2024 March 29
خلافت کے مسئلے میں خاندان پیغمبر ص کو بے دخل کیا گیا
مندرجات: ٢١٢٤ تاریخ اشاعت: ٢٨ November ٢٠٢٢ - ٠١:٠٤ مشاہدات: 2053
یاداشتیں » پبلک
خلافت کے مسئلے میں خاندان پیغمبر ص کو بے دخل کیا گیا

خلافت کے مسئلے میں خاندان پیغمبر ص کو بے دخل کیا گیا

 

خاندان پیغمبر کا مقام کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، حضور پاکؐ  کے  فرمان کی رو سے آپ کا  خاندان تمام خاندانوں  سے زیادہ   اللہ کے نزدیک   برگزیدہ  خاندان  [1]۔

 لیکن خلافت کے مسئلے میں  اس  خاندان والوں کو کلی طور پر  بے دخل رکھا گیا، خصوصی طور پر خاندان پیغمبر  کو اس ماجرے سے بے دخل کرنے  کی داستان بھی تاریخ نے یوں بیان کی ہے: خلیفہ دوم نے  اهل بيت کو  خلافت کے مقام و منصب  سے محروم رکھنے  کی ' علت بیان  کرتے ہوے ابن‌عباس سے کہا :  قریش اس چیز کو پسند نہیں کرتے تھے کہ خلافت و نبوت  ایک ہی  جگه جمع هو[2]۔اس پر ابن عباس نے جواب میں کہا:  اگر قریش اس چیزکو اختیار کرتے جس کو  خدا نے اختیار کیا ہے تب  اس صورت میں وہ لوگ  حق پر ہی ہوتے ۔۔۔ لیکن آپ کا یہ کہنا کہ قریش اس چیز کو پسند نہیں کرتے تھے کہ نبوت اور خلافت دونوں ہمارے ہاں رہیں :تو خدا نے  ایسی ہی ایک قوم کی صفت بیان کرتے ہوے فرمایا ہے :

 :’’یہ اسلئے کہ انہوں نےخدا کےنازل کئے ہوئے احکام کو برا سمجھا تو خدا نے بھی انکے اعمال کو ضائع کر دیا[محمد: 9]  اس کے بعد   خلیفہ دوم  نے کہا:  میں  نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو:  خلافت کو لوگوں نے  بنی ہاشم سے ظلم اور حسد  کرتے ہوئے چھین لیا ہے ؟   ابن عباس نے جواب میں کہا: جہاں تک ظلم کی بات ہے تو اس حقیقت سے سب واقف  ہیں ،  حسد کی جو بات کی تو شیطان نے  جناب آدم کے ساتھ حسد کیا تھا۔ ہم بھی انہی  کی  اولاد   ہیں  اور  ہمارے ساتھ بھی حسد کیا گیا ہے ۔[3]

 

خود مخبر صادق اہل بیت کے ساتھ امت کے رویے کی خبر دئے کر گئے تھے

 

خود پیغمبر اسلام  ص نے ہی  امام علیؑ کو  ان  کے خلاف لوگوں کے دلوں میں موجود کینہ  اور  دشمنی کے  بعد میں آشکار ہونے کی خبر دی تھی :   ایک دن  پیغمبر اکرمؐ  اچانک رونے لگے،  امام عليؑ نے اس  کی وجہ دریافت کی تو   آنحضرت نے فرمایا :  میرے رونے کی وجہ لوگوں کے دلوں میں موجود  آپ سے  کینہ اور دشمنی ہے  جو میرے بعد ظاہر ہونگے[4]۔

آپ نے  امام علیؑ سے خطاب کرتے ہوئے  فرمایا :  امت میرے بعد تمھیں دھوکا دے  گی:إن الأمة ستغدر بك بعدي[5] عنقریب  آپ کے بارے میں امت گروہوں میں بٹ جائے گی جس طرح بنی اسرائیل والے جناب عیسیؑ کے بارے میں اختلاف  کا شکار ہوئے تھے۔تفترق فيك أمتي كما افترقت بنو إسرائيل في عيسى[6] ۔

امت کا اہل بیت کے مسئلہ میں سخت امتحان سے دوچار ہونے کے بارے  فرمایا :إنكم ستبتلون في أهل بيتي من بعدي[7]

امام عليؑ نے  خود ہی  خلافت سے اپنی محرومیت کا سبب تعصبات کو قرار  دیا[8] ۔ جیساکہ قریش  کی   بنی ہاشم کے ساتھ زمان جاہلیت سے  موجود تعصب اور  دشمنی کے علاوہ  قریش کی  با لخصوص امام علیؑ سے دشمنی کی ایک بنیادی وجہ فتح مکہ سے پہلے کی جنگوں میں  قریش کے سرداروں اور اہم شخصیات  کا امام کے ہاتھوں مارا جانا تھا۔[9]۔

بنا بر ین  امام  علیؑ کو  اس مقام  خلافت سے محروم کرنے پر قریش اور دوسرے بہت سے لوگ پہلے سے ہی آمادہ تھے۔   جیساکہ خود   خلیفہ دوم  نے اس  حقیقت  سے پردہ اٹھاتے ہوے کہا : واجتمع المهاجرون إلى أبي بكر۔۔۔[10]یعنی سقیفے میں انصار کے اجتماع میں شرکت  سے پہلے ہی  مہاجرین  جناب ابوبکر  کے پاس اس مسئلے میں جمع ہوچکے تھے جبکہ  اس سلسلے میں کسی ظاہری اجتماع کی  تشکیل پانے کو کسی تاریخ  نے نقل نہیں کیا ہے   لیکن خلیفہ دوم کی  یہ عبارت قریش کی پس پردہ حکومت اور قدرت کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کو بخوبی بیان کرتی ہے  ،  یہ کام  مسلسل رابطوں اور مذاکرات کے نتیجے میں ہی محقق ہوسکتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ خود انصار کا سقیفے میں جمع ہونا  اس بات کی دلیل ہےکہ   انصار اس نتیجے تک پہنچ چکے  تھے کہ  خلافت   سے خاندان نبوت کو  محروم  رکھنا   ایک لازمی امر ہے۔

 جیساکہ  پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے آخری ایام میں واقع  ہونے والے  بعض  اہم واقعات جہاں  اس قسم کی مخفیانہ حرکتوں سے پردہ اٹھاتے ہیں ، وہاں اس بات کو بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم بھی اس قسم کی حرکتوں سے آگاہ تھے  اور آپ مخالفین کو ناکام بنا نا چاہتے تھے ،ہم  اس کے  دو  نمونے یہاں  پیش کرتے ہیں ۔

 

الف ۔ اسامہ بن زید کی  قیادت میں  لشکر کی روانگی کا مسئلہ:

 

آنحضرت  ص نے آخری عمر میں  مسلمانوں کو   اسامہ کی قیادت میں روم کی طرف حرکت کرنے کا حکم دیا ،   انصار اور مہاجرین میں  سےبڑے بڑے اصحاب کو خاص کر جناب خلیفہ اول اور دوم  اور ابو عبیدہ جراح کو  اسامہ کی قیادت میں جانے کا حکم دیا[11]  لیکن  ان تینوں سمیت بہت سے اصحاب نے اس میں شرکت نہیں  کی، جس پر آپ ان سے ناراض ہوئے   اور آپ  بیماری کی حالت میں  مسجد   گئے اور   فرمایا: أيهاالناس فما مقالة بلغتني عن بعضكم في تأميري أسامة[12]

یہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ایک طرف اپنی وفات کی خبر دے  رہے  ہیں تو  دوسری طرف بڑے بڑے اصحاب کا نام لے کر انھیں  مدینہ سے باہر جانے کا حکم دے رہے  ہیں اور  جن کا خاص طور  سے نام لیا گیا تھا وہ لوگ اس لشکر میں شرکت   تک  نہیں  کرتے  اور بعد  میں سقیفے میں آکر  خاص کرداربھی  ادا  کرتے ہیں ۔

 یہاں ایک اہم بات یہ بھی ہے  کہ  جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جناب خلیفہ اول اور دوم کو  پیغمبر ؐکے پاس  ایک خاص مقام تھا اور وہی لوگ اصحاب میں سے سب سے زیادہ آنحضرت کے جانشینی کے لائق تھے ،اگر یہ حقیقت پر مشتمل ہے تو پیغمبر اکرمؐ نے اپنے آخری عمر میں انھیں شہر سے باہر جانے کا حکم کیوں دیا ؟  کیا سب سے قریبی اور جانشینی کے لائق افراد کو موت کے وقت اپنے سے دور  جانے کا حکم دیا جاتا ہے  یا قریب رہنے کی سفارش کی جاتی ہے  ؟

ب۔۔ قلم و قرطاس کا مسئلہ :

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے   اپنے  آخری لمحات میں لوگوں کو  کاغذ اور قلم لانے کا  دستور  دے کر  فرمایا:  ایک ایسی سند لکھ  دوں کہ میرے بعد تم لوگ گمراہ  نہ ہو جاؤ،  اس پر گھر میں موجود افراد  میں اختلاف ہوا ، خلیفہ دوم  کہنے لگا کہ پیغمبر پر مرض کا غلبہ ہوا ہے ۔ خدا کی کتاب ہمارے لئے کافی ہے ۔[13] پیغمبراسلام  صلی اللہ علیہ و الہ وسلم  کو  لوگوں کی اس نافرمانی اور اختلاف پر غصہ آیا اور آپ نے فرمایا   :  یہاں  سے  نکل جاؤ !میرے پاس لڑائی جھگڑا  کرنا صحیح نہیں ہے[14]

یہاں پر بھی  بعض  افراد اس کام  کے   انجام تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہوتے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ اصحاب پیغمبر کو آپ کی اس اہم خواہش  کے سلسلے میں کیسے رد عمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا ؟ ہم اصحاب کے بارےمیں آنحضرت کی  اس خواہش کے سلسلے میں کیا توقع رکھتے ہیں ؟  تعجب کا مقام یہ ہے کہ  آنحضرت ؐکی طرف بیماری کی وجہ سے ہزیان گوئی کی نسبت دی  جاتی ہے اور ان کی اس خواہش کو پورا  ہونے نہیں دیا جاتا ہے، آنحضرت بھی انھیں گھر سے نکال دیتے ہیں ،  جناب عمر  کا خصوصی طور پر  اس کام میں رکاوٹ بننے کی وجہ کیا تھی [15] ؟ آخر آنحضرت کیا لکھنا چاہتے تھے  اور ان لوگوں کو کس چیز کا خوف تھا کہ  جس کی بنا پر  وہ  پیغمبر کی طرف ہذیان کی نسبت دے کر ان کے اس کام کو بے اہمیت بنادے؟

یقینا اس وقت  ان سب میں آنحضرت کی جانشینی کا مسئلہ ہی  سب سے اہم مسئلہ تھا،جیساکہ بعد  کی بحث میں  بیان ہوگی  کہ رسول پاک ؐنے واضح طور پر  اپنے بعد لوگوں کو اہل بیت کی پیروی کا حکم دیا تھا اور  آپ ؐ قلم و قرطاس مانگنے    کے   ذریعے    اہل بیت کو اس مقام سے محروم کرنے والوں کو  ناکام بنانا چاہتے تھے۔

 جیساکہ  آنحضرت ؐ پہلے ہی  کئی مقامات پر  اپنے بعد  اہل بیت ؑکی  دینی پیشوائی اور ان کی جانشینی  کا  حکم  دے چکے  تھے۔ مثلا  آخری حج کے موقع پر اپنی عنقریب موت کی خبر  دی اور لوگوں سے  اپنی سرپرستی کا اقرار لے کر  فرمایا  ’’ جن جن کا میں مولا  [سرپرست ] ہوں علی ان کے   مولی ہیں‘‘ ایک اور جگہ پر آپ نے فرمایا  ’’علیؑ میرے بعد تم لوگوں کے پیشوی   ہیں۔[16]  اس طرح کئی مقامات پر  آپ نے   اپنے بعد قرآن اور اہل بیتؑ کی پیروی کا حکم دیا  اور تاکید فرمایا کہ جو بھی ان کی پیروی کرئے گا وہ  گمراہ نہیں ہوگا [17]لہذا ان احادیث کی روشنی میں اہل بیت کی جانشینی اور امام علیؑ کے خلیفہ بلا فصل ہونے  پر  عقیدہ  پیغمبر کی اتباع کا بہترین نمونہ  ہیں ۔

لیکن رسول پاک ؐ کے اس واضح فرمان کے باوجود قبائلی تعصبات  اور کچھ لوگوں  کی  رسول پاکؐ کی فرمائشات کے  سامنے  مکمل طور پر تسلیم نہ ہونے اور اپنی نظر کو  ترجیح دینے کی ذہنیت کی وجہ سے اہل بیت ؑ کے بارے میں حضور پاک ؐ کے فرمامین  پر عمل نہیں ہوا۔

سقیفے کو سمجھنے کے لئے  چند  ضروری باتیں :

سقیفے  کے اس ناگہانی حادثے پر   ایمان  رکھنے والوں  کے لیے ان کے مقابلے میں دوسرے لوگوں کی بات ماننے کی  راہ میں سب سے بنیادی رکاوٹ  اصحاب کا تقدس اور ان کے مقام و منزلت کا زیر سوال جانا ہے کہ جسے بعض افراد دین پر کاری ضرب قرار دیتے  ہیں لہذا ان کے سامنے یہ سوال ہمیشہ  کے لئے لاینحل رہ جاتا ہے  کہ  یہ کیسے ممکن ہے کہ اصحاب نے پیغمبر کے حکم کی نافرمانی کی ہو  ؟  اور اس بارے میں سوچنا بھی ایسے لوگوں کے لئے وحشت ناک ہے اسی بنا پر بعض  ہولوکاسٹ [18]کے  مسئلے کی طرح   اصحاب کے کاموں  سے بحث کے مسئلے میں بھی یہ کوشش کرتے ہیں کہ  اس سلسلے میں  کسی قسم کی  تحقیق کو منع اور حرام قرار دیا جائے ۔کیونکہ اگر  ان واقعات میں اہل حق اور  اہل باطل کو  بحث و تمحیص  کا موقع فراہم  کرے تو   ان کی  اپنے مکتب اور مذہب کی حقانیت کی  سب سے اہم  دلیل  یعنی’’ عمل صحابہ‘‘  زیر سوال چلا  جائے گا  ۔جو در  واقع اپنے مذہبی تشخص کو کھو دینے  اور اپنے مخالفین  کے  سامنے ہتھیار ڈالنے کےمترادف  ہے۔لہذا آسان ترین راہ یہی ہے کہ  اسلامی دنیا میں بھی ہولوکاسٹ  کی طرح  ایک  قانون  بنا کر  لوگوں کو حقائق کی تحقیق کرنے سے روکے رکھیں  اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس  پر اسلام دشمنی اور اصحاب مخالف کا لیبل لگا کر اس کے کفر اور  قتل کے فتوی کا جواز فراہم کیا جائے۔

لہذا اس بنیادی مسئلے   کو حل کیے بغیر  ایسے افراد  کو قانع کرنا  انتہائی دشوار اور کٹھن مسئلہ ہے۔

 

اس کو سمجھنے کے لئے قرآن اور سنت اور اصحاب کی سیرت کی روشنی میں اصحاب کا  پیغمبر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم  کے ساتھ طرز عمل  اور رویہ کو سمجھنا ضروری ہے ۔  

 

قرآن و سنت اور اصحاب کی زندگی میں بہت سے قطعی شواہد موجود ہیں جو   اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اصحاب میں سے بہت سے  با آثر  لوگ پیغمبر کی رأی  اور نظر کے مقابلے میں اپنی نظر  اور رأی  کو زیادہ  اہمیت دیتے تھےاور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے[19]۔ لہذا   بعض اصحاب  کا  آنحضرتؐ   کی رأی  کے مقابلے میں اپنی رأی  کو ترجیح دینے کی  فکر ، قبائلی تعصب کی فضاء اور  خاص کر  قریش کی  امام علیؑ سے دشمنی نے  بہت سے لوگوں کو  پیغمبر اکرمؐ کے  فرامین پر عمل کرنے کے جذبہ کو  عملی جامہ پہننے نہیں دیا  ،اہل بیتؑ کی جانشینی اور ان کی اطاعت کے بارے  میں  پیغمبر اکرمؐ کے  واضح فرامین  کو پس  پشت ڈال دیا  گیا۔  جیساکہ ہمارے سابقہ مطالب کے علاوہ  ان   کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کے صحیح سند  فرامین  اس  بات پر بہترین  شاہد ہیں ، لیکن  جو  لوگ  اہل بیتؑ کی جانشینی  کا عقیدہ  نہیں رکھتے   وہ  لوگ  ان احادیث  کی  توجیہ  اور رد میں اصحاب کے تقدس  کو دلیل بنا کر پیش کرتے ہیں، لہذا مخالفین کے پاس  اصحاب کی سیرت اورعمل   کو پیغمبرؐ کے ان فرامین کی تفسیر کے لئے میزان قرار دینے کے سوا کوئی اور ٹھوس جواب نہیں ہے۔  جبکہ نہ پیغمبر کے فرامین کی تفسیر کا یہ طریقہ  صحیح ہے  اور نہ  ہی اصحاب  کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ سب کے سب  سوفیصد پیغمبر کے حکم کے تابع ہوتے تھے۔ قرآن کے بعد جو  چیز  ہمارے لئے حجت  اور جس کی اطاعت ہم پر واجب ہے وہ   رسول پاکؐ  کی سنت ہے، ہمیں  قرآن اور سنت کے  آئینہ میں دوسروں  کے کاموں کو  دیکھنا چاہئے نہ برعکس۔

لہذا  اصحاب  کے  تقدس اور ان کے فضائل کو  اہل بیتؑ کے بارے میں شیعہ موقف کے رد میں دلیل طور پر پیش کرنا مغالطہ سے کام لینا ہے ، کیونکہ رسول پاک ؐ کے احادیث کی روشنی میں  اہل بیت کی جانشینی اور ان کی دینی پیشوائی کا مسئلہ مسلم چیز ہے ، اس بنا پر  اصحاب کے  تقدس کی رو سے  یہاں  زیادہ سے زیادہ اس کو  ایک شبہہ کہہ سکتا ہے۔ لیکن اس شبہہ کو حل کرنے کے بجائے اصل مسلم چیز  کی توجیہ کرنا مذہبی تعصبات کا شکار ہونے  اور تاریخی حقائق سے نا آشنائی کی دلیل  ہے۔

ان حقائق کے باوجود ہمارے اس موقف کو اصحاب کی شان میں گستاخی کہنے والوں سے ہم   یہ سوال کرتے ہیں کہ کیامندرجہ بالا  موارد میں  بعض اصحاب  کی طرف  سے رسول اللہ ؐ کی نافرمانی میں کوئی شک  ہے ؟ کیا یہ  ممکن نہیں کہ جانشینی کے مسئلے  میں بھی اسی کام کے مرتکب ہوئے ہوں ؟ خاص کر عربوں کی فکری اور معاشرتی  بناوٹ کے لحاظ  سے تو  اس فرمان کی خلاف ورزی کی  بات  زیادہ  بعید نہیں تھی، جیساکہ خود سقیفے میں ہونے والی گفتگو اس بات پر شاہد ہے۔

 

 کیا دوسرے موارد میں فرمان پیغمبر ص پر عمل ہوا ؟

 

دوسرے موارد میں بھی  خاص کر اہل بیت ؐکے  بارے میں رسول پاک ؐکے  فرامین  اور نصیحتوں پر عمل نہیں ہوا  ،  قرآن و سنت کی رو  سے ان سے محبت اور ان  کا احترام سب پر واجب ہے[20]ان سے دشمنی اور جنگ کو   رسول اللہ ؐ نے  اپنے ساتھ جنگ اور دشمنی سے تعبیر فرما کر امت کو  اس چیز  سے سختی  سے  منع فرمایا  ۔[21] لیکن  ان میں سے کسی بھی فرمان پر عمل نہیں ہوا اور اگر  عمل ہوا ہے تو کیوں اہل بیت  کے گھر کو  آگ لگانے کی دھکی دی گئی ؟کیوں آپ کی  بیٹی جو جنت کے عورتوں کی سردار تھی،  غضبناک حالت میں دنیا سے چلی گئی[22]؟ کیا  جنگ جمل اور صفین حضرت علیؑ اور اہل بیت ؑکے بارے میں رسول پاکؐ کے فرامین کی خلاف ورزی نہیں تھی؟ کیا  اہل بیت سے محبت اور ان کی پیروی کو  جرم قرار دینا،ان پر سب و شتم کو رواج دینا [23]، ان سے اظہار برائت نہ کرنے کے جرم میں لوگوں کو قتل کرنا[24]، رسول پاک ؐ کے فرامین کی خلاف ورزی نہیں ہے؟

اسی طرح کیا دوسرے موارد میں رسول پاک ؐ کے سارے فرامین پر سو فیصد عمل ہوا ؟ کیا خود اصحاب کو  خصوصی طور پر ایک دوسرے سے  جنگ نہ کرنے  کا حکم نہیں دیا تھا [25]، کیا  خلیفہ سوم کا قتل،[26]جنگ جمل وغیرہ  ان فرمامین کی خلاف ورزی نہیں تھی ؟ کیا ان  سب میں  خود اصحاب  کا بنیادی کردار قابل انکار ہے ؟

 

جیساکہ ان  تلخ حقائق  کی  توجیہ میں ان سب کو  دوسروں کی سازشوں کا نتیجہ کہنا، جہاں  ان بزرگ اصحاب کی شان میں گستاخی ہے ،وہاں  اس قسم کی توجیہ کرنے والوں سے ہم یہ سوال کر سکتے ہیں کہ  کیا  یہی توجیہات خود سقیفہ اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے توسط سے اہل بیت کو درکنار کرنے کے مسئلے میں نہیں کہی جاسکتیں؟

 

 عجیب منطق اور عجیب روش

لہذا   عجیب  بات یہ ہے کہ شیعہ   مخالفین  خلافت کے مسئلے  میں بعض اصحاب کی طرف سے رسول پاکؐ کی نافرمانی کے عقیدے  کو بہانہ  بنا کر شیعوں پر اصحاب کی توہین اور ان کی شان میں گستاخی کا الزام تو لگاتے ہیں  لیکن  خود اپنی  معتبر کتابوں میں  موجود  اس قسم کی دسوں نمونوں کو  نطر  انداز  کرتے ہوئے صرف اسی ایک مورد  کو  اچھالتے رہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنی معتبر ترین کتابوں میں  موجود اس قسم کی نافرمانی والی باتوں پر بھی ایک نظر دوڑائیں  تو   شیعوں پر الزام تراشی اور اہل بیت ؑ کے بارے میں رسول پاک ؐ کی معتبر احادیث کی خود ساختہ  ، غیر منطقی تفسیر اور توجیہ سے باز آجائیں گے ۔



[1]۔قَالَ ر َسُولُاللَّهِ صلى الله عليه و سلم- :«إِنَّ اللَّه اصْطَفَى بَنِى ۔۔.السنن الكبرى للبيهقي (7/ 134) المعجم الكبير (22/ 66) سنن الترمذي (5/ 583)صحيح مسلم (4/ 1782) مسند أحمد بن حنبل (4/ 107) مصنف ابن أبي شيبة (6/ 317)

[2]- يكرهون أن تجتمع فيكم النبوّة والخلافة-  تاريخ الطبري ،ج3 ص 289-  الكامل في التاريخ ،ج2 ص 458- شرح نهج البلاغة ابن ابي الحديد ،ج1 ص5853 - شبلي نعماني،الفاروق ،ص 199-  ’’إن قومكم يعني قريشا ما أرادوا أن يجمعوا لكم يعني يني هاشم بين النبوة و الخلافة تاريخ ابن خلدون [3 /214] -

  :، ولكن قريشاً لا تحتمله -  تاريخ اليعقوبي ،ج1 ص 169

[3]- أمّا قولك يا أمير المؤمنين: اختارت قريش لأنفسها فأصابت ووفّقت، فلو أن قريشاً اختارت لأنفسها حيث اختار الله عزّوجلّ لها لكان الصواب بيدها....- تاريخ الطبري [2 /578] الكامل في التاريخ [2 /458] شبلی نعمانی ، الفاروق ، ص ۱۹۹-101

اس قسم کا  ایک اور شاہد    ۔

 ولقد أراد في مرضه أن يصرح باسمه فمنعت من ذلك إشفاقا وحيطة على الإسلام لا ورب هذه البنية لا تجتمع عليه قريش أبدا ولو وليها لانتقضت عليه العرب من أقطارها فعلم رسول الله ص أني علمت ما في نفسه فأمسك وأبى الله إلا إمضاء ما حتم . ذكر هذا الخبر أحمد بن أبي طاهر صاحب كتاب تاريخ بغداد في كتابه مسندا . شرح نهج البلاغة - ابن ابي الحديد (ص: 3301)

[4] -.  ضَغَائِنُ فِي صُدُورِ أَقْوَامٍ ، لا يُبْدُونَهَا لَكَ إِلا مِنْ بَعْدِي -المطالب العالية ،ج11 ص 219- - كنز العمال ،ج  13ص 176- مسند أبي يعلى [1 /426] ـمسندالبزار [2 /383] تاريخدمشق [42 /322] ينابيعالمودة [1 /344] نظمدررالسمطين-   [ص 112]

[5] - المستدرك على الصحيحين –ج 3 ص 153 كنزالعمال - ج11 ص 926) المطالبالعاليةبزوائدالمسانيدالثمانية–ج 4 ص 102- الهيثمي،نورالدين،بغيةالباحثعنزوائدمسندالحارث–ج 2 ص905-  ذخيرة الحفاظ ج4 ص1943- مسند البزار، ج3 ص54 - دلائل النبوةللبيهقى –ج 6 ص440- تاريخمدينةدمشق - ج42 ص 448 - البدايةوالنهاية–ج 7 ص 326 -

[6]- نهايةالأربفيفنونالأدبـج20 ص6 - الإستيعابفيمعرفةالأصحاب،ج1 ص339 - الوافيبالوفياتج6 ص445 -تهذيبالكمالج20ص،485ا-جوهرةفينسبالنبيوأصحابه-ص 293

[7] - المعجم الكبير –ج 4 ص 192 جامعالأحاديث–ج 9 ص 437 - الفتحالكبير–ج 1 ص400  مجمعالزوائد–ج 9 ص 311

[8] -  فأما صرف قومنا عنا الأمر فعن حسد  -    شرح‏نهج‏البلاغة، ج 9 ص 8 - بحارالأنوار ،ج31ص453   

كل حقد حقدته قريش على رسول الله ص أظهرته في و ستظهره في ولدي من بعدي ما لي و لقريش إنما وترتهم بأمر الله و أمر رسوله أ فهذا جزاء من أطاع الله و رسوله إن كانوا مسلمين /شرح‏نهج‏البلاغة ،ج20  ص 328 

مَا لِي وَ لِقُرَيْشٍ وَ اللَّهِ لَقَدْ قَاتَلْتُهُمْ كَافِرِينَ وَ لَأُقَاتِلَنَّهُمْ مَفْتُونِينَ وَ إِنِّي لَصَاحِبُهُمْ بِالْأَمْسِ كَمَا أَنَا صَاحِبُهُمُ الْيَوْمَ وَ اللَّهِ مَا تَنْقِمُ مِنَّا قُرَيْشٌ إِلَّا أَنَّ اللَّهَ اخْتَارَنَا عَلَيْهِمْ فَأَدْخَلْنَاهُمْ فِي حَيِّزِنَا - نهج‏البلاغة، خطبه ۳۳

[9]-  چنانچه   حضرت زهراء اس سلسلےمیںفرماتی ہیں: وما الذي نقموا من أبي حسن نقموا و الله نكير سيفه و شدة وطأته و نكال وقعته و تنمره في ذات - شرح نهج البلاغة ابن أبى الحديد    ج‏16    233ُ

 -[10]مصنف عبد الرزاق [5 /439] مسند أحمد [1 /55]صحيح البخاري [6 /2503] صحيح ابن حبان [2 /152] سنن البيهقي الكبرى [8 /142] السيرة الحلبية [3 /479]السيرة النبوية لابن كثير [4 /488]السيرة النبوية لابن هشام [6 /80] تاريخ الطبري [2 /235]

[11]تاريخ الإسلام [ص 361] أسد الغابة [1 /41] غزوات الرسول وسراياه [ص 91] الطبقات الكبرى ج2 ص190-- السيرة الحلبية ج 3 ص227- 361-

[12]-{ عيون الاثر ،ج2 ص352--  نهاية الأرب في فنون الأدب- ج17 ص262-  مغازي الواقدي - ج3 ص 1119- الطبقات الكبرى لابن سعد –ج 2ص190- تاريخمدينةدمشق - ج2 ص 55- السيرةالحلبية–ج 3 ص 228 - عمدةالقاريشرحالبخاري–ج 26 ص 376 }

-  [13] لما حضر النبي صلى الله عليه و سلم قال وفي البيت رجال فيهم عمر بن الخطاب قال ( هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ) . قال عمر إن النبي صلى الله عليه و سلم غلبه الوجع وعندكم القرآن . فحسبنا كتاب الله . واختلف أهل البيت اختصموا ../صحيح البخاري - (6 / 2680)صحيح مسلم - (3 / 1257) مسند أحمد - (5 / 135) السنن الكبرى للنسائي - (4 / 360)

 -[14]قوموا عني ولا ينبغي عندي التنازع- مصنف عبد الرزاق –ج 5 ص 438 - صحيحالبخارى–ج 19 ص 73 صحيحمسلم–ج 5 ص 76 - السننالكبرىللنسائي–ج 3 ص 433 - البدايةوالنهاية– ج 5 س 227 -- مسند أحمد بن حنبل –ج 1 ص 324 - صحيحابنحبان–ج 27 ص 234}

 -[15]  

[16]- ۱۔۔«مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاهُ , اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ /  ابن حجر هیثمی:«أنكثيرا من طرقه صحيح أو حسن[الصواعق المحرقة - ج2 ص 355- و هو کثیر الطرق جداً و کثیر من اساتید صحّاح وحسان{ فتح الباری، ج7، ص 61 وهذا إسناد جيد قوي رجاله كلهم ثقات.البداية والنهاية [5 /228]    

۲۔۔مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ ... إِنَّ عَلِيّاً مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ ، وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي

الألباني : صحيح ، سنن الترمذي [5 /632] قال شعيب الأرنؤوط : إسناده قوي صحيح ابن حبان [15 /373] بيان شيخ الإسلام و هو قوي متين كما ترى ، فلا أدري بعد ذلك وجه تكذيبه للحديثإلا التسرع و المبالغة في الرد على الشيعة ، غفر الله لنا و له .السلسلة الصحيحة المجلدات الكاملة 1-9 [5 /222]

[17]۔۔«إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي..كتاب الله . وعترتي أهل بيتي –

{قال الشيخ الألباني : صحيح - سنن الترمذي [5 /663] تعليق شعيب الأرنؤوط : حديث صحيح "مسند أحمد بن حنبل [3 /59] صحيحة-الصواعق المحرقة [2 /653]المعجم الكبير [3 /65]

[18]۔ ہولوکاسٹ جرمن نازی فوجوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کی داستان کا نام ہے ۔جس میں مبالغہ آرائی کے ذریعے اسرائیل آج تک جرمن سے غرامت وصول کر رہا ۔  یہودیوں نے اپنی اثروسوخ کی وجہ سے دنیا میں اس واقعے کی تحقیق کرنے کو جرم قرار دینے کا  قانون پاس کرایا ہے ۔

[19]۔تفصیل کے لئے  علامہ شرف الدین عاملی کی کتاب’’الاجہاد و النص ‘‘ کی طرف مراجعہ کریں۔

[20]۔{شوری،‌23}

فرمان پیغمبر : وَأَحِبُّوا أهل بيتى بحبى سنن الترمذى [12 /260]. المعجم الكبير [3 /46]

[21] - نظر النبي صلى الله عليه و اله و سلم إلى علي و فاطمة و الحسن و الحسين فقال : أنا حرب لمن حاربكم و سلم لمن سالمكم -  المستدرك على الصحيحين للحاكم [3 /161] صحيح ابن حبان [15 /433] مسند أحمد [15 /436] مسند ابن أبي شيبة [2 /38] المعجم الكبير [5 /184]

حرمت الجنة على من ظلم أهل وآذاني في عترتي    ---

الجامع لأحكام القرآن [16 /22]الكشاف [6 /191]  تفسير النيسابوري [6 /467]

و الذي نفس بيده لا يبغضنا أهل البيت أحد إلاأدخله الله النار -- هذا حديث صحيح على شرط مسلم و لم يخرجاه المستدرك على الصحيحين للحاكم مع تعليقات الذهبي في التلخيص [3 /162] 2488 صحيح -السلسلة الصحيحة - مختصرة [5 /643] قال شعيب الأرنؤوط : إسناده حسن- صحيح ابن حبان [15 /435]صحيح ابن حبان [28 /497] سير أعلام النبلاء [2 /123] 

۔امام علی کے بارے میں فرمایا ؛,اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ}{المعجم الكبير - ج4 ص 16 - سنن النسائي الكبرى - ج5 ص 134-  مسند أحمد - ج2 ص 468- مصنف ابن أبي شيبة –ج 6

لا يبغضك مؤمن ولا يحبك منافق  - مسند أحمد بن حنبل [6 /292] مسند أبي يعلى [1 /250] السنن الكبرى للنسائي [5 /137] سنن ابن ماجه [1 /127] سنن الترمذى [12 /198] 

- من سب عليًّا فقد سبني/ السنن الكبرى للنسائي [5 /133 المستدرك على الصحيحين [3 /130] مسند أحمد بن حنبل [6 /323

[22]۔  اہل بیت کا موقف کی بحث میں دیکھیں۔

[23]۔ اسی فصل کے آخری بحث میں ملاحظہ کریں ۔

[24]۔ تیسری فصل میں ملاحظہ کریں۔

[25]۔ أَلا َلاَتَرْجِعُو ابَعْدِى كُفَّارًا يَضْرِب ُبَعْضُكُمْ رِقَابَب َعْضٍ».{صحيح البخاري [4 /1598] صحيح مسلم [4 /2228]سنن الترمذي [4 /486]المعجم الكبير [2 /307]

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی