2024 October 16
کیا حديث «ضربة علي يوم الخندق افضل من عبادة الثقلين» کی کوئی سند ہے ؟
مندرجات: ٢٠٨٠ تاریخ اشاعت: ٣٠ September ٢٠٢١ - ١٦:٣٠ مشاہدات: 6350
سوال و جواب » امام حسین (ع)
کیا حديث «ضربة علي يوم الخندق افضل من عبادة الثقلين» کی کوئی سند ہے ؟

 کیا حديث «ضربة علي يوم الخندق افضل من عبادة الثقلين»  کی کوئی سند ہے ؟ شیعہ اور اھل سنت کی کتابوں میں اس حدیث کی سند درکار ہے ۔

جواب :

یہ حدیث جناب امير المؤمنين (عليه السلام) کے بڑے فضائل میں سے ایک ہے کہ جس میں واضح طور پر عمرو بن عبدود کے ساتھ آپ کے خالصانہ جنگ اور مقابلے کو تمام جن و انس کی  عبادت سے بھی برتر قرار دیا ہے ۔یہ حدیث شیعہ اور اھل سنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اور شیعہ اور اہل سنت دونوں اس کو قبول کرتے ہیں ۔

 الف)   اهل سنت کی کتابوں میں موجود سند :

حاكم نيشابوري نے اس روایت کو مندرجہ ذیل سند اور متن کے ساتھ نقل کیا ہے :

حدثنا لؤلؤ بن عبد الله المقتدري في قصر الخليفة ببغداد ثنا أبو الطيب أحمد بن إبراهيم بن عبد الوهاب المصري بدمشق ثنا أحمد بن عيسى الخشاب بتنيس ثنا عمرو بن أبي سلمة ثنا سفيان الثوري عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمبارزة علي بن أبي طالب لعمرو بن عبد ود يوم الخندق أفضل من أعمال أمتي إلى يوم القيامة.

الحاكم النيسابوري، ابو عبدالله محمد بن عبدالله (متوفاى405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج 3 ، ص 34، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت الطبعة: الأولى، 1411هـ - 1990

رسول خدا (صلي الله عليه و آله) نے فرمایا : علي بن ابي طالب کا عمرو بن عبدود سے خندق کے دن جنگ اور مقابلہ قیامت کے دن تک میری امت کے اعمال سے افضل اور برتر ہے ۔

سيوطي نے «جامع الاحاديث» میں کہا ہے کہ  ذهبي کہ جو اھل سنت کے علم رجال کے ماہر عالم ہے انہوں نے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔

لمبارزة على بن أبى طالب لعمرو بن عبدود يوم الخندق أفضل من أعمال أمتى إلى يوم القيامة (الحاكم وتعقب عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده . قال الذهبى : صح)

السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاى911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج7 ، ص 108، طبق برنامه الجامع الكبير.

اس روایت کو حاكم نيشابوري نے بهز بن حكيم سے ،اس نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے ۔ ذھبی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ۔

اگر ہم اھل سنت کے بزرگوں کے کلام کی طرف رجوع کرئے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کے درمیان مشہور تھا اور اس کو قطعی طور پر قبول کرتے تھے ۔

جیساکہ قاضي ايجي نے «المواقف» ، باب فضائل امير المؤمنين عليه السلام میں لکھا ہے  :

الرابع الشجاعة : تواتر مكافحته للحروب ولقاء الأبطال وقتل أكابر الجاهلية حتي قال صلي الله عليه وسلم يوم الأحزاب (لضربة علي خير من عبادة الثقلين) وتواتر وقائعه في خيبر وغيره .

الإيجي، عضد الدين (متوفاى756هـ)، كتاب المواقف، ج 3 ، ص 628 ، تحقيق: عبد الرحمن عميرة، ناشر: دار الجيل، لبنان، بيروت، الطبعة: الأولى، 1417هـ، 1997م.

حضرت علي (عليه السلام) کی شجاعت : حضرت علي [عليه السلام] کا عرب کے بہادروں کے ساتھ مقابلہ کرنا اور مشرکین کے بڑے بڑوں کو مارگرانا اور قتل کرنا،یہ تواتر سے ثابت ہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ خندق کے موقع پر فرمایا:جنگ خندق کے دن علی علیہ السلام کی ایک ضربت جن اور انس کی عبادت سے بہتر ہے ۔

خیبر اور آپ کی دوسری جنگیں متواتر ہیں۔

سعد الدين تفتازاني بھی اہل سنت کے بزرگ علما میں سے ایک ہیں انہوں نے آپ کی شجاعت کے بارے میں کہا ہے : حضرت علي (عليه السلام) کی شجاعت قابل بیان نہیں ۔

وأيضا هو أشجعهم يدل عليه كثرة جهاده في سبيل الله وحسن إقدامه في الغزوات وهي مشهورة غنية عن البيان ولهذا قال النبي صلي الله عليه وسلم لا فتي إلا علي ولا سيف إلا ذو الفقار وقال صلي الله عليه وسلم يوم الأحزاب لضربة علي خير من عبادة الثقلين

شرح المقاصد في علم الكلام ، سعد الدين التفتازاني (متوفاي791هـ) ، ج 2 ، ص 301 ، ناشر : دار المعارف النعمانية - باكستان - 1401هـ - 1981م ، الطبعة : الأولي .

 اسی طرح حضرت علي [عليه السلام] شجاع ترين لوگوں میں سے تھے،بہت زیادہ جنگ اور جنگوں میں ان کے کارنامے ان کی شجاعت پر گواہ ہیں۔ان کی شجاعت ایک مشہور بات ہے اس کو بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا: علی جیسا شجاع جوان اور ذوالفقار جیسی تلوار وجود نہیں رکھتی)

اور جنگ خندق کے موقع پر فرمایا : خندق کے دن علی علیہ السلام کی ضربت جن و انس کی عبادت سے بہتر ہے  .

فخررازي کہ جو اہل سنت کے بزرگ علما میں سے ہیں انہوں نے مورد بحث روایت کو اپنی کتاب میں اس طرح نقل کیا :

لمبارزة علي عليه السلام مع عمرو بن عبد ود ( العامري ) أفضل من عمل أمتي إلى يوم القيامة ، فلم يقل مثل عمله بل قال : أفضل كأنه يقول : حسبك هذا من الوزن والباقي جزاف .

الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفاى604هـ)، التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب، ج 32 ، ص ، 31 ، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1421هـ - 2000م.

علي بن ابي طالب کا خندق کے عمرو بن عبدود پر ایک ضربت میری امت کی قیامت تک کی عبادت سے افضل ہے۔ رسول اللہ  (صلي الله عليه و آله) نے یہ نہیں فرمایا: میری امت کے اعمال سے افضل ہے ۔اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی یہی ایک عبادت امت کے اعمال پر برتری کے لئے کافی ہے، باقی اعمال کی ضرورت نہیں  ۔

صاحب تفسير غرائب القرآن ورغائب الفرقان  نے بھی آپ کی شجاعت کے بارے میں لکھا ہے :مبارزة علي مع عمرو بن عبد ودّ أفضل من عمل أمتي إلى يوم القيامة ) وكأنه قال: هذا لك بذلك والباقي عليّ.

النيسابوري ، نظام الدين الحسن بن محمد بن حسين المعروف بالنظام الأعرج (متوفاى 728 هـ)، تفسير غرائب القرآن ورغائب الفرقان، ج 6، ص 538، تحقيق: الشيخ زكريا عميران، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1416هـ - 1996م.

علي بن ابي طالب کا خندق کے دن عمرو بن عبدود سے مقابلہ قیامت تک کے میری امت کے اعمال سے بہتر ہے ۔

گويا رسول خدا صلي الله عليه و آله نے فرمایا ہے : یہ اس کام کی وجہ سے تمہیں انعام اور باقی کاموں کا اجر میرے ذمے ہیں ۔

نهج البلاغه  کے شارح ابن ابي الحديد نے بھی اپنے استاد ابو الهذيل سے مذکورہ حدیث کے بارے میں نقل کیا  ہے : کہ ان سے کسی نے سوال کیا: اللہ کے نذدیک ابوبکر کا مقام زیادہ ہے علی مرتضی کا ؟ 

قال شيخنا أبو الهذيل وقد سأله سائل أيما أعظم منزلة عند الله ، علي أم أبو بكر ؟ فقال : يا بن أخي ، والله لمبارزة علي عمراً يوم الخندق تعدل أعمال المهاجرين والأنصار وطاعاتهم كلها وتربي عليها فضلاً عن أبي بكر وحده .

إبن أبي‌الحديد المدائني المعتزلي، ابوحامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفاى655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج19، ص26، تحقيق: محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1418هـ - 1998م.

کسی نے ہمارے استاد  ابو الهذيل سے پوچھا کہ اللہ کے نذدیک ابوبکر کا مقام زیادہ ہے علی مرتضی کا ؟  استاد نے کہا :

 میرے بھائی ! جس وقت حضرت علی علیہ السلام نے عمر بن عبدود کے ساتھ مقابلہ کیا تو تو اس عمل کو انصار اور مہاجرین کے تمام اعمال سے افضل اور برتر قرار دیا ۔اب صرف  ابوبکر کےاعمال تو دور کی بات ہے ۔

ایک اور جگہ پر جناب حذيفه بن يمان سے نقل کیا ہے  :

عن حذيفة بن اليمان ما يناسب هذا ، بل ما هو أبلغ منه ، روى قيس بن الربيع عن أبي هارون العبدي ، عن ربيعة بن مالك السعدي ، قال : أتيت حذيفة بن اليمان فقلت : يا أبا عبد الله ، إن الناس يتحدثون عن علي بن أبي طالب ومناقبه ، فيقول لهم أهل البصيرة : إنكم لتفرطون في تقريظ هذا الرجل ، فهل أنت محدثي بحديث عنه أذكره للناس ؟ فقال : يا ربيعة ، وما الذي تسألني عن علي ، وما الذي أحدثك عنه والذي نفس حذيفة بيده لو وضع جميع أعمال أمة محمد صلى الله عليه وسلم في كفة الميزان منذ بعث الله تعالى محمداً إلى يوم الناس هذا ، ووضع عمل واحد من أعمال علي في الكفة الأخرى لرجح على أعمالهم كلها ، فقال ربيعة : هذا المدح الذي لا يقام له ولا يقعد ولا يحمل ، إني لأظنه إسرافاً يا أبا عبد الله فقال حذيفة : يا لكع ، وكيف لا يحمل وأين كان المسلمون يوم الخندق وقد عبر إليهم عمرو وأصحابه فملكهم الهلع والجزع ، ودعا إلى المبارزة فأحجموا عنه حتى برز إليه علي فقتله والذي نفس حذيفة بيده لعمله ذلك اليوم أعظم أجراً من أعمال أمة محمد إلى هذا اليوم وإلى أن تقوم القيامة .

إبن أبي‌الحديد المدائني المعتزلي، ابوحامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفاى655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج ج 19، ص 26- 27، تحقيق: محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1418هـ - 1998م.

ربيعه بن مالک کہتا ہے کہ : میں حذيفه کے پاس گیا اور کہا : اے ابو عبد الله! لوگ حضرت علي (عليه السلام) کے فضائل اور مناقب کے بارے میں باتیں کرتے ہیں اور بصره والے ان کے بارے میں کہتے ہیں: تم لوگ ان کے بارے میں زیادہ روی سے کام لیتے ہو ۔کیا آپ کوئی ایسی حدیث بیان کروگے کہ میں وہ لوگوں کو سنا دوں ؟ تو جناب حذیفہ نے جواب میں فرمایا : اگر لوگ ان کے بارے میں پوچھے اور سوال کرئے تو اس ذات کی قسم کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر پوری امت کے اعمال کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھے اور حضرت علی علیہ السلام کے ایک عمل کو تازو کے ایک پلڑے میں تو ان کا یہی ایک عمل سب پر برتری رکھتا ہے

 ريبعه کہتا ہے : نے کہا :آپ کی یہ بات قابل قبول نہیں ہے اور میں اس کو قبول نہیں کرسکتا آپ زیادہ روی سے کام لے رہے ہیں۔

 حذيفه نے جواب میں کہا : کیوں یہ قابل قبول نہیں ؟ مسلمان جنگ خندق کے وقت کہاں تھے؟ عمرو عبدو اور اس کے اصحاب نے خندق پار کیا اور مبارزہ طلبی کی تو سارے ڈر گئے تھے ،یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام اٹھے اور اس سے مقابلہ کیا اور اس کو قتل کیا ۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں حذیفہ کی جان ہے ،ان کا یہی ایک عمل قیامت تک امت کے تمام اعمال سے افضل اور برتر ہے ۔

اهل سنت کی بعض  کتابوں میں روایت کی تحریف :

حضرت علي (عليه السلام ) کے فضائل کیونکہ بہت زیادہ ہیں ،ان کے بعض ایسے فضائل کہ جو قابل توصیف نہیں ہیں ،اھل سنت کے بعض علما ان فضائل کو ہضم نہیں کرسکے لہذا اس قسم کی روایات کی صحت کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اس طریقے سے ان کے فضائل پر پردہ ڈالا جاسکے ۔

جیساکہ بیان ہوا کہ امام سیوطی نے اس روایت کو  «المستدرک علي الصحيحين» سے نقل کرنے اور حاکم نیشاپوری کی طرف سے روایت کے صحیح ہونے کو بیان کرنے بعد ذهبي کی طرف سے بھی اس روایت کو صحیح قرار دینے کو نقل کیا لیکن «المستدرك علي الصحيحن» حاكم نيشابوري پر ذھبی کے حاشیے میں اب «صح= صحيح  ہے» کہ جگہ پر قبح الله رافضيا افتراه.لکھا ہوا ہے

الحاكم النيسابوري، ج 3 ، ص 34،

اللہ جھوٹ بولنے والے اس رافضی راوی کے چہرے کو بدشکل بنا دئے ۔

اھل سنت کے علما کا بهز بن حكيم والی روایت کے صحیح ہونے کی تصریح:

اس روایت کی سند بهز بن حكيم پر ختم ہوجاتی ہے اور ابن معين نے اپنی تاریخی کتاب میں اس کو ثقہ کیا ہے :

وسألته عن بهز بن حكيم كيف حديثه فقال ثقة.

میں نے بهز بن حكم کے بارے ان سے سوال کیا تو انہوں نے جواب میں کہا : وہ ثقہ ہے.

يحيى بن معين أبو زكريا ( متوفاي233هـ)، تاريخ ابن معين (رواية عثمان الدارمي)، ج 1، ص 82 ، تحقيق: د. أحمد محمد نور سيف، دار النشر: دار المأمون للتراث - دمشق - 1400

ابو داود نے بھی اس کی حدیث کے بارے میں کہا ہے :

قال أبو داود بهز بن حكيم أحاديثه صحاح.

الخزرجي الأنصاري اليمني، الحافظ الفقيه صفي الدين أحمد بن عبد الله  (متوفاي329هـ )، خلاصة تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال، ج 1، ص 381، تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة دار النشر: مكتب المطبوعات الإسلامية/دار البشائر - حلب / بيروت،‌ الطبعة: الخامسة 1416 هـ 

ابو داود کہتا ہے : بهز بن حکيم کی احاديث صحیح احادیث میں سے ہیں.

لہذا اس روایت کی سند بلکل ٹھیک ہے اور اھل سنت کے علما نے بھی اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے ۔

ب) شیعہ کتابوں میں مندرجہ بالا روایت:

شیعہ کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ  یہ حضرت علي(عليه السلام ) کے فضائل میں سے ایک اسی حدیث کو قرار دیتے ہیں اور یہ شیعوں کے ہاں اس حد تک مسلم ہے کہ اس کی سند کو ذکر کیے بغیر بھی ذکر کرتے ہیں ۔ بہت سے علما نے اس کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے جیساکہ خصال شيخ صدوق کے حاشیے میں ذکر ہوا ہے :

زاد في نسخة من المخطوطة «فقال رسول الله صلى الله عليه وآله في حقي : لضربة على يوم الخندق أفضل من أعمال الثقلين» : وقال عليه السلام «برز الاسلام كله إلى الكفر كله».

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاى381هـ)، الخصال، ص 580، تحقيق، تصحيح وتعليق: علي أكبر الغفاري،‌ ناشر: منشورات جماعة المدرسين في الحوزة العلمية في قم المقدسة، سال چاپ 1403 - 1362

خطئ نسخے میں ہے کہ امير المومنين (عليه السلام) نے فرمایا: رسول خدا (صلي الله عليه و آله وسلم ) نے میرے حق میں فرمایا: خندق کے دن علي (عليه السلام) کا عمل تمام امت کے اعمال سے افضل اور برتر ہے ۔اسی طرح فرمایا : مکمل دین مکمل کفر کے مقابلے میں گیا ہے ۔

سيد ابن طاووس کہ جو بزرگ شیعہ علما میں سے ہیں ،انہوں نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ‌

ومن كتاب صدر الأئمة عندهم موفق بن أحمد المكي أخطب خوارزم بإسناده أن النبي ( ص ) قال : لمبارزة علي بن أبي طالب لعمرو بن عبد ود أفضل من أعمال أمتي إلى يوم القيامة

ابن طاووس الحلي، ابي القاسم علي بن موسي (متوفاي664هـ)، الطرائف في معرفة مذاهب الطوائف، ص،60چاپخانه: الخيام ـ قم، چاپ: الأولى1399.

شروع کے بزرگان کے پاس موجود کتابوں میں جو روایت تھی ۔۔۔۔۔اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : خندق کے دن علي (عليه السلام) کا عمرو بن عبدود سے مقابلہ  قیامت تک میری امت کے تمام اعمال سے افضل اور برتر ہے ۔

در دوسری جگہ پر لکھتے ہیں کہ اس روایت کی سند کو پہلے اھل سنت کی کتابوں سے نقل کیا ہے ۔

قد تقدمت الأخبار من صحاح الأربعة المذاهب بأوصاف علي بن أبي طالب عليه السلام ، وأقروا بالعجز عن حصر ما جمع له من المناقب ، ومما بلغ إليه الخطيب صاحب تاريخ بغداد وهو من أعيان المخالفين لأهل البيت عليهم السلام روايته في التاريخ المشار إليه ما هذا لفظه : عن لؤلؤ بن عبد الله القيصري يرفعه عن النبي صلي الله عليه وآله أنه قال: لمبارزة علي بن أبي طالب عليه السلام لعمرو ابن عبد ود يوم الخندق أفضل من أعمال أمتي إلى يوم القيامة .

ابن طاووس الحلي، ابي القاسم علي بن موسي (متوفاي664هـ)، الطرائف في معرفة مذاهب الطوائف، ص 514چاپخانه: الخيام ـ قم، چاپ: الأولى1399.

 جیساکہ بیان ہوا کہ اھل سنت کی کتب صحاح میں ایسی بہت سی روایات حضرت علیہ السلام کی فضیلت میں موجود ہیں اور ان کے علما نے اعتراف کیا ہے کہ ان سب کی جمع آوری سے یہ لوگ عاجز ہیں ۔ خطيب بغدادي ،اهل بيت (عليهم اسلام) کے مخالفین کے بزرگ علما میں سے ہے انہوں نے اپنی تاریخ کی کتاب میں اس طرح نقل کیا ہے ۔

: لؤلؤ بن عبدالله قيصري نے مرفوع، رسول خدا (صلي الله عليه و آله سلم) سے نقل کیا ہے  : جس وقت حضرت امير المومينن (عليه السلام) عمرو بن عبدود سے خندق کے دن مقابلہ  کرنے اٹھے تو آپ نے فرمایا : یہ مقابلہ قیامت تک امت کے اعمال سے افضل اور برتر ہے ۔

علامه حلي کہ جو شیعہ بزرگوں میں سے ہیں ،انہوں نے  منهاج الکرامه، میں اس روایت کو اس طرح نقل کیا ہے ۔س

وعن حكيم ، عن أبيه ، عن جده ، عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال : لمبارزة علي بن أبي طالب لعمرو بن عبد ود يوم الخندق أفضل من عمل أمتي إلى يوم القيامة .

الحلي، الحسن بن يوسف بن المطهر (متوفاي726 هـ)، منهاج الكرامة في معرفة الإمامة، ص ، 91تحقيق: عبد الرحيم مبارك ، ناشر: مؤسسة عاشوراء للتحقيقات والبحوث الإسلامية - مشهد : تاسوعا ، 1379 .

 حکيم نے اپنے باپ سے ،باپ نے جد سے نقل کیا ہے  کہ رسول خدا (صلي الله عليه و آله ) نے فرمایا : علي بن ابي طالب (عليه السلام)  کا عمرو بن عبدود سے جنگ میری امت کے قیامت تک کے تمام اعمال سے افضل ہے ۔

آيت الله نمازي شاهردوي کہ جو شیعہ علما میں سے ایک بڑے عالم ہیں انہوں نے اس سلسلے میں نقل کیا ہے :

الروايات النبوية من طرق العامة والخاصة في أن ضربة علي (عليه السلام) يوم الخندق ، وقتله عمرو بن عبد ود أفضل من أعمال أمته إلى يوم القيامة.

النمازي الشاهرودي، الشيخ علي (متوفاي1405هـ)،‌مستدرك سفينة البحار، ج 7 ص 439 تحقيق: تحقيق وتصحيح: الشيخ حسن بن علي النمازي،‌ ناشر: مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة، چاپ: 1418.

شیعہ اور اھل سنت دونوں طرف سے یہ روایت ہم تک پہنچی ہے کہ آپ نے حضرت علي (عليه السلام) کی ایک ضربت کو قیامت تک امت کے اعمال سے افضل قرار دیا  ۔

فضائل کے لئے سند کی ضرورت نہیں ۔

مندرجہ بالا مطالب کہ روشنی میں معلوم ہوا کہ اس روایت کی سند صحیح ہے ۔لہذا سند کو نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے  ،اب اگر اس کی سند کو صحیح نہ بھی ماننے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ فضائل کے باب کی روایت ہے لہذا شیعہ اور سنت دونوں کے نذدیک فضائل کے باب کی روایت کی سند کی تحقیق کی ضرورت نہیں ۔

اھل سنت کے علما کی راے ۔ :

مقدسى نے فضائل کے باب کی روایت کے بارے میں کہا ہے  :

فصل في العمل بالحديث الضعيف وروايته والتساهل في أحاديث الفضائل دون ما تثبت به الأحكام والحلال والحرام والحاجة إلى السنة وكونها بيانا للقرآن يحب اتباعه.

ولأجل الآثار المذكورة في الفصل قبل هذا ينبغي الإشارة إلى ذكر العمل بالحديث الضعيف والذي قطع به غير واحد ممن صنف في علوم الحديث حكاية عن العلماء أنه يعمل بالحديث الضعيف فيما ليس فيه تحليل ولا تحريم كالفضائل وعن الإمام أحمد ما يوافق هذا ...

  المقدسي، الإمام أبي عبد الله محمد بن مفلح (متوفاي 763هـ) ،الآداب الشرعية والمنح المرعية ج 2 ، ص 285، تحقيق : شعيب الأرنؤوط / عمر القيام، دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت ، الطبعة الثانية 1417هـ - 1996م

... اس فضل میں روایات کو نقل کرنے سے پہلے اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے ۔اور یہ

ضعیف احادیث پر عمل کا مسئلہ ہے ،جو بات علم حدیث کے علما کے نذدیک قطعی بات ہے وہ یہ ہے کہ اگر حدیث حلال اور حرام کے بارئے میں نہ ہو تو ضعیف روایت پر بھی عمل ہوگا جیساکہ فضائل کے باب کی روایات ، احمد بن حںبل سے بھی اسی قسم کا نظریہ نقل ہوا ہے .

علاء الدين مرداوى حنبلى نے بھی اپنی کتاب میں یہی کہا ہے ۔.

المرداوي المقدسي الحنبلي، علاء الدين أبو الحسن علي بن سليمان بن احمد بن محمد (متوفاي885 هـ)، التحبير شرح التحرير في أصول الفقه ، ج 4، ص 1944، تحقيق : د. عبد الرحمن الجبرين، د. عوض القرني، د. أحمد السراح ، ناشر : مكتبة الرشد - السعودية / الرياض ، الطبعة : الأولى ، 1421هـ ـ 2000م

 نووى کہ جو اہل سنت کے بزرگوں میں سے ایک ہے انہوں نے اس سلسلے میں لکھا ہے :

أهل العلم متفقون على العمل بالضعيف في غير الأحكام وأصول العقائد.

النووي الشافعي، محيي الدين أبو زكريا يحيى بن شرف بن مر بن جمعة بن حزام (متوفاي676 هـ)، المجموع، ج 5 ، ص 62، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، التكملة الثانية.

اھل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احکام اور اصول عقائد کے علاوہ باقی ضعیف روایات پر بھی عمل کرسکتے ہیں ۔.

نتيجه :

جب امير المومين (عليه السلام)  کے فضائل کے باپ میں موجود روایات کو دیکھے تو معلم ہوتا ہے کہ آپ کے اتنے فضائل موجود ہیں کہ جو قابل شمارش نہیں اور اس سلسلے کی ایک صحیح سند روایت جس کو شیعہ اور اھل سنت دونوں نے نقل کیا ہے اور اس کی سند بھی صحیح ہے وہ یہ روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: خندق کے دن علی ابن ابی طالب کی ایک ضربت قیامت تک میری تمام امت کے اعمال سے برتر اور افضل ہے ۔

·          

تحقيقاتي ادارہ حضرت ولي عصر (عجل الله تعالي فرجه الشريف)





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی