کیا اللہ نے اصحاب سے ہمیشہ راضی رہنے کا اعلان کیا ہے ؟ مطالب کی فہرست شبہے کی وضاحت: تحقیقی جواب : عمر بن الخطاب کو رسول خدا (ص) کی نبوت میں شک تھا: اللہ کی رضایت محدود اور مشروط ہے: بیعت کرنے والوں میں سے بعض کے بدعت گزار ہونے کا اعتراف بیعت کرنے والوں میں عثمان کے قتل بھی تھے۔ بیعت کرنے والوں میں جناب عمار یاسر کا قاتل بھی ہے ۔ جنگ سے فرار نہ کرنے کا عہد وپیمان : رضایت صفات فعلی میں سے ہے : نتیجہ
|
کیا بیعت رضوان کے دن اللہ كی رضایت کا اعلان ہمیشہ اور ابدی رضایت ہے؟ «بيعت رضوان» والی آیت اور اللہ کا خلیفہ دوم سے ہمیشہ کے لئے راضی ہونے کے دعوے کی تحقیق |
شیعہ سنی علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جناب عمر بن خطاب بیعت رضوان میں شریک افراد میں سے تھا اور انہیں لوگوں کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ ما في قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكينَةَ عَلَيْهِمْ وَ أَثابَهُمْ فَتْحاً قَريباً { الفتح: 18} یقینا خدا صاحبانِ ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلوں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انہیں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی ۔ یہ آیت واضح طور پر حضرت زہرا کا خلیفہ دوم سے ناراض ہونے اور خلیفہ کی طرف سے انہیں تکلیف پہنچانے کے دعوا کو رد کرتی ہے ۔کیونکہ صحیح سند حدیث کی رو سے جناب زہراء سلام اللہ علیہا اگر کسی سے ناراض ہو تو اس پر اللہ بھی ناراض ہوگا۔ لیکن مذکورہ آیت میں جناب عمر بن خطاب پر اللہ کی رضایت کا اعلان ہوا ہے لہذا اللہ جناب عمر پر ناراض نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ کسی بھی صورت میں جناب زہرا (س)کو تکلیف نہیں پہنچائی ہے کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ خلیفہ سے ناراض ہو جبکہ آیت کہہ رہی ہے کہ اللہ خلیفہ سے راضی ہے ۔ یقینی طور پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اللہ گزشتہ ،حال اور آئندہ سب پر علم رکھتا۔ لہذا یہ ممکن نہیں کہ اللہ ایسے پر راضی ہو جس کے بارے میں اللہ جاننتا ہے کہ یہ آئندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی کو تکلیف پہنچائے گا ۔
اس میں شک نہیں ہے کہ اللہ نے صلح حدیبیہ کے دن بیعت کرنے والوں پر اپنی رضایت کا اعلان کیا ہے اور خلیفہ دوم بھی اس وقت وہاں تھا۔ لیکن اہل سنت اگر اس آیت کو بہانہ بنا کر ایسے کاموں کا انکار کر دئے جو جناب خلیفہ نے بیعت کے بعد انجام دیا ہے ۔ تو اس صورت میں اہل سنت کو دو باتوں میں سے ایک کو قبول کرنا ہوگا۔
1. بیعت کرنے والوں پر اللہ کی رضایت دائمی اور ہمیشہ کے لئے ہے اور اگر آئندہ خلیفہ سے ایسے غلط اور نامناسب کام سرزد بھی ہوجائے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ 2. اللہ کی یہ رضایت تمام بیعت کرنے والوں کے لئے بھی ثابت ہے،حتی اگر بیعت کرنے والوں میں ایسے افراد بھی ہوں کہ جو بیعت رضوان کے وقت حقیقی ایمان سے محروم تھے اگر بیعت کرنے والوں میں منافق بھی ہو تو بھی یہ رضایت اس کے حق میں ثابت ہوگی{مثلا عبد الله بن أبي وغیرہ } انشاء اللہ ہم اس مقالے میں ان دو نکات کی تحقیق کریں گے ۔ اللہ کی یہ رضایت سارے بیعت کرنے والوں کے لئے نہیں ہے۔ اللہ کی یہ رضایت بیعت میں شامل صرف ان افراد کے لئے ہے جنہوں نے دلی ایمان کے ساتھ آپ کی بیعت کی ہوں ۔کیونکہ اللہ کی رضایت ایمان کے ساتھ مشروط ہے « رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ ». لہذا یہ شرط اگر نہ ہو تو رضایت بھی نہیں ہوگی۔ جیساکہ «المؤمنين» کا لفظ اسی مطلب کو بیان کرتا ہے کہ اللہ صرف حقیقی ایمان والوں سے ہی راضی ہے کیونکہ اگر ایمان واقعی کی شرط نہ ہوتی تو اللہ یہ فرماتا: « لقد رضي الله عن الذين يبايعونك... » دوسرے الفاظ میں، اس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ بیعت کرنے والے تمام مومنین سے راضی ہوا ہے۔ لیکن آیت اس چیز کو ثابت نہیں کرتی کہ بیعت کرنے والے سارے لوگ اہل ایمان تھے۔ اسی لئے « عَنِ الْمُؤْمِنِينَ » کے لفظ سے ہی عبد اللہ بن ابی جیسے منافقین اور ایسے لوگ خود بخود نکل جاتے ہیں جن کو اپنے ایمان میں شک تھا اور حقیقت میں بیعت ہی نہیں کی تھی۔ لہذ اللہ کی رضایت کا یہ اعلان مندرجہ ذیل تین گروہوں کو شامل نہیں ہے الف : منافقوں کو جو بیعت رضوان کے وقت حاضر تھے۔ ب : ان لوگوں کو جن کو اپنے ایمان میں شک تھا اور حقیقت میں بیعت ہی نہیں کی تھی۔ ج : ان مومنوں کو بھی شامل نہیں ہے جو بیعت کے وقت حاضر نہیں تھے۔ عمر بن الخطاب کو رسول خدا (ص) کی نبوت میں شک تھا: گذشتہ مطالب کی روشنی میں یہ آیت جناب عمر اور ایسے لوگوں کو شامل نہیں ہے جنہوں نے بیعت کے وقت یا بیعت کے بعد پیغمبر کی نبوت میں شک کی وجہ سے حقیقی ایمان کے ساتھ آپ کی بیعت نہیں کی ۔ جناب عمر کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت میں شک کا واقعہ اہل سنت کی بہت سی کتابوں میں ذکر ہے ۔ واقعے کا خلاصہ یہ ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خواب دیکھا کہ آپ اصحاب کے ساتھ اللہ کے گھر کے طواف میں مصروف ہیں۔آپ نے اس خواب کو اپنے اصحاب کے لئے بیان فرمایا۔ اصحاب نے اس خواب کی تعبیر کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: انشاء اللہ ہم مکہ میں داخل ہوں گے اور عمرہ کے اعمال انجام دیں گے ۔لیکن آپ نے اس کا وقت معین نہیں فرمایا کہ یہ واقعہ کب واقع ہوگا : سارے لوگ تیار ہوئے اور حدیبیہ کی طرف نکل پڑئے۔قریش کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے آنے اور آنے کے مقصد سے آگاہی ہوئی۔لہذا سارے مسلح ہوئے اور مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے نہیں دیا ۔ادھر سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیونکہ اللہ کے گھر کی زیارت کے ارادے سے آئے تھے اور جنگ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے ۔ لہذا قریش والوں کے ساتھ ایک صلح نامے پر دسخط کیا کہ جس کا مضمون یہ تھا کہ مسلمان اس سال واپس جائیں گے اور آئندہ سال بغیر کسی رکاوٹ کے عمرہ کے اعمال انجام دیں گے۔ لیکن یہ چیز جناب عمر بن الخطاب اور اس کے ہمفکر لوگوں پر گراں گزری۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت میں شک کیا اور نعوذ باللہ یہ خیال کرنے لگا کہ آپ نے جھوٹ بولا ہے ۔اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا اور سخت لہجے میں آپ سے بات کی اور آپ پر اعتراض کیا ۔ حدیبیہ میں پيامبر اكرم (ص) پر اعتراض : بخاری نے اس واقعے کو اس طرح نقل کیا ہے: عن أَبي وَائِل، قَالَ كُنَّا بِصِفِّينَ فَقَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْف فَقَالَ:أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ فَإِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَلَوْ نَرَي قِتَالاً لَقَاتَلْنَا، فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَسْنَا عَلَي الْحَقِّ وَهُمْ عَلَي الْبَاطِلِ فَقَالَ: بَلَي. فَقَالَ أَلَيْسَ قَتْلاَنَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلاَهُمْ فِي النَّارِ قَالَ: بَلَي. قَالَ فَعَلَي مَا نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا أَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَقَالَ: ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا ۔ فَانْطَلَقَ عُمَرُ إِلَي أَبِي بَكْر فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلي الله عليه و آلہ و سلم فَقَالَ إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ، وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا. فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ، فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه و آلہ وسلم عَلَي عُمَرَ إِلَي آخِرِهَا. فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَفَتْحٌ هُوَ قَالَ: نَعَمْ. سہل بن حنیف صفین کے روز (جب علی علیہ السلام اور معاویہ میں جنگ تھی) کھڑے ہوئے اور کہا: اے لوگو! اپنا قصور سمجھو۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھے جس دن حدیبیہ کی صلح ہوئی، اگر ہم لڑائی چاہتے تو ہم لڑتے۔ تو عمر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! کیا ہم سچے دین پر نہیں ہیں اور کافر جھوٹے دین پر نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و ا آلہ و سلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں۔“ پھر انہوں نے کہا، ہم میں جو مارے جائیں کیا وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔ اور ان میں جو مارے جائیں کیا وہ جہنم میں نہیں جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں۔ عمر بن خطاب نے کہا: پھر کیوں ہم اپنے دین پر دھبہ لگائیں اور لوٹ جائیں اور ابھی اللہ نے ہمارا اور ان کا فیصلہ نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”اے خطاب کے بیٹے! میں اللہ کا رسول ہوں مجھے اللہ کبھی تباہ نہیں کرے گا۔“ وہ ابوبکر کے پاس گیا اور ان سے کہا: اے ابوبکر! کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ ابو بکر نے کہا: کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: ہمارے مقتول جنت میں نہ جائیں گے اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟ ابوبکر نے کہا: کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: پھر کیوں ہم اپنے دین کا نقصان کریں اور لوٹ جائیں اور ابھی اللہ تعالیٰ نے ہمارا ان کا فیصلہ نہیں کیا ۔ ابو بکر نے کہا: اے خطاب کے بیٹے! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ ان کو کبھی تباہ نہیں کرے گا ۔اور پھر سورہ فتح نازل ہوا ») آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عمر کے لئے سورہ کو آخر تک تلاوت فرمایا ۔عمر نے کہا : یارسول اللہ! یہ صلح فتح ہے ہماری؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔ البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1162، ح3011، كتاب الجهاد والسير، بَاب إِثْمِ من عَاهَدَ ثُمَّ غَدَرَ، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407هـ - 1987م. النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم ج 3، ص 1411، ح 1785، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب صُلْحِ الْحُدَيْبِيَةِ في الْحُدَيْبِيَةِ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت. دوسری روایت میں اس طرح آیا ہے : فَرَجَعَ مُتَغَيِّظًا، فَلَمْ يَصْبِرْ حَتَّي جَاءَ أَبَا بَكْر فَقَالَ يَا أَبَا بَكْر أَلَسْنَا عَلَي الْحَقِّ... فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ. یہ سن کر عمر چلے اور غصہ کے مارے صبر نہ ہو سکا اور ابوبکر کے پاس آیا اور وہی سوال کیا ۔۔۔۔ پھر سورہ فتح نازل ہوا۔ البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1832، ح4563، كِتَاب التفسير، بَاب إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407هـ - 1987م. سوال یہ ہے کہ عمر نے کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات پر اعتماد نہیں کیا اور جب تک ابوبکر کے پاس جاکر ان کی بات نہ سنی اس وقت تک مطمئن نہیں ہوا؟ کیا خلیفہ دوم نے یہاں پر ذیل کی آیت کی مخالفت نہیں کی؟ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِن وَلاَ مُؤْمِنَة إِذَا قَضَي اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلا مُبِيناً. الأحزاب/36. اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا۔ جناب عمر کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت میں شک کرنا: عبد الرزاق صنعاني نے اپنی کتاب المصنف،میں طبري نے اپنی تفسير میں ، ابن حبان نے اپنی کتاب الصحیح میں، ذهبي نے تاريخ الإسلام میں ، ابن جوزي نے اپنی کتاب زاد المعاد اور ... نے اس واقعے کو اس طرح نقل کیا ہے: فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَا شَكَكْتُ مُنْذُ أَسْلَمْتُ إِلا يَوْمَئِذٍ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ (صلي الله عليه وسلم) فَقُلْتُ أَلَسْتَ رَسُولَ اللَّهِ حَقًّا قَالَ بَلَي قُلْتُ أَلَسْنَا عَلَي الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَي الْبَاطِلِ قَالَ بَلَي قُلْتُ فَلِمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا إِذَا قَالَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَسْتُ أَعْصِي رَبِّي وَهُوَ نَاصِرِيٌّ قُلْتُ أَوَ لَيْسَ كُنْتَ تُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِي الْبَيْتَ فَنَطُوفُ بِهِ قَالَ بَلَي فَخَبَّرْتُكَ أَنَّكَ تَأْتِيَهِ الْعَامَ قَالَ لا قَالَ فَإِنَّكَ تَأْتِيَهِ فَتَطُوفُ بِهِ.... عمر نے کہا : اللہ کی قسم جب سے اسلام قبول کیا ہے اس وقت سے سوای آج کے دن کے ،میں نے {نبوت} میں شک نہیں کیا ہے۔ اس شک کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا اور ان سے کہا :کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ایسا ہی ہے۔ میں نے کہا : پھر کیوں ہم اپنے دین پر دھبہ لگائیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:میں اللہ کا رسول ہوں، میں اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتا ہوں۔ اللہ میرا ناصر ہے ۔ پھر میں نے کہا : کیا آپ نے ہی یہ نہیں فرمایا تھا : کہ ہم عنقریب اللہ کے گھر میں داخل ہوں گے اور اس کی زیارت اور طوف کریں گے؟ آپ نے فرمایا: کیا میں نے یہ کہا تھا کہ یہ اس سال ہی یہ ہوگا؟ میں نے کہا : نہیں ۔ پھر آپ نے فرمایا: تم ضرور مکہ میں داخل ہوگا اور اللہ کے گھر کا طواف کرے گا۔ الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 5، ص 339، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ. الطبري، محمد بن جرير، جامع البيان عن تأويل آي القرآن، ج 26، ص 100، ناشر: دار الفكر، بيروت - 1405هـ التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم (متوفاي354 هـ)، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، ج 11، ص 224، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم التميمي البستي (متوفاي354، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993م الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 2، ص 371، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمري، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1407هـ - 1987م. ابن القيم الجوزيه، محمد بن أبي بكر أيوب الزرعي أبو عبد الله (متوفاي751هـ)، زاد المعاد في هدي خير العباد، ج 3، ص 295، تحقيق: شعيب الأرناؤوط - عبد القادر الأرناؤوط، ناشر: مؤسسة الرسالة - مكتبة المنار الإسلامية - بيروت - الكويت، الطبعة: الرابعة عشر، 1407هـ - 1986م ابن حبان نے آگے لکھا ہے : قال: عمر بن الخطاب رضوان اللّه عليه: فعملت في ذلك أعمالاً يعني في نقض الصحيفة. عمر نے کہا : میں نے اپنے نامہ اعمال اس عمل سے پاک کرنے کے لئے کچھ اعمال انجام دیے۔ رسول اكرم (ص) کے خلاف حرکت : جناب خلیفہ دوم رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم کی نبوت میں اس قدر شک و شبہہ کا شکار ہوا تھا کہ بعض اہل سنت کے علماء کے نقل کے مطابق ،عمر اسلامی لشکر سے نکلنا اور ان کے خلاف جنگ کرنا چاہتا تھا . محمد بن عمر واقدي نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے : ... فكان ابن عباس رضي اللّه عنه يقول: قال لي في خلافته ]يعني عمر[ وذكر القضية: إرتبت ارتياباً لم أرتبه منذ أسلمت إلا يومئذ، ولو وجدت ذاك اليوم شيعة تخرج عنهم رغبة عن القضية لخرجت... والله لقد دخلني يومئذٍ من الشك حتي قلت في نفسي: لو كنا مائة رجلٍ علي مثل رأيي ما دخلنا فيه أبداً!. ابن عباس کہتا ہے کہ : عمر بن خطاب نے اپنی خلافت کے ایام میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا :اس دن رسول اللہ (ص)کی نبوت میں اس حد تک شک کیا کہ میرے اسلام لانے کے بعد کبھی ایسا شک نہیں کیا تھا۔اگر اس دن ایسے افراد مل جاتے جو میری اطاعت کرتے اور آزادانہ اس معاہدے سے خارج ہوتے تو میں بھی خارج ہوتا ۔اللہ کی قسم اس دن رسول اللہ (ص)کی نبوت میں اتنا شک کیا کہ میں اپنے آپ سے کہتا تھا : اگر سو افراد بھی میرے ساتھ ہوتے تو میں اس معاہدے سے نکل جاتا۔ اور اس کو قبول نہیں کرتا۔ الواقدي، أبو عبد الله محمد بن عمر بن واقد (متوفاي207 هـ)، كتاب المغازي، ج 2، ص 94، تحقيق: محمد عبد القادر أحمد عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1424 هـ - 2004 م. اب ہم یہ سوال کرسکتے ہیں : کیا رسول اللہ(ص) کی نبوت پر قلبی ایمان نہ ہونا اور اس میں شک کرنا ، اس شک کرنے والے انسان پر اللہ کی رضایت کے ساتھ قابل جمع ہے؟ پيامبر (ص) کی نبوت میں شک کا کفارہ: یہ بات یقینی ہے کہ خليفه دوم نے حدیبیہ کے دن رسول خدا صلي الله عليه وآله کی نبوت میں شک کیا ،یہاں تک کہ خود خلیفہ اپنی خلافت کے دوران اس واقعے کو یاد کرتا تھا اور اس شک کے کفارے کے طور پر کئی دفعہ صدقہ دینے کا اعلان کرتا تھا ۔ احمد حنبل نے اپنی مسند میں صحیح سند اور ترمذي نے نوادر الأصول میں اور ابن كثير نے اپنی تفسیر میں اس طرح لکھا ہے: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ يَسَارٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ قَالا... ثُمَّ قال عُمَرُ ما زِلْتُ أَصُومُ وَأَتَصَدَّقُ وَأُصَلِّي واعتق مِنَ الذي صَنَعْتُ مَخَافَةَ كلامي الذي تَكَلَّمْتُ بِهِ يَوْمَئِذٍ حتي رَجَوْتُ ان يَكُونَ خَيْراً.... مسور بن مخرمه اور مروان بن حكم سے نقل ہوا ہے کہ وہ دونوں کہتے تھے:۔۔۔۔عمر نے کہا : اس دن جو بات کی تھی اس کے خوف سے میں نے اتنا روزہ رکھا ، صدقہ دیا اور غلام آزاد کیا کہ اب مجھے امید ہے کہ وہ گناہ اچھائی اور نیکی میں بدل گیا ہے ۔ الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 4، ص 325، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر. الطبري، محمد بن جرير (متوفاي 310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 122، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت. الترمذي، محمد بن علي بن الحسن أبو عبد الله الحكيم (متوفاي360هـ)، نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلي الله عليه وسلم، ج 1، ص 319، تحقيق: عبد الرحمن عميرة، ناشر: دار الجيل - بيروت - 1992م. القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، تفسير القرآن العظيم، ج 4، ص 197، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1401هـ. القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ) السيرة النبوية، ج 3، ص 320. الدهلوي، الإمام أحمد المعروف بشاه ولي الله ابن عبد الرحيم (متوفاي1176هـ)، حجة الله البالغة، ج 1، ص 629، : تحقيق: سيد سابق، ناشر: دار الكتب الحديثة - مكتبة المثني - القاهرة - بغداد. ابن حجر عسقلاني نے فتح الباري میں لکھا ہے: لقد أعتقت بسبب ذلك رقابا وصمت دهرا. عمر نے کہا : اس دن نبوت میں شک کی وجہ سے میں نے بہت سے غلام کو آزاد کیا اور مسلسل روزے رکھے. العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 5، ص 346، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت. العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 14، ص 14، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت. صالحي شامي لکھتا ہے : كما في الصحيح: واللّه ما شككت منذ اسلمت الا يومئذ، وجعل يردّ علي رسول اللّه، صلي اللّه عليه وسلم، الكلام فقال أبو عبيدة بن الجراح، رضي اللّه عنه،: الا تسمع يا ابن الخطاب رسول اللّه، صلي اللّه عليه وسلم، يقول ما يقول، تعوذ باللّه من الشيطان واتّهم رأيك، قال عمر: فجعلت أتعوّذ باللّه من الشيطان حياء فما أصابني شئ قطّ مثل ذلك اليوم وعملت بذلك أعمالاً، أي صالحة، لتكفر عني ما مضي من التوقف في امتثال الامر ابتداء كما عند ابن اسحاق وابن عمر الاسلمي. قال عمر:فما زلت اتصدق وأصوم وأصلّي وأعتق من الذي صنعت يومئذ مخافة كلامي الذي تكلّمت به حتي رجوت أن يكون خيراً. صحیح روایت میں ہے کہ عمر نے یہ کہا: اللہ کی قسم جب سے اسلام لایا اس وقت سے میں نے نبوت میں شک نہیں کیا مگر حدیبیہ کے دن۔ عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات کا جواب دینے لگا اس وقت أبو عبيدة بن الجراح نے کہا: اے خطاب کے بیٹے کیا سن نہیں رہے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا فرما رہے ہیں ؟ شیطان سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ مانگو اور اپنی راے میں شک کرو۔ عمر نے کہا: میں شیطان سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ اس دن سے زیادہ کوئی اور دن میرے اوپر سخت نہیں گذرا ۔ میں نے اس کام کے عوض میں بہت سے نیک اعمال انجام دِیے تاکہ اس دن کی شک کا کفارہ ہو سکے ۔۔۔۔ ابن اسحاق اور ابن عمر اسلمي نے بھی نقل کیا ہے: عمر نے کہا :میں ہمیشہ صدقہ دیتا، روزہ رکھتا، نمازیں پڑھتا اور غلام آزاد کرتا۔ یہ سب اس دن میں نے جو باتیں کی تھی ان کے برے اثرات کے خوف سے انجام دیا ۔ مجھے یہ امید تھی کہ اس دن کی غلطی کا کفارہ ممکن ہے اور اس کے برے آثرات ختم ہوں گے۔ الصالحي الشامي، محمد بن يوسف (متوفاي942هـ)، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد، ج 5، ص 53، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1414هـ. اللہ کی رضایت محدود اور مشروط ہے: « إِذْ يُبَايِعُونَكَ » میں موجود « اذ » لفظ ظرفيه کا معنی دیتا ہے، اور جب یہ ظرف کے معنی میں ہو تو آیت کا معنی یہ ہوگا" اللہ مومنوں سے اس دن {یعنی جس دن بیعت کی گئی}راضی ہوا۔ اب یہاں اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ اس بیعت کی وجہ سے ہمیشہ راضی ہوا ہو۔یقینی طور پر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس دن موجود لوگوں پر آئندہ بھی راضی ہی رہے گا ۔ لہذا یہ رضایت دائمی اور ہمیشہ کے لئے نہیں ہے ۔یہ آیت اس بات کی ضمانت نہ دیتی کہ اس دن موجود سب لوگوں کی عاقبت خیر ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ آیت یہی بتاتی ہے کہ اللہ ان افراد سے بیعت کے وقت راضی ہوا اور رضایت کی وجہ بھی اس دن کیا ہوا عہد و پیمان تھا۔ اللہ کی یہ رضایت اس وقت تک ہے کہ جب تک عہد و پیمان پر باقی رہے۔ اللہ کی یہ رضایت اس وقت تک باقی ہے کہ جب تک اس کی علت{بیعت اور عہد وپیمان }باقی رہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ آئے۔ کیونکہ اللہ کی رضایت بیعت کرنے والوں سے اس کی علت کی وجہ سے ہے۔جب تک علت ہو اس وقت تک معلول بھی باقی رہے گا۔ کیونکہ معلول کا وجود علت کے وجود کی وجہ سے ہے۔ دوسرے الفاظ میں :ان لوگوں سے اللہ کی رضایت صرف اس کام کی وجہ سے ہے جو اس وقت لوگ انجام دیتے ۔ کام کے بغیر خود شخص پر اللہ راضی نہیں ہوگا۔ لہذا اللہ کی رضایت اس وقت تک اس کے ساتھ ہے جب تک وہ کام باقی ہو لیکن جب وہ کام کسی گناہ کی وجہ سے تباہ ہوجائے تو پھر اللہ کی رضایت بھی باقی نہیں رہے گی۔ مذکورہ مطلب پر بہترین دلیل یہ والی آیت ہے: إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَليَ نَفْسِهِ وَ مَنْ أَوْفيَ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا. الفتح / 10. بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ ہی کا ہاتھ ہے اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کرتا ہے اور جو عہد الٰہٰی کو پورا کرتا ہے خدا عنقریب اسی کو اجر عظیم عطا کرے گا ۔ اللہ اس عہد و پیمان کا اجر و ثواب اسی کو دے گا جو اس پر قائم رہے ہو اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی ہو ۔ لہذا آیت میں موجود اللہ کی رضایت صرف اسی کو حاصل رہے گی کہ جس نے اس دن بیعت کی ہو اور زندگی کے آخری لمحات تک اس عہد کی وفاء کی ہو ۔کیونکہ اگر یہ رضایت دائمی ہی ہوتی تو اللہ کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی: " فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ "؟ کیا نعوذ باللہ اس جملے کو کہنا لغو اور بے ہودہ ہے ؟ یہی مطلب بہت سی احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے ۔ جیساکہ مالک بن انس نے "موطاء" میں اور ابن عبد البر نے "الاستذکار" میں اور ابن اثیر جزری نے "جامع الاصول" میں لکھا ہے: رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم نے احد کے شہداء سے خطاب میں یہ فرمایا:میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ لوگ میرے بھائی اور نیک لوگ تھے۔ ابوبکر نے کہا :کیا ہم بھی ان کے بھائی نہیں تھے؟ ہم بھی ان کی طرح مسلمان ہوئے اور ہم نے بھی ان کی طرح اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ہاں ایسا ہے ۔لیکن یہ معلوم نہیں کہ تم لوگ میرے بعد کیا کروگے{ اللہ کے دین کے ساتھ کیا کروگے} ابوبکر یہ سن کر رونے لگا۔ النمري القرطبي، أبو عمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفاي 463هـ)، الاستذكار الجامع لمذاهب فقهاء الأمصار، ج 5، ص 104، تحقيق: سالم محمد عطا - محمد علي معوض، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 2000م. الجزري، المبارك بن محمد ابن الأثير (متوفاي544هـ)، معجم جامع الأصول في أحاديث الرسول، ج 9، ص 510. یہ حدیث واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ جناب ابوبکر جیسے لوگوں کی عاقبت خیر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگ عمر کے آخری لمحات تک اپنے کیے عہد و پیمان پر باقی رہیں اور اسے نہ توڑئے اور ایسا کوئی کام انجام نہ دئے جس کی وجہ سے اللہ کی طرف سے حاصل کردہ رضایت اللہ کے غضب میں بدل جائے۔ اس حدیث میں واضح طور پر یہ کہا ہے کہ عاقبت بخیری کے لئے یہ شرط ہے کہ آئندہ اس بیعت کو نہ توڑے اور ایسا کام انجام نہ دِیے جس کی وجہ سے اللہ کی رضایت کی جگہ اللہ کا غضب لے لے۔ بیعت کرنے والوں میں سے بعض کے بدعت گزار ہونے کا اعتراف بیعت کرنے والوں میں سے بعض نے بدعتیں ایجاد کرنے کا اعتراف ہے اور اپنے اس کردار پر پشیمانی کا اظہار کیا ہے اور یہی اہل سنت کے نظرے پر خط بطلان کھینچنا ہے۔ کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ خود بیعت کرنے والے اس آیت سے اہل سنت کے نظریے کے خلاف کوئی اور نتیجہ لیتے تھے ۔لہذا بیعت کرنے والوں سے اللہ کی دائمی رضایت ایک غیر واقعی اور اصحاب کے دور کے بعد کی خود ساختہ تفسیر ہے ،خود اصحاب اس آیت کی اس طرح تفسیر نہیں کرتے تھے ۔ ذیل میں ہم اصحاب میں سے تین ایسے صحابی کے اعترافات کو ذکر کرتے ہیں کہ جو قطعی طور پر بیعت رضوان میں شامل تھے۔
امام بخاری نے اپنی کتاب الصحیح میں نقل کیا ہے ۔ عَنْ الْعَلاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَقِيتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقُلْتُ طُوبَي لَكَ صَحِبْتَ النَّبِيَّ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَايَعْتَهُ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي إِنَّكَ لا تَدْرِي مَا أَحْدَثْنَا بَعْدَهُ. علاء بن مسيب نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ براء بن عازب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اس سے کہا : آپ تو خوش نصیب ہو۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہے اور درخت کے نیچے آپ کی بیعت بھی کی ۔براء بن عازب نے جواب میں کہا : میرے بھائی کے فرزند! تمہیں معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ہم نے کیا بدعتیں ایجاد کی۔ البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1529، ح393، كِتَاب الْمَغَازِي، بَاب غَزْوَةِ الْحُدَيْبِيَةِ، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407هـ - 1987م. براء بن عازب بزرگ اصحاب میں سے ہیں ۔ان کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جو درخت کے نیچے بیعت کے وقت حاضر تھے وہ یہ گواہی بھی دیتا ہے کہ اس بیعت کے وقت حاضر افراد میں سے بعض نے رسول اللہ کے بعد بدعتیں ایجاد کی ہیں ۔ لہذا یہ اعتراف اس بات پر بہترین دلیل ہے کہ اللہ کی یہ رضایت دائمی اور ابدی نہیں ہے ۔
مقدسي نے ذخيرة الحفاظ میں اور ابن حجر عسقلاني نے الإصابة میں لکھا ہے : عن العلاء بن المسيب عن أبيه عن أبي سعيد قلنا له هنيئا لك برؤية رسول الله صلي الله عليه وسلم وصحبته قال إنك لا تدري ما أحدثنا بعده. علاء بن مسيب نے اپنے باپ سے، اس کے باپ نے ابوسعيد سے نقل کیا ہے کہ میں نے ابوسعید سے کہا : خوش نصیب ہو ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آپ نے دیکھا ہے اور آپ ان کے صحابی ہیں ۔ ابوسعيد نے جواب میں کہا : تہمیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ (ص) کے بعد ہم نے کیا کیا بدعتیں ایجاد کی ہیں ۔ العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 3، ص 79، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ - 1992م
جناب عائشه کا اعتراض : محمد بن سعد نے الطبقات الكبري میں اور ذهبي نے سير اعلام النبلاء میں لکھا ہے: عن قيس، قال: قالت عائشة... إني أحدثت بعد رسول الله صلي الله عليه وسلم حدثا، ادفنوني مع أزواجه. فدفنت بالبقيع رضي الله عنها. قيس نے جناب عايشه سے نقل کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے بعد بہت سی بدعتیں ایجاد کی ہیں ۔محھے ان کی ازواج کے ساتھ دفن کرئے ۔ اسی لئے انہیں بقیع میں دفن کیا گیا ۔ الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبري، ج 8، ص 74، ناشر: دار صادر - بيروت. الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 2، ص 193، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ. حاکم نیشاپوری نے بھی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه. یہ حدیث شیخین کی شرط کے مطابق صحیح سند ہے لیکن ان دونوں نے اس کو نقل نہیں کیا ہے۔ النيسابوري، محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم (متوفاي405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج 4، ص 7، تحقيق مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1411هـ - 1990م ابن أبي شيبه كوفي نے اپنی كتاب المصنف میں لکھا ہے : حدثنا أبو أُسَامَةَ حدثنا إسْمَاعِيلُ بن أبي خَالِدٍ عن قَيْسٍ قال قالت عَائِشَةُ لَمَّا حَضَرَتْهَا (متوفاي ادْفِنُونِي مع أَزْوَاجِ النبي صلي الله عليه وسلم فَإِنِّي كُنْت أُحْدِثُ بَعْدَهُ موت کا وقت جب نذدیک ہوا تو انہوں نے کہا :مجھے رسول اللہ (ص) کی ازواج کے ساتھ دفن کرئے۔ میں نے رسول اللہ (ص) کے بعد بہت سی بدعتیں انجام دی ہے۔ إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج3، ص34، ح 11857، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ. یہ روایت سند کے اعتبار سے ٹھیک ہے اس کے سارے راوی بخاری ،مسلم اور صحاح ستہ کے راوی ہیں. کیا اصحاب کے بدعت گزاری کے ان اعترافات کے بعد یقینی طور پر کہہ سکتا ہے کہ یہ آیہ تمام اصحاب کو شامل ہے اور اللہ کی طرف سے ان کے لئے دائمی رضایت کا اعلان ہوا ہے؟ بیعت کرنے والوں میں عثمان کے قتل بھی تھے۔ اہل سنت کی طرف سے اس آیت میں شامل تمام اصحاب پر اللہ کے ہمیشہ رضای ہونے کے نظریے کے بطلان پر ایک دلیل یہ ہے کہ انہیں بیعت کرنے والوں میں سے بعض جناب عثمان کے قاتلوں میں سے تھا۔ یقینی طور پر درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے بعض افراد کا جناب عثمان کے قتل میں بھی اہم کردار تھا جیسے : عبد الرحمن بن عديس، فروة بن عمرو انصاري، جبلة بن عمرو ساعدي، طلحة بن عبيد الله، عائشة بنت أبي بكر اور دوسرے بہت سے اصحاب۔۔۔۔ اب یہاں سوال اٹھاتا ہے کہ کیا اللہ کی دائمی رضایت جناب عثمان کے قتل میں شریک افراد کے لئے بھی ہے؟ اللہ کی رضایت عبد الرحمن بن عديس کے لئے بھی ہے کہ جو خلیفہ کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے اہم لیڈروں میں سے تھا ؟ اسی طرح جبلة بن عمرو ساعدي کہ جس نے جناب عثمان کے جنازے کو مسلمانوں کی قبرستان میں دفن ہوںے نہیں دیا ،کیا اللہ کی دائمی رضایت اس کو بھی شامل ہے ؟ ہم نے اسی مطلب کو دوسرے مقالے میں جس کا عنوان «آیت آيه السابقون الأولون کی تحقیق » ہے، میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔لہذا یہاں صرف ان میں سے ایک بندے کے بارے میں مختصر تحقیق پیش کرتے ہیں۔ صحابی عبد الرحمن بن عديس ان افراد میں ایک کہ جو بیعت رضوان میں بھی شریک تھا اور عثمان کے قتل میں بھی اس کا بنیادی کردار تھا۔ اور مصر سے آئے ہوئے افراد کا لیڈر تھا اور عثمان کے خلاف قیام کرنے والے افراد میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ ابن عبد البر نے الإستيعاب میں لکھا ہے: عبد الرحمن بن عديس البلوي مصري شهد الحديبية ذكر أسد ابن موسي عن ابن لهيعة عن يزيد بن أبي حبيب قال كان عبد الرحمن بن عديس البلوي ممن بايع تحت الشجرة رسول الله صلي الله عليه وسلم قال أبو عمرهو كان الأمير علي الجيش القادمين من مصر إلي المدينة الذين حصروا عثمان وقتلوه. عبدالرحمن بن عديس وہ شخص تھا کہ جس نے درخت کے نیچے آنحضرت کی بیعت کی لیکن یہ اس گروہ کا ایک اہم لیڈر تھا کہ جنہوں نے جناب عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا اور انہیں قتل کردیا ۔ إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 2، ص 840، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولي، 1412هـ. ابن أثير نے أسد الغابة في معرفة الصحابة میں لکھا ہے : عَبْدُ الرَّحْمنِ بن عُدَيْس... له صحبة، وشهد بيعة الرضوان، وبايع فيها. وكان أمير الجيش القادمين من مصر لحصر عثمان ابن عفان، رضي الله عنه، لما قتلوه. عبد الرحمن بن عدیس صحابی تھا اور بیعت رضوان میں شریک تھا اور اس نے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیعت کی اور یہی جناب عثمان کے گھر کا محاصرہ کرنے مصر سے آئے لوگوں کا لیڈر تھا ۔ الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 3، ص 488، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1417 هـ - 1996 م. ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں بھی لکھا ہے: عبد الرحمن بن عديس البلوي أمير القادمين من مصر لقتل عثمان وكان ممن بايع النبي تحت الشجرة. عبد الرحمن بن عديس مصر سے عثمان کو قتل کرنے آئے افراد کا سردار تھا اور اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی ۔ الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ) الكامل في التاريخ، ج 3، ص 170، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ. ابن أبي شيبه نے المصنف میں اور عمرو بن ابوعاصم نے اپنی کتاب ، السنة میں ، بزار نے البحر الزخار میں اور ابن حجر عسقلاني نے المطالب العاليه ۔۔۔میں لکھا ہے ۔ عبد الرحمن بن عدي بلوي صلح حدیبیہ کے وقت رسول اللہ کی بیعت کرنے والوں میں سے تھا یہ ممبر پر گیا اور اللہ کی حمد و ثناء کے بعد عثمان کی بدگوئِ کی۔ إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 6، ص 364، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ. الشيباني، عمرو بن أبي عاصم الضحاك (متوفاي287هـ)، السنة، ج 2، ص 595، تحقيق: محمد ناصر الدين الألباني، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ. البزار، أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق (متوفاي292هـ)، البحر الزخار (مسند البزار )، ج 2، ص 93، تحقيق: د. محفوظ الرحمن زين الله، ناشر: مؤسسة علوم القرآن، مكتبة العلوم والحكم - بيروت، المدينة، الطبعة: الأولي، 1409هـ. العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية، ج 16، ص 23، تحقيق: د. سعد بن ناصر بن عبد العزيز الشتري، ناشر: دار العاصمة/ دار الغيث، الطبعة: الأولي، السعودية - 1419هـ. اب یہاں اہل سنت والے دو میں سے ایک نتیجے کو قبول کرئے۔ الف :۔ بیعت رضوان اور جناب عثمان کے قتل میں شریک اصحاب سے بھی اللہ نے ہمیشہ راضی رہنے کا اعلان کیا ہے ۔ان میں سے کسی کا جناب عثمان کے قاتلوں میں سے ہونے سے اللہ کی رضایت کے اس اعلان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ب :۔ صرف صلح حدیبیہ اور رسول اللہ ص کی بیعت کرنا اللہ کی دائمی رضایت کی حصول کے لئے کافی نہیں ہے۔ لہذا اہل سنت والے ان دو باتوں میں سے جس بات کو بھی قبول کرئے ہم بھی اسی کو مان لیں گے۔ بیعت کرنے والوں میں جناب عمار یاسر کا قاتل بھی ہے ۔ شیعہ اور اہل سنت کی معتبر کتابوں میں میں موجود متواتر روایات کے مطابق جناب عمار بن یاسر کے قاتل کا جہنمی ہونا یقینی امور میں سے ہے ۔ جیساکہ بخاری اپنی کتاب الصحیح میں لکھتا ہے:مدینہ میں مسجد کی تعمیر کے وقت دوسرے اصحاب ایک ایک اینٹ اٹھا رہے تھے لیکن دوسروں کے برخلاف جناب عمار یاسر دو دو اینٹیں اٹھاتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کے سر اور چہرے سے گرد و غبار صاف کیا اور پھر فرمایا: وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَي الْجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَي النَّار. عمار کو باغی گروہ قتل کرئے گا ،جبکہ عمار انہیں جنت کی طرف بلا رہے ہوں گے اور وہ لوگ انہیں جہنم کی طرف بلارہے ہوں گے. البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 1، ص172، ح436، كتاب الصلاة،بَاب التَّعَاوُنِ في بِنَاءِ الْمَسْجِدِ، و ج3، ص1035، ح 2657، الجهاد والسير، باب مَسْحِ الْغُبَارِ عَنِ النَّاسِ فِي السَّبِيلِ، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407هـ - 1987م. عجیب بات یہ ہے کہ جناب عمار بن یاسر کے قاتل ، ابوالغاديه نے خود ہی نقل کیا ہے : عمار کا قاتل جہنم کی آگ میں ہوگا۔ ذهبي نے ميزان الإعتدال میں اور ابن حجر عسقلاني نے لسان الميزان میں لکھا ہے؛ عن أبي الغادية سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول: قاتل عمار في النار وهذا شيء عجيب فإن عمارا قتله أبو الغادية ابوغاديه سے نقل ہوا ہے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:عمار کا قاتل جنہم کی آگ میں ہوگا ۔ یہ عجیب بات ہے کہ اسی ابوغادیہ نے خود ہی عمار یاسر کو شہید کیا۔ العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، لسان الميزان، ج 2، ص 204، تحقيق: دائرة المعرف النظامية - الهند، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1406هـ - 1986م. قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہی شخص بیعت رضوان میں شریک افراد میں سے تھا اور اسی نے رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔ ابن تيميه حراني لکھتا تھا : كان مع معاوية بعض السابقين الأولين وإن قاتل عمار بن ياسر هو أبو الغادية وكان ممن بايع تحت الشجرة وهم السابقون الأولون ذكر ذلك ابن حزم وغيره. شروع میں ہجرت کرنے والے افراد میں سے بعض بھی معاویہ کا ساتھ دے رہے تھے اور جناب عمار یاسر کا قاتل ابوالغاديه تھا اور وہ ان افراد میں سے تھا جنہوں نے درخت کے نیچے رسول اللہ کی بیعت کی تھی اور وہ سابقون الأولون میں سے تھا ۔جیساکہ اس مطلب کو ابن حزم اور دوسروں نے نقل کیا ہے. الحراني، أحمد بن عبد الحليم بن تيمية أبو العباس (متوفاي728هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 6، ص 333، تحقيق د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولي، 1406هـ. ابن اثير ،اسد الغابه میں لکھتا ہے : أبو الغادية، الجهني بايع النبي.... ابو الغاديه ان افراد میں سے ہے جنہوں نے رسول اللہ کی بیعت کی۔ الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، اسد الغابة ج 6، ص 250، رقم: 6133، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1417 هـ - 1996 م. اب یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بیعت رضوان میں شریک سارے افراد ،ہمیشہ کے لئے گمراہی سے نجات ہافتہ ہیں اور اللہ ہمیشہ ان پر راضی ہے؟ کیونکہ صلح حدیبیہ سے پہلے والی جنگوں میں، جیسے جنگ احد میں بہت سے اصحاب میدان جنگ سے رسول اللہ )ص( کو تنہا چھوڑ گئے تھے ۔اسی لئے رسول اللہ )ص( نے حدیبیہ میں اصحاب سے یہ بیعت لی کہ وہ پھر کبھی بھی میدان جنگ سے نہیں بھاگیں گے ۔ مسلم نيشابوري نے اپنی کتاب الصحیح میں لکھا ہے: عن جَابِرٍ قال كنا يوم الْحُدَيْبِيَةِ أَلْفًا وأربعمائة فَبَايَعْنَاهُ وَعُمَرُ آخِذٌ بيده تَحْتَ الشَّجَرَةِ وَهِيَ سَمُرَةٌ وقال بَايَعْنَاهُ علي أَنْ لا نَفِرَّ ولم نُبَايِعْهُ علي الْمَوْتِ. جابر سے نقل ہوا ہے : حدیبیہ کے دن ہم ۱۴۰۰ نفر تھے ہم نے رسول اللہ )ص( کی بیعت کی، عمر اس دن درخت سَمُرَه کے نیچے ہاتھو کو بغل میں لیے کر کہہ رہا تھا: ہم نے رسول اللہ )ص( کی بیعت کی ہے کہ جنگ سے نہیں بھاگیں گے اور یہ بیعت نہیں کی ہے کہ ہم مر جائیں گے۔ النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 3، ص 1483، ح1856، بَاب اسْتِحْبَابِ مُبَايَعَةِ الْإِمَامِ الْجَيْشَ عِنْدَ إِرَادَةِ الْقِتَالِ وَبَيَانِ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ تَحْتَ الشَّجَرَةِ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت. بیعت کرنے والوں کا جنگ حنین کے دوران بھاگنا: اصحاب نے جنگ سے فرار نہ کرنے کا عہد و پیمان باندھا تھا۔بعض اصحاب نے یقینی طور پر اس عہد وپیمان کی پاسداری کی ہے لہذا آیت رضوان ان کو یقینا شامل ہے ؛ لیکن اسلامی تاریخ سے آشنائی رکھنے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ بیعت رضوان کے دن بیعت کرنے والوں میں سے بہت سارے اس عہد وپیمان کے ساتھ وفادار نہیں رہیں اور دوبارہ جنگ سے بھاگ گئے اور رسول اللہ )ص( کو تنہا چھوڑ گئے۔انہیں مورد میں سے ایک جنگ حنین کے وقت پیش آیا ،یہ لوگ اپنے عہد وپیمان کی پاسداری بھول گئے اور بھاگنے کو میدان جنگ میں ڈٹ کر رہنے پر ترجیح دی۔ اللہ نے جنگ حنین کے موقع پر بھاگ جانے والوں کے بارے میں فرمایا: وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئاً وَضاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِما رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرين . التوبه /25. بتحقیق بہت سے مقامات پر اللہ تمہاری مدد کر چکا ہے اور حنین کے دن بھی، جب تمہاری کثرت نے تمہیں غرور میں مبتلا کر دیا تھا مگر وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ جس وقت جو لوگ بھاگ رہے تھے رسول اللہ )ص( اس جملے «أَيْنَ أَصْحَابُ السَّمُرَةِ»{سمرہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والے کہاں ہیں؟} کے ذریعے انہیوں اپنے کیے ہوئے عہد و پیمان یاد دلا رہے تھے۔ جیساکہ مسلم نيشابوري نے لکھا ہے : قال عَبَّاسٌ شَهِدْتُ مع رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم يوم حُنَيْنٍ فَلَزِمْتُ أنا وأبو سُفْيَانَ بن الْحَارِثِ بن عبد الْمُطَّلِبِ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم فلم نُفَارِقْهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم علي بَغْلَةٍ له بَيْضَاءَ أَهْدَاهَا له فَرْوَةُ بن نُفَاثَةَ الْجُذَامِيُّ فلما الْتَقَي الْمُسْلِمُونَ وَالْكُفَّارُ وَلَّي الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِينَ فَطَفِقَ رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم يَرْكُضُ بَغْلَتَهُ قِبَلَ الْكُفَّارِ قال عَبَّاسٌ وأنا آخِذٌ بِلِجَامِ بَغْلَةِ رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم أَكُفُّهَا إِرَادَةَ أَنْ لَا تُسْرِعَ وأبو سُفْيَانَ آخِذٌ بِرِكَابِ رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم فقال رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم أَيْ عَبَّاسُ نَادِ أَصْحَابَ السَّمُرَةِ فقال عَبَّاسٌ وكان رَجُلًا صَيِّتًا فقلت بِأَعْلَي صَوْتِي أَيْنَ أَصْحَابُ السَّمُرَةِ قال فَوَاللَّهِ لَكَأَنَّ عَطْفَتَهُمْ حين سَمِعُوا صَوْتِي عَطْفَةُ الْبَقَرِ علي أَوْلَادِهَا فَقَالُوا يا لَبَّيْكَ يا لَبَّيْكَ.... عباس بن عبدالمطلب سے روایت ہے، میں حنی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ موجود تھا، تو میں اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچازاد بھائی) دونوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ لپٹے رہے اور جدا نہیں ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک سفید خچر پر سوار تھے جو فروہ بن نفاثہ جذامی نے آپ کو تحفہ دیا تھا جب مسلمانوں اور کافروں کا سامنا ہوا تو مسلمان پیٹھ موڑ کر بھاگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے خچر کو کافروں کی طرف جانے کے لئے ایڑ دے رہے تھے ۔ میں آپ کے خچر کی لگام پکڑا ہوا تھا اور اس کو تیز چلنے سے روک رہا تھا اور ابوسفیان رکاب تھاما ہوا تھا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:“ ”اے عباس! اصحاب سمرہ کو پکارو۔ اور عباس کی آواز نہایت بلند تھی۔ عباس کہتا ہے: میں نے بلند آواز سے پکارا کہاں ہیں اصحاب السمرہ؟ یہ سنتے ہی اللہ قسم کی وہ ایسے لوٹے جیسے گائے اپنے بچوں کے پاس چلی آتی ہے اور کہنے لگے حاضر ہیں، حاضر ہیں۔ النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 3، ص 1398، ح1775، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت. اب یہ سوال ہوسکتا ہے کہ کس طرح اللہ جنگ سے فرار کرنے والوں سے ہمیشہ راضی ہوسکتا ہے جبکہ قرآن میں آپ نے ارشاد فرمایا ہے : يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ زَحْفًا فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَار. وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئذٍ دُبُرَهُ إِلا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيزِّا إِليَ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَمَأْوَئهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ المَْصِير. الأنفال / 15 و 16. اے ایمان والو! جب میدان جنگ میں کافروں سے تمہارا سامنا ہو جائے تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔اور جس نے اس روز اپنی پیٹھ پھیری مگر یہ کہ جنگی چال کے طور پر ہو یا کسی فوجی دستے سے جا ملنے کے لیے تو(کوئی حرج نہیں ورنہ) وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گیا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔ بخاری نے رسول اللہ )ص( سے ایک حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق جنگ سے بھاگنے کو ہلاک کرنے والی چیز قرار دی ہے۔ عن أبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ... وَالتَّوَلِّي يوم الزَّحْفِ وَ.... ابوهريره نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے: کہ سات چیزیں جہنم میں جاننے اور جہنم میں ہمیشہ باقی رہنے کا سبب ہیں،ان میں سے ایک جنگ سے بھاگنا ہے ۔ البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1017، ح2615، كتاب الوصايا، ب 23، باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَي ( إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ و ج 6، ص 2515، ح6465، كتاب الحدود، ب 44، باب رَمْيِ الُْمحْصَنَاتِ، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407هـ - 1987م. شوكاني نے اسی حدیث کے ذیل میں کہا ہے : وقد ذَهَبَ جَمَاعَةٌ من أَهْلِ الْعِلْمِ إلَي أَنَّ الْفِرَارَ من مُوجِبَاتِ الْفِسْقِ. علماء کے ایک گروہ نے جنگ سے بھاگنے کو فسق کا سبب قرار دیا ہے۔ الشوكاني، محمد بن علي بن محمد (متوفاي 1255هـ) نيل الأوطار من أحاديث سيد الأخيار شرح منتقي الأخبار، ج 8، ص 78 - 80، ناشر: دار الجيل، بيروت - 1973. عمر ابن خطاب بھاگنے کی توجیہ کرتا تھا۔ توجہ طلب بات یہ ہے خلیفہ دوم کا نام بھی جنگ حنین کے دوران بھاگنے والوں میں دکھائی دیتا ہے۔جیساکہ بخاری نے نے نقل کیا ہے : عَنْ أَبِي مُحَمَّد، مَوْلَي أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رضي الله عنه قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم عَامَ حُنَيْن، فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَة ٌ، فَرَأَيْتُ رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِكِينَ عَلاَ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَاسْتَدَرْتُ حَتَّي أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ حَتَّي ضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ عَلَي حَبْلِ عَاتِقِهِ، فَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ، ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي، فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ مَا بَالُ النَّاسِ قَالَ أَمْرُ اللَّهِ، ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا.... ابوقتادہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ پھر جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو (ابتداء میں) اسلامی لشکر ہارنے لگا۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ مشرکین کے لشکر کا ایک شخص ایک مسلمان کے اوپر چڑھا ہوا ہے۔ اس لیے میں فوراً ہی گھوم پڑا اور اس کے پیچھے سے آ کر تلوار اس کی گردن پر ماری۔ اب وہ شخص مجھ پر ٹوٹ پڑا، اور مجھے اتنی زور سے دبایا کہ میری روح قبض ہونے کو تھی۔ آخر جب وہ مر گیا ، تب کہیں جا کر اس نے مجھے چھوڑا۔ اس کے بعد مجھے عمر بن خطاب ملے، تو میں نے ان سے پوچھا کہ مسلمان اب کس حالت میں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جو اللہ کا حکم تھا وہی ہوا۔ البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4 ص 58، ح3142، كتاب فرض الخمس، ب 18، باب مَنْ لَمْ يُخَمِّسِ الأَسْلاَبَ و ج 5 ص 100، كتاب المغازي، ب 54، باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَي ( وَيَوْمَ حُنَيْن...، ح 4321، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407هـ - 1987م. ہم نے خلفاء کے بھاگنے کو ایک مقالے میں « آيه محمد رسول الله...»کے عنوان سے مکمل طور پر تحقیق کی ہے لہذا یہاں تکرار نہیں کرتے ۔ بیعت کرنے والوں سے اللہ کی رضایت اس وقت دائمی ہوسکتی ہے کہ جب رضایت اللہ کی ذاتی صفات میں سے ہو لیکن صفات فعلی سے ہونے کی صورت میں ایسا نہیں ہوگا۔ اھل سنت کے بزرگ علماء نے اعتراف کیا ہے کہ رضایت اللہ کی فعلی صفات میں سے ہی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں :اللہ کی صفات کی دو قسم ہیں ،صفات ذات اور صفات فعل صفات فعل وہ صفات ہیں کہ جو ازلی اور ابدی ہیں ۔لیکن صفات فعل اس طرح نہیں ہیں ؛ ممكن ہے یہ صفات ایک زمان میں ہوں دوسرے زمان میں نہ ہوں ؛ فخر رازي اس سلسلے میں لکھتا ہے : والفرق بين هذين النوعين من الصفات وجوه. أحدها: أن صفات الذات أزلية، وصفات الفعل ليست كذلك. وثانيها: أن صفات الذات لا يمكن أن تصدق نقائضها في شيء من الأوقات، وصفات الفعل ليست كذلك. وثالثها: أن صفات الفعل أمور نسبية يعتبر في تحققها صدور الآثار عن الفاعل، وصفات الذات ليست كذلك. اللہ کی ان دو صفات ( ذات و فعل) میں کچھ فرق ہے: 1. صفات ذات اللہ کی دائمی اور ازلی صفات ہیں جبکہ صفات فعل ایسا نہیں ہیں؛ 2. اللہ کی نسبت سے صفات ذات،کی ضد اور نقیض سے اللہ متصف نہیں ہوسکتا {مثلا علم کے مقابلے میں جہالت}لیکن صفات فعل اس طرح نہیں 3. صفات فعل نسبي ہیں کہ کبھی اس صفت کے وجود میں آنے کے لئے فاعل سے کسی کام کا انجام پانا ضروری ہے لیکن صفات ذاتی اس طرح نہیں ہے {یہ دائمی اور ابدی ہیں۔ {لہذا ممکن ہے اللہ ایک دفعہ کسی کام کی وجہ سے راضی ہو لیکن اگر غلط کام انجام دے تو اللہ اسے سے ناراض ہو} الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفاي604هـ)، التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب، ج 4، ص 62، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1421هـ - 2000م. ابن حجر عسقلاني اس سلسلے میں لکھتا ہے: ومعني قوله ولا يرضي أي لا يشكره لهم ولا يثيبهم عليه فعلي هذا فهي صفة فعل. اللہ کے اس قول « ولا يرضي » کا معنی کسی کام کے انجام دینے کے بعد ان کی قدردانی نہ کرنا اور ثواب نہ دینا ہے۔لہذ یہ راضی ہونا یا نہ ہونا اللہ کی فعلی صفات میں سے ۔ العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 11، ص 404، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت. اللہ کی طرف رضا يا غضب کی نسبت کا معنی کسی حالت کا نفس پر حادث یا عارض ہونا نہیں ہے بلکہ ثواب اور اجر دینا ہے۔کیونکہ نفس پر ایک حالت کا طاری ہونا اور عارض ہونا اللہ کی نسبت سے ناممکن ہے ۔کیونکہ اس سے اللہ کا بھی حوادث کاشکار ہونا لازم آتا ہے ۔لہذا رضایت اور غضب فعلی صفات میں سے ہیں ، ذاتی صفات میں سے نہیں ہیں ۔ اور جب یہ فعلی صفات میں سے ہو تو دائمی نہیں ہوگی۔ اولاً: بیعت کرنے والوں کے لئے اللہ کی یہ رضایت قید وشرط کے بغیر نہیں ہے۔ یہ رضایت ایمان کی شرط کے ساتھ ہے۔لہذا جو لوگ اس وقت حقیقی ایمان سے محروم تھے یا رسول اللہ )ص( کی نبوت میں شک کرتے تھے وہ اس قانون اور اصول سے خود بخود باہر چلے جاتے ہیں۔کیونکہ یہ رضایت حقیقی ایمان رکھنے والوں کے لئے ہے ۔ ثانياً: بیعت کرنے والوں پر اللہ کی یہ رضایت اس چیز کے ساتھ مشروط ہے کہ لوگ حدیبیہ کے دن کیے اپنے عہد وپیمان کو فراموش نہ کرئے اور ہمیشہ اس عہد وپیمان کی پاسداری کرتے رہیں۔کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ممکن ہے اللہ کی یہ رضایت اللہ کے غضب اور ناراضگی میں بدل جائے۔ لہذا انہیں ایسا کام نہیں کرنا چاہئے کہ جس سے اللہ کی رضایت اللہ کے غضب میں بدل جائے ۔ ثالثا : اللہ کی رضایت فعلی صفات میں سے ہے ذاتی صفات میں سے نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممکن ہے اللہ ایک دفعہ کسی کام کی وجہ سے راضی ہو لیکن اگر غلط کام انجام دے تو اللہ اسے سے ناراض ہو مثلا بیعت کی وجہ سے راضی ہو اور پھر بعد میں ایک غلط کام انجام دینے کی وجہ سے ناراض ہو ۔ رابعا : اس آیت میں نہ اللہ نے اھل بیعت کو معصوم قرار دیا ہے نہ آئندہ زندگی میں کسی غلط کام انجام نہ دینے کی ضمانت دی ہے اور نہ ہی ہر صورت میں بھی مکمل رضایت مندی کا اعلان کیا ہے۔ التماس دعا ۔۔ ۔ شبھات کے جواب دینے والی ٹیم ۔۔۔ تحقیقاتی ادارہ حضرت ولی العصر علیہ السلام |