2024 October 16
کیا باب “حطہ بنی اسرائیل” والی روایت اھل سنت کی کتابوں میں معتبر سند کے ساتھ موجود ہے ؟
مندرجات: ٢٠٧٩ تاریخ اشاعت: ٣٠ September ٢٠٢١ - ١٦:٢٦ مشاہدات: 2657
سوال و جواب » امام حسین (ع)
کیا باب “حطہ بنی اسرائیل” والی روایت اھل سنت کی کتابوں میں معتبر سند کے ساتھ موجود ہے ؟

آل رسول [ص] کے در پر جکنے کا حکم...

کیا باب حطہ بنی اسرائیل والی روایت اھل سنت کی کتابوں میں معتبر سند کے ساتھ موجود ہے ؟


مقدمه:

اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا :

وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْها حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَداً وَادْخُلُوا الْبابَ سُجَّداً وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطاياكُمْ وَسَنَزيدُ الْمُحْسِنينَ. البقره/58

اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے کہا کہ اس بستی[بيت المقدس ]  میں* جاؤ اور جو کچھ جہاں کہیں سے چاہو بافراغت کھاؤ پیو اور دروازے میں سجدے کرتے ہوئے گزرو** اور زبان سے حِطّہ[ اللہ ہمارے گناہوں کو بخش دئے ] کہو ہم تمہاری خطائیں معاف فرمادیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیاده دیں گے

ایک اور آیت میں ہے :

وَإِذْ قيلَ لَهُمُ اسْكُنُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ وَكُلُوا مِنْها حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّةٌ وَادْخُلُوا الْبابَ سُجَّداً نَغْفِرْ لَكُمْ خَطيئاتِكُمْ سَنَزيدُ الْمُحْسِنينَ. الأعراف/161.

اور اس وقت کو یاد کرو جب ان کو حکم دیا گیا کہ تم لوگ اس آبادی [بيت المقدّس ] میں جاکر رہو اور کھاؤ اس سے جس جگہ تم رغبت کرو اور زبان سے یہ کہتے جانا کہ توبہ ہے اور جھکے جھکے دروازه میں داخل ہونا ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے۔ جو لوگ نیک کام کریں گے ان کو مزید برآں اور دیں گے۔

مفسروں نے ان آیات کی تفسیر میں کہا ہے :  اللہ نے بني اسرائيل والوں کو حکم دیا کہ وہ [بيت المقدّس ] میں داخل ہوجائے یا جہاد کر کے اس کو فتح کرئے لیکن ان لوگوں نے اللہ کے اس فرمان پر عمل نہیں کیا ۔ اسی کے نتیجے میں چالس سال تک ایک سحرا میں سر گرداں رہیں ۔آخر کار اللہ نے انہیں اس سرگردانی سے نجات دی اور اس شہر کو جناب یوشع بن نون کے ہاتھوں فتح کیا ۔

اور اللہ نے ان کے گناہوں کی بخشش اور اس فتح کی نعمت کے شکرانے کے طور پر انہیں یہ حکم دیاکہ وہ بیت المقدس میں داخل ہوتے وقت دروازہ «حطه» سے داخل ہوجائے اور داخل ہوتے وقت سجدہ کرئے اور «حطه» کہتے جائے یعنی اے اللہ ہماے گناہوں کو بخش دئے

جو بھی ایسا کرئے تو اللہ اس کو بخش دئے گا اور اسے نیک لوگوں میں شامل کرئے گا ۔

اب بعض مومنوں نے اللہ کے اس حکم کی اطاعت کی لیکن بہت سے لوگ کٹ ہجتی کا شکار ہوئے اور «حطه»  کہنے کے بجائے حنطه» يا «حبه» کہنے لگے اور ساتھ ہی سجدے کرتے بیت المقدس میں داخل ہونے کے بجائے پیٹھ پیچھے شہر میں داخل ہوئے اور بے ادبی کے مرتکب ہوئے ۔

ابن كثير دمشقي سلفي نے اس آیت کے ذیل میں کہا ہے :

والصحيح الأول أنها بيت المقدس وهذا كان لما خرجوا من التيه بعد أربعين سنة مع يوشع بن نون عليه السلام وفتحها الله عليهم عشية جمعة وقد حبست لهم الشمس يومئذ قليلا حتي أمكن الفتح ولما فتحوها أمروا أن يدخلوا الباب باب البلد (سجدا) أي شكرا لله تعالي علي ما أنعم عليهم من الفتح والنصر ورد عليهم وإنقاذهم من التيه والضلال.

صحیح نظریہ یہ ہے کہ اس قریہ سے مراد بيت المقدس ہے اور  بني اسرائيل کو چالس سال کے بعد جب سرگردانی سے نجات ملی اور جناب یوشع بن نون کی قیادت میں جمعہ کے دن شام  کے وقت شہر کو فتح کرنے کے لئے شہر میں داخل ہونے لگے تو اس وقت اللہ نے سورچ کو ڈھوبنے نہیں دیاتاکہ بنی اسرائیل والے روشنی میں شہر کو فتح کرسکے ۔

فتح کے وقت اور شہر میں داخل ہوتے وقت یہ حکم دیا کہ اللہ کی اس نعمت پر سجدہ شکر بجالاتے ہوئے شہر میں داخل ہوجائے ۔کیونکہ اللہ نے انہیں فتح کی نعمت دی اور سرگردانی اور گمراہی سے نجات دلائی ۔

ابن كثير الدمشقي، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفاي774هـ)، تفسير القرآن العظيم، ج1، ص99، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1401هـ.

****************

شیعہ اور اہل سنت کے ہاں مختلف قسم کی بہت سی ایسی روایات ہیں، کہ رسول خدا صلي الله عليه وآله نے اهل البيت عليهم السلام  کی ولايت کو  «باب حطه بني اسرائيل» سے تشبيه دی  اور ان کے دروزے  پر آنے کو سعادت کا باعث اور گناہوں کی بخشش کا سبب قرار دیا  .

ہم اس تحریر میں اسی قسم کی روایات کی سند کی تحقیق کرتے ہیں ۔

پہلی روايت: اميرمؤمنان عليه السلام

32115 حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمَّارٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:إنَّمَا مَثَلُنَا فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ كَسَفِينَةِ نُوحٍ وَكَبَابِ حِطَّةٍ فِي بَنِي إسْرَائِيلَ.

حضرت علي عليه السلام سے نقل ہوا ہے :

امت میں ہماری مثال جناب نوح کی کشتی اور بنی اسرائیل کے باب حطۃ کی ہے ۔

إبن أبي شيبة الكوفي، ابوبكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 6، ص372، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ.

اس روایت کے سارے راوی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے راوی ہیں اور اہل سنت کے علما نے ان کی توثیق کی ہے ۔

سند کی تحقیق

معاوية بن هشام:

یہ  صحيح مسلم اور بخاري کے راوی ہے ؛

معاوية بن هشام القصار أبو الحسن الكوفي مولي بني أسد ويقال له معاوية بن أبي العباس صدوق له أوهام من صغار التاسعة مات سنة أربع ومائتين بخ م  4

تقريب التهذيب ج1 ص538، رقم: 6771

معاوية بن هشام القصار كوفي ثقة عن حمزة والثوري وعنه أحمد والحسن بن علي بن عفان وكان بصيرا بعلم شريك قال بن معين صالح وليس بذاك توفي 205 م  4

الكاشف ج2 ص277، رقم: 5535

عمار بن زريق:

یہ  صحيح مسلم، ابوداود، نسائي اور ابن ماجة کے راوی ہے :

عمار بن رزيق بتقديم الراء مصغر الضبي أو التميمي أبو الأحوص الكوفي لا بأس به من الثامنة مات سنة تسع وخمسين م د س ق

تقريب التهذيب ج1 ص407، رقم: 4821

عمار بن رزيق الضبي أبو الأحوص عن منصور ومغيرة وعنه أحوص بن جواب وقبيصة وخلق قال لوين قال لي أبو أحمد الزبيري لو اختلفت إليه لكفاك أهل الدنيا مات 159 م د س ق

الكاشف ج2 ص50، رقم: 3988

سليمان بن مهران:

یہ بھی بخاري، مسلم اور باقی صحاح سته کے راوی ہے :

سليمان بن مهران الأسدي الكاهلي أبو محمد الكوفي الأعمش ثقة حافظ عارف بالقراءات ورع لكنه يدلس من الخامسة مات سنة سبع وأربعين أو ثمان وكان مولده أول سنة إحدي وستين ع

تقريب التهذيب ج1 ص254، رقم: 2615

سليمان بن مهران الحافظ أبو محمد الكاهلي الأعمش أحد الأعلام عن بن أبي أوفي وزر وأبي وائل وعنه شعبة ووكيع قال بن المديني له ألف وثلاثمائة حديث عاش ثمانيا وثمانين سنة قال أبو نعيم مات في ربيع الأول 148 ع

الكاشف ج1 ص464، رقم: 2132

منهال بن عمرو:

یہ بھی بخاری اور باقی صحاح سته کے راوی ہے :

المنهال بن عمرو الأسدي مولاهم الكوفي صدوق ربما وهم من الخامسة خ 4

تقريب التهذيب ج1 ص547، رقم: 6918

المنهال بن عمرو الأسدي مولاهم عن بن الحنفية وزر وعنه الأعمش وشعبة وروايته عنه في النسائي ثم تركه بآخره وثقه بن معين خ 4

الكاشف ج2 ص298، رقم: 5653

المنهال بن عمرو خ علي وثقه ابن معين وغيره وغمزه شعبة وغيره

ذكر من تكلم فيه وهو موثق ج1 ص182، رقم: 345

عبد الله بن الحارث

عبد الله بن الحارث کہ جس سے  منهال بن عمرو نے روایت سنی ہے یہ دو شخصوں کے درمیان مشترک نام ہے ؛عبد الله بن الحارث الهاشمي اور عبد الله بن الحارث بن محمد الأنصاري.

یہ دونوں اہل سنت کے علما کے نذدیک ثقہ ہیں .

عبد الله بن الحارث الهاشمي:

یہ بخاری ،مسلم اور صحاح سته کے راوی ہے :

عبد الله بن الحارث بن نوفل بن الحارث بن عبد المطلب الهاشمي أبو محمد المدني أمير البصرة له رؤية ولأبيه وجده صحبة قال بن عبد البر أجمعوا علي ثقته مات سنة تسع وسبعين ويقال سنة أربع وثمانين ع

تقريب التهذيب ج1 ص299، رقم: 3265

عبد الله بن الحارث بن نوفل الهاشمي لقبه ببه عن عمر وعثمان وعنه بنوه والزهري وأبو إسحاق مات هاربا من الحجاج 84 ع

الكاشف ج1 ص544، رقم: 2675

عبد الله بن الحارث البصري:

یہ بخاری ،مسلم اور صحاح سته کے راوی ہے :

عبد الله بن الحارث الأنصاري البصري أو الوليد نسيب بن سيرين ثقة من الثالثة ع

تقريب التهذيب ج1 ص299، رقم: 3266

عبد الله بن الحارث البصري عن عائشة وأبي هريرة وعنه أيوب وخالد الحذاء وثقوه ع

الكاشف ج1 ص544، رقم: 2676

لہذا اس روایت کی سند صحیح ہے اس کے تمام راوی یا صحیح مسلم ،بخاری دونوں  کے راوی ہیں ۔یا ان میں سے ایک اور باقی صحاح کے راوی ہیں اور اہل سنت کے بزرگ علما نے ان کی توثیق کی ہے ۔

 

دوسری روایت : ابوسعيد خدري

ابو القاسم طبراني نے اسی روایت کو ایک اور سند کے ساتھ معجم أوسط میں نقل کیا ہے :

(6019)- [5870] حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ رَبِيعَةَ الْكِلابِيُّ، قال: نا أَبِي، قال: نا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَمَّادٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ الصَّائِغِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (ص) يَقُولُ:

إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ، مَنْ رَكِبَهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ. إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مَثَلُ بَابِ حِطَّةٍ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، مَنْ دَخَلَ غُفِرَ لَهُ.

لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ الصَّائِغِ إِلا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَمَّادٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ رَبِيعَةَ.

ابو سعيد خدري کہتے ہیں: رسول خدا (ص) سے سنا ہوں کہ آپ نے فرمایا : بتحقیق میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا : میرے اہل بیت کی مثال جناب نوح کی کشتی کی طرح ہے جو بھی اس میں سوار ہوگا وہ نجات پائے گا اور جو بھی اس سے پیچھے ہٹے گا وہ ہلاک ہوگا ۔  

میرے اہل بیت کی مثال بنی اسرائیل کے باب حطہ کی ہے جو اس میں داخل ہوگا اللہ اس کے گناہ معاف کرئے گا ۔

الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفاي360هـ)، المعجم الأوسط، ج 6 ص 85 ، ح5870، تحقيق: طارق بن عوض الله بن محمد، عبد المحسن بن إبراهيم الحسيني، ناشر: دار الحرمين - القاهرة - 1415هـ.

شجري جرجاني نے بھی اسی روایت کو اسی سند کے ساتھ نقل کیا ہے :

(533)- [737 ] أَخْبَرَنَا الشَّرِيفُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَسَنِيُّ الْبَطْحَانِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي السَّرِيِّ الْبَكَّائِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بُلَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَمَّادٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ الصَّائِغِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مَثَلُ بَابِ حِطَّةٍ مَنْ دَخَلَهُ غُفِرَ لَهُ "

الشجري الجرجاني، المرشد بالله يحيي بن الحسين بن إسماعيل الحسني (متوفاي499 هـ)، كتاب الأمالي وهي المعروفة بالأمالي الخميسية، ج 1 ص 199، تحقيق: محمد حسن اسماعيل، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1422 هـ - 2001م .

ہم نے ایک الگ مقالے میں. إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ والی روایت کو الگ سے تحقیق کی ہے ۔

 ہم یہاں «باب حطه» والی روایت سے استدلال کرنا چاہتے تھے ۔اس کے مطابق جو بھی اهل بيت عليهم السلام کی اطاعت کرئے گا ۔اللہ اس کے گناہوں کو بخش دئے گا اور جو ان کی اطاعت نہ کرئے ،ان سے روگردانی کرئے اور انہیں چھوڑ کر دوسروں کی طرف جائے تو اللہ انہیں عذاب میں مبتلا کرئے گا۔ جیساکہ بعد والی آیت میں ہے ۔

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ قَوْلاً غَيرْ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَليَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كاَنُواْ يَفْسُقُونَ.

سو بدل ڈاﻻ ان ﻇالموں نے ایک اور کلمہ جو خلاف تھا اس کلمہ کے جس کی ان سے فرمائش کی گئی تھی، اس پر ہم نے ان پر ایک آفت سماوی بھیجی اس وجہ سے کہ وه حکم کو ضائع کرتے تھے۔

الحمد لله الذي جعلنا من المتسكين بولاية أمير المؤمنين و أولاده المعصومين عليهم السلام.

 

شبهات کے جواب دینے والی ٹیم ، تحقيقاتي ادارہ ،حضرت ولي عصر (عج)





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی