2024 October 16
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے تین بیٹوں کا نام کیوں ابوبکر ،عمر اور عثمان رکھا؟
مندرجات: ٢١٢٢ تاریخ اشاعت: ٢٦ October ٢٠٢١ - ١٨:١٨ مشاہدات: 8652
سوال و جواب » امام حسین (ع)
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے تین بیٹوں کا نام کیوں ابوبکر ،عمر اور عثمان رکھا؟

حضرت علی علیہ السلام نے اپنے تین بیٹوں کا نام کیوں ابوبکر ،عمر اور عثمان رکھا؟

 

   مطالب کی فہرست؛؎

شبهه کی وضاحت :

اجمالی اور مختصر جواب :

ابوبکر نام رکھنا :

  عمر نام رکھنا

  عثمان نام رکھنا :

  تفصيلي جواب  

ایک نقضی سوال :

نتيجه

شبهه کی وضاحت :


شیعہ کہتے ہیں کہ خلیفہ اول اور دوم نے حضرت فاطمه (علیہا السلام ) کے گھر پر حملہ کیا ،جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بیٹوں میں سے بعض کے نام خلفا کے نام پر رکھا ہے ۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو تہمتیں خلفا پر لگائی جاتی ہیں وہ ان تہمتوں سے برئ ہیں کیونکہ کوئی بھی اپنے فرزندوں کا نام اپنی بیوی کے قاتل کے نام پر نہیں رکھتے  ؟

نقد و بررسي:

اجمالی اور مختصر جواب :

ابوبکر نام رکھنا :

اولاً:

ابوبکر کنیت ہے نام نہیں ہے اگر خلیفہ کے نام پر نام رکھنا ہوتا تو انہیں ابوبکر کے اصلی نام کے مطابق بیٹے کا نام رکھنا چاہئے تھا ، ابوبکر کی کنیت کو بیٹے کے لئے نام کے طور پر انتخاب نہیں کرنا چاہئے تھا ، جیساکہ ابوبکر کے اصلی نام کے بارے میں بھی اختلاف ہے مثلا عبد الكعبه، عتيق، عبد الله و... وغیرہ  ۔

ثانيا: ابوبكر حضرت علي عليه السلام کے فرزند کی کنیت ہے ،کنیت کا انتخاب صرف بچے کا باپ نہیں کرتے بلکہ خود وہ شخص یا کوئی اور اس کی زندگی میں پیش آنے والے کسی واقعے کی وجہ سے کنیت  انتخاب کرتا ہے ۔

ثالثاً: ایک قول کے مطابق آپ کے اس فرزند کا نام عبد اللّه تھا اور یہ  25 سال کی عمر میں کربلا میں شہید ہوئے ۔

ابو الفرج اصفهاني لکھتا ہے :

قتل عبد الله بن علي بن أبي طالب، وهو ابن خمس وعشرين سنة ولا عقب له.

عبد الله بن علي 25 سال کا تھا کربلا میں شہید ہوئے .

الاصفهاني، أبو الفرج علي بن الحسين (متوفاي356)، مقاتل الطالبيين، ج 1، ص 22.

لہذا اس بیٹے کی ولادت حضرت علي عليه السلام کی خلافت کے شروع کے دور میں ہوئی اور یہ ایسا  دور تھا کہ جس میں امام خلیفہ پر سخت اعتراض کیا کرتے تھے ۔

رابعا : ابوبکر بعض دوسرے اصحاب کی کنیت بھی تھی ،لہذا امام علیہ السلام کا اپنے بیٹے کا نام خلیفہ اول کی محبت میں وہ بھی اس کی کنیت کو نام کے طور پر انتخاب کرنے کا ادعا بغیر کسی سند اور دلیل کے صرف ایک ادعا ہے ۔

  عمر نام رکھنا:

اولاً: عمر کی عادتوں میں سے ایک لوگوں کے نام تبدیل کرنا تھی مورخین کے اعتراف کے مطابق خود عمر نے یہ نام رکھا اور وہ اس نام سے معروف ہوا ۔

بلاذري نے انساب الأشراف میں لکھا ہے :

وكان عمر بن الخطاب سمّي عمر بن عليّ بإسمه.

عمر بن خطاب، نے حضرت علی علیہ السلام  کے بیٹے کا نام اپنے نام پر «عمر» رکھا ۔

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1، ص 297.

ذهبي نے سير اعلام النبلاء میں لکھا ہے :

ومولده في أيام عمر. فعمر سماه باسمه.

  عمر کے دور میں اس کی ولادت ہوئی اور عمر نے اس کا نام اپنے نام پر رکھا .

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 4، ص 134، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

عمر بن الخطاب، دوسرےلوگوں کے ساتھ بھی ایسا کرتا تھا ، یہاں تک کہ  اپنی طرف سے کسی کا نام بھی تبدیل کرتا تھا ۔

ہم یہاں تین نمونے ذکر کرتے ہیں ؛

1. إبراهيم بن الحارث بـ عبد الرحمن.

عبد الرحمن بن الحارث.... كان أبوه سماه إبراهيم فغيّر عمر اسمه.

اس کے باپ نے  ابراهيم نام رکھا لیکن عمر نے اس کا نام تبدیل کر کے  عبد الرحمن رکھا.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 5، ص 29، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولي، 1412 - 1992.

2. الأجدع أبي مسروق بـ عبد الرحمن.

الأجدع بن مالك بن أمية الهمداني الوادعي... فسماه عمر عبد الرحمن.

عمر بن الخطاب، نے اجدع بن مالك کا نام تبدیل کر کے عبد الرحمن نام رکھا .

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 1، ص 186، رقم: 425، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولي، 1412 - 1992.

4 ثعلبة بن سعد بـ معلي:

وكان إسم المعلي ثعلبة، فسماه عمر بن الخطاب المعلي.

ثعلبۃ کا نام تبدیل کیا اور معلی نام رکھا ۔

الصحاري العوتبي، أبو المنذر سلمة بن مسلم بن إبراهيم (متوفاي: 511هـ)، الأنساب، ج 1، ص 250.

ثانياً:

21 اصحاب کا نام عمر تھا۔

ابن حجر نے كتاب الاصابة، باب «ذكر من اسمه عمر»، وہ اصحاب جن کے نام عمر ہیں،  اس باب میں 21 اصحاب کا نام ذکر کیا ہے کہ ان سب کا نام عمر تھا ۔

1. عمر بن الحكم السلمي؛ 2. عمر بن الحكم البهزي؛ 3 . عمر بن سعد ابوكبشة الأنماري؛ 4. عمر بن سعيد بن مالك؛ 5. عمر بن سفيان بن عبد الأسد؛ 6. عمر بن ابوسلمة بن عبد الأسد؛ 7. عمر بن عكرمة بن ابوجهل؛ 8. عمر بن عمرو الليثي؛ 9. عمر بن عمير بن عدي؛ 10. عمر بن عمير غير منسوب؛ 11. عمر بن عوف النخعي؛ 12. عمر بن لاحق؛ 13. عمر بن مالك؛ 14. عمر بن معاوية الغاضري؛ 15. عمر بن وهب الثقفي؛ 16. عمر بن يزيد الكعبي؛ 17. عمر الأسلمي؛ 18. عمر الجمعي؛ 19. عمر الخثعمي؛ 20. عمر اليماني. 21. عمر بن الخطاب.

العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل الشافعي، الإصابة في تمييز الصحابة، ج4، ص587 ـ 597، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولي، 1412 - 1992.

اب ان کے نام کیا خلیفہ سے محبت کی وجہ سے رکھے تھے ؟

اسی طرح اگر یہ نام امیر المومنین علیہ السلام نے خود ہی رکھا ہے تو ان سب اصحاب کو چھوڑ کر صرف خلیفہ دوم سے محبت کی وجہ سے یہ نام رکھنے پر کیا دلیل ہے ؟

کیا کوئی سند دکھا سکتے ہیں یا یہ سب صرف قیاس آرائی ،توھمات اور خیالات کا اظہار ہی ہیں ؟

  عثمان نام رکھنا :

اولاً:

 یہ نام خلیفہ سوم سے محبت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ خود مولا علی عليه السلام نے فرمایا ہے کہ میں نے یہ نام  اپنے دوست  عثمان بن مظعون سے محبت کی وجہ سے رکھا ہے.

إنّما سمّيته بإسم أخي عثمان بن مظعون.

میں نے یہ نام میرے بھائی عثمان بن مظعون  کے نام پر رکھا ہے .

الاصفهاني، أبو الفرج علي بن الحسين (متوفاي356)، مقاتل الطالبيين، ج 1، ص 23. 

ثانياً:   26 اصحاب کے نام  عثمان

 ابن حجر عسقلاني نے اصحاب میں سے 26  اصحاب کے نام  عثمان ہونے کو ذکر کیا ہے 

اب کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان سب نے یہ نام خلیفہ سوم سے محبت کی وجہ سے رکھے ہوں ؟ 1

. عثمان بن ابوجهم الأسلمي؛ 2. عثمان بن حكيم بن ابوالأوقص؛ 3. عثمان بن حميد بن زهير بن الحارث؛ 4. عثمان بن حنيف بالمهملة؛ 5. عثمان بن ربيعة بن أهبان؛ 6. عثمان بن ربيعة الثقفي؛ 7. عثمان بن سعيد بن أحمر؛ 8. عثمان بن شماس بن الشريد؛ 9. عثمان بن طلحة بن ابوطلحة؛ 10. عثمان بن ابوالعاص؛ 11. عثمان بن عامر بن عمرو؛ 12. عثمان بن عامر بن معتب؛ 13. عثمان بن عبد غنم؛ 14. عثمان بن عبيد الله بن عثمان؛ 15. عثمان بن عثمان بن الشريد؛ 16. عثمان بن عثمان الثقفي؛ 17. عثمان بن عمرو بن رفاعة؛ 18. عثمان بن عمرو الأنصاري؛ 19. عثمان بن عمرو بن الجموح؛ 20. عثمان بن قيس بن ابوالعاص؛ 21. عثمان بن مظعون؛ 22. عثمان بن معاذ بن عثمان؛ 23. عثمان بن نوفل زعم؛ 24 . عثمان بن وهب المخزومي؛ 25. عثمان الجهني؛ 26. عثمان بن عفان.

العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل الشافعي، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 4، ص 447 ـ 463، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولي، 1412 - 1992.

 

  تفصيلي جواب

 

1.     اللہ کے ناموں کے علاوہ کوئی نام بھی انحصاری نہیں ہے کہ جو صرف ایک کے ساتھ ہی مختص ہو اور کوئی دوسرا وہ نام نہ رکھ سکتے ہو۔

 بلکہ ایک نام بہت سے لوگوں کے لئے انتخاب کرسکتا ہے اور وہ سب اسی نام سے معروف ہوسکتے ہیں ۔لہذا  ابوبكر ،عمر  اور عثمان جیسے نام اس وقت کے رائج ناموں میں سے تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ اھل بیت علیہم السلام کے بہت سے یار و انصار اور محبین انہیں ناموں سے معروف اور مشہور تھے ۔

جیساکہ اصحاب کے ناموں کا ذکر ہوا ۔۔۔

ائمہ کے یار و انصار میں سے بھی بعض انہیں ناموں سے معروف تھے ،جیسے ؛

أبوبكر حضرمي، ابوبكر بن ابوسمّاك، ابوبكر عياش اور ابوبكر بن محمد امام باقر اور صادق عليهما السلام کے اصحاب میں سے تھے ۔

عمر بن عبد اللّه ثقفي، عمر بن قيس، عمر بن معمر  امام باقر عليه السلام کے اصحاب میں سے تھے ۔ عمر بن أبان، عمر بن أبان كلبي، عمر بن ابوحفص، عمر بن ابوشعبة! عمر بن اذينة، عمر بن براء، عمر بن حفص، عمر بن حنظلة، عمر بن سلمة و... امام صادق عليه السلام کے اصحاب میں سے تھے .

عثمان اعمي بصري، عثمان جبلة اور  عثمان بن زياد، امام باقر عليه السلام کے اصحاب میں سے تھے  اور  عثمان اصبهاني، عثمان بن يزيد، عثمان نوا، امام صادق عليه السلام کے اصحاب میں سے تھے ۔

2.     اس میں شک نہیں کہ شیعہ یزید  اور یزید کے  کردار سے شدید نفرت رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود ائمہ کے اصحاب میں سے کئی کے نام یزید تھا۔

يزيد بن حاتم  امام سجاد عليه السلام کے اصحاب میں سے تھا. يزيد بن عبد الملك، يزيد صائغ، يزيد كناسي امام امام باقر عليه السلام کے اصحاب میں سے تھے ۔

 يزيد الشعر، يزيد بن خليفة، يزيد بن خليل، يزيد بن عمر بن طلحة، يزيد بن فرقد، يزيد مولي حكم ، امام صادق عليه السلام کے اصحاب میں سے تھے

یہاں تک کہ امام صادق عليه السلام، کے اصحاب میں سے ایک کے نام شمر بن يزيد تھا.

الأردبيلي الغروي، محمد بن علي (متوفاي1101هـ)، جامع الرواة وإزاحة الاشتباهات عن الطرق والاسناد، ج 1 ص 402، ناشر: مكتبة المحمدي.

 اب کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام کے اصحاب نے یہ نام یزید بن معاویہ سے محبت کی وجہ سے رکھے تھے ؟ 

3. والدین کی طرف سے اپنے فرزندوں کے ناموں کا انتخاب ہمیشہ ان کی نظر میں موجود کسی شخصیت سے محبت کی وجہ سے نہیں  ہوتا ، ورنہ سارے مسلمان اپنے بیٹوں کے نام رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم سے محبت کی وجہ سے محمد رکھتے اگر نام  رکھنا محبت کی وجہ سے ہی ہوتا ہے تو خلیفہ دوم نے پورے اسلامی علاقوں میں یہ اطلاعیہ کیوں دیا کہ کسی کو نبی کے نام پر اپنے بیٹے کا نام رکھنے کا حق نہیں ؟

ابن بطال  اور ابن حجر نے صحيح بخاري کی شرح میں لکھا ہے :

كتب عمر إلي أهل الكوفة الا تسموا أحدًا باسم نبي.

إبن بطال البكري القرطبي، أبو الحسن علي بن خلف بن عبد الملك (متوفاي449هـ)، شرح صحيح البخاري، ج 9، ص 344، تحقيق: أبو تميم ياسر بن إبراهيم، ناشر: مكتبة الرشد - السعودية / الرياض، الطبعة: الثانية، 1423هـ - 2003م.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 10، ص 572، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

عيني نے بھی عمدة القاري  میں لکھا ہے :

اس میں نہ صرف محمد نام رکھنے سے منع کیا بلکہ جس کا نام محمد ہو ان کے ناموں کو بھی تبدلیل کرایا ۔

وكان عمر رضي الله تعالي عنه كتب إلي أهل الكوفة لا تسموا أحدا باسم نبي وأمر جماعة بالمدينة بتغيير أسماء أبنائهم المسمين بمحمد حتي ذكر له جماعة من الصحابة أنه أذن لهم في ذلك فتركهم.

العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 15، ص 39، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

 عمر نے اہل کوفہ کو لکھا کہ کوئی بھی نبی کے نام پر نام نہ رکھے اور مدینہ کے ایک گروہ کو حکم دیا کہ مسلمانوں کے بچوں کے ناموں کو محمد کے نام سے بدل دیں۔ 

3.        اصحاب میں سے ایک کا نام «عمر بن ابوسلمة قرشي» ہے کہ جو جو جناب امّ سلمه بیٹا اور رسول اكرم صلي الله عليه وآله کا منہ بولا بیٹا ہے ۔

اب  کیا  ایسا نہیں ہوسکتا کہ حضرت امير عليه السلام  نے  یہ نام پیغمبر  صلٓي الله عليه وآله کے منہ بولا بیٹے سے محبت کی وجہ سے رکھے ہو  ؟

4. شیخ مفید کے نقل کے مطابق امام مجتبي عليه السلام کے ایک بیٹے کا نام عمرو تھا  اب کیا یہ ہوسکتا ہے کہ نام عمرو بن عبدود یا عمرو بن هشام (ابوجهل) کی وجہ سے رکھا ہو؟

الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري، البغدادي (متوفاي413 هـ)، الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج 2، ص 20، باب ذكر ولد الحسن بن علي عليهما ، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993 م. 

5. صحیح مسلم کی صحیح سند روایت کے مطابق  بقول خلیفہ دوم ،حضرت امير عليه السلام ،ابوبكر  اور عمر کو گناہ کار ، جھوٹا دھوکہ باز اور خائن سمجھتے تھے ۔

 جیساکہ خلیفہ دوم نے علي عليه السلام  اور عباس سے مخاطب ہوکر کہا :

فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- فَجِئْتُمَا  تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- « مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ». فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا.

عمر نے  اميرالمؤمنین (ع) اور  عباس سے مخاطب ہوکر کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات ہوئی تو ابوبکر نے کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین ہوں تو تم دونوں آئے اور عباس اپنے بھتیجے کی وراثت مانگ رہا تھا اور علی اپنی بیوی کی ان کے والد کی طرف سے وراثت مانگ رہا تھا۔ اس پر ابوبکر نے کہا: رسول اللہ (ص)  نے فرمایا ہے : ہم انبیاء ارث چھوڑ کر نہیں جاتے ،جو چھوڑے جاتے ہیں وہ صدقہ ہے۔لیکن تم دونوں نے انہیں جھوٹا ، گناہ گار ، عہد شکن اور خائن سمجھا ۔

 اور جب ابوبکر فوت ہوا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اور ابوبکر کا جانشین بنا تو اے عباس آپ آئے اور اپنے بھتیجے کی وراثت مانگ رہے ہو۔۔۔۔۔

اور پھر  روايت کے آخری حصے میں عمر بن خطاب ، امير المؤمنن عليه السلام  اور عباس سے اعتراف لیتا ہے کہ جو باتیں میں نے کی ہیں ان کی تائید کرتے ہو ؟ تو آپ دونوں نے جواب دیا ، ہاں ہم تائید  کرتے ہیں .

قَالَ أَكَذَلِكَ قَالاَ نَعَمْ.

 النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 3، ص 1378، ح 1757، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب حُكْمِ الْفَيْءِ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

صحيح بخاري کی ایک روایت کے مطابق  امير المومنین عليه السلام، ابوبكر کو «استبداد کرنے والا جانتے تھے:

وَلَكِنَّكَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالْأَمْرِ وَكُنَّا نَرَي لِقَرَابَتِنَا من رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم نَصِيبًا.

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري ج 4، ص 1549، ح3998، كتاب المغازي، باب غزوة خيبر، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407هـ - 1987م.

ایک اور روایت کے مطابق حضرت امیر المومنین علیہ السلام حتی عمر بن خطاب کے چہرے کو دیکھنا نہیں چاہتے تھے ؛

فَأَرْسَلَ إلي أبي بَكْرٍ أَنْ ائْتِنَا ولا يَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَكَ كَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ.

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري ج 4، ص 1549، ح3998، كتاب المغازي، باب غزوة خيبر، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407هـ - 1987م.

اب کیا امیر المومنین علیہ السلام کے اس قسم کے سخت رد و عمل اور موقف کے باوجود یہ کہنا صحیح ہے کہ آپ نے یہ نام ان سے محبت کی وجہ سے رکھے ہیں  ؟ 

6.  اھل سنت کے علما کہتے ہیں کہ یہ نام خلفاء سے محبت کی وجہ سے رکھے ہیں تو کیا یہ محبت یک طرفہ تھی ، کیوں خلفاء نے خود اپنے فرزندوں کے نام علی ،فاطمہ ، حسن اور حسین نہیں رکھے ؟

7 ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ سواے محمد بن ابوبکر کے خلفاء میں سے کسی کے فرزند  نے جناب امیر المومنین علیہ السلام کی بیعت نہیں کی ،سب آپ کے مخالف رہے ،یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے آپ کے مخالفین کے ساتھ ملکر آپ کے خلاف جنگ کی ، اب اگر خلفاء اور جناب امیرالمومنین علیہ السلام کے درمیان اتنے اچھے تعلقات تھے اور یہ ایک دوسرے سے اس حد تک محبت کرتے تھے تو کیوں یہ محبت , احترام , معرفت اور اچھے تعلقات خلفاء کے فرزندوں میں منتقل نہیں ہوئے ؟

کیا خلفاء نے اپنے فرزندوں کو جناب امر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے محبت اور احترام کا درس نہیں دیا تھا ؟

اگر خلفاء سے امیر المومنین علیہ السلام کے فرزندوں کا ہمنام ہونا ان کے اچھے تعلقات کی نشانی کہنا صحیح ہے تو خلفاء کے فرزندوں کا جناب امیر المومنین ع کے ساتھ منفی رویہ اور ان سے دشمنی ،کیا ان کے آپس میں اچھے تعلقات نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی ؟

کیا  بچے جس ماحول میں پروان چڑھے ہیں اسی کے مطابق کردار نہیں اپناتے ہیں ؟

ایک نقضی سوال :

اھل سنت کے بہت سے محدثین اور لوگوں کے نام عبد الرحمن ہے ۔  اور جیساکہ سب کو معلوم ہے کہ آپ کے قاتل کا نام عبد الرحمن ہے ۔

 لہذا کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ ان سب نے امیر المومنین علیہ السلام کے قاتل سے محبت کی وجہ سے یہ نام رکھے ہیں ؟

نتيجه:

لہذا امیر المومنین عليه السلام کے بیٹوں کا خلفاء  سے ہمنام ہونا ان کے آپس میں حُسن تعلق اور اچھے رابطے کو ثابت کرنے کے لئے فائدہ مند نہیں ہے جیساکہ کہا جاتا ہے [ ڈھوپتے کو تنکے کا سہارا ] لہذا اس نام گزاری کے بہانے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت اور ان کے گھر پر ہجوم کی نفی نہیں ہوسکتی ۔

 

شبھات کے جواب دینے والی ٹیم  

تحقيقاتي ادارہ  حضرت ولي عصر (عج)

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی