جواب :
اولاً : پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ بیعت کا کیا معنی ہے .
بيعت : یہ کسی شھر یا ملک کے رہنے والوں کا حاکم کے ساتھ ایک قسم کا عہد و پیمان ہے۔ جیساکہ آج کے دور میں یہی چیز ریفرینڈم یا الیکشن کی صورت میں رائج ہے . اس دور میں بیعت اس طرح سے تھا کہ لوگ اپنے اختیار سے جاتے اور اپنا ہاتھ حاکم کے ہاتھ میں دیتے .
اس قسم کی بیعت امام علي عليه السلام نے تین خلفاء کے ساتھ انجام نہی دیا ۔
اھل سنت کی نگاہ کے مطابق ،جیساکہ ان کی صحیح ترین کتابوں میں یہ بات نقل ہوئی ہے کہ حضرت امير المومنين عليه السلام نے ابوبکر کی حکومت کے پہلے چھے ماہ تک ان کی بیعت نہیں کی اور جس وقت حضرت صديقه طاهره شہید ہوئی اس وقت آپ نے نہ چاہتے ہوئے بھی بیعت کر لی۔
بخاري میں ہے کہ جو اہل ست کی صحیح ترین کتاب ہے :
وعاشت بعد النبي صلي الله عليه وسلم، ستة أشهر فلما توفيت دفنها زوجها علي ليلا ولم يوءذن بها أبا بكر وصلي عليها وكان لعلي من الناس وجه حياة فاطمة فلما توفيت استنكر علي وجوه الناس فالتمس مصالحة أبي بكر ومبايعته ولم يكن يبايع تلك الأشهر .
حضرت زهرا سلام الله عليها ،رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم کے بعد چھے مہینے تک زندہ رہیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی علیہ السلام نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ فاطمہ علیہا السلام جب تک زندہ رہیں علی علیہ السلام پر لوگ توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت انہوں نے ابوبکر سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا چاہا۔ اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکر سے بیعت نہیں کی تھی
صحيح البخاري، ج 5، ص 82 . – کتاب ۔ المغازى باب غَزْوَةُ خَيْبَرَ ( 39 ) ح 4240 و 4241
امام علي عليه السلام در نهج البلاغه نامه 28 مي فرمايد :
إنّي كنت أقاد كما يقاد الجمل المخشوش حتي أبايع .
مجھے گھر سے گھسیٹے ہوئے مسجد لے گئے بکل اسی طرح جس طرح اونٹ کو مہار دیتا ہے اور بھاگنے کا راستہ اس سے چھین لیتا ہے ،یہاں تک کہ مجھ سے بیعت لی گئی۔
اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ جب امير المؤمنين عليه السلام کو مسجد لے گئے اور آپ سے ابوبکر کی بیعت کرنے کے لئے کہا. تو آپ نے فرمایا : اگر میں بیعت نہ کروں تو ؟ جواب دیا : اللہ کی قسم اس صورت میں تیری گردن اڑا دیں گے : آپ نے جواب دیا :تو ایسی صورت میں تم لوگ اللہ کے ایک بندے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بھائی کو قتل کروگے۔ ابوبکر خاموش ہوا اور کچھ نہیں کہا :
فقالوا له : بايع . فقال : إن أنا لم أفعل فمه ؟ ! قالوا : إذا والله الذي لا إله إلا هو نضرب عنقك ! قال : إذا تقتلون عبد الله وأخا رسوله . وأبو بكر ساكت لا يتكلم .
الإمامة والسياسة بتحقيق الشيري: 31، باب كيف كانت بيعة علي بن أبي طالب .
اس سے بھی قابل توجہ بات یہ ہے کہ اثبات الوصيه میں مسعودي نے نقل کیا ہے كه امير المؤمنين عليه السلام کو کھینچتے ہوئے ابوبكر کے پاس لے کر گیا اور حضرت علي عليه السلام کیونکہ اپنی مٹھی کھول نہیں رہے تھے یہ سب جمع ہوئے اور آپ کی مٹھی کو کھولنا چاہا اور وہ سب کھول نہیں سکے لیکن ابوبکر آیا اور اپنا ہاتھ امیر المومنین علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کے عنوان سے پھیرا .
فروي عن عدي بن حاتم أنه قال : والله ، ما رحمت أحدا قط رحمتي علي بن أبي طالب عليه السلام حين اتي به ملببا بثوبه يقودونه إلي أبي بكر وقالوا : بايع ، قال : فإن لم أفعل ؟ قالوا : نضرب الذي فيه عيناك ، قال : فرفع رأسه إلي السماء ، وقال : اللهم إني اشهدك أنهم أتوا أن يقتلوني فإني عبد الله وأخو رسول الله ، فقالوا له : مد يدك فبايع فأبي عليهم فمدوا يده كرها ، فقبض علي أنامله فراموا بأجمعهم فتحها فلم يقدروا ، فمسح عليها أبو بكر وهي مضمومة ... .
إثبات الوصية للمسعودي: 146، الشافي : 3 / 244 ، علم اليقين : 2 / 386 - 388 . بيت الأحزان للمحدث القمي: 118، الأسرار الفاطميّة للشيخ محمد فاضل المسعودي: 122، علم اليقين للكاشاني: 686، المقصد الثالث ، الهجوم علي بيت فاطمة (ع) لعبد الزهراء مهدي: 136، 343 .
شیعہ نظریہ کے مطابق ایک لحظہ کے لئے بھی آپ نے خلفاء کی بیعت نہیں کی۔جیساکہ شيخ مفيد نے كتاب الفصول المختاره ، ص56 پر فرمایا ہے :
قد اجمعت الأمّة علي أن أمير الموءمنين عليه السلام تأخّر عن بيعة أبي بكر ... والمحققّون من أهل الإمامة يقولون: لم يبايع ساعة قطّ .
امت کا اجماع یہ ہے کہ امير المؤمنين عليه السلام نے چھے مہیہ تک بیعت نہیں کی . اب اھل ست والے کہتے ہیں کہ اس کے بعد آپ نے بیعت کی . لیکن شیعہ محققوں کا نظریہ یہ ہے کہ آپ نے ایک لحظہ کے لئے بھی خلفاء کی بیعت نہی کی .
لہذا ، پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی قسم کی بیعت نہیں ہوئی ہے اگر بیعت کی بھی ہو تو یہ اختیاری نہیں تھی بلکہ اجباری اور اکراہی بیعت تھی ۔
التماس دعا