2025 March 28
کیا امام حسین علیہ السلام کیلئے عزاداری کرنا بدعت ہے؟
مندرجات: ٢٣٢٦ تاریخ اشاعت: ٠٥ March ٢٠٢٥ - ١٣:٥٧ مشاہدات: 85
مضامین و مقالات » پبلک
جدید
کیا امام حسین علیہ السلام کیلئے عزاداری کرنا بدعت ہے؟

کیا امام حسین علیہ السلام کیلئے عزاداری کرنا بدعت ہے؟

 

جواب:

پوری تاریخ میں وہابیوں نے ہمیشہ امام حسین علیہ السلام کے قيام اور ان کے ماتم کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے اور ان میں سے ایک امام حسین علیہ السلام کے عزاداری و ماتم کو بدعت سمجھنا ہے، اس سلسلے میں وہابی نظریہ نگار ابن تیمیہ کہتے ہیں:

1 ـ ومن حماقتهم إقامه المأتم والنياحه علي من قد قتل من سنين عديده

شیعوں کی حماقتوں میں سے ایک یہ ہے کہ برسوں پہلے قتل ہونے والے شخص کے لیے ماتم مجلس کا انعقاد کرنا۔

منهاج السنه النبويه، ابن تيميه، ج 1، ص 52.

2 ـ وصار الشيطان بسبب قتل الحسين رضي الله عنه يحدث للناس بدعتين، بدعه الحزن والبكاء والنوح يوم عاشوراء... وبدعه السرور والفرح.

حسین علیہ السلام کے قتل کی وجہ سے شیطان نے لوگوں کے لیے دو بدعتیں  پیدا کی ہیں:1. عاشورہ کے دن رونے اور نوحہ کرنے کی بدعت... 2. خوشی محفل اور سرور کی بدعت۔

منهاج السنه، ابن تيميه، ج 4، ص 334 تا 553.

اور ابن تیمیہ کے قول سے ملتاجلتا مندرجہ ذیل عبارت میں آپ کو کچھ ایسا ہی ملے گا:

3 ـ الروافض لما ابتدعوا إقامه المأتم وإظهار الحزن يوم عاشوراء لكون الحسين قتل فيه...

اور کیونکہ روافض (شیعوں) نے اس دن قتل حسین کی وجہ سے عاشورہ کے دن سوگ اور ماتم کا آغاز کرکے بدعت کیا ہے۔۔۔۔

حاشيه رد المحتار ابن عابدين، ج 2، ص 599.

جواب:

مندرجہ بالا شبہات کے جواب میں، جو کہ امام حسین علیہ السلام کے ماتم کے بارے میں وہابیت کے بنیادی شکوک میں سے ایک ہیں، ہم مندرجہ ذیل حصوں میں جواب دیں گے:

پہلاحصہ : بدعت کے معنی اور اس کے  اركان۔

دوسراحصہ :قرآن اور انبیاءکے نظرمیں رونے اور آنسو بہانے کا مقام۔

تیسرا حصہ: سیرت نبوی میں رونے اور آنسوبہانے کا مقام۔

چوتھا حصہ: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کا عزاداری ۔

پانچواں حصہ: معصومین کی سیرت میں امام حسین علیہ السلام کا م عزاداری ۔

چھٹاحصہ:  صحابہ کی  سیرت میں عزاداری۔

ساتواں حصہ: عزاداری اہل سنت کے نزدیک۔

 

مقدّمہ

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ عزاداری اور خوشی کی  پیروی ایک فطری امر ہے جو شروع سے تمام قوموں اور قبیلوں میں رائج ہے اور آسمانی مذاہب نے بھی اس کے اصول کی تصدیق کی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ جو لوگ سید الشہداء علیہ السلام کے عزاداری کو بدعت سمجھتے ہیں، وہ یہ دعویٰ کس بنیاد پر کرتے ہیں؟ اور کیا یہ دعویٰ قابل ثابت ہے؟ یا اس کے برعکس ماتم بالخصوص اہل بیت ععصمت و طهارت عليهم السلام کے لیے عزاداری  اور خاص طور پر شہدائے کربلا حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کے لیے عزاداری کرنا باطنی فضیلت کے حامل ہیں، لیکن کیا خدا کی نظر میں سب سے  افضل قرابت شمار ہوتے ہیں؟

پہلا حصہ: بدعت کے معنی اور اس کے اركان

1- "بدعت" کے معنی کی غلط فہمی

امام حسین علیہ السلام کے عزاداری کے سلسلے میں وہابیوں کی طرف سے اس طرح کے تاثرات اور فیصلوں کے بارے میں سب سے زیادہ پر امید نظریہ یہ ہے:

وہابی حضرات لفظ "بدعت" کے معنی کی صحیح سمجھ نہیں رکھتی اور وہم میں مبتلا ہوگئےہےاور وہ ہر اس چیز کو بدعت سمجھتے ہیں جو ان کے خیالات کے خلاف ہے اور اسی کے ‍‍‌‍‌دریعے سے دوسروں کی مذمت کرتے ہیں۔

لہٰذا ضروری ہے کہ پہلے بدعت کا مفہوم لغت اور اصطلاحات کے نقطہ نظر سے  بیان کیا جائے اور پھر کتاب وسنت کے نقطہ نظر سے بدعت کا جائزہ لیا جائے۔

2- بدعت کا لغوی معنی

ماہرین لغت بدعت کو کسی ایسی چیز کا وجود اور ایجاد سمجھتے ہیں جس کا اس سے پہلے کوئی وجود نہ تھا اور نہ اس کا کوئی نشان تھا۔

جوہری لکھتے ہیں:

البدعه: إنشاء الشيء لا علي مثال سابق، واختراعه وابتكاره بعد أن لم يكن.

بدعت کا مطلب ہے کوئی ایسی چیز تخلیق کرنا جس کی مثال نہیں ملتی اور ایک نیا عمل جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

صحاح اللغه، جوهري، ج3، ص113

البتہ آیتوں اور  روایتوں میں اس لحاظ سے بدعت ممنوع نہیں ہے؛ کیونکہ اسلام انسانی زندگی میں نوآوري کے خلاف نہیں ہے، بلکہ یہ انسانی فطرت سے متفق ہے جو اسے اپنی ذاتی اور سماجی زندگی میں ہمیشہ جدت کی طرف لے جاتی ہے۔

لہٰذا موجد اور مخترع اپنی اختراعات میں جو کچھ تخلیق کرتے ہیں اس میں یہ تعریف بھی شامل ہے کہ یہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ قابل قبول اور قابل تعریف بھی ہے۔

3- شیعہ اور سنی علماء کے درمیان  "بدعت" کے  اصطلاحی معنی

البتہ شریعت کے نقطہ نظر سے اور اہل علم کی اصطلاح میں بدعت کے ایک اور معنی ہیں جو اس کے لغوی معنی سے مختلف ہیں،کیونکہ بدعت یہ ہے کہ دین میں ایسے مسائل کو منسوب اور متعارف کرایا جائے کہ شارع  اور دین لانے والے نے دین میں کوئی چیزایجاد نہیں کیا اور  رضایت بھی نہیں دیا کہ کوئی چیز دین میں داخل کیا جائے۔

بدعت کا جو مفہوم دین میں زیر بحث ہے وہ دین کے نام پر دین میں کوئی اضافہ یا گھٹاؤ ہے اور یہ اس معنی سے مختلف ہے جو اس کے لغوی معنی میں بیان کیا گیا تھا۔

راغب اصفہانی کہتے ہیں:

والبدعه في المذهب: إيراد قول لم يستنَّ قائلها وفاعلها فيه بصاحب الشريعه وأماثلها المتقدّمه وأصولها المتقنه.

دین میں بدعت، یہ ایک ایسی تقریر اور عمل ہے جو صاحب شریعت نےمستند نہیں کیا ہے اور اسی طرح کے معاملات اور شریعت کے پختہ اصول استعمال نہیں کیے گئے ہیں۔

مفردات ألفاظ القرآن، راغب أصفهاني، ص 39.

ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں:

والمُحْدَثات بفتح الدال جمع مُحْدَثَه، والمراد بها: ما أحدث وليس له أصل في الشرع ويسمّي في عرف الشرع بدعه، وما كان له أصل يدلّ عليه الشرع فليس ببدعه.

کوئی بھی نئی چیز جس کی کوئی شرعی جڑ نہ ہو اسے شرعی عرف میں بدعت کہا جاتا ہے اور جس چیز کی شرعی جڑ اور دليل  ہو وہ بدعت نہیں ہے۔

فتح الباري، ج 13، ص 212.

عینی نے صحیح بخاری (1) کی شرح میں بھی یہی تعریف کی ہےاورمبارکفوری نے صحیح ترمذی کی  شرح میں  (2) اور عظیم آبادی نے سنن ابوداؤد کی شرح میں (3) اور ابن رجب حنبلی نے اسے جامع العلوم (4) میں ذکر کیا ہے۔

 

1 ) عمده القاري، ج 25، ص 27.

2) تحفه الأحوذي، ج 7، ص 366.

3 ) عون المعبود، ج 12، ص 235.

4 ) جامع العلوم والحكم، ص 160، چاپ هند.

سید مرتضی جو کہ مشہور شیعہ متكلّمین اور فقہا میں سے ہیں، بدعت کی تعریف میں کہتے ہیں:

البدعه زياده في الدين أو نقصان منه، من إسناد إلي الدين.

بدعت دين میں کسی چیز کا اضافہ کرنا یا اسے دين سے منسوب کرکے اس سے گھٹا دینا ہے۔

رسائل شريف مرتضي، ج 2، ص 264، نشر دار القرآن الكريم ـ قم.

طريحي کہتے ہیں:

البدعه: الحدث في الدين، وما ليس له أصل في كتابٍ ولا سنّه، وإنّما سُمّيَتْ بدعه؛ لأنّ قائلَها ابتدعها هو نفسه

بدعت یعنی دین میں ایک نئی چیز کا داخل کرنا جس کی کوئی جڑیں قرآن و شریعت میں نہیں ہیں اور اسے بدعت اس لیے کہتے ہیں کہ بدعت کے کہنے والے نے اسے ایجاد کیاہے اور بنایاہے۔

مجمع البحرين، ج 1، ص 163، مادّه «بدع»

لہٰذا اس کے لغوی معنی کے اعتبار سے بدعت میں شرعی معنی بھی شامل ہوں گے۔

4- بدعت کے (اركان) عناصر

مذکورہ مواد کے مطابق بدعت کے دو عناصر ہیں:

1- دین میں تصرّف

کوئی بھی تصرّف جو مذہب کو نشان زد کرے اور اس میں کوئی چیز شامل کرے یا گھٹائے، اس شرط پر کہ اس تصرّف کا ذمہ دار اپنے عمل کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرے۔

 لیکن وہ اختراعات جو انسانی تنوع اور اختراع کے جذبے کا جواب دیتی ہیں، جیسے فٹ بال، باسکٹ بال، والی بال اور اس طرح کی چیزیں، بدعت نہیں ہوں گی۔

2- کتاب اور  سنت میں جڑیں نہ ہونا

اصطلاح بدعت کی تعریف کے مطابق یہ معلوم ہوا کہ اس چیز کو بدعت سمجھا جاتا ہے جس کی اسلامی مآخذ میں خاص یا عمومی طور پر کوئی وجود نہیں ہے۔

لیکن ایسی چیز جس کے جواز کا اندازہ نہ صرف کتاب و سنت سے مخصوص یا عمومی طور پر لگایا جا سکتا ہے؛ بلکہ جیسا کہ اب بیان کیا جا رہا ہے کہ یہ اسلام اور دیگر آسمانی مذاہب میں موجود تھا اور انسانی فطرت کے مطابق تھا، اس لیے انہیں بدعت نہیں کہا جاتا۔

5- "بدعت" کے معنی میں وہابیت کے انحراف کی جڑ

بدعت کے لغوی اور محاوراتی مفہوم اور اس کے عناصر کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کے مطابق یہ طے ہوا:کسی شخص یا گروہ کی طرف بدعت کو منسوب کرنا اتنا آسان نہیں جتنا کہ جب وہابی کوئی نیا واقعہ دیکھتے ہیں اور اسے بدعت کا نام دیتے ہیں؛ بلکہ اس کی خاص شرائط اور خصوصیات ہیں جن کے پورے ہونے تک اسے بدعت نہیں کہا جا سکتا۔

لیکن جس چیز نے اس معاملے میں بعض کو غلطی کا ارتکاب کیا اور آسانی سے دوسروں پر بدعت کا الزام لگایا وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں انہوں نے نقل کیا ہے:

كلّ بدعه ضلاله.

ہر بدعت گمراہی ہے۔

صحيح مسلم، ج 3، ص11 ـ مسندأحمد، ج 3، ص310.

تاہم اس روايت کی بنیاد پر کیا معاشرے میں کوئی خاص مقام حاصل کرنے والے نئے رجحان کو بدعت کی مصداق قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کے ماننے والوں کو دین سے باہر سمجھا جا سکتا ہے؟

سوال کا جواب نفی میں ہے، کیونکہ جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے، شریعت کا فرض حکم کا اظہار کرنا ہےمصداق کا تعین کرنا نہیں،شاید، کسی خاص فرد یا گروہ کے نقطہ نظر سے ایک خاص معاشرے میں ایک رجحان کو بدعت کی ایک مصداق سمجھا جاتا ہے، لیکن ایک اور مکتبہ فکر کے پیروکاروں کے نزدیک اسے مذہب کی رسومات میں سے ایک اور اچھی  سنّتوں میں سے ایک سمجھا جانا چاہیے۔

6- بدعت کے عنوان کو چھوڑنے کی ایک قانونی دليل ہے

پچھلے مواد سے واضح ہوا: بدعت کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص خدا اور دین پر تہمت لگانے کے ارادے سے دین میں کچھ اضافہ کرتا ہے یا اس سے منہ موڑتا ہے اور اسے خدا اور مذہب کی طرف منسوب کرتا ہے۔اور جب بدعت کو پہچاننے کا معیار معلوم ہو جائے تو ان صورتوں میں جہاں اس کی شرعی دليل ہو تو اسے بدعت کے عنوان سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اب اس قانونی دليل کو دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

1-  حدود اور تفصیلات موضوع کے بارے میں ایک مخصوص قرآنی یا نبوی سنت کے، جیسے: عید الفطر اور عیدالاضحی کی تقریبات اور عرفہ اور منیٰ میں اجتماعات، اس صورت میں ایسی تقریبات اور اجتماعات کو بدعت نہیں سمجھا جائے گا، بلکہ یہ وہ  سنت ہو گی جس کا شریعت نے خاص طور پر حکم دیا ہے اور اسے کرنا حکم الٰہی کی تعمیل تصور کیا جائے گا۔

2-عام قرآنی  دليل یا سنت نبوی، جس میں عام طور پر واقعہ اور نئی مصداق شامل ہوتی ہے، البتہ اس شرط پر کہ نئی اور حادث چیز اور وہ تمام چیزیں جو عہد نبوی میں موجود ہوں حقيقت او ر ماهيت  کے اعتبار سےہم آہنگ ہو، گرچہ شکل و صورت کے لحاظ سے فرق ہو،لیکن عام دليل اس کے عموم کے ساتھ مصداق اور صورتیں دونوں شامل ہیں اور اسے اس میں شرعی حجت سمجھا جاتا ہے۔

مثلاً اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے:

وَ أَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّه وَ مِنْ رِباطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَ عَدُوَّكُم الأنفال(8): 60

(اے مسلمانو!) تم جس قدر استطاعت رکھتے ہو ان (کفار) کے لئے قوت و طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو۔ تاکہ تم اس (جنگی تیاری) سے خدا کے دشمن اور اپنے دشمن کو اور ان کھلے دشمنوں کے علاوہ دوسرے لوگوں (منافقوں) کو خوفزدہ کر سکو۔

مسلمانوں کے لیے واجب چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ کفار کے حملے کے لیے  پوری طرح تیار رہیں، اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ بلاک کر دیں اور کسی بھی ایسی جگہ سے دفاع کے لیے تیار رہیں جہاں خطرے کا امکان ہو۔

مندرجہ بالا آیت میں دو دليل ہیں:

دليل خاص  یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان گھڑ سوار افواج سے لیس کرے جو اسلام کے ابتدائی دور میں حکم الٰہی کی تعمیل کے لیے وقف تھیں۔

اور جیسا کہ  دليل عام  ہے، اپنے آپ کو توپوں، ٹینکوں، میزائلوں اور  موجودہ   دور کے دوسرے جدید فضائی، زمینی اور سمندری آلات سے لیس کرنا ضروری ہے تاکہ وہ وہ چیز مہیا کر سکیں جس کا حکم آیت کریمہ میں ہے اور جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود نہیں تھا۔

لہٰذا یہ مقدمات غیر معمولی قانونی مسائل ہیں جنہیں اس جواز کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔

دوسرے الفاظ میں، مثال کے طور پر، ذیل کی آیت شريفه میں، خدا فرماتا ہے:

وَ إِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَ أَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون . الأعراف (5): 204

اور (اے مسلمانو) جب قرآن پڑھا جائے تو کان لگا کر (توجہ سے) سنو اور خاموش ہو جاؤ تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔

یہ آیت مسلمانوں کو تلاوت کے دوران قرآن سننے کی دعوت دیتی ہے؛حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مصداق یہ تھی کہ قرآن پڑھنے والے کے منہ سے براہ راست سنا جاتا تھا جو مسجد نبوی میں یا گھر میں تلاوت کر رہا تھا۔

 لیکن موجودہ دور اور نئے دور میں اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ اس کی ایک اور مصداق سامنے آئی ہے جو اس وقت موجود نہیں تھی،جیسے: ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور دیگر ٹرانسمیٹر کے ذریعے قرآن کی تلاوت کرنا، لہٰذا دونوں صورتوں کے لیے ایک ہی آیت کو شرعی دلیل سمجھا جائے گااور ہم اس بہانے قرآن کو سننے سے نہیں روک سکتے کہ دوسری صورت میں اسے بدعت سمجھا جاتا ہے اور اس کا کوئی  شرعي دلیل نہیں ہے؛کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کا وجود نہیں تھا۔

اور ہزاروں مثالیں ہیں جن کا ذکر ہم اس بحث میں نہیں کریں گے۔

لہٰذا ہر زمانے میں اور تمام انسانوں کے لیے ایک دليل عام کا وجود ایک شرعی دلیل سمجھا جا سکتا ہے۔

لہٰذا، ایسے معاملات میں عمومی اصول ایک جائز شرعی دليل کے لیے ایک منصفانہ اور مستند نظر ہے، نہ کہ بغض اور تعصب سے آلودہ نظر۔ کیونکہ ایک نیا سماجی رجحان اگر معاشرے کی ترقی اور کمال اور خدا اور مذہب سے زیادہ واقفیت اور فساد کے پھیلاؤ کو روکنے کا سبب بنتا ہے تو یہ ایک اچھی سنّت کی مصداق ہے جسے شریعت نے منظور کیا ہے۔

7- چیزوں  میں اصل اباحه ہے۔

بدعت کی بحث میں جن دیگر موضوعات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، ان میں اصاله الاباحه ہے؛ یعنی جب تک شریعتِ مطہرہ کی طرف سے کسی خاص معاملے کے متعلق کوئی ممانعت یا نهي نہ ہو، اس کی بنیاد اس کی اجازت اور اس کے کرنے کی اجازت ہے۔

یہ شرعی قاعده تمام شرعی احکام پر حاکم ہے۔

قرآن  میں صریحا کہا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاوظيفه ہےمحرمات کو بیان کرناحلال کو ذكر کرنا نہیں،اوراشياء اور افعال میں اصل، ہر عمل کی حلیت اور جواز اس فعل کے انجام دینے میں ہے ،جب تک کہ اس کی حرمت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نص نہ اجائے، اور علمائے ملت کا فرض ہے کہ وہ شریعت کے مخصوص دلائل سے حکم الٰہی اخذ کرنے میں اپنی تمام تر صلاحیت اور طاقت کو بروئے کار لائیں اور جب تک اس کی حرمت کا کوئی ثبوت نہ ملے، حکم جائز ہوجاتا ہے۔

یہاں ہم مثال کے طور پر ان آیتوں میں سے ایک کا حوالہ دیتے ہیں جہاں جواز اور  اصاله الاباحه کا حکم دیا گیا ہے:

وَ ما لَكُمْ أَلاَّ تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَ قَدْ فَصَّلَ لَكُمْ ما حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ وَ إِنَّ كَثيراً لَيُضِلُّونَ بِأَهْوائِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدين الانعام(6):119

اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اس (ذبیحہ) میں سے نہیں کھاتے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے؟ حالانکہ اس نے جن (جانوروں) کو تم پر حرام قرار دیا ہے ان کو تمہارے لئے تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ سوائے اس کے جس کے کھانے کی طرف تم مضطر و مجبور ہو جاؤ (تو پھر حرام بھی کھا سکتے ہو) اور یقیناً بہت سے لوگ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کرتے ہیں بے شک آپ کا پروردگار حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے۔

یہ آیت بتاتی ہے کہ جس چیز کو بیان کرنا ضروری ہے وہ محرمات ہے نہ کہ مباح چیزیں، اور اس لیے جب تک کسی خاص معاملے کے بارے میں شک ہو اس وقت تک روکنا اور اس پر عمل کرنے سے گریز کرنا ضروری نہیں ہے جب تک کہ اس کا تذکرہ محرمات کے سلسلے میں نہ ہو۔

دوسراحصہ :قرآن اور انبیاءکے نظرمیں رونے اور آنسو بہانے کا مقام۔

1- رونا اور آنسو بہاناقرآن سے  تأييد شدہ ہیں۔

اس مواد کے مطابق جو بدعت کے معنی میں پیش کیا گیا تھا؛ ہم رونے اور آنسوبہانے کی قرآنی دلیل کا حوالہ دیں گے؛ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آیا قرآن میں عام طور پر آنسوبہانے کی تعریف کی گئی ہے یا مذمت؟

قران کی بہت سی آیتیں گريه اور رونے کی تعریف میں صادر ہوئی ہیں اور اس مسئلہ کا تذکرہ قرآن مجید میں آنسوبہانے اور  گريه کرنے کی تأييد کے طور پرذکرہوا ہے جس کے ثبوت کے طور پر ہم چند مثالیں ذکر کرتے ہیں:

وہ آیتیں جو روتی ہوئی آنکھوں کی طرف اشارہ کرتی ہے:

فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلا وَلْيَبْكُوا كَثِيراً جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ التوبه (9): 82

ان (برے) کاموں کے بدلہ میں جو یہ لوگ کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ اب وہ ہنسیں کم اور روئیں زیادہ۔

لہزا کم ہنسیں اور زیادہ روئیں۔

مذکورہ آیت میں خدا ایک عمل کا حکم دیتا ہے کہ اگر خدا اس سے راضی نہ ہوتا تو اس کا حکم نہ دیتا۔

اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی تعریف میں اس طرح فرماتا ہے:

إِذَا تُتْلَي عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَنِ خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيّاً مريم (19): 58

جب ان کے سامنے خدائے رحمن کی آیتین پڑھی جاتی تھیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے تھے۔

جن لوگوں کو علم کی نعمت دی گئی ہے ان کی صفات کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً الإسراء (17): 109

اور وہ روتے ہوئے منہ کے بل گر پڑتے ہیں۔ اور یہ (قرآن) ان کے خشوع و خضوع میں اضافہ کر دیتا ہے۔

یا قرآن کی آیات نازل ہونے کے وقت مومنین کی  توصيف  کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

تَرَي أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنْ الدَّمْعِ المائده (5): 83

تم دیکھوگے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے چھلک رہی ہوتی ہیں

چنانچہ جیسا کہ قرآن کریم میں دیکھا گیا ہے، رونا اور آنسو بہانا جو لچک اور روحانی اثرات کا نتیجہ ہیں نہ صرف مذمت کی گئی ہے،  بلکہ خدا کی طرف سے اس کی تعریف کی گئی ہے، کیونکہ یہ انسانی فطرت میں سے ہے اور انسان کی مثبت شخصیت کا حصہ ہے۔

2- انبیاء کی  سيریت میں رونا اور آنسوبہانا

خدا کے عظیم پیغمبروں کی عملی زندگی کی تقلید اور اس کو قائم کرنا بلاشبہ ہماری بحث کے موضوع (امام حسین علیہ السلام کیلئے عزاداري اور گريہ) کے اہم عناصر میں سے ایک ہے اور عقلی اور  نقلی کے نقطہ نظر سے اس کا جواز ہے، کیونکہ انبیاء کی عملی زندگی ہمارے ديني اعمال کے  جواز  کےلئے مضبوط ترین دلیل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک پر ان کی حمایت اور ان کی راہ پر چلنا واجب قرار دیا ہے:

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَهٌ حَسَنَهٌ فِي إِبْرَهِيمَ. الممتحنه (60): 4

یقیناً تم لوگوں کیلئے (جنابِ) ابراہیم(ع) اوران کے ساتھیوں میں ایک عمدہ نمونہ ہے

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَهٌ حَسَنَهٌ. ألاحزاب (33): 21

بے شک تمہارے لئے پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات میں (پیروی کیلئے) بہترین نمونہ موجود ہے۔

لہٰذا، انبیاء کی زندگی کے ایک حصے کا حوالہ دینا اور رپورٹ کرنا جس کا تعلق ان کے روحانی اثرات سے ہے جب پراثر واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہمیں قابل اعتماد جواب تک پہنچنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اب ہم ایسے معاملات کی طرف اشاره کرتے ہیں:

الف- اپنے فرزند کی جدائی پر حضرت یعقوب  پيامبر کا رونا

حضرت یوسف کا قصہ شروع سے آخر تک ایک ہولناک اور دل کو چھو لینے والے سانحے کی طرح بیان کیا گیا ہے۔

جب یوسف کے بھائیوں کے دلوں میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی اور وہ اسے غائب (قتل) کرنے کا ارادہ کیااور (جب تک وہ کنویں میں ہے)  وہ لوگ خون سے بھری ہوئی ایک پھٹی ہوئی قمیض کے ساتھ اپنے باپ کے پاس آتے ہیں اور بھیڑیے کے کھاجانے کی اطلاع دیتے ہیں اور اس کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام کا اپنے بچے کے کھو جانے پر بہت دکھ ہوتا ہے اور ہر صبح و شام روتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب کے زبان سے یہ فرمایا:

وَقَالَ يَأَسَفَي عَلَي يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ يوسف(6): 84

(یہ کہہ کر) ان لوگوں کی طرف سے منہ پھیر لیا اور کہا ہائے یوسف (ہائے یوسف) اور رنج و غم (کی شدت) سے (رو رو کر) ان کی دونوں آنکھیں سفید ہوگئیں اور وہ (باوجود مصیبت زدہ ہونے) کے بڑے ضبط کرنے والے اور خاموش تھے۔

یعقوب اپنے بیٹے کے جدائی کے بارے میں حالانکہ وہ جانتے تھے کہ وہ زندہ ہے اور اس کی بانہوں میں واپس آئے گا،لیکن اس کے باوجود وہ اپنے روحانی اثرات کو نہیں چھوڑتا اور اپنی ذہنی اور روحانی تکالیف کو دور کرنے کے لیے پناہ گاہ تلاش کرتا ہے اور کہتا ہے:

قَالَ إِنَّمَآ أَشْكُواْ بَثِّي وَحُزْنِي إِلَي اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَاتَعْلَمُونَ.يوسف(6): 86.

آپ (ع) نے کہا کہ میں اپنے رنج و غم کی شکایت بس اللہ ہی سے کر رہا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

اس قرآنی دلیل سے خدا کے اولیاء پر رونے اور نوحہ و ماتم کرنے اور ظالموں  کے اعمال کی شکایت کرنے کی اجازت خدا کی بارگاہ میں ہے اور خدا کے پیغمبروں میں سے کسی ایک کی سیرت کے طور پرمصیبتوں پر ماتم اور گریہ و زاری کے جواز کا ایک ٹھوس اور قرآنی ثبوت ہے۔

اور دوسری طرف تفسیر کی کتابوں میں حدیثیں موجود ہیں جن میں سے ہر ایک میں قصہ کی وسعت اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے غم کی تفصیل بیان کی گئی ہے جو خود دانشمندوں کے لیے انبیاء اور اولیاء کی دردناک زندگی کی کہانیوں کو استعمال کرنا ایک اور دلیل ہے۔

مثال کے طور پر ہم سنی روائي اور تفسيري منابع سے ایک حدیث کی طرف اشاره کرتے ہیں:

زمخشری کی تفسیر  کشاف  میں اس آیت کے سلسلے میں منقول ہے:

ما جفت عيناه من وقت فراق يوسف إلي حين لقائه ثمانين عاما، وما علي وجه الأرض أكرم علي الله منه.

حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں یوسف علیہ السلام کی جدائی سے یوسف علیہ السلام کی ملاقات تک آنسوؤں سے خشک نہ ہوئیں اور یہ مدت اسی سال تک جاری رہی۔ اور زمین پر کوئی چیز خدا کے نزدیک اس کام سے زیادہ قیمتی نہیں تھی۔

الكشاف عن حقائق التنزيل وعيون الأقاويل، زمخشري، ج 2، ص 339.

اور اس تفسير میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے:

أنه سئل جبرئيل عليه السلام: ما بلغ من وجد يعقوب علي يوسف؟ قال: وجد سبعين ثكلي. قال: فما كان له من الأجر؟ قال: أجر مائه شهيد، وما ساء ظنه بالله ساعه قط.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا: یوسف کی عدم موجودگی کی وجہ سے یعقوب کو کیا ہوا؟ فرمایا: جتنا مرے ہوئے بچوں کی ستر ماؤں پر ہوتا ہے۔ اور پوچھا: حضرت یعقوب علیہ السلام کو اس صبر کا کتنا اجر ہے؟آپ نے فرمایا: سو شہیدوں کا ثواب، اور یہ اس وقت تھا جب حضرت یعقوب نے کبھی سوء ظن نہیں کیا۔

الكشاف عن حقائق التنزيل وعيون الأقاويل، زمخشري، ج 2، ص 339.

عبدالرحمٰن سیوطی نے ابن جریر سے اور وہ عکرمہ سے نقل کرتے ہیں:

أتي جبرئيل عليه السلام يوسف عليه السلام وهو في السجن، فسلّم عليه، فقال له يوسف: أيّها الملك الكريم علي ربّه، الطيّب ريحه، الطاهر ثيابه، هل لك علمٌ بيعقوب؟ قال: نعم، ما أشدّ حزنه؟ قال: ما ذا له من الأجر؟ قال: أجر سبعين ثكلي، قال: أفتراني لاقيه؟ قال: نعم، فطابت نفس يوسف.

جبرائیل علیہ السلام قید خانے میں یوسف علیہ السلام کے پاس آئے اور پوچھا: اے فرشتہ جو آپ کے رب کو پیارا ہے، آپ کی خوشبو اچھی ہے، آپ کے کپڑے صاف ہیں، کیا آپ یعقوب علیہ السلام کے بارے میں جانتے ہیں؟جبرائیل کہا: ہاں، وہ بہت غمگین ہے، انہوں نے پوچھا: اس کا اجر کتنا ہے؟  جبرائیل نے فرمایا: مردہ بچوں کی ستر ماؤں کا ثواب۔ انہوں نے پوچھا: کیا میں اس سے ملوں گا؟ہاں، یوسف یہ تقریر سن کر پرسکون ہو گیا۔

الدرّ المنثور، جلال الدين عبد الرحمان سيوطي، ج 4، ص 31.

تفسير الدرّ المنثورکے مصنف نے ایک اقتباس میں یہ کہا ہے:

بكي يعقوب علي يوسف ثمانين عاماً، حتّي ابيضّت عينا من الحزن...

حضرت یعقوب علیہ السلام اسّی سال تک یوسف کے لیے روتے رہے، یہاں تک کہ ان کی دونوں آنکھیں غم کی شدت اور رونے سے سفید ہو گئیں۔

الدر المنثور، ج4، ص 31، و تفسير طبري، ج 1، ص 250.

ب- یوسف علیہ السلام کا رونا

یہ صرف یعقوب ہی نہیں تھا جو اپنے بیٹے کی جدائی پر آنسو بہاتا تھا، بلکہ دوسری طرف یوسف بھی اپنے باپ کی جدائی کے درد میں جلتا تھا۔

ابن عباس سے روایت ہے:

عند ما دخل السجن، يبكي حتّي تبكي معه جدر البيوت وسقفها والأبواب.

جب یوسف علیہ السلام کو قید کیا گیا تو جیل کا دروازہ دیوار حتیٰ کہ چھت بھی ان کے ساتھ رو رہی تھی۔

تفسير قرطبي، ج 9، ص 88.

اور امام صادق علیہ السلام کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ:

البكّائون خمسه، آدم، و يعقوب و... و أمّا يوسف فبكي علي يعقوب حتّي تأذّي به أهل السجن، وقالوا: إمّا أن تبكي نهاراً وتسكت الليل، وإمّا أن تبكي الليل وتسكت النهار، فصالحهم علي واحد منهما.

پانچ لوگ تھے جو بہت زیادہ روئے تھے، آدم علیہ السلام جو آسمان سے جدا ہونے کے وقت مسلسل رو رہے تھے ، اور یعقوب، اور یوسف نے اپنے والد کی جدائی اور باپ کی محبت کے بانہؤں سے علیحدگی پر رات دن آنسو بہائے یہاں تک کہ جیل کے باقی لوگ اس کے رونے سے تنگ آ گئے، اور وہ اسے رات اور دن کا کچھ حصہ روئے بغیر گزارنے کا مشورہ دینے پر مجبور ہوئے، یوسف کو ان کی تجویز ماننی پڑی۔

كشف الغمه، ابن أبي الفتح الإربلي، ج 2، ص 120ـ الخصال، صدوق، ص 272 ـ الأمالي، صدوق، ص 204 ـ روضه الواعظين، نيشابوري، ص 451 ـ المناقب، ابن شهرآشوب، ج 3، ص 104.

ج- رونا اور آنسو بہانا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہے

میں آنسوؤں والی آنکھیں چاہتا ہوں۔

کتاب تفسير قرطبي  میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی درخواست کا ایک حصہ مذکور ہے جس میں فرمایا:

اللّهمّ اجعلني من الباكين إليك، والخاشعين لك.

اے اللہ مجھے رونے والوں میں سے اور خشوع  کرنے والوں میں سے بنا دے۔

تفسير قرطبي، ج11، ص 215.

اور دوسری دعا میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:

اللّهمّ ارزقني عينين هطالتين.

خدایا مجھے آنسوؤں سے بھری آنکھیں عطا فرما۔

فيض القدير، ج 2، ص 181.

درحقیقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  ان دعا اور مناجات  کے  فقرات میں ان کی باطنی خواہش کو اس کام میں طلب کیا گیا ہے جو خدا کو پسند ہو اور اگر یہ عمل خدا کو منظور نہ ہوتا تو وہ اپنے خدا سے اپنی دعاؤں میں کبھی اس کا ذکر نہ کرتا۔

وہ آنکھیں جو کبھی نہیں جلے گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے دو گروہوں کی تعریف میں فرمایا:

عينان لا تمسّهما النار؛ عين بكت من خشيه اللّه، وعين باتت تحرس في سبيل اللّه.

دو آنکھیں جہنم کی آگ سے محفوظ ہیں، وہ آنکھ جو خوف خدا سے روتی ہے اور وہ آنکھ جو لوگوں کی جان عزت اور حفاظت کے لیے رات کو جاگتی ہے۔

سنن ترمذي، ج 3، ص96.

خدا کی یاد میں رونا

بخاری اپنی صحیح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:

سبعه يظلّهم اللّه... رجل ذكر اللّه ففاضت عيناه.

سات گروہ ایسے ہیں جن پر قیامت میں رحمت الٰہی کے بادل چھائے ہوں گے،۔۔۔ وہ جن کی آنکھوں سے یادِ الٰہی سے آنسو جاری ہوں گے۔

صحيح بخاري، ج7، ص 185.

خدا کے خوف سے رونا

ترمذی نے اپنی سنن میں اس طرح کہا ہے:

عن رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلّم: لا يلج النار رجل بكي من خشيه اللّه.

جوشخص اللہ کے خوف سے رو‏ئے گا وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔

سنن ترمذي، ج 3، ص 380.

دنیا میں رونا آخرت میں رونے سے روکتا ہے۔

حافظ اصفہانی نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے:

من بكي علي ذنبه في الدنيا حرّم اللّه ديباجه وجهه علي جهنّم.

جو شخص اس دنیا میں اپنے گناہوں کی وجہ سے روتا ہے، خدا اس کا چہرہ جہنم کیلئے حرام کرے۔

حافظ اصبهاني، ذكر أخبار اصبهان، ج2، ص171.

تیسرا حصہ: سیرت نبوی میں رونے اور آنسوبہانے کا مقام۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سيرت میں رونا

1- حضرت حمزہ علیہ السلام کی شہادت کے وقت رسول اللہ کا رونا

عبد المطلب کے بیٹے حمزہ کا شمار اسلام کی ممتاز شخصیات اور قهرمان میں ہوتا تھا جو جنگ احد میں شہید ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا کی شہادت سے بہت غمگین ہوئے اور آپ کو سید الشہداء کا لقب دیا اور  آپ کی جدائی میں رو تے تھے۔

جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ علیہ السلام کی شہادت کی خبر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و جان پر بہت اثر کیا، کیونکہ توحید کے مکتب کے سب سے بڑے محافظ اور حقیقی محافظوں میں سے ایک کو کھو چکا تھا۔

لہٰذا اس دردناک واقعے کے سامنے رسولِ حق اور خدا کے عظیم پیغمبر کا ردعمل ان کے پیروکاروں کے لیے ایک لازوال نمونہ ہو گا۔

حلبی اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں:

لما رأي النبي حمزه قتيلا، بكي فلما راي ما مثّل به شهق

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حمزہ کی خون آلود لاش پائی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے مسخ ہونے کا علم ہوا تو آپ زور سے رو پڑے۔

السيره الحلبيه، ج 2، ص 247.

آن حضرت (ص) کی طرف سے اپنے چچا حمزہ کے لئے ماتم و گریہ و زاری اس قدر شدید تھی کہ ابن مسعود کہتے ہیں:

ما رأينا رسول اللّه صلّي الله عليه و آله وسلّم باكياً أشدّ من بكائه علي حمزه، وضعه في القبله، ثمّ وقف علي جنازته، وانتحب حتّي بلغ به الغشي، يقول: يا عمّ رسول اللّه! يا حمزه! يا أسد اللّه! وأسد رسوله! يا حمزه! يا فاعل الخيرات! يا حمزه! يا كاشف الكربات! يا حمزه! يا ذابّ عن وجه رسول اللّه!.

ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی پر روتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح وہ اپنے چچا حمزہ علیہ السلام کے شہادت کے وقت   رورہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ علیہ السلام  کی میت کو قبلہ کی طرف رکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور بلند آواز سے روتے رہے یہاں تک کہ آپ بے ہوش ہو گئے، اور وہ اپنے چچا کی لاش سے کہتے تھے:  اے خدا کے نبی کے چچا اے حمزہ! اے خدا کے شیر اور خدا کے نبی کے شیر اے حمزہ! آپ جو نیک اعمال کرتے تھے اے حمزہ! اے حمزہ جو مشکلات اور پریشانیاں دور کرتے تھے! آپ  جو سختیوں کو رسول اللہ سے دور رکھتے تھے۔

ذخائر العقبي، ص 181.

لیکن حمزہ علیہ السلام  پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رونے کی ابتدا یہیں سے ہوئی کہ جب احد سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے گھروں سے شہداء کے لیے رونے کی آواز سنی:

ومر رسول الله صلي الله عليه وسلم بدار من دور الأنصار من بني عبد الأشهل وبني ظفر فسمع البكاء والنوائح علي قتلاهم فذرفت عينا رسول الله صلي الله عليه وسلم فبكي ثم قال لكن حمزه لا بواكي له فلما رجع سعد بن معاذ وأسيد بن حضير إلي دار بني عبد الأشهل أمرا نساءهم أن يتحزمن ثم يذهبن فيبكين علي عم رسول الله صلي الله عليه وسلم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار (بني عبد الأشهل وبني ظفر) کے گھروں کے پاس سے گزر رہے تھے کہ آپ نے ان کے مرنے والوں کے لیے رونے اور گریہ کرنے کی آواز سنی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور فرمایا: میرے چچا حمزہ پر رونے والے کوئی نہیں ہے۔ اور جب سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر بنی عبد اشہل کے گھروں میں واپس آئے تو انہوں نے اپنی بیویوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے غم کو اپنے سینوں میں بند کر لیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے لیے ماتم کریں۔

تاريخ طبري، ج 2، ص 210 ـ السيره النبويه لابن هشام، ج 3، ص 613 ـ الثقات، ج 1، ص 234 ـ البدايه والنهايه، ج 4، ص 54 و 55.

اس کے بعد سے جن لوگوں نے رسول اللہ کا کلام سنا تھا وہ ہر شہید پر رونے سے پہلے حمزہ کے لیے ماتم کرتے تھے۔

فلم تبك امرأه من الأنصار علي ميّت بعد قول رسول اللّه صلّي الله عليه و آله وسلّم لكنّ حمزه لابواكي له إلي اليوم إلّا بدأت البكاء علي حمزه.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ میرے چچا حمزہ پر رونے والا کوئی نہیں ہےسن کر انصار میں سے کوئی عورت اپنے میت پر نہیں روتی تھیں، سوائے اس کے کہ پہلے حمزہ کے لیے ماتم کرتی تھیں۔

مجمع الزوائد، ج 6، ص 126.

تمام غموں سے پہلے حمزہ کے لیے رونے اور گریہ کا سلسلہ:

ابن کثیر کہتے ہیں: آج تک انصار کی عورتیں اپنے میت پر رونے سے پہلے حمزہ کے لیے پہلے روتی ہیں۔

أحمد بن حنبل عن ابن عمر أن رسول الله صلي الله عليه وسلم لما رجع من اُحد فجعلت نساء الأنصار يبكين علي من قتل من أزواجهن قال فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم ولكن حمزه لا بواكي له قال ثم نام فاستنبه وهن يبكين.

ابن عمر   بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد سے واپسی پر انصار کی عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنے میتوں پر رو رہی ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حمزہ پر رونے مالا کوئی نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر آرام کرنے کے بعد دیکھا کہ عورتیں حمزہ کے لیے رو رہی ہیں۔

قال فهن اليوم إذا يبكين يندبن بحمزه.

اس دن سے لے کر اب تک عورتیں پہلے حمزہ کے لیے اور پھر اپنے مرنے والوں کے لیے ماتم کرتی ہیں۔

البدايه والنهايه، ابن كثير، ج 4، ص 55.

اس خبر کو بیان کرنے کے بعد ابن کثیر یوں تبصرہ کرتے ہیں:

وهذا علي شرط مسلم.

اس روایت میں مسلم قواعد کی بنیاد پر صحیح ہونے کی شرط ہے۔

البدايه والنهايه، ج 4، ص 55.

واقدی کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ سلسلہ ہمارے زمانے تک جاری تھا کہ وہ پہلے حمزہ کے لیے اور پھر اپنے مرنے پر ماتم کرتے تھے :

قال الواقدي فلم يزلن يبدأن بالندب لحمزه حتي الآن.

اس وقت سے لے کر اب تک عورتیں سب سے پہلے حمزہ کے لیے روتی ہیں اور ماتم کرتی ہیں۔

أسد الغابه، ج 2، ص 48.

ابن سعد نے بھی یہی کہا:

فهن إلي اليوم إذا مات الميت من الأنصار بدأ النساء فبكين علي حمزه ثم بكين علي ميتهن.

اس دن کے بعد سے انصار پہلے حمزہ کے لیے اور پھر اپنے مرنے والوں کے لیے رو تے ہیں۔

الطبقات الكبري، ج 2، ص 44.

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل ماتم گریہ و زاری  کے جواز کی دلیل نہیں؟

اہل ایمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکار آپ کی عملی سنت کو دینی عبادات کا معیار سمجھتے ہیں،لہٰذا اپنے چچا حمزہ کی شہادت پر ماتم اور گریہ و زاری میں حضورؐ کا عمل مذہبی بزرگوں اور اولیاء اللہ کی موت اور شہادت پر ماتم کے جائز ہونے کا معیار ہو سکتا ہے۔

2- جعفر بن ابی طالب کی شہادت کے وقت رسول اللہ کا رونا

جعفر بن ابی طالب بھی جنگ موته کے سپہ سالاروں میں سے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شہادت کی خبر سن کر ان کے بچوں کو دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے تو آپ گھر میں داخل ہوئے انہوں نے جعفر کے بچوں کو آواز دی اور اس وقت آپ کے آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

جعفر کی بیوی اسماء نے محسوس کیا کہ اس کے شوہر کو کچھ ہوگیا ہے تو اس نے پوچھا:

بأبي وأمّي ما يبكيك؟ أبلغك عن جعفر وأصحابه شي ء؟.

میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو، کیا آپ نے جعفر اور اس کے ساتھیوں کے کچھ سنا ہے؟

قال: نعم، أصيبوا هذا اليوم.

انہوں نے کہا: ہاں، وہ آج شہید ہو گئے۔

اسماء نے چیخ ماری، عورتوں نے انہیں گھیر ے میں لیا، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا گھر میں داخل ہوئیں اور رو رہی تھیں، اور کہنے لگیں: "وا عمّاه" (اے ہمارے چچا!)

فقال رسول اللّه صلّي الله عليه و آله وسلّم: علي مثل جعفر فلتبك البواكي.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رونے والوں کو جعفر پر اسی طرح رونا چاہیے۔

الاستيعاب، ج 1، ص 313 ـ أسد الغابه، ج 1، ص 241 ـ الاصابه، ج2، ص 238 ـ الكامل في التاريخ، ج2، ص 420.

مذکورہ مثالوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے  سنّت اور عملی طریقہ کے علاوہ ماتم کی تقریبات اور میت پر رونے کی منظوری، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر اور دستخط بھی شامل ہیں؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت زدہ کے لیے ماتم اور گریہ و زاری سے منع نہیں کیا، بلکہ اس سے بڑھکر رونے اور ماتم کرنے کا بھی حکم دیا۔

3- زید بن حارثہ کی شہادت کے وقت رسول اللہ کا رونا

زید بن حارثہ بھی جنگ موته کے کمانڈروں میں سے تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے جنگ کی قیادت سنبھالی اور ان کے ساتھ جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ بھی تھے، جب ان کی شہادت کی خبر ملی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ان کا گلا پکڑ لیا اور وہ بھی رو پڑے پوچھا تم رو کیوں رہے ہو؟ کہا:

شوق الحبيب إلي حبيبه.

محبت ایک دوست کا دوست ہے۔

فيض القدير، ج3، ص 695.

4- اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات پر پیغمبر کا رونا

ابراہیم واحد بیٹا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں مدینہ میں پیدا ہوا تھا، لیکن وہ ایک سال کی عمر میں فوت ہوا اور اپنے والد کو اس کے غم میں چھوڑ گیا۔

ابراہیم اس ماں سے  پیدا ہوا جس کا نام "ماریہ" تھا، وہ 18 ماہ سے زیادہ کا نہیں تھا جب اسے اپنے والد سے لیا گیا تھا، حضرت اپنے  بیٹے کی وفات پر رو رہے تھے، عبدالرحمٰن بن عوف ان کے رونے سے حیران ہوئے، اس نے کہا: "وأنت يا رسول اللّه؟" (کیا آپ بھی اپنے بچ کے مرنے پر  روتے ہیں؟) حضرت نے فرمایا: "يا ابن عوف، إنّها رحمه" (اے ابن عوف،اپنے بچے کی موت پر آنسو بہانا خدا کا فضل اور رحمت ہے) پھر فرمایا:

إنّ العين تدمع، والقلب يحزن، ولانقول إلّا ما يرضي ربّنا، وإنّا بفراقك يا إبراهيم لمحزونون.

آنکھ روتی ہے اور دل غمگین اور رنجیدہ ہو جاتا ہے لیکن ہم ایک لفظ بھی نہیں کہتے سوائے اس کے جس سے خدا راضی ہو، اے ابراہیم ہم تیری جدائی پر محزون اور غمگین ہیں۔

صحيح بخاري، ج 2، ص 85، صحيح مسلم، ج 4، ص 1808، كتاب الفضائل، باب رحمته بالصبيان ـ العقد الفريد، ج 3، ص 19، كتاب التعزيه ـ سنن ابن ماجه، ج 1، ص506، ش 1589، باب ما جاء في البكاء علي الميت ـ مصنف عبد الرزاق، ج 3، ص552، ش 6672، باب الصبر والبكاء والنياحه

5- عبدالمطلب پر رسول اللہ کا رونا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبد المطلب کی وفات کے بعد اپنے پیارے آباؤ اجداد پر رو پڑے؛ ام ایمن کہتی ہیں:

انا رايت رسول اللَّه يمشي تحت سريره و هو يبكي

میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عبدالمطلب کے جنازه کے نیچے سے چلتے ہوئے   گریہ کرتے  دیکھا۔

تذكره الخواص، ص 7.

6- ابو طالب پر رسول اللہ کا رونا

ایک وفادار چچا اور پیغمبر کے  پیارے محافظ ابو طالب کی وفات بھی انہیں بہت  گراں گزرا، امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے والد ابو طالب کے وفات کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے اور فرمایا:

اذهب فاغسله و كفّنه و واره غفراللَّه له و رحمه

اسے غسل دو، کفن دو، اور دفن کرو، خدا انہے بخش دے اور ان پر اپنی رحمت نازل کرے۔

الطبقات الكبري، ابن سعد، ج 1، ص 105.

7- اپنی والدہ آمنہ کے لیے پیغمبر کا رونا

ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ابواء میں اپنی والدہ آمنہ کی قبر پر تشریف لے گئے۔ مورخین کے مطابق وہ اپنی والدہ کی قبر کے پاس رویا اور اپنے ساتھیوں کو بھی رلا دیا۔

المستدرك، ج 1،ص 357 ـ تاريخ المدينه، ابن شبّه، ج 1، ص 118.

8- فاطمہ بنت اسد پر رسول اللہ کا رونا

فاطمہ بنت اسد، ابو طالب کی زوجہ اور امیر المومنین علی علیہ السلام کے والدہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بہت محبوب تھیں، اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی  سرپرستي میں بہت زیادہ  اہتمام کرتی تھیں۔ 3 ہجری میں جب فاطمہ (س) کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو انہیں اپنی ماں سمجھتے تھے، بہت غمگین ہوئے اور مؤرخین کہتے ہیں:

صلّي عليها و تمرغ في قبرها و بكي

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نماز پڑھی اور ان کے قبر میں لیٹےاور ان پر روئے۔

ذخائر العقبي، ص 56.

9- عثمان بن مظعون پر رسول اللہ کا رونا

حکیم مستدرک میں کہتے ہیں:

إن النبي قبّل عثمان بن مظعون وهو ميت وهو يبكي...

عثمان بن مظعون کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بوسہ دیے اور ان کے لیے رویے۔

المستدرك علي الصحيحين، ج 1، ص 514، ش 1334ـ سنن ترمذي، ج 3، ص 314، ش 989، كتاب الجنائز باب ما جاء في تقبيل الميت ـ المعجم الكبير، ج24، ص 343، ش 855، باب عائشه بنت قدامه بن مظعون الجمحيه ـ سنن البيهقي الكبري، ج 3، ص 407، ش 6503 ـ ربيع الأبرار، ج 4، ص 187ـ جامع الأصول، ج 11، ص 105.

11 - اُحد کے شہید سعد بن ربیع پر رسول اللہ کا رونا

حاکم مستدرک میں جابر بن عبداللہ انصاری کے حوالے سے لکھتے ہیں:

لما قتل سعد بن ربيع بأحد، رجع رسول الله صلي الله عليه وآله إلي المدينه... فدخل رسول الله صلي الله عليه وآله ودخلنا معه، قال جابر: والله ما ثمّ وساده ولا بساط. فجلسنا ورسول الله يحدثنا عن سعد بن ربيع، يترحم عليه... فلما سمع ذلك النسوه، بكين فدمعت عينا رسول الله وما نهاهن عن شيء.

جب سعد بن ربیع جنگ احد میں شہید ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے... آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے  گھر میں داخل ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے۔ جابر کہتے ہیں: خدا کی قسم  وہاں  نہ تو کوئی فرش تھا اور نہ ہی بیٹھنے کا کوئی انتظام۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن ربیع کے شخصيت کے بارے میں بات کر رہے تھے اور طلب  رحمت و مغفرت کر رہے تھے... عورتوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ باتیں سنیں تو رونے لگیں اور ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ اور  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو بھی رونے سے نہیں روکا۔

امتاع الاسماع، مقريزي، ج 13، ص 269.

10- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کو عورتوں کے رونے سے روکنے سے منع فرمایا

ذیل کے متن میں ہم دیکھتے ہیں کہ عمر  نے جنازہ میں شریک عورتوں کے ایک گروہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں رونے سے روکنا چاہا لیکن  رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  عمر کو اس کام سے منع کیا۔

خرج النبي علي جنازه ومعه عمر بن الخطاب، فسمع نساء يبكين، فزبرهن عمر فقال رسول الله (ص) يا عمر، دعهن، فإن العين دامعه والنفس مصابه والعهد قريب.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ کے لیےنکلے ان کے ساتھ عمر  بھی نکلے۔ اس وقت عورتوں کے رونے کی آوازیں سنائی دیں اور عمر نے ان لوگوں شدت سے منع کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر  سے فرمایا: ان کو چھوڑ دو کیونکہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی ہیں اور ان کی زندگی میں مصیبت آئی ہے اور انہوں نے ابھی انہیں کھو دیا ہے۔

المستدرك علي الصحيحين، ج 1، ص 381،ش 1406،كتاب الجنائز ـ سنن النسائي (المجتبي)، ج4، ص19، ش 1850، كتاب الجنائز باب الرخصه في البكاء علي الميت ـ مسند أحمد بن حنبل، ج2، ص444، ش 9729، باب مسند أبي هريره ـ سنن ابن ماجه، ج1،ص505، ش 1587، كتاب الجنائز باب ما جاء في البكاء علي الميت.

مندرجہ بالا جملہ یہ بات ‍ثابت ہوتی ہے کہ میت پر گریہ کرنے کی حرمت کا مسئلہ جو بعض لوگوں کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے، عمر کے اس فعل سے اخذ کیا گیا ہو، لیکن عمر کے اس فعل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کے باوجود یہ اب بھی ہے، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ اس کے فعل کا حوالہ دے کر مرنے والوں کے لیے رونے سے گریز کرتے ہیں۔

11- نبی صلی اللہ علیہ وسلم آنسوؤں کو خدا کی رحمت سمجھتے ہیں

عن أسامه بن زيد قال:أرسلت بنت النبي (ص) أن ابنا لي قبض، فأتنا، فأرسل يقرأ السلام ويقول: إن الله له ما أخذه وله ما أعطي وكل شيء عنده بأجل مسمي، فلتصبر ولتحتسب. فأرسلت إليه تقسم عليه ليأتينها، فقام ومعه سعد بن عباده ومعاذ بن جبل وأبي بن كعب وزيد بن ثابت ورجال، فرفع رسول الله (ص) الصبي ونفسه تقعقع، ففاضت عيناه، فقال سعد: يا رسول الله، ما هذا؟ قال: رحمه يجعلها في قلوب عباده، إنما يرحم الله من عباده الرحماء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے آپ کو پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا مرنے والا ہے،(یا مرگیاہے) آپ ہمارے پاس آیئے۔ اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھیجا کہ آپ  کو سلام پہونچائے اور کہے: سب کچھ اللہ کا ہے، وہ جو چاہتا ہے لیتا ہے اور جو چاہتا ہے دیتا ہے اور اس کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ پس  بہتر یہ ہے کہ صبر کرو۔

دوباره  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی نے کسی کو  بھیجا اور ان کے آنے کی قسم دی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر اپنے گھر تشریف لے گئے جبکہ سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور کچھ اور لوگ آپ کے ساتھ تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو اس کے ماں کےحوالے کر دیا، جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہانپ رہے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، سعد نے کہا: یا رسول اللہ! یہ آنسو اور رونا کس لیے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں میں ڈالتا ہے، اور اللہ ان بندوں پر رحم کرتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔

صحيح بخاري، ج 1، ص 431، ش 1224، كتاب الجنائز باب قول النبي يعذب الميت ببعض بكاء أهله و ج 5، ص 2141، ش 5331، كتاب المرضي باب عياده الصبيان و ج 6، ص 2452، ش 6279، كتاب الأيمان والنذور باب قول الله تعالي «وأقسموا بالله» ـ صحيح مسلم، ج 2، ص635، ش 923، كتاب الجنائز باب البكاء علي الميت ـ سنن النسائي (المجتبي)، ج 4، ص 22، ش 1868، كتاب الجنائز باب الأمر بالاحتساب والصبر عند نزول المصيبه ـ سنن النسائي الكبري، ج 1، ص 612، ش 1995، كتاب الجنائز باب الأمر بالاحتساب والصبر عند نزول المصيبه ـ سنن أبي داود، ج 3، ص193، ش 3125، كتاب الجنائز باب في البكاء علي الميت ـ مصنف عبد الرزاق، ج 3، ص551، ش6670، باب الصبر والبكاء والنياحه.

چوتھا حصہ: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کا عزاداری ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا  امام حسین علیہ السلام کے لیےگريہ کرنا

امام حسین علیہ السلام سے پیغمبر(ص) کا غیر معمولی احترام اور حد سے زیادہ محبت بہت سے لوگوں کے لیے حیرت اور تعجب کا باعث ہے اور وہ مسلسل اپنے آپ سے یہ سوال کرتے ہیں:اللہ کے نبی نے اپنی بیٹی کے بچے کو دوسروں کے سامنے توقع سے زیادہ کیوں چوما، گلے لگایا یا پیار کیا؟ کیا یہ حرکتیں خالصتاً جذباتی تھیں، اور مثال کے طور پر ایک نانا اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے؟ یا ان مسائل کے پیچھے کوئی راز ہے؟

اس سوال کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال اور طرز عمل سے تلاش کیا جا سکتا ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو تشکیل دیتا ہے۔

1- حسین کی  پیدائش کے پہلے ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گریہ کرنا

ام الفضل بنت الحارث سے مستدرک الصحیحین اور تاریخ ابن عساکر اور مقتل الخوارزمی وغیرہ میں اس طرح روایت  نقل ہوا ہے:

انها دخلت علي رسول الله(ص) فقالت: يا رسول الله اني رأيت حلما منكرا الليله، قال: وما هو؟ قالت: انه شديد قال: وما هو؟ قالت: رأيت كأن قطعه من جسدك قطعت ووضعت في حجري، فقال رسول الله (ص): رأيت خيرا، تلد فاطمه - إن شاء الله - غلاما فيكون في حجرك، فولدت فاطمه الحسين فكان في حجري - كما قال رسول الله (ص) - فدخلت يوما إلي رسول الله (ص) فوضعته في حجره، ثم حانت مني التفاته فإذا عينا رسول الله (ص) تهريقان من الدموع قالت: فقلت: يا نبي الله بأبي أنت وأمي مالك؟ قال: أتاني جبرئيل عليه الصلاه والسلام فأخبرني ان امتي ستقتل ابني هذا، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، وأتاني بتربه من تربته حمراء.

ام فضل بنت حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے کل رات ایک برا خواب دیکھا۔ حضرت نے فرمایا: تم نے کیا خواب دیکھا؟ فرمایا: یہ ایک برا خواب تھا۔ جیسے آپ نے اپنے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری بانہوں میں ڈال دیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا ہے۔ فاطمہ - ان شاء اللہ - ایک بچے کو جنم دے گی اور اسے آپ کے گود میں دے گی۔ کچھ عرصہ کے بعد فاطمہ نے حسین کو جنم دیا اور وہ میری گود میں رکھ دیے گئے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور حسین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بانہوں میں ڈال دیا؛ حضرت نے مجھے مخاطب کیا اور ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، میرے والدین آپ پر فدا ہو آپ کو کیا ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور مجھے خبر دی کہ میری امت عنقریب میرے اس بیٹے کو قتل کر دے گی، میں نے کہا: یہی حسین کو؟ انہوں نے کہا: ہاں، اور یہ  زمین [کربلا] کی کچھ مٹی ہے۔

حکیم اس روایت کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:

هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه.

یہ حدیث  شیخین [بخاری و مسلم] کے نزدیک صحت کی شرائط رکھتی ہے لیکن انہوں نے اس روایت کو بیان نہیں کیا۔

مستدرك الصحيحين، ج 3، ص 176 و با اختصار در ص 179 ـ تاريخ شام در شرح حال امام حسين عليه السلام: ص 183 رقم 232 ـ مجمع الزوائد، ج 9، ص 179 ـ مقتل خوارزمي، ج 1، ص 159 و در ص 162 با لفظ ديگر ـ تاريخ ابن كثير، ج 6، ص 230 و با اشاره در ج 8، ص 199 ـ أمالي السجري، ص 188. و مراجعه شود به: الفصول المهمه ابن صباغ مالكي، ص 154 و الروض النضير، ج 1، ص 89، و الصواعق، ص 115، و كنز العمال چاپ قديم، ج 6، ص 223، و الخصائص الكبري، ج 2، ص 125.

2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گريه و رونا جب حسین ایک سال کا تھا۔

خوارزمی اپنے مقتل میں لکھتے ہیں:

لما أتي علي الحسين عليه السلام سنه كامله هبط علي رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم اثنا عشر ملكا، محمره وجوههم قد نشروا أجنحتهم، وهم يخبرون النبي بما سينزل علي الحسين عليه السلام.

جب حسین علیہ السلام ایک سال کے ہوگئے تو بارہ فرشتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خون آلود چہرے اور پروں کے ساتھ اترے، اور ان فرشتوں نے اس پیغمبر کو ان واقعات کے بارے میں آگاہ کیا جو جلد ہی حسین علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے ہیں۔

مقتل الحسين، ج 1، ص 163.

البتہ مذکورہ بالا روایت میں اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رونے کا ذکر نہیں ہے لیکن دوسری روایتوں سے ان حضرت کا رونا یقینی طور پر ‍‌  ثابتہے۔

3- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رونا جب حسین  عليه السلام کی عمر دو سال تھی۔

عن ابن عباس قال: فلما أتت علي الحسين من مولده سنتان كاملتان خرج النبي صلي الله عليه وآله وسلم في سفر له، فلما كان في بعض الطريق وقف فاسترجع ودمعت عيناه، فسئل عن ذلك، فقال: هذا جبريل يخبرني عن أرض بشاطي ء الفرات يقال لها كربلا، يقتل بها ولدي الحسين ابن فاطمه، فقيل: من يقتله يا رسول الله؟ فقال: رجل يقال له يزيد، لا بارك الله له في نفسه! وكأني أنظر إلي مصرعه ومدفنه بها، وقد أهدي برأسه، واللّه ما ينظر أحد إلي رأس ولدي الحسين فيفرح إلّا خالف اللّه بين قلبه ولسانه.

قال: ثم رجع النبي صلي الله عليه وآله وسلم من سفره ذلك مغموما ثم صعد المنبر فخطب ووعظ والحسين بن علي بين يديه مع الحسن، قال: فلما فرغ من خطبته وضع يده اليمني علي رأس الحسن واليسري علي رأس الحسين ثم رفع رأسه إلي السماء فقال: اللهم! إني محمد عبدك ونبيك وهذان أطايب عترتي وخيار ذريتي وأرومتي ومن أخلفهم في أمتي، اللهم! وقد أخبرني جبريل بأن ولدي هذا مقتول مخذول، اللهم! فبارك له في قتله واجعله من سادات الشهداء، إنك علي كل شي ء قدير، اللهم! ولا تبارك في قاتله وخاذله. قال: وضجّ الناس في المسجد بالبكاء. فقال النبي صلي الله عليه وآله وسلم: أتبكون ولا تنصرونه! اللهم! فكن أنت له وليا وناصرا.

قال ابن عباس: ثم رجع وهو متغير اللون محمر الوجه فخطب خطبه بليغه موجزه وعيناه يهملان دموعا ثم قال: أيها الناس! إني قد خلفت فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي وأرومتي ومراح مماتي وثمرتي، ولن يفترقا حتي يردا عليّ الحوض، ألا! وإني أسألكم في ذلك إلا ما أمرني ربي أن أسألكم الموده في القربي، فانظروا أن لا تلقوني غدا علي الحوض وقد أبغضتم عترتي وظلمتموهم،... ألا! وإن جبريل عليه السلام قد أخبرني بأن أمتي تقتل ولدي الحسين بأرض كرب وبلاء. ألا! فلعنه الله علي قاتله وخاذله آخر الدهر. قال: ثم نزل علي المنبر، ولم يبق أحد من المهاجرين والأنصار إلا واستيقن أن الحسين مقتول.

از ابن عباس روايت شده: هنگامي كه حسين دو ساله شد نبي اكرم صلي الله عليه وآله وسلم در مسافرت بود در ميانه راه توقف نمود و استرجاع نمود [انا لله وانا اليه راجعون گفت] و اشك از چشمان حضرتش جاري شد، از علت اين اقدام حضرت سؤال كردند، حضرت فرمود: جبريل هم اكنون به من خبر داد از سرزميني در ساحل فرات كه به آن كربلا گفته مي شود، و در آن جا فرزندم حسين بن فاطمه به شهادت مي رسد. گفته شد: يا رسول الله چه كسي او را مي كشد؟ فرمود: شخصي كه به او يزيد گفته مي شود، لا بارك الله له في نفسه! و گويي كه او را در قتله گاهش مي بينم، در حالي كه سر او را به هديه مي برند، واللّه! كسي نيست كه به سر بريده فرزندم حسين نظر افكند و خشنود گردد إلّا اين كه خداوند بين قلب و زبانش جدايي بياندازد.

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفر سے اداس اور غمگین حالت میں واپس تشریف لائے تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں کیلئے خطبہ دیا اور یہ وہ وقت تھا جب حسین بن علی اور ان کے بھائی حسن  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہوئے تو اپنا دایاں ہاتھ حسن کے سر پر اور بایاں ہاتھ حسین کے سر پر رکھا اور اپنا سر آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا:اے خدا! میں محمد ہوں تیرا بندہ اور تیرا نبی اور یہ دونوں زمین پر سب سے بہترین اور میرے جانشینوں میں سے ہیں، اے خدا! جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میرا یہ بچہ مارا جائے گا اور معذور کر دیا جائے گا، اےخدا! اس کے لیے قتل کو آسان فرما اور اسے شہداء کا سردار بنا کیونکہ تو ہر چیز پرقادر ہے، اے اللہ! اس کے قاتل کو برکت نہ دے۔ اس دوران مسجد میں موجود تمام لوگ چونک پڑے اور رونے لگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ روتے ہو اور اس کی مدد نہیں کروگے؟! اے اللہ! تم اس کے ولی اور ناصر ہو۔

ابن عباس کہتے ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ تشریف لائے اور ایک فصیح اور جامع خطبہ دیا  جب کہ آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ پھر فرمایا: اے لوگو! میں نے تمہارے درمیان گرانقدر چیزیں چھوڑے ہیں، یعنی: خدا کی کتاب اور میری عترت، اور میری موت میں میری روح کی تسکین، اور تمہارے درمیان میرے دل کا پھل، اور یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ وہ حوض کے کنارے ہم سے ملیں گے، جان لو کہ میں تم سے ان کے بارے میں وہی سوال کرتا ہوں جو خدا نے مجھ سے کیا ہے اور وہ مودت میرے رشتہ داروں کے بارے میں ہے، خبردار مجھ سےحوض کے کنارے نہ ملنا اگر  تم لوگوں نے میرے اہل و عیال  پر ظلم کیا، ... محطاط رہو! جبرائیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی کہ میری امت میرے بیٹے حسین کو کرب و بلاء کی سرزمین میں شہید کرے گی۔ جان لو! اس کے قاتل پر قیامت تک خدا کی لعنت ہے۔

ابن عباس کہتے ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اور مہاجر اور انصار میں سے کوئی باقی نہ رہا سوائے اس کے کہ آپ کو یقین تھا کہ حسین کو قتل کر دیا جائے گا۔

الفتوح، أحمد بن أعثم الكوفي، ج 4، ص 325.

4-  امت کی آپ کے خاندان والوں سے نفرت کی وجہ سے آپ صلّي الله عليه وآله و سلم کارونا

روي يونس بن حباب، عن أنس بن مالك قال: كنا مع رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم وعلي بن أبي طالب عليه السلام معنا، فمررنا بحديقه، فقال علي عليه السلام: يا رسول الله! ألا تري ما أحسن هذه الحديقه؟ فقال: إن حديقتك في الجنه أحسن منها. حتي مررنا بسبع حدائق، يقول علي عليه السلام ما قال ويجيبه رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم بما أجابه، ثم إن رسول الله وقف فوقفنا، فوضع رأسه علي رأس علي وبكي، فقال علي عليه السلام: ما يبكيك يا رسول الله؟! قال: ضغائن في صدور قوم لا يبدونها لك حتي يفقدوني.

یونس بن حباب نے انس بن مالک سے روایت کی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علی بن ابی طالب علي عليه السلام  کے ساتھ تھے، جب ہم مدینہ کے ارد گرد ایک باغ سے گزر رہے تھے، علي عليه السلام  نے فرمایا: یا رسول اللہ! کتنا خوبصورت باغ ہے فرمایا: تمہارا جنت کا باغ اس باغ سے زیادہ خوبصورت ہے۔ یہاں تک کہ ہم مزید سات باغوں سے گزرے اور دونوں بزرگواروں کے درمیان وہی تقریر دہرائی گئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رک گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی  کے کندھے پر سر رکھا اور رونے لگے۔ علی علیہ السلام نے عرض کیا: آپ کو کس چیز نے رویا یا رسول اللہ! حضرت نے فرمایا: اس قوم کے دلوں میں جو رنجشیں اور بغض ہیں وہ اس وقت تک ظاہر نہیں ہوں گی جب تک میں دنیا سے رخصت نہ ہو جاؤں۔

مجمع الزوائد، ج 9، ص 118 ـ كنز العمال، ج 13، ص 176ـ شرح نهج البلاغه، ج 4، ص 107ـ المناقب خوارزمي، ص 65 ـ ينابيع الموده،ج 1، ص 134.

5    -ام سلمہ کی حدیث:

ام سلمہ پاکیزہ کردار اور شخصیت کی حامل ازواج میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور سیرت کا ایک اہم حصہ بیان کیا ہے، وہ حسین کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رونے کا قصہ یوں  بیان کرتی ہیں:

كان رسول الله صلي الله عليه وسلم جالسا ذات يوم في بيتي قال لا يدخل علي أحد فانتظرت فدخل الحسين فسمعت نشيج رسول الله صلي الله عليه وسلم يبكي فأطلت فإذا حسين في حجره والنبي صلي الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي فقلت والله ما علمت حين دخل فقال إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت قال أفتحبه قلت أما في الدنيا فنعم قال إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها كربلاء فتناول جبريل من تربتها فأراها النبي صلي الله عليه وسلم...

ایک دن میرے شوہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے کمرے میں تھے اور کہا: کسی کو میرے کمرے میں داخل ہونے کا حق نہیں ہے، میں کمرے کے باہر داخل ہونے کی اجازت کا انتظار کر رہا تھا، اسی وقت امام حسین علیہ السلام حضور کی بارگاہ میں تشریف لائے، میں نے کمرے کے اندر سے رونے کی آواز سنی، میں نے تحقیق و تلاش کا احساس محسوس کیا اور میں نے کمرے کے اندر جھانکا تو میں نے دیکھا۔ حسین  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے پر بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی  پیشانی پر ہاتھ پھیر کر رورہے تھے۔ میں نے کہا: خدا کی قسم مجھے حسین کے گھر میں داخل ہونے کی اطلاع نہیں دی گئی تھی تاکہ وہ آپ کے کمرے میں داخل نہ ہوں۔حضرت نے فرمایا: اس وقت جبرائیل علیہ السلام ہمارے ساتھ تھے، انہوں نے مجھ سے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ حسین سے محبت کرتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں! جبرائیل نے کہا: عنقریب تمہاری قوم اسے کربلا نامی سرزمین میں قتل کردے گی۔ اور اس گفتگو کے بعد انہوں نے مجھے کربلا کی مٹی دکھایا۔

مجمع الزوائد، ج 9، ص189.

اس حدیث کے راوی ہیتمی اس روایت کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:

رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.

اس روایت کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور رجالی اعتبار سے اس کاسند بالکل ثقہ ہیں۔

مجمع الزوائد، ج 9، ص189.

اور دوسری حدیث میں فرماتے ہیں:

قال لي رسول الله صلي الله عليه وسلم اجلسي بالباب ولا يلجن علي أحد فقمت بالباب إذ جاء الحسين رضي الله عنه فذهبت أتناوله فسبقني الغلام فدخل علي جده فقلت يا نبي الله جعلني الله فداك أمرتني أن لا يلج عليك أحد وإن ابنك جاء فذهبت أتناوله فسبقني طال ذلك تطلعت من الباب فوجدتك تقلب بكفيك شيئا ودموعك تسيل والصبي علي بطنك قال نعم أتاني جبريل فأخبرني أن أمتي يقتلونه وأتاني بالتربه التي يقتل عليها فهي التي أقلب بكفي

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کمرے کے دروازے پر بیٹھ جاؤ اور کسی کو اندر نہ آنے دو۔ میں کمرے کے دروازے پر بیٹھی تھی کہ حسین گھر میں داخل ہوئے اور جیسے ہی میں نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمرے میں جانے سے روکنے کی کوشش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پہلے کمرے میں داخل ہو گئے۔ میں داخل ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ پر قربان جاوں آپ مجھے ایک افسر بنا دیا تاکہ دوسروں کو داخل ہونے سے روکوں لیکن آپ کا بیٹا آیا اور میں اسے نہ روک سکا۔

کافی دیر بعد میں دوبارہ کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی پر کچھ تھا اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ میں نے وجہ پوچھی۔ حضرت نے فرمایا: ابھی جبرائیل نازل ہوئے اور مجھے خبر دی کہ میری قوم اسے قتل کر دے گی اور وہ اس زمین کی کچھ مٹی میرے پاس لائے جو اب میرے ہاتھ کی ہتھیلیوں پر ہے۔

المعجم الكبير، طبراني، ج 3، ص109 ـ مسند ابن راهويه، ج 4، ص 131.

6- عائشہ کی حدیث :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:

دخل الحسين بن علي رضي الله عنهما علي رسول الله صلي الله عليه وسلم وهو يوحي إليه فنزا علي رسول الله صلي الله عليه وسلم وهو منكب وهو علي ظهره فقال جبريل لرسول الله صلي الله عليه وسلم أتحبه يا محمد قال يا جبريل ومالي لا أحب ابني قال فان أمتك ستقتله من بعدك فمد جبريل عليه السلام يده فأتاه بتربه بيضاء فقال في هذه الأرض يقتل ابنك هذا واسمها الطف فلما ذهب جبريل عليه السلام من عند رسول الله صلي الله عليه وسلم خرج رسول الله صلي الله عليه وسلم والتزمه في يده يبكي فقال يا عائشه إن جبريل أخبرني أن ابني حسين مقتول في أرض الطف وان أمتي ستفتن بعدي ثم خرج إلي أصحابه فيهم علي وأبو بكر وعمر وحذيفه وعمار وأبو ذر رضي الله عنهم وهو يبكي فقالوا ما يبكيك يا رسول الله فقال أخبرني جبريل عليه السلام ان ابني الحسين يقتل بعدي بأرض الطف وجاءني بهذه التربه وأخبرني أن فيها مضجعه. فلما ذهب جبريل عليه السلام من عند رسول الله صلي الله عليه وسلم خرج رسول الله صلي الله عليه وسلم والتزمه في يده يبكي فقال يا عائشه إن جبريل أخبرني أن ابني حسين مقتول في أرض الطف وان أمتي ستفتن بعدي ثم خرج إلي أصحابه فيهم علي وأبو بكر وعمر وحذيفه وعمار وأبو ذر رضي الله عنهم وهو يبكي فقالوا ما يبكيك يا رسول الله فقال أخبرني جبريل عليه السلام ان ابني الحسين يقتل بعدي بارض الطف وجاءني بهذه التربه وأخبرني أن فيها مضجعه.

حسین بن علی عليه السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل امین کی ایک وحی سن رہے تھے کہ جبرائیل نے پوچھا: اے محمد! کیا آپ حسین سے محبت کرتے ہیں؟ جبرئيل نے کہا: میں اپنے بچے سے محبت کیوں نہ کروں؟ جبرائیل نے کہا: آپ کے بعد آپ کی قوم اسے قتل کر دے گی۔پھر جبرائیل علیہ السلام اپنا ہاتھ بڑھا کر سفید مٹی لائے اور فرمایا: تمہارا بچہ "طفّ" نامی سرزمین میں مارا جائے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ جو کہ علی، ابوبکر، عمر، حذیفہ، عمار اور ابوذر تھے، آنکھیں آنسوؤں سے بھرے ہوئے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور پوچھا: آپ کو کس چیز نے رولایا؟

فرمایا: مجھے جبرائیل نے میرے بیٹے حسین کی سرزمین طفّ میں شہادت کی خبر دی اور وہ مجھے یہ مٹی اسی سرزمین سے لائے جہاں وہ دفن ہوں گے۔

المعجم الكبير، طبراني، ج 3، ص107ـ مجمع الزوائد، ج 9، ص187 ـ ابن عساكر، ترجمه الإمام الحسين عليه السلام، ج7، ص 260.

7- امام حسین علیہ السلام کے شہادت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ماتم و عزاداري کرنا

3704 - حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ حَدَّثَنَا رَزِينٌ قَالَ حَدَّثَتْنِي سَلْمَي قَالَتْ دَخَلْتُ عَلَي أُمِّ سَلَمَه وَهِيَ تَبْكِي فَقُلْتُ مَا يُبْكِيكِ قَالَتْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْنِي فِي الْمَنَامِ وَعَلَي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ فَقُلْتُ مَا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ شَهِدْتُ قَتْلَ الْحُسَيْنِ آنِفًا

سلمی کہتے ہیں: میں ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا  جب وہ رو رہی تھیں، میں میں نے پوچا تم کیوں رو رہی ہو؟ انہوں نے کہا: میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کے بال اور ان کے چہرے خاك آلود  تھے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ، آپ کو کیا ہوا ہے (میں آپ کو اس طرح کیوں دیکھ رہا ہوں)؟ کہنے لگے: میں نے ابھی حسین کو قتل ہوتے ہو‏ئے دیکھا ہے۔

سنن ترمذي، ج 12، ص 195، كتاب فضائل الصحابه باب مناقب الحسن و الحسين.

جیسا کہ آپ ان روایات میں دیکھ سکتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ اور امام حسين عليہ السلام  کی شہادت سے کئی سال پہلے امام حسین علیہ السلام کے لیے رویا اور ماتم کیاجو خود اس حكايت کی اہميت کادلیل ہے۔

کیا مندرجہ بالا واقعات میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت و سنت اور روایات امام حسین علیہ السلام کے عزاداری کا بہترین دليل اور شرعی حجت نہیں ہیں؟

پانچواں حصہ: معصومین کی سیرت میں امام حسین علیہ السلام کا م عزاداری ۔

الف: واقعہ کربلا سے برسوں پہلے امیر المومنین علیہ السلام کی  گريه و رونا

شیعہ احادیث کے منابع میں امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے حوالے سے بہت سی روایتیں موجود ہیں کہ وہ بھی پیغمبر اسلام کی طرح اپنے فرزند امام حسین کی شہادت کی خبر سن کر رو پڑے۔اس حصے میں ہم اپنے آپ کو اہل سنت کے منابع حدیث کی دو مثالوں تک محدود رکھیں گے۔

نُجَيّ حضرمی کہتے ہیں:

انه سار مع علي رضي الله عنه وكان صاحب مطهرته فلما حاذي نينوي وهو منطلق إلي صفين فنادي علي اصبر أبا عبد الله اصبر أبا عبد الله بشط الفرات قلت وما ذاك قال دخلت علي النبي صلي الله عليه وسلم ذات يوم وإذا عيناه تذرفان قلت يا نبي الله أغضبك أحد ما شأن عينيك تفيضان قال بل قام من عندي جبريل عليه السلام قيل فحدثني ان الحسين يقتل بشط الفرات قال فقال هل لك ان أشمك من تربته قلت نعم قال فمد يده فقبض قبضه من تراب فأعطانيها فلم أملك عيني ان فاضتا.

علی علیہ السلام سوار ہوکر صفین کی طرف جاتے ہوئے اچانک "نینوا" نامی مقام پر بلند آواز میں کہا "اے ابو عبداللہ فرات کے کنارے صبر کرو" اور یہ جملہ دو مرتبہ دہرایا، میں نے  پوچھا: یہ لفظ کہاں سے آیا؟

انہوں نے کہا: ایک دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تو دیکھا کہ آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! کیا کسی نے آپ کو پریشان کیا ہے کہ آپ رو رہے ہیں؟

انہوں نے کہا: چند لمحے پہلے جبرائیل میرے پاس آئے تھے اور مجھے دریائے فرات کے قریب حسین کی موت کی خبر دی تھی،اور فرمایا: کیا تم اس کی تربت کا مزہ چکھنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں۔انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر مجھے اس سرزمین سے مٹھی بھر مٹی دی جہاں حسین کو شہید کیاجائے گا اور میں اپنے آنسو نہ روک سکا۔

مجمع الزوائد، هيثمي، ج 9، ص 187.

خبر کی اطلاع دینے کے بعد،هيثمي نے اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا:

رواه أحمد وأبو يعلي والبزار والطبراني ورجاله ثقات ولم ينفرد نجي بهذا.

اس روایت کو احمد، ابو یعلی، بزاز اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام حضرات ثقہ ہیں۔ اور یہ قصہ دوسروں نے بھی  بیان کیا ہے۔

مجمع الزوائد، هيثمي، ج 9، ص 187.

عاشورہ سے کئی سال پہلے صفین میں امیر المومنین علیہ السلام کے رونے کا ایک اور اقتباس

ابن حجر  کی کتاب "الصواعق المحرقہ" کے مصنف ابن سعد شعبی سے نقل کرتے ہیں کہ:

مر علي رضي الله عنه بكربلاء عند مسيره إلي صفين وحاذي نينوي قريه علي الفرات فوقف وسأل عن اسم هذه الأرض فقيل كربلاء فبكي حتي بل الأرض من دموعه ثم قال دخلت علي رسول الله e وهو يبكي فقلت ما يبكيك قال: كان عندي جبريل آنفا وأخبرني أن ولدي الحسين يقتل بشاطيء الفرات بموضع يقال له كربلاء ثم قبض جبريل قبضه من تراب شمني إياه فلم أملك عيني أن فاضتا.

جب علی علیہ السلام صفین کی طرف جاتےہوئے  نینوا کی سرزمین پر پہنچے، آپ نے اس سرزمین کا نام پوچھا تو انہوں نے کہا: اس سرزمین کا نام کربلا ہے۔ کربلا کا نام سن کر آپ (علیہ السلام)  اس قدر روئے کہ آپ کے آنسوؤں سے زمین تر ہو گئی، پھر فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رو رہے تھے۔ میں نے حضرت سے کہا: آپ کو کس چیز نے رویا؟ حضرت نے فرمایا: چند لمحے پہلے جبرائیل علیہ السلام آئے اور مجھے اطلاع دی کہ میرا بیٹا حسین فرات کے قریب کربلا نامی جگہ پر قتل کیا جائے گا، پھر اس نے مجھے اس سرزمین کی کچھ مٹی سونگھنے کے لیے دی، اور اس وقت میری  آنکھیں  آنسوؤں سے بھرے ہوئے تھے۔

الصواعق المحرقه، أحمد بن حجر هيثمي، ص 193.

ب- محشر میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کا عزاداري و ماتم

محشر کے میدان میں حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی علامتی تحریک شہادت امام حسین علیہ السلام کے ماتم کا ٹھوس ثبوت ہے۔اور اسی وجہ سے خاندانِ پیغمبر سے عقیدت رکھنے والوں کا فرض ہو گا کہ وہ پیارے پیغمبر اسلام کی واحد یادگار کو قائم کریں اور امام حسین علیہ السلام کے ماتمی اجتماعات کی تشکیل میں ان کے حسن سلوک پر عمل کریں۔

علی بن محمد شافعی غزالی نے یہ حدیث ابو احمد عامر سے حضرت علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام سے اور  وہ اپنے عزیز آباء و اجداد سے امیر المومنین علیہ السلام سے روایت کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تحشر ابنتي فاطمه ومعها ثياب مصبوغه بدمٍ، فتتعلّق بقائمه من قوائم العرش وتقول: ياعدل! ياجبّار! أُحكم بيني وبين قاتل ولدي قال صلّي الله عليه وآله وسلّم: فيحكم لابنتي وربّ الكعبه.

میری بیٹی فاطمہ اپنے بیٹے حسین علیہ السلام کے خون آلود لباس کے ساتھ محشر میں آیئںگیں ، پھر انہوں نے عرش الٰہی کی ایک پايه کو پکڑے گی اور کہے گی: اے عادل اور قادر خدا، میرے اور میرے بیٹے کے قاتل کے درمیان فیصلہ کر دے۔ میں خدا کعبہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ خدا میری بیٹی کے بارے میں اپنا خاص حکم جاری کرے گا۔

مناقب عليّ بن أبي طالب عليهما السلام، مغازلي، ص 66 ـ ينابيع الموده لذوي القربي، قندوزي، ج 3، ص 47

لہذا عزاداران اور عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسین علیہ السلام کے عزاداری کے سلسلے میں مذہبی رہنماوں کی معنوي اور روحانی حالت کے بارے میں جو کچھ خبریں آئی ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے اسے اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں کہ کربلا کا المناک واقعہ اور اسی طرح زہرا سلام اللہ علیہاکے  فرزند اور ان کے دوستوں کی شہادت کو اس دن تک نہ بھولیں، جب وہ حضرت حق کی موجودگی میں حسین علیہ السلام کی مظلوم ماں کی مظلومیت کا مشاہدہ کریں گے۔

ج: شیعہ اماموں کا رونا اور ماتم کرنا

تاریخ کے مطابق امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ائمہ اور مذہبی  پیشواؤں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ مجلس عزا برپاکرتے اور ان کے مصائب پر گریہ کرتے، اور درحقیقت وہ لوگوں میں نوحہ خواني کے  بنیادی بانی اور فروغ دینے والے تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شیعہ افکار کے میدان میں ایک ثقافت بن گیا۔

لہٰذا آج جو کچھ شیعہ علاقوں میں عام ہے وہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے یا غیروں کی طرف سے بنایا گیا ہے، یا دوسرے فرقوں کی تقلید نہیں ہے، بلکہ یہ اس چیز کا تسلسل ہے جسے شیعوں کے معصوم اماموں نے اپنی بابرکت زندگی میں قائم کیا اور اس کی بنیاد رکھی،اور بہت سارے تقریر میں جو ان کے پاس مذہبی تقریبات کے انعقاد کے بارے میں ہیں جن میں تشكيل مجالس اور شہادت کی برسی پر شامل ہیں، انہوں نے اس مبارک روایت کی تقویت میں اضافہ کیا ہے، اور انہوں نے قطرہ قطرہ  اشک کے بدلے ایک قابل اجر کا وعدہ کیا ہے۔

میدان نينوا کے مشہور شہید حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام کے ارشادات میں سے ہے کہ:

من دمعت عيناه فينا دمعه، أو قطرت عيناه فينا قطره، آتاه اللّه عزّ وجلّ الجنّه.

جو ہمارے غم میں ایک آنسو بہائے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت عطا فرمائے گا۔

ذخائر العقبي، ص 19 ـ ينابيع المودّه، ج 2، ص117.

واقعہ کربلا کے بعد امام سجاد علی بن الحسین علیہ السلام ایک لمحے کے لیے بھی رونے سے باز نہ آئے، جن لوگوں نے آپ کو اس حالت میں دیکھا انہوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ  علیہ السلام جواب دیتے ہیں:

لا تلوموني، فإنّ يعقوب فقد سبطاً من ولده، فبكي حتّي ابيضّت عيناه من الحزن، ولم يعلم أنّه مات، وقد نظرتُ إلي أربعه عشر رجلاً من أهل بيتي يذبحون في غداه واحده، فترون حزنهم يذهب من قلبي أبدا.

ایسی باتیں نہ کرو، حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے ایک بچے کو جو تھوڑی دیر کے لیے جدا ہو گئے تھے،وہ اس قدر روئے کہ ان کی بینائی چلی گئی حالانکہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کا بچہ مر گیا ہے یا زندہ ہے، لیکن میرے آنکھوں کے سامنے ایک ہی دن میں اپنے خاندان کے 14 افراد کے سر قلم کر دیے گئے، کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ دکھ اور بدقسمتی مجھ سے ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے گی؟

تهذيب الكمال، مزّي، ج 20، ص 399 ـ البدايه والنهايه، ج 9، ص 125 ـ تاريخ مدينه دمشق، ج 41، ص386.

مسلسل حزن و غم اس سانحے کی گہرائی کی دليل ہے، اور دوسری طرف امام سجاد علیہ السلام اس عمل سے تمام مومنین کو ایک رہنما پیغام دیتے ہیں کہ عاشورہ اور امام حسین علیہ السلام کو قیامت تک زندہ رہنا چاہیے۔

امام باقر علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار امام سجاد علیہ السلام سے ایک حدیث نقل کر کے واقعہ عاشورا کی لافانی ہونے پر زور دیا ہے اور اپنے والد کے ماتمی تقریبات کو زندہ کرنے کے عمل کا دفاع کیا ہے۔

كان أبي عليّ بن الحسين عليه السلام يقول: أيّما مؤمن دمعت عيناه لقتل الحسين ومن معه، حتّي تسيل علي خدّيه، بوّأه اللّه في الجنّه غرفاً، وأيّما مؤمن دمعت عيناه دمعاً حتّي يسيل علي خدّيه، لأذي مسّنا من عدوّنا بوّأه اللّه مبوّء صدق.

میرے والد علی ابن الحسین علیہ السلام فرمایا کرتے تھے: ہر وہ مومن جو حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر آنسو بہائے، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں ایک محل عطا فرمائے گا، اور ہر وہ مومن جس کے آنسو اس وجہ سے بہہ رہے ہیں جو ہم نے دشمنوں کی طرف سے دیکھی ہیں، خدا اسے اچھا مقام عطا فرمائے گا۔

ينابيع الموده لذوي القربي، قندوزي، ج 3، ص 102 ـ الاصابه، ابن حجر، ج 2، ص 438 ـ لسان الميزان، ج2، ص 451.

امام صادق علیہ السلام نے بھی کربلا اور عاشورہ کو اپنے بزرگوں کی طرح برپاکرنے کا سفارش کیا اور فرمایا:

إنّ يوم عاشورا أحرق قلوبنا، وأرسل دموعنا، وأرض كربلاء أورثتنا الكرب والبلاء، فعلي مثل الحسين فليبك الباكون، فإنّ البكاء عليه يمحو الذنوب أيّها المؤمنون.

عاشورہ کے دن کا واقعہ ہمارے دلوں کو آگ لگاتا ہے، ہمارے آنسو بہاتا ہے، اور ہم کربلا کی سرزمین کے غم کے وارث ہیں، اس لیے رونے والوں کو حسین کی طرح رونا چاہیے، کیونکہ اے ایمان والو اس پر روناگناہوں کو دور کرتا ہے

نور العين في مشهد الحسين، أبو إسحاق اسفراييني، ص 84.

چھٹاحصہ:  صحابہ کی  سیرت میں عزاداری۔

صحابہ کی سيریت میں ایک دوسرے کے لئے  عزاداري کرنا

صحابہ کرام کی طرف سے عزاداری کا قیام کہ جنکے عدالت اور عمل کو اہل سنت اپنے لئے دلیل سمجھتے ہیں مطلق عزاداری میں خاص طور پر اہل مکہ یا مدینہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے سانحہ  یہ صدر اسلام عزاداری کے وجود کا ثبوت سمجھا جا تا ہے اور کسی نے بھی اس قسم کی تقریب کو بدعت نہیں سمجھا اور بدعت کی نظر سے نہیں دیکھا۔

1- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے بعد اہل مکہ کا عزاداري

سعید بن مسیب کے  بیان کے مطابق جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو مکہ شہر لوگوں کے آہوں اور گریہ و زاری کی شدت سے لرز اٹھا۔

لما قبض النبي (ص) ارتجت مكه بصوت.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے وفات کے بعد پورا شہر مکہ گریہ و زاری کر رہا تھا۔

اخبار مكه، فاكهي، ج 3، ص 80.

2-  عائشہ اور مدینہ کی دوسری عورتوں کا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوگ میں عزاداری۔

عائشہ کہتی ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے بعد میں اٹھی اور (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےسوگ میں) دوسری عورتوں کے ساتھ منہ اور سینہ پیٹتی تھی۔

و قمتُ التدم (اضرب صدري) مع النساء و اضرب وجهي.

[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے بعد]، میں اٹھی اور مدینہ کی دوسری عورتوں کے ساتھ مل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوگ میں اپنے سر اور چہرے پیٹنے لگے۔

السيره النبويه، ج 4، ص 305.

3- محمد بن ابی بکر کے لیے امیر المومنین علیہ السلام کا  گريہ کرنا

کتاب تذكره الخواص کے مصنف لکھتے ہیں:

بلغ عليا قتل محمد بن أبي بكر فبكي وتأسف عليه ولعن قاتله

محمد بن ابی بکر کے قتل کی خبر امیر المومنین علیہ السلام تک پہنچی اور یہ خبر سن کر آپ رو پڑے اور افسوس کا اظہار کیا اور  قاتلوں پر لعنت بھیجی۔

تذكره الخواص، ص 102

4- نعمان بن مقرن کے لیے عمر کا عزاداری کرنا

جب نعمان بن مقرن کی موت کی خبر عمر بن خطاب کو پہنچی تو انہوں نے اس پر ماتم کیا اور رونے لگے۔

ابن ابی شیبہ المصنف میں لکھتے ہیں:

عن ابي عثمان: اتيتُ عمر بنعي النعمان بن مقرن، فجعل يده علي راسه و جعل يبكي.

ابو عثمان کہتے ہیں کہ میں نے عمر  کو نعمان بن مقرن کی موت کی خبر دی، جب انہوں نے یہ خبر سنی تو ہمت ہار کر رونے لگے۔

المصنف، ابن أبي شيبه كوفي، ج 3، ص 175 و ج 8، ص 21

5- عورتوں کو خالد بن ولید کا ماتم کرنے اور ان کے ساتھ جانے کی عمر کی اجازت

حکیم مستدرک میں کہتے ہیں:

عن أبي وائل قال قيل لعمر بن الخطاب رضي الله عنه أن نسوه من بني المغيره قد اجتمعن في دار خالد بن الوليد يبكين وإنا نكره أن يؤذينك فلو نهيتهن فقال عمر ما عليهن أن يهرقن من دموعهن سجلا أو سجلين ما لم يكن لقع ولا لقلقه يعني باللقع اللطم وباللقلقه الصراخ

عمر بن خطاب سے کہا گیا: بنی مغیرہ کی عورتیں خالد بن ولید کے گھر میں جمع ہوئی ہیں اور رو رہی ہیں، اور ہم آپ کو تکلیف پہنچانے سے گریزاں ہیں اگر ہو سکے تو انہیں اس سے منع کر دیں۔ عمر نے کہا: چند آنسو بہانے میں کیا حرج ہے، البتہ جب تک یہ خود کو نقصان پہنچانے اور چیخنے چلانے کا باعث نہ بنے۔

المستدرك علي الصحيحين، ج 3، ص336.

صاحب أغاني نے مزید کہا:

عن أبي بكر الهذلي قال سمع عمر بن الخطاب نساء بني مخزوم يبكين علي خالد بن الوليد فبكي وقال ليقل نساء بني مخزوم في أبي سليمان ما شئن فإنهن لا يكذبن وعلي مثل أبي سليمان تبكي البواكي

ابوبکر هذلي کہتے ہیں: عمر بن خطاب نے سنا کہ بنی مخزوم کی عورتیں خالد بن ولید پر رو رہی ہیں تو انہوں نے بھی خالد کے لیے رویا اور کہا: وہ بنی مخزوم کی عورتوں سے کہے کہ أبي سليمان کے بارے میں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ کریں سلیمان نے جھوٹ نہیں بولا اور ابو سلیمان کی طرح رونے والوں کو رونا چاہیے۔

الأغاني، ج 22، ص 98.

6- عمر کی وفات پر ابن مسعود کا عزاداری کرنا

عمر کی وفات کے بعد جب ابن مسعود ان کی قبر کے پاس کھڑے ہوئے تو وہ ان کے لیے روئے

فوقف ابن مسعود علي قبره يبكي

مسعود عمر کی قبر کے پاس کھڑا ہو کر رویا

العقد الفريد، ج 4، ص 283.

7- عبداللہ بن رواحہ کا حمزہ   کے لیے عزاداری کرنا

عبداللہ بن رواحہ حمزہ پر روئے اور ان کے سوگ میں اشعار پڑھے۔

السيره النبويه، ج 3، ص 171.

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سن کر مدینہ کی عورتوں اور لوگوں کا گريہ کرنا

طبری اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں:

لما قتل عبيد الله بن زياد الحسين بن علي و جيء برأسه إليه دعا عبد الملك بن أبي الحارث السلمي فقال: انطلق حتي تقدم المدينه علي عمر بن سعيد فبشّره بقتل الحسين - وكان عمرو أمير المدينه -... قال عبد الملك فقدمت المدينه، فلقيني رجل من قريش فقال: ما الخبر؟ فقلت: الخبر عند الأمير؛ فقال إنا لله وإنا إليه راجعون؛ قتل الحسين بن علي.

فدخلت علي عمرو بن سعيد، فقال: ما وراءك، فقلت: ما سرّ الأمير؛ قتل الحسين بن علي؛ فقال: ناد بقتله، فناديت بقتله، فلم أسمع والله واعيه قط مثل واعيه نساء بني هاشم في دورهن علي الحسين...

جب عبید اللہ بن زیاد نے امام حسین بن علی علیہ السلام کو شہید کیا اور ان کا مقدس سر عبدالملک بن ابی حارث سلمی کے پاس لے جایا گیا تواس نے  کہا: انہیں مدینہ منورہ کی طرف لے جاؤ اور اہل مدینہ کو حسین کی شہادت کے بارے میں بتاؤ۔ عبد الملک کہتا ہے کہ میں مدینہ آیا، قریش کا ایک شخص مجھ سے ملا اور مجھ سے پوچھا: کیا خبر ہے؟ میں نے کہا: خبر امیر کے پاس ہے۔ اس نے میری بات کا مطلب سمجھا اور کہا: انا اللہ و انا الہی راجعون۔ حسین بن علی قتل ہوئے۔ میں مدینہ کے گورنر عمرو بن سعید کے پاس گیا تو انہوں نے کہا: تم کیا کر رہے ہو؟ میں نے کہا: امیر کے پاس کیا راز تھا؟ حسین بن علی قتل ہو چکے ہیں؛ اس نے شہر مدینہ میں بھی بات پھیلانے اور امام حسین کی وفات کا اعلان کرنے کا حکم دیا۔ خدا کی قسم! میں نے اپنی زندگی میں کبھی ایسا نوحہ نہیں سنا جتنا مدینہ کی ان عورتوں کا اپنے گھروں میں گریہ کیا جاتا ہے جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر ماتم کیا ۔۔۔

تاريخ طبري، ج 3، ص 342.

ساتواں حصہ:    اہل سنت کے نزدیک گریہ      و عزاداري

اہل سنت علماء کے نقطہ نظر سے رونا اور آنسو بہانا

رونے اور ماتم کرنے کے سلسلے میں بعض اہل سنت علماء کا فتویٰ

اس بحث کے شروع میں رونے اور ماتم کرنے کے بارے میں بعض اہل سنت علماء کے فتوے کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ کیا میت پر رونا کبیرہ اور ناقابل معافی گناہ ہے؟!

نووی نے کتاب "المجموع" میں رونے اور گريه کی حرمت کے بارے میں علماء کے اقوال جمع کیے ہیں:

1- جمہور علماء کہتے ہیں: رونے اور ماتم کرنے کی حرمت اس جگہ کے لیے مخصوص ہے جہاں کسی شخص نے وصیت کی ہو، جس کے لیے وہ گریہ و زاری کرے۔ نووی نے بھی اسی قول کو اختيار کیا ہے۔

2- بعض فرقوں کا خیال ہے کہ حرمت اس جگہ کے لیے مخصوص ہے جہاں کسی شخص کو ماتم اور گریہ و زاری سے باز رہنے کی وصیت نہ کی گئی ہو۔

3- ایک اور فرقہ کا خیال ہے کہ: حرمت اس جگہ پر ہے جہاں ميت کے وارث مردہ کو ایسی صفات اور فضائل کے ساتھ بیان کرتے ہیں جن کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔

مثلا یہ کہے کہ : اے بچوں کو یتیم کرنے والے، اے عورتوں کو بیوہ  کرنے والے، اور اے بستیوں کو تباہ کرنے والے، اس طرح رونا۔

4- ایک اور فرقہ کا یہ قول اور عقیدہ ہے کہ: میت کو اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کے رونے اور گريه کی آواز سن کر عذاب ہوتا ہے اور ان کی حالت پر افسوس ہوتا ہے۔ اور یہی محمد بن جریر اور قاضی عیاض کا قول ہے۔

اور آخر میں یہ نکتہ علماء کے اجماع سے معلوم ہوتا ہے:

وأجمعوا كلهم علي اختلاف مذاهبهم ان المراد بالبكاء بصوت ونياحه لا مجرد دمع العين.

مذہب میں اختلاف کے باوجود تمام علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ رونا وگريه حرام اس سے مراد وہ رونا ہے جو ماتم کے ساتھ ہو نہ کہ مطلق رونا۔

المجموع، نووي، ج 5، ص 308.

تو معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے کہ اہل سنت کے نزدیک رونا مطلقاً ممنوع اور حرام ہے۔

352ھ میں امام حسین علیہ السلام کے لۓ گریہ      و عزاداري  اہتمام  کرنا

ذہبی 352 ہجری کے عزاداري اور ماتمی واقعات کی تفصیل میں لکھتے ہیں:

قال ثابت: ألزم معز الدوله الناس بغلق الأسواق ومنع الهراسين والطباخين من الطبيخ، ونصبوا القباب في الأسواق وعلقوا عليها المسوح، وأخرجوا نساء منشرات الشعور مضجات يلطمن في الشوارع ويقمن المآتم علي الحسين عليه السلام، وهذا أول يوم نيح عليه ببغداد.

معز الدولہ نے لوگوں کو بازار بند کرنے کا حکم دیا اور ملوں کو آٹا بنانے اور باورچیوں کو کھانا پکانے سے منع کیا، اور انہوں نے بازاروں میں علم (ماتم کے نشانات) لگائے۔ اور جب عورتوں نے اپنے سروں اور چہرے کو پیٹا اور اپنے بالوں کو خراب کیا تو وہ سڑکوں پر نکل آئیں اور حسین علیہ السلام کی مصيبت پر ماتم کیا اور نوحہ خوانی کی اور یہ پہلا نوحہ تھا جو بغداد میں منعقد ہوا۔

تاريخ الإسلام، ج 26، ص11.

سبط ابن جوزي (سنی علماء میں سے ایک) کی طرف سے امام حسین علیہ السلام کےلۓ گریہ      و عزاداري  اہتمام  کرنا

دوسری طرف اہل سنت علماء میں بعض ایسے ہیں جو امام حسین علیہ السلام کے ماتم کرنے والوں میں سے تھے۔

ابن کثیر اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:

عاشورہ کے دن  سبط ابن جوزی سے کہا گیا کہ وہ منبر پر جا کر لوگوں سے امام حسین علیہ السلام کی وفات اور شہادت کے بارے میں بات کریں۔ سبط ابن جوزی نے یہ درخواست قبول کر لی اور ایک طویل خاموشی کے بعد منہ پر رومال رکھ کر بہت روئے اور پھر روتے ہوئے یہ دو اشعار کہے:

ويل لمن شفعاؤه خصماؤه

و الصور في نشرالخلايق ينفخ

لابد أن ترد القيامه فاطم

و قميصها بدم الحسين ملطخ

افسوس اس شخص پر جس کا شفيع اس کا دشمن ہو!قیامت کے وقت جب لوگوں کو زمین سے نکلنے کے لیے صور پھونکا جائے گا۔

آخر کار قیامت میں فاطمہ زہرا تشریف لائںگی جبکہ ان کی قمیص حسین علیہ السلام کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔

پھر سبط ابن جوزي منبر سے اترا اور روتا ہوا ا پنے گھر چلا گیا۔

البدايه و النهايه، ج 13، ص 207 (حوادث 654 هجري قمري).

عبد المومن کےلۓ عزاداری (346 هق)

عبد المومن بن خلف ظاہری مذھب کے فقہاء اور محمد بن داؤد کے مکتب کے پیروکار ہیں۔ نسفی نے ان کے جنازے اور ماتم کا واقعہ نقل کیا ہے۔

تاريخ مدينه دمشق، ابن عساكر، ج 10، ص 272 ـ سير اعلام النبلاء، ج 15، ص 480.

جوینی کےلۓ عزاداری  (478 هق)

ذہبی نے جوینی کی موت اور اس کی سوگ کی تقریب کو اس طرح یاد کیا:

فدفن بجنب والده، وكسروا منبره، وغلقت الأسواق، ورثي بقصائد، وكان له نحو من أربع مائه تلميذ، كسروا محابرهم وأقلامهم، وأقاموا حولا، ووضعت المناديل عن الرؤوس عاما، بحيث ما اجترأ أحد علي ستر رأسه، وكانت الطلبه يطوفون في البلد نائحين عليه، مبالغين في الصياح والجزع.

انہوں نے اسے اس کے والد کی قبر کے پاس دفن کیا، اور اس کے سوگ میں اس کا منبر توڑ دیا، اور بازار بند کر دیے، اور اس کے سوگ میں تقریباً چار سو طالب علم تھے، انہوں نے تمام قلم اور دوات توڑ دیے اور ماتم کیا، اور ایک سال تک انہوں نے اپنے رومال (چفیہ کے مشابہ کپڑے) اتارے اور اس کام میں اس قدر مخفی رہے کہ کسی کو سر پر کپڑا ڈالنے کی جرأت نہ ہوئی۔ اور اس دوران ان کے طلباء شہر کی گلیوں اور بازاروں میں گھومتے، نوحہ خوانی کرتے اور نعرے بازی کرتے۔

سير أعلام النبلاء، ج 18، ص476.

البتہ مندرجہ بالا عبارت میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ عبد المومن کے شاگردوں کے ماتم کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہے، لیکن بعض حرکات اور غلو کا ذکر مندرجہ بالا عبارت میں کیا گیا ہے، جیسے منبر توڑنا، دوات، قلم اور ایک سال تک چافیاں اتارنے اور کسی کو ایک سال تک سر پر کپڑا پہننے سے روکنا ہرگز جائز نہیں ہو سکتا؛ پس یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ ذہبی نے صرف اسی معاملے میں اپنی رائے دی۔ چنانچہ اس سلسلے میں فرمایا:

قلت: هذا كان من زي الأعاجم لا من فعل العلماء المتبعين.

اس قسم کی باتیں زي اعاجم سے ہے اور علمائے دین سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

سير أعلام النبلاء، ج 18، ص476.

ابن جوزی کےلۓ عزاداری   (597هق)

ذہبی اس کے موت کے سلسلے میں لکھتے ہیں:

وتوفي ليله الجمعه بين العشاءين الثالث عشر من رمضان...، وغلقت الأسواق، وجاء الخلق،... وكان في تموز، وأفطر خلق، ورموا نفوسهم في الماء... وباتوا عند قبره طول شهر رمضان يختمون الختمات، بالشمع والقناديل

سبط بن جوزی کا انتقال جمعہ کی رات 13 رمضان المبارک کو ہوا... ان کی وفات کے ساتھ ہی بازار بند ہو گئے اور ان کی تقریب میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی!ان میں سے کچھ  لوگوں نے خود کو دجلہ میں پھینک دیا... تھوڑا سا کفن باقی رہ گیا... رمضان کا مہینہ ختم ہونے تک لوگوں نے اس کی قبر کے پاس رات گزاری، موم بتیاں، چراغ اور لالٹین لے کر آئے اور قرآن ختم کیا۔ ہم نے ہفتہ کو جنازے کی تقریب منعقد کی، مقررین نے ان کے بارے میں بات کی، بہت سے لوگوں نے شرکت کی اور ان کے بارے میں تعریفیں کہی گئیں۔

سير أعلام النبلاء، ج 21، ص 379.

1- عمر بن عبدالعزیز کی وفات پر آسمان کا رونا!!!

عن خالد الربعي قال: مكتوب في التوراه إن السماء والأرض لتبكي علي عمر بن عبد العزيز أربعين صباحا!!!

خالد ربعي کہتے ہیں: تورات میں ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کی وفات پر زمین و آسمان چالیس دن اور راتیں روتے رہیں گے!!!

الروض الفائق، ص 255 ـ الغدير، ج 11، ص 120

1- ابن عساکر کی وفات پر آسمان کا رونا جو 571 ہجری میں فوت ہوئے!!!

قال ولده: وكان الغيث قد احتبس في هذه السنه؛ فدرّ وسحّ عند ارتفاع نعشه؛ فكأن السماء بكت عليه بدمع وابله واطشه.

اس کا بیٹا کہتا ہے: اس سال بارش محدود تھی؛ یہاں تک کہ ابن عساکر کی موت اور اس کی جنازه کو ہٹانے کے بعد آسمان سےاس طرح برسنے لگے جیسے آسمان کی آنکھوں میں آنسو برسنے لگے  اور  بہت زیادہ بارش ہونے لگی۔

معجم الأدباء، ج 4، ص41، مطرت بناحيه بلخ دما عبيطا سنه 246، ص 17.

سنی علماء کی دوہری روش

لیکن ان تفصیلات کا کیا ہوگا کہ بڑے بڑے سنی مورخین جب امام حسین کے چاہنے والوں کے ماتم  کا تذکرہ کرتے ہیں اور وہ اپنے سخت اور متشدد موقف کو چھپا نہیں سکتے؟!!

جب ذہبی نے امام حسین علیہ السلام کے لیے بغداد کے لوگوں کے ماتم کا واقعہ بیان کیا تو لکھتے ہیں:

سنه اثنتين وخمسين وثلاثمئه: فيها يوم عاشوراء، ألزم معز الدوله، أهل بغداد بالنَّوح والمآتم، علي الحسين بن علي رضي الله عنه، وأمر بغلق الأسواق، وعلّقت عليها المسوح، ومنع الطباخين من عمل الأطعمه، وخرجت نساء الرافضه، منشّرات الشعور، مضخّمات الوجوه، يلطمن، ويفتنّ الناس، وهذا أول ما نيح عليه،

سنہ 352 ہجری کے واقعات: اس سال عاشورا کے دن معز الدولہ نے بغداد کے لوگوں کو حسین بن علی کا ماتم کرنے پر مجبور کیا اور بازاروں کو بند کرنے، سوگ کے نشانات لگانے اور باورچیوں کو کھانا پکانے سے منع کرنے کا حکم دیا۔ اور شیعہ خواتین بالوں  کو  پريشان کۓ  گھر سے نکل گئیں اور... اور لوگوں کو گمراہ کیا۔ اور یہ ماتم کا پہلا واقعہ تھا۔

اللهم ثبت علينا عقولنا.

اے اللہ ہمیں مضبوط عقل عطا فرما!

العبر في خبر من غبر، ذهبي، ج 1، ص 146، عدد الأجزاء: 4، مصدر الكتاب: موقع الوراق،

http://www.alwarraq.com

یا ذہبی ایک اور جگہ عاشورہ کے دن عزاداری کے بارے میں لکھتے ہیں:

أقامت الرافضه الشعار الجاهلي يوم عاشوراء

رافضیوں (شيعيان) نے عاشورہ کے دن جاہلیت کا نعرہ لگایا...

تاريخ الإسلام، ذهبي، ج 26، ص 43

تمادت الرافضه في هذه الأعصر في غيهم بعمل عاشوراء باللطم والعويل

اس دور میں رافضیوں (شيعيان) نے ضرر رسانی، گریہ و زاری اور نوحہ خوانی جیسے اعمال کرکے اپنی گمراہی میں مبتلا رہے۔

العبر، ذهبي، ج 3، ص 44

ذہبی 388 ہجری کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

وجعلت بإزاء يوم عاشوراء يوماً بعده بثمانيه أيام نسبته إلي مقتل مصعب بن الزبير، وزارت قبره بمسكن كما يزار قبر الحسين عليه السلام...

یوم عاشورہ کے مقابلہ میں اس دن کےآٹھ دن  بعد  کو مصعب بن زبیر کے قتل کا دن قرار دیا گیا اور اس دن جس طرح [امام] حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کی جاتی ہے اسی طرح "مسکن" کے علاقے میں مصعب بن زبیر کی قبر کی زیارت کی جاتی ہے۔

تاريخ الاسلام، ذهبي، ج 27، ص 25.

نیز ابن کثیر کی یہ  تعبير و تشریح ہے:

عملت الرافضه بدعتهم الشنعاء...

رافضیوں (شیعوں) نے اپنی گھناؤنی بدعت کو نافذ کیا (عاشورہ  کے روز عزاداری)...

البدايه والنهايه، ابن كثير، ج 11، ص 302.

اتابکی، جو نویں صدی کے سنی علماء میں سے ایک ہیں، بغداد کے مردوں اور عورتوں کے ماتم کا ذکر اس طرح کرتے ہیں:

السنه الثالثه من ولايه علي بن الإخشيذ علي مصر وهي سنه اثنتين وخمسين وثلثمائه فيها في يوم عاشوراء ألزم معز الدوله الناس بغلق الأسواق ومنع الطباخين من الطبخ ونصبوا القباب في الأسواق و... المأتم علي الحسين بن علي رضي الله عنه... وكل منهم رافضي خبيث

مصر پر علی بن اخشيد کی حکومت کا تیسرا سال، یعنی 352 ہجری؛ اس سال معز الدولہ نے لوگوں کو بازار بند کرنے اور روٹیاں نہ پکانے، پورے بازار میں ماتمی گنبد کھڑے کرنے اور حسین بن علی کے لیے ماتمی مجلسیں منعقد کرنے کا پابند کیا اور یہ سب  رافضيوں کا  بدنیتی پر مبنی ہیں۔

النجوم الزاهره (جمال الدين اتابكي)، ج 2، ص 334.

اب وہ لوگ جو امام حسین علیہ السلام کے ماتمی اجتماعات کے بارے میں اس قدر سخت اور متعصبانہ اظہار خیال کرتے ہیں، وہ سنی علماء کے لیے لوگوں کے ماتم اور ماتم کے مناظر کو بیان کرتے ہوئے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور سخت ترین اور انتہائی سخت  اظہار اور مبالغہ آرائی سے کام لیا یہاں تک کہ انہوں نے بغیر کسی تجزیے اور تنقید کے اپنے ماتم کی وجہ سے آسمان کے رونے کا ذکر کیا اور آسانی سے گزر گئے۔

تحقیقی خلاصہ

پچھلے حصوں میں مذکور تمام مثالوں سےمسلمان  مردہ   پر ماتم اور گریہ و زاری کا جواز استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ تمام معاملات انبیاء کرام خاص طور پر ان کے آخری نبی  پیغمبر کی عملی زندگی کے ٹھوس مناظر پر مبنی ہیں، اور یہ لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے تعصبات اور سطحی خیالات کو مسترد کرتا ہے جو مذہب کے توہم کو ختم کرنے کے بہانے ہر مخالف عقیدے اور فکر پر بے رحمی سے حملہ کرتے ہیں۔

مندرجہ بالا بحثوں سے اہم اور قابل ذکر نکات استعمال کیے گئے:

1- سانحات اور  رشتہ داروں کی موت پر رونا خوشگوار اور قابل تعریف ہے۔

2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی نے اپنے فرزند امام حسین علیہ السلام کی وفات میں ماتم کو بدعت سمجھنے والوں کی باتوں کو چیلنج کیا اور اس پر باطل کی مہر ثبت کردی۔

3- انسانی روح کی نرمی اور مصائب کا فطری ردعمل ایک فطری اور انسانی حقیقت کا حصہ اور خدا کی رحمت ہے۔

اور آخر میں امام حسین علیہ السلام کے لیے ماتم کرنا بدعت نہیں جیسا کہ ابن تیمیہ اور ان کے پیروکار کہتے ہیں، بلکہ اس حقیقت سے کہ شیعہ کے نزدیک عادل اور قرآن کریم اور اس کے مفسرین پیغمبر اکرم کی عترت ہیں؛  اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہمارے لیے سنت نبوی کی تشریح اور تبيين کرتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متن کے مطابق صحیح اور متواتر حدیث میں ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:«أخبرني اللطيف الخبير أنهما لن يفترقا حتي يردا علي الحوض» ہمارے لۓ شرعي حجيت رکھتا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں جو کچھ بھی ان کے توسط  سے ہمارے پاس صحیح سند کے ساتھ آئے گا، وہی ہمارے اور خدا کے درمیان شرعی ثبوت ہو گا، اور یہ قرآن کریم اور سنت نبوی کے ثبوت میں شامل ہو جائے گا۔  شہدائے کربلا کے رہبر حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی ماتمی تقریب کے بارے میں بھی اس طرح  ہے۔ کیونکہ صحیح السند اور متواترہ احادیث ائمہ معصومین علیہم السلام سے منقول ہیں، اس طرح سوائے اس معزز ہستی کے اور کسی کےلۓ ماتمی  اجتماعات کے انعقاد میں منقول نہیں ہوا۔

لہٰذا ہمارے نزدیک شرعی حکم یہ ہے کہ: حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام  کے لیے ماتمی تقریب کا انعقاد جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خاندان کے فضائل و مناقب اور دین اور شریعت کے احکام  کا ذکر کیا جائے،اور آخر میں ان کے مصائب کو زکر کیاجاتا ہے اور اس پر روتے ہیں،یہ ایک مستحب عمل ہے، جسے اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل کرنے کے بہترین طریقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

 

موفق رہیں

شک وشبہات کا جواب دینے والا گروپ

ادارہ تحقیق حضرت ولی عصر (ع)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی