاد ہے۔
قراءة في كتب العقائد، ص52
خود ابن تیمیہ حرانی - ایک وہابی عالم اور ایک عظیم وہابی نظریہ دان - حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملے کے بارے میں متعدد روایات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے اور کہتے ہیں:
غاية ما يقال: إنه كبس البيت، لينظر هل فيه شئ من مال الله الذي يقسمه.
جناب ابوبکر و عمر تشریف لائے، زبردستی فاطمہ کے گھر کی رازداری توڑ دی اور ان کے گھر میں داخل ہوئے کہ آیا ان کے گھر میں بيت المال میں سے کوئی چیز ہے جو لینے اور مستحقین میں تقسیم کرنے کے لیے ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ جناب ابن تیمیہ کو غیب کا یہ حوالہ کہاں سے ملتا ہے۔ کیا عمر خود کہاہے کہ میں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر پر دھاوا بولا تاکہ وہاں موجود جائیداد کو ضبط کر کے مستحقین میں تقسیم کر دوں؟ یا مورخین نے اسے نقل کیا ہے یا سنی علماء میں سے کسی نے ایسی گواہی دی ہے؟ 8ویں صدی ہجری میں جناب ابن تیمیہ نے ایسی دریافت کیسے کی کہ یہ خلیفہ ثانی کا ہدف تھا؟ اگرچہ ابن ابی شیبہ، طبری اور بلاذری کی بہت سی روایتیں ہیں اور ان میں واضح ہے کہ جب جناب عمر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر کے دروازے پر آئے تو فرمایا:
خدا کی قسم! اگر تم بيعت کے لیے حاضر نہ ہوئے تو میں اس گھر کو اس کے مکینو سمیت جلا دوں گا۔
یہی اس کا مقصد تھا اور یہی اس کی زبان ہے۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ ذہبی کے استاد جوینی، جن کے بارے میں ذہبی نے اپنی سوانح عمری میں کہا ہے:
الإمام المحدث الأوحد الأكمل فخر الأسلام.
پيشوا اور محدث ایک ہی ہیں اور اعلیٰ کمالات کے حامل ہیں اور اسلام کا فخر ہیں۔
تذكرة الحفاظ للذهبي، ج4، ص1505
وہ فرید السمطین جلد 2 صفحہ 34 میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ایک قول بیان کرتے ہیں:
میرے بعد وہ فاطمہ کا پہلو توڑ دیں گے، اس کے بیٹے (سقط محسن )کو ساقط کر دیں گے اور فاطمہ میرے پاس آئیں گی۔
مغمومة مغصوبة مقتولة.
جبکہ یہ افسوسناک ہے اور انہوں نے اس کا حق غصب کر کے اسے شہید کر دیا۔
یہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کی واضح دلیل ہے۔
خود جناب شہرشتانی نے الملل و النحل میں عظیم سنی اور معتزلی علماء میں سے ایک نظام کے الفاظ نقل کیے ہیں:
إن عمر ضرب بطن فاطمه عليها السلام يوم البيعة حتي القت الجنين من بطنها و كان يصيح احرقوا دارها بمن فيها و ما كان في الدار غير علي و فاطمة و الحسن و الحسين.
بیعت کے دن خلیفہ دوم نے فاطمہ کے پیٹ پر اتنی زور سے لات ماری کہ ان کے پیٹ سے بچہ گر گیا اور اسقاط حمل ہوگیا۔ عمر چیخ رہا تھا: فاطمہ کے گھر کو اس کے تمام مکینوں سمیت جلا دو۔حالانکہ فاطمہ کے گھر میں علی، فاطمہ، حسن اور حسین کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
الملل و النحل للشهرستاني، ج1، ص57، چاپ دار المعرفة بيروت
کیا یہ شیعہ کے عبارات ہیں؟ جناب شہرشتانی کا انتقال 548ھ میں ہوا۔ یہ واقعات ماضی کے تھے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت اور ان کے جنین کا اسقاط حمل اور ان کے پہلو کو توڑنے کا مسئلہ شیعہ اور سنی تاریخ میں مذکور ہے۔ اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مسئلہ افسانہ ہے۔ ہاں، ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ کاش یہ افسانوی ہوتا! اور کاش حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر پر ایسا حملہ نہ ہوتا! ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ایسا واقعہ پیش نہ آتا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کا دل اپنے والد محترم کی وفات کے آخری ایام میں نہ ٹوٹتا اور کاش کہ امیر المومنین علیہ السلام کے آنسو اس جان لیوا مصيبت میں نہ بہتے اور امام ہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلبِ مقدس کو تکلیف نہ پہنچتی جو ہر موقع پر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا موضوع اٹھایا اور وہ رو پڑیں۔ ہاں ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ کاش ایسا نہ ہوتا۔ لیکن ایسا ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے آخری ایام میں تاریخ اسلام کو ایک مخمصے اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑااور انہوں نے تاریخ اسلام میں ایک تاریک موڑ درج کیا۔
* * * * * * *
آقاي ياسيني
وہابیوں نے اشکال کرتے ہوئے کہا کہ امیر المومنین علیہ السلام کی جرأت کو دیکھتے ہوئے آپ نے لوگوں کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر حملہ کرنے اور مارنے کی اجازت کیوں دی اور آپ نے دفاع کیوں نہیں کیا؟
استاد حسيني قزويني
پہلا نكتہ:
ہاں ہم بھی مانتے ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام کی شجاعت مشہور تھی۔ دوسرے خلیفہ نے خود کہا:
لو لا سيف علي لما قام عمود الإسلام.
اگر علی کی تلوار نہ ہوتی تو اسلام کا پرچم بلند نہ ہوتا۔
لیکن ذرا غور فرمائیں کہ حملے کا مسئلہ خاص طور پر تیسرے مرحلے میں جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملہ ہوا اور شاید ہمیں اس شبہ کا بھی ازالہ کرنا چاہیے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا دروازے پر بیٹھی تھیں اور امیر المومنین علیہ السلام، زبیر اور بنی ہاشم کے بہت سے لوگ کمرے کے اندر مشورت کر رہے تھے اور ابوبکر کو اطلاع دی کہ وہ سازش کر رہے ہیں اور تختہ الٹنے کا سوچ رہے ہیں۔ابوبکر نے خلیفہ دوم کو حکم دیا کہ جا کر حضرت علی علیہ السلام کو جس طرح بھی ہوسکے بیعت کے لیے مسجد میں لے آئیں۔ جب وہ دروازے کے سامنے پہنچا تو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) جنہوں نے ان کو آتے دیکھا، ان پر دروازہ بند کر دیا اور عمر نے آواز دیا:
يا فاطمة! افتحي الباب.
اے فاطمہ دروازہ کھولو
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے دروازہ کھولنے سے انکار کردیا۔
شاید یہ مسائل زیادہ سے زیادہ ایک منٹ میں ہوئے جب انہوں نے ایک لات سے دروازہ توڑا۔ اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا دروازے کے پیچھے زخمی ہوئیں۔ یہ ہمارے معتبر منابع میں مذکور ہے۔
جب امیر المومنین علیہ السلام کمرے سے باہر نکلے تو دیکھا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا دروازے کے قریب حیات کے کونے میں لیٹی ہوئی ہیں اور ان کا پہلو ٹوٹا ہوا ہے۔
فوثب علي و أخذ بتلابيبه، ثم نتره فصرعه و وجأ أنفه و رقبته و همّ بقتله، فذكر قول رسول الله صلي الله عليه و آله و ما أوصاه به.
علی نے اٹھ کر خلیفہ دوم کی كمر کی پٹی پکڑی اور اسے زمین پر مضبوطی سے گرایا اور خلیفہ دوم کی گردن اور ناک کو زخمی کیا۔ اس وقت علی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت یاد آئی جو آپ نے فرمایا تھا: اگر تم چاہتے ہو کہ اسلام زندہ رہے اور میرا نام باقی رہے تو تم تلوار کو ہاتھ نہ لگانا اور ان لوگوں کے ساتھ دست با گریباں نہ ہونا۔
چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام نے عمر سے فرمایا:
و الذي كرّم محمدا بالنبوة! يا بن صهاك! لولا كتاب من الله سبق و عهد عهده إلي رسول الله صلي الله عليه و آله لعلمت إنك لا تدخل بيتي.
میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کیا! اے صہاک کے بیٹے! اگر خدا کا حکم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی نہ ہوتی توتم کو یقین ہوجاتا اور سمجھ جاتے کہ تم میرے گھر میں داخل ہونے کی طاقت نہیں رکھتے۔
كتاب سليم بن قيس، تحقيق محمد باقر الأنصاري، ص150
جناب آلوسی - جو عظیم سنی اور وہابی علماء میں سے ایک ہیں - اپنی کتاب تفسیر میں اسی قضيہ کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں:
جب فاطمہ زہرا دروازے کے پیچھے زخمی حالت میں کھڑی تھی کہا:
و صاحت يا أبتاه و يا رسول الله، فرفع عمر السيف و هو في غمده فوجأ به جنبها المبارك و رفع السوط فضرب به ضرعها فصاحت يا أبتاه، فأخذ علي بتلابيب عمر و هزه و وجأ أنفه و رقبته.
فرياد کرنے لگیں: اے بابا جان! اے خدا کے رسول! عمر نے اس تلوار سے فاطمہ کی پشت پر مارا جو اس کےغلاف میں تھی اور کوڑا اٹھا کر فاطمہ کو مارا تو فاطمہ فرياد کرنے لگیں اور کہنے لگیں: اے بابا! علی نے عمر کی كمر کی پٹی پکڑ ا اور اسے زمین پر پٹخ دیا اور عمر کی گردن اور ناک کو زخمی کیا ۔
تفسير الآلوسي، ج3، ص124
آلوسی نے اسےنقل کیا ہے اور اس میں کوئی تنقید، تنازعہ یا رد نہیں ہے۔
لہٰذا وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنی بیوی کا دفاع کیوں نہیں کیا اور دفاع نہ کرنا غيرت مردانگی وغیرہ کے منافی ہے کم از کم ان روایات کو ضرور دیکھیں۔
دوسرا نکتہ:
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اس سلسلے میں لڑائی نہ کرنے کی وصيت فرمائی۔
تیسرا نکتہ:
اگر امیر المومنین علیہ السلام تلوار لے کر ان سے جنگ کرتے اور وہ اپنا دفاع کرتے تو امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی میں جنگ چھڑ جاتی اور حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام الله عليها) اور امام حسن (علیہ السلام) اور امام حسین (علیہ السلام) لوگوں کے ہاتھوں مارے جاتے اور پیروں تلے کچل دۓ جاتے۔ اس وقت کیا ان لوگوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے قاتل حضرت علی علیہ السلام ہے؟ کیا امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے قاتل حضرت علی علیہ السلام ہیں؟اگر حضرت علی علیہ السلام تشریف لاتے اور بیعت کرتے اور تلوار کو ہاتھ نہ لگاتے تو کیا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو قتل نہ کیا جاتا؟ ٹھیک ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمار کے بارے میں فرمایا:
تقتله الفئة الباغية، يدعوهم الي الجنة و يدعونه إلي النار.
عمار کو ظالموں کے ایک گروہ نے قتل کر دیا۔عمار اس ظالم گروہ کو جنت کی طرف بلاتے ہیں اور وہ ظالم گروہ عمار کو جہنم کی طرف دعوت دیتا ہے۔
صحيح البخاري،ج3، ص207 ـ صحيح مسلم، ج8، ص186
جب صفین کی جنگ میں معاویہ کی فوج کے ہاتھوں عمار مارا گیا تو حنبلی کے سربراہ احمد بن حنبل اپنی مسند میں نقل کرتے ہیں:
جب عمار مارا گیا تو معاویہ کی فوج کے کچھ لیڈروں نے لڑائی بند کردی اور معاویہ سے کہا: ہم اب لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ معاویہ نے کہا: کیوں؟ ان لوگوں نے کہا: کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عمار کو ظالموں کے ایک گروہ کے ہاتھوں قتل کیا جائے گا، اور ثابت ہوا کہ ظالموں کا گروہ ہم ہیں۔ عمرو بن عاص نے کہا: معاویہ! کچھ کمانڈروں نے لڑائی بند کر دی ہے۔ معاویہ نے کہا:
دحضت في بولك، أو نحن قتلناه؟ إنما قتله علي و أصحابه جاؤوا به حتي ألقوه بين رماحنا أو بين سيوفنا.
کیا ہم نے عمار کو قتل کیا؟ عمار کے قاتل علی اور علی کے ساتھی تھے جنہوں نے عمار کو گھر سے نکالا اور ہماری تلوار کے سامنے رکھ دیا۔
مسند احمد، ج4، ص199 ـ السنن الكبري للبيهقي، ج8، ص189 - سير اعلام النبلاء للذهبي، ج1، ص420 ـ تاريخ مدينه دمشق لإبن عساكر، ج43، ص431 ـ المصنف لعبد الرزاق صنعاني، ج11، ص240 - مسند ابو بعلي، ج13، ص124 ـ مجمع الزوائد للهيثمي، ج7، ص242 ـ المستدرك الصحيحين للحاكم النيشابوري، ج2، ص155
میری ان سے گزارش ہے کہ جو لوگ اپنے الفاظ میں معاویہ کو حضرت معاویہ اور جناب معاویہ سے تعبیر کرتے ہیں اور ان کی تکریم کرتے ہیں وہ کم از کم اس ایک ثبوت کو دیکھیں اور سوچیں۔
احمد بن حنبل کہتے ہیں:
کوئی بھی روایت جو آپ کو میری کتاب میں نہیں ملتی وہ مستند نہیں ہے۔ میں نے اس کتاب میں ہر وہ روایت شامل کی ہے جو میرے نقطہ نظر سے صحیح ہے۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ مناوی - اہل سنت کی علمی کتابوں میں سے ایک - کہتے ہے:
علی تک یہ خبر پہنچی کہ معاویہ نے کہا کہ عمار کا قاتل علی ہے اور یہ کہ ظالم گروہ علی کا لشکر ہے علی نے بھی جواب دیا:
بأن رسول الله صلي الله عليه و سلم إذن قتل حمزة حين أخرجه.
تو حمزہ کا قاتل رسول خدا بھی ہے جنہوں نے اسے گھر سے نکال کر کفار قریش کی تلوار کے سامنے رکھ دیا۔
فيض القدير شرح الجامع الصغير للمناوي، ج6، ص474
یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر امیر المومنین علیہ السلام تلوار کا استعمال کرتے تو یہ حضرت علی علیہ السلام کے لۓ نقصان دہ ثابت ہو تا اور امیر المومنین علیہ السلام اپنے دفاع کے قابل نہیں تھے؛ کیونکہ تبليغ کا تمام کام ان کے اختیار میں تھا۔
چوتھا نکتہ:
تم جو کہتے ہو کہ امیر المومنین علیہ السلام جنگوں کے فاتح اور بدر، احد، خیبر اور حنین کے فاتح تھے اور ان کی تلوار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک ضرب المثل تھی اور خود خلیفہ ثانی نے فرمایا:
والله! لو لا سيف علي لما قام عمود الإسلام.
خدا کی قسم! اگر علی کی تلوار نہ ہوتی تو اسلام کا پرچم بلند نہ ہوتا۔
شرح نهج البلاغة لإبن أبي الحديد، ج12، ص82
ہم سنی اور وہابی حضرات سے پوچھتے ہیں کہ ابوبکر، عمر اور عثمان کے ان 25 سالوں میں حضرت علی علیہ السلام کی تلوار کہاں گئی تھی؟ حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت کو کیا ہوا تھا؟ اس نے کسی جنگ اور فتوحات میں مداخلت کیوں نہیں کی؟ کیا حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت ہار گئی تھی یا حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سست پڑ گئی تھی؟یا امیر المومنین علیہ السلام نے خلفائے راشدین کی خلافت کو جائز نہیں سمجھا اور فتوحات کو اسلامی نہیں سمجھا؟ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کی وصیت نہیں کی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انہوں نے ملک فتح نہیں کیا۔
لہٰذا ان مسائل پر غور کرتے ہوئے امیر المومنین علیہ السلام نے خاموشی کا انتخاب کیا اور اپنے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مظلومیت کو اپنے عمل سے ثابت کرکے خلفائے راشدین کی خلافت کی طرف باطل کی لکیر کھینچ دی اور اپنی حقانیت اورمظلومیت کو بہترین طریقے سے ثابت کیا۔
* * * * * * *
انہوں نے شبہ ظاہر کیا ہےکہ حضرت علی علیہ السلام گھر میں موجود تھے تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے گھر کا دروازہ کیوں کھولا؟ اور حضرت علی علیہ السلام کیوں نہیں آئے؟
استاد حسيني قزوينی
یہ شک و شبہہ جو آپ نے فرمایا، وہابی چینل اور سائٹ و غیرہ میں مطرح ہوتا ہے کہ مرد کا گھر میں بیٹھنا مردانگی کے خلاف ہے اور بیوی کا لوگوں کے لیے خاص کر غیر محرموں کے لیے دروازہ کھولیں۔
پہلا:
ہمارے پاس مستند شیعہ کتب مثلاً تفسیر عیاشی اور بحار انور مجلسی (رہ) اور الاختصاص شیخ مفید (رہ) میں موجود ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا دروازے کے سامنے بیٹھی تھیں اور خود عمر سے روایت ہے :
فلما انتهينا إلي الباب فرأتهم فاطمة صلوات الله عليها أغلقت الباب في وجوههم و هي لا تشك أن لا يدخل عليها إلا باذنها، فضرب عمر الباب برجله فكسره و كان من سعف، ثم دخلوا ... .
جب ہم گھر کے دروازے کے سامنے پہنچے تو فاطمہ نے ہمیں دیکھ کر دروازہ بند کر دیا اور فاطمہ کو کوئی شک نہیں تھا کہ وہ فاطمہ کی اجازت کے بغیر گھر میں داخل نہیں ہوں گے۔ عمر نے پیروں سے دروازے پر دستک دی اور دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوا۔
بحار الأنوار للعلامة المجلسي، ج28، ص227 ـ تفسير العياشي، ج2، ص67 ـ الاختصاص للشيخ المفيد، ص186 ـ تفسير البرهان، ج2، 93
دوم:
امیر المومنین علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا جانتے تھے کہ وہ گھر کے مالک کی اجازت کے بغیر گھر میں داخل نہیں ہوںگے۔ کیونکہ وہ لوگ یقیناً اس محترم آیت کو پڑھا ہے اور اپنے آپ کو خدا کے حکم کے مطابق عمل کرنے کا پابند سمجھتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّي تَسْتَأْنِسُوا وَ تُسَلِّمُوا عَلَي أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
(سوره نور/آيه27)
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو۔ جب تک کہ اجازت نہ لے لو۔ اور گھر والوں پر سلام نہ کرو۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ تاکہ نصیحت حاصل کرو۔
فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فِيها أَحَداً فَلا تَدْخُلُوها حَتَّي يُؤْذَنَ لَكُمْ وَ إِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكي لَكُمْ وَ اللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
)سوره نور/آيه28(
پھر اگر ان (گھروں) میں کسی (آدمی) کو نہ پاؤ تو ان میں داخل نہ ہو جب تک کہ تمہیں اجازت نہ مل جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس چلے جاؤ یہ (طریقہ کار) تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ ہے۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
اس لیے امیر المومنین علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو یقین تھا کہ وہ گھر میں داخل نہیں ہوں گے، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے آنے اور دروازہ کھولنے کا معاملہ زیر بحث نہیں آیا؛ بلکہ وہ لوگ گھر کے اندر تھے اور امیر المومنین علیہ السلام کمرے کے اندر تھے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی دروازے کے پاس تھیں اور وہ لوگ دروازہ توڑ کر اندر آگئے۔ یہ بات کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے دروازہ کھولا اور اس طرح فلاں فلاں یہ سب باتیں سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔
سوم:
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور امیر المومنین سلام اللہ علیہا کو یقین تھا کہ مدینہ کی فضاؤں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر ابھی تک گونج رہی ہے اور اس کے بعد خداتعالیٰ نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّي تَسْتَأْنِسُوا وَ تُسَلِّمُوا عَلَي أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
)سوره نور/آيه27(
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو۔ جب تک کہ اجازت نہ لے لو۔ اور گھر والوں پر سلام نہ کرو۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ تاکہ نصیحت حاصل کرو۔
بعد والے آیات میں فرمایا:
فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيها بِالْغُدُوِّ وَ الْآصالِ
سوره نور/آيه36
(یہ ہدایت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے اور ان میں خدا کا نام لیا جائے ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں۔
سیوطی بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
فقام اليه رجل، فقال: أي بيوت هذه يا رسول الله؟ قال: بيوت الأنبياء، فقام اليه أبوبكر، فقال: يا رسول الله! هذا البيت منها لبيت علي و فاطمة؟ قال: نعم، من أفاضلها.
ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا: یا رسول اللہ! اس آیت سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: انبیاء کے گھر۔ابوبکر اٹھا اور کہا: یا رسول اللہ! کیا یہ علی اور فاطمہ کا گھر انبیاء کے گھروں میں سے ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، یہ انبیاء علیہم السلام کے بہترین گھروں میں سے ایک ہے۔
الدر المنثور للسيوطي، ج5، ص50 ـ شواهد التنزيل للحاكم الحسكاني، ج1، ص534 ـ تفسير الآلوسي، ج18، ص174
اس معاملے پر غور کرتے ہوئے امیر المومنین علیہ السلام کا خیال تھا کہ وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر کو انبیاء علیہم السلام کے گھروں کا حصہ سمجھتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کے گھروں کی خصوصی تعظیم ہے۔ اگر کوئی انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی اور کے گھر میں داخل ہونا چاہے تو اسے بغیر اجازت آنے کا کوئی حق نہیں۔
چوتھا:
وہ وہابی حضرات جو کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام گھر بیٹھے تھے تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے آکر دروازہ کیوں کھولا؟ آپ کی تاریخ اور کتب میں یہ ذکر ہے کہ ابن عساکر روایت نقل کرتے ہیں:
ایک دن علی بن ابی طالب آئے اور رسول اللہ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ سے فرمایا:
قومي فافتحي له.
اٹھو اور دروازہ کھولو۔
تاريخ مدينة دمشق لإبن عساكر، ج42، ص471 ـ المناقب للخوارزمي، ص87
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ سے کہا کہ اٹھو اور دروازہ کھولو، کیا ـ "نستجير بالله" ـ یہ مردانگی کے خلاف ہے کہ وہ گھر میں بیٹھ کر اپنی بیوی سے کہے کہ دروازہ کھولو؟ اس معاملے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
پانچواں:
ایک دن عمر بن الخطاب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے دروازے پر تشریف لائے۔
قرع عمر بن الخطاب الباب و قال: افتحي يا خديجه.
عمر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے خدیجہ! دروازہ کھولو۔
جامع الأحاديث للسيوطي، ج36، ص345، حديث39496 ـ تاريخ مدينة دمشق لإبن عساكر، ج44، ص35
آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟! کیا آپ میں یہ کہنے کی جرات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غيرت مردانگی نہیں تھا؟!
چھٹا:
بعض منابع میں بیان ہوا ہے:
مدینہ منورہ میں ایک دن امیر المومنین علیہ السلام تشریف لائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور حضرت عائشہ نے فرمایا:
من هذا؟ أنا علي.
کون دروازے پر دستک دے رہا ہے؟ کہا: میں علی ہوں۔
پیغمبر نے دروازے کے پیچھے سے علی کی آواز سنی اور عائشہ سے فرمایا:
يا عايشه! افتحي له الباب.
اے عائشہ! اس کے لیے دروازہ کھولو۔
الإحتجاج للطبرسي، ج1، ص292 ـ بحار الأنوار للعلامة المجلسي، ج38، ص348
کیا سنی حضرات یہاں یہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو حضرت علی علیہ السلام کے لیے دروازہ کھولنے کو کیوں کہا؟!
ساتواں:
یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ عورت کو کسی غیر محرم مرد کے لیے دروازہ نہیں کھولنا چاہیے اور یہ مردانگی کی عفت اور غیرت کے خلاف ہے، اپنی مستند کتابوں میں نقل کرتے ہیں:
مرّ عمر برسول الله صلي الله عليه و سلم و هو و عائشة و هما يأكلان حيسا، فدعاه فوضع يده، مع أيديهما، فأصابت يده يد عائشة، فقال: أوه، لو أطاع في هذه و صواحبها ما رأتهن أعين.
ایک دن عمر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں۔عمر نے اسی پیالے میں کھایا جس میں وہ کھا رہے تھے، اور عمر کا ہاتھ عائشہ کے ہاتھ میں لگا۔عمر نے کہا: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری بات سنتے اور اپنی بیویوں کو پردے کے پیچھے رکھتے تو عائشہ اور ان کی دوسری بیویوں کو کوئی نہ دیکھتا۔
المصنف لإبن أبي شيبة الكوفي، ج7، ص485 ـ مجمع الزوائد للهيثمي، ج7، ص93 ـ تفسير ابن أبي حاتم، ج10، ص48 ـ الأدب المفرد للبخاري، ج1، ص362
اب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا نامحرم کے لیے دروازہ کھولنا کیسے عفت اور غیرت کے خلاف ہے لیکن اگر جناب عمر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ کھانا کھائے اسی برتن میں اور عمر کا ہاتھ عائشہ کے ہاتھ سے ٹکرائے کیا یہ عفت اور غیرت کے خلاف نہیں ہے!
جب یہ حضرات ایسے معاملات اٹھاتے ہیں تو ہمیں بھی کھل کر اور شفاف انداز میں بات کرنی چاہیے اور جناب ہدایتی کے الفاظ میں چھپی ہوئی تاریخ کو خوبصورت انداز میں آشکار کرنا چاہیے اور ان 15 صدیوں میں کھینچی گئی سچائیوں سے پردہ ہٹانا چاہیے تاکہ یہ سنی اور وہابی نوجوان اور شیعوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ تاریخ میں کیا ہوا ہے۔
ان لوگوں نے جو بھی جواب دیا ہم وہی جواب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے معاملے میں دیں گے۔
* * * * * * *
آقاي ياسيني
ان لوگوں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس وقت مدینہ کے گھروں میں ایسے دروازے نہیں تھے جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پہلو سے ٹکراتے اور زخمی کرتے۔ براہ کرم اس شک و شبہ کو رد کرنے کے لیے اپنا ثبوت اور دليل فراہم کریں۔
استاد حسینی قزوینی
یہ حضرات جو کہتے ہیں کہ مدینہ کے گھروں کے دروازے نہیں تھے اور حضرت علی علیہ السلام کے گھر کے بھی دروازے ہوں، بظاہر تاریخ سے ناواقفیت اور اپنی روایتوں کو نہ دیکھنے کی دلیل ہے۔
جناب ابوداؤد اپنی سنن جلد 2 صفحہ 527 میں نقل کرتے ہیں:
ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمرے میں آئے اور آپ سے کچھ طلب کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر سے فرمایا: یہ چابی لو اور میرے گھر جاؤ اور اس شخص کو کچھ مال دے دو۔
فأخذ المفتاح من حجزته ففتح.
عمر نے چابی لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا دروازہ کھولا۔
ٹھیک ہے، اگر گھروں کے دروازے نہ ہوں تو کیا وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ چٹائیاں اور پردے ہیں تو کیاپردوں کو تالا لگاۓ جاتا ہے؟!کیا پردے کو کھولنے کی ضرورت ہے؟اس طرح کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ تاریخ کے بارے میں بے خبر ہیں۔
صحیح مسلم، جلد 6، صفحہ 105، حدیث 5136، كتاب الأشربة ،باب في شرب النبيذ، میں روایت نقل کرتے ہیں:
و بالأبواب أن تغلق ليلا.
مدینہ میں انہوں نے لوگوں کو رات کو اپنے گھروں کے دروازے بند کرنے کا حکم دیا۔
اگر مدینہ کے دروازے چٹائیوں یا پردوں سے بنے ہوں تو کیا پردے اور چٹائیاں بند کرنے کی ضرورت ہے؟! یہ مسئلہ بالکل واضح ہے۔
ابن کثیر دمشقی’ البدایہ و النہایہ ‘میں نقل کرتے ہیں:
كانت حجره من شعر مربوطة بخشب من عرعر.
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا دروازہ دیودار کے درخت کا بنا ہوا تھا۔
البداية و النهاية لإبن كثير، ج3، ص268
بخاری خود 'الادب المفرد ' میں نقل کرتے ہیں:
راوی نے ایک صحابی سے پوچھا: عائشہ کا گھر مسجد میں کہاں ہے؟ فرمایا: مسجد کے جنوبی حصے میں اور اس کا دروازہ شمال کی طرف کھلتا ہے۔
فقلت: مصراعا او مصراعين؟ قال: كان بمصراع واحد. قال: من أي شيء كان؟ قال: كان باب بيت عائشة من عرعر أو ساج.
ان کے گھر کا دروازہ ایک پارٹ والا تھا یا دو؟ فرمایا: یک پارٹ والا تھا۔ آپ نے فرمایا: عائشہ کے گھر کا دروازہ کس چیز کا بنا ہوا تھا؟ فرمایا: یہ دیودار یا ك ساگوان کے درخت سے تھا۔
الأدب المفرد للبخاري، ج1، ص272 ـ إمتاع الأسماع للمقريزي، ج10، ص93
ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا چٹائی میں ایک پاٹ یا دو پاٹ ہونا اس سے کوئی مطلب سمجھ میں آتا ہے ؟!
اس حوالے سے ہمارے پاس متعدد روایات ہیں کہ مدینہ کے گھروں کے دروازے تھے اور اکثر دروازے دیودار یاساگوان کے بنے ہوتے تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام کے گھر کابھی دروازہ تھا اور وہ کھجور کے درختوں اور تنوں سے بنا ہوا تھا۔
یہ مسئلہ تاریخ میں ثبت ہے اور یہ لوگ توجہ نہیں دیتے۔ وہ لوگ کچھ ایسے مطلب دیکھتے ہیں اور بے بنیاد اور بے کار کی باتیں مطرح کرتے ہیں۔
* * * * * * *
سامعین کے سوالات
سوال:
میں شیعہ ہوں۔ جناب قزوینی نے کہا کہ حضرت علی علیہ السلام نے ان پر تلوار نہیں چلائی اور حضرت علی علیہ السلام کو ان پر تلوار چلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ اصل حدیث کیوں نہیں ذکر کرتے؟
جواب:
میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ شیعہ نہیں ہیں۔ کیوں کہ شیعہ حضرات اس طرح کی بات نہیں کرتا۔ کیونکہ ہر ایک کی ثقافت اور ادب ہوتا ہے۔مرے بھائی اپ کہیے کہ میں سنی ہوں اور ہم سوالات کے جواب دینے میں اہل تشیع سے زیادہ سنیوں کا احترام کرتے ہیں۔
امیر المومنین علیہ السلام نے ابتدا میں یہ خیال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ان وجدت ناصرا فقاتلهم و إلا فالصق كلكلك علي الأرض.
اگر آپ کو دوست ملتے ہیں اور آپ کو مدد ملتی ہے تو ان سے لڑیں، ورنہ گھر پر رہیں اور کو ئی اقدام نہ کریں۔
شرح نهج البلاغة لإبن أبي الحديد، ج20، ص326
جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں تیرہ برسوں میں مخالفین کی تمام زیادتیوں کے مقابلے میں تلوار کو ہاتھ تک نہیں لگایا،امیر المومنین (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کی اور تلوار کو ہاتھ نہیں لگایا؛کیونکہ ان کاکوئی مدد یا مددگارنہیں تھا۔
اس موضوع پر ہم پچھلے جلسوں میں تفصیل سے بات کر چکے ہیں۔
* * * * * * *
سوال:
انہوں نے اس 4-5 ماہ کے بچے کا نام محسن کیسے رکھا؟ اگر وہ پیدا ہوتے تو اس کی سماجی حیثیت کیا ہوتی؟کیا وہ ابوبکر بن علی یا عمر بن علی جیسا تھا؟
جواب:
اپ حضرات سنی کتب کی طرف رجوع کریں اور ہمیں 40 کے قریب سنی کتب ملی ہیں جہاں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی پانچویں اولاد محسن تھیں اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام محسن رکھا۔ ہمارے ہاں روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ جب بچہ کا نطفہ ماں کے پیٹ میں قرار پائے تو اس کا کوئی نام رکھو۔ اگر تم نے اس کا نام نہ رکھا اور وہ اسقاط حمل ہو جاۓ تو قیامت کے دن یہی بچہ تمہارا گریبان پکڑے گا اور اللہ سے تمہاری شکایت کرے گا۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔
آقای مسعودی شافعی "إثبات الوصية" کتاب میں، صفحہ 143، میں نقل کرتے ہیں:
و ضغطوا سيدة النساء في الباب حتي أسقطت محسنا.
فاطمہ کو دروازے کے دباؤ میں رکھا گیا یہاں تک کہ محسن کا انتقال ہوگیا۔
الطبقات الشافعية للسبكي، ج3، ص456 - سير اعلام النبلاء للذهبي، ج15، ص578 الوافي بالوفيات للصفدي، ج5، ص347 ـ الملل و النحل للشهرستاني
* * * * * * *
سوال:
حضرت علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد حضرت عمر کے خلیفہ ہونے کے بعد ان کے ساتھ کیوں کام کیا؟ خود عمر نے کئی بار کہا ہے کہ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔ خاص طور پر قضاوت میں۔
جواب:
میرے عزيز! گزشتہ جلسوں میں ہم نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ جناب امیر المومنین علیہ السلام کے امام کی حیثیت سے فرائض ہیں اور ان کے فرائض میں سے ایک اسلامی مسائل کی وضاحت، شریعت کی حفاظت اور تحریفات کو درست کرنا اور عدل کو قائم کرنا ہے۔ اگر عدل و انصاف کے قیام اور حکومت کے قیام میں رکاوٹ ہو اور احکام الٰہی کو بیان کرنے اور مسلمانوں کی خدمت میں رکاوٹ ہو تو یہ امام کا فرض ہے۔ اگر اسلامی حکمران یہودی ہو اور امیر المومنین علیہ السلام بھی اس حکومت میں ہوں، اگر وہ دیکھے کہ ایک جگہ غیر منصفانہ فیصلہ کیا گیا ہے اور کسی بے گناہ کو سنگسار کیا گیا ہے تو امیر المومنین علیہ السلام ایک شرعي وظيفه کے طور پر وہاں جاتے ہیں نہ کہ اس حاکم کے ساتھ تعاون کے طور پر۔امیر المومنین علیہ السلام کے تمام تعاون حضرت علی علیہ السلام کے اسلامی فریضہ کے طور پر تھے اور آپ نے مداخلت کی اور اس میدان میں حاضر ہو گئے۔
* * * * * * *
سوال:
پہلے دو خلفاء کے زمانے میں جو ملک فتح کر رہے تھے، ان میں سے کس صحابی نے جنگوں میں ان کے ساتھ تعاون کیا؟ اگر وہ حضرت علی کو خلیفہ مانتے تھے تو ان کے ساتھ تعاون کیسے کیا؟
جواب:
یہ امیر المومنین علیہ السلام کے احکامات ہیں۔ بعض مراجع عظام کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ اگر وہ بعض معاملات میں تعاون نہیں کریں گے تو ان کی زندگی اجیرن ہو جائے گی اور شاید ان کے قتل کی بنیادیں تیار ہو جائیں گی۔ امیر المومنین علیہ السلام کے چند اصحاب خوف کے مارے آئے اور ان کے ساتھ تعاون کیا۔ یہ بات کہ امام حسن علیہ السلام نے بعض جنگوں اور معاملات میں حکومت کے ساتھ تعاون کیا تھا، یہ سراسر جھوٹ ہے اور ہمارے پاس اس سلسلے میں کوئی صحیح یا ضعیف روایت نہیں ہے۔ جو کوئی بھی - شیعہ یا سنی - کہتا ہے کہ امام حسن علیہ السلام نے بعض جنگوں میں حصہ لیا، ہم اسے گستاخ اور جھوٹا سمجھتے ہیں۔
* * * * * * *
سوال:
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی بیٹی عمر بن خطاب کوکیوں دیا؟
جواب:
اس کا جواب ہم تفصیل سے دے چکے ہیں۔
پہلا:
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ کیس جھوٹا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کی کوئی بیٹی نہیں تھی جس کا نام ام کلثوم تھا۔
دوم:
کہتے ہیں کہ ام کلثوم حضرت علی علیہ السلام کی پالک بیٹی تھیں۔یعنی ابوبکر کی بیٹی اسماء بنت عمیس سے تھی اور وہ محمد بن ابی بکر کی طرح امیر المومنین علیہ السلام کے گھر پروان چڑھی تھی۔
سوم:
بعض کہتے ہیں کہ وہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی صاحبزادی تھیں اور انہیں طاقت کے زور پرلے گئے تھے۔ جیسا کہ کتاب کافی، مجمع الزوائد ہیثمی اور المعجم الکبیر الطبرانی میں لکھا ہے کہ یہ قضيہ زبردستی وجود میں لایا گیا اور امیر المومنین علیہ السلام کے پاس کوئی ارادہ نہیں تھاکہ ان کا سامنا کریں۔
* * * * * * *
سوال:
مجھے بتائیے کہ امام زمان علیہ السلام کتنے سال زندہ رہنا چاہتے ہیں؟
جواب:
جی ضرور۔ جب بھی آپ ہمیں بتائیں گے کہ حضرت خضر (علیہ السلام)، ادریس (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر کتنی ہے تو ہم آپ سے کہیں گے کہ امام زمان (ع) کی عمر کتنی تھی۔
اب ان کی عمر کتنی ہے؟ یہ مشخص ہے۔ کیونکہ آغا حضرت ولی عصر (ارواحنا فداه) کی ولادت کا سال واضح اور روشن ہے۔ وہ خدا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تقریباً 2010 سال اور حضرت خضر (علیہ السلام) کو 3 ہزار سال سے زیادہ زندہ رکھنے کی قدرت رکھتا ہے، وہ خدا وقت کے امام کو بھی وہ ایک ہزار سال یا دو ہزار سال تک زندہ رکھنے پر قادر ہے۔
* * * * * * *
سوال:
اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم شہادت کے حوالے سے دو سند کا ذکر کیا گیا ہے، کیا آپ کے خیال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 75 دن بعد ہونا درست ہے یا 95 دن درست؟
جواب:
میری رائے میں رجال کے ماہر ہونے کے ناطے 95 دنوں کی روایتیں 75 دنوں کی روایتوں سے زیادہ صحیح ہیں۔
* * * * * * *
سوال:
سنی علماء میں سے، ان میں سے کس نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کو دوسری لڑکیوں اور تمام مسلمان عورتوں پر برتر قرار دیا ہے؟
جواب:
یہ معاملہ بہت واضح ہے۔ صحیح بخاری میں ہے:
فاطمة سيدة نساء أهل الجنة.
فاطمہ جنت کی عورتوں کی مالکن ہیں۔
صحیح البخاری، جلد 4، ص 209المستدرك الصحيحين للحاكم النيشابوري، ج3، ص151
جناب ابن اثیر کہتے ہیں:
فاطمة سيدة نساء العالمين.
فاطمہ دنیا کی تمام عورتوں کی مالکن ہیں۔
أسد الغابة لإبن الأثير، ج4، ص16
جناب مناوی - ممتاز سنی شخصیات میں سے ایک - کہتے ہیں:
إن فاطمة أفضل من الخلفاء الأربعة بالإتفاق.
تمام سنی علماء کے اجماع کے مطابق فاطمہؓ چاروں خلفاء میں سب سے افضل تھیں۔
فيض القدير شرح الجامع الصغير للمناوي، ج4، ص555
««« و السلام عليكم و رحمة الله و بركاته »»»