کیا اہل سنت کے کسی مفسر نے مولی کا اولی معنی کیا ہے؟ |
جواب: نہ صرف اہل لغت نے لفظ «مولي» کا «أولي» معنی کیا ہے ، بلکہ اہل سنت کے مفسرین اور بزرگوں میں جنہوں نے قرآن کریم آیات کی تفسیر اور تشریح میں خدمات انجام دیے ہیں ،انہوں نے بھی اسی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ ہم ذیل میں ان میں سے پندرہ شخصیات کے ناموں کا ذکر کرتے ہیں ۔ 1. محمد بن اسماعيل بخاري (متوفاي 256هـ( انہوں نے سوره حديد کی تفسیر میں نقل کیا ہے : قال مُجَاهِدٌ ... «مَوْلَاكُمْ» أَوْلَي بِكُمْ .[1] مجاهد نے کہا ہے : (مولاكم) کا معنی (اولي) اور برتری ہے . ابن حجر عسقلاني نے بخاري کی شرح میں لکھا ہے : قوله مولاكم أولي بكم قال الفراء في قوله تعالي «مأواكم النار هي مولاكم» يعني أولي بكم وكذا قال أبو عبيدة وفي بعض نسخ البخاري هو أولي بكم وكذا هو في كلام أبي عبيدة .[2] فراء نے آيه شريفه : (ماواكم النار هي مولاكم) کی تشریح میں کہا ہے : مولي کا معنی تم پر اولي اور برتر ہونا ہے، ابوعبيده نے بھی یہی کہا ہے بخاری کے بعض نسخوں میں « أولي بكم » یعنی تم لوگوں پر برتر کا لفظ آیا ہے ،اسی طرح ابوعبيده کا کلام بھی ۔۔ عيني نے عمدة القاري میں مولی کا معنی اولی اور برتر کہا ہے : مَوْلاكُمْ أوْلَي بِكُمْ . أشار به إلي قوله تعالي : «مأواكم النار هي مولاكم»[3]أي : ( أولي بكم ) كذا قاله الفراء وأبو عبيدة وفي بعض النسخ : مولاكم هو أولي بكم ، وكذا وقع في كلام أبي عبيدة .[4] 2. أبو عبد الرحمن سلمي (متوفاي 412هـ) : قرن پنجم هجري کے مشہور عالم سلمی نے «هي مولاكم» کی تفسیر میں یہی لکھا ہے : «مأواكم النار هي مولاكم» أي أولي الأشياء بكم واقربها إليكم .[5] تم لوگوں کا ٹھکانہ آگ ہے ؛ ینعی تم لوگوں کے لئے زیادہ سزاوار اور تم لوگوں سے زیادہ نذدیک . 3 . أبو القاسم القشيري (متوفاي 465هـ) : أبو القاسم قشيري نے بھی «هي مولاكم» کی تفسیر میں مولی کا معنی اولی بکم کیا ہے : و «هي مولاكم» أي هي أوْلَي بكم .[6] 4 . علي بن احمد واحدي (متوفاي 468هـ) : اهل سنت کے ہی مشهور مفسر ،واحدي نے اس سلسلے میں لکھا ہے : مأواكم النار ( منزلكم النار ) هي مولاكم ( أولي بكم )[7] تم لوگوں کا ٹھکانہ یعنی آگ تم لوگوں سے برتر اور تم لوگوں کے مناسب تر ہے . 5 . محمد بن فتوح حميدي (متوفاي 488هـ) : حميدي کہ جو اہل سنت کے محدث ، مفسر اور صاحب كتاب " الجمع بين الصحيحين" بھی ہے وہ كلمه مولي کے بارے میں کہتا ہے : ومنه قوله «ذلك بأن الله مولي الذين آمنوا » أي وليهم والقائم بأمورهم والمولي الأولي بك ودليله قوله « مأواكم النار هي مولاكم » أي هي أولي بكم .[8] لفظ مولي جہاں اولي کے معنی میں آیا ہے ان میں سے ایک یہ والی آیت ہے « ذلك بأن الله مولي الذين آمنوا » ؛ یعنی اللہ تم لوگوں کے کاموں کو سرپرست اور تم لوگوں کے امور کو قوام بخشنے والا ہے ، اس معنی پر دلیل یہ والی آیت ہے"« مأواكم النار هي مولاكم » یعنی آگ تم لوگوں سے برتر اور تم لوگوں کے مناسب ہے ۔ 6 . ابن عطيه اندلسي (متوفاي 546هـ) : ابن عطيه اندلسي ، مفسر اور نامور سني اديب ہیں انہوں نے اپنی تفسیر میں کہا ہے : وقوله «هي مولاكم» قال المفسرون: معناه هي اولي بكم .[9] مفسروں نے (هي مولاكم) کے بارے میں کہا ہے : اس کا معنی اولی بکم یعنی تم لوگوں سے برتر کہا ہے ۔ عبد الله بن عمر بيضاوي نے «هي مولاكم» کی تفسیر میں یہی معنی کیا ہے : «هي مولاكم» هي أولي بكم كقول لبيد : فغدت كلا الفرجين تحسب * أنه مولي المخافة خلفها وأمامها .[10] 8 . أبو عبد الله قرطبي (متوفاي 671هـ) : قرطبي ، کہ جو اهل سنت کے مایہ ناز مفسر ہیں اور آپ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے مولی کا معنی«اولي» کیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ یہ لفظ اولی اور لوگوں کے امور کی سرپرستی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور پھر بعد میں یہ کسی چیز کے ہمراہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ( هي مولاكم ) أي أولي بكم والمولي من يتولي مصالح الإ نسان ثم استعمل فيمن كان ملازما للشيء .[11] ، اهل سنت کے مفسر مشهور نسفي کہ جو " عقائد النسفيه " کے مصنف بھی ہے اور یہ کتاب اہل سنت کے مدارس کے کورس میں شامل ہے ،انہوں نے اپنی تفسیر میں «مولي» کی تفسیر اولی کے ذریعے کی ہے : «هي مولاكم» هي أولي بكم .[12] 10 . علاء الدين خازن (متوفاي 725هـ) : انہوں نے بھی «هي مولاكم» کی تفسیر میں لکھا ہے : «هي مولاكم» أي وليكم وقيل هي أولي بكم .[13] یہ تم لوگوں کا مولی ہے یعنی تم لوگوں کا سرپرست ہے ،یہاں اولي اور برتر کا معنی بھی کیا ہے ۔ 11 . سعد الدين تفتازاني (متوفاي791هـ) : تفتازاني ، اديب ، مفسر و اہل سنت کا مایہ ناز متكلم ہے ،انہوں نے بھی «مولي» کا معنی «اولي» کیا ہے اور یہ اعتراف کیا ہے کہ یہی معنی علم لغت کے بزرگوں کے نذدیک رائج معنی ہے ؛ ولفظ المولي قد يراد به المعتق والمعتق والحليف والجار وابن العم والناصر والأولي بالتصرف قال الله تعالي : «مأواكم النار هي مولاكم» أي أولي بكم . ذكره أبو عبيدة وقال النبي صلي الله عليه وسلم أيما امرأة نكحت نفسها بغير إذن مولاها أي الأولي بها والمالك لتدبير أمرها ومثله في الشعر كثير وبالجملة استعمال المولي بمعني المتولي والمالك للأمر والأولي بالتصرف شائع في كلام العرب منقول عن كثير من أئمة اللغة .[14] 12 . فيروز آبادي ، متوفاي 817هـ) : اهل سنت کے معروف لغت شناس اور مفسر ،فيروز آبادي نے اس آیت «هي مولاكم» کی تفسیر میں لکھا ہے : «هي مولاكم» أولي بكم النار .[15] 13 . ابن عادل حنبلي (متوفاي880هـ) : انہوں نے بھی «هي مولاكم» کے بارے میں لکھا ہے : وقوله : «هِيَ مَوْلاَكُمْ» يجوز أن يكون مصدراً أي : ولايتكم , أي : ذات ولايتكم .[16] یہ جائز ہے کہ یہاں مولاکم مصدر اور تم پر ولایت اور سرپرستی کے معنی میں ہو. 14 . جلال الدين محمد بن احمد المحلي (متوفاي 854هـ) : جلال الدين المحلي ، نے تفسير جلالين کہ جس کو انہوں نے اور جلال الدين سيوطي نے مشترک تالیف کی ۔اس میں بھی یہی معنی نقل ہوا ہے ۔ «مأواكم النار هي مولاكم» أولي بكم .[17] 15 . محمد علي شوكاني (متوفاي 1250هـ) : شوکانی نے بھی اصلی معنی یہی اولی بالتصرف اور سرپرستی کو قرار دیا ہے۔ «هي مولاكم» أي هي أولي بكم والمولي في الأصل من يتولي مصالح الإنسان ثم استعمل فيمن يلازمه .[18] جیساکہ آلوسي نے اپنی کتاب میں دوسری جگہ تصریح کی ہے کہ: كلبي ، زجاج ، فراء اور أبو عبيده کہ جو علم لغت کے سب سے ماہر افراد ہیں ،انہوں نے بھی لفظ «مولي» کا معنی «اولي» کو قرار دیا ہے : وقال الكلبي والزجاج والفراء وأبو عبيدة : أي أولي بكم كما في قول لبيد يصف بقرة وحشية نفرت من صوت الصائد : فغدت كلا الفرجين تحسب أنه مولي المخافة خلفها وأمامها أي فغدت كلا جانبيها الخلف والإمام تحسب أنه أولي بأن يكون فيه الخوف .[19] مذھبی تعصب دیکھیں : ہم ذیل میں آلوسي کی طرف سے حديث غدير پر اعتراض کو نقل کرتے ہیں تاکہ یہ پتہ چلے کہ مذھبی تعصب کیا سے کیا کرتا ہے اور آلوسی جیسا عالم کس طرح دہرا معیار اپنا لیتا ہے : ولايخفي أن أول الغلط في هذا الاستدلال جعلهم المولي بمعني الأولي وقد أنكر ذلك أهل العربية قاطبة بل قالوا : لم يجيء مفعل بمعني أفعل أصلا ولم يُجَوِّز ذلك إلا أبو زيد اللغوي ... .[20] کسی پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اس {شیعہ موقف پر }استدلال میں پہلی غلطی یہ ہے کہ یہاں مولی کو اولی کے معنی میں قرار دیا ہے جبکہ سارے اہل لغت نے اس معنی کو قبول نہیں کیا ہے ،بلکہ اہل لغت نے یہ کہا ہے کہ مفعل ،افعل کے معنی میں کہیں بھی نہی آیا ہے ،سوای ابوزید کے کسی لغت شناس نے اس کو صحیح نہیں کہا ہے ۔ اگر لغت ، تفسير ، تاريخی علمی آثار ، اہل سنت اور اہل عرب کے بزرگوں کے آراء کو دیکھا جائے تو آلوسی جیسے لوگوں کا یہ ادعا بلکل باطل ہے۔ واضح ہے کہ مکتب خلفاء کی طرف سے حدیث غدیر کو قبول نہ کنے کی بنیادی مشکل اور مسئلہ یہی لفظ مولی کا اولی والا معنی ہے ۔ جیساکہ مشاہدہ کیا کہ لفظ «مولي» کو «اولي» کے معنی میں استعمال کرنے میں نہ صرف کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ بہت سے علماء نے اس کا یہی معنی ہی لیا ہے اور بہت سے اہل لغت اور اہل تفسیر و تاریخ نے دوسری ہجری سے آج تک اسی معنی پر تصریح کی ہے ۔ [1]. البخاري الجعفي ، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ) ، صحيح البخاري ، ج 4 ص 1358 ، تحقيق د. مصطفي ديب البغا ، ناشر : دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت ، الطبعة : الثالثة ، 1407 - 1987 . [2] . العسقلاني الشافعي ، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) ، فتح الباري شرح صحيح البخاري ، ج 8 ، ص 628 ، تحقيق : محب الدين الخطيب ، ناشر : دار المعرفة - بيروت . [3] . الحديد : 51 [4] . العيني ، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي855هـ) ، عمدة القاري شرح صحيح البخاري ، ج 19 ، ص 628 ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت . [5] . السلمي ، أبو عبد الرحمن محمد بن الحسين بن موسي الأزدي (متوفاي412هـ) ، تفسير السلمي وهو حقائق التفسير ، ج 2 ، ص 309 ، تحقيق : سيد عمران ، ناشر : دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة : الأولي ، 1421هـ - 2001م. [6] . القشيري النيسابوري الشافعي ، أبو القاسم عبد الكريم بن هوازن بن عبد الملك، تفسير القشيري المسمي لطائف الإشارات ، ج 3 ، ص 380 ، ، تحقيق : عبد اللطيف حسن عبد الرحمن ، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت /لبنان ، الطبعة : الأولي ، 1420هـ ـ 2000م . [7] . الواحدي ، علي بن أحمد أبو الحسن (متوفاي468هـ) ، الوجيز في تفسير الكتاب العزيز ، ج 2 ، ص 1068 ، اسم المؤلف: تحقيق : صفوان عدنان داوودي ، ناشر : دار القلم , الدار الشامية - دمشق , بيروت ، الطبعة : الأولي ، 1415هـ . [8] . الحميدي الأزدي ، محمد بن أبي نصر فتوح بن عبد الله بن فتوح بن حميد بن بن يصل (متوفاي488هـ) ، تفسير غريب ما في الصحيحين البخاري ومسلم ، ج 1 ، ص 322 ، تحقيق : الدكتورة : زبيدة محمد سعيد عبد العزيز ، ناشر : مكتبة السنة - القاهرة - مصر ، الطبعة : الأولي ، 1415هـ - 1995م . [9] . الأندلسي ، أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عطية ، المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز ، ج 5 ، ص 263 ، تحقيق : عبد السلام عبد الشافي محمد ، ناشر : دار الكتب العلمية - لبنان ، الطبعة : الاولي ، 1413هـ- 1993م . [10] . البيضاوي ، ناصر الدين أبو الخير عبدالله بن عمر بن محمد (متوفاي685هـ) ، أنوار التنزيل وأسرار التأويل (تفسير البيضاوي) ، ج 5 ، ص 300 ، ناشر : دار الفكر - بيروت . [11] . الأنصاري القرطبي ، أبو عبد الله محمد بن أحمد (متوفاي671 ، الجامع لأحكام القرآن ، ج 17 ، ص 248 ، ناشر : دار الشعب - القاهرة . [12] . النسفي ، أبي البركات عبد الله ابن أحمد بن محمود (متوفاي710 هـ)، تفسير النسفي ، ج 4 ، ص 217 . [13] . البغدادي الشهير بالخازن ، علاء الدين علي بن محمد بن إبراهيم (متوفاي725هـ )، تفسير الخازن المسمي لباب التأويل في معاني التنزيل ، ج 7 ، ص 217 ، اسم المؤلف: ناشر : دار الفكر - بيروت / لبنان - 1399هـ ـ 1979م . [14] . التفتازاني ، سعد الدين مسعود بن عمر بن عبد الله (متوفاي791هـ) ، شرح المقاصد في علم الكلام ، ج 2 ، ص 290 ، اسم المؤلف: ناشر : دار المعارف النعمانية - باكستان ، الطبعة : الأولي ، 1401هـ - 1981م . [15] . الفيروز آبادي (متوفاي817 هـ)، تنوير المقباس من تفسير ابن عباس ، ج 1 ، ص 457 ـ 458 ، ناشر : دار الكتب العلمية - لبنان . [16] . ابن عادل الدمشقي الحنبلي ، أبو حفص عمر بن علي (متوفايبعد 880 هـ) ، اللباب في علوم الكتاب ، ج 18 ، ص 628 ، تحقيق : الشيخ عادل أحمد عبد الموجود والشيخ علي محمد معوض ، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان ، الطبعة : الأولي ، 1419 هـ ـ 1998م [17] . محمد بن أحمد المحلي الشافعي + عبدالرحمن بن أبي بكر السيوطي (متوفاي911 هـ)، تفسير الجلالين ، ج 1 ، ص 628 ، ناشر : دار الحديث ، الطبعة : الأولي ، القاهرة . [18] . الشوكاني ، محمد بن علي بن محمد (متوفاي1255هـ) ، فتح القدير الجامع بين فني الرواية والدراية من علم التفسير ، ج 5 ، ص 171 ، ناشر : دار الفكر - بيروت . [19] . الآلوسي البغدادي ، العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود (متوفاي1270هـ) ، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، ج 27 ، ص 178 ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت . [20] . الآلوسي البغدادي ، العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود (متوفاي1270هـ) ، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، ج 6 ، ص 195 ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت . |